مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں
ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات -صحیح بخاری
سن لو! جو شخص محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد فوت ہو گئے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں مروی ہے کہ
لقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم
یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئے
انبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھی
ان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداء
بعض علماء اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں
قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں
امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں
( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔
اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے
دیکھئے
⇑ کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟
یہ روایت نماز کی اہمیت پر بصرہ میں گھڑی گئی اس کی سند کا راوی حجاج مجھول ہے جس کو بصرہ کا بتایا جاتا ہے اور اس سے نیچے ثابت البنانی بھی بصرہ کے ہیں
قبرستان میں نماز حرام ہے اور یہ فقہ میں موجود ہے تو اس میں پڑھی گئی نماز کیسے قبول ہو گی ایسی نماز شریعت میں حرام ہے اور طریقت میں عین دین ہے لہذا صوفی منش بیہقی کی پسندیدہ بنی
یہ دور تھا جب تصوف اور حدیث اپس میں مل رہے تھے اس کا روی مستلم بن سعید ہے اس کے لئے تہذیب الکمال میں ہے
وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.
اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا
یعنی مستلم ایک سادھو اور جوگی تھی سخت مشقتیں کرتے اور بصرہ کے جملہ محدثین ان کی روایات نقل کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کر رہے تھے
یہ لوگ مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کرتے ہیں
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے
ابن ماجہ 119) ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری الترغيب والترهيب لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح زرقانی ، سمہووی، ملاعلی قاری، شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔
عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ کا سماع ابو الدرداء سے نہیں ہے اور اس کو مرسل کہا جاتا ہے
راوی ثقہ ہوں لیکن ان کا سماع نہ ہو تو روایت ضعیف ہی ہوتی ہے یہ سادہ اصول علم حدیث کی تمام کتب میں ہےابن حجر خود تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں
زيد بن أيمن. روى عن عبادة بن نسي. وعنه سعيد بن أبي هلال وذكره ابن حبان في الثقات روى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم1. قلت رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل.
زید بن ایمن جو سے روایت کرتا ہے اور ان سے سعید بن ابی ہلال اس کا ذکر ابن حبان نے ثقات میں کیا ہے ابن ماجہ نے ان سے روایت کی ہے ایک حدیث جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود سے متعلق ہے میں کہتا ہوں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری کہتے ہیں زید بن ایمان اور وہ عبادہ سے مرسل ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
زيد بن أيمن [ق .
عن عبادة بن نسى.
عن أبي الدرداء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الانبياء، فنبي الله حى يرزق.
روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته
زید بن ایمان ان سے عبادہ کی روایت اور ان سے ابو درداء کی کہ رسول الله نے فرمایا کہ الله نے حرام کر دیا ہے زمیں پر کہ انبیاء کے جسموں کو کہئے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے ان سے اس کو فقط سعید نے روایت کیا ہے لیکن ابن حبان نے اپنے قاعدے کے مطابق اس کو ثقات میں شمار کر دیا ہے
ابن حبان پر تساہل کا زور تھا اس کی طرف الذھبی نے اشارہ دیا ہے
. البوصيري “مصباح الزجاجة” میں کہتے ہیں
هذا إسناد رجاله ثقات إلا أنه منقطع في موضعين: عبادة بن نسي روايته عن أبي الدرداء مرسلة؛
اس روایت کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں لیکن یہ دو مقام پر منقطع ہے عبادہ بن نسی کی ابو درداء سے روایت مرسل ہے
ابن کثیر تفسیر میں سوره الاحزاب پر بحث میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ نُسِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
یہ حدیث غریب ہے اس سند سے اس میں انقطاع ہے عبادہ اور ابی الدرداء کے درمیان کیونکہ انکی ملاقات نہ ہوئی
یہ اقوال بھی ہیں جو واضح کرتے ہیں روایت منقطع ہے
اسی سند سے تفسیر الطبری کی ایک اور روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثني عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ
ابو الدردا رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر کثرت سے جمعہ کے دن درود پڑھو کیونکہ یہ وہ دن ہے جو یوم مشہود ہے فرشتے دیکھتے ہیں
یہ روایت بھی مرسل ہے ضعیف ہے اور کیا فرشتے عام دنوں میں نہیں ریکارڈ کرتے
قائلین حیات النبی صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔
اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّة
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.
جو غیر مقلدین اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض وہابی علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہابی و سلفی علماء ابن تیمیہ کی تقلید میں سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ غیر مقلدین کے مطابق یہ گمراہی ہے
البانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیں
کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور
قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام. الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے سلام کا جواب دینے کے لئے اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پس جب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے
البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیں
بقول سراج اورنگ آبادی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
علم حدیث عقل سے عاری ہو تو یہ نتیجہ نکلتا ہے
المناوي المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں
يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً
المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل
زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں
المناوی نے امام سیوطی (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے
يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ
اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں
وہابی عالم ابی بطين کتاب رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين کہتے ہیں
الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم
حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاص نہیں
وہابی عالم ابی بطين کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس کہتے ہیں
جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے
یعنی ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہے
ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں
إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ
بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں
ان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي میں کہتے ہیں
يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار
نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا
ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات ہر ایک آن پر سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے
رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں
مفتی بن باز کہتے ہیں
https://binbaz.org.sa/fatwas/49/هل-الرسول-ﷺ-حي-في-قبره-ام-لا
قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت
اکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے
كتاب الدرر السنية في الأجوبة النجدية از عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں
ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،
اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو، بے شک وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے
خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیں
اس کتاب ج ١٢ ص ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں
ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره
کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں
لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیا
اس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں زندہ ہونے چاہییں
أصول الإيمان از المؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) تحقيق: باسم فيصل الجوابرة لناشر: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد – المملكة العربية السعودية الطبعة: الخامسة، 1420هـ میں ہے
والذي نعتقده أن مرتبَة نبينا محمد صَلَّى اللَّه عليه وسَلَّم أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه
ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مخلوق میں على الإطلاق سب سے اعلی ہے
اور وہ قبر میں زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ جو حیات شہداء سے بلند ہے اس پر قرآن میں نصوص ہیں پس جب وہ افضل ہیں جس میں کوئی شک نہیں تو بلاشبہ وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی سلام کہے
کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں
قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره
ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوں
یہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیں
وَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِ
مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پر
اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہے
یعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیں
ابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ کتاب قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے
فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبره
پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ، یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے
اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں
وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.
اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے
ابن تیمیہ کے مخالفین مثلا السبکی اپنی کتاب شفاء السقام میں آیت پیش کرتے ہیں
یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة
اے ایمان والوں اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز سے بلند نہ کرو
السبکی کے مطابق وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں زندہ ہیں
۔ ابوبکر الصدیق سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز کرنا جائز نہیں نہ زندگی میں نہ حالت میت میں اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہ خبردار رسول الله کو تکلیف نہ دو اور علی بن ابی طالب رضی الله عنہ نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے ایسا الحسینی نے روایت کیا اخبار مدینہ میں اور تمام دلیلیں ہیں کہ وہ رسول الله کو زندہ دیکھتے تھے
کتاب الدرة الثمينة في أخبار المدينة از محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے
أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.
اس کی سند منقطع ہے ایک سے زائد نے روایت کیا کون ہیں پتا نہیں ہے لہذا السبکی کی دونوں روایات ضعیف ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں
اصل میں یہ امت کا غلو ہے اور غم کی نفسیاتی کیفیت ہے کہ اپنے نبی کی وفات اس کو قبول نہیں ہو رہی ایسی کیفیت عمر رضی الله عنہ پر بھی چند گھنٹوں رہی لیکن زائل ہو گئی تھی
اب صورت حال یہ ہوئی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث ابن حجراور السبکی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث السخاوی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں نجدی مفتی ابا بطین
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز، محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی
رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں ابا بطین
رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ
یعنی ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ یا دور کی کوڑی کی شکل ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے نکل گئے
واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں
ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم
مکتبہ شاملہ دیکھیں
جناب مکتبہ شاملہ کا استعمال اور عربی ہر کسی کو نہیں آتی ، اور دوسری بات آپ نے اس ویب سائیٹ پر دعویٰ کیا ہے تو ثبوت بھی اسی سائیٹ پر اِن فتاویٰ کے سکین پیجز اَپ لوڈ کریں عربی متن اور ترجمہ کے ساتھ
اگر عربی نہیں اتی تو سیکھیں- سکین بھی عربی میں ہی ہو گا- آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ترجمہ درست ہے ؟
یہ کوئی مناظرہ کی ویب سائٹ نہیں اور نہ ہی ہم پیشہ ور مولوی ہیں
اخروی فلاح کے لئے آپ کو ایک بات سمجھائی گئی ہے اب اس پر مزید تحقیق آپ خود کریں
الله آپ کی مدد کرے گا ہمارا کام بات کو پہنچانا ہے
آپ اس ویب سائٹ سے ان کتب کو مفت حاصل کر سکتے ہیں
http://waqfeya.com
و السلام
Allah aap ko jizaiyay khair dayy. Ameen.
Aap nay scan pages laga kr dil khush kr diya. Agr ap koi nahin samajhta to hum kiya kr saktay haian.
Aik bat kehna chahta hoon keh agr aap new thread kay sath scan laga diya karaian to buhat acha ho ga..
سگین لگانے کے لیے کتاب ڈھونڈنے میں وقت لگتا ھے
آپ کو اگر کوئی خاص حواکہ دیکھنا ھو تو یہ کیا جا سکتا
ھر ھر حوالہ کا سکین ممکن نھیں کیونکہ بعض کتب انٹرنیٹ پر نھیں ھیں اور بعض اب بک نھیں رھیں
شکریہ
عبد الله بھائی
وعلیکم السلام
جی یہ تجویز زیر غور ہے اس میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں مثلا ویب سائٹ کا میگا بائٹ حجم وغیرہ پھر مضامین کا انتخاب وغیرہ
والسلام
Ap ye mante ho keAp s a wKi qabar mubarak wali jagaJanat ka tukra he?
kisi bhai nay yeh sawal kiya hai. please mujhay as ka jawab day daian.
قبر نبی جنت کا ٹکڑآ ہے کسی حدیث میں نہیں آیا یہ آیا ہے کہ جومیری قبر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کا ٹکڑآ ہے یعنی قبر کو جنت میں سے نکال کر بتایا گیا ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/%d8%b9%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af/
محترم برادر، السلام علیکم
حیات النبی ﷺ کے قائل حضرات، اس دلیل سے بھی کام لیتے ہیں
یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة)
اکابرین اہل سنت اور جمہور مفسرین کا اجماع ہے کہ دور وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز کرنا ناجائز نہیں۔ نہ وفات سے پہلے اور نہ ہی وفات کے بعد۔ لا یسنبغی رفع الصوت علی النبی اور حضرت عائشہ صدیقہ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہے خبردار لاتو ذو رسول اﷲﷺ اور حضور اکرم ﷺ کو اس آواز سے اذیت نہ دو۔ اور حضرت علی نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے۔ یا کہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم ﷺ کو اذیت نہ دے۔ وہذا مما یذل علی انہم کانو یرون انہ حی۔ ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے روضہ انور میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ ( شفاءالسقام ص173)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہوسکے تو اس پر بھی اپنا مختصر تبصرہ عنایت کردیں
سلام
بلاگ میں اضافہ کیا گیا ہے
جزاک اللہ خیرا برادر، ایک اسلامی فورم پر مجھے یہ بات بھی ملی۔ اگر ہوسکے تو اسکے بارے میں کچھ عرض کیجئے گا
امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے وبیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعیدؒ نے بیان کیا۔ وہ حجاجؒ سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون۔ ( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔
————————————————————————————-
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب ؒ نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ حضرت ابوالدراد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ قال قلت بعد الموت قل و بعد الموت ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزق فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔ (ابن ماجہ 119) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔
بلاگ میں اضافہ کیا گیا ہے
kuch log kehtay haian keh hazoor saw fout nahin hway bilkah wisal farma giyay haian.
yeh wafat aur wisal aur parda farma jana say kiya murad hai.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے لئے تین الفاظ اردو میں استمعال ہوتے ہیں
وفات
یہ لفظ قرآن میں ہے اور حدیث میں اس کو رسول الله کی موت کے لئے استمعال کیا گیا ہے
—–
وصال
عربی کا لفظ ہے یہ صوفیوں کی ایجاد ہے اس کا مطلب مل جانا جڑ جانا ہے مطلب روح نبوی رب سے مل گئی
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-en/وصل/
join
– put together, fasten, unite; connect by a line, etc; come together; be united, connected or continuous with
– connect by joints; fill up the joints of; trim the surface of; join, combine, unite
– to join (one thing to another)
———
پردہ کرنا
یہ اس مفھوم پر بولا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو موت نہیں آئی انہوں نے قبر میں جا کر مٹی کا پردہ پسند کر لیا گویا وہ ابھی بھی قبر میں زندہ ہیں اور حیات دائمی سے متصف ہیں رزق پاتے ہیں اور امہات المومنین ان پر پیش ہوتی ہیں
زرقآني المتوفی ١١٢٢ ھ نے کتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية ج ٨ ص ٣٥٨ میں اس عقیدہ کو پیش کیا
أحمد بن محمد القسطلاني کی کتاب المواھب تھی جس کی شرح زرقانی نے کی
————-
ونقل السبكي في طبقاته عن ابن فورك” “بضم فسكون” “أنه عليه السلام حي في قبره، رسول الله أبد الآباد” أي: في جميع الأزمنة، الصادق بما بعد موته إلى قيام الساعة، “على الحقيقة لا المجاز”، لحياته في قبره، يصلي فيه بأذان وإقامة. قال ابن عقيل الحنبلي: ويضاجع أزواجه ويستمتع بهن أكمل من الدنيا. وحلف ذلك، وهو ظاهر ولا مانع منه.
السبکی نے طبقات الشافعیہ میں ابن فورک سے نقل کیا .. کہ اپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں ابد الآباد تک کے لئے یعنی تمام زمانوں کے لئے الصادق سچے ہیں موت کے بعد سے قیامت تک ، حقیقی طور پر نہ کہ مجازی طور پر، یہ انکی قبر کی حیات ہے اس قبر میں نماز اقامت و اذان کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ابن عقیل حنبلی کہتے ہیں اور اپنی ازواج کے ساتھ لیٹتے ہیں اور دنیا سے زیادہ اکمل ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ حلف ہے جو ظاہر ہے اس میں کچھ مانع نہیں ہے
———-
یہ غلو کا عقیدہ ہے
کاش کہ آپ عربی عبارت سمجھتے۔۔غیر واحد میں کہاں سے انقطاع آیا جو آپ نے اسکے نیچھے بشان لگایا۔وہ کہتے ہیں مجھے کسے ایک نے یہ بات نہیں کہی۔۔بلکہ بہت سے استاذوں نے بیان کیا ہے۔۔جس میں عبد العزیز ہے
سوال کا شکریہ
میرا جملہ اپ سمجھ نہیں سکے- انقطاع الگ ہے- غیر واحد کون ہیں معلوم نہیں -یہ دو الگ باتیں ہیں
عبد العزيز بن أبي حازم المتوفی ١٨٤ ھ اور نوفل بن عمارة (مجہول) نے خبر دی کہ عائشہ رضی الله عنہا (المتوفی ٥٧ ھ یا ٥٣ ھ ) جب کیل لگانے کی آواز سنتیں
ایک شخص جو ١٨٤ میں مرا ہو وہ ام المومنین سے کس طرح سنے گا
اس لئے لکھا ہے سند منقطع ہے اور ساتھ ہی جو ایک سے زائد لوگ ہیں ان کا نام نہیں لیا گیا
یعنی یہ الگ باتیں ہیں
اول سند میں انقطاع ہے عائشہ رضی الله عنہا اور عبد العزیز کے درمیان کے راوی نہیں ہیں
دوم باقی ایک سے زائد کون ہیں ؟
سوم نوفل بن عمارہ مجہول ہے
———–
کتاب الدرة الثمينة في أخبار المدينة از محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے
أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها
ابھی اس سند میں اور مسائل بھی ہیں
زبیر بن بکار جس محمد سے روایت لے رہے ہیں وہ محمد بن الحسن بن زبالة ہے اس کو مُحَمد بْن الحسن بْن أَبِي الحسن بھی کہا جاتا ہے
ابن حجر ، أبو داود اس کو کذاب کہتے ہیں اور الدَّارَقُطْنِيّ ، النسائي ، الذھبی متروک کہتے ہیں
Abu hurira ka qol k Nabi s.a.w dunya se jalay gy… Iska mukammal refrence de
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ، فَدَعَوْهُ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ، وَقَالَ: «خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْيَا وَلَمْ يَشْبَعْ مِنْ خُبْزِ الشَّعِيرِ»
صحیح بخاری
5414
Assalamu Aleikum janab mera sawal hai makhtaba beirut k nuskho’n k hadees number Alag hoten hain or aj kal jo internetional numbering chal rahi hai alag hai ab humko koi beirut k nuskhe ki hadees number deta hai to hum pareshan ho jate hain humko hadees nahi milti hai .
Humko beirut k nuskho’n ki kitabo ka koi Aaps ya side bta den ya koi or tarika bataiye jisse humari pareshani door ho jae.
Allah Aapke ilm me izafa kare jazakAllahu khaira.
و علیکم السلام
میرے پاس
http://shamela.ws
مکتبہ شاملہ ہے
یہ سوفٹ ویر ہے
اس میں بہت سے نسخے ہیں
بسا اوقات مجھے بھی اسی قسم کی پریشانی ہوتی ہے کہ حوالہ والی نمبر پر حدیث کوئی اور نکلتی ہے
اس کا حل میں یہ کرتا ہوں کہ پھر روایت کے الفاظ سے اس کو ڈھونڈھا ہوں
یعنی عربی الفاظ سے جو میں اردو ترجمہ دیکھ کر اندازا لگاتا ہوں
اسی اندازے کو گوگل پر بھی سرچ کرتا ہوں
اکثر احادیث مل جاتی ہیں
الحمد للہ
بھائی مسند ابی یعلی کی روایت انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ۔حجاج بن ابي الاسود
المعروف بزق العسل بصري
انہوں نے روایت کی ہیں جابر بن زید سے ابی نصرہ سے اور ایک جماعت سے
یحیح بن معین کہتے ہیں ثقہ ہیں احمد کہتے ہیں رجل صالح۔۔۔بھائی اس کی تفصیل درکار ہے ۔۔۔راوی حجاج مجہول کس طرح ہے؟؟
لا تعداد شہزاد ہیں شہزاد خان بھی بہت ہیں کیسے ثابت ہو گیا کہ آپ نے یہ سوال مجھ سے کیا ہے یا کسی اور نے کیا ہے ؟
———-
کسی بھی سند میں یہ نام مکمل نہیں ہے صرف راوی نے نام حجاج لیا ہے
لوگوں کی آراء ہیں کہ کوئی
حجاج الاسود ہے
کوئی کہتا ہے حجاج بن الاسود ہے
کوئی کہتا ہے حجاج بن ابی زیاد ہے
حتما نام معلوم نہیں ہے
اس طرح حجاج بن الاسود کو الذھبی نے اور ابن حجر نے اپنی کتاب میں مجہول کہا ہے
اسی بنیاد پر ڈاکٹر عثمانی اور میں نے اس کو رد کیا ہے
————–
فرقہ پرست اس حوالے سے ایک ثقہ راوی کا نام لے کر اس روایت کو بچاتے ہیں لیکن کسی بھی سند میں نام میں ولدیت یا کنیت کا ذکر نہیں ہے
JazakAllah..”Allah ne zameen ko haraam krdia ky wo anbia ky jismou ko khaye”
Please is hadees ki authenticity kia hai, isko hamain maan na chahiye ya reject krna chahiye? kyunki boht sy loog is hadees ky maine akhaz krtay hain ky nabi saw qabar mai zinda hain. kindly provide a detailed description in light of Quran and Saheeh Hadees
انبیاء کے اجسام کا باقی رہنے کا عقیدہ
کے عنوان سے میری کتاب وفات النبی میں اس پر بحث ہے اور جن جن نے معلول قرار دیا ہے ان کی تحقیق موجود ہے
اور جنہوں نے تصحیح کی ہے ان کی آراء بھی موجود ہیں
اور اس سے نکلنے والے اشکالات پر بھی بحث ہے
اس روایت کے خلاف قرآن کا فیصلہ ہے کہ
و مَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ
ہم نے ان (انبیاء) کے ایسے جسم نہ بنائے جو کھاتے نہ ہوں اور نہ وہ ھمیشہ رہنے والے تھے
اس کے خلاف صحیح حدیث کا بھی فیصلہ ہے
ابن آدم کے جسم کی کوئی چیز نہیں جو مٹی نہ کھائے سوائے عجب الذنب کے
————-
لب لباب یہ ہے کہ قرن دوم میں اس روایت کی تصحیح کسی کی جانب سے نہیں ملتی بلکہ اس کا رد ملتا ہے
امام بخاری کہتے ہیں سند میں نام غلط ہے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم اصل نام تھا راوی کا لیکن حسین الجعفی نے نام بدل دیا یا غلطی کی نام میں اور عبد الرحمان بن یزید بن جابر بول دیا
سند میں اصلا عبد الرحمان بن یزید بن تمیم منکر الحدیث ہے اور عبد الرحمانبن یزید بن جابر ثقہ ہے
اسی دور کے امام ابو حاتم نے باقاعدہ اس روایت کو مکمل درج کر کے کہا ہے کہ یہ انبیاء کے جسم قبروں میں سلامت ایک روایت منکر ہے
عبد الرحمن قال سألت أبي عن عبد الرحمن بن يزيد بن تميم فقال: عنده مناكير، يقال هو الذي روى عنه أبو أسامة وحسين الجعفي وقالا (5) هو [ابن – 6] يزيد بن جابر وغلطا في نسبه، ويزيد بن تميم، أصح وهو ضعيف الحديث.
قال سألت أبا زرعة عن عبد الرحمن بن يزيد بن تميم فقال: ضعيف الحديث.
کتاب العلل میں ہے
وَأَمَّا حسينٌ الجُعْفي (1) : فَإِنَّهُ رَوَى عن عبد الرحمن بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَث (2) ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أوس، عن النبيِّ (ص) – فِي يَوْمِ الجُمُعة- أَنَّهُ قَالَ: أفْضَلُ الأَيَّامِ يَوْمُ الجُمُعَةِ؛ فِيهِ الصَّعْقَةُ، وفِيهِ النَّفْخَةُ، وفيهِ كَذَا. وَهُوَ حديثٌ منكرٌ، لا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ غيرَ (3) حُسَيْنٍ الجُعْفي
وأما عبدُالرحمن بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيم: فَهُوَ ضعيفُ الحديث
یہاں اس کو حدیث منکر کہا گیا ہے
————-
بخاری کے ہم عصر امام البزار بھی اس حدیث کو حدیث مع کلام منکر قرار دیتے ہیں
البزاز المتوفی ٢٩٢ ھ کتاب مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار میں اس روایت پر لکھتے ہیں
وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا اللَّفْظِ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا يَرْوِيهِ إِلَّا شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ، وَلَا نَعْلَمُ لَهُ طَرِيقًا غَيْرَ هَذَا الطَّرِيقِ عَنْ شَدَّادٍ، وَلَا رَوَاهُ إِلَّا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ وَيُقَالُ: إِنَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ هَذَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ، وَلَكِنْ أَخْطَأَ فِيهِ أَهْلُ الْكُوفَةِ أَبُو أُسَامَةَ وَالْحُسَيْنُ الْجُعْفِيُّ، عَلَى أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ لَا نَعْلَمُ رَوَى عَنْ أَبِي الْأَشْعَثَ، وَإِنَّمَا قَالُوا ذَلِكَ لِأَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ثِقَةٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ لَيِّنُ الْحَدِيثِ، فَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيهِ كَلَامٌ مُنْكَرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: هُوَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ تَمِيمٍ أَشْبَهُ
اور یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ کسی نے روایت نہیں کیے سوائے شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ کے اور اس سے حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ نے اور کہا ہے عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ اور یہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بن تمیم ہے لیکن یہ غلطی ہے اہل کوفہ أَبُو أُسَامَةَ اورَالْحُسَيْنُ الْجُعْفِيُّ کی … اور انہوں نے یہ اس لئے کیا کیونکہ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ثقه ہے اور عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ تمیم کمزور ہے اور اس حدیث میں منکر کلام ہے جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہے
———-
اس طرح یہ روایت رد ہوئی اور اس میں کلام منکر کئی قسم کا ہے
اول جسم باقی رہنا انبیاء کی نشانی ہے جبکہ انبیاء کا جسم اگر باقی رہ جائے تو حشر پر ان پر پہاڑ چلیں گے جو ظاہر ہے ان جسموں کے ساتھ اچھا نہ ہو گا
دوم اس میں بتایا گیا ہے کہ جسم پر عمل پیش ہوتا ہے اسی وجہ سے اس کو باقی رہنے دیا جائے گا جبکہ تمام مخلوق کا عمل رب تعالی پر پیش ہوتا ہے
سن ١٩٨٠ کی دہائی میں عثمانی صاحب نے ان میں سے چند اقوال کو کتاب ایمان خالص دوم میں درج کیا اور واضح کیا کہ تمام عمل اللہ پر پیش ہوتا ہے چاہے دورد و سلام ہو یا کوئی اور عمل
———–
کفار کا جسم بھی اللہ نے باقی رہنے دیا ہے – برفانی علاقوں میں ان کا جسم رہ جاتا ہے
فرعون کا باقی رکھا ہے
بلکہ مسند ابو یعلی کی حدیث میں ہے یوسف علیہ السلام کی قبر میں سے ان کی ہڈیاں نکالی گئیں
یہ روایت فرقوں کے عقائد کے خلاف تھی لہذا ان کے محدث البانی نے ایک منکر روایت کو صحیح قرار دیا کہ نبی جب عمر رسیدہ ہوئے تو فرمایا میرے لئے منبر بنا دو کہ وہ میری ہڈیوں کو اٹھائے – اس پر البانی ظالم کہتا ہے عرب اس دور میں ہڈی کو جسم مراد لیتے تھے
دوسری طرف توریت میں موجود ہی یوسف کی ہڈیاں نکالی گئیں اور عربی کی کسی لغت میں نہیں ملے گا کہ ہڈی اور جسم متبادل بولے جاتے ہوں – البانی نے ایک ضعیف سند کی روایت کو صرف اس روایت کی تصحیح کرنے کی غرض سے صحیح قرار دیا
یہ ان کی جہالت کا عالم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو رات کی نماز میں بغیر سہارے عبدا شکورا کی شکل بن کر نماز میں رهتے تھے وہ جوانوں سے بڑھ کر طاقت والے تھے ان پر کوئی بڑھاپے کے اثار نہیں تھے
لیکن فرقوں نے اس روایت کے دفاع میں وہ وہ گل کھلائے ہیں یہاں میں مکمل نہیں لکھ سکتا بہتر ہے آپ کتاب وفات النبی کا مطالعہ کریں
پھر کوئی اشکال ہو تو اس پر غور کریں گے
https://www.islamic-belief.net/literature/کتب-دکتور-ابو-شہریار/
السلام عليكم
جب اہل حدیثوں سے کہا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ نبیؐ درود سنتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں حیات فی القبر کا عقیدہ مشرکانہ ہے تو کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ سے غلطی نہیں ہوسکتی کیا اسی طرح سعودیہ والوں کے متعلق کہا جاتا ہے شیخ عبدالعزیز بن باز نے حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل میں ابوداؤد کی ضعیف روایت پر عقیدہ بنایا کہ نبی ہر درود پڑھا جاتا یے تو آپ کی روح لوٹائی جاتی ہے اور آپ درود سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں اس روایت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہمارا سعودیہ والوں سے اختلاف ہے اس مسئلے میں آپ کیا فرمائے گے؟؟؟
اہل حدیثوں کے عقائد پر بہت سے ورژن موجود ہیں
ان کا ایک گروپ کچھ کہتا ہے تو دوسرا کچھ کہتا ہے
ابو شہریار بھائی سمرۃ بن جندب رضی والی روایت پر مخالفین کی جانب سے یہ اعتراض اُٹھایا جاتا ہے ۔۔
اس بخاری کی حدیث کے مطابق اس رات کو جہاں تک آپ انسانوں کو آسمانوں میں دکھا رہے ہیں تو عین اسی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو زمینی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ہے
*مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ* (صحیح مسلم رقم 2375)
میرا موسی علیہ السلام پر گزر ہوا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے
اسی آپ کی پیش کردہ حدیث میں ابراھیم علیہ السلام،عیسی علیہ السلام اور عروہ بن مسعود ثقفی کی نماز پڑھنے کا بھی ذکر ہے(صحیح مسلم رقم 172)
لھذا آپ کا اس حدیث میں مذکور تمام معاملات کا زمین سے غیر متعلقہ باور کرانا خلاف حدیث ہے۔ اب اگر عذاب القبر کو آسمانی عذاب ماننے پر آپ کی یہی دلیل ہے تو اسی دلیل نے امت کو موسی علیہ السلام کی قبر میں نماز پڑھنے کا عقیدہ دیا ہے، نیز ابراھیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء سمیت عروہ بن مسعود ثقفی کی دنیا میں نماز پڑھنے کا نظریہ بھی اسی حدیث نے امت کو دیا ہے۔
یعنی اسی حدیثِ بخاری پر آپ عمل و عقیدہ بنائے تو عین اسلام اور ثواب ہے۔ کوئی غیر اس پر عمل یا نظریہ بنائے تو وہ آپ کے نزدیک کفر ہے۔
*کیوں ؟*
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَكُرِبْتُ كُرْبَةً مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ»، قَالَ: ” فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ، جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ – يَعْنِي نَفْسَهُ – فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ، فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ ”
مجھے انبیاء کی ایک جماعت دکھائی گئی جس میں موسی ابراھیم و عیسیٰ علیھما السلام تھے اور عیسیٰ کی شکل لوگوں میں عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ سے سب سے مشابہ تھی
یہ جماعت کہاں دیکھی اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے
صحیح بخاری میں ان سے ملنے کا آسمان پر ذکر ہے
پھر ایک مکمل دوسری روایت ہے
وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، ح وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، كِلَاهُمَا عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، ح وَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ» وَزَادَ فِي حَدِيثِ عِيسَى «مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي»
اس میں ذکر ہے کہ میں موسی پر سے گزرا تو وہ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے
یہ دو الگ روایات ہیں اور ان کی اسناد الگ الگ ہیں
اس پر بحث درکار ہے جو واقعہ معراج پر میری کتاب میں موجود ہے
ابن حبان کا کہنا ہے اس رات خاص صرف موسی کو زندہ کر دیا گیا
ابن حزم کا کہنا ہے کہ قبر کا مطلب یہاں آسمان میں مقام ہے
اس کا صحیح مطلب ہم کو کسی حدیث سے نہیں ملا محدثین کی شارحین کی آراء ہیں
یہ روایت میرے نزدیک صحیح نہیں ہے
اول فرشتے مکہ سے بیت المقدس لے کر جائیں تو راستے میں جزیرہ سینا نہیں اتا جہاں موسی اور ان کی قوم پھنس گئے تھے – اللہ تعالی نے ارض مقدس کو ان پر حرام کر دیا تھا
موسی بھی داخل نہ ہو سکے اور وہیں دشت تہیہ میں فوت ہو گئے
دوم امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ آخری عمر میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ اختلاط کا شکار تھے
لہذا وہ ان کی حدیث نہیں لیتے تھے
1)عرض یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف منہ کرکے جو احوال بیان کئے تھے یہ سب کے سب *لیلة اسری* کے احوال تھے،سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت امام احمد بن حنبل نے بالاختصار ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے
*رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رَجُلًا يَسْبَحُ فِي نَهَرٍ وَيُلْقَمُ الْحِجَارَةَ فَسَأَلْتُ مَا هَذَا فَقِيلَ لِي آكِلُ الرِّبَا* (مسند احمد رقم 20101،وسندہ حسن،وله شواھد)
میں نے معراج کی رات دیکھا کہ ایک شخص (خون کی)نہر میں تیر رہا تھا اور دوسرا شخص پتھر لے کر اس پر نگران کھڑا تھا،میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ(یہ)سود خور ہے۔
اس اختصار سے معلوم ہوا کہ بخاری کی حدیث میں مذکور تمام احوال شب معراج کو وقوع ہوئے تھے۔اب اس رات اور کیا کیا ہوا تھا ؟
کچھ بخاری کی زیر بحث حدیث میں بتایا گیا جو اپنی تخریج کے ساتھ مختلف اضافت بھی بیان کرتا ہے اور کچھ احوال سمرہ بن جندب رضی اللہ عنه کے علاوہ دیگر صحابہ نے بیان کئے ہیں۔
2)محترم نے انبیاء کی امامت سے متعلق دبے الفاظ میں ایک بے دلیل دعوی کیا ہے کہ
*یہ جماعت کہاں دیکھی گئی اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے*
*صحیح بخاری میں ان سے کا آسمان میں ذکر ہے*
*عرض ہے:* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم ) میں دیکھا ، قریش مجھ سے میرے(معراج والی) رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے ، انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کےبارے میں پوچھا جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں ، میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا
*فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي*
اس پر اللہ تعالیٰ نے اس ( بیت المقدس ) اٹھا کر میرے سامنے کر دیا میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا،وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے ، میں انہیں بتا دیتا ۔ اور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے
اور اسی بیت المقدس والی منظر میں آپ نے دیکھا کہ *فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ*
پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان (تمام انبیاء) کی امامت کی(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ذکر المسیح والمسیح الدجال)
اس حدیث سے مثل الشمس والقمر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس یعنی زمین پر عیسی علیہ السلام سمیت فوت شدہ انبیاء کی امامت کرائی تھی۔
*ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب نے بھی اس باجماعت نماز کو بیت المقدس میں تسلیم کیا ہے* (ایمان خالص دوسری قسط جدید ص:25)
معلوم ہوا کہ انبیاء کا دیدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں کیا تھا لھذا معترض کا اس زمینی امامت و زیارت(دیدار)سے انکار ایک تو اپنی نظم سے انحراف ہے اور دوسرا صحیح مسلم کی صحیح حدیث سے اعراض بھی ہے۔
3)محترم نے بلا ضرورت فرمایا ہے کہ
*یہ دو الگ روایات ہیں اس پر بحث درکار ہے جو واقعہ معراج پر ہماری کتاب میں موجود ہے*
*عرض ہے:* روایات الگ ہے یا نہیں لیکن استدلال شب معراج سے متفقہ ہے۔اگر شب معراج کے احوال کو آپ(مزعومہ) آسمانی عذاب قبر پر محمول کرتے ہیں تو اسی رات کے ان زمینی احوال کو کہاں فٹ کروگے ؟
نیز جیسا کہ ابتداء میں ہم نے ثابت کیا ہے کہ سمرہ بن جندب کی حدیث میں مذکور تمام احوال شب معراج کو وقوع ہوئے تھے لھذا جس رات کے احوال سے محترم عذاب القبر کو آسمانوں میں ثابت کرتے ہیں اس رات کے احوال سے عموم پر استدلال کو ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب نے *مشرکانہ استدلال* کہا ہے۔فرماتے ہیں
*افسوس کہ معراج کے ایک معجزہ کے ذریعہ قبر کی زندگی پر مشرکانہ استدلال کیا جاتا ہے حالانکہ معراج کی رات پوری کی پوری معجزہ کی رات ہے* (ایمان خالص دوسری قسط جدید ص:26،25)
معلوم ہوا کہ محترم شب معراج کے استدلال پر اپنی ہی نظم کے آئینے میں *مشرکانہ استدلال* کا مرتکب ہے۔
4)ابن حبان اور ابن حزم کا محترم نے خود رد کیا ہے لھذا اس پر ہمارے لئے تبصرہ ضروری نہیں رہا نیز صحیح مسلم کی حدیث کی صحت پر محترم کا اعتراض مردود ہے کیونکہ صحیحن کی تمام مرفوع احادیث پر امت کا اجماع ہے جس کی تفصیل اس گروپ میں ہم نے متعدد بار پیش کی ہے۔
5)انس ابن مالک پر محترم کے اختلاط کا الزام نری جہالت ہے اسلئے بلا شک و شبہہ کے مردود اور باطل ہی ہے
6) *ایک اضافی فائدہ*
محترم جہنم کے عذاب کو عذاب القبر باور کرتے ہیں حالانکہ بخاری کی حدیثِ سمرہ بن جندب میں میں جن جن لوگوں کے عذاب کا ذکر ہے وہ عذاب جہنم میں نہیں دیا جارہا تھا جس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے
*وَأَمَّا الرَّجُلُ الْكَرِيهُ الْمَرْآةِ الَّذِي عِنْدَ النَّارِ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ* (بخاری رقم 7047)
اور وہ شخص جو بدصورت ہے اور جہنم کی آگ بھڑکا رہا ہے اور اس کے چاروں طرف چل پھر رہا ہے وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی ہے
مذکورہ حدیث میں سود خور،قرآن پر عمل سے غافل شخص اور زناکاروں کو اس منشنڈ جہنم میں عذاب نہیں ہورہا تھا بلکہ کسی کو نہر میں عذاب ہورہا تھا،کسی کو نہر کے علاوہ ہورہا تھا اور کسی کو تنور میں عذاب ہورہا تھا جبکہ اس حدیث میں کسی کا جہنم میں عذاب ہونے کا ذکر نہیں جبکہ جہنم اور اس کے داروغے کا ذکر ہے، لھذا اس حدیث سے عذاب جہنم کو عذاب قبر باور کرانا حدیث کے متن کے خلاف ہے۔
7)میرے دونوں سوالات سے ابھی تک مسئول منحرف کیوں ہیں ۔
صحیح بخاری ٢٠٨٥ میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ وَعَلَى وَسَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ، فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ، فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ مَا هَذَا؟ فَقَالَ: الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُ الرِّبَا ”
مسند احمد ٢٠١٠١ میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رَجُلًا يَسْبَحُ فِي نَهَرٍ وَيُلْقَمُ الْحِجَارَةَ، فَسَأَلْتُ مَا هَذَا، فَقِيلَ لِي: آكِلُ الرِّبَا
ان دونوں کو ملا کر اخذ کر لیا گیا ہے کہ یہ معراج کی رات کا واقعہ ہے – یہ صریح غلطی ہے کیونکہ اس روایت کے مکمل متن میں موجود ہے کہ اس سے قبل فجر کی نماز کے وقت بات ہوئی کہ اسی نے خواب دیکھا اور رسول اللہ نیا اپنا خواب سنایا جس میں اس عذاب کا ذکر کیا اور بیان کیا کہ یہ سب خواب میں دیکھا
مکمل متن کے ساتھ صحیح بخاری میں موجود ہے اور یہی ڈاکٹر عثمانی نے پیش کی ہے
کتاب تهذيب الأسماء واللغات از النووی کے مطابق سمرہ چھوٹے تھے کہ والد کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ مدینہ لے آئیں. مزید یہ کہ مومنین پر عذاب کا علم دس ہجری میں دیا گیا لہذا یہ روایت دس ہجری کے بعد کی ہے
سمرہ مدینہ میں اس نماز میں موجود تھے جب اس خوابی معراج کا ذکر ہوا
مکہ میں معراج کوئی خواب نہیں تھا وہ حقیقی تھا
مسند احمد کے متن میں ہے
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي
میں نے سفر کی رات دیکھا جبکہ یہ سب خواب میں مدینہ میں دیکھا تھا
یہ متن غلط ہے – سمرہ سے اور راویوں نے بھی سنا ہے اور اس کو بغور دیکھا جائے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے
یہاں اسری سے مراد مکی معراج نہیں بلکہ مدینہ کے رات کا خواب ہے
صحیح بخاری میں ہے
وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي
میں نے انبیاء ع جماعت دیکھی جب موسی نماز قائم کر رہے تھے
اس میں ذکر نہیں ہے کہ کہاں جماعت دیکھی
یہ ایک کشف تھا جو ہو رہا تھا اور اس پر مشرکوں کو سوال نہیں تھا کہ بیت المقدس میں موسی تھے تو کس طرح تھے – وہ تو موسی کو مانتے ہی نہیں تھے
اصل سوال بیت المقدس کے حدود وغیرہ و شہر کے بار ے میں تھا
اس شہر کو دکھایا جا رہا تھا – جو جو مشرک شہر پر سوال کرتے اس کا جواب رسول اللہ دیتے – اس کے آخر میں راوی نے جو انبیاء کا ذکر کیا ہے وہ غیر متعلق ہے کیونکہ مشرک نبوت کے قائل ہی نہیں تھے
اصلا روایت کو ملا دیا گیا ہے
فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ
پھر نماز کا وقت ہوا تو نماز پڑھی
یہ مشکل ہے کیونکہ رسول اللہ رات کی نماز پڑھ کر سوتے تھے اور نماز کا وقت وہاں معراج میں کہیں نہیں ہوا
یہ متن درست نہیں حذیفہ کی حدیث صحیح ابن حبان میں موجود ہے کہ معراج میں بیت المقدس کو آسمان پر سے ہی دیکھا اترنا نہیں ہوا
موصوف نے کہا
اس حدیث سے مثل الشمس والقمر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس یعنی زمین پر عیسی علیہ السلام سمیت فوت شدہ انبیاء کی امامت کرائی تھی۔
کسی بھی روایت میں تمام انبیاء کا ذکر نہیں ہے
عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں ان کا نزول معراج پر ہی ہو گیا
یعنی معراج میں دو نبیوں کو ایک ساتھ ہوئی ایک عیسیٰ جو بقول ان کے دوسری بار جنت میں جسد عنصری کے ساتھ گئے
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک بار جنت میں جسد عنصری کے ساتھ گئے
عیسیٰ کا نزول تو قیامت میں ہے نہ کہ وہ معراج پر زمین پر آئے
یہ روایات تمام کی تمام صحیح نہیں ہیں ان کو بغور سمجھنا ضروری ہے
—–
موصوف نے کہا
ابن حبان اور ابن حزم کا محترم نے خود رد کیا ہے لھذا اس پر ہمارے لئے تبصرہ ضروری نہیں رہا
کیوں ؟ آپ کے نزدیک تو تمام علماء جو بھی کہتے وہ درست ہوتا ہے تو اس کو کیوں چھپا رکھا ہے
ابن حبان نے کہا کہ اگر رسول اللہ نے معراج کی رات موسی کو قبر میں دیکھا تو اس وقت اللہ نے ان کو زندہ کر دیا
یہ قول اہم ہے یعنی چوتھی صدی تک بعض محدث موسی کی قبر میں نماز کو محض ایک خاص واقعہ کہتے تھے
ان کے نزدیک یہ تمام انبیاء کے لئے نہیں تھا
———-
صحیحین کی صحت پر اجماع کا دعوی جب کیا جاتا ہے تو ایک ایک روایت پر نہیں کیا جاتا
البانی نے صحیح کی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے
یہ کیسا اجماع ہے
اس پر کوئی اجماع نہیں ہے اور متعدد کتب میں ان احادیث کا رد موجود ہے مثلا امام ابو حاتم کا موقف صحیح مسلم پر مشہور ہے کہ یہ کتاب جلد بازی میں مرتب کی گئی ہے
انس رضی اللہ عنہ پر اختلاط کا ذکر امام ابو حنیفہ نے کیا ہے – اور یہ کوئی الزام نہیں ہے – یہ بیماری ہے اور بشر کو بیماری سے مفر نہیں
—
امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ غیر فقیہ اصحاب رسول کی حدیث سے دلیل نہ لی جائے – ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اور تیسری جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی – اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
یہ سب فقہ کی کتب میں موجود ہے