راقم نے بھی کچھ تھوڑا بہت غور کیا جو پیش خدمت ہے
قرآن میں ہے
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
أور إس طرح روح (امر الوحی ) ہم نے تمہاری طرف الوحی کی ، تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے ایمان کیا ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول بننے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق کتاب اللہ کا کوئی علم نہ تھا
اس کے بر خلاف سیرت ابن اسحاق میں ہے
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ [1] ، مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ. قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَهُوَ يَقُولُ لِعُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ: حَدِّثْنَا يَا عُبَيْدُ، كَيْفَ كَانَ بَدْءُ مَا اُبْتُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ؟ قَالَ: فَقَالَ: عُبَيْدٌ- وَأَنَا حَاضِرٌ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ ابْن الزُّبَيْرِ وَمَنْ عِنْدَهُ مِنْ النَّاسِ-: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ [2] فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا، وَكَانَ ذَلِكَ مِمَّا تَحَنَّثَ بِهِ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّة. والتحنث التبرّر.
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ أَبُو طَالِبٍ:
وَثَوْرٍ وَمَنْ أَرْسَى ثَبِيرًا مَكَانَهُ … وَرَاقٍ لِيَرْقَى فِي حِرَاءٍ وَنَازِلِ
ابن اسحاق نے کہا مجھ سے وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْر نے بیان کیا کہ انہوں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا جو کہتے تھے کہ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے پوچھا
اے عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الوحی کا آغاز کس طرح ہوا جب ان پر جبریل آئے ؟
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ نے کہا میں حاضر تھا اور عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا جب لوگ بھی تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال میں ایک ماہ کے لئے حرا میں رہتے تھے اور وہاں جیسا قریش جاہلیت میں کرتے وہی تَحَنَّثَ کرتے
نوٹ : اس روایت میں اعتکاف کا کوئی ذکر نہیں ہے – یجآور کا مطلب کسی جگہ رکنا ہے اسی سے مجاورت کا لفظ نکلا ہے
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ قَالَ: قَالَ عُبَيْدٌ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ ذَلِكَ الشَّهْرَ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ، يُطْعِمُ مَنْ جَاءَهُ مِنْ الْمَسَاكِينِ، فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَلِكَ، كَانَ أَوَّلُ مَا يَبْدَأُ بِهِ، إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، فَيَطُوفُ بِهَا سَبْعًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى بَيْتِهِ، حَتَّى إذَا كَانَ الشَّهْرُ الَّذِي أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ فِيهِ مَا أَرَادَ مِنْ كَرَامَتِهِ، مِنْ السّنة الَّتِي بَعثه اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَذَلِكَ الشَّهْرُ (شَهْرُ) [2] رَمَضَانَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى حِرَاءٍ، كَمَا كَانَ يَخْرُجُ لِجِوَارِهِ وَمَعَهُ أَهْلُهُ، حَتَّى إذَا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَكْرَمَهُ اللَّهُ فِيهَا بِرِسَالَتِهِ، وَرَحِمَ الْعِبَادَ بِهَا، جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ، وَأَنَا نَائِمٌ، بِنَمَطٍ [3] مِنْ دِيبَاجٍ فِيهِ كِتَابٌ [4] ، فَقَالَ اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ [5] ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي [6] بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي [1] ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ مَا أَقُولُ ذَلِكَ إلَّا افْتِدَاءً مِنْهُ أَنْ يَعُودَ لِي بِمِثْلِ مَا صَنَعَ بِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 96: 1- 5. قَالَ: فَقَرَأْتهَا ثُمَّ انْتَهَى فَانْصَرَفَ عَنِّي وَهَبَبْتُ مِنْ [2] نَوْمِي، فَكَأَنَّمَا كَتَبْتُ فِي قَلْبِي كِتَابًا. قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إذَا كُنْتُ فِي وَسَطٍ مِنْ الْجَبَلِ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي إلَى السَّمَاءِ أَنْظُرُ، فَإِذَا جِبْرِيلُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ صَافٍّ قَدَمَيْهِ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ. قَالَ: فَوَقَفْتُ أَنْظُرُ إلَيْهِ فَمَا أَتَقَدَّمُ وَمَا أَتَأَخَّرُ، وَجَعَلْتُ أَصْرِفُ وَجْهِي عَنْهُ فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَلَا أَنْظُرُ فِي نَاحِيَةٍ مِنْهَا إلَّا رَأَيْتُهُ كَذَلِكَ، فَمَا زِلْتُ وَاقِفًا مَا أَتَقَدَّمُ أَمَامِي وَمَا أَرْجِعُ وَرَائِي حَتَّى بَعَثَتْ خَدِيجَةُ رُسُلَهَا فِي طَلَبِي، فَبَلَغُوا أَعْلَى مَكَّةَ وَرَجَعُوا إلَيْهَا وَأَنَا وَاقِفٌ فِي مَكَانِي ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنِّي
ابن اسحاق نے کہا کہ وھب بن کیسان نے بیان کیا کہ عبید نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ رکتے ایک ماہ تک ہر سال اور جو مسکین اتا اس کو کھانا دیتے جب یہ مکمل ہو جاتا تو سب سے پہلے واپس کعبہ جاتے ، گھر میں جانے سے پہلے طواف کرتے سات بار یا جو اللہ چاہتا پھر گھر جاتے حتی کہ جب وہ ماہ آیا جس میں اللہ نے چاہا کہ آپ کی کرامت ہو اس سال اور ماہ میں جو رمضان کا تھا تو رسول اللہ غار حرا کے لئے گئے اور آپ کے گھر والے آپ کے ساتھ تھے … پس جبریل آئے اللہ کا حکم لے کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا تو جبریل دیباج میں ایک جز دان تھا جس میں کتاب تھی اور کہا پڑھو – میں نے کہا : میں نہیں پڑھ سکتا ؟ پس مجھے بھینچا حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ یہ موت ہے پھر چھوڑ دیا
کہا پڑھو – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پڑھوں ؟ …. جبریل چلے گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور تحریر دل پر نقش ہو گئیں
اس کی سند منقطع ہے
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے لے کر آگے تک سند نہیں ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
عبيد بن عمير ذكر البخاري أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم وذكره مسلم فيمن ولد على عهده يعني ولا رؤية له وهو معدود من التابعين فحديثه مرسل
عبيد بن عمير کے لئے امام بخاری نے کہا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور امام مسلم نے ذکر کیا کہ یہ دور نبوی میں پیدا ہوا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا
واضح رہے کہ عبید بن عمیر نے رسول اللہ سے نہیں سنا
یہ روایت حقائق پر نہیں اترتی کیونکہ اس میں ہے کہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو لے کر جاتے تھے
جبکہ غار حرا نہایت مختصر سی جگہ ہے جس میں بمشکل ایک وقت میں ایک ہی شخص آ سکتا ہے
دوم غار مکہ سے باہر بیابان میں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ گھر والوں کو وہاں لے کر ایک ماہ تک رکا جائے
غامدی صاحب کے بقول غار حرا میں عبد المطلب بھی تحنث کرتے تھے جبکہ یہ سیرت ابن اسحاق میں نہیں اور اس روایت سے غامدی صاحب نے طے کیا کہ قرآن کی آیات ، پیغمبری کا منصب ملنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھوائی گئیں – یہ سب تمثیلی واقعہ تھا
ابن اسحق کی روایت میں ہے کہ خواب سے آنکھ کھل گئی اور رسول اللہ غار حرا سے اتر کر نیچے جا رہے تھے یہاں تک کہ پہاڑ کے بیچ میں تھے
تو جبریل نے کہا تم رسول اللہ ہو
صحیح بخاری کے مطابق غار حرا کے واقعہ کے بعد ایک عرصہ تک الوحی نہ آئی اور دور فترت رہا
ابن اسحق کی روایت کے تحت قرانی الوحی ، ایک غیر نبی پر خواب میں پہلے آ رہی ہے
یہ اس روایت کی منکرات میں سے ہے
قرآن یا کتاب اللہ کی بھی کوئی آیت خواب میں نہیں آ سکتی کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی نہیں تھے
علم حدیث میں ابن اسحاق دجال کے طور پر بھی یاد کیے جاتے ہیں اور یہ لقب امام مالک نے ان کو دیا ہے
صحیح ابن حبان اور صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ: أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1] فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ: لاَ أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الوَادِيَ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 2]
يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ نے ابو سلمہ سے سوال کیا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا نازل ہو ؟ ابو سلمہ نے کہا {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، یحیی نے کہا مجھ کو خبر ملی کہ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1] نازل ہوئی پس ابو سلمہ نے کہا جابر بن عبد اللہ سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا میں وہ کہتا جو میں نے رسول اللہ سے سنا کہ میں حرا میں رکا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تو وہاں سے اترا یہاں تک کہ وادی میں آ گیا کہ آواز سنی ، دائیں بائیں دیکھا کہ فرشتہ ایک کرسی پر ہے زمین و آسمان کے درمیان
پس میں خدیجہ کے پاس پہنچا اور کہا مجھ کو اڑا دو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس نازل ہوا
{يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: فِي خَبَرِ جَابِرٍ هَذَا: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، وَفِي خَبَرِ عَائِشَةَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1]، وَلَيْسَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ تَضَادٌّ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] وَهُوَ فِي الْغَارِ بِحِرَاءَ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ دَثَّرَتْهُ خَدِيجَةُ وَصَبَّتْ عَلَيْهِ الْمَاءَ الْبَارِدَ، وَأُنْزِلَ عَلَيْهِ فِي بَيْتِ خَدِيجَةَ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ} [المدثر: 1] مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ تَهَاتُرٌ أَوْ تَضَادٌّ
ابن حبان نے کہا جابر کی حدیث میں ہے سورہ مدثر نازل ہوئی اور عائشہ نے کہا {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] اور دونوں میں تضاد نہیں ہے
پہلے غار میں اقرا نازل ہوئی اور بعد میں سورہ مدثر
مسند احمد میں ہے
جَاوَرْتُ بِحِرَاءَ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي
میں ایک ماہ حرا میں رکا وہاں جب رکنا ختم کیا میں اترا اور بطن وادی میں آ گیا
صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ
امام زہری نے خبر دی کہ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور وہ فترت الوحی کی بات کر رہے تھے
غور طلب ہے کہ یہاں سند میں امام زہری ہیں اور امام زہری کے نزدیک سورہ مدثر پہلی سورت نہیں ہے
غامدی صاحب کے نزدیک اغازالوحی کی صحیح بخاری والی روایت ، سیرت ابن اسحاق کی روایت دونوں صحیح نہیں کیونکہ ان میں سورہ علق یا سورہ مدثر کو پہلی الوحی کہا گیا ہے اور ان کا ذہن کہتا ہے یہ دونوں سورتیں پہلی الوحی نہیں کیونکہ ان سورتوں کے مضامین تند و تیز ہیں
راقم کہتا ہے کہ جس نے بھی آغاز الوحی کی روایات کا ذکر کیا محض ان دو سورتوں کا ہی کیا ہے
ابن اسحاق کو عادت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں کے نام سے جھوٹ بولتا ہے
ابن اسحاق کو دجال اغلبا ان وجوہات کی بنا پر کہا گیا ہے کیونکہ اس نے روایت کیا
اول وفات النبی پر عائشہ رضی الله عنہا نے ماتم کیا
دوم قرآن کی آیات بکری کھا گئی
سوم نبی علیہ السلام کی تدفین بدھ کی رات میں ہوئی
چہارم وفات النبی کے وقت ام المومنین عائشہ نہیں ، ام المومنین صفیہ رضی الله عنہا پاس تھیں
پنجم ام المومنین عائشہ ، معراج کو خواب کہتی تھیں
معلوم ہے کہ یہ تمام جھوٹ ہیں جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بولے گئے ہیں کیونکہ صحیح اسناد سے اس کے خلاف معلوم ہے
===========================================================================
“In the Quran, it is said:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
And thus We have inspired unto you (Muhammad) a Spirit of Our command. You knew not what the Scripture was, nor faith, but We have made it a light whereby We guide whom We will of Our servants. And indeed, you guide to a straight path.”
This verse reveals that before becoming a prophet, the Messenger of Allah, peace be upon him, had absolutely no knowledge of the book of Allah.
Contrary to this, in the biography by Ibn Ishaq, it is stated:
Ibn Ishaq said: Wahb ibn Kaysan, the freed slave of the family of Zubayr, told me that he heard Abdullah ibn Zubayr saying to Ubayd ibn Umayr ibn Qatadah al-Laythi: “Tell us, O Ubayd, how did the prophecy begin with the Messenger of Allah, peace be upon him, when Gabriel, peace be upon him, came to him?” Ubayd said: “I was present and Abdullah ibn Zubayr narrated in the presence of people that the Messenger of Allah, peace be upon him, would spend a month every year in seclusion in Hira, following the pre-Islamic practice of Tahannuth, as practiced by Quraysh.”
Note: This narration does not mention I’tikaf. The word يُجَاوِرُ means to stay at a place, from which the term ‘Mujawir’ is derived.
Ibn Ishaq said that Ubayd mentioned: “The Messenger of Allah, peace be upon him, would seclude himself for that month every year, feeding any needy who came to him. When he completed his seclusion, the first thing he would do, before entering his house, was to visit the Kaaba and perform Tawaf around it seven times or as Allah willed, and then return to his home. Until the month came in which Allah intended to bestow His grace upon him, in the year he was chosen by Allah, which was the month of Ramadan, the Messenger of Allah went to Hira as he used to do for his seclusion along with his family, until the night Allah honored him with His message and showed mercy to His servants, Gabriel came with Allah’s command…”
This narration’s chain of transmission is disconnected, as there is no link from Ubayd ibn Umayr onwards.
In “Jami’ al-Tahsil fi Ahkam al-Marasil” by Salah al-Din Abu Sa’id Khalil ibn Kaykaldi ibn Abdullah al-Dimashqi al-Alai (died 761H), it is mentioned that Ubayd ibn Umayr is considered by Bukhari to have seen the Prophet, and by Muslim as being born during his time, meaning he did not see him, and is counted among the Tabi’un, thus his hadiths are Mursal (disconnected).
It should be clear that Ubayd ibn Umayr did not hear from the Messenger of Allah.
This narration does not conform to reality because it mentions the Messenger of Allah, peace be upon him, taking his family to Hira Cave. However, Hira is a very small place, barely big enough for one person at a time, located outside Mecca in the wilderness. It is not feasible that he stayed there with his family for a month.
According to Ghamidi, Abd al-Muttalib also practiced Tahannuth in Hira, which is not mentioned in Ibn Ishaq’s biography. From this narration, Ghamidi concluded that the verses of the Quran, before the prophetic mission, were recited to the Prophet Muhammad, peace be upon him, as a symbolic event.
Ibn Ishaq’s narration includes the Prophet, peace be upon him, waking from a dream and descending from Hira until he was midway down the mountain when Gabriel addressed him as the Messenger of Allah.
According to Sahih Bukhari, after the Hira incident, there was a period without revelation, known as the period of Fatrah.
Under Ibn Ishaq’s account, the Quranic revelation began with a non-prophet through a dream, which is among the questionable aspects of the narration. No verse of the Quran or the Book of Allah could come in a dream because, at that time, the Prophet Muhammad, peace be upon him, was not yet a prophet.
Ibn Ishaq is also remembered in the study of Hadith as a “Dajjal” (deceiver), a title given to him by Imam Malik.
Both Sahih Ibn Hibban and Sahih Bukhari mention:
Ishaq ibn Mansur narrated from Abd al-Samad, from Harb, from Yahya, who said: “I asked Abu Salama: ‘Which part of the Quran was revealed first?’ He said: ‘O you wrapped up (in the mantle)!’ I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.” Abu Salama said he asked Jabir ibn Abdullah which part of the Quran was revealed first, and he replied the same. I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.’ He said: ‘I only tell you what the Messenger of Allah, peace be upon him, said.'”
This discrepancy in reports, whether Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir was the first revelation, does not indicate a contradiction, as both events happened at different times and contexts.
In Musnad Ahmad, it is mentioned:
“I sequestered myself in Hira for a month, and when I concluded my seclusion, I descended and reached the valley’s bottom.”
This signifies the Prophet Muhammad’s practice of secluding himself in the cave of Hira, highlighting a period of contemplation and spiritual quest before receiving revelation.
In Sahih Muslim, it is narrated:
“Abu al-Tahir told me, Ibn Wahb said, Yunus reported, Ibn Shihab informed me from Abu Salama bin Abd al-Rahman, who narrated from Jabir bin Abdullah al-Ansari, a companion of the Messenger of Allah, peace be upon him, that he narrated, saying the Messenger of Allah, peace be upon him, spoke about the period of cessation of revelation.”
This narration points to a phase where the Prophet Muhammad experienced a pause in the revelation process, indicating the profound impact of initial revelations and the anticipation of further guidance.
It’s noteworthy that Imam Zuhri, mentioned in the chain of transmission, does not consider Surah Al-Muddathir as the first chapter revealed, suggesting a nuanced understanding of the Quran’s revelation order among early Islamic scholars.
Ghamidi holds the view that the narrations in Sahih Bukhari and the biography by Ibn Ishaq, which mention Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir as the first revelations, are not accurate because the themes of these Surahs are intense and assertive. He questions the traditional sequence of revelation based on the content and tone of these chapters.
The writer states that only these two Surahs have been mentioned in the context of the beginning of revelation.
Ibn Ishaq has been criticized for falsely attributing various incidents to Umm al-Mu’minin Aisha and her relatives, leading some to label him as a “Dajjal” (deceiver) for such fabrications. These include:
1. Aisha mourning the Prophet’s death,
2. Verses of the Quran being eaten by a goat,
3. The Prophet being buried on a Wednesday night,
4. Safiyya, not Aisha, being present at the Prophet’s death, and
5. Aisha supposedly considering the Isra and Mi’raj as a dream.
These allegations are contradicted by authentic traditions, highlighting the importance of rigorous scrutiny and authentication in the transmission of historical and religious narratives.