محرم کی آمد ہے اور امت پر اس ماہ میں اصحاب رسول و صالحین پر شب و شتم جائز ہو جاتا ہے- علماء و ذاکرین دل کھول کر بھڑاس نکالتے ہیں – ان پیشہ وروں کی اصلاح تو نا ممکن ہے لیکن ہم نے حسب موقعہ محرم کی مناسبت سے اصحاب رسول اور ان کی اولاد کے لئے ایک چارج شیٹ تیار کی ہے تاکہ ہمارے قارئین ان مقدمات کو سمجھ سکیں
یہ لسٹ ہماری نہیں ہے غیر مقلدین کی ایک ویب سائٹ سے لی ہے – افسوس رافضیوں کو کیا کوسین – اہل سنن اور سلف کے متبع ہی اس میں اس قدر مشغول ہیں کہ کسی اور کا کیا شکوہ کریں
غیر مقلدین کی سرخ لسٹ دیکھتے ہیں اور اس پر ہم تبصرہ کریں گے
لسٹ ہے
اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل للالبانی
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
ہشتم: محرمات سے نکاح ہوا
نہم: یزید شرابی تھا
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا
اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ بن أسلم عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ. فَقَالَ: يا أَبَا سَعِيدٍ، قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ. فَقُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ. فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ”.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے اور سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا ، جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس پر میں [ابو سعید] نے کہا: اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے تو مروان نے کہا: ابو سعید جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا
ابو سعید نے جواب دیا: اللہ کی قسم جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں
مروان نے کہا: لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے نہیں تھے، اس لیے میں نے اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا
اس میں معاویہ رضی الله عنہ کا قصور کیا ہے اس دور میں کوئی ان کو ایس ایم ایس میسج بھیج کر بتا دیتا کہ مدینہ میں مروان نے ایسا کیا تو وہ اس کو روک دیتے اور کیا یہ خطبہ سننے سے بچنے کے لیے لوگ چلے گئے یہ کیا صحیح تھا ؟ اگر یہ لوگ عید کا خطبہ نہیں سننا چاہتے تھے تو یہ تو واجب نماز تھی – فرض جمعہ میں کیا ہوتا تھا اس پر کتب خاموش ہیں کون کون اس خطبہ جمعہ کو چھوڑتا تھا ؟
اسنادی نکات : روایت عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ المتوفی ٧٤ ھ کی سند سے ہے
محدثین کے مطابق یہ سماع صحیح ہے البتہ ثقات ابن حبان میں ہے
عِيَاض بْن عَبْد الله يروي عَن أَبِيه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ روى عَنهُ سَلمَة بْن كهيل وَلَيْسَ هَذَا بِابْن أبي سرح
عِيَاض بْن عَبْد الله جو اپنے باپ سے وہ ابو سعید سے روایت کرنا ہے وہ ابن ابی سرح نہیں ہے
مسئلہ یہ ہے کہ عِيَاض بْن عَبْد الله کا سماع ابو سعید سے اگر ہے تو مدینہ میں ہی دیگر اصحاب نبی مثلا جابر بن عبد الله سے کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ایک ہی دور کے مدنی اصحاب رسول ہیں دوسری طرف محدثین میں سے بعض نے کہا ہے یہ مکہ کے ہیں
وقال ابن يونس:عياض بن عبد الله بن سعد بن أبى سرح ولد بمكة، ثم قدم مصر، فكان مع أبيه، ثم خرج إلى مكة، فلم يزل بها حتى مات
ابن یونس نے کہا عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح مکہ میں پیدا ہوا پھر باپ کے ساتھ مصر گیا پھر مکہ لوٹا اور وہیں رکے یہاں تک کہ وفات ہوئی
جبکہ تاریخ الکبیر امام بخاری میں ہے يُعَدُّ فِي أهل المَدِينة ان کاشمار اہل مدینہ میں ہے – ثقات ابن حبان میں ہے عِدَادُهُ فِي أهل الْمَدِينَة ان کا شماراہل مدینہ میں ہے
راقم کو عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کی جابر رضی الله عنہ سے کوئی مسند روایت نہیں ملی
عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کا ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت کرنا اور جابر رضی الله عنہ سے روایت نہ کرنا عجیب بات ہے جبکہ جابر رضی الله عنہ کی وفات کہا جاتا ہے ٧٨ میں ہوئی ہے
—————
مصنف عبد الرزاق کی روایت 5644 ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کہتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ دینا عمر رضی الله عنہ نے شروع کیا جب دیکھا کہ لوگ کم ہونے لگے ہیں
یہی بات یوسف نے عثمان رضی الله عنہ کے لئے بھی بولی
اور امام الزہری کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس کو شروع کیا
معمر کہتے ہیں ان کو پہنچا کہ عثمان اپنی خلافت کے آخری دور میں ایسا کرتے تھے
ابن حجر فتح الباری ج ٢ ص ٤٥٠ میں لکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ عثمان بھی دیتے تھے
وَسَيَأْتِي فِي الْبَابِ الَّذِي بَعْدَهُ أَنَّ عُثْمَانَ فَعَلَ ذَلِكَ أَيْضًا لَكِنْ لِعِلَّةٍ أُخْرَى
اور آگے باب میں ہے کہ عثمان بھی ایسا کرتے تھے لیکن اس کی وجہ اور ہے
کتاب : كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق عید کی نماز سے پہلے خطبہ دینا
وقيل بل سبقه إليه عثمان؛ لأنه رأى ناسًا لم يدركوا الصلاة فصار يقدم الخطبة رواه ابن المنذر بإسناد صحيح إلى الحسن البصري
عثمان نے کیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز میں نہیں آ رہے پس خطبہ کو پہلے کیا اس کو ابن المنذر نے صحیح اسناد سے حسن بصری سے روایت کیا ہے
ابو مسعود عقبة بن عمرو بن ثعلبة رضی الله عنہ کی وفات ٣٩ یا ٤٠ ہجری میں ہوئی اور مصنف عبد الرزاق کی روایت 5648 ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: «خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ – أَوْ أَضْحَى – هُوَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي مَسْعُودٍ حَتَّى أَفْضَيْنَا إِلَى الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ الْكِنْدِيُّ قَدْ بَنَى لِمَرْوَانَ مِنْبَرًا مِنْ لَبِنٍ وَطِينٍ، فَعَدَلَ مَرْوَانُ إِلَى الْمِنْبَرِ حَتَّى حَاذَى بِهِ فَجَاذَبْتُهُ لِيَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ»، فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، فَقَالَ: كَلَّا وَرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا نَعْلَمُ ثُمَّ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ
عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْح کہتے ہیں کہ ابو سعید سے سنا کہ میں مروان کے ساتھ یوم فطر یا عید الاضحی پر نکلا اور میرے اور مروان کے درمیان ابی مسعود تھے یہاں تک کہ نماز کی جگہ پہنچے پس کثیر بن الصلت نے مروان کے لئے ایک منبر بنوایا ہوا تھا جس پر مروان چڑھا پھر اس پر سے نماز کے لئے اٹھا پس کہا اے ابو سعید چھوڑ دیا جس کو تم جانتے تھے اس پر ابو سعید نے کہا ہرگز نہیں مشارق و مغارب کے رب کی قسم تم اس خیر تک نہیں پہنچو گے جس کو ہم جانتے ہیں – پھر خطبہ شروع کیا
عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں
وَزَاد عبد الرَّزَّاق عَن دَاوُد ابْن قيس وَهُوَ بيني وَبَين أبي مَسْعُود، يَعْنِي: عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ
ابی مسعود سے مراد عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ ہیں
کثیر بن صلت کے لئے ابن سعد طبقات میں واقدی کے حوالے سے لکھتے ہیں
وَلَهُ دَارٌ بِالْمَدِينَةِ كَبِيرَةٌ فِي الْمُصَلَّى وَقِبْلَةُ الْمُصَلَّى فِي الْعِيدَيْنِ إِلَيْهَا.
ان کا ایک بڑا گھر مدینہ میں تھا مصلی کے ساتھ اور اس میں عیدیں کے لئے مصلی کا قبلہ تھا
یہ روایت المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) میں بھی ہے جہاں اس میں ابی مسعود صحابی کا ذکر ہے
سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی کہتے ہیں
قال المدائني وغيره: تُوُفيّ سنة أربعين. وقال خليفة تُوُفيّ قبل الأربعين وقال الواقدي: مات في آخر خلافة معاوية بالمدينة.
المدائني اور دیگر نے کہا کہ ان کی وفات ٤٠ ھ میں ہوئی اور خلیفہ نے کہا ٤٠ سے بھی پہلے اور واقدی نے کہا کہ معاویہ کی خلافت میں مدینہ میں
ابن حبان ، مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں
مات بالكوفة في خلافة على بن أبى طالب وكان عليها واليا له
ان کی وفات کوفہ میں علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوئی ان کی طرف سے وہاں کے والی تھے
الأعلام میں الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) کہتے ہیں ابی مسعود : ونزل الكوفة. وكان من أصحاب علي، فاستخلفه عليها لما سار إلى صفين (انظر عوف بن الحارث) وتوفي فيها کی وفات کوفہ میں ہوئی
جمہور محدثین و مورخین کے مطابق ابی مسعود رضی الله عنہ کی وفات دور علی میں کوفہ میں ہوئی
یعنی ابی مسعود تو کوفہ میں دور علی میں وفات پا گئے تو اب وہ مروان کا دور کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور معاویہ کا ہے ہی نہیں – یہ دور عثمان کا ہو گا جب مروان کو کسی بنا پر امیر مقرر کیا گیا ہو گا اور مروان اور ابی مسعود اور ابو سعید الخدری نے ساتھ نماز پڑھی
اگرچہ متاخرین شارحیین نے جمہور کا قول چھوڑ کر واقدی کے قول پر اعتماد کیا ہے اور دعوی کیا ہے ابی مسعود نے معاویہ کے دور میں وفات پائی
راقم کہتا ہے واقدی کا منفرد قول جمہور کے مقابلے پر شاذ ہے ابی مسعود کا انتقال دور علی میں ہوا
عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جمعہ کی نماز بازار میں ہوتی تھی کیونکہ لوگ زیادہ تھے – اسی طرح عید کی واجب نماز میں ابن منذر کے بقول انہوں نے خطبہ پہلے دیا کہ لوگ جمع ہو لیں
راقم کی رائے میں روایت میں ابی مسعود کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ دور معاویہ کا واقعہ ہے ہی نہیں
شیعہ عالم کتاب الدرجات الرفيعة- السيد علي ابن معصوم ، عقبة بن عمرو رضی الله عنہ پر کہتے ہیں
وقال أبو عمرو كان قد نزل الكوفة وسكنها واستخلفه على في خروجه إلى صفين. ومات سنة احدى أو اثنتين أو أربعين والله أعلم
ابو عمر نے کہا کہ یہ کوفہ آئے اور اس میں رکے اور علی نے ان کو صفین جاتے وقت امیر کوفہ کیا اور یہ سن ٤٢ یا ٤١ میں مرے
یعنی شیعوں اور سنیوں کے بقول عقبة بن عمرو رضی الله عنہ دور معاویہ سے پہلے دور حسن میں انتقال کر گئے تھے
تو پھر راقم کہتا ہے کھینچ تان کر کے اس روایت کو دور معاویہ تک کیسے لایا جا سکتا ہے؟
سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے
حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: “اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: عُثْمَانُ وَقَالُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، قَالَ: فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔
یعنی یہ خطبہ کو پہلے کرنے کا واقعہ عثمان رضی الله عنہ کی بیماری کی وجہ سے پیش آیا جس میں اپ حج پر نہ جا سکے اور اتنے بیمار ہوئے کہ وصیت تک کر دی- عقبة بن عمرو بن ثعلبة الخزرجي، أبو مسعود البدري کی وجہ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور عثمان کا ہے اور مدینہ کا ہے تو خطبہ عید دینا عثمان رضی الله عنہ کا کام ہے مروان کا نہیں ہے – مروان کا یہ کام کرنا بطور علت ہے جس کی وجہ نکسیر پھوٹنے کی بیماری ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی
مصنف عبد الرزاق میں ہے
ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
یوسف نے کہا جس نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کیا وہ عمر ہیں جب دیکھا کہ لوگ کم ہو گئے ہیں
تاریخ أبي زرعة الدمشقي میں ہے
حدثنا خلف بن هشام المقرئ قال: حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال: غدوت مع يوسف بن عبد الله بن سلام في يوم عيد، فقلت له: كيف كانت الصلاة على عهد عمر ؟ قال: كان يبدأ بالخطبة، قبل الصلاة ـ
يحيى بن سعيد نے کہا میں نے يوسف بن عبد الله بن سلام کے ساتھ عید کے دن پوچھا کہ عہد عمر میں عید کی نماز کیسی تھی ؟ کہا عمر بن خطاب خطبہ دیتے نماز عید سے پہلے
ان آثار کو محدثین نے غریب یعنی منفرد کہا ہے لیکن اس کو رد نہیں کیا کیونکہ سند میں کوئی ایسی علت نہیں کہ ان کو غیر صحیح قرار دیا جائے – معلوم ہوا کہ عموم یہ ہے کہ نماز پہلے پھر خطبہ دیا جاتا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو آگے پیچھے عمر رضی الله عنہ نے کیا ہے عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے
الأوسط از ابن المنذر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يُصَلُّونَ ثُمَّ يَخْطُبُونَ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ عُثْمَانَ رَأَى أَنَّهُمْ لَا يُدْرِكُونَ الصَّلَاةَ خَطَبَ ثُمَّ صَلَّى
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ابی بکر کے دور میں عمر کے دور میں عثمان کے دور میں نماز ہوتی پھر خطبہ لیکن جب لوگ زیادہ ہوئے دور عثمان میں تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز کو نہیں پاتے تو انہوں نے خطبہ کیا پھر نماز
یعنی لوگوں کو اتے اتے وقت لگتا اور نماز چھوٹ جاتی لہذا آسانی کی وجہ سے ہوا – بہر حال حسن بصری نے ان تمام ادوار کو نہیں دیکھا لہذا کسی نے ان کو خبر دی ہو گی اس کے برعکس یوسف نے ان ادوار کو دیکھا ہے
کتاب الام میں شافعی نے جو روایت دی وہ ہے
أخبرنا الرَّبِيعُ قال أخبرنا الشَّافِعِيُّ قال أخبرنا إبْرَاهِيمُ قال حدثني دَاوُد بن الْحُصَيْنِ عن عبد اللَّهِ بن يَزِيدَ الْخِطْمِيِّ أَنَّ النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَبْتَدِئُونَ بِالصَّلَاةِ قبل الْخُطْبَةِ حتى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فَقَدَّمَ الْخُطْبَةَ.
رسول الله، ابو بکر عمر اور عثمان سب نماز کے بعد خطبہ عید دیتے لیکن جب معاویہ آئے تو انہوں نے خطبہ پہلے کر دیا
راقم کہتا ہے اس کی سند میں إبراهيم بن أبي يحيى الأسلمي ہے جو متروك الحديث ہے
فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ عُثْمَانُ فَعَلَ ذَلِكَ أَحْيَانًا بِخِلَافِ مَرْوَانَ فَوَاظَبَ عَلَيْهِ فَلِذَلِكَ نُسِبَ إِلَيْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ مِثْلُ فِعْلِ عُثْمَانَ قَالَ عِيَاضٌ وَمَنْ تَبِعَهُ لَا يَصِحُّ عَنْهُ وَفِيمَا قَالُوهُ نَظَرٌ لِأَنَّ عَبْدَ الرَّزَّاقِ وبن أبي شيبَة روياه جَمِيعًا عَن بن عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَهَذَا إِسْنَاد صَحِيح
اور احتمال ہے اس طرح خطبہ پہلے کرنا عثمان رضی الله عنہ نے کبھی کبھی کیا ہے … اور روایت کیا گیا ہے کہ ایسا عمر نے بھی کیا ہے اور قاضی عِيَاضٌ اور ان کی اتباع کرنے والوں نے کہا ہے یہ صحیح نہیں اس پر نظر ہے اور مصنف عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ میں دونوں نے اس کو .. یوسف بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ سند صحیح ہے
أبو العبَّاس أحمَدُ بنُ الشيخِ کتاب المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں کہتے ہیں
وقد رُوِيَ أنَّ أوَّلَ مَنْ فعل ذلك عمر بن الخَطَّاب ، وقيل : عثمان ، وقيل : عَمَّار ، وقيل : ابن الزبير ، وقيل : معاوية ـ رضى الله عنهم ـ … فإنْ صحَّ عن واحدٍ مِنْ هؤلاء أنَّه قدَّم ذلك ، فلعلَّه إنما فعل ؛ لمَا رأى من انصرافِ الناسِ عن الخُطْبة ، تاركين لسماعها مستعجلين ، ، أو ليدرك الصلاَة مَنْ تأخَّر وبَعُدَ منزلُهُ.
اور روایت کیا گیا ہے سب سے عید کی نماز کرنا بھر خطبہ دینا عمر نے کیا اور کہا جاتا ہے عثمان نے کیا اور کہا جاتا ہے عمار نے کیا اور کہا جاتا ہے ابن زبیر نے کیا اور کہا جاتا ہے معاویہ نے کیا پس اگر یہ ان سب سے صحیح ہیں جن کا ذکر کیا تو ہو سکتا ہے انہوں نے ایسا کیا ہو جب دیکھا کہ لوگ خطبہ پر جا رہے ہیں اور جلدی میں خطبہ نہیں سن رہے اور نماز میں دیر کر رہے ہیں
راقم کہتا ہے اگر کوئی بیماری عام ہو یا کوئی اور وجہ ہو مثلا قحط وغیرہ تو ایسا کیا جا سکتا ہے
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
معاویہ و یزید پر یہ الزام ثابت نہیں ہے یہ عبد الملک بن مروان کے دور کا ذکر ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف نماز وقت پر نہیں پڑھاتا تھا
صحیح میں ہے
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ الحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، عَامَ نَزَلَ بِابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَيْفَ تَصْنَعُ فِي المَوْقِفِ يَوْمَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَهَجِّرْ بِالصَّلاَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ»، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: «صَدَقَ، إِنَّهُمْ كَانُوا يَجْمَعُونَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ فِي السُّنَّةِ»، فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَفَعَلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «وَهَلْ تَتَّبِعُونَ فِي ذَلِكَ إِلَّا سُنَّتَهُ»
حجاج بن یوسف کو یوم عرفہ میں نماز میں جمع کرنا بتایا گیا
بعض روایات میں ہے کہ وہ نماز لیٹ کرتا تھا لیکن ان میں ایک راوی کا تفرد ہے
مسند ابو داود الطیالسی کی روایت ہے کہ حجاج نماز میں تاخیر کرتا جس پر محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر بن عبد الله سے سوال کیا
ثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن يقول: لما قدم الحجاج بن يوسف كان يؤخر الصلاة، فسألنا جابر بن عبد الله عن وقت الصلاة، فقال: كان رسول الله – عليه السلام – يصلي الظهر بالهجير أو حين تزول، ويصلي العصر والشمس مرتفعة، ويصلي المغرب حين تغرب الشمس، ويصلي العشاء يؤخر أحيانًا ويعجل أحيانًا، إذا اجتمع الناس عَجَّل، وإذا تأخروا أَخَّر، وكان يصلي الصبح بغلس أو قال: كانوا يصلونها بغلس قال أبو داود: هكذا قال شعبة.
مسند دارمی میں ہے
أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ – وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ – فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ, وَالْعَصْرَ,
صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنَاهُ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ الْحَجَّاجُ يُؤَخِّرُ الصَّلَوَاتِ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ
ان تمام میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک متروک ہے
امام بخاری نے اسی کی سند سے باب وقتِ المغرب میں اس کو روایت کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ کہ حجاج نماز لیٹ کرتا تھا بیان نہیں کیے جس کا مطلب ہے یہ الفاظ ان کے نزدیک غیر محفوظ تھے
عن محمد بن عمْرو بن الحسن بن علي قال: قدِم الحَجَّاج فسألْنا جابرَ بن عبدِ اللهِ [عن صلاة النبي – صلى الله عليه وسلم] فقالَ: كان النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَلي الظهرَ بالهاجرةِ، والعصرَ والشمسُ نقيَّةٌ، والمغربَ إذا وَجبتْ، والعشاءَ أحياناً وأحياناً؛ إذا رآهم اجتمَعوا عجَّل، وإذا رآهُمْ أبطَؤا أخَّر، والصبحَ كانوا أو كانَ النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَليها بغلَسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں ٥٩ ہجری میں ہوئی سنن نسائی میں ایک حدیث ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور صبح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔
بنو امیہ کے گورنروں کے پیچھے نماز پڑھنے والے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی یہ شہادت کافی ہے
معاویہ رضی الله عنہ نے مدینہ پر عتبہ کو پھر سعید بن ابی العاص کو پھر مروان بن الحکم کو گورنر مقرر کیا یہ تمام اموی ہیں اور اغلبا ان تین میں سے کسی ایک کی نماز پر ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی رائے ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جیسی تھی
بعض اہل سنت نے اس میں شخص سے مراد عمر بن عبد العزیز کو لیا ہے جبکہ ان کی پیدائش سن ٦١ ہجری کی ہے یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئی ہے
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
کیا معاویہ رضی الله تعالی عنہ نے سنت رسول کو بدلا
امام نسائی نے سنن میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں ،امام حاکم مستدرک میں یہ روایت بیان کی اور کہا هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ کہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی روایت ہے کہ
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عرفات میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا وجہ کے کہ لوگ لبیک نہیں کہہ رہے؟ میں نے کہا کہ لوگ معاویہ سے خوف زدہ ہیں. پھر ابن عبّاس باہر آئے لبیک کہا اور کہا کہ علی سے بغض کی وجہ سے انہوں نے سنت رسول ترک کر دی
سند ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟ قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ
اس کی سند میں منہال بن عمرو ہے جس کو امام جوزجانی سی المذہب یعنی بد عقیدہ کہتے ہیں اور یہ الفاظ جوزجانی شیعہ راویوں کے لئے کہتے ہیں
اس روایت کو البانی صحيح الإسناد کہتے ہیں بعض لوگوں کے بقول یہ روایت خالد بن مخلد القطواني المتوفی ٢١٣ ھ شیعہ کی وجہ سے صحیح نہیں جس کی وفات خلیفہ مامون کے دور میں ہوئی ہے حالانکہ اس کی سند میں قرن اول کے راوی المنھال کا تفرد اہم ہے ظاہر قرن سوم کے شخص کا تفرد تو بعد میں آئے گا
یہی راوی منہال بن عمرو روایت کرتا تھا کہ
علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے
امت آج تک صرف ابو بکر صدیق کو ہی صدیق کہتی آئی ہے جب کہ یہ راوی کہتا ہے کہ علی سب سے بڑے صدیق ہیں
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
جس وقت معاویہ و حسن رضی الله عنہما میں معاہدہ ہوا تو اس کی شق تھی کہ خلافت قبول کرنے کے بعد علی رضی الله عنہ پر کوئی تنقید ہماری یعنی اہل بیت کے سامنے نہیں ہو گی – چونکہ حسن رضی الله عنہ بہت سمجھ دار تھے اور جانتے تھے کہ اقتدار جب منتقل کر دیں گے تو فتنہ پرداز لوگ اس قسم کی باتیں کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے اس کو ایک شق بنا دیا اور اس پر عمل ہوا کہ علی رضی الله عنہ کی تنقیص نہیں کی جاتی تھی
معاویہ رضی الله عنہ کے گورنر صحابی رسول الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کے لئے ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں لکھا ہے
وَكَانَ إِذْ كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ عَلَى الْكُوفَةِ إِذَا ذَكَرَ عَلِيًّا فِي خُطْبَتِهِ يَتَنَقَّصُهُ بَعْدَ مَدْحِ عُثْمَانَ
اور الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کوفہ میں خطبہ میں عثمان رضی الله عنہ کی تعریف کے بعد علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے
اس روایت میں گالیاں دینے کا ذکر نہیں دوم اس کی سند ابن کثیر دیتے ہیں
وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لِحُجْرٍ
اس کی سند کمزور ہے أَبِي إِسْحَاقَ السبيعي ایک کوفی شیعہ مدلس راوی ہے جس نے اس کو پھیلایا ہے
اسی کی ایک دوسری روایت ہے جو ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ سے سنی ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ الله، أَوْ سُبْحَانَ الله، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي
ابو عبداللہ الْجَدَلِيِّ نے ہم سے بیان کیا کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔
ابن حجر کہتے ہیں ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ ثقة رمى بالتشيع ثقہ ہیں لیکن شیعیت سے متصف ہیں
طبقات ابن سعد کے مطابق
كان شديد التشيع. ويزعمون أنه كان على شرطة المختار
یہ شدید شیعہ تھے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ مختار ثقفی کے پہرے دار تھے
قال الجوزجاني: كان صاحب راية المختار
الجوزجاني کہتے ہیں یہ المختار کا جھنڈا اٹھانے والوں میں سے ہیں
کذاب مختار کے ان صاحب کی بات اصحاب رسول کے لئے کس طرح قبول کی جا سکتی ہے
مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى» ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن شُعْبَةَ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
اس کی سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة ہے جس کا حال مجھول ہے
مستدرک الحاکم میں اس کی دوسری سند ہے جس کو حاکم صحیح کہتے ہیں
عمرو بن محمد بن أبي رزين الخزاعي، عن شعبة، عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه قطبة بن مالك
لیکن اس کی مخالف حدیث مسند احمد میں موجود ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مردوں کو برا کہنے سے منع کیا ہے
ایک طرف تو وہ خود یہ حدیث بیان کریں اور پھر اس پر عمل نہ کریں ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔
اس کی سند منقطع ہے النسائي فضائل الصحابہ میں اس روایت کو پیش کرتے اور کہتے ہیں
هِلَال بن يسَاف لم يسمعهُ من عبد الله بن ظَالِم
هِلَال بن يسَاف نے عبد الله بن ظَالِم سے نہیں سنا
محدثین کے مطابق ان دونوں کے درمیان ابن حيان ہے جس کو میزان الاعتدال میں الذھبی نے مجھول قرار دیا ہے
ابن حيان [س] .عن عبد الله بن ظالم – لا يعرف.
مسلم کی بھی ایک روایت ہے
عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
سعد بن ابی وقاص کے بیٹے عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد کو (ایک ) حکم دیا پس معاویہ نے کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [علی] پر سب و شتم نہ کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں اُن تین ارشادات نبوی کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔ ان تین مناقب میں سے اگر ایک منقبت بھی میرے حق میں ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی
اس کی سند میں بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہے جن کے لئے امام بخاری کہتے ہیں
في حديثه بعض النظر
اس کی بعض حدیثیں نظر میں ہیں
بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہی وہ راوی ہے جو روایت کرتا ہے کہ
وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
جب آیت نازل ہوئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی فاطمہ حسن حسین کو بلایا اور کہا اے الله یہ میرے اہل بیت ہیں
امام بخاری اس روایت کے راوی پر جرح کرتے ہیں لیکن امام مسلم اس کو صحیح میں لکھتے ہیں
فيہ نظر بخاری کی جرح کا انداز ہے- ابن حجر کی رائے میں اس نام کے دو لوگ ہیں ایک ثقہ اور ایک ضعیف لیکن بخاری کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں اور انہوں نے اس سے صحیح میں کچھ نہیں لکھا- مسلم نے بھی تین روایات لکھی ہیں جن میں سے دو میں علی پر سب و شتم کا ذکر ہے اور یہی سند دی ہے
ابن کثیر لکھتے ہیں
وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ((إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ؟))أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر: ((لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار)) (ج/ص: 7/377)أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ رسول الله نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب آپ غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو اپ نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول الله کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور اپ کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔
یہ روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے اول تاریخ ابو زرعہ الدمشقی میں یہ موجود نہیں دوم سعد آخری وقت تک معاویہ کے ساتھ رہے سوم اس کی سند میں مدلس محمد بن اسحاق ہے جو عن سے روایت کرتا ہے چہارم معاویہ نے حج کے خطبہ میں علی پر سب و شتم کیوں نہیں کیا یہ موقعہ ہاتھ سے کیوں جانے دیا؟
ابن ماجہ کی بھی ایک روایت ہے
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سابط و قيل ابن عبد الله بن سابط المتوفی ١١٨ ھ ہیں جن کو ا بن حجر کہتے ہیں ثقة كثير الإرسال – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق
وقال يحيى بن معين لم يسمع من سعد بن أبي وقاص
یحیی بن معین کہتے ہیں انہوں نے سعد بن أبي وقاص سے نہیں سنا
ابن ماجہ کی اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں جبکہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے
الغرض معاویہ یا مغیرہ رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا
ال مروان میں سے ایک شخص نے سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنہ المتوفی ٨٨ ھ کے سامنے علی رضی الله عنہ پر لعنت کی جس پر انہوں نے اس کو نا پسند کیا
مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو اپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
البانی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها جلد اول ص ٨٢٣ پر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ووفاة النبي صلى الله عليه وسلم كانت في شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة هجرية، وإلى عام ثلاثين سنة كان إصلاح ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن بن على السيد بين فئتين من المؤمنين بنزوله عن الأمر عام واحد وأربعين في شهر جمادى الآخرة، وسمي عام الجماعة لاجتماع الناس على معاوية، وهو أول الملوك، وفي الحديث الذي رواه مسلم: سيكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة، ثم يكون ملك وجبرية، ثم يكون ملك عضوض
نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ربيع الأول میں ١١ ہجری میں ہوئی اور تیسوں سال میں اصلاح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے حسن بن علی سردار سے ہوئی کہ مومنوں کے گروہوں میں ایک امر پر اتفاق ہوا ٤١ ہجری جمادى الآخرة کے مہینہ میں اور اس کو عام الجماعة کا نام ملا کیونکہ لوگوں کا اجماع معاویہ پر ہوا اور وہ پہلا بادشاہ تھا اور مسلم کی حدیث جو انہوں نے روایت کی اس میں ہے پس خلافت نبوت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و جبر ہو گا پھر ریاست بھنبھوڑنے والی ہو گی
البانی نے غلط کہا ایسی کوئی حدیث صحیح مسلم میں نہیں ہے
بھنبھوڑنے والی ریاست والی حدیث ہے
معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي البصري الصوفي (المتوفى: 340هـ) اور طبرانی الکبیر کی روایت ہے
نا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّايِغُ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، نا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، نا مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتُمُ الْيَوْمَ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا مُلُوكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَلْبَسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ
حُذَيْفَةَ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آج تم پر نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت ہو گی پھر ایسا ویسا ہو گا پھر ایسا ایسا ہو گا بادشاہت بھنبھوڑنے والی ہو گی جو شراب پئیں گے اور ریشم پہنیں گے
اس کی سند میں مهند بن هشام القيسي الكوفي ہے جو مجھول ہے اس کو طبرانی کی سند میں العلاء بن المنهال نے ثقہ کہا ہے جبکہ اس کا حال نا معلوم ہے
خود العلاء بن المنهال کے لئے امام العقيلي کہتے ہیں : لا يتابع عليه اس کی روایات کی متابعت نہیں ہے
امام الذہبی نے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں العلاء بن المنهال کے لئے کہا ہے فيه جهالة اس میں جہالت ہے یعنی یہ مجھول ہے
جبکہ أبو زرعة الرازي اور عجلی نے اس کو ثقہ کہا ہے
اسطرح العلاء بن المنهال تو مختلف فیہ ہو گیا اور یہ جس مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ کو ثقہ کہتا ہے وہ مجھول ہے
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل از البانی
إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں البانی نے صدقه فطر کی ایک روایت پر ح ٨٤٧ کے تحت بحث کی ہے
كنا نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام , أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر , أو صاعا من زبيب , أو صاعا من أقط
پھر اس پر کہا کہ ترمذی میں اضافہ کے کہ ابو سعید نے وہ نہ کیا جو معاویہ نے کہا
فلما جاء معاوية , وجاءت السمراء قال: أرى مدا من هذا يعدل مدين – زاد الترمذى: من تمر. – قال: فأخذ الناس بذلك , قال أبو سعيد: فلا أزال
75- بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ:باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیےحدیث نمبر:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ ، سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنِيعِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ، قَالَ: أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ
.ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے
یعنی معاویہ نے دوسرے اناج میں ایک کی بجائے دو صاع نکالنے کا حکم دیا جو ایک سے زیادہ ہے ظاہر ہے یہ صدقه میں اضافہ ہے نہ کہ کمی
صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے معاویہ نے کہا
إنى أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر. فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ، أَبَدًا مَا عِشْتُ
میں دیکھتا ہوں کہ گیہوں کے شام کے دو مد، کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں – پس لوگوں نے ایسا کیا لیکن میں نے اس چیز کو نہیں چوڑا جو میں نکالتا تھا جب تک میں زندہ ہوں
اس کا مطلب ہے کہ شام میں مد کا جو پیمانہ چل رہا تھا وہ حجاز کے مد کے پیمانے سے بڑا تھا وہ مدینہ کے صاع کے برابر نہ تھا اس لئے معاویہ جو شام سے آئے تھے ان کے قافلہ کے پاس شامی صاع ہونگے اور انہوں نے اس کو ناپتے ہوئے یہ حکم کیا کہ نیا صاع خریدنے کی بجائے اگر ہم پیمانہ کے تناسب کو لیں تو دو شامی مد، حجاز کے ایک صاع کے برابر ہے
مبارک پوری تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں
تَنْبِيهٌ اعْلَمْ أَنَّ الصَّاعَ صَاعَانِ حِجَازِيٌّ وَعِرَاقِيٌّ فَالصَّاعُ الْحِجَازِيُّ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ وَالْعِرَاقِيُّ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَإِنَّمَا يُقَالُ لَهُ الْعِرَاقِيُّ لِأَنَّهُ كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْعِرَاقِ مِثْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهَا وَهُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّاعُ الْحَجَّاجِيُّ لِأَنَّهُ أَبْرَزَهُ الْحَجَّاجُ الْوَالِي وَأَمَّا الصَّاعُ الْحِجَازِيُّ فَكَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْحِجَازِ وَهُوَ الصَّاعُ الَّذِي كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ كَانُوا يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ فِي عَهْدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يُوسُفَ وَالْجُمْهُورُ وَهُوَ الْحَقُّ
تَنْبِيهٌ جان لو لہ صاع دو ہیں ایک حجازی ہے اور عراقی ہے – پس حجازی صاع پانچ أَرْطَالٍ یا تین أَرْطَالٍ کا ہے – اور عراقی صاع آٹھ أَرْطَالٍ کا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عراق کے شہروں میں مثلا کوفہ اور دیگر میں جو صاع چلتا ہے اس کو حجاجی کہا جاتا ہے اور جہاں تک حجازی صاع کا تعلق ہے جو حجاز کے شہروں میں استمعال ہوتا ہے تو وہ وہ صاع ہے کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں چلتا تھا جس سے صدقه فطر نکالا جاتا تھا دور نبوی میں اور ایسا امام مالک ، الشافعی اور احمد اور یوسف اور جمہور کا کہنا ہے جو حق ہے
عراق كا صأع حجأز سے بڑا ہے – اور اسی طرح شام کا صاع کا پیمانہ الگ تھا
اگر یہ بات تھی تو پھر ابو سعید نے کیوں نہیں کیا ؟ ابو سعید نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کو محبوب رکھتے تھے کہ وہی کریں جو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور تناسب والی بات کو باقی اصحاب نے سمجھ پر قبول کر لیا
عمدہ القاری میں علامہ عینی لکھتے ہیں
وَقَالَ النَّوَوِيّ: هَذَا الحَدِيث مُعْتَمد أبي حنيفَة، قَالَ بِأَنَّهُ فعل صَحَابِيّ، وَقد خَالفه أَبُو سعيد وَغَيره من الصَّحَابَة مِمَّن هُوَ أطول صُحْبَة مِنْهُ وَأعلم بِحَال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقد أخبر مُعَاوِيَة بِأَنَّهُ رَأْي رَآهُ، لَا قَول سَمعه من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قُلْنَا: إِن قَوْله: فعل صَحَابِيّ، لَا يمْنَع لِأَنَّهُ قد وَافقه غَيره من الصَّحَابَة الجم الْغَفِير بِدَلِيل قَوْله فِي الحَدِيث: فَأخذ النَّاس بذلك، وَلَفظ النَّاس للْعُمُوم، فَكَانَ إِجْمَاعًا. وَلَا تضر مُخَالفَة أبي سعيد لذَلِك بقوله: أما أَنا فَلَا أَزَال أخرجه، لِأَنَّهُ لَا يقْدَح فِي الْإِجْمَاع، سِيمَا إِذا كَانَ فِيهِ الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة، أَو نقُول: أَرَادَ الزِّيَادَة على قدر الْوَاجِب تَطَوّعا.
امام نووی نے کہا : اس حدیث پر امام ابو حنیفہ نے اعتماد کیا ہے اور کہا یہ صحابی (معاویہ) کا فعل ہے اور ان کی مخالفت کی ہے ابو سعید نے اور دوسرے اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے اور بے شک معاویہ نے خبر دی کہ وہ دیکھتے ہیں نہ کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سنا- (عینی نے کہا) ہم (جوابا) کہتے ہیں کہ ان (امام ابو حنیفہ) کا کہنا کہ صحابی کا فعل ہے اس سے منع نہیں کرتا کیونکہ اس میں معاویہ کی موافقت اصحاب رسول کے جم غفیر نے کی ہے اس میں دلیل حدیث ہے کہ اس کو لوگوں نے لیا اور لفظ الناس عموم ہے کہ اس پر اجماع ہوا اور ابو سعید کی مخالفت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اس قول پر کہ جہاں تک میں ہوں تو میں اس (صدقه فطر) کو نکالوں گا جیسا نکالتا تھا کیونکہ انہوں نے اس اجماع پر قدح نہیں کیا خاص طور…. اس میں ارادہ ہے کہ جو مقدار واجب نفلی تھی اس سے زائد دیا گیا
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں
كما في تفسير ابن كثير (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال
عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.
جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ
عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے
عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے
عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة
اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟
معاویہ پر اصحاب رسول کو رشوت دینے کا بھی الزام ہے- طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے
أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ
نافع نے کہا معاویہ نے ابن عمر کی طرف ایک لاکھ بھیجے پس جب یزید کی بیعت کا ارادہ کیا ابن عمر نے کہا میں دیکھتا ہوں معاویہ کا یہ مقصد تھا – میرادین تو سستا ہو گیا
راقم کہتا ہے اس کی سند میں بصری مدلس ایوب سختیانی ہے اور سند کمزور ہے
ہشتم : محرمات سے نکاح ہوا
تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠ کے مطابق
قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة
منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
وقال الدارقطني: ضعيف
وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں
وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) اگ لگانے والا شیعہ ہے
الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے
اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ
جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے
اس کی سند میں أبو عبد الله، محمد بن عمر بن واقد، الواقدي ، الأسلمي مولاهم، المدني ہیں. الواقدی قاضي بغداد تھے عبد الله بن بريدة، الأسلمي کے آزاد کردہ غلام تھے سن ٢٠٧ ھ میں وفات ہوئی انکو محدثین متروك مع سعة علمه یعنی اپنی علمی وسعت کے باوجود متروک ہیں کہتے ہیں
الواقدي کٹر شیعہ ہیں اس وجہ سے انکی روایت نہیں لی جا سکتی ورنہ تاریخ اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں انکے اقوال راویوں کی وفات کے حوالے سے قابل قبول ہیں اگر یہ کسی کو شیعہ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بھی کٹر شیعہ ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ
معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے
اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے دوسرے الواقدی شیعہ بھی ہے
وہ کون کون سی محرم عورتیں تھیں جن کا اس سے نکاح تھا ان کی لسٹ ہے کسی کے پاس ہے تو پیش کرے
انہوں نے جو بچے جنے ان کے کیا نام تھے کسی نسب کی کتاب میں ہیں؟
نہم: یزید شرابی تھا
تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق یزید بندروں سے کھیلتا تھا
ابن اثیراور طبری نے لکھا کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن نے کہا
قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،
یزید ریشم پہنتا ہے اور شرابی ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا
المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا
عبد الله بن حنظلة الغسيل، والمنذر بن الزبير نے کہا
ويلعب بالكلاب
یہ کتوں سے کھیلتا ہے
سند میں واقدی ہے
تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے کی خلافت پر بلایا
ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود
جو متکبر شرابی تھا مرغوں، چیتوں اور بندروں والا
یہ تمام اقوال نہایت کمزور سندوں سے ہیں – لیکن اگر مان لیں صحیح ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ یزید کو چڑیا گھر کا شوق ہو گا- آج ساری دنیا چڑیا گھر جا جا کر دیکھ رہی ہے اگر نہ جائے تو مسلمانوں کا خلیفه نہ جائے
کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟
شکار کے لئے کتوں کو پالنا جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ہے
حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے
حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ
حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰ (۵۳۶۷)،
تلك عشرة كاملة
جھگڑا کیا ہوا ؟
معاویہ اور حسین رضی الله عنہما میں اختلافات حسن رضی الله عنہ کی وفات کے بعد ہوئے جس میں فریقین نے ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا اور اختلاف اندر ہی اندر بڑھتا رہا
حسن و معاویہ رضی الله عنہما میں جو معائدہ ہوا اس کی شقیں تھیں
بحوالہ عمرو بن غرامة العمروي محقق تاریخ دمشق دار الفكر
أن يعمل معاوية بالمؤمنين بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وآله وسلم وسيرة الخلفاء الصالحين من بعده
معاویہ مومنوں کے ساتھ کتاب الله اور سنت النبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اور ان کے بعد انے والے صالح خلفاء کی سیرت کے مطابق
المدائني کی سند سے شیعہ مورخ ابن أبي الحديد کتاب شرح النهج 4 / 8 میں لکھا ہے کہ کتاب الله اور سنت نبی پر عمل کا عہد ہوا فتح الباري کے مطابق سیرت خلفاء صالحین پر عمل کا عہد ہوا
ليس لمعاوية أن يعهد لاحد من بعده عهدابل يكون الامر من بعده شورى بين المسلمين
معاویہ کسی کو بھی جانشین مقرر نہیں کریں گے اور ان کے بعد معاملہ مسلمانوں کی شوری کے پاس ہو گا
المدائني کہتا ہے یہ عہد بھی ہوا کہ معاویہ کسی کو جانشیں نہ کریں گے
أن يكون الامر للحسن من بعده
امر خلافت معاویہ کے بعد حسن کو ملے گا
تاريخ الخلفاء للسيوطي ص 194 والاصابة 2 / 12 – 13 کے مطابق یہ عہد ہوا کہ خلافت واپس حسن کو ملے گی معاویہ کی وفات کے بعد
أن لا يشتم عليا وهو يسمع
ابن اثیر کے مطابق حسن کے سامنے علی پر شتم نہ ہو گا کہ وہ سن رہے ہوں
اور شیعہ کتاب مقاتل الطالبيين کے مطابق
أن يترك سب أمير المؤمنين والقنوت عليه بالصلاة
علی پر نماز میں قنوت پڑھنا بند ہو گا اور ان کو گالی دینا بند ہو گا
تاریخ طبری 6 / 92 کے مطابق حسن و حسین کو مال ملے گا
يسلم ما في بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف للحسن وله خراج دارابجرد
خمسة آلاف ألف کوفہ کے بیت المال سے حسن کو دیے جائیں گے اور دار ابجرد کا خراج بھی
اور الاخبار الطوال ص 218 أبو حنيفة الدينوري کے مطابق ان کے بھائی حسین کو
أن يحمل لاخيه الحسين في كل عام ألفي الف
ہر سال حسین کو ٢٠٠٠ ملیں گے
اپ دیکھ سکتے ہیں ان شقوں میں تضاد ہے امیر المومنین حسن رضی الله عنہ جب معاویہ سے معائدہ کر رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے انتقال کر جائیں گے یا قتل یا شہید ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس پر عھد کیا کہ امر خلافت واپس ان کو ملے گا- متاخرین شیعہ نے اس معائدہ میں اضافہ کیا کہ معاویہ کی موت پر یہ مسئلہ شوری طے کرے گی جبکہ شوری کا کوئی رول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خلافت واپس حسن پر لوٹ اتی جس سے ظاہر ہے کہ اصل عھد تھا کہ خلافت حسن کو واپس ملے گی- أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني المتوفی ٢٢٤ ھ کا قول منفرد ہے یہ بات ان کے حوالے سے شیعہ و سنی کتابوں میں ہے ان سے قبل کسی نے اس کو بیان نہیں کیا
حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور اس وقت عائشہ رضی الله عنہا حیات تھیں جن کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سات تین یا سات سال پہلے ہوئی ہے گویا کم از کم یزید کی بیعت کی دعوت تین سال تک دی جاتی رہی اور حسین رضی الله عنہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ کسی معائدہ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے حسن کی وفات ہو چکی تھی لہذا امر خلافت ان کو نہیں لوٹ سکتا تھا معاویہ فیصلہ کرنے میں آزاد تھے اور انہوں نے امت کو اس پر سوچنے کا پورا موقعہ دیا کہ کسی کو اختلاف ہو تو پیش کرے- حسین رضی الله عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بھی نہیں کیا یہاں تک کہ کوفہ کے ان کے حامیوں نے ان کو خط لکھ کر کوفہ بلوایا اور جب بات ظاہر کی اس وقت تک دیر ہو چکی تھی یزید امیر تھے اور حسین کے لئے وہ اقتدار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ وہ اسی طرح خلیفہ ہوئے جس طرح علی نے حسن کو خلیفہ کیا تھا جو حسین کے باپ علی کی سنت تھی اور سنت علی پر چلنا بھی عھد کی شق تھا جیسا تاریخ میں ہے
اس لئے یہ جھگڑا بڑھا اور اگلے ١٥٠ سال تک بنو ہاشم خلفاء کے خلاف خروج کرتے رہے جن میں کچھ اولاد حسن میں سے ہیں کچھ اولاد حسین میں سے ہیں کچھ عباس رضی الله عنہ کی اولاد میں سے ہیں یعنی ہر ٢٠ سال بعد ایک خروج ہوا اور یہاں تک کہ عباسی خلافت تک میں خروج ہوتے رہے جبکہ دونوں بنو ہاشم ہی تھے- ان تمام خروج میں کامیابی صرف بنو عباس کو ہوئی جو سنی عقیدہ رکھنے والے بنو ہاشم تھے اور ان کی شادیان شیعہ عقیدہ کے حامل بنو ہاشم میں بھی ہوئیں- بہت سے راوی جو الکافی کے راوی ہیں وہ بنو عباس کے درباری تھے مثلا عبد الله بن سنان، ان کے کاتب یا خزانچی تھے- اس طرح شیعہ و سنی دونوں اسلامی خلافت میں اپنے اپنے اختلاف کے ساتھ جیتے رہے اس دوران بعض سیاسی خروج سے خود اثنا عشری شیعہ بھی پریشان ہوئے اور ان کی حمایت نہیں کی مثلا قرامطہ اسماعیلی شیعہ تھے لیکن بہت متشدد اور گمراہ تھے جنہوں نے حجر اسود کو اکھاڑ کر کوفہ پہنچایا ، ان سے اسماعیلی شیعہ جو مصر میں تھے وہ بھی نا خوش تھے
الغرض ایک واقعہ جو ٦١ ہجری میں ہوا اس کو اس طرح بیان کرتے رہنا کہ گویا اہل بیت اور غیر اہل بیت ہر وقت جھگرتے رہے تاریخ کو مسخ کرنا ہے
kiya yeh qawl sahih hai
سفیان بن عینہ فرماتے ہیں
سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: مَا كَانَتْ فِي عَلِيٍّ خَصْلَةٌ تَقْصُرُ بِهِ عَنِ الْخِلَافَةِ، ولم يكن في معاوية خصلة ينازع بها علياً.(البدایہ و النھایہ ترجمہ معاویہ رضی اللہ عنہ جلد 8 ص 130)
ترجمہ: سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں علی رضی اللہ عنہ میں ایک خامی نہیں تھی کہ وہ خلافت کہ اہل نہیں تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ایک خوبی نہیں تھی کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔
یہ بات امام علی المدینی سے منسوب کی ہے کہ امام سفیان نے ایسا کہا سند تلاش پر نہیں ملی
تاریخ دمشق میں ہے
قال علي بن المديني: سمعت سفيان يقول: ما كانت في علي خصلة تقصر به عن الخلافة، ولا كانت في معاوية خصلة ينازع علياً بها.
قال إبراهيم بن سويد: قلت لأحمد بن حنبل: من الخلفاء؟ قال: أبو بكر وعمر وعثمان وعلي. قلت: فمعاوية؟ قال: لم يكن أحد أحق بالخلافة في زمان علي من علي رضي الله عنه، ورحم اله معاوية.
لیکن ان کی اسناد نہیں ہیں
مسلم بن عقیل کو کس نے کیوں اور کس وجہ سے شہید کیا؟؟
——————
حسین رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کس فوج نے کیا باغی تحریک کی فوج نے ؟ یا یزید کی حکومتی فوج ابنِ کی فوج نے ان سے جنگ کی ؟
حسین رضی اللہ عنہ کو حکومتی فوج ابنِ زیاد نے یزید کے حکم سے شہید کیا تھا یا باغی فوج نے اپنی بغاوات پر پردہ ڈالنے کے لیے خود ہی شہید کیا؟
اگر حکومت نے کیا تو کس جرم کی پاداش میں ؟
————
اگر یزید کا حکم اور مرضی نہیں تھی اس سب معاملہ میں تو اس کے بعد اس نے کیا اقدام کیا ؟ کیا باغیوں سے یا جس نے انہیں شہید کیا ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی اگر نہیں تو کیوں نہیں کیا وجہ تھی ؟
اپ کے سوالات کے جوابات ١٤ سو سال سے لوگ تلاش کر رہے ہیں اور اس میں اختلاف کر رہے ہیں ان سوالات کے جوابات پر معلومات نہیں ہیں
جو روایتین ہیں وہ بہت بعد کی ہیں اور صحیح معلومات کی کمی کی بنا پر حتمی کچھ نہیں ہے
——
حسین کے نزدیک خلافت خاندان علی کو واپس منتقل ہوئی چاہیے تھی جیسا کہ حسن اور معاویہ میں معاہدہ ہوا تھا لیکن وہ خاموش رہے یہاں تک کہ یزید کی خلافت کا علان ہوا جو ٦١ ہجری سے سات سال پہلے یا تین سال پہلے سے ہوا لیکن حسین خموش رہے یہاں تک کہ سب سے چڑ کر خروج کیا – انہوں نے اصحاب رسول اور اہل بیت میں ابن عباس رضی الله عنہ تک کی نہ سنی
احادیث اور منطق کے مطابق ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ممکن ہے- لیکن اب اگر اس کے کئی متمنی ہو جائیں تو یہ کس کو مسند خلافت پر بٹھایا جائے؟ اکابر صحابہ کی رائے میں جس پر لوگ پہلے جمع ہو جائیں اور اس کی بیعت لے لی جائے اس کے بعد چاہے کوئی بھی ہو خلیفہ کی خلافت سے خروج نہیں کیا جائے گا
خروج کرنا ایک بہت ہی معیوب بات سمجھی جاتی تھی
خلافت یزید کی رائے جب معاویہ رضی الله عنہ نے آگے رکھی تو اس کی مخالفت میں سابق خلفاء کے بیٹے پیش پیش تھے کیونکہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی خلیفہ ہو سکتے ہیں مثلا
عبد الله بن عمر کو خواہش کہ وہ خلیفہ ہوں صحیح بخاری
عبد الرحمن بن ابی بکر نے اعتراض کیا کہ خلفاء کے بعد ان کے بیٹے خلفاء نہ بنیں انہوں نے اس کو ہرقل کی سنت کہا جبکہ یہ علی کی سنت تھی گویا علی کی جانب سے حسن کو خلیفہ کیا جانا اصحاب رسول کے نزدیک مناسب نہ تھا
حسین کے دل میں بھی خلیفہ بننے کی خواہش تھی
ابن زبیر بھی خلیفہ ہونا چاہتے تھے کیونکہ ان کے والد کو ملنے والی خلافت پر علی نے قبضہ کیا
اپ دیکھ سکتے ہیں خلفاء کے یہ بیٹے ہی اگلے خلیفہ بننے کے متمنی ہیں ابن عمر اور عبد رحمان صبر کرتے ہیں حسین خروج کرتے ہیں
گویا ایک انار سو بیمار
حقیقت میں خلافت اس کو ہی ملتی ہے جس کے پاس عصبیت ہو یہ امام ابن خلدون کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں خلافت کوئی وہبی چیز نہیں اس کو حاصل کرنے میں تمام مسلمان برابر ہیں کوئی بھی اس کا دعوی کر سکتا ہے اگر وہ عصبیت رکھتا ہو تو حاصل کر لے گا دور نبوی میں بھی یہی تھا خلافت اسی کے لئے تھی جس پر لوگ جمع ہوں شرط صرف قریشی ہونا تھا امداد زمانہ کے ساتھ یہ شرط بھی ختم ہو گئی کیونکہ اب اہل بیت کا پتا ہی نہیں کون ہیں اور کون بنو امیہ ہیں
لہذا سن ٦٠ میں بہت سے قریشی خلیفہ ہو سکتے تھے جن کے نام اوپر دیے گئے ہیں- معاویہ کی جانب سے یزید کا نام پیش کیا جانا کوئی برائی نہیں تھا – در حقیقت لوگ حسین پر جمع نہ تھے نہ ان کو خلیفہ چاہتے تھے – لوگ یزید پر جمع تھے اور اس میں کوئی برائی نہ جانتے تھے – لہذا عصبیت نہ ہونے کی صورت میں یا کمزور پڑنے کی صورت میں حسین قتل ہی ہوتے یا قیدی بنتے پھر ابن عباس رضی الله عنہ کے ذریعہ ان کی تربیت ہوتی جو اہل بیت کے اکابر و سادات تھے
ایسا ابن زبیر کے ساتھ بھی ہوتا ہے ان کو عصبیت ملی لیکن وہ لڑنے میں کمزور تھی عبد الملک کے اہل شام اہل حجاز پر غالب ا گئے اور ابن زبیر کا قتل ہوا
—- حسین کا خروج
– حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ (الطبرانی کبیر رقم2859)
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے جواب دیا: اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی اپنی کھال ان سے اتروائی
اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگرایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے کہا…. طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں
دونوں روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے – اس کا ایک اور مفہوم خود اپنا مذاق بنوانا ہے
یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا
یزید کی بیعت ٦١ ہجری سے لے کر ٩٢ ہجری میں وفات پانے والے تمام اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے کی جن میں مشھور ہیں
عبداللہ بن عباس
ابو سعید الخدری
عبد الله بن عمر
جابر بن عبدالله
عمرو بن العاص
حسین کا خروج ان اصحاب رسول کی نگاہ میں غیر شرعی تھا اہل بیت میں ابن عباس بھی حسین کے مخالف تھے وہ مکہ میں ہی رہے
حسین نے مسلم بن عقیل کو اپنے کوفہ پہنچنے سے پہلے بھیجا کہ وہاں کی صورت حال پتا کریں کہ عصبیت ہے یا نہیں
وہاں اس کمزور عصبیت کا مظاہرہ ان بلوائیوں نے بیت المال لوٹ کر کیا اور مسلم بن عقیل کو اس میں پھنسا دیا گیا- جس میں مسلم کو دھر لیا گیا اور مسلم بن عقیل کو ایک ڈاکو کی طرح باغی کی طرح قتل کر دیا گیا شاید شیعان علی ہر صورت چاہتے تھے کہ حسین کسی نہ کسی طرح اس مسئلہ میں اب پیچھے نہ ہٹیں
مسلم بن عقیل اس کو بھانپ چکے تھے کہ یہ کم بخت لوگ دھوکہ باز ہیں لہذا مرنے سے قبل ایک خفیہ خط حسین تک بھیجا کہ رخ بدل لو
اس کی خبر حسین کو رستے میں ہوئی اور سارا خلافت کا خواب بکھر گیا انہوں نے کوفہ سے رخ بدلا اور ٤٠ میل دور غیر آباد میدان کا رخ کیا
اغلبا وہ فرار کر رہے تھے لیکن کہاں جائیں ان کو خود پتا نہ تھا
اب تین آراء اہل سنت میں چل رہی ہیں
اول ان کو شیعان حسین نے قتل کیا جو خطوط تلف کرنا چاہتے تھے
دوم ابن زیاد نے قتل کیا جس میں یزید کا عمل دخل نہ تھا
سوم ابن زیاد نے یزید کے حکم پر قتل کیا
اس وقت کوفہ میں انس بن مالک رضی الله عنہ ، ابن زیاد کے ہاں تھے اور تمام خبریں مل رہی تھیں یہاں تک کہ صحیح بخاری کے مطابق حسین کا سر وہاں اتا ہے اور ابن زیاد حسین کی تعریف کرتا ہے
کوئی باغی کتنا ہی خوبصورت ہو اس کی تعریف نہیں کی جاتی اور انس بن مالک کی موجودگی بتا رہی ہے کہ خلاف حکم حسین کا قتل ہوا کیونکہ وہ بھی کوئی تبصرہ نہیں کرتے
حسین اور ان کے ساتھ تمام مرد قتل ہوئے سوائے زین العابدین کے جس سے ظاہر ہے کہ ان کو سوتے میں حملہ کر کے قتل کیا گیا یہاں تک کہ بلوہ میں بچے بھی قتل ہوئے
قاتل پوشیدہ تھے جن کو نہ بنو امیہ جانتے تھے نہ اہل بیت لہذا کس کے خلاف اقدام کرتے- باوجود یہ کہ حسین کا قتل ہوا ابن عمر گھر والوں کو جمع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں یزید میں کوئی برائی نہیں جانتا کہ اس کی بیعت سے نکلوں اور ایک دوسری روایت کے مطابق کہتے ہیں حسین کا قتل اہل عراق نے کیا
Apki tehreer se lagta hai k hazrat hussain r.a shaheed nhi qatal huye thy. Es trh to phr wo bat b galt hoi k hussain r.a ne neze pr quran prhA tha or ap namz prh rhy thy us wakt.
Clarufy kr dein
حسین نے نیزے پر قرآن پڑھا تھا یہ ابو مخنف کی روایت ہے اس کے مطابق قتل حسین پر ان کا سر دھڑ سے الگ کیا گیا اور سر کا تماشہ بنانے کے لئے بنو امیہ نے اس کو نیزے پر اٹھا لیا اور حسین کے سر نے نیزے پر سوره کہف کی تلاوت کی
یہ روایت ضعیف ہے قصہ گو کی ایجاد ہے
——-
حسین نماز پڑھ رہے تھے اس روایت کا علم نہیں
—-
حسین شہید ہی ہوئے تھے کیونکہ وہ شیعان کوفہ کے دھوکہ میں آ کر قتل ہوئے – ان کے ساتھی بھاگ گئے اور وہ اپنے اھل کے ساتھ تنہا رہ گئے
Yazeed sihabi tha ya tabai… Or kya wo kustuntania wali bishart es k lie thi ya s amer maviya k bahi k lie the
یزید بن معاویہ صحابی نہیں ہے – قسطنطنیہ والی جنگ میں امیر عساکر تھے اس پر تفصیل یہاں ہے
⇓ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ
https://www.islamic-belief.net/history/
اگر حسین کو نیند میں قتل نہیں کیا گیا تھا تو فرات کے کنارے جنگ کس سے ہوئی ؟ اور علی کس مقام سے گزرے ہوں گے جہاں روئے؟ اور جبریل نے کربلا کی خبر دی تو مٹی دکھائی ؟ اور روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول الله کو خواب میں دیکھا فرمایا میں صبح سے حسین کا خون جمع کر رہا ہوں- دوسری طرف طبری میں ہے کہ یزید بن معاویہ کے لشکر سے حسین کی جنگ ہوئی
واضح کر دیں
⇓ شہادت حسین کی خبریں جرح و تعدیل کے میزان میں
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/
⇑ خون کی بوتل اور حسین
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/
ان کو پڑھ لیں پھر کوئی سوال ہو تو کریں
اپ اگر اردو میں سوال لکھیں تو اچھا ہو گا اپ کا سوال پڑھنا کافی مشکل ہوتا ہے
. قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ ..یہ تو پھر تم نے خود ہی اپنی کھال ان سے اتروائی..APKO ALLAH KA KHAOF NAHE IS KA TARJUMA AP NY KITNA GHALAT KIA HA..SAHIH TARJUMA HA KIH IBN E ABBAS RA NY KAHA .. اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے …حرام کیا ہےKIH HUSSAIN NY YE BAAT KR K MUJHY MOTMAEN KR DIYA..AUR YE TARJUMA KAFAIT ULLAH SNABLI NY KIA HA..
جناب
فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ
کا ترجمہ کبھی بھی یہ نہیں ہو سکتا جو آپ نے لکھا ہے
اگر آپ میں عربی کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہوتی تو آپ یہ نہ لکھتے
یہ ترجمہ میرا نہیں ہے عربوں سے کروایا گیا ہے – اہل زبان کا کیا گیا ہے
آپ کسی انڈیا پاکستان کے مولوی کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جن کو حقیقت چھپآنے کا شوق ہے
Ibn e ziyad ne hussain ka sir aany pr tareef ki iska kis hadith mn zikr hai
⇓ عبید الله بن زیاد نے چھڑی سے حسین رضی الله عنہ کے چہرے پر مارا؟
⇓ عبید الله بن زیاد نے چھڑی سے حسین رضی الله عنہ کے چہرے پر مارا؟ کیا متن صحیح ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/مشجرات-صحابہ/
Yeh kis hadith ya tareekhi riwayt se pta chlta hai k hazrat Ali r.a ne hazrat hassan ko khalifa kiya.
Hazrat ali otlr maviya mn basic ikhtalaf qatileen e usmanka badla tha jis pr bad mn hassan ne b khilaft chori lekin vadla to maviya r.a ne b nahi lia.
اس کا جواب شیعہ دیتے ہیں
http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=23&lid=4&mid=316834&catid=28051
اہل سنت کی کتابوں میں امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت
سوال: اہل سنت کی کتابوں میں امام حسن (علیہ السلام) کے خلیفہ بننے کو کس طرح بیان کیا گیا ہے ؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: علمایے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں مختلف عبارات کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے :
١۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے : جس وقت حضرت علی (علیہ السلام) کی رحلت ہویی تو عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب لوگوں کے پاس آیے اوران سے مخاطب ہو کر فرمایا : یقینا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دنیا سے چلے گیے اور اپنا جانشین چھوڑ کر گیے ہیں ، اگر تم ان کی دعوت کو قبول کرو گے تو وہ تمہارے پاس آییں گے اور اگر تم پسند نہیں کرتے تو کویی بھی تمہیں کسی دوسرے پر مجبور نہیں کرے گا ، لوگوں نے رونا شروع کردیا اور کہا : وہ ہمارے پاس آییں ، حسن (علیہ السلام) داخل ہویے اور ان کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا : ” ایّها الناس! اتّقوا الله فانّا امراءکم و انّا اهل البیت الذین قال الله فینا: (اِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً) فبایعه الناس…” (١) ۔ اے لوگو ! خدا سے ڈرو ، یقینا ہم تمہارے امیر ہیں اور ہم ایسے اہل بیت ہیں جن کے لیے خداوندعالم نے فرمایا ہے : اے اہل بیت ،خداوند عالم چاہتا ہے کہ صرف تم سے رجس و پلیدی کو اس طرح دور کردے جو پاک کرنے کا حق ہے ۔ پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی …۔
٢۔ ابن عباس نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : “ھذا ابن بنت نبیکم و وصی امامکم فبایعوہ ” (٢) یہ تمہارے نبی کی بیٹی کے فرزند ہیں اور تمہارے وصی او ر امام ہیں لہذا تم ان کی بیعت کرو ۔
٣۔ ابن ابی الحدید نے خلافت کے متعلق کہا ہے : “وعھد بھا الی الحسن (علیہ السلام) عند موتہ” (٣) امام علی (علیہ السلام) نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کے لیے عہد لیا ۔
٤۔ ھیتم بن عدی کہتے ہیں : “حدثنی غیر واحد مممن ادرکت من المشایخ : ان علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اصار الامر الی الحسن ” (٤) ۔ میں نے بعض مشایخ کو درک کیا ہے انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے امر خلافت کو حسن (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا تھا ۔
٥۔ جندب بن عبداللہ کہتے ہیں : علی (علیہ السلام) میرے پاس آیے ، میں نے عرض کیا : “یا امیرالمومنین ! ان فقدناک (فلا نفقدک ) فنبایع الحسن؟ قال : نعم ” (٥) ۔ اے امیرالمومنین ! اگر ہم آپ کو درک نہ کرتے (اور خدا ایسا دن نہ دکھلایے ) تو کیا حسن علیہ السلام کی بیعت کرتے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ۔
٦۔ ابوالفرج اور دوسروں نے نقل کیا ہے : جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت اور لوگوں کا امام حسن (علیہ السلام) کی بیعت کرنے کی خبر ابوالاسود کو ملی تو انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ میں کہا ” وقد اوصی بالامامه بعدہ الی ابن رسول اللہ ….” (٦) ۔ یقینا انہوں نے اپنے بعد رسول خدا (ص) کے فرزند امام حسن (علیہ السلام) کی وصیت کی تھی …۔
٧۔ مسعودی نے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : ” و انی اوصی الی الحسن و الحسین فاسمعوا لھما و اطیعوا امرھما ” (٧) ۔ یقینا میں حسن و حسین کو وصیت کرتا ہوں لہذا ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنو اور ان کی اطاعت کرو (٨) ۔
حوالہ جات:
1. شرح ابن ابى الحدید، ج 4، ص 8 ; الاغانى، ج 6، ص 121.
2. شرح ابن ابى الحدید، ج 16، ص 30 ; الفصول المهمة، ص 46.
3. شرح ابن ابى الحدید، ج 1، ص 57.
4. عقد الفرید، ج 4، ص 474 و 475.
5. مناقب خوارزمى، ص 278.
6. الأغانى، ج 6، ص 121.
7. اثبات الوصیة، ص 152.
8. اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 29.
——
اسلام میں مرنے والا خلیفہ اپنا جانشیں مقرر کرتا رہے ہے مثلا
ابو بکر نے عمر کو منتخب کیا
عمر نے کمیٹی کو اختیار دے دیا کیونکہ وہ زخمی تھے کبھی بھی انتقال ہو سکتا تھا اس وجہ سے کیا
عثمان کا قتل ہوا
علی بھی زخمی ہوئے اور انتقال سے قبل حسن کو خلیفہ کیا یہ مشہور و قبول کیا گیا ہے اس میں اہل سنت اور شیعہ کو شک نہیں ہے
https://youtu.be/OZhZfv7Fo6g
Is pr apki rae kia hai
ان صاحب نے جو تقریر کی وہ اور لوگوں کی طرح کئی مفروضوں پر مبنی ہیں
اول یہ کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں اسلام سے پہلے سے چپقلش چلی آ رہی تھی
دوم قتل عثمان صرف کسی سبائی سازش کی وجہ سے ہوا
سوم خوارج تمام کے تمام اصحاب رسول کو کافر کہتے تھے
چہارم علی خلافت نہیں چاہتے تھے
پنجم معاویہ کی خلافت خلافت راشدہ نہ تھی ؟
ششم کبار صحابہ رخصت ہو چکے؟
————-
یہ مفروضے ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے
صحیح میرے نزدیک ہے
اول بنو ہاشم اور بنو امیہ میں اسلام سے قبل کوئی اختلاف نہ تھا عبد المطلب اور ابو طالب کی تمام قریش عزت کرتے تھے
دوم عثمان کا قتل چند اصحاب رسول اور ان کے بیٹوں نے کیا تھا جن میں بیعت رضوان والے دو اصحاب رسول کا نام ہے اور ابو بکر کے صلبی بیٹے کا بھی نام ہے یہ لوگ سبائی نہیں تھے یہ عثمان سے گورنروں کی تقرری پر اور بیت المال کی ذمہ داری پر اختلاف کر رہے تھے اور ان کو زبر دستی معزول کرنا چاہتے تھے
سوم تمام خوارج اصحاب رسول کو کافر نہیں کہتے تھے بہت بعد میں ان کا ایک فرقہ الازرقیہ نکلا جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتا تھا – لیکن وہ خوارج جو علی سے لڑے ان کے نزدیک اصحاب رسول گمراہ تھے احکام الہی کے حوالے سے کافر یا مشرک نہیں تھے – خوارج کے نزدیک علی نے احکام الہی پر عمل نہیں کیا باغیوں سے معاہدے کیے جو ان کے نزدیک صحیح نہیں تھا
چہارم علی شروع سے خلافت کے متمنی تھے اور عثمان کے قاتل علی کے ہمدرد تھے – علی کی جانب سے ان کو گورنر مقرر کیا گیا
ظاہر ہے علی اور عثمان میں سخت اختلافات ہو چکے تھے یہاں تک کہ علی نے قصاص عثمان کبھی بھی نہیں لیا
سبانی فتنہ تو ایک یہودی صوفی کا فتنہ ہے جس کا ایجنڈا علی کو یہودی روایت کے مطابق ہارون ثانی قرار دینا تھا
اس کے عقیدے کو روافض نے لیا لیکن علی نے اس کے پیروکاروں کو قتل کیا
پنجم معاویہ کی خلافت کو اہل سنت اس لئے خلافت راشدہ نہیں سمجھتے کیونکہ ایک راوی نے حدیث رسول گھڑ ان کو غیر ہدایت یافتہ قرار دیا ہے وہ روایت ہے خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت ہو گی
راقم کہتا ہے معاویہ نے بزور خلافت کیسے حاصل کی ؟ سب اہل سنت کی بکواس ہے
ششم یزید کی بیعت کے وقت میں اصحاب رسول میں ابو سعید الخدری ابو ہریرہ وغیرہ سب موجود تھے جو کبار اصحاب رسول ہیں
عبد الرحمان بن ابی بکر اور ابن عمر کا بیعت کی بات پر وقتی اعتراض تھا لیکن بعد میں خلافت پر بیعت کی
ہرقل کی سنت پر عمل علی نے کیا کہ حسن کو خلیفہ مقرر کیا لہذا عبد الرحمان کا قول تاریخا صحیح نہیں ہے
عبد الله بن عباس نے تو یزید کی بیعت کی اور حسین کو خروج سے منع کیا –
ابن زبیر نے یزید کی زندگی میں کوئی رد عمل نہیں کیا تھا انہوں نے خروج نہیں کیا
ابن زبیر اور یزید کے اختلافات کا ذکر تاریخ کا گاربج ہے جو مورخین نے نقل کیا ہے اسناد ضعیف ہیں اور تضادات ہیں اس کی
تفصیل کتاب قرن اول کی جنگوں میں موجود ہے
—————
سب سے پہلے ہم سب کو علم ہونا چاہیے کہ اسلام میں خروج کی شرعی حد کیا ہے
أهل سنت کہتے ہیں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا حرام ہے
خروج و فساد کی حد قرآن میں موجود ہے
اِنَّمَا جَزَآءُ الَّـذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوٓا اَوْ يُصَلَّبُـوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْـهِـمْ وَاَرْجُلُـهُـمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۚ ذٰلِكَ لَـهُـمْ خِزْىٌ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (33)
ان کی یہی سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
یہ فساد برپا کرنے کی سزا ہے وہ جو خروج کرے اس کے ساتھ یہی کیا گیا اب چاہے کوئی بھی ہو
بنو امیہ اور بنو عباس نے اسی حد کو جاری کیا ہے ہر خروج کرنے والے کا قتل ہوا ہے ان کو قتل یا سولی دی گئی ہے
معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی پر خارجی کی حد جاری کی ہے اس کو قتل کیا ہے
—————-
جب خلیفہ کی بیعت لی جا چکی ہو اور اس پر ٦ ماہ بھی گزر چکے ہوں تو خروج پھر وہ خروج ہے جس میں حد لگ جائے گی
حسین نے ٦ ماہ کے بعد خروج کیا ہے
حسین رضی اللہ عنہ اگر قتل نہ ہوتے بچ جاتے تو شرع میں حد موجود ہے الا یہ کہ وہ خروج سے توبہ کرتے اور یزید کے ہاتھ پر واپس بیعت کرتے لیکن اس میں ان کی تذلیل ہوتی
اگر ہم مان لیں کہ اہل عراق نے حسین کو دھوکہ سے قتل نہیں کیا شامیوں نے کیا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ
حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نتجہ کیا نکلے گا لہذا وہ لڑے اور قتل ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب حسین کے ساتھ ہوا انہوں نے اپنی طاقت و عصبیت کے غلط اندازے لگائے اور پھنس گئے
ابن عباس حبر امت کو اس کا انداز تھا کہ حسین کا اقدام کس قدر غیر سنجیدہ ہے
– المعجم الكبير از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ
(الطبرانی کبیر رقم2859 )
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت) سے مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا
تاریخ الاسلام از الذھبی کے محقق عمر عبد السلام التدمري کہتے ہیں أخرجه الطبراني (2782) رقم (2859) ورجاله ثقات، وهم رجال الصحيح.
اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگر ایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے جواب میں کہا: اگر میں وہاں یا وہاں قتل ہو جاؤں تو یہ مجھ کو اس سے محبوب ہے کہ میں مکہ کو حلال کر دوں- ابن عباس نے کہا تم نے پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا – طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں
ان روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے – سلّى نفسه کا مطلب اپنے اپ کو مشغول کرنا بھی ہو سکتا ہے- اس طرح سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ کا مطلب ہو گا ان کو اپنے آپ میں مشغول کروایا یہ اردو میں کہہ لیں ان کو اپنے پیچھے لگوایا – یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا
البدایہ و النہایہ از ابن کثیر اور تاريخ دمشق از ابن عساکر میں ایک روایت ہے جس میں ہے حسین نے ابن عباس سے اس کلام کے بعد کہا
إنّك شيخ قد كبُرتَ (مختصر تاريخ دمشق ، لابن منظور . (7 /142).)
بے شک ابن عباس تم اب بوڑھے ہو چکے ہو
یعنی حسین سوچ سمجھ کر نکلے اور واپس انے کا کوئی پلان نہ تھا اس لئے سب گھر والوں کو لے کر چلے گئے
مقرر کا تضاد دیکھیں ایک طرف کہتا ہے حسین اقتدار نہیں چاہتے تھے تو پھر خطوط کا تھیلا کیوں ساتھ تھا؟ پھر کہتا ہے قیصر کی سنت آ رہی تھی
تضاد بھری جذباتی باتوں سے حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا حسین اقتدار چاہتے تھے اسلام میں یہ کوئی برائی نہیں ہے – لیکن ٹیکنیکل غلطی ہے جب ،موقعہ گزر جائے تو خلافت کا دعوی نہیں کیا جاتا
یزید کے دور میں کیا دین بدلا گیا ؟ آج تک صحیح سند سے ایک قول نہیں
———
نوٹ
حسین رضی اللہ عنہ کیا واقعی صحابی ہیں ؟ صحابی کی تعریف ہے کہ اس نے رسول کی کوئی حدیث یاد رکھی ہو سنا ہو
وہ جنہوں نے رسول کو صرف دیکھا ان کو صحابی علم حدیث میں تسلیم نہیں کیا جاتا
لیکن حسین کے لئے اس اصول کو نہیں لگاتے جو تضاد ہے
اس کی وجہ ہے کہ معرکہ کو مزید رنگین بنایا جا سکے
آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ حسن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نہیں ہے ان کے بھائی حسن کی ایک روایت ہے وہ بھی شک ہے کہ منقطع ہے
ظاہر ہے تین چار سال کا بچہ روایت نہیں کر سکتا
علم حدیث کے تحت جب تک صحیح سند سے صحابی سماع کا ذکر نہ کرے وہ شخص صحابی نہیں ہے
حدیث میں اتا ہے ملک کاٹ کھانے والی ریاست بن جائے گا اور معاویہ کو ایک بادشاہ کہا جاتا ہے
یعنی جو شخص اپنی رعایا کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تھا اس کے دور میں ہونے والا جہاد جو غیر مسلموں سے کیا جاتا ہو گا وہ بھی حرام ہوا
اور اس لوٹ مار کے مال سے حسن و حسین خمس کھا کر کیسے جیتے رہے
اس بات نے مجھے بہت پریشان کیا ہوا ہے
امید ہے اپ رہنمائی کریں گے
اسلام کی تعلیم ہے کہ نہ صرف ظلم ممنوع ہے بلکہ اس کی مد لیا گیا مال بھی حرام ہے
جو ظالم بادشاہ ہو اس سے امت کی عصمت کا سودا کرنے والے حسن و حسین نہ تھے
لہذا معاویہ کے خلاف جو روایات گھڑی گئی ہیں ان میں یہ کاٹ کھانے والی روایت بھی ہے
اگر حسن و حسین نے کوئی مال معاویہ سے سودے بازی میں لیا تو یہ مال حرام تھا
چونکہ ان ہستیوں کے لئے یہ تصور بھی ممکن نہیں لہذا اصل حقیقت یہی ہے کہ معاویہ کی خلافت بر حق تھی جو ان کو حسن نے تحفتا دی
حمید بن مسلم کہتا ہے ابن سعد نے مجھے بلا کر اپنے اہل و عیال کے پاس بھیجا کہ کو خوش خبری سناؤں کہ اللہ نے فتح دی …. واپس آیا تو دیکھا ابن زیاد لوگوں سے ملنے دربار میں بیٹھا ہے اور تہنیت دینے لوگ ا رہے ہیں … میں بھی اندر گیا گیا دیکھتا ہوں کہ حسین کا سر سامنے ہے اور ابن زیاد اپنی چھڑی سے ان کے دانتوں کو کھٹکھٹاتا رہا زید بن ارقم نے کہا اس کو دانتوں سے ہٹا وحدہ لا شریک کی قسم رسول الله کو میں نے دیکھا اپنے ہونٹ ان دانتوں پر رکھ کر پیار کرتے تھے اور یہ کہنا تھا کہ سب بوڑھے لوگ پھوٹ کر رونے لگے ابن زیاد نے کہا الله تجھ کو رولائے تو بڈھا ہوا اور تیری عقل جاتی رہی واللہ میں تیری گردن ہی مار دیتا
کیا یہ صحیح واقعہ ہے؟
اس واقعہ کی سند تاریخ الطبري میں ہے
قَالَ أَبُو مخنف: حَدَّثَنِي سُلَيْمَان بن أبي راشد، عن حميد بن مسلم، قَالَ: دعاني عُمَر بن سَعْد فسرحني إِلَى أهله لأبشرهم بفتح اللَّه عَلَيْهِ وبعافيته، فأقبلت حَتَّى أتيت أهله، فأعلمتهم ذَلِكَ، ثُمَّ أقبلت حَتَّى أدخل فأجد ابن زياد قَدْ جلس لِلنَّاسِ، وأجد الوفد قَدْ قدموا عَلَيْهِ، فأدخلهم، وأذن لِلنَّاسِ، فدخلت فيمن دخل، فإذا رأس الْحُسَيْن موضوع بين يديه، وإذا هُوَ ينكت بقضيب بين ثنيتيه ساعة، فلما رآه زَيْد بن أَرْقَمَ: لا ينجم عن نكته بالقضيب، قَالَ لَهُ: اعل بهذا القضيب عن هاتين الثنيتين، فو الذى لا إله غيره لقد رأيت شفتي رَسُول الله ص عَلَى هاتين الشفتين يقبلهما، ثُمَّ انفضخ الشيخ يبكي، فَقَالَ لَهُ ابن زياد: أبكى اللَّه عينيك! فو الله لولا أنك شيخ قَدْ خرفت وذهب عقلك لضربت عنقك
اول اس کا راوی ابو مخنف سخت جھوٹا اگ لگانے والا شیعہ مشھور ہے
المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري میں تاریخ طبری کے محقق أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کہتے ہیں
سليمان بن أبي راشد، الأزدي، من السادسة، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
سلیمان بن ابی راشد میں اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا
دوسرے راوی پر کہتے ہیں
حميد بن مسلم، الأزدي – وقيل: الأسدي -، من الرابعة، من أصحاب المختار بن أبي عبيد، الثقفي، الكذاب، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
حمید بن مسلم کہا جاتا ہے اسدی ہے یہ مختار ثقفی کے اصحاب میں سے ہے اس کا ترجمہ نہیں ملا نہ اس کو جان سکا
یعنی اس کی سند میں دو مجھول ہیں
=======
اصل میں قاتلین حسین کو کوئی نہیں جنانتا تھا حتی کہ مختار ثقفی کذاب نے دعوی کیا کہ عراق میں اس کے دور میں جو عبد الملک کے اموی گورنر ہیں یہی قاتلین حسین ہیں اس طرح اس منحوس نے لوگوں کو قتل پر ابھآرا
حميد بن مسلم، الأزدي اسی قسم کے چھوڑو لوگوں میں سے ہے جو مختار ثقفی کا ساتھی ہے اور جھوٹی روایات گھڑ رہا ہے
طبری میں مندرجہ ذیل راوی بھی مختار کے ساتھ تھے
حميد بن مسلم، الأزدي – وقيل: الأسدي
الطفيل بن جعدة بن هبيرة
سعد بن مسعود الثقفي ایک صحابی ہیں جو المختار بن أبي عبيد الثقفي کے چچا ہیں اور مختار ثقفی ابن عمر رضی الله عنہ کا سالا ہے یہ مکہ میں ابن زبیر کے پاس آیا لیکن ابن زبیر سے اختلاف کر عراق گیا اور وہاں جھوٹ بولنے لگا لوگوں کو جمع کیا اور خروج کیا
مختار کے مطابق محمد بن حنفیہ امام ہیں جو ابن زبیر کی قید میں تھے محمد بن حنفیہ کا میلان بنو امیہ کی طرف تھا وہ ابن زبیر کی حمایت نہیں کر رہے تھے لہذا ابن زبیر نے سیاسی غلطی کی اور محمد کو قید کر دیا مختار نے عراق میں رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے دو دعوی کیے
ایک یہ کہ عراق میں موجود اموی قاتلین حسین میں سے ہیں
دوم محمد بن علی بن ابی طالب اصل امام ہیں جو مکہ میں ابن زبیر کے قیدی ہیں
لہذا محمد کو آزاد کرانا ہو گا
اس فرقہ کو کیسانیہ کہا جاتا ہے
مختار ایک کذاب تھا اس سے ظاہر ہے کہ خود اس سے قتل کرنے مصعب بن زبیر کی فوج میں حسین کے بھائی عبید اللہ موجود تھے یعنی علی رضی الله عنہ کے بیٹے مختار کے خلاف تھے اور اس سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے
خالد بن سمیر کہتے ہیں ایک دفعہ حجاج (بن یوسف) الفاسق نے منبر پر خطبہ دیا تو کہا:بے شک (عبداللہ) بن زبیر نے قرآن میں تحریف کی ہے۔تو (عبداللہ) بن عمر بولے:تو نے جھوٹ بولا ہے،نہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے اور نہ تو اس (تحریف) کی طاقت رکھتا ہے۔حجاج (غصے) سے بولا:چپ ہو جا اے بوڑھے! تو سٹھیا گیا ہے اور تیری عقل چلی گئی ہے۔
(ابن سعد ،٤/١٨٤وسندہ حسن)
(ابن سعد ،٤/١٨٤وسندہ حسن)
آپ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کی مرض وفات میں جب حجاج بن یوسف عیادت کے لیے آیا تو آپ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور حجاج سے کوئی بات نہیں کی حتی کہ وہ چلا گیا۔
(ابن سعد ١٨٦/٤ وسندہ صحیح،تاریخ دمشق ١٢٨/٣٣،١٢٩)
(معلوم ہوا کہ آپ کا حجاج کے پیچھے نماز پڑھنے کا عمل منسوخ ہے)
تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات نمبر ١ از حافظ زبیر علی زئی ،صفحہ نمبر ٣٣٥-٣٣٦
ان روایات سے متعلق اپ کیا کہتے ہیں
طبقات ابن سعد میں ہے
قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ قَالَ: خَطَبَ الْحَجَّاجُ الْفَاسِقُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ حَرَّفَ كِتَابَ اللَّهِ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: كَذَبْتَ كَذَبْتَ كَذَبْتَ. مَا يَسْتَطِيعُ ذَلِكَ وَلا أَنْتَ مَعَهُ. فَقَالَ لَهُ الْحَجَّاجُ: اسْكُتْ فَإِنَّكَ شَيْخٌ قَدْ خَرِفْتَ وَذَهَبَ عَقْلُكَ.
اس کی سند میں خالد بن سمير السدوسى البصرى ہیں اور بصرہ میں حجاج بن یوسف ایک متشدد گورنر تھے انہوں نے مخالفین کو نہیں چھوڑا اس بنا پر لوگ ان کو الفاسق کہتے بعض ظالم کہتے ہیں
ابن زبیر قرآن میں تحریف کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے لیکن وہ کیا بات تھی جس کی بنا پر حجاج نے ایسا کہا یہ بھی ہم تک نہیں پہنچی خواہ مخواہ اس قسم کے الزام نہیں لگائے جاتے
افسوس کہ تابعین نے ان الزامات کو نقل نہیں کیا اور ان کی وجوہات کو بیان نہیں کیا جن کی بنا پر حجاج کو ایسا کہنا پڑا
المسعودی کی روایت ہے کہ حجاج نے ابن زبیر کے لئے کہا
أَنَّهُ قَامَ إِلَى الحَجَّاجِ، وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: يَا عَدُوَّ اللهِ! اسْتُحِلَّ حَرَمُ اللهِ، وَخُرِّبَ بَيْتُ اللهِ
اے الله کے دشمن تو نے حرم الله کو حلال کیا اور بیت الله کو خراب کیا
یہ جھگڑا نہ صرف ابن زبیر سے حجاج کو ہے بلکہ ابن عباس کو بھی ہے وہ بھی تعمیر کعبہ کو بدلنے کے خلاف تھے
صحیح بخاری کے مطابق حجاج تو ابن عمر کی عزت کرتے تھے
ہم سے زکریا بن یحییٰ ابوالسکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن محاربی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن سوقہ نے سعید بن جبیر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں (حج کے دن) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا جب نیزے کی انی آپ کے تلوے میں چبھ گئی جس کی وجہ سے آپ کا پاؤں رکاب سے چپک گیا۔ تب میں نے اتر کر اسے نکالا۔ یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔ جب حجاج کو معلوم ہوا جو اس زمانہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے بعد حجاج کا امیر تھا تو وہ بیمار پرسی کے لیے آیا۔ حجاج نے کہا کہ کاش ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تو نے ہی تو مجھ کو نیزہ مارا ہے۔ حجاج نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اس دن ہتھیار اپنے ساتھ لائے جس دن پہلے کبھی ہتھیار ساتھ نہیں لایا جاتا تھا (عیدین کے دن) تم ہتھیار حرم میں لائے حالانکہ حرم میں ہتھیار نہیں لایا جاتا تھا۔
ابن عمر نے عبد الملک کی بیعت کی اور طبقات ابن سعد کی صحیح سند سے روایت ہے کہ خط لکھا
فَإِنِّي قَدْ بَايَعْتُ لِعَبْدِ اللهِ عَبْدِ المَلِكِ أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللهِ وَسُنَّةِ رَسُوْلِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ، وَإِنَّ بَنِيَّ قَدْ أَقَرُّوا بِذَلِكَ
پس میں نے امیر المومنین عبد الملک کی بیعت کی ہے سماع و اطاعت پر سنت الله اور سنت رسول پر جتنا حسب استطاعت ہو گا اور میرے بیٹے بھی اسی پر ہیں
شعيب الأرناؤوط سیر الاعلام النبلاء پر تعلیق میں ج ٣ ص ٢٣١ اس کی سند کو قوی کہتے ہیں
ابن عمر اور ابن زبیر میں بھی اختلاف تھا یہاں تک کہ صحیح مسلم کی روایت ہے ابن عمر نے مجمع میں ابن زبیر کی حرم کعبه میں لٹکتی لاش سے کلام کیا
السَّلَامُ عَلَيْكَ، أَبَا خُبَيْبٍ
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ
أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا
الله کی قسم میں نے تم کو اس سے منع کیا تھا
ایسا تین بار کہا
واقعی حجاج بہت اچھا آدمی تھا – اچھا دفاع کیا آپ نے ابو شہر یار بھائی
نیچے آپ نے جو کہا
======
ابن عمر اور ابن زبیر میں بھی اختلاف تھا یہاں تک کہ صحیح مسلم کی روایت ہے ابن عمر نے مجمع میں ابن زبیر کی حرم کعبه میں لٹکتی لاش سے کلام کیا
السَّلَامُ عَلَيْكَ، أَبَا خُبَيْبٍ
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ
أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا
الله کی قسم میں نے تم کو اس سے منع کیا تھا
ایسا تین بار کہا
======
پوری حدیث یه ہے صحیح مسلم کی
باب ذِكْرِ كَذَّابِ ثَقِيفٍ وَمُبِيرِهَا
باب: ثقیف کے جھوٹے اور ہلاکو کا بیان۔
حدیث نمبر: 6496
حدثنا عقبة بن مكرم العمي ، حدثنا يعقوب يعني ابن إسحاق الحضرمي ، اخبرنا الاسود بن شيبان ، عن ابي نوفل ، رايت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة ، قال : فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر ، فوقف عليه ، فقال : السلام عليك ابا خبيب ، السلام عليك ابا خبيب ، السلام عليك ابا خبيب ، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا ، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا ، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا ، اما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم ، اما والله لامة انت اشرها لامة خير ، ثم نفذ عبد الله بن عمر ، فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله ، فارسل إليه ، فانزل عن جذعه ، فالقي في قبور اليهود ، ثم ارسل إلى امه اسماء بنت ابي بكر ، فابت ان تاتيه فاعاد عليها الرسول لتاتيني او لابعثن إليك من يسحبك بقرونك ، قال : فابت ، وقالت : والله لا آتيك حتى تبعث إلي من يسحبني بقروني ، قال : فقال : اروني سبتي فاخذ نعليه ، ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها ، فقال : كيف رايتني صنعت بعدو الله ؟ قالت : رايتك افسدت عليه دنياه ، وافسد عليك آخرتك بلغني انك ، تقول له : يا ابن ذات النطاقين ، انا والله ذات النطاقين ، اما احدهما فكنت ارفع به طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وطعام ابي بكر من الدواب ، واما الآخر فنطاق المراة التي لا تستغني عنه ، اما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، حدثنا ” ان في ثقيف كذابا ، ومبيرا ، فاما الكذاب : فرايناه ، واما المبير : فلا إخالك إلا إياه ، قال : فقام عنها ، ولم يراجعها ”
ابونوفل سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ ہے) قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور اور لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دے کر اسی پر رہنے دیا تھا) یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان پر نکلے وہاں کھڑے ہوئے اور «السلام عليكم ياخبيب» (ابوخبیب کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی، خبیب ان کے بڑے بیٹے تھے اور ابوبکر اور ابو بکیر بھی ان کی کنیت تھی) «السلام عليك اباخبيب، السلام عليك اباخبيب» (اس سے معلوم ہو اکہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم! میں تو تم کو منع کرتا تھا اس سے (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناتے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم! وہ گروہ جس کے برے تم ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا: بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے)۔ یہ خبر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حجاج کو پہنچی۔ اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے مقبرہ میں پھنکوا دیا (اور مردود یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے انسان کہیں بھی گرے پر اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں)، پھر حجاج نے ان کی ماں سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا، انہوں نے حجاج کے پاس آ نے سے انکار کیا۔ حجاج نے، پھر بلا بھیجا اور کہا: تم آتی ہو تو آؤ، ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر لائے (اللہ سمجھے اس مردود سے جس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن سے ایسی بے ادبی کی) انہوں نے تب بھی آنے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھنیچتا ہوا مجھ کو لائے۔ آخر حجاج نے کہا: میرے جوتے لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہو اچلا یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: تم نے دیکھا، اللہ کی قسم! میں نے کیا کیا اللہ تعالیٰ کے دشمن سے (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو کہا: ورنہ وہ مردود خود اللہ کا دشمن تھا)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے دیکھا تو نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی۔ میں نے سنا ہے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہتا تھا دو کمربند والی کا بیٹا۔ بیشک اللہ کی قسم! میں دو کمربند والی ہوں ایک کمربند میں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو نہ کھا لیں اور ایک کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے۔ (سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لیے تھے، ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا دسترخوان بنایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے تو یہ فضیلت تھی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی جس کو حجاج مردود عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کرنے کے لیے ان کو دو کمربند والی کا بیٹا کہتا تھا) تو خبردار رہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا تھا: ”ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو۔“ تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں نہیں سمجھتی سوائے تیرےکسی کو۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہو ا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو کچھ جو اب نہ دیا۔
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/Sahih-Muslim-.php?hadith_number=6496
الله حجاج کو اس کا اجر ضرور دے – امین
ابو شہر یار بھائی پلیز اس کو ڈیلیٹ نہ کریں – اور میرے کومنٹ کو شامل کر دیں
اگرچہ میں نے صحیح مسلم کی اس روایت کا ذکر کیا تھا لیکن بعد میں اس کو رد کیا
صحیح مسلم کی اس روایت کے مطابق نہایت بدکلامی ہوئی اور حجاج نے تمام حدود پھلانگ دیں اس کے علاوہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابن زبیر کا جسد ایک یہودی قبرستان میں پھینک دیا گیا یعنی ان کی لاش کی تدفین نہ ہوئی – راقم کہتا ہے روایت عجیب متن والی ہے تاریخا غلط ہے مکہ میں یہود کبھی نہیں رہے اور نہ ہی وہاں ان کا کوئی قبرستان تھا
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ السِّمْطِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” سَيَكُونُ أُمَرَاءُ بَعْدِي يَقُولُونَ، مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ
ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا
میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے وہ عمل کریں گے جن کا حکم نہیں ہو گا اور وہ نہیں کریں گے جن کا حکم دیا ہو گا تو ان سے جو ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن اور جو زبان سے جہاد کرے وہ مومن اور جو دل میں برا جانے وہ مومن اس کے بعد ایمان نہیں ہے
یہ معاویہ کے لئے ہے
اس روایت میں ابہام ہے یہ فرد پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خود ہی فیصلہ کرے اور خروج کرے
سندا اس میں عطا بن یسار ہے جس کا سماع ابن مسعود سے نہیں ہے
ابن ابی حاتم المراسیل میں کہتے ہیں
إن عطاء لم يسمع من عبد الله بن مسعود
شعيب الأرنؤوط اس روایت کو صحیح کہتے ہیں شعيب الأرنؤوط دلیل دیتے ہیں کہ ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذِ بْنِ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ السِّمْطِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَّ اسْتَكْتَمَنِي أَنْ أُحَدِّثَ بِهِ مَا عَاشَ مُعَاوِيَةُ فَذَكَرَ عَامِرٌ قَالَ سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَهُوَ قَاضِي الْمَدِينَةِ قال: سمعت بن مَسْعُودٍ وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “سَيَكُونُ أُمَرَاءُ مِنْ بَعْدِي يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يقولون فمن جاهدهم بيده فهو مؤمن ومن جاهدهمذكر إِطْلَاقِ اسْمِ الْإِيمَانِ عَلَى مَنْ أَتَى جُزْءًا مِنْ بَعْضِ أَجْزَائِهِ
یعنی عطا نے کہا
عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَهُوَ قَاضِي الْمَدِينَةِ قال: سمعت بن مَسْعُودٍ
ان کا سماع ابن مسعود سے ہے
صحیح ابن حبان کی سند میں ہے مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَةَ نے کہا
قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَّ اسْتَكْتَمَنِي أَنْ أُحَدِّثَ بِهِ مَا عَاشَ مُعَاوِيَةُ
میں روایت کرتا ہوں اس کو چھپایا جب تک معاویہ زندہ ہے
معاوية بن إسحاق بْن طلحة کو اگرچہ بعض محدثین ثقہ کہتے ہیں لیکن أَبُو زُرْعَة کہتے ہیں : شيخ واه. بڈھا واہی ہے
امام بخاری نے اس کی سند سے صحیح میں صرف ایک روایت متابعة ذکر کی ہے اور امام مسلم نے کوئی روایت نہیں لی
راقم کہتا ہے روایت اس سند سے ضعیف ہے اور اس کی بنیاد پر سماع ثابت نہیں ہوتا لہذا شعیب اور البانی کا اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے
راقم کہتا ہے روایت صریح کذب ہے اس روایت کے متن میں ہے
صحيح موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان از البانی کے مطابق اس روایت کو سننے کے بعد
قال: فخرجَ ابن عمر وهو يُقلّب كفّه وهو يقول: ما كان ابن أُمّ عبد يكذب على رسول الله – صلى الله عليه وسلم
ابن عمر ہتھیلی کو بھینچتے ہوئے اٹھے اور کہہ رہے تھے ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود رضی الله عنہ) رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولتے
ہم کو صحیح بخاری کی روایات سے پتا ہے کہ ابن عمر نے معاویہ اور یزید کی بیعت کی اور صحیح مسلم سے پتا ہے کہ ابن عمر نے حرہ کے بلوائیوں کو بھی خروج سے منع کیا یہاں تک کہ عبد الملک بن مروان کی بیعت پر انتقال کیا
==========================================
اب روایات کا تضاد دیکھیں
اسی طرح مسند احمد کی ایک دوسری روایت کو بھی شعيب الأرنؤوط صحیح کہتے ہیں
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مُحْصِنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ (4) أُمَرَاءُ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ (5) ، فَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ كَرِهَ، فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَغِبَ (6) وَتَابَعَ “. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: ” لَا، مَا صَلَّوْا الصَّلَاةَ ”
ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسے امراء ہوں گے جن کو پہچانو اور انکار کرو گے پس جس نے انکار کیا وہ بَرِئَ ہوا اور جس نے کراہت کی وہ بچ کیا لیکن وہ جس نے رغبت کی اور تابع ہوا (؟ کلام میں حذف ہے) — لوگوں نے کہا اے رسول اللہ ہم ان سے قتال کریں؟ فرمایا نہیں بس نماز نہ پڑھو
دوسری میں الفاظ ہیں
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: ” لَا، مَا صَلَّوْا لَكُمُ الْخَمْسَ ”
پوچھا اے رسول الله ہم ان سے قتال کیوں نہ کریں ؟ فرمایا نہیں پس پانچ نماز نہ پڑھو
یعنی یہ اوپر والی سے متناقض ہے اور شعيب الأرنؤوط دونوں کو صحیح کہہ رہے ہیں
مسند احمد کی ایک اور روایت ہے اس کو بھی شعیب نے صحیح کہا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي أُبَيِّ ابْنِ امْرَأَةِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ امْرَأَةِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ أُمَرَاءُ يَشْغَلُهُمْ أَشْيَاءُ وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا، فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، ثُمَّ اجْعَلُوا صَلَاتَكُمْ مَعَهُمْ تَطَوُّعًا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسے امراء ہوں گے جو چیزوں میں مشغول ہو کر نماز موخر کر دیں گے اس کے وقت سے پس تم نماز وقت پر پڑھو پھر ان امراء کے ساتھ نفل کے طور پر
=======
اس کو نقل کرنے والے امام احمد خود اس کے خلاف موقف رکھتے ہیں
حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال أبي- في مرضه الذي مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.
ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو
امام احمد خلافت تیس سال ہے والی روایت کو صحیح سمجھتے تھے لیکن حکمرانوں کی اطاعت سے خروج کے خلاف تھے
==========
حسن و حسین کا عمل دیکھیں اگر یہ ظالم حکمران تھے تو ان سے خمس کا مال لینا مال ظلم تھا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا اور ساتھ حج کرنا کیا جائز ہوا
یہاں تک کہ حسن کی نماز جنازہ حسین نے ایک اموی گورنر سے پڑھوائی جبکہ حکم نبی تھا جو اپ نے بیان کیا
لہذا یہ روایات منکر ہیں
سلام علکیم . امید ہے کہ آپ خریت سے ہوں گے ایک سوال پوچھنا ہے کہ
قال أحمد بن إبراهيم الدورقي : قلت لعلي بن الجعد : بلغني أنك قلت : ابن عمر ذاك الصبي ، قال : لم أقل ، ولكن معاوية ما أكره أن يعذبه الله .
[ ص: 465 ] وقال هارون بن سفيان المستملي : كنت عند علي بن الجعد ، فذكر عثمان ، فقال : أخذ من بيت المال مائة ألف درهم بغير حق ، فقلت : لا والله ، ما أخذها إلا بحق .
کیا یہ روایات صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں؟
کیا علی بن جعد کو ثقہ مانا جاتا ہے کہ نہیں؟
الله آپ کو جزایۓ خیر دے امین
قال أحمد بن إبراهيم الدورقي : قلت لعلي بن الجعد : بلغني أنك قلت : ابن عمر ذاك الصبي ، قال : لم أقل ، ولكن معاوية ما أكره أن يعذبه الله .
تاريخ بغداد ” 11 / 364، و” الضعفاء ” للعقيلي لوحة 295، و” تهذيب الكمال ” لوحة 960.
أحمد بن إبراهيم الدورقي نے علی بن جعد سے کہا مجھ تک پہنچا کہ تم کہتے ہو ابن عمر وہ چھوکرا تو علی نے کہا میں نے ایسا نہیں کہا لیکن کہا معاویہ پر مجھے کوئی کراہت نہ ہو گی اگر الله اس کو عذاب دے
[ وقال هارون بن سفيان المستملي : كنت عند علي بن الجعد ، فذكر عثمان ، فقال : أخذ من بيت المال مائة ألف درهم بغير حق ، فقلت : لا والله ، ما أخذها إلا بحق
.” تاريخ بغداد ” 11 / 364، و” تهذيب الكمال ” لوحة 960.
هارون بن سفيان المستملي نے کہا میں علی بن جعد کے ساتھ تھا پس عثمان کا ذکر ہوا کہا اس نے بیت المال سے ایک ہزار درہم لئے بغیر حق کے میں نے کہا نہیں الله کی قسم انہوں نے جو لیا حق سے لیا
———-
سند ہے
أَخْبَرَنَا العتيقي، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُوسُف بْن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنَا العقيلي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن الحسين، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن إِبْرَاهِيم الدورقي
امام علی بن جعد رافضی تھے اور امام بخاری کے استاد ہیں ان کی بڑھی ہوتی شیعیت تھی یہ بات علم جرح و تعدیل میں معروف ہے
اسی بنا پر اس اصول کا استخراج کیا گیا ہے کہ بدعتی کی روایت اس کی بدعت کے حق میں قبول نہیں کی جاتی
تحقیق درکار ہے
حدثنا حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : ” صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : ” اللهم عليك بمعاوية وأشياعه ، وعمرو بن العاص ، وأشياعه ، وأبي السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه ”
عبد الحمٰن بن معقل کہتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز حضرت علیہ السلام کے ساتھ پڑھی اور آپ علیہ السلام نے قنوت کیا اور قتوت میں یہ الفاظ کہے ” اے اللہ معاویہ اور اس کے گروہ ، عمرو بن العاص اور اس کے گروہ ، ابو السلمی اور عبداللہ بن قیس اور اس کے گروہ کو پکڑ لے ان کو برباد کر دے”
مصنف ابن أبي شيبة (ت: أسامة) ج 3 ح 7124 ص 245
المصنف (مصنف ابن أبي شيبة) (ط. الرشد) ج 3 ح 7116 ص 273
مصنف ابن أبي شيبة (ت: عوامة) ج 5 ح 7123 ص 43
ترجمہ صحیح نہیں ہے
حدثنا حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : ” صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : ” اللهم عليك بمعاوية وأشياعه ، وعمرو بن العاص ، وأشياعه ، وأبي السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه ”
میں نے علی کے ساتھ نماز فجر پڑھی اس میں قنوت کیا اور کہا اے الله معاویہ اور اس کا گروہ اور عمرو اور اس کا گروہ اور ابی السلمی اور عبد الله بن قیس کا گروہ اب (ان سے نپٹنا) تیرے اوپر ہے
قنوت دونوں جانب پڑھا جا رہا تھا دوسرا گروہ بھی قنوت پڑھ رہا تھا
اس میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ دونوں علی اور معاویہ ایک دوسرے کو خطا کار قرار دے رہے تھے
——–
فائدہ
علی کی دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ اللہ نے معاویہ اور ان کے گروہ کو باقی رکھا اور خود حسن بن علی نے ان کو امام تسلیم کیا
مروان بن حکم نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کر دیا ؟
دور عثمان کا واقعہ ہے جو اغلبا مدینہ میں وبا پھیلنے کی وجہ سے ہوا جس میں نکسیر پھوٹ رہی تھی اور عثمان رضی الله عنہ بھی بیمار تھے
خطبے کو نماز عید سے پہلے اضطراری حالات کی وجہ سے یہ کیا گیا ہو گا کہ جو بیمار ہیں وہ آرام سے نماز میں آ جائیں
آپ نے لکھا ہے کہ
سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے
حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: “اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: عُثْمَانُ وَقَالُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، قَالَ: فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔
یعنی یہ خطبہ کو پہلے کرنے کا واقعہ عثمان رضی الله عنہ کی بیماری کی وجہ سے پیش آیا جس میں اپ حج پر نہ جا سکے اور اتنے بیمار ہوئے کہ وصیت تک کر دی- عقبة بن عمرو بن ثعلبة الخزرجي، أبو مسعود البدري کی وجہ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور عثمان کا ہے اور مدینہ کا ہے تو خطبہ عید دینا عثمان رضی الله عنہ کا کام ہے مروان کا نہیں ہے – مروان کا یہ کام کرنا بطور علت ہے جس کی وجہ نکسیر پھوٹنے کی بیماری ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی
=================
یہاں آپ کو صحیح مسلم کی حدیث پیش کر رہا ہوں جس میں ہے کہ
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
باب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الإِيمَانِ وَأَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَأَنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ
باب: اس بات کا بیان کہ بری بات سے منع کرنا ایمان کی علامت ہے، اور یہ کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر دونوں واجب ہیں۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة كلاهما، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، وهذا حديث ابي بكر، قال: اول من بدا بالخطبة يوم العيد، قبل الصلاة، مروان، فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال ابو سعيد : اما هذا فقد قضى ما عليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” من راى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الإيمان ”
طارق بن شہاب سے روایت ہے، سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفائے بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: خطبہ سے پہلے نماز پڑھنی چاہئیے۔ مروان نے کہا: یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابوسعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا حق ادا کر دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلاف شرع) کام کو دیکھے تو اس کو مٹا دے اپنے ہاتھ سے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی (دل میں اس کو برا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے۔“
یہ سنن ترمزی میں بھی آیا ہے
http://mohaddis.com/View/Tarimdhi/2172
مصنف عبد الرزاق میں ہے
ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
یوسف نے کہا جس نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کیا وہ عمر ہیں جب دیکھا کہ لوگ کم ہو گئے ہیں
تاریخ أبي زرعة الدمشقي میں ہے
حدثنا خلف بن هشام المقرئ قال: حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال: غدوت مع يوسف بن عبد الله بن سلام في يوم عيد، فقلت له: كيف كانت الصلاة على عهد عمر ؟ قال: كان يبدأ بالخطبة، قبل الصلاة ـ
يحيى بن سعيد نے کہا میں نے يوسف بن عبد الله بن سلام کے ساتھ عید کے دن پوچھا کہ عہد عمر میں عید کی نماز کیسی تھی ؟ کہا عمر بن خطاب خطبہ دیتے نماز عید سے پہلے
———-
اپ نے جو روایت پیش کی یہ ایک سند سے اتی ہے
قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ
طارق بن شہاب کی خبر مروان کے دور کی ہے جبکہ جو روایات میں نے نقل کیں یہ عمر کے دور کی بات ہے
اغلبا اس کی وجہ یہ ہے طارق بن شہاب صحابی نہیں اور اس نے دور عمر نہیں دیکھا
تحقیق درکار ہے – یہ حدیث اکثر چھپائی جاتی ہے یہ مختلف طرق سے آئ ہے – سارے طرق جو مرے علم میں آیے لکھ رہا ہوں – باقی آپ کو پتا ہو تو لکھ دیں – اس کو اکثر جگہوں پر چھپایا گیا ہے – وجہ آپ کو پڑھ کر پتا چل جایے گی
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 279 حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ 3
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَی إِلَی أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق ، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منادی نے آواز دی الصلوہ جامعہ (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جمع ہو گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بےشک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بےشک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
لنک
http://www.hadithurdu.com/02/2-3-279/
—————
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 280
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوسعید اشج، وکیع، ابوکریب، ابومعاویہ، یہ حدیث ان دو اسناد سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
________________________________
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 281
محمد بن رافع، ابومنذر، اسماعیل بن عمر، یونس بن ابواسحاق ہمدانی، عبداللہ بن ابی سفر، عامر، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ صاعدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک جماعت کو کعبہ کے پاس دیکھا باقی حدیث اسی طرح بیان فرمائی۔
________________________________
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 856
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي قُلْتُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَفْعَلَ وَنَفْعَلَ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
مسدد، عیسیٰ بن یونس، اعمش، زید بن وہب، عبدالرحمن بن عبدرب الکعبہ، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے امام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیدیا اور اس سے قلبی معاہدہ اقرار کرلیا تو حتی الامکان اس کی اطاعت کرے پس اگر کوئی دوسرا اس سے جھگڑا کرتا ہوا آئے تو اس دوسرے کی گردن مار ڈالو عبدالرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیا آپ نے خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ سنا ہے؟ فرمایا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے میں نے کہا کہ یہ آپ کے چچا زاد بھائی معاویہ ہیں جو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم یہ کام کریں وہ کام کریں فرمایا کہ اللہ کی اطاعت میں اس کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی والے حکموں میں اس کی نافرمانی کرو۔
________________________________
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 500
ہناد بن سری، ابومعاویہ، اعمش، زید بن وہب، عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما ہیں اور ان کے پاس لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ میں نے ان سے سنا وہ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہمراہ سفر میں تھے تو ہم لوگ ایک منزل پر اترے ہم میں سے کوئی تو اپنا خیمہ کھڑا کرتا اور کوئی تیر چلاتا تھا کوئی جانوروں کو گھاس کھلا رہا تھا کہ اس دوران رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منادی کرنے کے واسطے آواز دی کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ چنانچہ ہم سب کے سب جمع ہو گئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کھڑے ہو گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم کو خطبہ سنایا اور فرمایا مجھ سے قبل جو نبی گزرے ہیں ان پر لازم تھا کہ جس کام میں برائی دیکھے اس سے ڈرائے اور تمہاری یہ امت اس کی بھلائی شریعت میں ہے اور اس کے آخر میں بلا ہے اور قسم قسم کی باتیں ہیں جو کہ بری ہیں ایک فساد ہوگا پھر وہ ٹلنے نہیں پائے گا کہ دوسرا اٹھ کھڑا ہوگا ۔ جس وقت ایک فساد ہوگا تو مومن کہے گا کہ میں اب ہلاک ہوتا ہوں پھر وہ ختم ہو جائے گا اس وجہ سے تم میں سے جو چاہے دوزخ سے بچنا اور جنت میں جانا وہ میرے اللہ پر اور قیامت پر یقین کر کے اور لوگوں سے اس طریقہ سے پیش آئے جس طرح سے وہ چاہتا ہے کہ مجھ سے لوگ پیش آئیں اور جو شخص بیعت کرے کسی امام سے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے اور دل سے اس کے ساتھ اقرار کرے تو پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے کہ جہاں تک ہو سکے اب اگر کوئی شخص اٹھ کھڑا ہو جو اس امام سے جھگڑا کرے تو اس کی گردن مار دو۔ عبدالرحمن نے کہا کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے نزدیک آگیا اور میں نے ان سے دریافت کیا کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔
====================
آپ کو ایک مزے کی چیز بتاتا ہوں محدث فورم والوں نے احادیث کی ٦ کتابوں کی تمام احادیث پر ایک ویب سائٹ بنائی ہے اور ساتھ میں ان کی تخریج بھی پیش کی – وہاں ان ٦ کتابوں کی کسی بھی احادیث کو ڈھونڈا جا سکتا ہے وہاں انٹرنشنل نمبرنگ دی گئی ہے – جو وحید زمان صدیقی اور دارسلام کے پرنٹ کے مطابق ہے
اس ویب سائٹ پر بھی صحیح مسلم سے اس حدیث کو نکال دیا گیا ہے – ثبوت خود دیکھ لیں
link
http://mohaddis.com/View/Muslim/4776
لیکن اس کو سنن ابو داوود سےنکالنا بھول گیۓ
لنک
http://mohaddis.com/View/Abu-Daud/4248
الله ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق عطا کرے – امین
یہ روایت ایک ہی سند سے کتابوں میں ہے
عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ
اس میں یہ الفاظ کہ
فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ
پس کوئی آئے جو اس سے تنازع کرے تو اس کی گردن مار دو
سن نسائی اور سنن ابو داود میں ہیں
روایت صحیح نہیں ہے اس میں زید بن وھب الجھنی کا تفرد ہے جو علی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا اور اس نے باقی اصحاب رسول کے خلاف منکرات نقل کی ہیں
مثلا
عثمان سے محبت کرنے والے دجال کے ساتھ ہیں
عمر کہتے میں منافق ہوں
اور اب یھاں کہہ رہا ہے کہ ( معاویہ چونکہ علی کی ) جو مخالفت کر رہے ہیں ان کی گردن مار دو
خود اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو علی کے خلاف بھی بھڑاس نکالی کہ ان کو مردانہ اور زنانہ چادروں کا فرق تک نہ پتا تھا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک چادر عورتوں کے لئے علی کو دی تو انہوں نے خود اوڑھ لی اور رسول الله کو منہ دوسری طرف کرنا پڑا یہ صحیح مسلم کی روایت اسی زید الجھنی کی ہے
اس قسم کے فضول آدمی کی روایت قابل رد ہے اور یہ امام الفسوی نے خبردار کیا تھا لیکن ان کے ہم عصر محدثین نے مثلا ابو داود اور مسلم نے اس کی رویات لکھ دی ہیں
روایت میں کہا گیا ہے کہ امت کا شروع کا حصہ اچھا ہے اور بعد والا فتنہ میں ہے جبکہ شروع میں ہی فتنہ ہوا جس میں اصحاب رسول نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہزاروں لوگ قتل ہوئے عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم
اب اس حقیقیت کی تطبیق اس روایت سے ممکن نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو کلام نبوی قرار دیا جائے – روایت کو غور سے پڑھیں یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ زید خود آخری دور میں ہے کہ یہ معاویہ کا دور دور فتن ہے
زيد بن وهب عن عبد الرحمن بن عبد ربّ الكعِبة کی سند سے مختلف کتب میں صرف ایک یہی روایت ہے یعنی زید نے عبد الرحمان سے کوئی اور روایت نہیں سنی اور عبد الرحمان نے بھی یہ صرف اس کے کان میں پھونکی
یہ روایت اس دور کی ہے جب معاویہ رضی الله عنہ خلیفہ ہیں اور عبد الله بن عمرو مکہ میں ہیں یعنی علی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد کا واقعہ بتا رہا ہے اس انداز میں کہ اصحاب رسول سے غلطی ہوئی ان کو معاویہ کی گردن مار دینی چاہیے تھی – اگر ایسا ہے تو یہ غلطی کس نے کی؟ یہ غلطی خود علی رضی الله عنہ نے کی جنہوں نے معاویہ سے معاہدہ کر لیا
راقم کہتا ہے زید بن وھب ایک چھپا خارجی ہے اس کی سوچ کے پیمانے ان کے ہی جیسے ہیں یہاں تک کہ یہ علی کو بھی نہیں بخشتا
زید کہتا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ حرام کھانے کا حکم کرتے اور قتل نفس کرتے دلیل میں دو آیات سناتا ہے
مسند احمد میں ہے
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ} [النساء: 29
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
{لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ} [البقرة: 188]
صحیح مسلم میں ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29]
اب سوال یہ ہے کہ اس حرام کھانے والے خلیفہ سے حسن رضی الله عنہ کا معائدہ کہ ان کو اس لوٹ کے مال میں سے خمس دیا جائے کیا ہے کیا وہ حرام نہیں ہے ؟
یہ روایت سراپا اتہام ہے ال علی پر ، علی پر ، خلفاء رسول پر
اس زید کی ہر روایت کو غور سے دیکھا جائے کہ یہ چھپا خارجی کیا کر رہا ہے
6503 –
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page-4940
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ (1) الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ (2) ، إِذْ نَزَلَ (3) مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ (4) ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ: ” إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا دَلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَحَذَّرَهُمْ (5) مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ شَدِيدٌ، وَأُمُورٌ (6) تُنْكِرُونَهَا، تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ، تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ سَرَّهُمِنْكُمْ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَأَنْ يُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ ” قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ، آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَعْنِي، يَأْمُرُنَا بِأَكْلِ أَمْوَالِنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ} [النساء: 29] قَالَ: فَجَمَعَ يَدَيْهِ، فَوَضَعَهُمَا عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ نَكَسَ هُنَيَّةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: ” أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ” (1)
—— اور دوسری حدیث بھی مسند احمد سے ہے
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page-5290
6793 –
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ، قَالَ (3) : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرِهِ (4) ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةَ جَامِعَةً، قَالَ:فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ، وَيَقُولُ: ” أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، أَلَا وَإِنَّ عَافِيَةَ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَفِتَنٌ، يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ فَيَقُولُ: هَذِهِ هَذِهِ (1) ، ثُمَّ تَجِيءُ، فَيَقُولُ: هَذِهِ هَذِهِ، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَنِيَّتُهُ، وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَيَأْتِي إِلَى النَّاسِ (2) مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ ” وَقَالَ مَرَّةً: ” مَا اسْتَطَاعَ ” فَلَمَّا سَمِعْتُهَا أَدْخَلْتُ رَأْسِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ، قُلْتُ (3) : فَإِنَّ ابْنَ عَمِّكَ مُعَاوِيَةَ يَأْمُرُنَا؟ فَوَضَعَ جُمْعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ نَكَسَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: ” أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ “، قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ (4) ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي ” (5)
=====
ان دونوں احادیث کی اسناد تقریباً ایک جیسی ہیں – لیکن دونوں احادیث کے آخر میں متن میں فرق ہے
کیا یہ امام احمد سے غلطی ہوئی یا کتابت میں غائب کیا گیا متن
سنن ابن ماجہ میں بھی متن کم کیا گیا
لنک
http://mohaddis.com/View/ibn-majah/3956
اس میں ایک وکیع کی روایت ہے اور ایک ابو معاویہ کی ہے
ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات متن میں اختلاف یا الفاظ کی کمی بیشی ہوتی ہے
اسلام وعلیکم بھائی اک سوال ہے کہ جمعہ کی نماز میں دو آذان ۔۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو آذانیں دی گئیں ۔۔جو، اب دی جاتی ہیں ۔۔یہ کہاں سے ثابت ہے برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں
جمعہ کی ٢ اذان دور نبوی میں نہیں دی جاتی تھی
یہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شروع ہوئی ایک مسجد میں اور ایک کسی دور مقام پر دی جاتی تھی
پھر ہشام بن عبد الملک کے دور میں جمعہ کی تین اذان دی جاتی تھیں
لیکن مسجد النبی میں اندر صرف ایک ہی اذان ہوتی تھی
مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت ہوا لوگوں کو معلوم ہو جائے
مسئلہ یہ تھا کہ اذان کا وقت ہوا کس طرح معلوم ہو- جب نہ گھڑی تھی نہ لاوڈ اسپیکر تھا لہذا یہ حل نکلا کہ دو اذان دی جائیں
دین میں اگر کوئی نیا مسئلہ آئے تو قیاس کیا جا سکتا ہے لہذا عثمان رضی الله عنہ نے قیاس کیا اور اذان کو شروع کیا
——
ایک صحابی رسول نے اس کو بدعت بھی کہا ہے
⇓ کیا جمعہ کے دن اضافی اذان بدعت ہے اور کیا تراویح بدعت ہے ؟ کیا اجتہاد کر کے بدعات کو کیا جا سکتا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/بدعات/
⇓ کیا عبد اللہ بن عمر سے بسند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے آذان عثمان کو بدعت کہا ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/بدعات/
لاؤڈ اسپیکر کی غیر موجودگی میں ٢ یا تین اذان دی جا سکتی ہیں – سنت عثمان رضی الله عنہ کے تحت
Kya bibi fatima r.a or abu bakr r.a mn warast ka masla hall hogya tha kyA saddiq e akber r.A mn bibi ki wafat se phle mafi mang li thi…. Wazeh kr dein
یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تھا یہاں تک کہ فاطمہ رضی الله عنہا کی وفات ہوئی ایسا صحیح بخاری میں ہے
ان کی وفات کے بعد دور عمر میں یہ باغات فدک علی کو دیے گئے
Murlb azrat abu bar ne maafi ni mangi thi….log es sisaly mn koi riwayt b laty hai k maafi tallafi hazrat fatima se hogi thi
جی کوئی معافی نہیں مانگی گئی – اس پر روایت کا علم نہیں ہے
اپ کے علم میں ہو تو یہاں نقل کر دیں
اصل میں اہل بیت النبی اور شیخین کا اس پر اختلاف ہوا اس کی تفصیل یہاں ہے کہ ایسا کیوں ہوا
⇑ اہل بیت، حقوق اور ان کی ذمہ داریاں
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/
باب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا
باب: بیع صرف اور سونے کی چاندی کے ساتھ نقد بیع۔
باب سے متعلقہ تمام احادیث دیکھیں
حدیث نمبر: 4061
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، قال : كنت بالشام في حلقة فيها مسلم بن يسار ، فجاء ابو الاشعث ، قال : قالوا : ابو الاشعث ، ابو الاشعث ، فجلس فقلت له : حدث اخانا حديث عبادة بن الصامت ، قال : ” نعم غزونا غزاة وعلى الناس معاوية ، فغنمنا غنائم كثيرة ، فكان فيما غنمنا آنية من فضة فامر معاوية رجلا ان يبيعها في اعطيات الناس ، فتسارع الناس في ذلك ، فبلغ عبادة بن الصامت فقام ، فقال : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم : ينهى عن بيع الذهب بالذهب ، والفضة بالفضة ، والبر بالبر ، والشعير بالشعير ، والتمر بالتمر ، والملح بالملح إلا سواء بسواء ، عينا بعين ، فمن زاد او ازداد ، فقد اربى فرد الناس ما اخذوا ، فبلغ ذلك معاوية فقام خطيبا ، فقال : الا ما بال رجال يتحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم احاديث قد كنا نشهده ونصحبه ، فلم نسمعها منه ، فقام عبادة بن الصامت فاعاد القصة ، ثم قال : لنحدثن بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وإن كره معاوية او قال : وإن رغم ما ابالي ان لا اصحبه في جنده ليلة سوداء ” ، قال حماد : هذا او نحوه ،
ابوقلابہ سے روایت ہے، میں شام میں چند لوگوں کے بیچ میں بیٹھا تھا اتنے میں ابوالاشعث آیا لوگوں نے کہا: ابوالاشعث، ابوالاشعث۔ وہ بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا: تم میرے بھائی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرو اس نے کہا: اچھا ہم نے ایک جہاد کیا اس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سردار تھے تو بہت چیزیں لوٹ میں حاصل کیں ان میں ایک برتن بھی تھا چاندی کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اس کے بیچنے کا لوگوں کی تنخواہ پر اور لوگوں نے جلدی کی اس کے لینے میں۔ یہ خبر سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو پہنچی وہ کھڑے ہوئے اور کہا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کرتے تھے سونے کو سونے کے بدلے میں بیچنے سے اور چاندی کو چاندی کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے مگر برابر برابر نقدا نقد پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو «ربا» ہو گیا۔“ یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا پھیر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی وہ خطبہ پڑھنے لگے کھڑے ہو کر، کیا حال ہے لوگوں کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، پھر عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا بعد اس کے کہا: ہم تو وہ حدیث ضرور بیان کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا معلوم ہو یا کہا: خواہ ان کی ناک خاک آلود ہو ۔۔ مجھے پروا نہیں کہ میں ان کے لشکر میں ان کے ساتھ ایک سیاہ رات بھی نہ رہوں۔ حماد نے کہا: یہ (کہا: ) یا اس کے ہم معنی۔
————-
یعنی لوگوں نے چاندی کے برتنوں کو اپنے دوسرے عطیات یا وظائف کے بدلے حاصل کیا اس پر عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نے جرح کی کہ چاندی کا برتن، چاندی کے برتن سے ہی بدلا جا سکتا ہے کسی وظیفہ یا عطیہ سے نہیں
اس بنا پر آج بھی سونا چاندی روپیہ سے خریدنا صحیح نہیں
سنن النسائي: كِتَابُ الْبُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ) سنن نسائی: کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل (باب: سونے کی بیع سونے کے ساتھ کرنا)
4576 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ
حکم : صحیح 4576
حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے یا چاندی کا ایک برتن اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض خریدا۔ حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جیسے سودے سے منع فرماتے سنا الا یہ کہ دونوں کا وزن برابر ہو۔
========
سنن ابن ماجه: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ) سنن ابن ماجہ: کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت (باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان)
18
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ قَبِيصَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةً فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ فَقَالَ عُبَادَةُ أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا وَأَمْثَالُكَ وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ لَا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ وَاحْمِلْ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ
حکم : صحیح
عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎“، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابوالولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ابوالولید! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں“، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں دینار و درہم بھی استمعال ہوتا تھا جو سونے یا چاندی کا تھا
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ الْجُلَاحِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي حَنَشٌ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ، نُبَايِعُ الْيَهُودَ الْوُقِيَّةَ الذَّهَبَ بِالدِّينَارَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، إِلَّا وَزْنًا بِوَزْنٍ
فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے دن (سن ٦ ہجری) تھے ہم نے یہود سے سونا کا وقیہ دو یا تین دینار کے بدلے خریدا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا سونے کو سونے سے نہ بیچو الا یہ کہ ایک وزن ہو
معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں لوگوں کو درہم کی صورت عطیات یا وظائف ملتے تھے
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: كُنْتُ بِالشَّامِ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، فَجَاءَ أَبُو الْأَشْعَثِ، قَالَ: قَالُوا: أَبُو الْأَشْعَثِ، أَبُو الْأَشْعَثِ، فَجَلَسَ، فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْ أَخَانَا حَدِيثَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْنَا غَزَاةً وَعَلَى النَّاسِ مُعَاوِيَةُ، فَغَنِمْنَا غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَكَانَ فِيمَا غَنِمْنَا آنِيَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَأَمَرَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا أَنْ يَبِيعَهَا فِي أَعْطِيَاتِ النَّاسِ، فَتَسَارَعَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ، فَبَلَغَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، فَقَامَ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، عَيْنًا بِعَيْنٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى»، فَرَدَّ النَّاسُ مَا أَخَذُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا مَا بَالُ رِجَالٍ يَتَحَدَّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ قَدْ كُنَّا نَشْهَدُهُ وَنَصْحَبُهُ فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُ، فَقَامَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَأَعَادَ الْقِصَّةَ، ثُمَّ قَالَ: ” لَنُحَدِّثَنَّ بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ كَرِهَ مُعَاوِيَةُ – أَوْ قَالَ: وَإِنْ رَغِمَ – مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَصْحَبَهُ فِي جُنْدِهِ لَيْلَةً سَوْدَاءَ “، قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ،
ابِي قِلَابَةَ کہتے ہیں ہم شام میں ایک حلقہ میں تھے جس میں مسلم بن یسار تھے پس اَبُو الْأَشْعَثِ آئے ہم نے کہا ا َبُو الْأَشْعَثِ، اَبُو الْأَشْعَثِ بیٹھیئے پس وہ بیٹھے ہم نے ان سے کہا کوئی حدیث جو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ سے سنی ہو بیان کریں پس بولے ہاں ہم نے غزوات میں حصہ لیا اور معاویہ لوگوں پر امیر تھے اور ہمارے پاس بہت غنیمت آئی یہاں تک کہ کچھ تھے جن کے پاس چاندی کے برتن تھے معاویہ نے ایسوں کو حکم دیا کہ کہ وہ ان کو عطیات کے بدلے خرید لیں جس کو لوگوں نے جلدی جلدی کیا – اس کی خبر عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ کو ہوئی پس وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے منع کیا ہم کو سونے کو سونے سے خریدنے اور چاندی کو چاندی سے اور گندم کو گندم سے اور جو کو جو سے اور کھجور کو کھجور سے اور نمک کو نمک سے سوائے یہ کہ (کوالٹی میں) برابر ہوں ایک ہی قسم سے ہوں، پس اس سے اوپر سود ہے – پس لوگوں نے یہ سن کر لوٹا دیا جو لیا اس کی خبر معاویہ رضی الله عنہ کو ہوئی انہوں نے خطبہ دیا اور کہا لوگوں کو کیا ہوا کہ رسول الله سے منسوب ایسی حدیثیں روایت کرتے ہیں ہم نے بھی ان کو دیکھا ساتھ گزارا ہم نے تو یہ سب نہ سنا اس پر عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا پھر کہا ہم جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنتے ہیں وہی بیان کرتے ہیں چاہے معاویہ کو برا لگے ..
یعنی لوگوں نے چاندی کے برتنوں کو اپنے دوسرے عطیات یا وظائف کے بدلے حاصل کیا اس پر عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نے جرح کی کہ چاندی کا برتن، چاندی کے برتن سے ہی بدلا جا سکتا ہے کسی وظیفہ یا عطیہ سے نہیں
معاویہ رضی الله عنہ کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی لہذا ان کا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ سے اختلاف ہوا
صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ) صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا)
480 .
وَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ أَبِي، فَلَمْ أَحْفَظْهُ، فَقَوَّمَهُ لِي وَاقِدٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَيْفَ بِكَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ بِهَذَا»
حکم : صحیح 480 .
اور عاصم بن علی نے کہا، ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو اپنے باپ محمد بن زید سے سنا۔ لیکن مجھے حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ تو میرے بھائی واقد نے اس کو درستی سے اپنے باپ سے روایت کر کے مجھے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے اس طرح ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں کر کے دکھلائیں
—
یہاں جو بیان
عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے
سنن دارمی میں ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بَيَانٍ هُوَ ابْنُ بِشْرٍ الْأَحْمَسِيُّ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ مِرْدَاسٍ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَذْهَبُ الصَّالِحُونَ أَسْلَافًا، وَيَبْقَى حُثَالَةٌ كَحُثَالَةِ الشَّعِيرِ
مِرْدَاسٍ الْأَسْلَمِيِّ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صالحین چلے گئے اور کوڑا رہ گیا جیسے جو کی بھوسی
اس قول کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک اجمالی قول ہے کہ آہستہ آہستہ دین بدلتا جائے گا
———
وقال أبو زرعة الدمشقي: قال أحمد بن حنبل: مات عبد الله بن عمرو ليالي الحرة، في ولاية يزيد بن معاوية. قال: وكانت الحرة يوم الأربعاء لليلتين بقيتا من ذى الحجة سنة ثلاث وستين. «تاريخه» (242)
عبد الله بن عمرو کی حرہ کی راتوں میں یزید بن معاویہ کے دور میں وفات ہوئی جب وہاں بغاوت ہوئی جو سن ٦٣ میں ذو الحجه میں بدھ کے دن ہوا جب دو راتیں اس ماہ میں باقی تھیں
ان شواہد کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حرہ کی بغاوت کرنے والے مراد ہیں جن میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ پھنس گئے
ابن عمر رضی الله عنہ کی بھی کچھ ایسی ہی رائے تھی
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے
عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر، عبد الله بن مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا
عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ باغیوں کا لیڈر تھا
آپ نے اپنے تھریڈ میں ایک حدیث کی تحقیق کی ہے
معاویہ-و-یزید-کے-خلاف-چارج-شیٹ
https://www.islamic-belief.net/%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%88%DB%8C%DB%81-%D9%88-%DB%8C%D8%B2%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%DA%86%D8%A7%D8%B1%D8%AC-%D8%B4%DB%8C%D9%B9/
مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى» ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن شُعْبَةَ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
اس کی سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة ہے جس کا حال مجھول ہے
مستدرک الحاکم میں اس کی دوسری سند ہے جس کو حاکم صحیح کہتے ہیں
عمرو بن محمد بن أبي رزين الخزاعي، عن شعبة، عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه قطبة بن مالك
——
ابو شہر یار بھائی اسے حاکم اور پھر الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ شعیب الارنؤوط نے مسند احمد کے حاشیہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔حتی کہ شیخ البانی نے بھی اسے ‘سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح روایت ہے۔
کیا یہ ان لوگوں کی جہالتیں نہیں جب گالیاں دی ہی نہیں جاتی تھیں تو صحیح کہنے کا کیا مطلب بنتا ہے – الله ہمیں ایسی جاہلیت سے بچا ے – امین
یہ لوگ
Pro Ali – Anti Maaviah
ہیں
میں
Neutral
ہوں
——-
جب سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة مجہول ہے تو یہ ان کے نزدیک صحیح ہو گی میرے نزدیک بے کار ہے
بھائی میں نے کب کہا کہ ایسا کیا جا رہا تھا – ایسا تو امام ذھبی لکھ رہے ہیں – ہو سکتا ہے کہ میرے سمجھنے میں غلطی ہو ابو شہر یار بھائی – میں آپ سے متفق ہوں
لیکن علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی ‘تاریخ ابوالفداء میں بھی لکھ رہے ہیں
وكان الذي طلبه الحسن أن یعطیه ما في بیت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا یسب علیاً فلم یجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا یشتم علیاً وھو یسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم یف له به
اور ابن کثیر اپنی کتاب ‘البدایہ و النہایہ میں بھی لکھ رہے ہیں
فاشترط أن یأخذ من بیت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درھم، وأن یكون خراج دار أبجرد له، وأن لا یسب علي وھو یسمع
امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں
وقد كان صالح الحسن معاویة على أن جعل له ما في بیت ماله وخرج دارا بجرد على ألا یشتم علي وھو یسمع فأخذ ما في بیت ماله
کتاب ‘تاریخ ابن خلدون میں ہے
فكتب إلى معاویة یذكر له النزول عن الأمر على أن یعطیه ما في بیت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و یعطیه خراج دار ابجرد من فارس و ألا یشتم علیا و ھو یسمع
ابن عساکر نے ‘تاریخ الدمشق’ میں امام حسن رضی الله اور
معاویہ رضی الله کے درمیاں صلح کی شرائط مندرجہ ذیل سند سے نقل کرتے ہیں
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسین بن محمد بن سعد أنا أبو عبید عن مجالد عن الشعبي وعن یونس بن أبي إسحاق عن أبیه وعن أبي السفر وغیرھم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا یسب علي وھو یسمع وان یحمل إلیه خراج فسا ) 3 ( ودار ابجرد ) 4 ( من ارض فارس كل عام
بھائی ان تمام لوگوں نے جو شرط بیان کی وہ ہے
——–
حسن کے سامنے علی کو گالی نہیں دی جائے گی کہ وہ سن رہے ہوں
———
غور کریں سن رہے ہوں کے الفاظ ہیں اس کا مطلب ہے کہ حسن کا مذاق اس انداز میں نہیں اڑایا جائے گا جس سے حسن کی تحقیر ہو- حسن نے علی کے حوالے سے کچھ منع نہیں کیا انہوں نے اپنی عزت نفس کا معاہدہ کیا – یعنی جس کو جو کہنا ہے کہے لیکن ان کے منہ پر نہیں
یہ ہے سادہ بات
ابو شہر یار بھائی بات اگر اتنی سادہ ہے تو انہی لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے
محمد بن سعد نے اپنی کتاب الطبقات الکبری اور امام ذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ
أخبرنا علی بن محمد عن لوط بن یحیى الغامدی قال کان الولاة من بنی أمیة قبل عمر بن عبد العزیز یشتمون علیا رحمه الله فلما ولی عمر أمسک عن ذلک
—
فی آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزیز
سیر اعلام النبلاء
—
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی کتاب ‘ تاریخ أبی الفداء ، فصل فی ذکر إبطال عمر بن عبد العزیز سب علی بن أبی طالب علی المنابرمیں لکھتے ہیں کہ
کان خلفاء بنی أمیة یسبون علیاً رضی الله عنه من سنة إِحدى وأربعین وهی السنة التی خلع الحسن فیها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعین آخر أیام سلیمان بن عبد الملک فلما ولی عمر أبطل ذلک وکتب إِلى نوابه بإبطاله
میں ایک بات پھر کہوں گا کہ
کیا یہ ان لوگوں کی جہالتیں نہیں جب گالیاں دی ہی نہیں جاتی تھیں تو عمر بن عبد العزیز پراس کو بند کروانے کا الزام لگانے کا کیا مطلب بنتا ہے – الله ہمیں ایسی جاہلیت سے بچا ے – امین
یہ سب ان کی جہالت ہی ہے کیونکہ قول کی سند میں لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الأزدي الغامدي، أبو مخنف ہے
اس کے بارے میں الذھبی نے خود میزان میں لکھا ہے اس کی توثیق نہیں ہے
تركه أبو حاتم وغيره.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال ابن معين: ليس بثقة.
وقال – مرة: ليس بشئ.
وقال ابن عدي: شيعي (1) محترق، صاحب أخبارهم.
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں لکھا ہے
لوط بن يحيى، أبو مخنف: متروك، وقال الدارقطني: ضعيف
تاریخ اسلام میں لکھا ہے
قَالَ ابْنُ مَعِينٍ: لَيْسَ بِثِقَةٍ.
وَقَالَ أَبُو حاتم: متروك الحديث.
وقال الدارقطني: أخباري ضعيف.
– الله ہمیں ایسی جاہلیت سے بچا ے – امین
ابن حزم اندلسی بھی اس جاہلیت میں پیچھے نہیں ہیں ابو شہر یار بھائی
ابن حزم اندلسی اپنی کتاب رسائل ابن حزم الآندلسی میں لکھتے ہیں کہ
بخلاف ما کان بنو أمیة یستعملون من لعن علیّ ابن أبی طالب رضوان الله علیه ، ولعن بنیه الطاهرین من بنی الزهراء؛ وکلهم کان على هذا حاشا عُمر بن عبد العزیز ویزید بن الولید
http://shamela.ws/browse.php/book-1038#page-586
سکین پیجز
http://s3.picofile.com/file/8226195600/001.png
http://s3.picofile.com/file/8226195684/002.png
وجاہت صاحب اپ اپنا وقت غیر ضروری چیزوں میں کیوں لگاتے ہیں ؟ ظاہر ہے بے شمار لوگ کہیں گے بنو امیہ گالی دیتے تھے
اس کی لسٹ بنا کر ہم کو دین میں کیا فائدہ ہو گا؟
لہذا اس قسم کے سوال اب بند کریں اور بنیادی ماخد کو دیکھیں کہ اس میں کون سی روایت صحیح ہے کون سی غلط ہے
متفق – بات آئ تھی تو یہاں لکھ دی – انشاءللہ بنیادی ماخد کے لئے ہی سوالات کرتا ہوں
Shahadt e hussain.mn yazid qusorwar tha?
Kya us pr lanat ki ja sakti hai is pr imam malik ka ik qol paish kia jata hai k mn us yani yazeed pr lanat q na karo jab k us ny aal e Nabi k 7 zulm kia
شہادت حسین کے ذمہ دار کون تھا ؟ اس سوال کا جواب امت ١٤٠٠ سال سے کھوج رہی ہے کوئی واضح جواب نہیں ہے کیونکہ اس پر معلومات نہیں ہیں
جو ہیں وہ نہایت کمزور اسناد سے ہیں جو صحیح ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین نے خروج کیا اور شامی فوج ان کے تعاقب میں گئی ساتھ ہی کوفی عین وقت پر دغا دے گئے اور حسین نے کوفہ سے فرار کی راہ لی اور وہاں سے دور گئے جب کربلا پر پہنچے تو ان کا قتل ہوا- اس میں بلوہ میں وہ ہلاک ہوئے اور ان کے ساتھ والے
اس کے بعد عورتوں کو شام پہنچا دیا گیا اور پھر وہاں سے اہل حسین کو مدینہ پہنچا دیا گیا
اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں کہ کربلا میں کیا ہوا ، شام میں کیا ہوا اور مدینہ میں اس کے بعد کیا ہوا
خود ال حسن اور ال عباس نے اہل بیت میں سے ہونے کے باوجود حسین کا ساتھ نہیں دیا
یہاں تک کہ ابن زبیر جو یزید کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے لشکر میں ال حسین میں سے بعض شامل ہوئے اور مختار ثقفی سے لڑتے ہوئے مصعب بن زبیر کی سربراہی میں قتل ہوئے
یعنی جو اختلاف تھا وہ اہل سنت میں ختم ہوا اور مدینہ میں جو شیعہ کے ائمہ ہیں وہ بھی رهتے رہے اور اپنے اپ کو انہوں نے شیعہ نہیں کہا
نہ ہی اہل سنت سے الگ کسی فقہ پر عمل کیا
——–
جب تک الزام ہو اور ثبوت نہ ہو لعنت کسی پر بھی نہیں کی جا سکتی
لعنت اہل اسلام میں سے کسی پر بھی نہیں کی جا سکتی یہ صرف جنگجو کفار کے لئے ہے
———–
امام مالک کے قول کا علم نہیں
ترجمہ اور تحقیق چاہیے
أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني نا أبو محمد الكتاني أنا تمام بن محمد حدثني أبي حدثني أبو بكر بن أبي قحافة الرملي نا سعيد بن نفيس ،قال وأنا تمام حدثني أبو محمد الحسن بن علي بن عمر الحلبي ثنا سعيد بن نفيس المصري بحلب نا عبدالرحمن بن خالد العمري حدثني أبي حدثني الهقل بن زياد عن حريز بن عثمان سمعه من عبدالملك بن مروان يخبره عن أبي خالد عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ،أبو خالد هو يزيد بن معاوية
تاريخ دمشق لابن عساكر
==========
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلَّانَ الْحَرَّانِيُّ ثنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ثنا عَبْدُ اللَّهِ الْمَقْدِسِيُّ، بِبَغْدَادَ ثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْفَضْلُ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو خَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَقَالَ: «هَذَا وُضُوئِي، وَوُضُوءُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي»
مسند المقلين من الأمراء والسلاطين لتمام بن محمد الدمشقي
أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني نا أبو محمد الكتاني أنا تمام بن محمد حدثني أبي حدثني أبو بكر بن أبي قحافة الرملي نا سعيد بن نفيس قال وأنا تمام حدثني أبو محمد الحسن بن علي بن عمر الحلبي ثنا سعيد بن نفيس المصري بحلب نا عبد الرحمن بن خالد العمري حدثني أبي حدثني الهقل بن زياد عن حريز (1) بن عثمان سمعه من عبد الملك بن مروان يخبره عن أبي خالد عن أبيه قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين أبو خالد هو يزيد بن معاوية
تاريخ دمشق لابن عساكر
بعض افراد پر مجھ کو معلومات نہیں ملیں مثلا عبد الرحمن بن خالد العمري
سند میرے نزدیک اس بنا پر واضح نہیں کہ صحیح ہے یا نہیں
کسی عالم سے پوچھیں
==========
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلَّانَ الْحَرَّانِيُّ ثنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ثنا عَبْدُ اللَّهِ الْمَقْدِسِيُّ، بِبَغْدَادَ ثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْفَضْلُ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو خَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَقَالَ: «هَذَا وُضُوئِي، وَوُضُوءُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي»
مسند المقلين من الأمراء والسلاطين لتمام بن محمد الدمشقي
اس سند میں عَلِيِّ بْنِ أَبِي حُمَيْلَةَ مجہول ہے
Kya pani hazrat hussain or unki aal pr bnd kr diya dya tha 8se 10 muhram k dran or nehar e furt pr pehry thy kiya
اس پر کوئی صحیح السند روایت معلوم نہیں ہے
Kya abu makhnaf ne shahdat hussain pr koi kitab likhi hai…. Ho sakta hai yeh sira uski kitab se ho…. Q k zakireen yeh bara bayan krte hai k ik toh shaheed kr diya uper se aal e hussain ko piyasa mara..
پیاس اور پانی کا ذکر ابو مخنف نے ہی کیا ہے
اس کی کتاب تھی مقتل حسین یہی کتاب مقتل حسین ذاکرین استمعال کرتے ہیں
اہل سنت میں اس کا ترجمہ محمود احمد عباسی نے اردو میں کیا تھا اور ابو مخنف کی تمام روایات کو جمع کیا تھا اور ان پر جرح کی تھی
واقعہ کربلاء پر محمود احمد کی تحقیق اچھی ہے
Mehmiod ahmed abbasi ki is book ka name bta dein jis mn maloomat hai
http://www.ur.islamic-sources.com/download/MaqtalHussain.pdf?22d432
امام ذھبی نے زیاد حارثی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى
کیا یہ صحیح ہے
زیاد نے کہا یزید نے مجھے پلایا اس کا سا ذائقہ میں نے پہلے نہ پیا تھا پوچھا امیر المومنین میں نے ایسی لذت اس سے قبل نہیں پائی
یزید نے کہا یہ حُلْوَانَ انار ہے أَصْبَهَانَ کا اس میں شہد ہے الأَهْوَازِ کی چینی ہے الطَّائِفِ کا انگور ہے ٹھنڈے پانی کے ساتھ
اس کی سند کا علم نہیں ہے البتہ اس میں ایسا کیا ہے کہ اس کو خمر قرار دیا جائے
شراب کا مطلب عربی میں پینا ہے چاہے پانی ہو یا دودھ ہو یا شراب نشہ والی ہو
https://youtu.be/JIOI-Z2vRF8
In ilzamat ki kya haqiqat hai
Kha jata k waqia karbala waqia harra or kaaba pr hamla yazeed k buray karnamay hai jiski bunyad pr isko lanti kha jata hai
مدینہ میں بلوہ کرنا کیا درست اقدام ہے ؟ آج بھی کوئی بلوہ کرے تو اہل سنت وہابی اس پر شرطوں کو بھیج کر مار لگوائیں گے
ایسا ہی یزید بن معاویہ نے کیا جب حرہ کے بلوائیوں نے جھوٹی تقریرین کیں اور عوام کو اشتعال پر اکسایا لہذا حکومت نے ان سے پنٹا
اصحاب رسول میں مشہور لوگوں مثلا ابن عمر جو مدینہ میں تھے انہوں نے یزید بن معاویہ کا ساتھ دیا- خاندان والوں کو جمع کر کے بلوہ نہ کرنے کا حکم دیا اور کرنے والوں کو دغا باز قرار دیا
—–
تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠ کے مطابق
قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة
منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
وقال الدارقطني: ضعيف
وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں
وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) اگ لگانے والا شیعہ ہے
الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ
جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے
اس کی سند میں إسماعيل بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن أبى ربيعة القرشى المخزومى المدنى ہے جو مجہول ہے معلوم نہیں کس دور کا ہے -واقدی کا اس سے سماع ہے بھی یا نہیں
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ
معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے
اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے
قابل غور ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید بن معاویہ پر ہے کہ یزید بن معاویہ میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں ہے کہ اس کی بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے
——-
یزید بن معاویہ نے مکہ پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ مورخین کی بکواس ہے ادھر ادھر کے واقعات ملا کر سب یزید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں
یزید بن معاویہ چار سال خلیفہ رہے اور ٦٤ ہجری میں وفات ہوئی ان کے بعد ان کے بیٹے خلیفہ ہوئے لیکن خلافت سے دست بر دار ہو گئے اور مروان بن عبد الملک خلیفہ ہوئے شام میں اس دوران ابن زبیر خلیفہ ہوئے حجاز میں
لیکن مورخ یزید کے بارے میں بات کرتے کرتے کعبہ پر حملہ کی بات کرتے ہیں جبکہ حملہ مکہ پر ابن زبیر کے دور میں ہوا
کہا جاتا ہے مسلم بن عقبہ کا مکہ پہنچنے سے پہلے انتقال ہوا اور الحصين بن نمير بن نائل، أبو عبد الرحمن الكندي السكونيّ المتوفی ٦٧ ھ کو امیر کر کے بھیجا گیا جبکہ یزید تو ٦٤ میں مر چکا تھا اور یہ دور عبد الملک کی خلافت کا ہے اس نے ابن زبیر سے نپٹنے کے لئے لشکر بھیجا تھا نہ کہ یزید نے
یہ سب تاریخی خلط ملط شروع سے چلا آ رہا ہے مثلا کتاب المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
ثم سار «مسلم بن عقبة» إلى «مكة» ، وتوفى بالطريق، ولم يصل، فدفن ب «قديد» وولى الجيش «الحصين بن نمير السّكونى» ، فمضى بالجيش، وحاصروا «عبد الله بن الزبير» ، وأحرقت «الكعبة» حتى انهدم جدارها، وسقط سقفها، وأتاهم الخبر بموت «يزيد» ، فانكفئوا راجعين إلى «الشام» . … فكانت ولاية «يزيد» ثلاث سنين وشهورا. وهلك ب «حوّارين» – من عمل «دمشق» – سنة أربع وستين،
پھر یزید نے مسلم بن عقبہ کو مکہ بھیجا لیکن یہ راستہ میں مر گیا اور قدید میں دفن ہوا اور لشکر کی ولایت الحصين بن نمير السّكونى» کو ملی اس نے ابن زبیر کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ کو جلا دیا یہاں تک کہ اسکی دیوارین منہدم ہو گئیں اور چھت گر گئی پس وہاں یزید کی موت کی خبر پہنچی … یزید بن ٦٤ میں مرا
افسوس یہ تاریخی گاربیج یا کوڑا ہے اس قول میں تاریخ کی کوئی تہذیب نہیں ہے نہ ابن قتیبہ کو سمجھ ہے کہ کیا بکواس لکھ رہے ہیں – ابن قتیبہ کی جہالت دیکھیں ابن زبیر سن ٧٤ میں مرے اور یزید سن ٦٤ میں لیکن یہ دس سالوں کو اس طرح ایک سطر میں ملا دیا ہے کہ پڑھنے والے کو لگے کہ یہ سب کام یزید نے کیا ہے
یہ تاریخی خلط ملط تاریخ طبری میں بھی ہے جس کی سند میں الکلبی اور ابو مخنف ہیں – دونوں نے یہ دس سالوں کو ملا کر اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا ابن زبیر کا قتل یزید کے دور میں ہوا ہو
تاریخ طبری میں ہے
مسلم بن عُقْبَةَ ورمي الكعبة وإحراقها
رجع الحديث إِلَى أبي مخنف قَالَ: حَتَّى إذا انتهى إِلَى المشلل- ويقال:
إِلَى قفا المشلل- نزل بِهِ الموت، وَذَلِكَ فِي آخر المحرم من سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني فَقَالَ له: يا بن برذعة الحمار، أما وَاللَّهِ لو كَانَ هَذَا الأمر إلي مَا وليتك هَذَا الجند، ولكن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ ولاك بعدي، وليس لأمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ مرد، خذ عني أربعا: أسرع السير، وعجل الوقاع، وعم الأخبار، وَلا تمكن قرشيا من أذنك ثُمَّ إنه مات، فدفن بقفا المشلل.
قَالَ هِشَام بن مُحَمَّد الكلبي: وذكر عوانة أن مسلم بن عُقْبَةَ شخص يريد ابن الزُّبَيْر، حَتَّى إذا بلغ ثنية هرشا نزل بِهِ الموت، فبعث إِلَى رءوس الأجناد، فَقَالَ: إن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عهد إلي إن حدث بي حدث الموت أن أستخلف عَلَيْكُمْ حصين بن نمير السكوني، وَاللَّهِ لو كَانَ الأمر إلي مَا فعلت، ولكن أكره معصية أمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ الموت، ثُمَّ دعا بِهِ فَقَالَ: انظر يَا برذعة الحمار فاحفظ مَا أوصيك بِهِ، عم الأخبار، وَلا ترع سمعك قريشا أبدا، وَلا تردن أهل الشام، عن عدوهم، وَلا تقيمن إلا ثلاثا حَتَّى تناجز ابن الزُّبَيْر الفاسق، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إني لم أعمل عملا قط بعد شِهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله أحب إلي من قتلي أهل الْمَدِينَة، وَلا أرجي عندي فِي الآخرة ثُمَّ قَالَ لبني مرة: زراعتي الَّتِي بحوران صدقة عَلَى مرة، وما أغلقت عَلَيْهِ فلانة بابها فهو لها- يعني أم ولده- ثُمَّ مات.
ولما مات خرج حصين بن نمير بِالنَّاسِ، فقدم عَلَى ابن الزُّبَيْر مكة وَقَدْ بايعه أهلها وأهل الحجاز.
اس تاریخی گاربج کو المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) میں بھی دہرایا گیا ہے
ابن جوزی کہتے ہیں تاریخ کے علماء کہتے ہیں
قال علماء السير [2] : لما فرغ مسلم بن عقبة من قتال أهل المدينة وإنهاب جنده أموالهم ثلاثا، شخص بمن معه من الجند متوجها نحو مكة، وخلف على المدينة روح بن زنباع الجذامي.
وقيل: خلف عمرو بن محرز الأشجعي.
فسار ابن عقبة حتى إذا انتهى إلى فقا/ المشلل [3] نزل به الموت، وذلك في آخر المحرم سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني، فقال له: يا برذعة الحمار [4] ، أما لو كان هذا الأمر إلي ما وليتك هذا الجند، ولكن أمير المؤمنين ولاك بعدي، وليس لأمره مترك [5] ، أسرع المسير، ولا تؤخر ابن الزبير ثلاثا حتى تناجزه، ثم قال: اللَّهمّ إني لم أعمل عملا قط بعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله
حاشیہ میں محقق محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا لکھتے ہیں یہ سب ابو مخنف کی سند سے آیا ہے
ورد في تاريخ الطبري 5/ 496 عن أبي مخنف
==============
حسین رضی الله عنہ کی شہادت ٦١ ھ میں ہوئی
سن ٦٠ سے ٦٤ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کی خلافت ہے
سن ٦٤ ھ معاویہ بن یزید خلافت سے دستبردار ہوئے
سن ٦٤ سے ٧٣ سے عبد الله بن زبیر کی خلافت ہے
سن ٦٥ سے ٨٦ عبد الملک بن مروان کی خلافت ہے
=========
طبری نے ابو مخنف کی سند سے لکھا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مرتے وقت دعا کی
اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ عَمَلًا قَطُّ بَعْدَ الشَّهَادَتَيْنِ
اے الله میں نے کاش یہ عمل نہیں کیا ہوتا
ابو مخنف نے اس کی سند نہیں دی نہ اس دور یعنی ٦١ ہجری میں اس نے سانس لیا
============
افسوس اسی سب کو ملا جلا کر ابن کثیر نے بھی البدایہ میں لکھا ہے یزید ٦٤ میں مرا اور ابن زبیر سن ٧٤ میں قتل ہوئے
دس سال کو ایک ہی سانس میں بیان کرنا اور دیگر خلفاء کا نام تک نہ لینا نہایت مغالطہ آمیز ہے
مجھے یقین ہے کہ کسی بھی مولوی سے جو یزید پر کلام کرے اس نے ان واقعات کا تاریخی تضاد نہیں دیکھا ہے
صحیح یہ ہے کہ سن ٧٣ میں حجاج بن یوسف نے ابن زبیر پر حملہ کیا جس میں کعبہ جلا تھا نہ کہ یزید نے یہ حکم کیا
Ap k mutabiq kustuntnia mn yazid bin maviya sippa salar tha toh is ki pedaish to hazrat umr k dor mn hoa or kustunia pr hamla b esi dor mn hoa tu yazid to bacha tha tab woh keae sipasalar bna… Kaha jata hai yeh yazid maviya ka bahi or yazid ka chacha tha jo phle laskar mn tha . Bta dein
⇓ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ
https://www.islamic-belief.net/history/
Mn yeh prh chuki hon ..muje samjh nahi aya ap clear kr dein or mere sawal ka jawab b dein
اپ کو کیا سمجھ نہیں آیا واضح سوال کریں مجھ کو کیا معلوم ذکر نائیک نے کیا کہا
اپ حوالہ دیں تو مکمل دیں
Zakir naik ka ik bayan tha k waqia karbala siyasi marka tha.. Ap k jitnay b blocks prhy un sy yeh rae sahih malom hoti hai… Kya yeh sahih hai
Or dosri bat apka makuf kiya hai k yazid kiya qustunai ki hadith k mutabik jannti tha . Apki tehrer se yeh lagta hai…. Lekin mera sawal hai k k yazid toh hazrat usman k dor mn peda hoa to qustuntunia pr hamla kaha jata hai k k hazrat umr k dor mn hoa to yazid kese us mn shamil tha… Mein ne suna tha wo sipasalar maviya ka bahi tha uska name b yazid tha… Clear kr de
خروج حسین اصل میں حسین کا فہم معاہدہ تھا جو حسن اور معاویہ میں ہوا تھا – معاہدہ یہ ہوا کہ معاویہ کی موت کے بعد خلافت حسن کو مل جائے گی – لیکن حسن کا انتقال معاویہ سے پہلے ہوا اس طرح معاہدہ کلعدم ہو گیا کیونکہ ایک فریق کا انتقال ہوا – اس کے بعد معاویہ نے اپنی موت سے سات سال قبل یہ اعلان کروایا کہ میرے بعد یزید خلیفہ ہو گا کسی کو اعتراض ہو تو سامنے آئے
بہت سے اصحاب رسول کے بیٹوں کو خواہش تھی کہ وہ خلیفہ ہوں مثلا ابن زبیر اور حسین
ابن زبیر اس لئے کہ جو خلافت ان کے والد کو ملتی اس کو علی نے حاصل کیا اور حسین کو یہ سمجھ آیا کہ خاندان علی کا معاویہ سے معاہدہ ہوا لہذا اب خلافت واپس مجھ کو ملنی چاہیے
لیکن وہ معاویہ کی وفات تک چپ رہے جس کی بنا پر ان کا اقدام ابن عباس کو اور دیگر اصحاب رسول کو پسند نہیں آیا
یہ فہم کا فرق تھا جس کی بنا پر پر اہل کوفہ کے ورغلانے میں کام آئے
——
قسطنطیہ یعنی (استنبول ترکی) پر حملہ معاویہ کے دور میں ہوا اس سے قبل جو حملے تھے وہ روم سے زمینی ہوئے تھے اور قسطنطیہ تک صرف ایک ہی رستہ تھا کہ سمندر سے جایا جائے
قدیم مورخین کے مطابق یزید نے ہی قسطنطیہ پر پہلا حملہ کیا تھا
Kha jata hai k hassan r.a ko mutfiqah tor pr muntakhib kiya gya tha. Hazrat Ali ne na mazad nhi kia tha …. Jese maviya r.a ne kia … Or kha jata hai yazid ki bayt b talwar k zor pr li gai thi…
Hadith mn kustuntunia pr hamle ka zikr hai kya yeh b tha k wo hamla samundari rasty se hoga na k zameeni rasty sy… Room to hazrat umr r.a k dor mn fatah hogya tha toh hamle jese b hoe hon yazid se phle 3 hamle toh ho chuke thy us hadith mn 1st laskar ka zikr hai yeh nai likha k hamla zameeni raste se hoga
حسین کو کسی نے منتخب نہیں کیا تھا نہ وہ خلیفہ ہوئے – انہوں نے سفر کیا جس کا مقصد کوفہ یا عراق میں ان کے ہمدردوں کی دعوت پر جانا تھا – ان کا گمان تھا کہ عراقی مدد کریں گے شامییوں سے لڑیں گے اور حسین کی خلافت قائم کر دیں گے – بیعت ہوتی تو انتخاب کی بات ہوتی یہ موقعہ ہی نہیں آیا – عراقی عین وقت پر دغا دے گئے
——-
⇓ کیا علی نے وفات پر حسن کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ-٢/
——
مدینہ قیصر والی روایت میں یہ نہیں کہ یہ حملہ سمندر سے ہو گا
بلکہ یہ میں نے کہا ہے کہ مدینہ قیصر تک بری رستہ یا خشکی کے رستہ سے نہیں جایا جا سکا تھا نہ وہ دور صحابہ میں فتح ہو سکا
بلکہ ترکوں نے فتح کیا
روم کی کچھ زمین جو ارض شام تھی وہ عمر کے دور میں فتح ہوئی یہ مدینہ قیصر نہیں ہے – مدینہ قیصر یعنی روم کا کیپٹل یا دار الحکومت
جب تک دار الحکومت فتح نہ ہو ملک مفتوح متصور نہیں ہوتا
لیکن یزید جس لشکر میں تھے اس نے اسٹریٹجی سے کام لیا اور سمندری بیڑے سے حملہ کیا تھا اسی لئے مدینہ قیصر پہنچ سکا
اس سے قبل بھی حملے ہوئے
أبو عمرو خليفة بن خياط (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکھتے ہیں کہ
كتب عُثْمَان إِلَى مُعَاوِيَة أَن يغزي بِلَاد الرّوم فَوجه يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي ثمَّ عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد عَلَى الصائفتين جَمِيعًا ثمَّ عَزله وَولى سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي فَكَانَ سُفْيَان يخرج فِي الْبر ويستخلف عَلَى الْبَحْر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة فَلم يزل كَذَلِكَ حَتَّى مَاتَ سُفْيَان فولى مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد ثمَّ ولى عبيد اللَّه بْن رَبَاح وشتى فِي أَرض الرّوم سنة سِتّ وَثَلَاثِينَ
عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو حکم لکھا کہ روم کے شہروں پر حملے کئے جائیں پس معاویہ نے توجہ کی يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي کی طرف عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد کی طرف اور دونوں کو گرمیوں کے موسم میں امیر مقرر کیا پھر ہٹا دیا اور سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو مقرر کیا – سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو بری جنگ پر اور بحری معرکے پر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة کو مقرر کیا اور ان کو معذول نہیں کیا حتیٰ کہ سفیان کی وفات ہوئی – اس کے بعد مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد کو مقرر کیا اور ان کے بعد عبيد اللَّه بْن رَبَاح کو روم کے شہروں کے لئے مقرر کیا سن ٣٦ ھجری تک
الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٣٢ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
سنة اثنتين وثلاثين: فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية، وأميرها معاوية
سن ٣٢ ھجری : اور اس میں المضيق کا واقعہ ہوا جو قسطنطينية کے قریب ہے ، اور اس کے امیر معاوية تھے
لیکن یہ سب لوگ قسطنطينية تک نہیں جا سکے
———-
Apne hassan k khalifa hony waly sawal pr ik bukhri ki hadith ka isharatan zikr kiya hai wo kn c hadith hai
Bta dein
صحیح بخاری ح ٦٢٦٦ میں ہے
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ أَحَدَ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا حَسَنٍ، ” كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا “، فَأَخَذَ بِيَدِهِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْهُ فِيمَنْ هَذَا الأَمْرُ، إِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا عَلِمْنَاهُ، فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّا وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاهَا لاَ يُعْطِينَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
علی رضی الله عنہ کا ہاتھ پکڑ کر عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ الله کی قسم، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس بیماری میں وفات پا جائیں گے کیونکہ میں بنو عبدالمطلب کے مرنے والوں کے چہرے پہچانتا ہوں اے علی آؤ چلیں اور رسول اللّہ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرلیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کون ہوگا اگر خلافت ہمارے خاندان میں رہنے والی ہے تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر کسی دوسرے کے لیے ہوگی تو ہم آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کر لیں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم وصیت کر جائیں گے- علی رضی الله عنہ نے کہا الله کی قسم!اگر ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع کردیا تو لوگ ہمیں کبھی بھی خلیفہ نہ بنائیں گے میں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کبھی بھی خلافت کے بارے میں سوال نہ کروں گا
Yazid ki moat k hawale se ik riwayt ati hai albidya wanihaya mn k us k bndar se usko katta or wo.mara gaya… Kya yeh sahih hai
Kha jata uski mashoka ne usko qatl kia jingle mn bula kr or usko qatl kia or us ki lash chill kawaon ne khaa li.. Kya waqia drust hau
البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں ہے
وقيل: إن سبب موته أنه حمل قردة وجعل ينقزها فعضته.
وذكروا عنه غير ذلك والله أعلم بصحة ذلك.
کہا جاتا ہے یزید کی موت بندر سے ہوئی … اور دوسروں نے اس الگ ذکر کیا ہے الله کو اس کی صحت کا علم ہے
——-
الکامل از ابن اثیر میں ہے
وَقِيلَ: إِنَّهُ مَاتَ مَسْمُومًا، وَصَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ
کہا جاتا ہے یزید کی موت زہر سے ہوئی اس کی نماز الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ نے پڑھی
یہ قول ہے اس میں قصہ نہیں ہے کہ زہر کس نے دیا
——
جب یزید بن معاویہ سے لوگ ناخوش ہوئے تو ان کی موت سے متعلق افواہ سازی کی
https://youtu.be/Ot5sGYwDsKw
آپ یہ وڈیو سن کے پلیز ضرور بتائیں کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں یا صحیح؟
یہ سب غلط سلط کہہ رہے ہیں – کیونکہ ان کی اس سب پر ذاتی کوئی تحقیق نہیں ان کا بھروسہ زبیر علی زئی اور ابو جابر دامانوی کی تحقیقات ہے
اپ سوال کریں لیکن یہ پڑھیں بھی – بغیر پڑھے ایک ہی قسم کے سوال کرتے رہنا مناسب نہیں ہے
——
———
قول اول: قیصر روم کا شہر حمص تھا جس کو ابو عبیدہ بن الجراح نے عمر کے دور میں اس پر حملہ کیا تھا – یہ یزید کی پیدائش سے ١٥ – ٢٠ سال پہلے ہوا
قول دوم : کیا قیصر روم حمص چھوڑ کر استنبول چلا گیا تھا ؟
جواب
حمص قیصر کا دار الحکومت نہیں تھا
یہ
Byzantine Empire
کی تاریخ میں بھی موجود ہے- –
Constantine
مشرک رومی تھا جو نصرانی ہوا اس کے دور سے دور نبوی اور بعد تک قسطنطنیہ ہی دار الحکومت رہا ہے
اس کا دفاع بہت مضبوط ہے جغرافیہ کی وجہ سے تین طرف سمندر ہے ایک ہی طرف خشک رستہ ہے اور سمندر بھی تیز چلتا ہے
——-
قول سوم : پہلا لشکر کون سا تھا؟ سنن ابو داود جس نے قسطنطنیہ کے امیر عبد الرحمان بن خالد بن الولید تھے اور ابو ایوب نے ایک آیت کی تفسیر سمجھائی
جواب
اس کا تفصیلی رد یہاں ہے – ابو داود کی روایت کے متن میں اضطراب ہے
⇓ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ
https://www.islamic-belief.net/history/
———
قول چہارم : صحیح بخاری میں ہے ابو ایوب انصاری جس لشکر میں فوت ہوئے اس کے امیر یزید تھی یعنی یزید کسی بعد والے حملے میں تھا
جواب
ابن کثیر میں لکھا ہے
ثم دخلت سنة تسع وأربعين
فِيهَا غَزَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بِلَادَ الرُّومِ حتى بلغ قسطنطينية ومعه جماعات من سادات الصحابة منهم ابن عمرو ابن عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَأَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ. وَقَدْ ثَبَتَ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ» فَكَانَ هَذَا الْجَيْشُ أَوَّلَ مَنْ غَزَاهَا، وَمَا وَصَلُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَلَغُوا الْجَهْدَ. وَفِيهَا تُوُفِّيَ أَبُو أَيُّوبَ خالد بن زيد الأنصاري
سن ٤٩ ہجری داخل ہوا – اس میں یزید بن معاویہ نے روم کے شہروں پر حملہ کیا یہاں تک کہ قسطنطينية پہنچ گئے اور ان کے ساتھ سادات صحابہ تھے جن میں ابن عمر اور ابن عباس اور ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری تھے اور یہ ثابت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو پہلا لشکر قسطنطينية میں تلوار چلائے گا اس کی مغفرت ہے – پس یہی وہ پہلا لشکر ہے جس نے وہاں تلوار سے قتل کیا اور مشکل سے وہاں پہنچ پائے اور اس میں ابو ایوب کی وفات ہوئی
———–
قول پنجم : قسطنطنیہ پر حملہ نہ یزید نے کیا نہ معاویہ نے کیا بلکہ منذر بن زبیر نے ٣٣ ہجری میں حملہ کیا – اس کا ذکر مسند احمد مصنف عبد الرزاق میں ہے
جواب عَبْدُ الرَّزَّاقِ، [ص:285] 9629 – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَةَ حُذَيْفَةَ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقُلْتُ: تَضْحَكُ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِي يَخْرُجُونَ غُزَاةً فِي الْبَحْرِ، مَثَلَهُمْ كَمَثَلِ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَةِ» ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ اسْتُيْقِظَ أَيْضًا فَضَحِكَ. فَقُلْتُ: تَضْحَكُ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «لَا وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ يَخْرُجُونَ مِنْ أُمَّتِي غُزَاةً فِي الْبَحْرِ فَيَرْجِعُونَ قَلِيلَةً غَنَائِمُهُمْ مَغْفُورًا لَهُمْ» قَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يَجَعَلَنِي مِنْهُمْ. قَالَ: فَدَعَا لَهَا، قَالَ فَأَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ قَالَ: «فَرَأَيْتُهَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ إِلَى أَرْضِ الرُّومِ وَهِيَ مَعَنَا فَمَاتَتْ بِأَرْضِ الرُّومِ»
عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ نے کہا پھر میں نے دیکھا حُذَيْفَةَ کی بیوی نے الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ کے ساتھ جہاد کیا أَرْضِ الرُّومِ پس وہیں أَرْضِ الرُّومِ» میں فوت ہوئیں
عطاء بن يسار نے ایک مجہول سے روایت کیا ہے اور یہ ارسال کرتا ہے یعنی جس سے سنا نہ ہو اس کے حوالے سے روایت کر دیتا ہے
مسند احمد میں سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَةً، حَدَّثَتْهُ
عَطَاءِ بْنِ يَسَار نے ایک عورت سے روایت کیا
عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ کے بقول یہ حُذَيْفَةَ کی بیوی تھیں جبکہ ابن حجر کا کہنا ہے یہ أم حرام بنت ملحان تھیں جو عبادة بن الصامت کی بیوی تھیں
اس سے ظاہر ہے یہ سند صحیح نہیں ہے عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے روایت جس عورت تک پہنچائی اس عورت کا علم نہیں کون ہے
——–
قول ششم: بارہ خلیفوں میں یزید بھی ہے جو ساتواں خلیفہ ہے صحیح مسلم٤٧١١ میں ہے – قیامت تک یہ گنتی پوری ہو گی- بارہویں خلیفہ امام مہدی محمد بن عبد الله ہوں گے
جواب
صحیح مسلم 1822 میں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَعَ غُلَامِي نَافِعٍ، أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الْأَسْلَمِيُّ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: “: عُصَيْبَةٌ: مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ، بَيْتَ كِسْرَى «أَوْ» آلِ كِسْرَى ” وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِذَا أَعْطَى اللهُ أَحَدَكُمْ خَيْرًا فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنَا الْفَرَطُ عَلَى الْحَوْضِ»،
اس کی سند مضبوط نہیں ہے
المهاجر بن مسمار
مولى سعد بن أبي وقاص الزهري. مات بعد خروج محمد بن عبد الله بن حسن. وقيل سنة خمسين ومائة. وله أحاديث. وليس بذاك. وهو صالح الحديث.
اس راوی پر ابن سعد کا کہنا ہے کوئی خاص نہیں ہے
آج قریشی کون ہے ؟ کسی کو معلوم نہیں نہ نسب سے کسی کا سید ہونا یا خاندان نبوی کا ہونا معلوم ہے
——–
قول نہم ابن تیمیہ کہتے ہیں معاویہ بادشاہ تھے
جواب
⇓ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا ان کے بعد ملک عضوض ہو جائے گا اس کیا مطلب ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
———
قول دھم: طبرانی میں ہے حسن کو علی نے جانشین نہیں بنایا یہی اہل تشیع کا کہنا ہے
جواب
اس کا جواب شیعہ دیتے ہیں
http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=23&lid=4&mid=316834&catid=28051
http://www.abp-photo.com/events/ur/CaseID/283/ArticleID/104269/1058
اہل سنت کی کتابوں میں امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت
سوال: اہل سنت کی کتابوں میں امام حسن (علیہ السلام) کے خلیفہ بننے کو کس طرح بیان کیا گیا ہے ؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: علمایے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں مختلف عبارات کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے :
١۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے : جس وقت حضرت علی (علیہ السلام) کی رحلت ہویی تو عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب لوگوں کے پاس آیے اوران سے مخاطب ہو کر فرمایا : یقینا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دنیا سے چلے گیے اور اپنا جانشین چھوڑ کر گیے ہیں ، اگر تم ان کی دعوت کو قبول کرو گے تو وہ تمہارے پاس آییں گے اور اگر تم پسند نہیں کرتے تو کویی بھی تمہیں کسی دوسرے پر مجبور نہیں کرے گا ، لوگوں نے رونا شروع کردیا اور کہا : وہ ہمارے پاس آییں ، حسن (علیہ السلام) داخل ہویے اور ان کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا : ” ایّها الناس! اتّقوا الله فانّا امراءکم و انّا اهل البیت الذین قال الله فینا: (اِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً) فبایعه الناس…” (١) ۔ اے لوگو ! خدا سے ڈرو ، یقینا ہم تمہارے امیر ہیں اور ہم ایسے اہل بیت ہیں جن کے لیے خداوندعالم نے فرمایا ہے : اے اہل بیت ،خداوند عالم چاہتا ہے کہ صرف تم سے رجس و پلیدی کو اس طرح دور کردے جو پاک کرنے کا حق ہے ۔ پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی …۔
٢۔ ابن عباس نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : “ھذا ابن بنت نبیکم و وصی امامکم فبایعوہ ” (٢) یہ تمہارے نبی کی بیٹی کے فرزند ہیں اور تمہارے وصی او ر امام ہیں لہذا تم ان کی بیعت کرو ۔
٣۔ ابن ابی الحدید نے خلافت کے متعلق کہا ہے : “وعھد بھا الی الحسن (علیہ السلام) عند موتہ” (٣) امام علی (علیہ السلام) نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن (علیہ السلام) کی خلافت کے لیے عہد لیا ۔
٤۔ ھیتم بن عدی کہتے ہیں : “حدثنی غیر واحد مممن ادرکت من المشایخ : ان علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اصار الامر الی الحسن ” (٤) ۔ میں نے بعض مشایخ کو درک کیا ہے انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے امر خلافت کو حسن (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا تھا ۔
٥۔ جندب بن عبداللہ کہتے ہیں : علی (علیہ السلام) میرے پاس آیے ، میں نے عرض کیا : “یا امیرالمومنین ! ان فقدناک (فلا نفقدک ) فنبایع الحسن؟ قال : نعم ” (٥) ۔ اے امیرالمومنین ! اگر ہم آپ کو درک نہ کرتے (اور خدا ایسا دن نہ دکھلایے ) تو کیا حسن علیہ السلام کی بیعت کرتے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ۔
٦۔ ابوالفرج اور دوسروں نے نقل کیا ہے : جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شہادت اور لوگوں کا امام حسن (علیہ السلام) کی بیعت کرنے کی خبر ابوالاسود کو ملی تو انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ میں کہا ” وقد اوصی بالامامه بعدہ الی ابن رسول اللہ ….” (٦) ۔ یقینا انہوں نے اپنے بعد رسول خدا (ص) کے فرزند امام حسن (علیہ السلام) کی وصیت کی تھی …۔
٧۔ مسعودی نے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : ” و انی اوصی الی الحسن و الحسین فاسمعوا لھما و اطیعوا امرھما ” (٧) ۔ یقینا میں حسن و حسین کو وصیت کرتا ہوں لہذا ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنو اور ان کی اطاعت کرو (٨) ۔
حوالہ جات:
1. شرح ابن ابى الحدید، ج 4، ص 8 ; الاغانى، ج 6، ص 121.
2. شرح ابن ابى الحدید، ج 16، ص 30 ; الفصول المهمة، ص 46.
3. شرح ابن ابى الحدید، ج 1، ص 57.
4. عقد الفرید، ج 4، ص 474 و 475.
5. مناقب خوارزمى، ص 278.
6. الأغانى، ج 6، ص 121.
7. اثبات الوصیة، ص 152.
8. اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 29.
——
طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اسْتُخْلِفَ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ إِذْ وَثَبَ عَلَيْهِ رَجُلٌ، فَطَعَنَهُ بِخِنْجَرٍ فِي وَرِكِهِ، فَتَمَرَّضَ مِنْهَا أَشْهُرًا، ثُمَّ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَقَالَ: ” يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ اتَّقُوا اللهَ فِينَا، فَإِنَّا أُمَرَاؤُكُمْ وَضِيفَانُكُمْ، وَنَحْنُ أَهْلُ الْبَيْتِ الَّذِي قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] . فَمَا زَالَ يَوْمَئِذٍ يَتَكَلَّمُ حَتَّى مَا يُرَى فِي الْمَسْجِدِ إِلَّا بَاكِيًا
اس روایت میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں کہ علی نے خلیفہ مقرر کرنے سے منع کر دیا ہو
——–
قول گیارہ : خلافت تیس سال رہے گی ٤٠٥٩ میں البانی نے اس کا ذکر کیا ہے
جواب
⇑ خلافت تیس سال رہے گی
https://www.islamic-belief.net/history/
———
قول بارہ : معجم طبرانی میں ج ١١ ص ٨٨ پر ح ١١١٣٨ میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ النَّضْرِ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ النُّفَيْلِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكادَمُونَ عَلَيْهِ تَكادُمَ الْحُمُرِ فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جهادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رباطِكُمْ عَسْقَلَانُ»
اس امر کا شروع نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت ہے پھر امارت و رحمت ہے پھر تم گدھوں کی طرح لڑو گے اور تم پر جہاد ہے – اور افضل یہ ہے کہ سرحد پر جہاد کرو اور افضل سرحد عسقلان کی ہے
جواب
⇓ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا ان کے بعد ملک عضوض ہو جائے گا اس کیا مطلب ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
Sahih bukhri ki 4108 hadith mn hai mn k ibn r umr k samne maviya ne kha jo amr e khilaft chata hai agy ae hum us se or us k baap se zyda khilafat k haqdar hai is pr ibn e umr kamosh rhy lekin sathi k pochny pr kha k jawab islie ns dia k jannat ki.naimten yad ah gai thi…. Iska mutlb kia hoa… Ispr sahih ka hikm laga hua hai.bta dein
معاویہ کا یہ قول ابن عمر کے لئے خاص نہیں تھا ؟ یہ تو مجمع میں سب کے لئے تھا یعنی تم یا تمہارا باپ جو ابھی یہاں موجود ہیں ، تم اس خلافت کے ہم سے بڑھ کر حق دار نہیں یعنی جو وہاں باپ پیٹا زندہ ہوں ان سے متعلق ہے – معاویہ اس وقت امیر المومنین تھے ان کی امارت برحق ہونے پر اصحاب رسول کا اجماع ہو چکا تھا
ابن عمر نے اس انداز کو پسند نہیں کیا لیکن بعد میں یزید کی بیعت کی اور کہا میں یزید میں کوئی عذر نہیں جانتا کہ اس کی بیعت توڑ دوں
Hazrat hussain ne 3 terms rakhi sulah ki mavia se yeh kis sahih hadith ya tareekhi riwayt se sabit hai .
کہا جاتا ہے حسین نے ان شامی لشکر کے سامنے تین باتیں رکھین
1)مجھے مکہ جانے دیا جائے
2) یا پھر مجھے چھوڑ دو میں جاکر جہاد کروں مسلمانوں کے ساتھ
3) یا پھر چھور دو کہ میں خود یزید کے پاس جا کر اپنے معاملے میں بات کروں گا
اس کی سند کا مجھے علم نہیں البتہ شیعہ کہتے ہیں یہ منقطع سند ہے
http://aqibmumtaz.blogspot.com/2016/06/blog-post_49.html
——–
جو چیز صحیح ہے وہ یہ کہ حسین کوفہ نہیں گئے بلکہ وہاں جاتے جاتے اپنا رخ وہاں سے موڑ کر شمال کی سمت گئے اور کربلاء میں شہید ہوئے
کس نے قتل کیا صحیح اسناد سے معلوم نہیں
Hazrat hussain kufa nahi gae bsl k rukh badl liya wo jo maqtal e hussain kitab hai us mn hai k husssain suleh chahty thy es lie damshiq ja rhy thy magr rasty mn hamla hoa or shaheed hoye toh yeh kese pta chla k hussain sulah k lie ja rhy thy… Jab k agr un ko kufah punchne se phle hi katt mil gya tha to wahin se wapis jaty agy q gae
Or bani saad waly kiya sheyan e Ali mn se thy ya ummaya k hami thy
اپ نے اپنی زندگی میں کار سے شاید طویل سفر نہیں کیا
مکہ سے کوفہ تک کا فاصلہ 1,718.7 کلو میٹر ہے
کوئی بھی قافلہ جو یہ سفر کرے اس کا کھانا پینا ختم ہو جائے گا لہذا کوفہ سے واپس مکہ حسین نہیں جا سکتے تھے اور شمال میں اس لئے گئے کہ وہاں فرات کے پاس کسی نخلستان میں بسیرا کر لیں گے پھر آگے کا پلان سوچیں گے
یہ میرا خیال ہے
——–
حسین دمشق گئے یہ ایک تھیوری ہے – اس پر کچھ شواہد ہیں کہ کوفہ سے آگے دمشق گئے ہوں گے ایسا ابن کثیر نے لکھا ہے
اور آج کل اہل سنت میں یہ قول چل رہا ہے
—–
دوسرا قول ہے کہ کربلاء میں اپنے اپ کو قتل کروانے گئے تاکہ نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی صحیح بن سکے یہ اہل تشیع کا عمومی قول ہے
——–
ابو مخنف کا قول ہے کہ اہل شام نے قتل کیا – یہی اس کی روایات کا محور ہے
———-
ابن عمر رضی الله عنہ کا صحیح بخاری میں قول ہے اہل عراق نے قتل کیا
بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ الله عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ الله بْنَ عُمَرَ، وَسَأَلَهُ عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن ابی نُعْمٍ کہتے ہیں میں نے عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا أَهْلُ العِرَاقِ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے کا قتل کیا
بخاری نے ابن عمر کی یہ روایت بیان کر کے قتل حسین کا بوجھ أَهْلُ العِرَاقِ پر بتایا اور أَهْلُ الشام کو اس کا ذمہ دار قرار نہ دیا
—–
مختار ثقفی کذاب کا قول ہے کہ بنو امیہ کے ان گورنروں نے قتل کیا جو ابن زبیر کی خلافت میں عراق میں مقرر تھے
یہ قول کذاب کا ہے لائق التفات نہیں البتہ ابو مخنف کی تھیوری میں انہی ناموں کا ذکر ہے
———–
مجھ کو علم نہیں کیا صحیح ہے
Yazid ki bayt e khilafat kab hoi.. Q k elan toj hazrat maviya ne 4 saal phle hi kr diya tha… Or ik khalifa ki zindagio mn dosry ki bayt nahi hoti … Yoh yazid ki bayt kB or kesy hoi
اس پر صحیح سند سے روایت نہیں ملی
علی کی بیعت کیسے ہوئی ؟ اس پر بھی کوئی صحیح سند سے روایت نہیں ہے
ابن زبیر کی بیعت کب کیسے ہوئی ؟ کوئی صحیح روایت نہیں ہے
Maqtal e hussain k 211 no pag pr likha hai muhammad bin hanfia ne hussain ka sath nahi dia or yazid ki bayt maviya ki zinfagiii mn hoi….. Is pr kya kahe ge
محمد بن علی یا ابن حنفیہ حسن و حسین کے سوتیلے بھائی ہیں انہوں نے ابن زبیر کی بیعت نہیں کی اور ابن زبیر نے ان کو قید کر دیا – ان کے نام سے جھوٹا پروپیگنڈا مختار ثقفی نے کیا کہ امام وقت یہ ہیں – بہر حال مختار کا قتل ہوا اور حجاج نے ان کو ابن زبیر کی قید سے آزاد کرایا انہوں
نے فورا عبد الملک کی بیعت کی اور ابن عمر نے بھی عبد الملک کی بیعت کی
——-
محمد بن حنفیہ اہل بیت میں سے ہیں اور ان میں ایک معتبر سخصیت ہیں جنگوں میں اپنے باپ کے ساتھ رہے ہیں لیکن حسن کے بعد حسین کے ساتھ انہوں نے خروج نہیں کیا
Maqtal e hussain mn pg 211 pr dozi historian ki ik ebart hai mujy uska mafhoom nahi samjh aya k kis ne maviya ki zimdagi mn yazeedki wali ehdi ki bayt ki or us pr qaym na rha….. Yeh ebrat bta rhi hai k maviya r.a ki mujodgi.mn yazid ki bayt hoi or bukhri ki hadith 6830 k mutabiq to wajib ul qatl hota hai wo shaks jo ik k hoty hoye dosre ki bayt kre….. Or hazrat hassan ki khilfat wala jo link ap ne beja tha us mn toh yeh tha jab hazrat Ali r.a ki wafat hoi us k bad hazrat Abbas ne jazbati bayn dia toh logon ne bayt ki…. Hazrat Ali ki zindagi mn nhi hoi jab ke uper wali tehrer k mutabiq us shakhs ne khalifa k hoty hoye us k bete ki wali ehdi pr bayt ki.. What is it
مجھے اس کا علم نہیں کہ حسین نے یزید کی بیعت کی ہو
معاویہ نے اعلان کروایا تھا کہ ان کے بعد یزید خلیفہ ہوں گے کسی کو اعتراض ہو تو ظاہر ہو سامنے آ کر کلام کرے
حسین چپ بیٹھے رہے – معاویہ کی وفات رجب میں ہوئی پھر بیعت ہوئی اور یہ یزید کے گورنروں نے لی یزید سن ٦٠ میں خلیفہ ہوئے اور حسین نے سن ٦١ میں خروج کیا
پانچ ماہ تک چپ رہنے کے بعد
کتاب المحبر میں محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) لکھتے ہیں
مات معاوية لهلال رجب من سنة ستين
معاویہ کی موت ہوئی رجب کے ہلال پر سن ٦٠ ہجری میں
ہلال یعنی مہینے کے شروع میں
————-
تاريخ خليفة بن خياط کے مطابق
مَاتَ مُعَاوِيَة بِدِمَشْق يَوْم الْخَمِيس لثمان بَقينَ من رَجَب
معاویہ دمشق میں مرے جمرات کے دن جب رجب میں آٹھ دن رہ گئے
————-
تاریخ ابن خلدون میں ہے معاویہ
وتوفي في منتصف رجب
رجب کے بیچ میں مرے
——————-
کتاب المنتظم از ابن الجوزی میں ہے
توفي معاوية فِي رجب لأربع ليال خلت من سنة ستين
معاویہ کی وفات رجب میں چار رات گزرنے پر ہوئی سن ٦٠ ھ میں
————-
کتاب الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ
کے مطابق
ثُمَّ مَاتَ بِدِمَشْقَ لِهِلَالِ رَجَبٍ، وَقِيلَ لِلنِّصْفِ مِنْهُ، وَقِيلَ لِثَمَانٍ بَقِينَ مِنْهُ،
پھر دمشق میں معاویہ کی رجب کے ہلال پر وفات ہوئی اور کہا جاتا ہے رجب کے بیچ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے جب اس میں آٹھ راتیں رہیں
———-
معاویہ کی وفات سے کم از کم تین سال پہلے سے یزید کی تعیناتی کی بات ہو رہی تھی حسین نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا جس کو ان کی رضا مندی سمجھا گیا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ (الطبرانی کبیر رقم2859)
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت سے) مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی اپنی کھال ان سے اتروائی
اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگرایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے کہا…. طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں
دونوں روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے
یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا
حسین نے کوفہ کا سفر کیا آخر میں ناکام ہوئے اور ان کے بیٹے زین العابدین نے یزید بن معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی شام سے یہ مدینہ پہنچے
بلا بیعت زین العابدین دمشق میں ہی قید کر دیے جاتے لہذا شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ نے ساری ساری زندگی تقیہ میں گزار دی جبکہ قرآن میں اس کو وقتی کہا گیا ہے وہ بھی تب کیا جائے جب کفار سے سابقہ پیش آئے لہذا شیعہ کا دوسرا عقیدہ یہ بنا کہ یزید کو کافر قرار دیا ورنہ مسلمانوں سے تقیہ کا فتوی نہیں چل سکتا
————-
اپ کے سوالات سے معلوم ہوا کہ اپ کو علم نہیں بيعة لینے کا کیا مطلب ہے کیسے لی جاتی تھی
Ap ne jo khilafat 30 saal rahy ge mn banu ummaya ki jo list bnai hai us mn ap ne kha suleman bin abdul hakm tak 12 khalifa pury ho jaty hai sab qurashi thy banu ummaya toh qureshi thy kya banu marwan b qureshi thy agr thy to agy chal k abdul malik bin marwan k 2 bety ya restedar keh ly wo khalifa huye…. To kya wo qureshi na thy…. Phir 12khulfa to tajawuz kr ge jab k hadith mn 12 ka zikr hai.
Or ap ne kha k banu ummaya ki khilafat mn bagawate hoti rahi agr wo zalim na the phir bagawatein hoi q??? Ya phir bagahwat khilaft hasil krny k lie thi
حدیث میں ہے کہ١٢ خلفاء قریش سے ہون گے یہ نہیں ہے کہ ١٢ سے زیادہ نہ ہو سکیں گے بلکہ ١٢ تک اسلام کو کوئی نیچا نہ کر سکے گا
ایسا ہی ہوا کہ اسلام اپنے مخالفین یعنی اس پاس کی سلطنتوں پر غالب ہوا
بنو امیہ قریش میں سے ہیں اور ان کی حکومت رہی اور ان کے خلفاء کی تعداد ١٢ سے زیادہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ١٢ ہی ہوتے ورنہ تو یہ روایت صحیح نہیں سمجھی جا سکتی
آج قریش قبیلہ معدوم ہے
بنو ہاشم اور بنو عباس ١٠٠ ہجری کے بعد عراق منتقل ہوئے اور یہ دونوں اہل فارس کی عورتوں سے شادی کرتے رہے اصل قریشی نسل ختم ہو گئی
بنو آمیہ قریشی ہیں ان کا انخلاء ہوا یہ اسپین چلے گئے وہاں ٨٠٠ سال حکومت کر کے یہ بھی وہاں معدوم ہو گئے
اپ کو خبر کی جاتی ہے کہ اب دنیا میں قبیلہ قریش معدوم ہے کوئی نسلی ریکارڈ نہیں کہ کہا جا سکے کہ یہ قریشی ہے
لہذا روایات پڑھنے کے سوا دماغ سے بھی سوچیں
———-
بنو امیہ کی خلافت میں بغاوت ہوئی یہ ١٢ خلفاء کے بعد کا دور ہے – بغاوت کیا ظلم کے خلاف ہی ہوتی ہے ؟ ایسا مقید فہم کیوں ہے ؟ بغاوت تو نیک لوگوں کے خلاف بھی ہو سکتی ہے مثلا عثمان رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت ہوئی
Imam ibn e asim ki kitab al awail.mn hai
K Nabi s.a.w ne kha k meri sunnat ko jo shaks badly ga wo banu ummaya se hoga … Iska status kia hai… Albani es se murad maviya ko lety hai or zai sahib yazid ko
الأوائل لابن أبي عاصم میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»
البداية والنهاية ج6/ص229
وروى البيهقي من طريق عوف الأعرابي عن أبي خلدة عن أبي العالية عن أبي ذر قال سمعت رسول الله يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية وهذا منقطع بين أبي العالية وأبي ذر
ابن کثیر کہتے ہیں یہ منقطع ہے
———-
اس کی سند میں أبوالعالية الرياحي رفيع بن مهران کا تفرد ہے جو اس کو ابو ذر غفاری رضی الله عنہ سے نقل کرتا ہے
الکامل از ابن عدی میں ہے امام شافعی کی روایت کورد کرتے
حرملة يقول: قال الشافعي حديث أبي العالية الرياحي رياح
أبو العالية لم يسمع من أبي ذر قاله ابن معين
أبو العالية نے أبي ذر سے نہیں سنا یہ امام ابن معين نے کہا
—-
تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے
قلت ليحيى بن معِين سمع أَبُو الْعَالِيَة من أبي ذَر قَالَ لاإنما يروي أَبُو الْعَالِيَة عَن أبي مُسلم عَن أبي ذَر قَالَ قلت ليحيى من أَبُو مُسلم هَذَا قَالَ لَا أَدْرِي
الدوری نے کہا میں نے امام ابن معین سے پوچھا کیا أَبُو الْعَالِيَة نے أبي ذَر سے سنا ہے ؟ کہا یہ ابو مسلم سے اور وہ ابوذر سے روایت کرتا تھا میں نے پوچھا یہ ابو مسلم کون تھا کہا میں نہیں جانتا
===================
ایک دوسری روایت ہے
لا يزال هذا الأمر قائما بالقسط حتى يكون أول من يثلمه رجل من بني أمية ” .
یہ سند ضعیف ہے
http://majles.alukah.net/t81013/
Kya maviya r.a ne qatillen e usman ko saza di…. Bta dein
قاتلین عثمان میں ٢٠ سے ٢٥ لوگ تھے جو گھر میں داخل ہوئے تھے
جنگ جمل و صفین اور اس کے بعد معاویہ رضی الله عنہ کے مصر پر معرکوں کی وجہ سے قاتلین عثمان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا تھا
ان میں سے بعض خوارج بن گئے جن کو علی رضی الله عنہ نے قتل کیا
علی کی شہادت تک قاتلین عثمان میں سے کوئی نہیں بچا تھا
اپ کو کسی کا نام معلوم ہے جو بچ گیا تھا ؟
Actually mn ne ap k kisi block.mn qatleen usman ki.list dekhi thi jin.ko maviya r.a ne qatl krwaya but mujy ap wo blog wala question nahi mil raha ap kindly link de dy yhn
⇓ کیا جنگ جمل میں اصحاب رسول نے شرکت نہیں کی ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/مشجرات-صحابہ/
Kya wo riwayt kazab haijis mn hazrat Ali r.a ne ik hath se darwaza e khabr okhar diya tha
مسند احمد میں ہے
.ابو رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نکلے علی رضی الله عنہ کے ساتھ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنا جھنڈا دے کر بھیجا اور جب علی رضی الله عنہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعےوالے آپ کے مقابلے کے لیے باھر نکلے،اور علی رضی الله عنہ نےان سے جنگ کی اور جنگ کے درمیان میں مخالف یہودی نے نے ایسا وار کیا کہ آپ کے ہاتھ سےڈھال گر گئی-آپ نے ایک دروازہ جو قلعے کے پاس تھا اٹھا لیا اور اس کو اپنے لیے ڈھال بنایا- وہ دروازہ برابر آپ کے ہاتھ میں رہا-جب تک فتح نہ ہو گئی- فتح کے بعد آپ نے اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا-ابو رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو سات دوسرے حضرات کےساتھ جن میں کا آٹھوں میں تھا دیکھتا ہوں کہ ہم سب آٹھوں مل کر اس پڑے ہوۓ دروازے کو الٹنے کی کوشیش کرتے ہیں اور نہیں الٹ پاتے”
اس کی سند میں مجہول ہے
Hazrat aisha wali howab k dgs wali hadith sahi hai kya
⇓ الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/
Ik tarikh k mutabiq hazrat hussain r.a 4 hijri mn paida hoye to us hisab se wo 6 saal k thy jab wafat un nabi s.a.w hui or 6saal ka bacha toh samjdar hota hai to kesy unhon ne Aaap s.a.w se kese kuch nai suna ya unko apne nana ka chehra hi bhool gya
Aisa maqtal e hussain mn likha hai… Kya tarekh mn inki yehi birth likhi hai kya
تاریخ کے مطابق حسن کی پیدائش ٣ ہجری اور وفات ٥٠ ہجری میں ہوئی اور حسین کی پیدائش ٤ ہجری اور شہادت ٦١ ہجری میں ہوئی –
وفات النبی کے وقت حسن سات سال اور حسین چھ سال کے تھے
جی یہ تاریخیں لکھی ہیں
—-
ان دونوں کے سماع کے حوالے سے کوئی روایت ملتی ہے تو اس میں یہ اپنے دونوں باپ علی سے ہی روایت کرتے ہیں
براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے حسن کی ایک دو روایات ہیں لیکن حسین کی مجھے نہیں معلوم
البتہ یہ صحابی ہی ہیں
خیال رہے کہ تمام اصحاب رسول نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت بھی نہیں کیا ہے
Aisa maqtal e hussain mn likha hai k hussain r.a ne Nabi s.a.w se nahi suna or wo to un ka chahra b bhol gae …. Ap kya khty ho
علم حدیث میں جب کہا جاتا ہے کہ اس نے نہیں سنا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا سماع ثابت نہیں ہوا کیونکہ کسی صحیح سند میں نہیں ملا کہ صحابی نے رسول الله سے روایت کیا ہو
——
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) لکھتے ہیں
ليست له صحبة
حسین صحابی نہیں ہیں
——-
کتاب العلل از ترمذی میں ایک روایت پر بحث میں لکھا ہے
وَرَوَى مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ بَشِيرٍ , عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
اس حدیث کو حسن نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے مرسل روایت کیا ہے
یعنی ترمذی کے نزدیک حسن کا سماع بھی نبی صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے
اگر حسن کا سماع نہیں تو حسین تو ان سے بھی چھوٹے تھے
———-
تہذیب الکمال از المزی کے مطابق حسین کی نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایات ابن ماجہ سنن نسائی اور ابو داود میں ہیں
لیکن ایک ہی روایت ہے جو ابو داود اور نسائی میں ہے
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ، فَقَالَ: «أَلَا تُصَلُّونَ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهَا بَعَثَهَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَيَقُولُ: {وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا} [الكهف: 54]
اس میں حسین اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نہیں کر رہے
ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَسِيمٍ الْجَمَّالُ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا لَا يَلُومَنَّ امْرُؤٌ، إِلَّا نَفْسَهُ، يَبِيتُ وَفِي يَدِهِ رِيحُ غَمَرٍ»
حسین اپنی ماں فاطمہ سے روایت کرتے ہیں
———
ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهَا الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ الْقَاسِمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَدِيجَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَرَّتْ لُبَيْنَةُ الْقَاسِمِ، فَلَوْ كَانَ اللَّهُ أَبْقَاهُ حَتَّى يَسْتَكْمِلَ رَضَاعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ تَمَامَ رَضَاعِهِ فِي الْجَنَّةِ» قَالَتْ: لَوْ أَعْلَمُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهَوَّنَ عَلَيَّ أَمْرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ تَعَالَى فَأَسْمَعَكِ صَوْتَهُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلْ أُصَدِّقُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ”
یہ صحاح ستہ کی واحد روایت ہے جس میں حسین نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں اس میں متروک راوی ہے
شعیب کہتے ہیں إسناده ضعيف جدًا، هشام بن أبي الوليد متروك، وأمه مجهولة
——–
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، وَعَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، قَالَ عَبَّادٌ: ابْنُ زِيَادٍ: عَنْ أُمِّهِ، عَنْ فَاطِمَةَ ابْنَةِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهَا الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا مِنْ مُسْلِمٍ، وَلا مُسْلِمَةٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ، فَيَذْكُرُهَا وَإِنْ طَالَ عَهْدُهَا – قَالَ عَبَّادٌ: قَدُمَ عَهْدُهَا – فَيُحْدِثُ لِذَلِكَ اسْتِرْجَاعًا، إِلا جَدَّدَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَأَعْطَاهُ [ص:257] مِثْلَ أَجْرِهَا يَوْمَ أُصِيبَ بِهَا ”
حسین نے رسول الله سے روایت کیا ہے
سند ضعیف ہے هشام بن أبي هشام متروك ہے اس کی ماں مجہول ہے
—-
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، وَيَعْلَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ
الْوَاسِطِيَّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلامِ الْمَرْءِ، قِلَّةَ الْكَلامِ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ
حسین نے رسول الله سے روایت کیا ہے سند منقطع ہے
شعيب بن خالد لم يُدرك الحسين بن علي، وانظر “العلل” لابن أبي حاتم
راوی کا سماع حسین سے نہیں ہے
——–
مسند احمد میں ہے
عن عبد الله بن عمر العمري، عن ابن شهاب الزهري، عن علي بن الحسين، عن أبيه الحسين بن علي رضي الله عنه، عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لیکن اس کی سند میں عبد الله بن عمر العمري ضعیف ہے
——
المعجم الكبير طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الصُّوفِيُّ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «نِعْمَ الشَّيْءُ الْهَدِيَّةُ أَمَامَ الْحَاجَةِ»
سند میں يَحْيَى بْنِ الْعَلَاءِ، متروک ہے
—–
مسند البزار میں ہے
حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ نَجَبَةَ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْحَرْبُ خَدْعَةٌ»
سند میں الْمُسَيَّبِ بْنِ نَجَبَةَ مجہول ہے
———
مسند احمد میں ہے
أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ شَيْبَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِلحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ: رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: مَا تَعْقِلُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: صَعِدْتُ غُرْفَةً، فَأَخَذْتُ تَمْرَةً، فَلُكْتُهَا فِي فِيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلْقِهَا، فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ
رَبِيعَةَ بْنِ شَيْبَانَ نے کہا میں نے حسین سے پوچھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی (یاد میں کوئی بات) عقل میں ہے ؟ کہا میں کمرے میں آیا کھجور اٹھائی اور منہ میں رکھی پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا نکال یہ صدقه کی ہے
سند صحیح ہے
معلوم ہوا حسین کو کوئی روایت یاد نہیں تھی ان کو صرف یہ واقعہ یاد رہا
—-
——–
الغرض حسین کا کسی صحیح سند سے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرنا معلوم نہیں ہے اس وجہ سے محدثین کہتے تھے یہ صحابی نہیں
یہ تکنیکی بات ہے
———————
حسین صحابی ہیں ان معنوں میں کہ انہوں نے نبی کو دیکھا ان سے کھیلے اور رسول الله کو گود میں بیٹھے – ہم کو معلوم ہے یہ نواسے ہیں
لیکن اگر کوئی آدمی رسول الله سے روایت کرے جو بڑی عمر کا ہو تو اس میں سماع کی بات دیکھی جاتی ہے
Sir ap ne ik sawal k zail mn yeh hadith likhi thi k 12 kulfa honge or sab qureshi hon ge yhn naql kr dy wo hadith
صحیح بخاری
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا»، فَقَالَ كَلِمَةً لَمْ أَسْمَعْهَا، فَقَالَ أَبِي: إِنَّهُ قَالَ: «كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ»
جابر بن سمرہ نے کہا میں نے النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے سنا کہا ١٢ امیر ہوں گے پھر ایک کلمہ کہا جس کو سن نہ سکا تو میرے باپ نے بتایا کہ اپ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نے کہا یہ سب قریشی ہوں گے
———-
چند دن قبل اپ نے مرزا جہلمی کی ایک تقریر پر سوال کیا تھا
اس میں صحیح مسلم کی ایک حدیث پر میں نے راوی پر تنقید کی تھی روایت کا متن تھا کہ بارہ خلفاء قیامت تک ہوں گے
حَدَّثَنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَعَ غُلَامِي نَافِعٍ، أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الْأَسْلَمِيُّ يَقُولُ: “لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ”
الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ، نے عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ سے اس نے جابر بن سمرہ سے روایت کی حدیث رسول کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس دین کو زوال نہ ہو گا قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو یا اس میں ١٢ خلیفہ قریشی ہوں
یہ روایت متنا منکر ہے اس کی سند سے مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ عَنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا، حَتَّى يَكُونَ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ يَخْرُجُ كَذَّابُونَ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ، ثُمَّ تَخْرُجُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَيَسْتَخْرِجُونَ كَنْزَ الْأَبْيَضِ، كِسْرَى، وَآلِ كِسْرَى، وَإِذَا أَعْطَى اللهُ أَحَدَكُمْ خَيْرًا، فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ، وَأَهْلِهِ، وَأَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ
الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ، نے عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ سے اس نے جابر بن سمرہ سے روایت کی حدیث رسول کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس دین کو زوال نہ ہو گا قائم رہے گا اور اس میں ١٢ خلیفہ قریشی ہوں گے پھر اس میں قبل قیامت تیس کذاب نکلیں گے پھر مسلمانوں کا ایک گروہ نکلے گا جو کسری کا خزانہ كَنْزَ الْأَبْيَضِ اور ال کسری کو نکالیں گے اور جب الله کسی کو خیر دے تو اپنے اپ سے شروع کرنا اور اپنے اہل سے اور میں حوض (کوثر) پر ملوں گا
اس کے مکمل متن کے مطابق ١٢ خلفاء کے بعد مسلمان کسری کا خزانہ نکالیں گے
جبکہ کسری کا خزانہ تو دوسرے خلیفہ کے دور میں ہی نکل آیا مدینہ پہنچ گیا تھا
———-
کیا آپ کے نزدیک
١٢ خلفاء والی ساری احادیث ضعیف ہیں یا اس میں صحیح بھیہیں – کیوں کہ مسند احمد کی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے اس کی تحقیق تو یہ کی ہے آپ نے
—
اس کے مکمل متن کے مطابق ١٢ خلفاء کے بعد مسلمان کسری کا خزانہ نکالیں گے
جبکہ کسری کا خزانہ تو دوسرے خلیفہ کے دور میں ہی نکل آیا مدینہ پہنچ گیا تھا
——
کیا مسند احمد کی یہ حدیث باقی سن احادیث کو ضعیف نہیں کر دیے گی کیوں کہ اس کے مکمل متن کے مطابق ١٢ خلفاء کے بعد مسلمان کسری کا خزانہ نکالیں گے
جبکہ کسری کا خزانہ تو دوسرے خلیفہ کے دور میں ہی نکل آیا مدینہ پہنچ گیا تھا
کسری کا خزانہ نکلا اس سے یہ معلوم ہوا مسند احمد اور صحیح مسلم کی یہ مخصوص کی روایت صحیح نہیں
بارہ خلفاء سے متعلق جو روایت صحیح متفق علیہ روایات ہیں وہ صحیح ہیں
کسری کا خزانہ تو دوسرے خلیفہ کے دور میں ہی نکل آیا مدینہ پہنچ گیا تھا
اس کا حوالہ دے دیں پلیز
صحیح بخاری
مجھ سے محمد بن حکم نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، کہا ہم کو سعد طائی نے خبر دی، انہیں محل بن خلیفہ نے خبر دی، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدی! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جو دن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہو گا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو؟ وہ عرض کرے گا بیشک تو نے بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی؟ وہ جواب دے گا بیشک تو نے دیا تھا۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جہنم سے ڈرو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آ سکے تو (کسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم کو سعدان بن بشر نے خبر دی، ان سے ابومجاہد نے بیان کیا، ان سے محل بن خلیفہ نے بیان کیا، اور انہوں نے عدی رضی اللہ سنے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، پھر یہی حدیث نقل کی جو اوپر مذکور ہوئی۔
——
یعنی یہ کسری بن ہرمز کے خزانے کی بات تھی جس کا خزانہ نکلا اور دور عمر میں مدینہ پہنچا
مسند الفاروق از ابن کثیر میں ہے
قال القاسم بن أبي شيبة: ثنا حفص بن غياث، عن السَّيباني (1)، عن أبي عَون الثَّقَفي، عن السَّائب بن الأقرع: أنَّه كان جالسًا في إيوانِ كسرى، فنَظَر إلى تمثالٍ يُشيرُ بإصبعِهِ إلى موضعٍ، قال: فوَقَعَ في رُوْعي (2) أنَّه يُشيرُ إلى كنزٍ، فاحتَفَرتُ الموضعَ، فأَخرَجتُ كنزًا عظيمًا، فكَتَبتُ إلى عمرَ -رضي الله عنه- أُخبِرُهُ، فكَتَب إليَّ عمرُ: إنك أميرٌ من أمراءِ المسلمينَ فاقْسِمْهُ بين المسلمينَ (3).
إسناد جيد أيضًا.
السَّائب بن الأقرع نے کہا وہ ایوان کسری میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان تمثیلوں یا تصویروں کو دیکھا .. ان سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے … پھر وہاں سے عظیم خزانہ نکلا انہوں نے عمر رضی الله عنہ کو لکھا اس کی خبر دیں کیا کریں عمر نے جواب دیا تم امیر ہو اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرو
ابن کثیر نے کہا سند بہت اچھی ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَيَفْتَحَنَّ رَهْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ كُنُوزَ كِسْرَى الَّتِي، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: الَّذِي، بِالْأَبْيَضِ ” قَالَ جَابِرٌ: «فَكُنْتُ فِيهِمْ، فَأَصَابَنِي أَلْفُ دِرْهَمٍ»
جابر نے کہا اس خزانہ میں سے مجھے ایک ہزار درہم ملے
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله کے بارے میں ابن ہجر اپنی کتاب فتح الباري میں لکھتے ہیں کہ
وَإِنَّمَا لَمْ یَذْکُرِ بن عُمَرَ خِلَافَةَ عَلِیٍّ لِأَنَّهُ لَمْ یُبَایِعْهُ لِوُقُوعِ الِاخْتِلَافِ عَلَیْهِ کَمَا هُوَ مَشْهُورٌ فِی صَحِیحِ الْأَخْبَارِ وَکَانَ رَأَى أَنَّهُ لَا یُبَایِعُ لِمَنْ لَمْ یَجْتَمِعْ عَلَیْهِ النَّاسُ وَلِهَذَا لَمْ یُبَایِعْ أَیْضًا لِابْنِ الزُّبَیْرِ وَلَا لِعَبْدِ الْمَلِکِ فِی حَالِ اخْتِلَافِهِمَا وَبَایَعَ لِیَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ ثُمَّ لعبد الْملک بن مَرْوَان بعد قتل بن الزُّبَیْرِ
http://s9.picofile.com/file/8307446392/002.png
http://s9.picofile.com/file/8307446426/003.png
اور دوسری طرف أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد
(المتوفى: 230هـ)
اپنی کتاب الطبقات الكبرى کے باب ذكر قُتِلَ عُثْمَان بْن عفان وبيعة علي بْن أبي طَالِب. رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما میں لکھتے ہیں کہ
قَالَ: قَالُوا لمّا قُتِلَ عُثْمَان. رحمه الله. يوم الجمعة لثماني عشرة ليلة مضت من ذي الحجّة سنة خمس وثلاثين وبويع لعلي بْن أبي طَالِب. رحمه الله. بالمدينة.
الغد من يوم قُتِلَ عُثْمَان. بالخلافة بايعه طَلْحَة. والزبير. وسعد بْن أَبِي وقاص
وسعيد بْن زَيْد بْن عَمْرو بْن نفيل. وعمار بْن ياسر. وأسامة بن زَيْد. وسهل بْن حُنَيْف. وأبو أيوب الْأَنْصَارِيّ. ومحمد بْن مسلمة. وزيد بن ثابت. وخزيمة بن ثابت
طبقات الکبریٰ کا لنک یہ ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-1686#page-690
ان اصحاب کی لسٹ میں عبدالله بن عمر رضی الله کا نام نہیں جو بہت بڑے صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں
اسی پر ایک شیعہ نے اعترض کیا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عبدالله بن عمر رضی الله نے حضرت علی رضی الله کی بیت نہیں کی تھی
——-
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ صحیح حدیث ہے کہ
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد ، عن زيد بن محمد ، عن نافع ، قال: ” جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع، حين كان من امر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لاجلس اتيتك لاحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية “،
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں، اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اور طرح طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداللہ بن مطیع نے کہا: ابوعبدالرحمٰن (یہ کنیت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) کے لیے توشک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا: میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکی ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن اللہ سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔“
ایک طرف حضرت علی رضی الله اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی الله دونوں کی بیت جاری تھی – اب اس حدیث کی زد میں کون آتا ہے
طبقات ابن سعد کا خلافت علی سے متعلق پورا اقتباس قابل رد ہے کیونکہ اس میں ہے ابن سعد نے کہا
قَالَ: قَالُوا لمّا قُتِلَ عُثْمَان
ابن سعد نے کہا کہتے ہیں جب عثمان کا قتل ہوا
ابن سعد نے اس کی کوئی سند نہیں دی جس سے اس بیان کی صداقت پر یقین ہو
———
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے کہا: جب علی کی بیعت کی گئی تو علی میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتا ہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا ۔اس کے بعد ابن عمر، ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔
[مصنف ابن أبي شيبة. ]
ابن عمر نے علی کی بیعت نہیں کی تھی کیونکہ علی کی بیعت متفقہ نہیں ہوئی- اس کے برعکس یزید کی بیعت پر (سوائے حسین کے) اصحاب رسول کا اتفاق ہوا
ابو شہر یار بھائی آپ کے جواب پر کچھ سوالات ہیں – جو میرے اپنے ذھن میں آیے ہیں
١.
تاریخ میں سند کی ضرورت کہاں کہاں پڑتی ہے – بعض اوقات تاریخ کے اقوال ہم لے لیتے ہیں جیسے واقدی وغیرہ کے اور امام ذھبی سے مدینی کے – آپ نے بھی اپنے اس بلاگ میں واقدی کے حوالے لئے ہیں – اب یہ کیسے پتا چلے گا کہ وہ حوالے صحیح ہیں یا غلط ہیں – اس میں اصول کیا ہو گا
٢.
حضرت عثمان رضی الله کی شہادت کے بعد کچھ صحابہ نے حضرت علی رضی الله کی بیت کی یا وہ اکیلے تھے – اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی الله کی طرف بھی کچھ صحابہ تھے یا نہیں – کیوں کہ ایک وقت میں ایک ہی امیر ہو گا اس وقت امیر کون تھا – اور حضرت علی رضی الله اور حضرت امیر معاویہ رضی الله کو کس کی بیت کرنی چاہیے تھی
٣.
حضرت ابو بکر رضی الله کی بیت میں بھی کچھ صحابہ رضی الله نے حضرت عمر رضی الله کے دور میں یہ کہا
کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/6830
—–
اب حضرت علی رضی الله اور حضرت امیر معاویہ رضی الله دونوں خلیفہ تھے ایک ہی وقت میں یا اس دور میں جب تک حضرت علی رضی الله زندہ رہے خلیفہ کوئی نہیں تھا
کس کے لئے کس کی بیت کرنا ضروری تھا – اور یہ حدیث کس پر صادق آتی ہے صحیح بخاری کی جس میں ہے کہ
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد ، عن زيد بن محمد ، عن نافع ، قال: ” جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع، حين كان من امر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لاجلس اتيتك لاحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية “،
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں، اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اور طرح طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداللہ بن مطیع نے کہا: ابوعبدالرحمٰن (یہ کنیت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) کے لیے توشک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا: میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکی ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن اللہ سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔“
٣.
کیا آپ حضرت علی رضی الله کو خلیفہ سمجھتے ہیں یا نہیں اور جب تک حضرت علی رضی الله زندہ رہے اس وقت تک حضرت امیر معاویہ رضی الله کی حثیت کیا تھی
=======
پلیز جواب ضرور دیں – یہ میرے اپنے سوالات ہیں جو میرے ذھن میں آیے نہ میں نے کسی ویب سائٹ سے لئے یا کہیں سے کاپی پیسٹ کیے
اپ نے کہا
١.
تاریخ میں سند کی ضرورت کہاں کہاں پڑتی ہے – بعض اوقات تاریخ کے اقوال ہم لے لیتے ہیں جیسے واقدی وغیرہ کے اور امام ذھبی سے مدینی کے – آپ نے بھی اپنے اس بلاگ میں واقدی کے حوالے لئے ہیں – اب یہ کیسے پتا چلے گا کہ وہ حوالے صحیح ہیں یا غلط ہیں – اس میں اصول کیا ہو گا
جواب
سند کی ضرورت اکثر واقعات میں پڑتی ہے کیونکہ ان میں تضاد ہوتا ہے
لیکن جب یہ لوگ سال وفات بیان کرتے ہیں تو سند درکار نہیں ہوتی مثلا واقدی کے اقوال بے شمار ہیں کہ فلاں تب مرا فلاں اس سن میں مرا ایسا ہی اور لوگوں سے منقول ہے
اس میں سند نہیں دیکھی جاتی اور ان موت کی تاریخوں کو لیا گیا ہے الا یہ کہ کوئی واقعہ اس سے منسلک ہو
——–
حضرت عثمان رضی الله کی شہادت کے بعد کچھ صحابہ نے حضرت علی رضی الله کی بیت کی یا وہ اکیلے تھے – اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی الله کی طرف بھی کچھ صحابہ تھے یا نہیں – کیوں کہ ایک وقت میں ایک ہی امیر ہو گا اس وقت امیر کون تھا – اور حضرت علی رضی الله اور حضرت امیر معاویہ رضی الله کو کس کی بیت کرنی چاہیے تھی
جواب
علی کی بیعت چند اصحاب نے کی جو مدینہ میں تھے – مدینہ کے سب اصحاب رسول نے نہیں کی
معاویہ نے خلافت کا اعلان نہیں کیا انہوں نے موقف لیا کہ خلیفہ وقت کا قتل ہوا ہے پہلے قصاص لیا جائے گا لہذا جو قتل میں شامل ہیں ان کو علی بچائیں نہیں
معاویہ کے نزدیک علی خلیفہ نہیں تھے ہنگامی حالات میں لیڈر بن گئے تھے
——–
٣.
حضرت ابو بکر رضی الله کی بیت میں بھی کچھ صحابہ رضی الله نے حضرت عمر رضی الله کے دور میں یہ کہا
کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/6830
جواب
ابو بکر کی بیعت مدینہ کے باغ میں ہوئی – ان کے مقابل سعد بن عبادہ تھے لیکن جب عمر نے ابو بکر کا نام رکھا تو انصار نے سعد بن عبادہ کو چھوڑ کر ابو بکر کی بیعت کر لی اور مدینہ میں یہ بات پھیلی اور چونکہ اصحاب رسول وہاں سب جمع تھے اس پر سب کا اجماع ہو گیا
علی لی بیعت پر اصحاب رسول کا اجماع نہیں ہوا
—–
اب حضرت علی رضی الله اور حضرت امیر معاویہ رضی الله دونوں خلیفہ تھے ایک ہی وقت میں یا اس دور میں جب تک حضرت علی رضی الله زندہ رہے خلیفہ کوئی نہیں تھا
جواب
چونکہ علی کی خلیفہ کے طور پر بیعت ہوئی جب تک وہ زندے رہے کسی اور نے خلافت کا اعلان نہیں کیا معاویہ نے خلیفہ ہونے کا دعوی نہیں کیا
حسن نے معاویہ کو خلیفہ مقرر کیا
——-
– یہ حدیث کس پر صادق آتی ہے صحیح بخاری کی جس میں ہے کہ
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد ، عن زيد بن محمد ، عن نافع ، قال: ” جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع، حين كان من امر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لاجلس اتيتك لاحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية “،
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں، اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اور طرح طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداللہ بن مطیع نے کہا: ابوعبدالرحمٰن (یہ کنیت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) کے لیے توشک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا: میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکی ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن اللہ سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔“
جواب
یہ حدیث نہ معاویہ کے بارے میں ہے نہ علی کے بارے میں – یہ تو دور یزید کا واقعہ ہے
یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس کا حکم کس طرح لگے گا یہ نہ اپ کا کام ہے مہ میرا یہ رب العالمین کا کام ہے
لہذا یہ سب محشر میں دیکھیں گے اس وقت کا انتظار کریں
——–
٣.
کیا آپ حضرت علی رضی الله کو خلیفہ سمجھتے ہیں یا نہیں اور جب تک حضرت علی رضی الله زندہ رہے اس وقت تک حضرت امیر معاویہ رضی الله کی حثیت کیا تھی
جواب علی اپنے دور کے خلیفہ تھے لیکن غیر متفقہ رہے – قریش کے نزدیک علی خلیفہ نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل میں دوسرے کیمپ میں سب قریشی ہیں – علی خوارج کے نزدیک بھی خلیفہ نہیں رہے تھے – علی نے خوارج کو بلوہ کرنے پر قتل کیا کافر قرار نہیں دیا یعنی باوجود اس کے کہ خوارج علی کو خلیفہ ماننے سے انکار کر چکے تھے علی کے نزدیک وہ مسلمان ہی تھے
اس پر میں نے تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ
https://www.islamic-belief.net/خوارج-سے-متعلق-روایات/
شیعان علی ایک مختلف الخیال گروہ تھا جس میں قریش مخالف قبائل تھے
—
معاویہ امیر شام تھے خلیفہ نہیں ہوئے نہ انہوں نے اپنے اپ کو خلیفہ کہلوایا یہاں تک کہ حسن نے ان کو خلیفہ کیا
کیا یہ حدیث صحیح ہے
مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد
وعن أبي عبد الله الجدلي قال : دخلت على أم سلمة فقالت لي : أيسب رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فيكم ؟ قلت : معاذ الله ، أو سبحان الله ، أو كلمة نحوها . قالت : سمعت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول : ” من سب عليا فقد سبني ” .
رواه أحمد ، ورجاله رجال الصحيح غير أبي عبد الله الجدلي ، وهو ثقة
https://library.islamweb.net/NewLibrary/display_book.php?bk_no=87&ID=2932&idfrom=14859&idto=14889&bookid=87&startno=9
اس کو امام احمد اپنی کتاب فضائل صحابہ میں بھی لاے ہیں
حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قال نا يحيى بن أبي بكير نا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقالت لي : أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم قلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سب عليا فقد سبني
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے دی
منکر روایت ہے کیونکہ علی کا درجہ رسول الله کے برابر نہیں
سند میں أبو عبد الله الجدلي ہے جس کو شيعي بغيض.کہا گیا ہے اور
قال الجوزجاني: كان صاحب راية المختار.
جوزجانی نے کہا یہ مختار ثقفی کا جھنڈا اٹھانے والا ہے
اس کو محققین نے صحیح بھی کہا ہے
http://islamport.com/w/mtn/Web/2986/4821.htm?zoom_highlight=%C3%ED%D3%C8+%D1%D3%E6%E1+%C7%E1%E1%E5
http://islamport.com/w/mtn/Web/3009/7248.htm?zoom_highlight=%C3%ED%D3%C8+%D1%D3%E6%E1+%C7%E1%E1%E5
http://islamport.com/w/krj/Web/2927/17937.htm?zoom_highlight=%C3%ED%D3%C8+%D1%D3%E6%E1+%C7%E1%E1%E5
http://islamport.com/w/srh/Web/1227/3823.htm?zoom_highlight=%DD%DE%CF+%D3%C8%E4%ED
=======
اور دوسری بات یہ جو آپ نے کہی
========
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے دی
منکر روایت ہے کیونکہ علی کا درجہ رسول الله کے برابر نہیں
========
منکر روایت ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے – لیکن حضورصلی الله علیہ وسلم کا اپنے ساتھ کسی کی نسبت کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا درجہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے بلند یا برابر ہو جایے
حضور صلی الله وسلم کا درجہ ہمیشہ بلند ہو گا
اگر راوی ثقہ بھی ہو تو منکر روایت کر سکتا ہے
پھر یہ ابو عبد الله الجدلی تو مختار کذاب کا ساتھی ہے
اور اس کا متن منکر ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ اور علی کا درجہ اس میں ملا دیا ہے
شاتم رسول کی سزا کی بحث کا اپ کو علم ہے کیا اب اس میں علی کو بھی شامل کر دیا جائے
نہیں بھائی غلو مت کریں
علی کو گالی دینا ، رسول الله کو گالی دینے کے برابر کیسے ہوا ؟
———-
اپ نے کہا
حضورصلی الله علیہ وسلم کا اپنے ساتھ کسی کی نسبت کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا درجہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے بلند یا برابر ہو جایے
یہ نسبت گالی دینے پر ہے
—–
دور نبوی میں علی کو کس سے گالیاں پڑیں جو رسول الله نے ایسا کہا
روایت کا نہ سر ہے نہ پیر ہے
——–
پھر جس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دی اس کا تو ایمان ہی نہیں رہا
دوسری طرف قتل عثمان کے بعد اصحاب رسول نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور جنگوں میں قتل بھی کیا
ہم اصحاب رسول جو مشاجرات میں شامل ہوئے ان کو مرتد نہیں کہتے
——–
علی کو منہ پر خوارج نے گالی دی ہو گی لیکن علی نے یا ابن عباس نے ان کو مرتد نہیں کہا
مدینہ میں ہزار بچے پیدا ہوئے جب کے باپ کا پتا نہیں تھا ؟
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ عَنْ أَبِي قُرَّةَ قَالَ: قَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: وَلَدَتْ أَلْفُ امْرَأَةٍ مِنْ أهل المدينة بعد وقعة الْحَرَّةِ مِنْ غَيْرِ زَوْجٍ
البداية والنهاية
http://shamela.ws/browse.php/book-8376#page-3092
الْمَدَائِنِيُّ نے کہا ابو قرہ نے کہا ہشام بن حسان نے کہا مدینہ میں ایک ہزار عورتوں نے بچے جنے واقعہ حرہ کے بعد جن کے شوہر نہیں تھے
سند میں هشام بن حسان البصري ہے جو مدلس ہے اور حوشب سے تدلیس کرتا ہے
سند میں أَبِي قُرَّةَ مجہول ہے
هشام بن حسان المتوفی ١٨٤ ہجری کو سن ٦٠ کی خبر کس سے ہوئی کوئی خبر نہیں
Jis ne madine walon ko darya damkaya uspr lant ho kya yeh hadith sahih hai
Ibn e zayad ne ik sihabi ko tigna mota muhamadi kha to unhon ny kha k Nabi s.a.w ko sohbt pr ab mujy tana mile ga to sheikh abu zarra ne kha k es ko hoaz se pani na mile ga
Sunnan abi dawo hadith4749 kya sahih hai
عبید الله بن زیاد اصحاب رسول کا مذاق اڑاتا تھا
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
——–
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ أَمِيرًا مِنْ أُمَرَاءِ الْفِتْنَةِ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَكَانَ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُ جَابِرٍ، فَقِيلَ لِجَابِرٍ: لَوْ تَنَحَّيْتَ عَنْهُ، فَخَرَجَ يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ فَنُكِّبَ، فَقَالَ: تَعِسَ مَنْ أَخَافَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنَاهُ – أَوْ أَحَدُهُمَا -: يَا أَبَتِ، وَكَيْفَ أَخَافَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ مَاتَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَقَدْ أَخَافَ مَا بَيْنَ جَنْبَيَّ
اس کی سند منقطع ہے- زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ کا سماع جابر سے نہیں
—–
صحیح ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الصُّوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَخَافَهُ اللَّهُ»
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَطَاءٍ، مجہول ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا (1) أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ اللَّيْثِيُّ أَبُو ضَمْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،
اور
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَخَافَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا
یہ سند حسن ہے
لمُعْجَمُ الكَبِير طبرانی میں ہے
حدثنا عبدُالله بن أحمدَ بن حنبل، حدثني أبو موسى الهَرَوي، ثنا العبَّاس بن الفَضْل الأنصاري، ثنا همَّام، عن يحيى بن سعيد، عن مسلم بن إبراهيم، عن عَطاء بن يَسار، عن عبد الله بن عَمرو؛ أنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ آذَى أَهْلَ المَدِينَةِ آذَاهُ اللهُ، وعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ والمَلاَئِكَةِ والنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ ولاَ عَدْلٌ» .
البانی نے اس کو حسن صحيح – “الصحيحة” (2304) میں قرار دیا ہے
یہ روایت صحیح ہے اس میں مقصد ہے کہ جان بوجھ کر خواہ ماخواہ اہل مدینہ کو پریشان کرنا –
ظاہر ہے یہ قول نبوی یزید سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ مشرکین مکہ سے متعلق ہے جو مدینہ پر حملے کر رہے تھے
اگر مدینہ میں بلوہ ہو اس میں لوٹ مار ہو تو کیا کیا جائے گا اس حدیث کی روشنی میں پولیس اور فوج خاموش رہے گی یا بلوہ کرنے والوں کو گرفتار کرے گی
خود سوچیں لا اینڈ آڈر کا مسئلہ کون حل کرے گا بلوائی یا پولیس؟
میرا خیال ہے کہ بلوائی اس طرح اس حدیث کو دلیل بنا کر مدینہ میں آج بھی فساد کر سکتے ہیں لہذا اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی اسلامی حکومت قانون کی بالا دستی کے لئے مدینہ میں کوئی اقدام نہ کرے
Sir wo jo charri wali hadith thi ibne zayd ki us mn hai k us ne hussain r.a k bary mn kuch kaha lekin kaha kiya is k ilfaz matan mn mujood nai hai to pta kesy chla k us ne tareef hi ki thi
Hadith motbar hoti hai k tarekh q k tarekh mn tu bht kuch aya hai to pta kesy chly ga
Haqiqat kia hai
خروج حسین رضی الله عنہ
⇓ عبید الله بن زیاد نے چھڑی سے حسین رضی الله عنہ کے چہرے پر مارا؟
⇓ عبید الله بن زیاد نے چھڑی سے حسین رضی الله عنہ کے چہرے پر مارا؟ کیا متن صحیح ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/مشجرات-صحابہ/
———
صحیح بخاری میں ہے
وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا
ابن زیاد نے حسین رضی الله عنہ کی خوبصورتی پر بات کی
https://youtu.be/amFCLmtZsWI
Sir is pr kya kahe ge… Kya aisa hi hai … Jesa video mn hai
سانحہ کربلا کے مقتولین کی قبریں معدوم ہیں – صرف حسین کا سر تھا جو ابن زیاد کے پاس پہنچایا گیا تھا بعد میں اس کا دفن کا مقام معلوم نہیں ہے
میرے نزدیک شہداء کے اجسام معدوم ہو جاتے ہیں – اہل بیت کے لوگ سب ایک جگہ قتل ہوئے لیکن لوگوں نے مختلف علاقوں میں ان سے قبریں منسوب کیں
مسلمانوں میں سائنسی طریقوں سے کسی بھی قول کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی فورا معجزہ قرار دے دیا جاتا ہے
بہر حال مجھے اس پر معلومات نہیں ہیں کہ پانی کے اجزاء کیا ہیں اس کی رفتار کتنی ہے اور قرب میں کوئی پانی کا ذخیرہ تو نہیں
پانی میں کھارا پن خوبی بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں معدنیات کی مقدار کتنی ہے یہ اس پر منحصر ہے
بھائی واقعہ کربلا کہ حوالے سے ایک عالم کا یہ موقف ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ یذید رحمہ اللہ علیہ کی بیعت پر راضی تھے جب یذید رحمہ الله نے بیعت کے لیے بندے بھیجے تو حسین رضی اللہ عنہ نے نا ہی انکار کیا نا ہی ٹال مٹول کیونکہ اتنے جلیل القدر ہستی کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ زبان سے کچھ کہیں اور دل میں کچھ ہو چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ اک کمرے میں نہیں بلکہ علی الاعلان بیعت کرنا چاہتے تھے تاکہ کوفیوں کو بھی معلوم پڑ جائے کہ حسین رضی اللہ عنہ یذید رحمہ سے کوئی مخالفت نہیں رکھتے لیکن اگلی صبح حسین رضی اللہ عنہ عجلت میں وہاں سے نکل چکے تھے یذید رحمہ کے بندے وہاں دیر سے پہنچے جبتک حسین وہاں سے نکل چکے تھے اور حسین رضی کے پاس جو کوفیوں کے خطوط پر خطوط آرہے تھے تو حسین رضی نے یہ سوچا کہ اس فتنہ کو جڑ سے ختم کیا جائے کوفہ میں جاکر۔۔۔کیونکہ یہ وہی فتنہ پرور لوگ تھے جو علی رضی کے خلاف بھی سازشیں کر چکے تھے اور اس کے بعد حسن رضی کو اپنا ٹارگٹ اور اب ان کی نظر حسین رضی پر تھی چنانچہ حسین رضی چاہتے تھے کہ اس فتنے کو وہیں جا کر جڑ سے ختم کیا جائے چنانچہ اپنے اس مشن کے بارے میں حسین رضی نے عباس رضی کو بھی آگاہ کیا تھا اور یذید رحمہ بھی اس سے آگاہ تھے ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد کوفیوں عراقیوں نے وہ سارا ماجرا کیا جس کو واقعہ کربلا کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بھائی یہ ان کو خواب میں معلوم ہوا ہو گا
مجھ کو تو اس سے الگ علم ہے – حسین نے خروج کیا اس کو قبول کریں
اسی بلاگ کے سوالات میں جواب میں موجود ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے سختی سے حسین کو روکا کہ اپنی کھال مت اترواو اور سر کے بالوں سے روکتا اگر چاہتا
حسین کوئی جرنلسٹ نہیں تھے کہ کوفہ جا کر وہاں کا احوال یزید کو بتاتے وہ کوفیوں کی باتوں میں آ گئے
——–
خلیفہ بننے کے لئے عصبیت یا جتھہ بندی درکار ہے – معجزہ سے کوئی خلیفہ نہیں ہوتا
حسین کا اقدام اصل میں اجتہادی غلطی ہے وہ معجزہ کے منتظر تھے لیکن ایسا نہیں ہوا
ابن زبیر بھی معجزہ کے منتظر تھے لیکن ایسا نہیں ہوا
كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن الله
کتنی ہی بار ایک گروہ قلیل الله کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب ہوا
اس آیت میں اذن الله موجود ہے – جب تک اذن کا علم نہ ہو گروہ قلیل کا ایسا کرنا صحیح نہیں ہے
طالوت کو اذن الله مل چکا تھا لیکن حسین یا ابن زبیر کو نہیں ملا تھا – ان کا اقدام اجتہادی تھا
و اللہ اعلم
Sir ibne zayd ka charri wala waqia khty termizi .ibn.e hibban or tabrani mn hai kya un mn mujood asnad b zaef hai …
Ik aitraz aya hai k bukri mn ilfaz fa jaal yankut hai jab masharki wali dictionary mn ) کے مطابق
قَوْله فَجعل ينكت بهَا بِضَم الْكَاف وَآخره تَاء بِاثْنَتَيْنِ فَوْقهَا أَي يُؤثر بهَا فِي الأَرْض نكت فِي الأَرْض إِذا أثر بهَا بقضيب أَو نَحوه وَمثله قَوْله فِي الحَدِيث الآخر فينكتون بالحصا أَي يضْربُونَ بِهِ كَمَا يفعل المتفكر المهتم
قول کہ فَجعل ينكت …. یعنی آثار
Mn zameen pr asar bnany ka zikr hai to yeh kesy pta chla k ibn e zayd ne b zameen pr asar bnay .. Jab k us sanad mnبقضیب k ilfaz nahi hai to phir hadith k ilfaz ki sharh is y kesy mumkin hai
—–
Fath ul bari jild 7 pg 121 pr hai
عربی لغات میں جو مطلب لکھا ہے وہ اپ کو پیش کر دیا ہے کہ روایت کا مطلب الگ ہے
———
اس روایت میں بِقَضِيبٍ کے الفاظ ایک ہی سند سے ہیں
ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيءَ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ فِي أَنْفِهِ وَيَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًا، لِمَ يُذْكَرُ؟» قَالَ: قُلْتُ: «أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ». «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
المعجم الكبير طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ الْكُوفِيُّ، ثنا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، ثنا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ حِينَ أُتِيَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ، فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ فِي أَنْفِهِ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًا. فَقُلْتُ: «أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
دونوں کی سند میں هشام بن حسان مدلس ہے اور عنعنہ ہے سند ضعیف ہے
========
ابن حجر نے فتح الباری میں طبرانی کا جو حوالہ دیا ہے وہ بھی ضعیف ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأُوَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ حَرَامِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ مِرْدَاسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: أُتِي ابْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ، فَجَعَلَ يَجْعَلُ قَضِيبًا فِي يَدِهِ فِي عَيْنِهِ وَأَنْفِهِ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: «ارْفَعِ الْقَضِيبَ» ، فَقَالَ: لِمَ؟ فَقَالَ: «رَأَيْتُ فَمَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْضِعِهِ»
سند میں حرام بن عثمان الأنصاري المدني ہے جو متروک ہے
میزان از الذھبی میں ہے
قال مالك ويحيى: ليس بثقة.
وقال أحمد: ترك الناس حديثه.
وقال الشافعي وغيره: الرواية عن حرام حرام.
وقال ابن حبان: كان غاليا في التشيع يقلب الأسانيد، ويرفع المراسيل.
وقال إبراهيم بن يزيد الحافظ: سألت يحيى بن معين عن حرام.
فقال: الحديث عن حرام حرام.
وكذا قال الجوزجاني.
اس سے روایت کرنا حرام ہے
===========
ابن حجر نے مسند البزار کا حوالہ بھی دیا ہے
حَدَّثنا مُفَرَّجُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ عُبَيد اللَّهِ الذهلي، حَدَّثنا غسان بن الربيع، حَدَّثنا يُوسُفُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ ثابتٍ وَحُمَيْدٍ، عَن أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا أُتِيَ عُبَيد اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ جَعَلَ يَنْكُتُ بِالْقَضِيبِ ثَنَايَاهُ يَقُولُ: لَقَدْ كَانَ أَحْسَبُهُ قَالَ: جَمِيلا فَقُلْتُ والله لأسوئنك إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْثِمُ حَيْثُ يَقَعُ قَضِيبُكَ قَالَ: فَانْقَبَضَ.
اس کی سند میں يوسف بن عبدة ہے جس کے لئے عقیلی کا کہنا ہے کہ یہ حمید اور ثابت سے منکرات نقل کرتا ہے
وقال العقيلي: له مناكير عن حميد وثابت
اور اس سند میں بھی ایسا ہی ہے
Jamia tarmizi hadith4147 mn wazeh ilfaz hai k ibn e zayad ne hazrat hussain k naak pr charri mari… Is lie tahfatul ahwadi jild 10pg192 mn mubatriik puri sahib shah wali ullah k hawaly se likhty hai k jo ilfaz sahih bukhri mn tareef k ae hai wo tanz se kahy gae to hazrat anas k ilfaz tanbi pr mubni.thy. or ibne zayd hi qatil.tha
Or wo jo abi dawd ki hadith4749 mn apne kha k majhol shaks hai or ap ne kha k.musand ahmed mn es ki sanad sahi hai es k mutalik oun Al mabood by shams ul haq azeem abdi jild 10 pg 83,84 mn ibn e zatad ko qatil kha gya hai or jis falan ravi ka zikr abu dawd ki sanad mn hai wo jareer abbasi hai is lie in dono hadith ko mila kr. Abi dawd wali sanad ko albani or zubair zai sahib ne sahih kha hai
Ap kya khty ho
اس روایت کے عربی متن میں چھڑی مارنے کے الفاظ سرے سے ہیں ہی نہیں
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيءَ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ فِي أَنْفِهِ وَيَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًا، لِمَ يُذْكَرُ؟» قَالَ: قُلْتُ: «أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ». «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
اس نے ناک پر قَضِيبٍ کی اور بولا
اب یہ مترجم کا ذہن ہے کہ وہ اس کو ضرب لگانا کرے یا ناک کو چھونا بیان کرے کیونکہ عربی الفاظ میں مارنے کا ذکر نہیں ہے
ضرب کے الفاظ ہونے چاہیے
شاہ ولی اللہ ایک جاہل صوفی تھا اس کی تحریفات کا ذکر نہ کریں -صوفیاء تو کشف سے ماضی میں جا کر معلوم کرتے ہیں کہ اصل میں کیا ہوا
صحیح بخاری کے الفاظ میں طنز ہے یہ اس کو کشف ہوا ہو گا
ابن زیاد قاتل تھا یہ خبر کس شخص نے دنیا میں سب سے پہلے دی ؟ پہلے اپ یہ بتائیں
Jamua termizi hadith 3778 mn hai k ibne zayd ne hazrat hissain r.a k naak pr mara is hadith ko termizi hassan sahih gareeb khty hai.
Ap kya khty ho
ترمذی ح ٣٧٧٨ میں ہے
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيءَ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ فِي أَنْفِهِ وَيَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًا، لِمَ يُذْكَرُ؟» قَالَ: قُلْتُ: «أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ». «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
ترمذی نے اس کو بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا میں لکھا ہے
مناقب میں ضعیف کو بیان کیا جاتا ہے – اس میں ہے کہ حسین کی صورت رسول الله جیسی تھی اس کو منقبت سمجھتے ہوئے ترمذی نے اس کو بیان کیا ہے
یہ وہی روایت ہے جس کا ذکر کیا تھا کہ اس میں هشام بن حسان مدلس ہے اور عنعنہ ہے سند ضعیف ہے – لیکن چونکہ یہ منقبت میں سے ہے کہ کسی کی شکل رسول الله جیسی ہو اس کو ضعیف ہونے کے باوجود حسن کہا گیا ہے
———
میرے نزدیک اس کا متن بھی صحیح نہیں ہے
اول اصحاب رسول کے مطابق حسن رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مشابہ تھے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ مَا أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ»
علی نے کہا حسن سر سے لے کر سینہ تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسا ہے اور حسین اس سے نیچے یعنی صرف پیر ہوئے
اس روایت کو ابن حبان ، احمد شاکر اور شعیب نے صحیح کہا ہے
اور یہاں سر لایا گیا ہے جو حسین کا ہے اور یہ مشابہت نہیں رکھتا تھا
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ صَلاةِ الْعَصْرِ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَيَالٍ، وَعَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ يَمْشِي إِلَى جَنْبِهِ، فَمَرَّ بِحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَلْعَبُ مَعَ غِلْمَانٍ، فَاحْتَمَلَهُ عَلَى رَقَبَتِهِ وَهُوَ يَقُولُ: “وَا بِأَبِي شَبَهُ النَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيِّ”، قَالَ: وَعَلِيٌّ يَضْحَك.
ابو بکر نے حسن کے لئے کہا کہ اس میں النبی کی مشابہت ہے یہ علی پر نہیں گیا
اور یہ صحیح بخاری ہی میں ہے
حَدَّثَنا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَحَمَلَ الحَسَنَ وَهُوَ يَقُولُ: «بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ، لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ» وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ
دوم رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی بھی خضاب کا استعمال نہیں کیا تو پھر ایک خضاب لگانے والے کی شکل رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کیسے مل سکتی ہے؟
Jamia termizi ki hadith 3778 ka tarjuma o tehqeq chahiye
بہن اپ بار بار ایک ہی حدیث پر سوال کیوں کر رہی ہیں
کیا میں نے لکھا نہیں
اس میں هشام بن حسان مدلس ہے اور عنعنہ ہے سند ضعیف ہے
دوم اس کا متن صحیح نہیں کیونکہ اس میں حسین کو رسول الله کے مشابہہ صورت کہا گیا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا
Sorry sir….. Mezan ul ehdal mn is ravi ko thiqa kha gya hai…. Or kya aan wali tamam riwauat zaef hongi …. Chahy thuqa b tadless kry … Ya phir bukhri o muslim ki aan wali riwayt mani jae gi….. Mn ne aisa hi suna hai….. Kya yeh usool theak hai
Seer ul alam alnabla سیر اعلام النبلاء jild 6 pg356 k mutabik hasham ne yeh hadith hassan bin sereen or unki behn hafsa bint sareen se suni..
Toh zuf khtm hogya .. Charri senaak ko chuna kia sahi hai
پہلے اپ یہ بتائیں کے تدلیس کیا ہوتی ہے ؟ مدلس راوی کیا کرتا ہے ؟ کسی علم حدیث کی کتاب کے حوالے سے بات کریے گا اور حوالہ صفحہ کے ساتھ دیں
دوم سند صحیح ہونے سے کیا متن آٹومیٹک صحیح ہو جاتا ہے ؟
Ravi kisi ka name chupa leta hai wo tadless hoti hain hawala nahi janti mirza jelmi ki taqreero se pta chla k tadless yeh hoti hai . Or us person ka name nahi leta or aan likhta hai magr agr us hadith sama ki tasreh ho jae to wo hadith sahih hojati hai…
Ap k dosry sawal ka jawab muje nahi pta ap tafseeel se bta dein
راوی نام چھپا لیتا ہے تو یہ عادت ہوتی ہے اور مکمل سمجھ سے وہ کرتا ہے اب ظاہر ہے جب کہا جاتا ہے اس اس سے تدلیس کرتا ہے تو یہ کام وہ بہت کرتا ہے اسی لئے لوگوں کو علم ہوا – اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی اور سے وہ تدلیس نہیں کرے گا
مثلا جامع التحصيل في أحكام المراسيل المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
هشام بن حسان عن محمد بن المنكدر أن جابر رفعه: “عليكم بالأئمة”. فسألت عنه قال: حديث منكر لم يروه عن ابن المنكدر إلا الضفعاء إسماعيل بن مسلم ونحوه ولعل هشام بن حسان أخذه من إسماعيل، فإنه كان يدلس.
هشام بن حسان نے محمد بن المنكدر سے روایت کیا اس نے ابن جابر تک پہنچایا کہ عليكم بالأئمة پس میں نے اس پر سوال کیا – کہا حدیث منکر ہے اور اس کو ابن منکدر سے صرف ضعیف إسماعيل بن مسلم اور اس کے جیسوں نے روایت کیا ہے اور ہو سکتا ہے ہشام نے اس کو اسمعیل سے لیا ہو پس وہ تدلیس کرتا ہے
——
یعنی صرف ابن سیرین اور ان کی بہن سے ہی نہیں آوروں سے بھی تدلیس کرتا رہا ہے
Ap ne kha k ashab ki laasho ka masna hoa yeh kia hota hai r koi uk missal dein
سنن ابو داود
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب کہ ان کا مثلہ کیا گیا تھا ۔ ( ان کی نعش سے ناک اور کان وغیرہ کاٹ لیے گئے تھے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اگر یہ بات نہ ہو کہ ( ان کی بہن ) صفیہ ( رضی اللہ عنہا ) سے برداشت نہیں ہو سکے گا تو میں اسے ( سیدنا حمزہ کی نعش کو ) ایسے ہی چھوڑ دوں حتیٰ کہ اسے درندے اور پرندے کھا جائیں اور پھر یہ ان کے پیٹوں ہی سے محشر میں آئیں ۔ “ اور ( احد میں ) کپڑے کم پڑ گئے اور مقتولین کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تو ایک ایک دو دو اور تین تین کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا …
——
صحیح بخاری
http://islamicurdubooks.com/Hadith/ad.php?bsc_id=2207&bookid=1
قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ وَتَجِدُونَ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي.
ابوسفیان نے کہا، آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی ہوتی ہے۔ (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤ گے، میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برا نہیں معلوم ہوا۔
Sir husnain jannnti jawano k sardar ki ik raweel ki gai hai k is se murad darjat ki bulandi hai
یہ صحیح سند سے معلوم نہیں – غلو پر مبنی روایت ہے
⇑ حسنین اہل جنت کے سردار
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/
جنت کے سردار تمام انبیاء ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ سب بڑھاپے میں فوت ہوئے یا شہید ہوئے ہوں
Sir es mn jo abu huraira ki sanad hai ap ne kha wo 2 majhooleen ki wajh se zaef hai abu jafar or muhammad bin marwan
Albani k nazdeek yeh ik hi shaks hai or es k tamam rijaal siaah hai siwaye alzulhi k or ibne hajar ne taqreeb ul tehzeeb mn esko muqbool khty hai
Refrence tareeb ul tehzeb jild 2 pg 135 ravi no 6283
Ap kya khty ho
میزان از الذھبی میں ہے
محمد بن مروان [س] الذهلي، أبو جعفر، كوفي.
روى حديثاً عن أبي حازم الأشجعي.
لا يكاد يعرف.
روى عنه أبو أحمد الزبيري، وأبو نعيم.
وهذا حديثه عن أبي حازم، عن أبي هريرة – مرفوعا: أن ملكا استأذن الله في زيارتي فبشرني أن فاطمة سيدة نساء أمتى، والحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.
——–
کہا
لا يكاد يعرف.
اس کو نہیں جانتا
—–
ابن حجر جب کسی کو مقبول بولیں تو سمجھ لیں یہ مجہول ہی ہے کیونکہ ابن حجر نے دیکھا کہ اگر کوئی ثقہ مجہول سے روایت کرے تو وہ اس کو مقبول کہتے ہیں جبکہ ان سے قبل اس ہی کو مجہول کہا گیا ہے
Sir ibn e majah hadith 1000 mn Wazeh hai abu bakr o umr jannat k buzurgo k sarder hon ge siwaye. Anbiya o rusool k isko haasan kha gya is trh ap kKa itraz khtm ho gya k is trh inko anbiya o rusol ka sardr kha ja rha hai . Ap kya khty ho
http://mohaddis.com/SearchByTopic/1244
ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ
عن الحارث عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابو بكر وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين لا تخبرهما يا علي ما داما حيين
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے جنتیوں کے كهول کے سردار ہوں گے، اور فرمایا اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا
دین کوئی ایسی بات نہیں جو نبی علیہ السلام نے چھپائی ہو یا اس کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہو لیکن اس کے باوجود
اس روایت کو لوگ صحیح کہتے ہیں
———
میرے نزدیک متن منکر ہے
ابو بکر کا یا عمر کا درجہ انبیاء سے بلند نہیں – کیا ابراہیم اور یعقوب کا درجہ بلند ہے یا ابو بکر اور عمر کا ؟
پھر کیا ہمارے نبی دینی کی بات چھپا لیتے تھے ؟
Abu naeem ajali k bary mn ap ne ibne mueen or ibn e qittan k comments likhy hai wo khty yeh ravi zaef hai jab k zahbi ne incomments se phle likHa hai k inhon ne sahaba ki kasser tadad se naql kia hai or phir kasser jaamt ne insy. Dosri trf sahiheen ka markzai ravi b ap khty hai isko.
Phir tph yeh siqqa ravi hoa . Phir ibne mueen k qol ka kya bne ga wo zaef khty hsi phir b in se riwayat li gai ….
کس حوالے سے بات ہو رہی ہے
کون سی حدیث ہے ؟
ابو شہر یار بھائی کیا واقعہ حرا میں صحابہ کرام رضی الله شہید ہوے کیا کوئی بدری صحابی رضی الله شہید ہوا- کوئی معلومات مل سکتی ہیں یا کوئی شہید نہیں ہوا
بعض لوگوں نے کچھ غیر معروف اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جن کےبارے میں حتمی نہیں ہے کہ واقعی صحابی بھی تھے یا نہیں
—–
کسی بدری صحابی کی اس میں موت نہیں ہوئی
ایک صحابی ہیں جن کا نام معاذ بن الصِّمَّة بن عمرو رضی الله ہے
ان کے بارے میں ابن ہجر لکھتے ہیں کہ
“معاذُ بنُ الصِّمَّةِ بنِ عمرِو بنِ الجموحِ الأنصاريُّ ، قال العدويُّ : شهِد أُحداً وما بعدَها ، وقُتِلَ يومَ الحرَّةِ . وذكَر أبو عبيدٍ القاسمُ بنُ سلامٍ أن معاذَ بنَ الصِّمَّةِ شهِد بدراً هو وأخوه خراشٌ . فيُحَرَّرُ هل هو أو غيرُه؟”
سکین پیجز
https://ia902608.us.archive.org/BookReader/BookReaderImages.php?zip=/20/items/waq98071/10_98080_jp2.zip&file=10_98080_jp2/10_98080_0000.jp2&scale=3&rotate=0
https://ia902608.us.archive.org/BookReader/BookReaderImages.php?zip=/20/items/waq98071/10_98080_jp2.zip&file=10_98080_jp2/10_98080_0210.jp2&scale=3&rotate=0
==============
اسی طرح امام ذھبی اپنی کتاب تجريد أسماء الصحابة میں بھی یہی لکھتے ہیں
سکین پیجز
https://ia600201.us.archive.org/BookReader/BookReaderImages.php?zip=/19/items/Tajrid_Asma_Sahaba_Thahabi/tas0_jp2.zip&file=tas0_jp2/tas0_0000.jp2&scale=2.4986945169712795&rotate=0
https://ia600201.us.archive.org/BookReader/BookReaderImages.php?zip=/19/items/Tajrid_Asma_Sahaba_Thahabi/tas2_jp2.zip&file=tas2_jp2/tas2_0080.jp2&scale=6&rotate=0
……………….
اسی طرح ابن ہجر اپنی کتاب میں تقریباً ٨ صحابہ کرام رضی الله کا ذکر کرتے ہیں جو واقعہ حرا میں شہید ہوے ایک کا حوالہ اوپر جو دیا وہ ہے اور باقی سات یہ ہیں
١.
بشير بن النعمان
707 – بشير بن النعمان بن عبيد ويقال له مقرن بن أوس بن مالك الأنصاري الأوسي قال بن القداح قتل يوم الحرة وقتل أبوه يوم اليمامة
http://islamport.com/d/1/trj/1/22/290.html
—
٢.
سعد بن حبان بن منقذ
سعد بن حبان: بن منقذ بن عمرو المازني. أمه هند بنت ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب.
قال العدوي: شهد بيعة الرضوان وقتل يوم الحرة.
http://islamport.com/d/1/trj/1/23/359.html
—-
٣.
عامر بن أوس بن عَتيك
عامرُ بنُ أوسِ بنِ عَتيكِ بنِ عمرِو بنِ عبدِ الأعلمِ بنِ عامرِ بنِ زَعوراءَ بنِ جُشَمَ بنِ الحارثِ بنِ الخزرجِ بنِ عمرِو بنِ مالكِ بنِ الأوسِ الأنصاريُّ الأوسيُّ ، قال الطبريُّ في “الذيلِ” : له صحبةٌ ، وشهِد الخندقَ وما بعدَها ، وقُتِلَ يومَ الحَرَّةِ
٤.
عبد الله بن حنظلة بن أبي عامر
: “عبدُ اللهِ بنُ حنظلةَ بنِ أبي عامرٍ الأنصاريُّ . تقدَّم نسبُه عندَ ذكرِ أبيه، يكنَى أبا عبدِ الرحمنِ، ويقالُ : كنيتُه أبو بكرٍ . وهو المعروفُ بغسيلِ الملائكةِ ، أعنَى حنظلةَ . قُتِلَ حنظلةُ يومَ أُحُدٍ شهيداً ، وولِد عبدُ اللهِ بعدَ قتلِه ، وأمُّه جميلةُ بنتُ عبدِ اللهِ بنِ أُبَيٍّ ، وقد حفِظ عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم وروَى عنه ، وعن عمرَ – وعبدِ اللهِ بنِ سلامٍ – وكعبِ الأحبارِ . روَى عنه قيسُ بنُ سعدٍ وهو أكبرُ منه ، وعبدُ اللهِ بنُ يزيدَ الخَطَمِيُّ ، وعبدُ اللهِ بنُ أبي مُلَيْكَةَ ، وعبدُ الملكِ بنُ أبي بكرِ بنِ عبدِ الرحمنِ بنِ الحارثِ ، وأسماءُ بنتُ زيدِ بنِ الخطابِ ، وضَمْضمُ بنُ جَوْسٍ.
قال ابنُ سعدٍ : قُتِلَ عبدُ اللهِ يومَ الحَرَّةِ، وكان أميرَ الأنصارِ يومَئذٍ، وذلك سنةَ ثلاثٍ وستينَ في ذي الحجةِ، وكان مولدُ عبدِ اللهِ سنةَ أربعٍ، قال ابنُ سعدٍ : بعدَ أحدٍ بسبعةِ أشهرٍ. فيكونُ في ربيعٍ الأولِ أو الآخرِ”.
٥.
عون بن عميس بن معد
“عونُ بنُ عُمَيْسِ بنِ مَعَدِّ بنِ الحارثِ بنِ تيمِ بنِ كعبِ بنِ مالكِ بنِ قحافةَ بنِ عامرِ بنِ ربيعةَ بنِ عامرِ بنِ سعدِ بنِ مالكِ بنِ نَسْرِ بنِ واهِبِ بنِ شَهْرانَ بنِ عِفْرِسِ بنِ حُلْفِ بنِ أفْتَلَ – وهو خَثْعَمٌ – الخثعميُّ، أخو أسماءَ بنتِ عُمَيْسٍ وأختِها سلمَى ، وخالُ أولادِ جعفرٍ وأبي بكرٍ وحمزةَ وعليٍّ ، قال ابنُ الكلبيِّ : قُتِلَ يومَ الحَرَّةِ ، وهو ابنُ مائةِ سنةٍ”
٦.
واسع بن حبان بن منقذ
“واسعُ بنُ حَبانَ بنِ منقذٍ الأنصاريُّ، قال العدويُّ : شهِد بيعةَ الرضوانِ والمشاهدَ بعدَها ، وقُتِلَ يومَ الحَرَّةِ”
٧.
يزيد بن كعب بن عمرو
“يزيدُ بنُ كعبِ بنِ عمرٍو الأنصاريُّ، ذكَره العدويُّ، وقال : صحِب النبيَّ صلى الله عليه وسلم هو وأبوه وأخوه حبيبٌ ، واستُشْهِدَ يزيدُ وأخوه يومَ الحَرَّةِ. واستدركه ابنُ فتحونٍ”
============
الإصابة في تمييز الصحابة کتاب کا لنک یہ ہے
http://waqfeya.com/book.php?bid=4392
اس لسٹ سے متفق ہونا مشکل ہے
صحابی متصور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی سند ملے
——
معاذ بن الصِّمَّة بن عمرو
ان سے کوئی حدیث نہیں ملی
طبقات ابن سعد میں ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أُسَامَةَ عَنْ أَبِي جَابِرٍ عَنْ أَبِيهِمَا أَنَّ مُعَاذَ بْنَ الصِّمَّةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ أَخَا خِرَاشٍ شَهِدَ بَدْرًا. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرُ: وَلَيْسَ بِثَبْتٍ وَلا مُجْمَعٍ عَلَيْهِ
واقدی نے اس کا ذکر کیا کہ مُعَاذَ بْنَ الصِّمَّةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ نے کہا کہ میرے بھائی خراش نے جنگ بدر دیکھی واقدی نے کہا یہ ثابت نہیں اور نہ اس پر کوئی جمع ہے
—-
بشير بن النعمان بن عبيد
اس نام کا کوئی صحابی نہیں ہے
———-
سعد بن حبان بن منقذ بن عمرو المازني
ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ذکر کیا ہے اور صحابی ہونے پر فیہ نظر کہہ کر شک کا اظہار کیا ہے
=—-
واسع بن حبان بن منقذ
ابن اثیر نے کہا فِي صحبته مقال اس کے صحابی ہونے پر قیل و قال ہے
——
عامرُ بنُ أوسِ بنِ عَتيكِ بنِ عمرِو
طبری کا قول ہے کہ یہ صحابی ہے
قال الطبري في الذيل: له صحبة
لیکن طبری نے کس دلیل پر کہا معلوم نہیں کیونکہ اس سے کوئی حدیث مروی نہیں نہ ہی اس کا کسی نے ذکر کیا
——-
عبد الله بن حنظلة بن أبي عامر
قال بن عبد البر أحاديثه عندي مرسلة
ابن عبد البر کے نزدیک اس کی حدیث رسول الله سے مرسل ہے
یعنی صحابی ہونے میں اختلاف ہے
——–
عون بن عميس بن معد
ان سے کوئی حدیث نہیں نہ کسی نے روایت میں ذکر کیا
——–
يزيد بن كعب بن عمرو
الذھبی نے میزان میں ذکر کر کے لکھا
لا يدري من ذا أصلا
میں نہیں جانتا اصل میں کون تھا
آپ نے کہا کہ
========
بشير بن النعمان بن عبيد
اس نام کا کوئی صحابی نہیں ہے
========
لیکن اس کا ذکر تو کئی جگہپر ہے – لیکن یہاں نام بشير بن النعمان بن عبيد نہیں ہے بلکہ النعمان بن بشير بن سعد بن ثعلبة بن جلاس بن زيد الأنصاري
ابن کثیر اپنی کتاب کی جلد اور باب میں ان کو انصاری لکھتے ہیں
البداية والنهاية/الجزء الثامن/وفيها مقتل النعمان بن بشير الأنصاري
اسی طرح آپ کے اور حوالوں کا حال ہے
اب معلومات عن الراوي بھی دیکھ لیں
الأسم : نعمان بن بشير بن سعد بن ثعلبة بن الجلاس بن زيد بن مالك بن ثعلبة
الشهرة : النعمان بن بشير الأنصاري , الكنيه: أبو عبد الله
النسب : الأنصاري, المدني, الخزرجي
الرتبة : صحابي صغير
عاش في : دمشق, المدينة, حمص, الكوفة
مات في : حمص
الوظيفة : القاضي : قاضي دمشق, الأمير : ولي إمرة الكوفة, ولي إمرة حمص
ولد عام : 2
توفي عام : 65
http://hadith.islam-db.com/narrators/1733/%D9%86%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%86-%D8%A8%D8%B4%D9%8A%D8%B1-%D8%A8%D9%86-%D8%B3%D8%B9%D8%AF-%D8%A8%D9%86-%D8%AB%D8%B9%D9%84%D8%A8%D8%A9…
ان کے أساتذة الراوي
الأسم الشهرة الرتبة
بشير بن سعد بن ثعلبة بن الجلاس بن زيد بن… بشير بن سعد الأنصاري
صحابي
حذيفة بن حسيل بن جابر بن أسيد بن عمرو بن… حذيفة بن اليمان العبسي
صحابي
عائشة بنت عبد الله بن عثمان بن عامر بن ع… عائشة بنت أبي بكر الصديق / توفي في :57
صحابي
عمر بن الخطاب بن نفيل بن عبد العزى بن ري… عمر بن الخطاب العدوي / توفي في :23
صحابي
معاوية بن صخر بن حرب بن أمية بن عبد شمس معاوية بن أبي سفيان الأموي / توفي في :60
صحابي
—
ان کی الجرح والتعديل
أبو حاتم الرازي : له صحبة
أبو حاتم بن حبان البستي : ذكره في الثقات
ابن حجر العسقلاني : صحابي
المزي : صاحب رسول الله صلي الله عليه وسلم
يحيى بن معين : أهل المدينة يقولون: لم يسمع من النبي وأهل العراق يصححون سماعه منه، وليس يقول سمعت من رسول الله إلا في حديث الشعبي إن في الجسد مضغة
===
کیا یہ ووہی صحابی ہیں جن کا اوپر لسٹ میں میں نے ذکر کیا ہے اور آپ نے رد کیا ہے
وضاحت چاہیے
اپ اب نام الگ کیوں لے رہے ہیں ؟
اور جو اپ نے پیش کیا اس کو پڑھا بھی کہ نہیں ؟
اب معلومات عن الراوي بھی دیکھ لیں
الأسم : نعمان بن بشير بن سعد بن ثعلبة بن الجلاس بن زيد بن مالك بن ثعلبة
الشهرة : النعمان بن بشير الأنصاري , الكنيه: أبو عبد الله
النسب : الأنصاري, المدني, الخزرجي
الرتبة : صحابي صغير
عاش في : دمشق, المدينة, حمص, الكوفة
مات في : حمص
ان کی حمص میں وفات ہوئی
اپ کو اس واقعہ کی تاریخ کا بھی علم نہیں ہے
جن صحابی کا اپ نے ذکر کیا ان کے لئے لکھا ہے
ولد عام : 2
توفي عام : 65
سن ٦٥ میں وفات ہوئی
اور واقعہ حرہ سن ٦٣ میں ہوا
——–
تو ان کا حرہ کے واقعہ سے کیا تعلق ہے ؟
——-
عبد الله بن حنظلة بن أبي عامر
قال بن عبد البر أحاديثه عندي مرسلة
ابن عبد البر کے نزدیک اس کی حدیث رسول الله سے مرسل ہے
یعنی صحابی ہونے میں اختلاف ہے
——–
لیکن ان کا ذکر تو صحابی کے طور پر ہی آیا ہے
http://www.sahaba.rasoolona.com/Sahaby/11875/%D9%85%D8%A7-%D8%B0%D9%83%D8%B1-%D8%B9%D9%86%D9%87-%D9%81%D9%8A-%D8%A3%D8%B3%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%BA%D8%A7%D8%A8%D8%A9/%D8%B9%D8%A8%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D9%86%D8%B8%D9%84%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%BA%D8%B3%D9%8A%D9%84-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A3%D8%A8%D9%8A-%D8%B9%D8%A7%D9%85%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%A7%D9%87%D8%A8
http://www.sahaba.rasoolona.com/Sahaby/11875/%D8%AA%D9%81%D8%B5%D9%8A%D9%84-%D9%85%D8%A7-%D8%B0%D9%83%D8%B1-%D8%B9%D9%86%D9%87-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%B1%D8%A8%D8%B9%D8%A9/%D8%B9%D8%A8%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D9%86%D8%B8%D9%84%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%BA%D8%B3%D9%8A%D9%84-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A3%D8%A8%D9%8A-%D8%B9%D8%A7%D9%85%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%A7%D9%87%D8%A8
اور کچھ احادیث بھی ہیں جو ان سے روایت ہیں – تین تو یہ ہیں
http://mohaddis.com/Search/0/1/%D8%B9%D9%8E%D8%A8%D9%92%D8%AF%D9%90%20%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87%D9%90%20%D8%A8%D9%92%D9%86%D9%90%20%D8%AD%D9%8E%D9%86%D9%92%D8%B8%D9%8E%D9%84%D9%8E%D8%A9%D9%8E
آپ نے اوپر تھریڈ میں حوالے بھی پیش کیے ہیں
جی میں نے لکھا صحابی ہونے میں اختلاف ہے – یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کریں تو مرسل متصور ہو گی بعض کے نزدیک اور بعض کے نزدیک متصل ہو گی
یہ ایک صحابی ہی ہیں دیکھ لیں اور یہ واقعہ حرا میں شہید ہوے
http://muslimscholars.info/manage.php?submit=scholar&ID=1716
————
تین احادیث بھی پیش کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے
http://mohaddis.com/Search/0/1/%D8%B9%D9%8E%D8%A8%D9%92%D8%AF%D9%90%20%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87%D9%90%20%D8%A8%D9%92%D9%86%D9%90%20%D8%AD%D9%8E%D9%86%D9%92%D8%B8%D9%8E%D9%84%D9%8E%D8%A9%D9%8E
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطَّهَارَةِ (بَابُ السِّوَاكِ) سنن ابو داؤد: کتاب: طہارت کے مسائل
(باب: مسواک کا بیان)
48
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ أَرَأَيْتَ تَوَضُّؤَ ابْنِ عُمَرَ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا وَغَيْرَ طَاهِرٍ عَمَّ ذَاكَ فَقَالَ حَدَّثَتْنِيهِ أَسْمَاءُ بِنْتُ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي عَامِرٍ حَدَّثَهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرَ بِالْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا وَغَيْرَ طَاهِرٍ فَلَمَّا شَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ أُمِرَ بِالسِّوَاكِ لِكُلِّ صَلَاةٍ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَى أَنَّ بِهِ قُوَّةً فَكَانَ لَا يَدَعُ الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ قَالَ أَبُو دَاوُد إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ رَوَاهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ
حکم : حسن 48
محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عبداللہ سے کہا کہ ( تمہارے والد ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وضو سے ہوں یا بے وضو ، وہ ہر نماز کے لیے ( پابندی سے ) وضو کرتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسماء بنت زید بن خطاب نے بتایا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے اسے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( پہلے پہل ) حکم دیا گیا تھا کہ ہر نماز کے لیے وضو کیا کریں ، خواہ پہلے وضو سے ہوں یا بے وضو ۔ مگر جب انہیں مشقت ہوئی ، تو حکم دیا گیا کہ ہر نماز کے لیے مسواک کیا کریں ۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سمجھتے تھے کہ ان میں ہمت ہے لہٰذا وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے روایت کرتے ہوئے ( عبداللہ کی بجائے ) عبیداللہ بن عبداللہ کہا ہے ۔
اب یہ حدیث اگر صحیح ہے تو انہوں نے اپنے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے درمیان کوئی واسطہ نہیں دیا
مجھے اسماء بنت زید بن خطاب نے بتایا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے اسے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( پہلے پہل ) حکم دیا گیا تھا کہ ہر نماز کے لیے وضو کیا کریں ، خواہ پہلے وضو سے ہوں یا بے وضو
——
اب جو محدثین ان کو صحابی مانتے ہیں کیا وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ واقعہ حرا میں شہید ہوے
اس کو صحابی کہنے میں اختلاف ہے اپ کو بتایا تھا
میرے پاس اس کا وقت نہیں کہ غیر ضروری چیزوں میں سر کھپاؤں
أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنہ کی سند
یہ روایت ایک اور سند سے بھی ترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
اس کی سند میں عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ہیں جن کے لئے میزان میں الذھبی لکھتے ہیں كوفي، تابعي مشهور ہیں
وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف، كذا
نقل ابن القطان، وهذا لم يتابعه عليه أحد.
ابن معین، ابن القطان ان کو ضعیف کہتے ہیں
عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي صحیحین کے راوی ہیں لیکن یہ مخصوص روایت صحیح میں نہیں دوم ان سے سنے والے يَزِيدَ
Sir is mn jis ravi ko ibn e moin zaef keh rahy hai is ka pura hawala dijie. Kis book mn hai …. k kya ibne moin is ravi k ham asar thy … Or is ravi ko zaef khny ki koi waja b bta dein
ميزان الاعتدال في نقد الرجال المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں ہے
عبد الرحمن بن أبي نعم [ع] البجلي.
كوفي، تابعي مشهور.
روى عن أبي هريرة، وابن عمر، وطائفة.
وعنه مغيرة، وفضيل بن غزوان، وخلق: وكان من الأولياء الثقات.
وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف
نہیں یہ راوی ابن معین سے پہلے گذرا ہے
Yeh ravi tadless krta hai q k yeh hawal jab kitab mn dekha gya to ibn e moin k commments sy phly likha hai k abi naim ne sahaba ki ik jammat se naql kia or inhon se ik kasser jammat se naql kia hai to kya yeh inki siqahat ki daleel hai yo kya siqqa b tadless krta hai …
ثقہ راوی بھی تدلیس کرتے تھے
Hazrat abu saeed kudri khurooj e hussain k khilaf the iski koi daleel
ابو سعید الخدری نے یزید کی بیعت کی اور یہ دلیل ہوئی کہ وہ خروج حسین کے خلاف تھے – اصحاب رسول ڈرپوک یا بزدل نہیں تھے
–
أبو سعيد الخدري سعد بن مالك کی تاریخ وفات میں بہت اختلاف ہے میں نے جو کہا وہ اس بنیاد پر ہے کہ ابو سعید دور معاویہ میں تنقیدی باتیں کرتے رہے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ان کی یہ عادت دور یزید میں ختم ہو گئی ہو – یزید پر تنقید کے حوالے سے ان سے کچھ مروی نہیں ہے
الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد
المؤلف: أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ)
قَالَ الذهلي قَالَ يَحْيَى بن بكير مَاتَ سنة 74 وَقَالَ أَبُو عِيسَى مثله وَقَالَ الْوَاقِدِيّ مثله وَقَالَ ابْن نمير مثله
ابو سعید الخدری کی وفات سن ٧٤ میں ہوئی
—–
امام بخاری کہتے امام علی المدینی کا قول ہے سن ٦٤ میں ہوئی
قَالَ عليٌّ: مَاتَ بَعْدَ الْحُرَّةِ بسَنَة.
یہی ابن حبان نے بھی کہا ہے
——–
تاریخ بغداد میں قول ہے سن ٥٤ میں وفات ہوئی
أَخْبَرَنَا أَبُو سعيد بْن حسنويه قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْن مُحَمَّدِ بن جعفر قَالَ: نبأنا عمر بن أحمد الأهوازي قال: نبأنا خليفة بْن خياط، وَأَخْبَرَنَا أَبُو القاسم الأزهري، قال: نبأنا محمّد بن العبّاس الخزّاز قال: أنبأنا إبراهيم بن محمّد الكندي قال: أنبأنا أَبُو مُوسَى مُحَمَّد بْن المثنى. قالا: مات أبو سعيد سنة أربع وخمسين.
——–
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے
وقال ابن عيينة: أدرك أبو سعيد الحرة، وكانت سنة ثلاث وستين، وذكر بعضهم أن أبا شيبة الخدري أخوه
امام ابن عيينة نے کہا ابو سعید کی وفات سن ٦٣ میں ہوئی اور بعض نے کہا وہ ان کے بھائی أبا شيبة الخدري تھے
-=====
اب اپ دلیل پیش کریں کہ ابو سعید خروج حسین کے حق میں تھے
فتاوى ابن الصلاح میں لکھا ہے کہ
وَأما سَبَب يزِيد ولعنه فَلَيْسَ من شَأْن الْمُؤمنِينَ فَإِن صَحَّ أَنه قَتله أَو أَمر بقتْله وَقد ورد فِي الحَدِيث الْمَحْفُوظ أَن لعن الْمُسلم كقتله وَقَاتل الْحُسَيْن رَضِي الله عَنهُ لَا يكفر بذلك وَإِنَّمَا ارْتكب عَظِيما
http://shamela.ws/browse.php/book-6137#page-198
اس کا کیا مطلب ہے – کیا کہنا چاہتے ہیں ابن الصلاح
ابن الصلاح کہتے ہیں
مومنوں کی یہ شان نہیں کہ یزید پر لعنت کریں اگر یہ صحیح بھی ہو کہ اس نے قتل کا حکم کیا یا قتل کیا اور صحیح حدیث میں ہے مسلم پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے
یعنی ابن الصلاح کا فتوی ہے کہ یزید بن معاویہ پر لعنت نہ کی جائے
ابن الصلاح نے صحیح بات کی- ان کی بات میں کوئی شک نہیں – سب سے بڑا گناہ شرک ہے – اس کی معافی نہیں – باقی ہر گناہ معاف ہو جایے گا
اوپر آپ نے لکھا ہے کہ
==========
==========
امام الزہری کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس کو شروع کیا
معمر کہتے ہیں ان کو پہنچا کہ عثمان اپنی خلافت کے آخری دور میں ایسا کرتے تھے
ابن حجر فتح الباری ج ٢ ص ٤٥٠ میں لکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ عثمان بھی دیتے تھے
وَسَيَأْتِي فِي الْبَابِ الَّذِي بَعْدَهُ أَنَّ عُثْمَانَ فَعَلَ ذَلِكَ أَيْضًا لَكِنْ لِعِلَّةٍ أُخْرَى
اور آگے باب میں ہے کہ عثمان بھی ایسا کرتے تھے لیکن اس کی وجہ اور ہے
================
================
پلیز ان باتوں کو شامل کر لیں اوپر اپنے تھریڈ میں اور ساتھ ساتھ ان کی تحقیق بھی کر دیں
امام شافی اپنی کتاب الأم للشافعي میں لکھتے ہیں کہ
ِ أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ لَمْ يُؤَذَّنْ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَلَا لِأَبِي بَكْرٍ، وَلَا لِعُمَرَ، وَلَا لِعُثْمَانَ فِي الْعِيدَيْنِ حَتَّى أَحْدَثَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ بِالشَّامِ، فَأَحْدَثَهُ الْحَجَّاجُ بِالْمَدِينَةِ حِينَ أُمِّرَ عَلَيْهَا، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: «وَكَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَأْمُرُ فِي الْعِيدَيْنِ الْمُؤَذِّنَ أَنْ يَقُولَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ»
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَلَا أَذَانَ إلَّا لِلْمَكْتُوبَةِ فَإِنَّا لَمْ نَعْلَمْهُ أُذِّنَ لِرَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إلَّا لِلْمَكْتُوبَةِ، وَأُحِبُّ أَنْ يَأْمُرَ الْإِمَامُ الْمُؤَذِّنَ أَنْ يَقُولَ فِي الْأَعْيَادِ، وَمَا جُمِعَ النَّاسُ لَهُ مِنْ الصَّلَاةِ ” الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ ” أَوْ إنَّ الصَّلَاةَ، وَإِنْ قَالَ: هَلُمَّ إلَى الصَّلَاةِ لَمْ نَكْرَهْهُ، وَإِنْ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ فَلَا بَأْسَ، وَإِنْ كُنْت أُحِبُّ أَنْ يَتَوَقَّى ذَلِكَ لِأَنَّهُ مِنْ كَلَامِ الْأَذَانِ، وَأُحِبُّ أَنْ يَتَوَقَّى جَمِيعَ كَلَامِ الْأَذَانِ، وَلَوْ أَذَّنَ أَوْ قَامَ لِلْعِيدِ كَرِهْتُهُ لَهُ وَلَا إعَادَةَ عَلَيْهِ.
http://shamela.ws/browse.php/book-1655#page-254
========
أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى: 456هـ)، اپنی کتاب المحلى بالآثار میں لکھتے ہیں کہ
مَا يُقْرَأُ مَعَ (أُمِّ الْقُرْآنِ) وَفِي صِفَةِ التَّكْبِيرِ
وَأَحْدَثَ بَنُو أُمَيَّةَ: تَأْخِيرَ الْخُرُوجِ إلَى الْعِيدِ، وَتَقْدِيمَ الْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَالْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ
http://shamela.ws/browse.php/book-767#page-1098
=========
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) اپنی کتاب شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں کہ
وأول من أحدث الأذان فيها: معاوية، رواه ابن أبي شيبة بإسناد صحيح، زاد الشافعي في روايته عن الثقة، عن الزهري، فأخذ به الحجاج حين أمّر على المدينة
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-729
============
محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمني (المتوفى: 1250هـ) اپنی کتاب نيل الأوطار میں لکھتے ہیں کہ
وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ الزُّهْرِيِّ بِلَفْظِ: ” أَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ الْخُطْبَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فِي الْعِيدِ مُعَاوِيَةُ “. وَقِيلَ: أَوَّلُ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ زِيَادٌ فِي الْبَصْرَةِ فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ
http://shamela.ws/browse.php/book-9242#page-1128
======
ابن ہجر اپنی کتاب فتح الباري میں یہ بھی لکھتے ہیں
عبد الرَّزَّاق عَن بن جُرَيْجٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ الْخُطْبَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فِي الْعِيدِ مُعَاوِيَةُ وَرَوَى بن الْمُنْذر
http://shamela.ws/browse.php/book-1673#page-1524
===
امام شافعی کی سند میں مجہول ہے
قَالَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ عَنْ الزُّهْرِيِّ
ایک ثقہ نے خبر دی ؟ کون ہے وہ اس کا نام کیوں چھپا دیا گیا ؟
=======
باقی ابن حزم ہوں شوکانی ہوں یا قسطلانی ہوں یہ تو بہت بعد کے ہیں – شارحین ہیں
میں کئی مہاجرین کو ( قرآن مجید ) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں ( سنہ 23 ھ ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے ( مسجد نبوی ) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ( اپنے زمانہ میں ) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں ( ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا ) بلکہ ( میرے لیے صرف یہ کہو کہ ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا ۔۔۔۔۔بخاری نمبر6830بھائی تحقیق درکار ہے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہاں فلاں سے مراد معاویہ رضی ہیں؟؟؟
صحیح بخاری 6830
طلحة بن عبيد الله رضی الله عنہ کا قول تھا ایسا کہا ابن بشكوال اور خطيب بغدادی نے
مسند البزار میں ہے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُمَيْرٍ قَالَ: نا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: نا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَا: قَدِمَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ مَالٌ مِنَ الْبَحْرَيْنِ فَقَالَ …. حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّنَةِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا قَالَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ: لَوْ قَدْ مَاتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَقَمْنَا فُلَانًا، يَعْنُونَ [ص:410]: طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَقَالُوا، كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً
سند میں أَبُو مَعْشَرٍ ضعیف ہے
إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) میں ہے
فقال: يا أمير المؤمنين هل لك في فلان) لم يسم (يقول: لو قد مات عمر لقد بايعت فلانًا) قال في في مسند البزار والجعديات بإسناد ضعيف: إن المراد بالذي يبايع له طلحة بن عبيد الله ولم يسم القائل ولا الناقل قال: ثم وجدته في الأنساب للبلاذري بإسناد قوي من رواية هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري بالإسناد المذكور في الأصل ولفظه: قال عمر بلغني أن الزبير قال: لو قد مات عمر لبايعنا عليًّا الحديث وهذا أصح
اس مین نام نہیں ہے … مسند البزار میں اور الجعديات میں ضعیف سند سے ہے طلحہ تھے اور نہ قائل نے نام لیا نہ ناقل نے پھر الْأَنْسَاب للبلاذري میں ہے کہ یہ زبیر رضی الله عنہ کا قول تھا جو اچھی ہے
ابن حجر نے فتح الباری میں اس کو واپس لکھا ہے کہ ضعیف سندوں سے آیا ہے کہ یہ قول طلحہ کا تھا اور اچھی سند سے الْأَنْسَاب للبلاذري میں ہے کہ یہ زبیر رضی الله عنہ کا قول تھا
لَو قد مَاتَ عمر لقد بَايَعت فلَانا فِي مُسْند الْبَزَّار والجعديات بِإِسْنَاد ضَعِيف أَن المُرَاد بِالَّذِي يُبَايع لَهُ طَلْحَة بن عبيد الله وَلم يسم الْقَائِل وَلَا النَّاقِل ثمَّ وجدته فِي الْأَنْسَاب للبلاذري بِإِسْنَاد قوي مِنْ رِوَايَةِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيّ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور فِي الأَصْل وَلَفظه قَالَ عمر بَلغنِي أَن الزبير قَالَ لَو قد مَاتَ عمر بَايعنَا عليا الحَدِيث فَهَذَا أصح
اس کی مکمل سند ہے
حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ الْهَيْثَمِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّه بْنِ عَبْدِ اللَّه، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّه تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَ:
بَلَغَنِي أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرَادَ الْخُطْبَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَعَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ صَارَتِ الشَّمْسُ صَكَّةَ [1] عُمَيٍّ. فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، خَطَبَ فَقَالَ: إِنِّي قَائِلٌ مَقَالَةً لا أَدْرِي لَعَلَّهَا قُدَّامَ أَجَلِي. فَمَنْ وَعَاهَا، فَلْيَتَحَدَّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ.
ومن خشي أن لا يعقلها شيء، فَإِنِّي لا أُحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ. ثُمَّ قَالَ:
بَلَغَنِي أَنَّ الزُّبَيْرَ قَالَ: «لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، بَايَعْنَا عَلِيًّا، وَإِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً» ، فَكَذَبَ واللَّه. لَقَدْ أقامه رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم مَقَامَهُ، وَاخْتَارَهُ لِعِمَادِ الدِّينِ عَلَى غَيْرِهِ، وَقَالَ: يَأْبَى اللَّه وَالْمُؤْمِنُونَ إِلا أَبَا بَكْرٍ، فَهَلْ مِنْكُمْ مَنْ تُمَدُّ إِلَيْهِ الأَعْنَاقُ مِثْلُهُ؟
اس میں ہے
بَلَغَنِي أَنَّ الزُّبَيْرَ قَالَ: «لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، بَايَعْنَا عَلِيًّا،
زبیر نے کہا اگر عمر کو موت ہوئی تو ہم علی کی بیعت کریں گے
لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ علی کی بیعت کے وقت ان کے خلاف زبیر رضی اللہ عنہ ہوئے اور بصرہ تک گئے
ابن حجر نے جس سند کو اچھی کہا ہے اس میں بَكْرُ بْنُ الْهَيْثَمِ ہے جو مجہول ہے
التوضيح لشرح الجامع الصحيح از المؤلف: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) میں ہے
قول القائل: (لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا) (2) – يعني رجلاً من الأنصار؛ لأنه لم ير الخلافة في قريش مكتوبة في القرآن، فعرفه عمر أن ثبوت ذلك بالسنة.
یہ قول کسی انصاری کا تھا کہ وہ خلافت کو قریش کے لئے فرض نہیں سمجھتے تھے اور عمر اس کو سنت کی وجہ سے جانتے تھے
عینی نے عمدہ القاری میں لکھا ہے
وَقَالَ الْكرْمَانِي: هُوَ رجل من الْأَنْصَار وَكَذَا نَقله ابْن بطال عَن الْمُهلب، لَكِن لم يذكر مُسْتَنده فِي ذَلِك
کرمانی کا قول ہے یہ انصاری تھا اور ایسا ہی ابن بطال نے المھلب کے حوالے سے لکھا ہے لیکن سندا کسی نے نام ذکر نہیں کیا
الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري المؤلف: محمد بن يوسف بن علي بن سعيد، شمس الدين الكرماني (المتوفى: 786هـ) میں ہے
و (فلانا) هو رجل من الأنصار
یہ رجل انصاری تھا
==========
معاویہ کا تو دور دور تک کوئی ذکر نہیں
————-
بہر حال اس روایت کا متن عجیب و غریب ہے
اس میں ہے ابن عباس نے کہا میں نے کئی مہاجرین کو ( قرآن مجید ) پڑھایا کرتا تھا۔
راوی عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ نے جو ابن عباس کا شاگرد رہا ہو گا اس نے ابن عباس کو مہاجرین اولین کا استاد قرار دیا ہے – غور کریں اس نے وفات النبی کے وقت گیارہ سال کے بچے (ابن عباس رض) جو مکہ سے مدینہ فتح مکہ پر آئے ان کو کبیر سن عمر رسیدہ بدری اصحاب رسول مہاجرین الاولین کا استاد بنا دیا ہے
یعنی تقریبا تمام قرآن جو عبد الرحمن بن عوف نے فتح مکہ سے پہلے پڑھا ان کو اس کا مطلب ابن عباس نے
سمجھایا؟ یا للعجب
بدری اصحاب رسول کو ابن عباس کی مدینہ آمد کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ بچوں سے قرآن سیکھتے
عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ نے ایک بار راوی کو بتایا کہ یہ زبیر رضی الله عنہ تھے دوسری سند میں عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ نے بتایا کہ طلحہ رضی الله عنہ تھے
میرے نزدیک یہ مکمل روایت بہت بعد کی ہے جس میں
Historical Corrections
کے انداز میں بات کی گئی ہے اور عمر رضی الله عنہ کو چڑھایا گیا ہے
اہل سنت کا ایک طبقہ پیدا ہو چکا تھا جو غالی تھا عمر کو چڑھایا کرتا تھا -اسی طبقے نے بیان کی ہے ساریہ للجبل والی روایت اور یہی طبقہ بیان کرتا تھا کہ عمر نے علی کا گھر جلانے کی دھمکی دی
⇑ عمر رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ کا گھر جلایا دوسرا سوال ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
ان روایتوں کے راوی رافضی نہیں خالص اہل سنت کے ہیں
عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ وہی راوی ہے جو صحیح بخاری میں دجال کے مردوں کو زندہ کرنے والی روایت بھی بیان کرتا ہے
7132
– حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِْ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا يُحَدِّثُنَا بِهِ أَنَّهُ قَالَ: ” يَأْتِي الدَّجَّالُ، وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ المَدِينَةِ، فَيَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي المَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ، وَهُوَ خَيْرُ النَّاسِ – أَوْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ – فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:61] حَدِيثَهُ، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا، ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ، هَلْ تَشُكُّونَ فِي الأَمْرِ؟ فَيَقُولُونَ: لاَ، فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي اليَوْمَ، فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلاَ يُسَلَّطُ عَلَيْهِ
میں اس کو منکر کہتا ہوں کیونکہ مردوں کو انسانوں میں صرف عیسیٰ ابن مریم نے زندہ کیا تھا جو وقتی معجزہ تھا – اب ان کی آمد ثانی پر بھی وہ کسی کو زندہ نہ کریں گے
Actually mujy yad nai k yeh sawal mn ne kiya ya nai agr kiya ho to link jawab mn dedein nai toh sawal ka jawab de dein
Kya yazeed ne hussain k qatilo se badla lia
Agr nai lia tu esbunyad pr usko qasoorwar keh sakty hai k qatal un k dor mn hoa
Ik kitab hai early shia development in islam us mn hai k hussain r.a k qatilo ko un k hamiyo ne mara jinhon ne aain time pr sath chor diya tha… Ap kya khty ho
Iki
یہ سوال اپ کر چکی ہیں
https://www.islamic-belief.net/q-a/#comment-12056
———
اس کا جواب ہے کہ موسی علیہ السلام کے دور میں بھی قتل ہوا اس کا الزام موسی پر لگایا جائے؟ یہ کام تو یہود کا تھا – یہاں تک کہ الله نے گائے کو ذبح کرنے کا حکم کیا اور اس کے گوشت کی ضرب مقتول کو لگائی گئی
——–
اپ سے میں نے پوچھا تھا کہ اپ کو ١٤٠٠ سو سال پیچھے بھیجا جائے تو اپ قتل حسین کا معمہ کس طرح حل کرتیں کیا تفتیش کرتیں؟
اہل تشیع کی جانب سے علی رضی پر شب و ستم کے حوالے سے دلیل کے طور پر روایات پیش کی جاتی ہیں ۔۔۔
بخاری نمبر 7147….معاویہ بن سفیان رضی نے منابر سے علی رضی کو برا بھلا کہلوانے کے لئے بھاری معاوضے خطیب رکھے ۔۔۔۔
دوسری روایت احمد بن حنبل سے ۔۔۔
ابو عبداللہ بن سہو رضی بیان کرتے ہیں میں سعید بن زید سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا الاتعجب ۔۔
من ھذا الظالم اقام خطباء یشمون علیا ::کیا آپ اس ظالم شخص پر تعجب نہیں کرتے جس نے علی کو برا بھلا کہنے کے لئے خطباء مقرر کیے ہوئے ہیں ۔تو آپ نے فرمایا کیا واقعی انہوں نے ایسا کیا؟
احمد بن حنبل المسند جلد 1 صفحہ 188 رقم 1638-1644۔۔جلد نمر 5 صفحہ 364 رقم 22986 مطبوعہ لبنان المکنت الاسلامی بیروت ۔۔۔
تحقیق درکار ہے
صحیح بخاری میں اس قسم کی کوئی روایت مجھے نہیں ملی
———
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ، قَالَ قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ “، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: ثُمَّ سَكَتَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنِ العَاشِرُ؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا
اس کا ذکر نسائی نے سنن الکبری میں کیا ہے اور کہا ہے سند منقطع ہے
هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ
ھلال نے عبد الله سے نہیں سنا
Ibne zyd k sar kaat k lae ge to us mn se sanp.guzre
Kesi hadith haj
حدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: ” لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی 3780)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تبصرہ
یہ روایت
Yellow Journalism
کی مثال ہے
سانپ ایک موذی مخلوق ضرور ہے لیکن اللہ کی محبوب بھی ہے – کیا موسی کا عصا سانپ نہیں بنا
الله تعالی نے اپنی نشانی کے طور پر سانپ کو لیا ہے
لہذا محض سانپ کے انے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سانپ گزرا تو یقینا سب گناہ گار تھے
مزید یہ کہ یہ رحبہ میں ہوا یعنی مسجد کوفہ کے صحن میں تو کیا مسجد بھی اللہ کا نا پسند مقام ہو گئی کہ اس میں سانپ آ گیا
اس روایت سے سرے سے کچھ ثابت نہیں ہوا
———–
جب حمزہ کا قتل ہوا تو ان کا مثلہ کیا گیا – اس کیا ثابت ہوا؟ کیا یہ ثابت ہوا کہ جس کا مثلہ ہو جائے وہ یقینا حق پر نہ ہو گا؟
——–
ابن زیاد مظلوم قتل ہوا کیونکہ اس پر قتل حسین کا الزام مختار ثقفی کذاب کا لگایا ہوا تھا اور اسی جھوٹے قتل کے الزام میں ابن زیاد کا قتل ہوا
——–
السلام و علیکم رحمت الله
اس روایت کے بارے میں بتائیں -اس کا حکم صحیح ہے یا ضعیف ؟؟
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
فورم پر موجود ایک صاحب کہتے ہیں کہ
ان تمام دلائل اور رواۃ کے احوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت جس میں ناموں کی صراحت ہے یہ ان تمام کی تائید کرتی ہے کہ ان میں ناموں کی صراحت موجود ہے اور اس کو ضعیف و شاذ کہنے کا سنابلی صاحب کا موقف ازخود ضعیف وشاذ ہے۔واللہ اعلم
لنک یہاں ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%88%DB%8C%DB%81-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D9%88%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%A8%D8%AF%D8%B9%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7-%D8%A8%D8%B3%D9%86%D8%AF-%D8%B5%D8%AD%DB%8C%D8%AD.37221/
نیز مندرجہ ذیل اس روایت کا حکم صحیح ہے؟؟ – آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟؟
عن الحارث قال لما رجع علی من صفین علم انہ لا یملک ابداۤ فتکلم اشیاء کان لایتکلم بھا و حدث بحدیث کان لا یتحدث بھا فقال فیما یقول ایھا الناس لا تکَرھوا امارۃ معاویہ فو اللہ لو قد فقدتمــوہ لقد رأتیم الرؤس تنزوا عن کوایلھا کالحنظل۔ (ازالۃ الخفا:ج۔ جلد 2۔ صفحہ 283)
والسلام
یہ روایت ضعیف ہے
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
لیکن یہ صحیح ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثنا شُعْبَةُ عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَنَتَ فِي صَلَاةِ الْعَتْمَةِ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةِ رَهْطٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَأَبِي الْأَعْوَرِ.(المعرفۃ والتاریخ للفسوی3/135)
——–
لیکن تاریخ میں دیگر روایات ، واقعات و اقوال ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ قنوت پڑھا جاتا تھا
علی مخالف پر قنوت پڑھتے تھے کیونکہ جنگ صفین میں صلح کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے سن ٣٧ ھ میں ایک خفیہ دستہ بھیج کر مصر میں محمد بن ابی بکر، صحابی عبد الرحمان بن عدیس کا قتل کروایا – اس شب خون میں محمد کی بیوی بھی قتل ہوئی
حالت جنگ میں قنوت پڑھا جاتا تھا اور یہ امکان ہے کہ دونوں جانب پڑھا جا رہا تھا
شیعہ کتاب مقاتل الطالبيين کے مطابق حسن و معاویہ میں عھد کے وقت صلح کی ایک شرط تھی
أن يترك سب أمير المؤمنين والقنوت عليه بالصلاة
علی پر نماز میں قنوت پڑھنا بند ہو گا
یعنی معاویہ بھی قنوت پڑھ رہے تھے
————-
سنابلی صاحب کی تحقیق ناقص و محدود ہے اور
Pro-Mavia
ہے
میرے نزدیک غیر جانب داری اہم ہے – جس نے جو کیا وہ بیان کیا جائے
=================
دوسری روایت جس پر آپ نے سوال کیا وہ اصل میں مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے
جس میں ہے معاویہ کی امارت کو نا پسند نہ کرو
سند مجروح ہے
سند میں الحارث بن عبد الله الأعْور الهَمْداني ہے – اس کو کذاب بھی کہا گیا ہے
جزاک الله
لیکن سنّت رسول کے مطابق تو قنوت تو کفار سے مقابلے کے وقت یا کفار کے ظلم وستم سے بچنے کے لئے ایک بد دعا کے طور پر پڑھی جاتی رہی ہے- معاویہ و علی رضی الله عنہ کی افواج میں دونوں اطراف مسلمان بلکہ اصحاب رسول تھے – سوال ہے کہ آخر وہ ایک دوسرے پر قنوت کیوں پڑھ رہے تھے ؟؟
قنوت مصیبت کے وقت پڑھا جاتا ہے
سنت میں یہ بد دعا کا طریقہ ہے لیکن بعد میں اس عمل سے روک دیا گیا
بئر معونة سن ٤ هجري کا واقعہ ہے
اس کے بعد دور نبوی من قنوت نہیں پڑھا گیا
لیکن علی و معاویہ نے اس کو کیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عمل مصیبت پر دعا تھا
افسوس ایسا سب ہوا
ممکن ہے راویوں نے یہاں نمک مرچ چھڑک کر بیان کیا ہو اگرچہ روایات ہیں لیکن راوی بھی تو کچھ کم نہیں ہیں
دعا جب دو مخالف کرین اور ایک کی قبول ہو تو اس کا مطلب ہے وہ زیادہ حق کے قریب ہے
یہاں معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول ہوتی نظر اتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں پھوٹ پڑ گئی
جزاک الله
آپ نے فرمایا کہ
———————————————————-
لیکن علی و معاویہ نے اس کو کیا- تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عمل مصیبت پر دعا تھا -افسوس ایسا سب ہوا -ممکن ہے راویوں نے یہاں نمک مرچ چھڑک کر بیان کیا ہو اگرچہ روایات ہیں لیکن راوی بھی تو کچھ کم نہیں ہیں
———————————————————-
بظاھر ایسا ہی لگتا ہے کہ بعض معتصب راویوں و محدثین نے
مخالفین گروہ پر قنوت کو بد دعا کے طور پر ثابت کیا ہے- جب کہ یہ مصیبت کے وقت ایک دعا ہے- جیسا کہ بعض رافضی نما اہل سنّت روایت کا ترجمہ اسطرح کرتے ہیں
للَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ» :
اے الله – تباہ و برباد کر معاویہ اور اس کے گروہ کو اور تباہ و برباد کر عمرو بن العاص اور اس کے گروہ کو -اور تباہ و برباد کر ابی سلمی اوراس کے گروہ کو -اور تباہ و برباد کر عبدللہ بن قیس اور اس کے گروہ کو
کیا یہ ترجمہ صحیح ہے ؟؟ جب کہ “تباہ و برباد” کا لفظ اس روایت میں کہیں نہیں
نیز مذکورہ بالا روایت آپ (ابو شہریار صاحب) کے اور کفایت الله سنابلی صاحب کے نزدیک ” ضعیف ہے-؟؟
لیکن اہل حدیث عالم شیخ زبیر علی زئی اس کو “صحیح” قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ
سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب رضی الله عنہ (یہ صیغہ استعمال کرنے والے صرف شیخ زبیر علی زئی ہیں- ورنہ رافضی بھی اسطرح کا صیغہ علی رضی الله عنہ کے لئے استعمال نہیں کرتے)
صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے ہوئے بد دعا فرمائی : ” اللهم عليك بمعاوية و أشياعة و عمرو بن العاص و أشياعة و أباالسلمي و أشياعة و عبدالله بن قيس و أشياعة “
سنابلی صاحب کو چاہیے کہ وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مصنف ابن ابی شیبہ کی مذکورہ روایات کو موضوع اور منگھڑت قرار دیں- ورنہ وہ اپنے دعوے اور منہج میں کاذب ہیں – (مقالات جلد ششم – تالیف حافظ زبیر علی زئی)
https://irafidhi.wordpress.com/2016/03/05/%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%88%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%D8%B3/
اللہ ان مولویوں کو جو زندہ ہیں ہدایت دے
امین
السلام و علیکم و رحمت الله
کیا مختار بن ابی عبید ثقفی کا دعویٰ نبوت ثابت ہے ؟؟
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1219
مذکورہ بالا اہل تشعیوں کی ویب سائٹ میں مختار بن ابی عبید ثقفی کی شخصیت کے حوالے سے متعلق روایتی غلو کرتے ہوے انہوں نے اس سلسلے میں مختار کے دعویٰ نبوت کے رد پر ابن حزم اندلسی کا ایک قول بھی نقل کیا ہے- کیا اس قول کی روشنی میں مختار واقعی دعویٰ نبوت کا علمبردار نہ تھا ؟؟
ابن حزم اندلسى نے کتاب المحلى میں کہا ہے کہ
قال عَلِيٌّ: ما نَعْلَمُ أَحَدًا من الصَّحَابَةِ رضي الله عنهم امْتَنَعَ من الصَّلاَةِ خَلْفَ الْمُخْتَارِ وعبيد اللَّهِ بن زِيَادٍ وَالْحَجَّاجِ وَلاَ فَاسِقَ أَفْسَقُ من هَؤُلاَءِ.
على ابن حزم نے کہا ہے کہ: میں صحابہ میں سے کسی صحابی کو نہیں جانتا کہ جس نے مختار، عبيد الله ابن زياد، حجاج اور ان سے بھی فاسق تر بندے کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا ہو۔
پس ابن تیمیہ ناصبی اور اسکے پیروکاروں کی طرف سے مختار پر نبوت کا دعوی وغیرہ کرنے والی تمام تہمتیں جھوٹی اور غلط ہیں۔ بنی امیہ کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے مختار پر تمام تہمتیں صرف اور صرف اہل بیت (ع) کا دفاع کرنے اور خاص طور پر یزیدیوں سے امام حسین (ع) کے خون کا انتقام لینے کی وجہ سے لگائی گئی ہیں۔
آگے کہتے ہیں کہ: کیا مختار نے کسی اندھیری غار میں نبوت کا دعوی کیا تھا کہ کسی کو اسکے نبی ہونے کا علم نہیں تھا ؟ اگر مختار نے کسی دنیاؤی غرض و مال دنیا کے لیے ایسا دعوی کیا تھا تو عقل کہتی ہے کہ اسکو یہ دعوی سب مسلمانوں کے سامنے کرنا چاہیے تھا، تا کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف تک پہنچ پاتا، اور ایسا دعوی اس وقت کے تمام صحابہ کو معلوم ہونا تھا، پس اگر صحابہ کی نظر میں بھی ایسا دعوی کرنے والا شخص کافر ہوتا تو وہ مختار کے پیچھے نماز کیوں پڑھتے ؟
جیسا کہ امام شافعی کا فتوی ذکر ہوا کہ صحابہ کو کسی کے مدعی نبوت ہونے کا علم ہو یا علم نہ بھی ہو تو ، اسکے کفر کی وجہ سے انکی نماز قبول نہیں ہوتی ! کیا کوئی مسلمان یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ صحابہ کی نماز قبول نہیں ہوتی ؟
یاد رہے کہ
جب شيخ الاسلام ابن تیمیہ سے مختار ثقفی اور حجاج بن یوسف كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے اس كے جواب ميں فرمايا
مسلم شريف ميں نبى كريم صلى اللہعليہ وسلم سے حديث ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
” قبيلہ ثقيف ميں ايك كذاب اور ايك خونريزى كرنے والا ہو گا”
لہذا مختار بن ابو عبيد الثقفى كذاب تھا، اور وہ اہل بيت سے دوستى اور محبت كا اظہار كرتا اور ان كى مدد كرنے كا دعويدار تھا، اور عراق كے امير عبيد اللہ بن زياد كو قتل كيا جس نے وہ پارٹى تيار كى جس نے حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قتل كيا اورپھر اس نے كذب كا اظہار كرديا اور “نبوت كا دعوى كرتے ہوئے” كہا كہ اس پر جبريل عليہ السلام نازل ہوتے ہے، حتى كہ وہ ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كو كہنے لگے: انہوں نے ان ميں سے ايك كو كہا: مختار بن ابو عبيد كا خيال ہے كہ اس پر وحى نازل ہوتى ہے، تو انہوں نے كہا وہ سچ كہتا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كيا ميں تمہيں اس كى خبر نہ دوں جس پر شيطان نازل ہوتے ہيں تا كہ وہ اپنے دوستوں كو يہ وحى كريں كہ وہ تم سے لڑيں
اور رہا خونريزى كرنے والا تو وہ حجاج بن يوسف الثقفى تھا، اور يہ شخص على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے منحرف تھا، لہذا يہ نواصب ميں سے ہے، اور پہلا روافض ( شيعہ، مختار ثففی ) ميں سے تھا، اور يہ رافضى سب سے بڑا جھوٹ پرداز اور بہتان باز، اور دين ميں الحاد كرنے والا تھا، كيونكہ اس نے نبوت كا دعوى كيا.: فتاوى الكبرى ( 5
https://islamqa.info/ur/answers/4033/%D9%8A%D9%88%D9%85-%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D9%88%D8%B1%D8%A7-%D9%83%D8%A7-%D8%AC%D8%B4%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%8A%D8%A7-%D8%A7%D8%B3-%D9%85%D9%8A%DA%BA-%D9%85%D8%A7%D8%AA%D9%85-%D9%83%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%83%D8%A7-%D8%AD%D9%83%D9%85
کیا کہیںگے آپ ؟؟
اگر کوئی شخص دعوی کرے کہ اس پر جبریل کا نزول ہوتا ہے تو اس کو کیا کہا جائے گا ؟
مسند ابو داود طیالسی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ أَبْطَنَ شَيْءٍ بِالْمُخْتَارِ يَعْنِي الْكَذَّابَ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: دَخَلْتَ وَقَدْ قَامَ جِبْرِيلُ قَبْلُ مِنْ هَذَا الْكُرْسِيِّ
مختار نے رفاعہ سے کہا تو داخل ہوا تو جبریل اس کرسی کے پیچھے تھا
رفاعہ نے کہا مَا أَنْتَظِرُ أَنْ أَمْشِيَ بَيْنَ رَأْسِ هَذَا وَجَسَدِهِ
میں انتظار نہیں کروں گا اس تیرے سر اور دھڑ کے بیچ چلوں
اغلبا اہ سنت میں اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا
——-
اہل تشیع کے ائمہ بھی مختار کو کذاب کہتے ہیں
اور علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبید (حسین کے سوتیلے بھائی ) اس لشکر میں مصعب بن زبیر کے ساتھ تھے جس نے مختار کو جہنم رسید کیا
اسی میں عبید کی شہادت ہوئی
صحیح بخاری کی حدیث
ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا
قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ ؟
قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ
فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟
قَالَ لَا(بخاری،کتاب الجھاد،باب مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ،رقم 2924)
میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو بحری غزا کریگا تو اس کے لئے( اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب ہوگئی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ؟آپ نے فرمایا کہ نہیں
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدیہ قیصر یعنی سلطنت روم یعنی قسطنطینیہ پر حملوں میں کوئی بحری حملہ بھی ہوگا جس کی پہچان ام حرام کی شرکت ہے،جیسا کہ بخاری میں صراحت ہے
*فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ* (بخاری،کتاب الجھاد،باب الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ،رقم 2788)
چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہا نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی
اس زمانے میں یزید بن معاویہ شائید دو تین سال کا بچہ ہوگا جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے ام حرام والے بحری حملے کی صراحت کی ہے کہ یہ 28ھ میں ہوا تھا(فتح الباری 75/11)
32ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو حملہ کیا تھا اس وقت تقریب التھذیب کے مطابق یزید کی عمر 6 سال تھی یعنی یزید نہ تو ام حرام والے حملے میں موجود تھا اور نہ 32ھ والے حملے میں موجود تھا اور بخاری کی حدیث کے مطابق مغفور وہی ہوگا جو پہلے حملے میں شامل ہو اور بخاری کی مذکورہ بالہ حدیث سے متعلق امام فریابی فرماتے ہیں
*ﻭَﻛَﺎﻥَ ﺃَﻭَّﻝَ ﻣَﻦْ ﻏَﺰَاﻩُ ﻣُﻌَﺎﻭِﻳَﺔُ ﻓِﻲ ﺯَﻣَﻦِ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ ﺑْﻦِ ﻋَﻔَّﺎﻥَ ﺭَﺣْﻤَﺔُ اﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻤَﺎ* (الشریعة للآجری 2440/5)
اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے(قسطنطینیة)پر پہلہ حملہ عثمان رضی اللہ کے دور میں کیا تھا
اگر یہ حملہ بھی معاویہ کے علاوہ مسلمانوں کی طرف سے قسطنطینیہ پر پہلہ حملہ بھی ہو تو بھی یزید اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا اور اگر پیدا بھی ہوئے تھے تو پھر بھی یزید کی عمر عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت 9 سال تھی جبکہ ام حرام رضی اللہ عنھا کا حملہ اگر 28ھ میں ہو یا 17ھ میں ہو تو یہ امام فریابی کا متذکرہ حملہ اس سے پہلے کا تھا اسلئے یزید کی شرکت ان دونوں حملوں میں ناممکن ہے
48ھ میں جو ایک بہت بڑا لشکر معاویہ رضی اللہ عنه قسطنطینیة کی فتح کیلئے بھیجا تھا اس پر بھی سفیان بن عوف امیر تھے یزید نہیں
اور یزید کو مغفور کی لسٹ میں ڈالنے کیلئے دو چیزیں لازم ہے
(1)یزید قسطنطینیہ پر پہلے حملے میں شامل تھے (2)یزید قسطنطینیة پر تمام حملوں میں شامل تھے
اب حساب کرلے
1)عبدالرحمان بن خالد بن ولید کے حملے میں یزید نہیں تھا
2)معاویہ کے پہلے حملے میں یزید نہیں تھا
3)ام حرام والے حملے میں یزید نہیں تھا
4)معاویہ رضی اللہ عنه کی 32ھ والے حملے میں یزید نہیں تھا
5)اور اگر 48ھ والے حملے میں یزید تھا بھی تو سپہ سالار سفیان بن عوف تھے اور اس حملےمیں یزید کو شامل کرنے سے ایک بار پھر تنظیم عثمانی کی تردید ہوتی ہے کیونکہ اس نے قسطنطینیة پر حملے میں یزید کو امیر مانا ہے۔۔۔
بھائی اس اعتراض کا جواب درکار ہے
/////
ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا
قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ ؟
قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ
فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟
قَالَ لَا(بخاری،کتاب الجھاد،باب مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ،رقم 2924)
میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو بحری غزا کریگا تو اس کے لئے( اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب ہوگئی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ؟آپ نے فرمایا کہ نہیں
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدیہ قیصر یعنی سلطنت روم یعنی قسطنطینیہ پر حملوں میں کوئی بحری حملہ بھی ہوگا جس کی پہچان ام حرام کی شرکت ہے،جیسا کہ بخاری میں صراحت ہے
*فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ* (بخاری،کتاب الجھاد،باب الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ،رقم 2788)
چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہا نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی
اس زمانے میں یزید بن معاویہ شائید دو تین سال کا بچہ ہوگا جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے ام حرام والے بحری حملے کی صراحت کی ہے کہ یہ 28ھ میں ہوا تھا(فتح الباری 75/11)
///
جواب
اس حدیث میں دو حملوں کا ذکر ہے
اول وہ جس میں ام حرام شرکت کریں گی
دوم وہ جو قیصر کے شہر پر حملہ آور ہو گا
////
1)عبدالرحمان بن خالد بن ولید کے حملے میں یزید نہیں تھا
2)معاویہ کے پہلے حملے میں یزید نہیں تھا
3)ام حرام والے حملے میں یزید نہیں تھا
4)معاویہ رضی اللہ عنه کی 32ھ والے حملے میں یزید نہیں تھا
////
یہ تمام حملے قیصر کے شہر قسطنطینیة استنبول پر نہیں تھے جو دار سلطنت تھا بلکہ شام کے زمینی علاقہ سے کیے گئے
صرف ایک حملہ سمندری ہے جو معاویہ نے کیا لیکن وہ بھی شہر تک نہیں پہنچ سکے
تفصل سے کتاب اکابر پرستی یا صراط مستقیم میں بات ہے
اس پر ویڈیو بھی ہے
podcast
چیک کریں
https://www.islamic-belief.net/podcasts/
================
الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٣٢ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
سنة اثنتين وثلاثين: فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية، وأميرها معاوية
سن ٣٢ ھجری : اور اس میں المضيق کا واقعہ ہوا جو قسطنطينية کے قریب ہے ، اور اس کے امیر معاوية تھے
المضيق اک استریت ہے اور اس سے مراد دردانیلیس ہے جو ایجین سمندر کو مرمرا سمندر سے ملاتا ہے اور اک تنگ سمندری گزر گاہ ہے
مسلمان المضيق
dardanelles strait
تک پہنچے تھے جو قسطنطينية سے دور ہے
اس سے قبل تمام حملے زمین سے تھے سمندر کے نہیں تھے
=====================
اس کے بعد یزید نے جو حملہ کیا تو
قسطنطينية کے دروازہ و دیوار تک آ گئے
یعنی یہ وہ لشکر تھا جو شہر پر حملہ آور ہوا
ابن کثیر میں لکھا ہے
ثم دخلت سنة تسع وأربعين
فِيهَا غَزَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بِلَادَ الرُّومِ حتى بلغ قسطنطينية ومعه جماعات من سادات الصحابة منهم ابن عمرو ابن عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَأَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ. وَقَدْ ثَبَتَ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ» فَكَانَ هَذَا الْجَيْشُ أَوَّلَ مَنْ غَزَاهَا، وَمَا وَصَلُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَلَغُوا الْجَهْدَ. وَفِيهَا تُوُفِّيَ أَبُو أَيُّوبَ خالد بن زيد الأنصاري
سن ٤٩ ہجری داخل ہوا – اس میں یزید بن معاویہ نے روم کے شہروں پر حملہ کیا یہاں تک کہ قسطنطينية پہنچ گئے اور ان کے ساتھ سادات صحابہ تھے جن میں ابن عمر اور ابن عباس اور ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری تھے اور یہ ثابت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو پہلا لشکر قسطنطينية میں تلوار چلائے گا اس کی مغفرت ہے – پس یہی وہ پہلا لشکر ہے جس نے وہاں تلوار سے قتل کیا اور مشکل سے وہاں پہنچ پائے اور اس میں ابو ایوب کی وفات ہوئی۔
بھائی آپ کے اس حوالے پر اعتراض کیا گیا ہے کہ : یہ ابن کثیر کی عبارت نہیں عینی حنفی کی عبارت ہے(عمدة القاری 198/14)
اور عینی مدینة قیصر کو قسطنطنیہ مانتے ہیں اور قسطنطینیہ پر معاویہ رضی اللہ عنه نے اپنا پہلہ حملہ عینی حنفی کے مطابق عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں کیا تھا(عمدة القاری حوالہ ایضًا) اور اس میں یزید کی شرکت ناممکن ہے۔۔۔
جس نے یہ کہا اس نے تحقیق نہیں کی سنی سنائی آگے کی ہے
—————–
حوالہ دیکھ سکتے ہیں
https://al-maktaba.org/book/23708/2514
یہ عبارت ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں ہے- عینی نے تو ایسا نہیں لکھا جیسا ابن کثیر نے لکھا ہے –
عمدہ القاری میں ہے
وَذكر أَن يزِيد بن مُعَاوِيَة غزا بِلَاد الرّوم حَتَّى بلغ قسنطينية، وَمَعَهُ جمَاعَة من سَادَات الصَّحَابَة مِنْهُم: ابْن عمر، وَابْن عَبَّاس وَابْن الزبير وَأَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ، وَكَانَت وَفَاة أبي أَيُّوب الْأنْصَارِيّ هُنَاكَ قَرِيبا من سور الْقُسْطَنْطِينِيَّة وقبره هُنَاكَ تستسقي بِهِ الرّوم إِذا قحطوا.
یہ عینی نے لکھا ہے
عبارت میں فرق ہے
ابن کثیر مورخ بھی ہے – عینی محض شارح ہے اور ابن کثیر کے بعد کا ہے
تاریخ کی مستند کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کرنے والے لشکروں میں شامل تھے – الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر دو دفعہ حملہ ہوا – ایک سن ٥٠ یا ٥١ ھجری میں ہوا اور اس میں أَبُو أيوب الأنصاري رضي الله عنه. بھی ساتھ تھے- دوسرا حملہ سن ٥٥ ھجری میں ہوا اور اصحاب رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج (مضیق) کو پار کیا اور اہل الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ سے ان کے دروازے پر جنگ کی – ان دونوں حملوں میں سپہ سالار لشکر یزید بن معاویہ تھے
بھائی اک صاحب کا اعتراض ہے کہ یزید کے اول جیش میں شامل ہونے پر کوئی متصل السند صحیح یا حسن روایت خبر یا حدیث ہو تو پیش کریں تو فبھا ورنہ بے سند و منقطع تاریخی اقوال اور متاخرین کی ذاتی آراء کی کوئی اہمیت نہیں
یہی مطالبہ آپ ان سے کریں کہ الفاظ
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ (پہلا لشکر ) میں شامل ہونے پر کوئی متصل السند صحیح یا حسن روایت خبر یا حدیث ہو تو پیش کریں
جس میں کسی اور شخص کی شرکت کا ذکر ہو
———–
یہ مولوی ڈارمہ کرتے رہتے ہیں متاخرین کے اقوال میں کون ہے جس متاخر کا انہوں نے نام نہ لیا ہو
ابن کثیر الذھبی ابن اثیر مورخ ہیں ان کا کہنا یہی ہے کہ یزید اس لشکر میں تھا جس نے ایستنبول شہر پر حملہ کیا
ان کی مخالفت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے نہ آج تک کوئی کر سکا ہے
یزید کی لشکر میں شرکت تاریخی مسئلہ ہے علم حدیث کا مسئلہ نہیں ہے – اس کو تاریخ سے دیکھا جائے گا
مورخین اور محدثین کا اجماع چلا آ رہا ہے کہ یزید نے ہی اول جیش کی سپہ سالاری کی ہے
شارحین صحیح بخاری کا بھی یہی کہنا ہے
حتی جو یزید مخالف ہیں انہوں نے بھی اس کا اقرار کیا ہے مثلا عینی وغیرہ
التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ)
أنه قد ثبت في صحيح البخاري (برقم (2924) عن ابن عمر، أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا … مغفور له”. وأول جيش غزى القسطنطينية كان أميره يزيد.
——–
إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ)
وكان أول من غزا مدينة قيصر يزيد بن معاوية ومعه جماعة من سادات الصحابة
——–
شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك
وَاحْتِمَالُ أَنَّ يَزِيدَ لَمْ يَحْضُرْ مَعَ الْجَيْشِ مَرْدُودٌ
——–
عمدة القاري شرح صحيح البخاري
المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)
قَوْله: (أول جَيش من أمتِي يغزون مَدِينَة قَيْصر) ، أَرَادَ بهَا الْقُسْطَنْطِينِيَّة كَمَا ذَكرْنَاهُ، وَذكر أَن يزِيد بن مُعَاوِيَة غزا بِلَاد الرّوم حَتَّى بلغ قسنطينية،
——–
لیکن اب یہ بر صغیر کے روافض اہل سنت میں رد آئے ہیں اور یزید کی مخالفت میں تاریخ کو ہی جھٹلا رہے ہیں
https://www.facebook.com/MRSMofficial/videos/656017378366194/
is it true
یہ کسی صوفی کا کشف معلوم ہوتا ہے
اس قسم کا قصہ یزید کے مخالفین نے بھی بیان نہیں کیا
https://www.facebook.com/groups/knowledgeforlearn/permalink/1757464164427255/
es mn 2 wujooht aesi hai un pr batein k wo namazein chor k prhta
or mujre dekhta
لونڈی کا گانا گانا مباح ہے
نماز چھوڑتا تھا تو یہ مولوی اس زمانے میں فرشتوں سے یزید کا ریکارڈ چھین کر لائے ہیں کیا ؟ عجیب بکواس کرتے ہیں
آپ تقریریں زیادہ سنتی ہیں – کتاب نہیں پڑھتیں
میری کتاب خروج حسین پر پڑھ لیں
اس میں ان تمام اقوال کی قلعی کھول دی گئی ہے
———
اس ویڈیو کے نو منٹ ور رشید رضا کا قول معاویہ پر ہے
https://www.youtube.com/watch?v=Xhw_z9NsrRY
آپ کیا کہیں گے ؟
منکر حدیث رشید رضا نے اپنی تفسیر المنار میں آیت أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ ج ١١ ص ٢١٠ میں لکھا
قَالَ أَحَدُ كِبَارِ عُلَمَاءِ الْأَلْمَانِ فِي الْأَسِتَانَةِ لِبَعْضِ الْمُسْلِمِينَ وَفِيهِمْ أَحَدُ شُرَفَاءِ مَكَّةَ: إِنَّهُ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نُقِيمَ تِمْثَالًا مِنَ الذَّهَبِ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ فِي مَيْدَانِ كَذَا مِنْ عَاصِمَتِنَا (بَرْلِينْ) قِيلَ لَهُ: لِمَاذَا؟ قَالَ: لِأَنَّهُ هُوَ الَّذِي حَوَّلَ نِظَامَ الْحُكْمِ الْإِسْلَامِيِّ عَنْ قَاعِدَتِهِ الدِّيمُقْرَاطِيَّةِ إِلَى عَصَبِيَّةِ الْغَلَبِ، وَلَوْلَا ذَلِكَ لَعَمَّ الْإِسْلَامُ الْعَالَمَ كُلَّهُ، وَلَكُنَّا نَحْنُ الْأَلَمَانَ وَسَائِرَ شُعُوبِ أُورُبَّةَ عَرَبًا وَمُسْلِمِينَ.
جرمنی کے کبار علماء نے بعض مسلمانوں کی مدد میں کہا اور جن میں مکہ کے شرفاء بھی موجود تھے کہ ہم کو سونے کی معاویہ کی تمثیل کو اپنے دار الحکومت برلن کے میدان میں نصب کرنا چاہیے – پوچھا گیا کہ کیوں ؟ علمائے جرمنی نے فرمایا کیونکہ یہ معاویہ ہیں جنہوں نے اسلامی نظام حکومت کو اس کے قاعدہ میں بدلا اور الدِّيمُقْرَاطِيَّةِ قاعدے (جمہوریت ) کا کیا جس میں عصبیت کے غلبہ کو لیا جاتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اسلام تمام عالم پر غالب ہو جاتا لیکن جرمنی والے اور تمام قبائل مسلمان ہوتے
الدِّيمُقْرَاطِيَّةِ عربی میں
Democracy
کو کہتے ہیں
جرمن علماء نے تعریف کی معاویہ نے قبائلی عصبیت سے اسلام کو نکالا اور اس کو عامہ المسلمین کے قاعدے پر کیا – یہ الفاظ تعریف میں ہیں ان کو جرح پر محمول کرنا حماقت ہے – راقم کہتا ہے کہ معاویہ نے یزید کی تقرری جمہوری انداز میں کی کہ سب سے مسجدوں میں مشورہ کیا اس طرح رائے لینے کو کو اوائل اسلام میں عامہ المسلمین کی رائے جاننا کہا جاتا تھا – جرمن علماء نصرانی ہوں گے ان کے نزدیک اسلام تلوار سے پھیلا ہے لہذا وہ کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں جمہور کی رائے کو داخل نہیں کیا جاتا تو جرمنوں کو تیغ تلے اسلام حلق سے نیچے اتروایا جاتا
رشید رضا میں عقل کی کمی تھی – اہل حدیث فرقہ میں زبیر علی زئی کا کہنا ہے کہ منکر حدیث بھی تھا
apne yazeed k bety ki khilaft chorne ka likha us ne q chori.
khajata us ne yazeed ki waja se chori
کتاب توحید و الاسماء الحسنی کے شروع میں خالد بن یزید کا ذکر ہے – ان کارجحان حکومت کی طرف نہیں تھا – پڑھنے لکھنے کی طرف تھا – عالم شخص تھے اور طب کیمیا و فلسفہ پر وقت دینا چاہتے تھے لہذا خلافت کو چھوڑ دیا
apki di hoi list mn maviya bin yazeed ka ,ikr hai jinhon ne khilaft chori yah khaalid bin yazid ka bta rahy hai
یزید کے تین بیٹے تھے
خالد بن يزيد بن معاوية
عبد الرحمن بن يزيد
معاوية بن يزيد
———
معاویہ بن یزید تین ماہ خلیفہ رہے ، یہ بیمار تھے اور اسی عالم مینن ان کا انتقال ہو گیا – مورخین کہتے ہیں نیک و صالح شخص تھے
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: وَلِيَ مُعَاوِيَةُ بْنُ يَزِيدَ ثَلاثَةَ أَشْهُرٍ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَى النَّاسِ، وَلَمْ يَزَلْ مَرِيضًا، وَالضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ
السلام عليكم ورحمۃ اللہ
بیہقی حدیث نمبر 6731 میں ہے
اب یحیی فرماتے ہیں کہ میں حسین اور حسن کے درمیان تھا اور مروان ان دونوں کو گالیاں دے رہا تھا حسن نے امام حسین کو روکا مروان کہنے لگا اہل بہت (معاذ اللہ ) ملعون ہیں امام حسن کو غصہ آیا آپ نے فرمایا تو کیا یہ بکواس کرتا ہے کہ اہل بہت ملعون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم تجھ پر حضور کی زبان مبارک سے لعنت کی گئی ہے اس حالت میں کہ تو اپنے باپ کی پشت پر تھا ۔
اس روایت کی تحقیق درکار ہے جزاک اللہ خیرا
و علیکم السلام
یہ عربی متن مجھے نہیں ملا
yazid kis bimari mn foat hoa or ibn e zayd ksemara gya.. google pe likha k yazid bowl.ki ki si bimari mn tha or gory se girne se mara. oribne zyd ko qatl.kia gia. es bary mn tareekh mn kia koi information hai q k lashkar e taiba ka dawa hai k in ko sahahedd kaha jae…..kia inka dawa gulv pr mabni hai
یزید بن معاویہ کی وفات کس وجہ سے ہوئی معلوم نہیں – جس نے بھی ذکر کیا ہے بلا بیماری کا ذکر ہے
ابن حبان نے ثقات لکھا ہے
وَتُوفِّي يزِيد بْن مُعَاوِيَة بحوارين قَرْيَة من قرى دمشق لأَرْبَع عشرَة لَيْلَة خلت من شهر ربيع الأول سننة أَربع وَسِتِّينَ وَهُوَ يَوْمئِذٍ بْن ثَمَان وَثَلَاثِينَ وَقد قيل إِن يزِيد بْن مُعَاوِيَة سكر لَيْلَة وَقَامَ يرقص فَسقط على رَأسه وتناثر دماغه فَمَاتَ
کہا جاتا ہے کہ یزید نے رات کو شراب پی اور رقص کیا اس میں جھوم کر گرا دماغ پر چوٹ آئی اور مر گیا
اس کی سند نہیں دی
—————–
ابن کثیر نے کہا بندر سے کھیلتے ہوئے مرا
———–
شیعہ عالم ابن طاووس نے ابو مخنف کی سند سے ذکر کیا کہ یزید شکار پر نکلا ایک جگہ نہر سے پانی پینے اترا تو اس کو کوئی شیعہ پہچان گیا وہ یزید کے قتل کے درپے ہوا یزید نے گھوڑا ہانکا اور دوڑتے گھوڑے پر چڑھنے کی کوشش کی جس میں رکاب میں پیر پھنس کیا اور اس کا بدن رگڑ کھاتا رہا یہاں تک کہ وہ جہنم واصل ہوا
فعلقت رجله بالركاب، فجعل الفرس كلمَّا رآه خلفه نفر، فلم يزل كذلك إلى أن مزَّقه، وعجَّل الله بروحه إلى النار
===========
یہ الگ الگ قصے ہیں کوئی صحیح سند نہیں ہے اور صحیح میرے نزدیک یہ ہے کہ طبعی وفات ہوئی ہے
====================================
ابن زیاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کو إبراهيم بن الأشتر النخعي نے قتل کیا تھا
as sahabh mn hai k jinhon ne hussain r.a ko shaheed kia wo 10000 log hai or wo dasta tha jo in ki nighrani pr mamoor tha
یہ محض گمان ہیں – کوئی صحیح سند نہیں ہے
ap k olm mn aesi koi book hai jis mn seerat iimam hussain r.a tafseelan ho yani karbala se qabil k halaat e zindagii..
میرے علم میں نہیں
kehte hoye suna hai. agr hukmot e yazeed mulawis nae thi toh. unhon ne kufa ka aadil governer q badla or abaid ul zayd ko. q taaniat kia …
or phir sar e hussain k governer k pas amad daleel hai k hukomt mulawis thi….
or mukhtar saqfi ko hero of islam bna kr peish kia gya k us ne qatlleen hussaun ko chun chun k mara
baag e fadk bht bri aarazi thi. jab fatima r.a ne mutalba kia to unko na mila jab k usman r.a ne apne janne walo ko. apni dour mn de di…
or fatima ta hayyt abubakr se naraz rahi. Ali r.a ne unko khbr kiye bna jnko dafn kia or phir abu bkr ko bulaya or kaha kia humara haq nae tha es pr or wo ro pre .. phir unhon ne bait kr li
or aisy ki yazeed ki bait pr bulane ko ik shkhs ne khutba dia. or Ali ki tanqes ki. or kha abu bakr ne b to umr ko namzad kia or aale e bkr pe kuch kha to us ne kha k es ko pkro to hzrt aisha ko trf baagh gya to bahir wale ne kuch kha k falan ayt quran ki tumhre lie utri hazrt ayesha ne ander se kaha k humare lie sirf quran mn sirf meri barrah ki ayt ai … to kaha jata sab ko zabrs
dasti bayt pr mail kia gya
ان تمام کا جواب ابو بکر رضی اللہ عنہ پر کتاب اور خروج حسین ر کتاب میں ہے
باربار ایک ہی سوال مت کریں
–
نبی کی وراثت نہیں ہوتی
فاطمہ کا مطالبہ غلط تھا وہ وراثت مانگ رہی تھیں – عثمان نے مروان کو وارث نہیں کیا تھا
سورہ حشر میں پڑھ لیں فدک پر اہل بیت کا مکمل حق نہیں ہے
سب مسلمانوں کا ہے
نہ ہر قتل میں حکومت ملوث ہوتی ہے – آج بھی لاش ملے گی تو پولیس کے پاس جائے گی – اپ
common sense
سے عاری مت بنیں
ap ne btya ibn e umr r.a ne bayt e yazeed nae tori jab k kha gya musand ahemed ya tibrani mn hai k akhri waqt mn woh khty thy kash mn ne Ali ka sath dia hota to wo es hadith ko shaaz khty jobukhri mm hai…
waqia harra krbala se phle hoa tha k bad mn
طبرانی نے متعدد طرق سے نقل کرتے ہوئے کہا
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا علي بن حكيم الأودي . وحدثنا الحسين بن جعفر القتات الكوفي ثنا منجاب بن الحارث .وحدثنا أحمد بن عمرو القطراني ثنا محمد بن الطفيل ثنا شريك عن فطر بن خليفة عن حبيب بن أبي ثابت عن ابن عمر قال ما أجدني آسى على شيء إلا أني لم أقاتل الفئة الباغية مع علي
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ کسی پر افسوس نہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باغی گروہ سے قتال نہیں کرسکا [المعجم الكبير للطبراني 13/ 145]
الذھبی کا قول ہے فهذا منقطع [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 231]
یہ سند منقطع ہے
——-
سنن الکبری بیہقی میں ہے
حدثنا أبو عبد الله الحافظ إملاء حدثنا أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الزاهد حدثنا أحمد بن مهدى بن رستم حدثنا بشر بن شعيب بن أبى حمزة القرشى حدثنى أبى ح وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا الحجاج بن أبى منيع حدثنا جدى وحدثنا يعقوب حدثنى محمد بن يحيى بن إسماعيل عن ابن وهب عن يونس جميعا عن الزهرى وهذا لفظ حديث شعيب بن أبى حمزة عن الزهرى أخبرنى حمزة بن عبد الله بن عمر : أنه بينما هو جالس مع عبد الله بن عمر إذ جاءه رجل من أهل العراق فقال : يا أبا عبد الرحمن ….. فقال : ما وجدت فى نفسى من شىء من أمر هذه الأمة ما وجدت فى نفسى أنى لم أقاتل هذه الفئة الباغية كما أمرنى الله عز وجل زاد القطان فى روايته قال حمزة فقلنا له : ومن ترى الفئة الباغية؟ قال ابن عمر : ابن الزبير بغى على هؤلاء القوم فأخرجهم من ديارهم ونكث عهدهم
ابن عمر نے کہا اس امت کے معاملات میں سے کسی معاملہ پرمجھے اتنا افسوس نہیں ہواجنتا اس بات پرافسوس ہوا کہ میں نے اس ( حرہ کی ) باغی جماعت سے قتال کیوں نہیں کیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے- حسین بن القطان نے مزید بیان کیا کہ :حمزہ نے کہا: ہم نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کس کو باغی جماعت سمجھتے ہیں؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن زبیر نے قوم سے بغاوت کی ہے -ان ( مدینہ والوں) کو ان کے گھروں سے نکال دیا ،کیا گیا عہد توڑ دیا (یعنی بیعت توڑ دی
یہ روایت صحیح ہے
——
ابن عمر کو افسوس تھا کہ انہوں نے حرہ کے باغیوں سے قتال کیوں نہ کیا
ik abdullah ibn e muteh sihabhi wali hadith hai jis mnwo yazid k mutalik bta rahy or muhammad bin hanfiya khty mn ne unko aesa nae paaya …. kha ja raha tabahi k muqabaly mn hum sihabi ka qol mane gy k wo waqie fajir o fasiq tha or deen se niklne wala b
عَبد اللهِ بْن مُطِيع بْن الأَسوَد، العَدَويّ، القُرَشِيّ. صحابی نہیں ہے امام بخاری کہتے ہیں
سَمِعَ أَبَاهُ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم.
اس نے باپ کے واسطے سے نبی سے روایت کیا ہے
——
مغلطاي کہتے ہیں
وروى عن أبيه ولأبيه صحبة
یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اس کا باپ صحابی ہے
—-
یہ تابعی ہے اور فتنہ پرداز تھا اسی سے قتال نہ کرنے کا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو افسوس تھا
ذكره ابن سعد (3) في التابعين
ابن سعد نے اس کا ذکر التابعين میں کیا ہے
harra wali bagwat kb hoi karbala se phle k bad mn. ya yazeed ki bayt k 6 maah bad
kia es bagawat k bad imam hussain r.a ne madina chora or makkah gae
ap ne kaha abdullah ibne muteh fitnah philane wala tha es ki koi daleel?
یزید کی بیعت اس وقت ہوئی جب عائشہ رضی اللہ عنہا حیات تھیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سن ٥٣ کی کہی جاتی ہے یا ٥٧ کی
معاویہ کی وفات سن ٦٠ میں ہوئی
حسین کا قتل سن ٦١ میں ہوا
حرہ ٦٣ میں ہوا
—–
حرہ ایک بلوا تھا اور وہاں سڑک پر تقریر یہ ابن مطیع ہی کر رہا تھا اور جس سے دور رہنے کا ابن عمر نے حکم دیا
صحیح بخاری و مسلم کو دیکھا جا سکتا ہے
—————
مزید سوال کرنا غیر ضروری ہے – اس لئے اس بحث کو بند کیا جا رہا ہے
جن کو تفصیل دیکھنا ہو وہ کتاب خروج حسین اور کتاب امیر المومنین معاویہ میں دیکھ سکتے ہیں
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَـهَـا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُـمْ ۖ وَلَا تُسْاَلُوْنَ عَمَّا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (134) ↖
یہ ایک جماعت تھی جو گزرچکی، ان کے لیے ان کے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، اور تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے
سورہ بقرہ