احادیث صحیحیہ کے مطابق مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طنزیہ نام ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ رکھا ہوا تھا – یہ نام أَبِي كَبْشَةَ پر اس لئے لیا گیا تھا کیونکہ أَبِي كَبْشَةَ الشعری کا پجاری تھا اوربت پرستی کے خلاف تھا – مشرکین مکہ دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بت پرست کے مخالف کے طور پر جانتے تھے لہذا ان کو لگا کہ یہ دونوں اپس میں ملے ہوئے ہیں یا کم از کم متاثر ضرور ہیں
قال الفرزدق:
وأوقدت الشعرى مع الليل نارَها وأضحت محولاً جلدها يتوسّف
الفرزدق شاعر نے کہا
اور الشعرى کی اگ سے شب روشن ہوئی
العبور بھی الشعرى کا ہی نام ہے جس کا انگریزی میں نام
Sirius
ہے – عرب مشرکوں میں الشعرى العَبُور کوپوجا جاتا تھا جس کو بعض اوقات الشعرى الیمانیہ بھی کہا جاتا تھا اور علم فلکیات جو عربوں میں ہے اس کے مطابق الشعرى کو اورائیان
Orion
سے ملا کر ایک کتے کی شکل دی گئی تھی
غریب الحدیث از إبراهيم بن إسحاق الحربي أبو إسحاق میں ہے
وَالشِّعْرَى: كَوْكَبٌ يَتْلُو الْجَوْزَاءَ , وَهِيَ الشِّعْرَى الْعَبُورُ
اور الشعرى یہ الْجَوْزَاءَ کا تارا ہے اور یہی الشِّعْرَى الْعَبُورُ ہے
لسان العرب از ابن منظور میں ہے
وأَما العَبور فَهِيَ مَعَ الجوْزاء تكونُ نيِّرةً، سُمّيت عَبوراً لأَنها عَبَرت المَجَرَّةَ
اور العبور یہ الجوْزاء کے ساتھ ایک کوکب ہے اس کو عبور کرنے والی کہتے ہوں کیونکہ یہ ملکی وے کو عبور کرتی ہے
دیکھنے والی آنکھ کو لگتا ہے کہ الشعری آسمان میں ملکی وے میں سے گزر رہا ہے
الشعریOrion
ابن الأئير في “النهاية” 4/144: كان المشركون ينسُبون النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى أبي كبشة، وهو رجل من خُزاعة خالف قريشاً في عبادة الأوثان، وعَبَد الشعرى والعَبُور، فلما خالفَهم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في عبادة الأوثان شبهوه به.
النہایہ میں ابن اثیر نے لکھا ہے مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابی کبشہ سے نسبت دیتے جو بنو خُزاعة کا ایک شخص تھا اور بتوں کی عبادت پر قریش کا مخالف تھا اور یہ الشعرى اور العَبُور کا پجاری تھا- پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتوں کی مخالفت کی تو قریش کو اس پر شبہ ہوا
مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986 ) میں ہے
وقيل: إنه كان جد النبي صلى الله عليه وسلم من قبل أمه فأرادوا أنه نزع في الشبه إليه.
کہا جاتا ہے کہ یہ ابی کبشہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی والدہ کے خاندان سے نانا تھا پس قریش نے ارادہ کیا کہ اس مشابہت پر نبی سے جھگڑا کریں
المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) میں ہے
وقيل: بل أَبُو كَبْشَة كُنيةُ زوجِ حَلِيمةَ حاضِنَةِ النّبىّ – صلى الله عليه وسلم
أَبُو كَبْشَة کہا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ کے شوہر کی کنیت تھی
صحیح بخاری میں ہے
ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم)نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو)میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔ …….. ۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو)اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا
مکہ میں سورہ نجم سن کر سب مشرک سجدے میں چلے گئے کیونکہ اس میں یہ آیت تھی
وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى
اور اللہ تعالی ہی الشِّعْرَى کا رب ہے
اس وقت مشرک سورہ نجم کے مضامین سے اتفاق کررہے تھے کہ اللہ تعالی ہی آسمان و زمین کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ واقعی فرشتوں کو اللہ کی شفاعت کی بنا پر پکار رہے ہیں اور یہ التباس بھی دور ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر ابی کبشہ سے ملے ہوئے ہیں بلکہ ان کے نزدیک الشعری تو مخلوق ہے – لیکن بعد میں مشرکوں کو احساس ہوا کہ ان کی مکہ پر اجارہ داری کا کوئی جواز ہی نہیں رہے گا اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مان لیں
راقم سمجھتا ہے کہ ابی کبشہ الروحانیت یا الصابئة میں سے کسی مذھب پر تھا اور یہی قدیم مصریوں کا مذھب تھا
الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں الروحانيات کے نام سے ایک دین کا ذکر کیا ہے جو یونانی و عرب مشرکوں میں مروج تھا – یہ عناصر کی اور اجرام فلکی میں سات کی پوجا کرتے اور ان کے ہیکل تعمیر کرتے تھے – ان میں اور حنفاء عرب میں اختلاف تھا – دونوں اگرچہ بت پرستی کے خلاف تھے لیکن حنفاء کے نزدیک روحانیت والے بھی گمراہ تھے اور مشرکین عرب بھی
الروحانيات والوں کے نزدیک تمام اجرام فلکی کے اندر روح ہے اور ہر وہ چیز جو آسمان سے زمین پر آئے اس میں بھی روح ہے یہاں تک کہ بارش ، قوس قزح، بجلی کی کڑک ، برق ، ملکی وے وغیرہ تک کے لئے یہ ہیکل بناتے تھے – یہ هرمس: شيث، وإدريس عليهما السلام کے وجود کے قائل تھے – روحانیت والے اگرچہ بت نہیں تراشتے تھے لیکن اجرام و عناصر کے لیے ہیکل بناتے تھے
الشهرستاني نے ان کا شمار عبدة الكواكب ستارہ پرستوں میں کیا ہے – ان کے نزدیک جسم انسانی بھی ہیکل کی مانند ہے کہ وكأن أعضاءنا السبعة هياكله ہمارے أعضاء سات ہیکل ہیں یا جسم انسانی ایک ٹیمپل ہے جس میں آسمانی ستارہ کی روح اتی ہے
الصابئة بھی اسی قسم کے کسی عقیدے پر تھے الشهرستاني نے ذکر کیا کہ ان کے نزدیک
وهيكل زحل مسدس، وهيكل المشتري مثلث، وهيكل المريخ مربع مستطيل، وهيكل الشمس مربع، وهيكل الزهرة مثلث في جوف مربع، وهيكل عطارد مثلث في جوفه مربع مستطيل، وهيكل القمر مثمن.
زحل کا ہیکل مسدس ہو گا یعنی چھ دیوار والا
مشتری کا تین دیوار والا مثلث
مریخ کا مستطیل
سورج کا چوکور
زہرہ کا بیچ میں مثلث لیکن نیچے سے مربع
عطارد کا بیچ میں مثلث اور مربع و مستطیل ہو گا
چاند کا ہیکل آٹھ دیوار والا ہو گا
حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911هـ) میں مصر کے اہرام کی خبر ہے کہ
والقبط تزعم أنهما والهرم الصغير الملون قبور، فالهرم الشرقي فيه سوريد الملك، وفي الهرم الغربي أخوه هرجيب، والهرم الملون فيه أفريبون (1) ابن هرجيب.
والصائبة تزعم أن أحدهما قبر شيث، والآخر قبر هرمس، والملون قبر صاب بن هرمس؛ وإليه تنسب الصابئة، وهم يحجون إليها، ويذبحون عندها الديكة والعجول السود، ويبخرون بدخن. ولما فتحه المأمون، فتح إلى زلاقة ضيقة من الحجر الصوان الأسود الذي لا يعمل فيه الحديد، بين حاجزين ملتصقين بالحائط، قد نقر في الزلاقة حفر يتمسك الصاعد بتلك الحفر، ويستعين بها على المشي في الزلاقة لئلا يزاق، وأسفل الزلاقة بئر عظيمة بعيدة القعر. ويقال: إن أسفل البئر أبواب يدخل منها إلى مواضع كثيرة، وبيوت ومخادع وعجائب، وانتهت بهم الزلاقة إلى موضع مربع في وسطه حوض من حجر جلد مغطى، فلما كشف عنه غطاؤه لم يوجد فيه إلا رمة بالية.
قبطییوں کا دعوی ہے کہ اہرام مصر قبریں ہیں پس جو مشرقی طرف ہے یہ شاہ سورید کی ہے اور غربی اس کے بھائی هرجيب کی قبر ہے اور رنگ ولا ہرم فريبون ابن هرجيب کی قبر ہے اور الصائبة کا دعوی ہے کہ ایک ان میں سے شیث کی قبر ہے اور دوسری ہرمس کی اور رنگ والے میں صاب بن ہرمس کی قبر ہے – اور اس سے ہی الصائبة منسوب ہیں یہ وہاں حاجت مانگتے ہیں وہاں کالے بچھڑے اور مرغیاں ذبح کرتے ہیں اور دھونی دیتے ہیں پس جب مامون نے اس کو کھولا تو اس میں پھسلاو تک چلا گیا وہاں کالے پتھر تھے جن پر لوہا کا عمل نہ ہوتا تھا .. اور جب وہاں اس کے وسط میں آئے تو ایک حوض ملا جو ڈھکا ہوا تھا اس کو کھولا تو اس میں سوائے گلی سڑی رسی کچھ نہ تھا
اہرام مصر کا تعلق شیث سے تھا اور الصائبة وہاں پوجا کرتے تھے
مشرکین عرب میں جو ستارہ پرست تھے کیا وہ کواکب کی ارواح کے بارے میں
مستقل بالذات کے طور پر ربوبیت کےخواص کے قائل تھے یا پھر دیگر مشرکین کی طرح ان ارواح کو شفیع مانتے تھے؟ اور یہ بھی بتا دیں آپکی تحقیق کیا کہتی ہے دنیا میں جو آج تک دوسرے ستارہ پرست ہوئے جیسے کہ بابلی مصری یونانی رومن ہندی۔ ان لوگوں کا کواکب کے متعلق مدبر الامر کا اعتقاد اللہ کے
اذن کے ساتھ مقید ہونے کا تھا یا پھر ہر قوم کا دوسری قوم سے مختلف رہا ہے اگر مختلف رہا ہے تو بیان کردیں؟
مشرکین ان کو سفارشی کہتے تھے
موجودہ دور کے ستارو پرست الگ الگ عقائد پر ہیں یہ اللّہ تعالی کو ایک نہیں سمجھتے بلکہ اس کے حصے مانتے ہیں تو مخلوق میں بٹ گئے ہیں
مثلا ہندوؤں کے نزدیک اللہ تعالی ہر چیز میں ہے اسی لئے بت کو پوج سکتے ہیں
یہ کافی مختلف عقائد ہیں اور مشرکین مکہ سے الگ ہیں
بھائی اگر عرب کے کواکب پرستوں کا کواکب کی ارواح پر سفارشی ہونے کے اعتقاد پر کوئی دلیل مل جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟
کواکب کی ارواح سفارشی ہیں یہ الصابئين کا مذھب تھا
شہرستانی لی الملل و النحل میں اس کا ذکر ہے
الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں الروحانيات کے نام سے ایک دین کا ذکر کیا ہے جو یونانی و عرب مشرکوں میں مروج تھا – یہ عناصر کی اور اجرام فلکی میں سات کی پوجا کرتے اور ان کے ہیکل تعمیر کرتے تھے – ان میں اور حنفاء عرب میں اختلاف تھا – دونوں اگرچہ بت پرستی کے خلاف تھے لیکن حنفاء کے نزدیک روحانیت والے بھی گمراہ تھے اور مشرکین عرب بھی