ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
إن أمتي لا تجتمع على ضلالة
میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی
اس روایت کو امام بخاری رد کرتے ہیں ترمذی میں ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کا راوی سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هَذَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، منکر الحدیث ہے
اس روایت کو امام عقیلی ضعفا الکبیر میں يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْمَكْفُوفُ صَاحِبُ بُهَيَّةَ سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابن معین کہتے ہیں کوئی شئے نہیں
مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی
حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ السَّكَنِ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا مُبَارَكٌ أَبُو سُحَيْمٍ، مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَ رَبَّهُ أَرْبَعًا: «سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَمُوتَ جُوعًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَرْتَدُّوا كُفَّارًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَغْلِبَهُمْ عَدُوٌّ لَهُمْ فَيَسْتَبِيحَ بَأْسَهُمْ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُعْطَ ذَلِكَ» . «أَمَّا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا يَمْشِي فِي مِثْلِ هَذَا الْكِتَابِ، لَكِنِّي ذَكَرْتُهُ اضْطِرَارًا. الْحَدِيثُ الثَّالِثُ فِي حُجَّةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ الْإِجْمَاعَ حُجَّةٌ»
انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب سے چار چیزیں طلب کیں انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میں بھوکا نہ وفات پاؤں پس عطا کیا گیا اور رب سے سوال کیا کہ کہ یہ (امت) گمراہی پر جمع نہ ہو پس یہ عطا کیا گیا اور انہوں نے سوال کیا کہ ان پر دشمن غالب نہ آئے … پس یہ عطا کیا گیا اور یہ دعا کی کہ ان میں تیر نہ چلیں پس یہ عطا نہیں کیا گیا
امام حاکم لکھتے ہیں اس کتاب میں مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ کا ذکر نہیں چلنا چاہئے لیکن اضطرارا اس کا ذکر کیا جو علماء کےلئے حجت ہے کہ اجماع حجت ہے.
افسوس امت پر یہ وقت آ گیا کہ گھٹیا سے گھٹیا راوی پیش کیا گیا اس کی سند میں مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ ہے جو متروک ہے آخر امام الحاکم کو ایسی روایات لکھتے کی کیا ضرورت پیش ا گئی کہ ردی کی نذر کی جانے والی روایات ان کو اپنے مدّعا میں پیش کرنی پڑھ رہی ہیں
مستدرک کی دوسری روایت ہے
مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ
جو جماعت سے علیحدہ ہوا بالشت برابر پس نے اسلام کو گلے میں سے نکال دیا
امام الحاکم اس کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں
خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ لَمْ يُجْرَحُ فِي رِوَايَاتِهِ وَهُوَ تَابِعِيٌّ مَعْرُوفٌ
خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ کسی نے ان پر ان کی روایات کی وجہ سے جرح نہیں کی اور وہ معروف تَابِعِيٌّ ہیں
الذہبی میزان میں ان معروف تَابِعِيٌّ کو لکھتے ہیں
خالد بن وهبان [د] . عن أبي ذر مجهول.
مستدرک کی تیسری روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ» . قَالَ الْحَاكِمُ: «فَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَدَنِيُّ هَذَا قَدْ عَدَّلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمَامُ أَهْلِ الْيَمَنِ وَتَعْدِيلُهُ حُجَّةٌ
ابن عباس رضی اللّہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرےگا کبھی بھی اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے امام حاکم نے کہا پس ابراہیم بن میمون عدنی ہے اس کی تعدیل عبد الرزاق نے کی ہے اور تعریف کی ہے اور عبد الرزاق اہل یمن کے امام ہیں اور ان کی تعدیل حجت ہے
اس کی سند میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ ہے جس کے متعلق عبد الرزاق کی تعدیل ہے لیکن
قال الميموني: قال أبو عبد الله: إبراهيم بن ميمون، لا نعرفه.
الميموني کہتے ہیں میں نے أبو عبد الله (احمد) سے پوچھا: إبراهيم بن ميمون، (کہا) نہیں جانتا
ابن ابی حاتم کہتے ہیں ان کے باپ نے کہا لا يحتج به نا قابل احتجاج
طبرانی معجم الکبیر کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»
ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کبھی بھی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ الله کا ہاتھ جماعت پر ہے
اس کی سند میں مرزوق الباهلى ، أبو بكر البصرى ، مولى طلحة بن عبد الرحمن الباهلى ہے جن کو ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور کہا ہے يخطىء غلطی کرتے ہیں ابن حجر ان کو ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ صدوق دیتے ہیں
الغرض امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی صحیح کے درجے کی روایت نہیں اور نہ ہی امام بخاری اور امام مسلم کے معیار کی ہے
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امت شرک نہ کرے گی اور بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں
وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي
اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے
یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے
بخاری میں یہ حدیث عقبہ بن عامر رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہآخری ایام میں نبی صلی الله علیہ وسلم ایک روز پہلے اصحاب کے ساتھ مقام احد گئے اورشہداء کے لئے دعا کی پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور یہ الفاظ فرمائے
یہ الفاظ صحابہ کے لئے مخصوص ہیں نہ کہ ساری امت کے لئے . اگر نبی صلی الله علیہ وسلم امت کے حوالے سے بالکل مطمین ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے کہ اس امت میں لوگ ہوں گے جن کے حلق سے قرآن نیچے نہ اترے گا وہ یہ نہ کہتے کہ ایمان اجنبی ہو جائے گا وہ یہ نہ کہتے کہ بہتر فرقے جہنم کی نذر ہوں گے
بخاری یا صحاح ستہ میں یہ روایت یے کہ قیامت نہ ہو گی جب تک ایک جماعت ہر دور میں حق پر رہے گی اور اہل حدیث اپنے آپکو سمجھتے ہیں؟ ؟
اس روایت کی تفسیر میں محدثین میں ہی بہت کنفیوژن پایا جاتا ہے
⇑ کیا روایت میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے ۔ صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
جیسا منہ ویسی بات کی طرح ہر کوئی اس کو اپنے اوپر فٹ کر دیتا ہے
جہادی کہتے ہیں یہ ہمارے لئے ہے
شامی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے
اہل حدیث کہتے ہیں ہمارے لئے ہے
صوفی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے- یاد رہے کہ شام و یروشلم میں انبیاء کی قبروں پر امت معتکف ہے
راقم سمجھتا ہے کہ یہ روایت کنڈیشن ہے نہ کہ خبر – یعنی یہ امت غالب رہے گی اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے جب تک یہ امر الله پر قائم رہیں گے
ایسا ١٢ خلفاء کا دور تھا شام میں – اس کے بعد مسلمانوں کی خلافت کی اینٹ بنو عباس نے بجا دی- اس کے بعد منگولوں نے اس کے بعد انگریزوں نے
یاد رہے کہ محدثین کے نزدیک عباسی خلفاء صحیح عقیدہ پر نہ تھے
روایت میں ہے اس امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی یہاں تک کہ الله کا امر آئے
اس میں امر کو قیامت لینے سے مفہوم بدل جاتا ہے
لیکن اگر امر کو الله کا عذاب کا حکم لیا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا
یعنی ترجمہ ہو گا
وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,
یہ امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی الله کے حکم پر قائم (خلافت کھڑی) رہے گی – اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله (کے عذاب) کا حکم آئے
اسی بحث سے منسلک یہ بلاگ بھی دیکھیں
https://www.islamic-belief.net/غور-طلب/
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ میری امت کو (یا فرمایا:اُمتِ محمد یہ کو)کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا اورجماعت پر اللہ تعالیٰ (کی حفاظت)کا ہاتھ ہے اورجو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جداہوا۔‘‘ (ترمذی،مستدرک حاکم)
’’حضرت ابو مالک اشعر ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا:۱)تمہارا نبی تمہارے لیے ایسی دعائے ضررنہ کرے گا کہ تم ہلاک ہوجائو۔ ۲) اہلِ باطل اہلِ حق پر (کلیتاً)غالب نہ ہوں گے۔۳) تم گمراہی پر جمع نہیں ہوگے۔‘‘ (ابودائود)
حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْأَصَمُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَنِيُّ، ثنا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا» وَقَالَ: «يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» . «خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَنِيُّ هَذَا شَيْخٌ قَدِيمٌ لِلْبَغْدَادِيِّينَ، وَلَوْ حَفِظَ هَذَا الْحَدِيثَ لَحَكَمْنَا لَهُ بِالصِّحَّةِ،
سند میں خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَنِيُّ ہے حاکم نے لکھا ہے اس میں خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَنِيُّ ایک بغداد کا بڈھا ہے اگر اس نے حدیث یاد کی ہوتی تو ہم اس حدیث کی صحت کا بھی لکھتے
یعنی سند خود حاکم کے نزدیک ضعیف ہے
——–
حاکم نے اس کی ایک اور سند دی ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، ثنا الْمُعْتَمِرُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا»
اور
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ الْبَزَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ،
سند میں سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ مجہول ہے
—–
ایک اور طرق دیا ہے
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الدِّرْهَمِيُّ، ثنا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُفْيَانَ، أَوْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ هَكَذَا – وَرَفَعَ يَدَيْهِ – فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» . ” قَالَ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَسْتُ أَعْرِفُ سُفْيَانَ وَأَبَا سُفْيَانَ هَذَا،
ابن خزیمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس میں سفیان یا ابی سفیان نا معلوم ہے
٠——
ایک اور طرق دیا ہے
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْحُسَيْنِ عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُكْرَمٍ الْبَزَّارُ، بِبَغْدَادَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، ثنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثنا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ سَلْمِ بْنِ أَبِي الذَّيَّالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ – أَوْ قَالَ أُمَّتِي – عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، وَاتَّبَعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» . قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ جَعْفَرٍ الْبَصْرِيُّ: هَكَذَا فِي كِتَابِ أَبِي الْحُسَيْنِ، عَنْ سَلْمِ بْنِ أَبِي الذَّيَّالِ. قَالَ الْحَاكِمُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَهَذَا لَوْ كَانَ مَحْفُوظًا مِنَ الرَّاوِي لَكَانَ مِنْ شَرْطِ الصَّحِيحِ
حاکم نے خود کہا اگر اس کا راوی محفوظ ہو تو یہ پھر صحیح کی شرط پر ہے
لیکن جب خود ان کو یقین نہیں تو ہم کیسے قبول کریں
——–
اس سب کے بعد حاکم نے لکھا
وَنَحْنُ إِذَا قُلْنَا هَذَا الْقَوْلَ نَسَبْنَا الرَّاوِيَ إِلَى الْجَهَالَةِ فَوَهَنَّا بِهِ الْحَدِيثَ، وَلَكِنَّا نَقُولُ: إِنَّ الْمُعْتَمِرَ بْنَ سُلَيْمَانَ أَحَدُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ
اگر ہم اس راوی کی نسبت مجھول کی طرف کریں تو ہم اس حدیث کو کمزور کریں گے لیکن ہم کہتے
ہیں کہ الْمُعْتَمِرَ بْنَ سُلَيْمَانَ ائمہ حدیث میں سے ہیں
—————-
راقم کہتا ہے عجیب قول ہے اس طرح تو کوئی مجہول کہا ہی نہیں جا سکے گا
===========================
ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ ابْنُ عَوْفٍ: وَقَرَأْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ يَعْنِي الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ أَجَارَكُمْ مِنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ: أَنْ لَا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا، وَأَنْ لَا يَظْهَرَ أَهْلُ الْبَاطِلِ عَلَى أَهْلِ الْحَقِّ، وَأَنْ لَا تَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ ”
سند میں ضمضم بن زرعة ہے جو شريح بن عبيد.سے روایت لے رہا ہے
اس کو ثقہ يحيى بن معين نے کہا ہے اور أبو حاتم نے ضعیف کہا ہے
السلام وعلیکم و رحمت الله
آجکل اہل حدیث روایت میں “سواد اعظم” کی اصطلاح کو صحیح تسلیم نہیں کرتے – شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ احناف اپنے آپ کو “سواد اعظم” میں شمار کرتے ہیں- کیا یہ بات صحیح ہے؟؟
ابن ماجہ کی حدیث :
حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا معان بن رفاعة السلامي ، حدثني ابو خلف الاعمى ، قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: “إن امتي لن تجتمع على ضلالة، فإذا رايتم اختلافا فعليكم بالسواد الاعظم”. (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر: 3950
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: “بے شک میری امت (مجموعی طور پر) کبھی پر جمع نہیں ہوگی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ “سواد اعظم” (کا ساتھ) اختیار کرو”
اس پر محدث فورم کے ممبر نے تحقیق پیش کی اور کہا ہے کہ
(ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا دون الجملة الأولى
شیخ البانیؒ فرماتے ہیں:
یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے ،البتہ اس کا پہلا جملہ “لا تجتمع امتی ” صحیح روایات سے ثابت ہے
مزید کہتے ہیں کہ:
زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہو گی
نیچے دی گئی ایک اور روایت پر موصوف کہتے ہیں کہ
” لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة ”
(المستدرک الحاکم ج1 ص116ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔
اس حدیث کی سند درج ذیل ہے : ’’ حدثنا ابوبکر محمد بن أحمد بن بالویة
حاکم اور ذہبی دونوں نے ابن بالویہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (المستدرک۲؍۲۴۰۔۲۴۱ح ۲۹۴۶)
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%DA%A9%DB%81-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D9%91%D8%AA-%DA%AF%D9%85%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D9%BE%DB%81-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82.38853/
جب کہ آپ (ابو شہریار صاحب) کہتے ہیں کہ مذکورہ روایت إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ کی وجہ سے ضعیف ہے
” الميموني کہتے ہیں میں نے أبو عبد الله (احمد) سے پوچھا: إبراهيم بن ميمون، “(کہا) نہیں جانتا ابن ابی حاتم کہتے ہیں ان کے باپ نے کہا لا يحتج به نا قابل احتجاج”؟؟
وعلیکم السلام
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا دون الجملة الأولى
البانی نے کہا
یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے ،البتہ اس کا پہلا جملہ “لا تجتمع امتی ” صحیح روایات سے ثابت ہے
البانی و غیرہم مثلا زبیر علی زئی نے مستدرک حاکم کا حوالہ دیا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ» . قَالَ الْحَاكِمُ: «فَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَدَنِيُّ هَذَا قَدْ عَدَّلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمَامُ أَهْلِ الْيَمَنِ وَتَعْدِيلُهُ حُجَّةٌ» . وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
——
میں نے جو قول نقل کیا ہے وہ اس کتاب میں ہے
موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله
جمع وترتيب: السيد أبو المعاطي النوري – أحمد عبد الرزاق عيد – محمود محمد خليل
دار النشر: عالم الكتب
الطبعة: الأولى، 1417 هـ / 1997 م
عدد الأجزاء: 4
إبراهيم بن ميمون.
قال الميموني: قال أبو عبد الله: إبراهيم بن ميمون، لا نعرفه. «سؤالاته» (392) .
———-
کتاب رجال الحاكم في المستدرك
المؤلف: مُقْبلُ بنُ هَادِي بنِ مُقْبِلِ بنِ قَائِدَةَ الهَمْدَاني الوادعِيُّ (المتوفى: 1422هـ)
الناشر: مكتبة صنعاء الأثرية
الطبعة: الثانية، 1425 هـ – 2004 م
عدد الأجزاء: 2
یہ کتاب مستدرک کے راویوں کے بارے میں ہے
اس میں اس راوی پر کوئی معلومات نہیں ہیں
——–
ہم جس إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ کی بات کر رہے ہیں حاکم کے بقول وہ قریشی ہے پھر عدن میں رہا
اسی نام کا ایک راوی ہے إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الصَّائِغُ یہ الگ ہے
سند میں حاکم نے لکھا ہے عبد الرزاق نے کہا
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ،
اس کو قریش یمن کہا جاتا تھا یہ عبادت گزار اور مجتہد تھے
اس کو امام الذھبی نے تعدیل سمجھا ہے لہذا تلخیص مستدرک میں لکھا
إبراهيم عدله عبد الرزاق ووثقه ابن معين
ابراہیم کی تعدیل کی عبد الرزاق نے اور ثقہ کہا ابن معین نے
مجھ کو یہ سمجھ نہیں آیا کیونکہ یہ تعدیل نہیں ہے خبر ہے کہ بندہ عبادت گزار تھا – حدیث کا حفظ و ضبط تعدیل ہوتا ہے کہ حدیث یاد رکھتا تھا کہ نہیں وغیرہ صرف عبادت میں لگا شخص حدیث کو صحیح بیان کرتا ہے علم حدیث میں معروف نہیں بلکہ اس کا الٹ حکم کیا جاتا ہے
امام عبد الرزاق کی مصنف اور تفسیر معلوم ہے – إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ سے ان کتب میں کوئی روایت نہیں ملی
تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے
سَمِعت يحيى يَقُول قد روى عبد الرَّزَّاق عَن رجل يُقَال لَهُ بشر بن رَافع لَيْسَ بِهِ بَأْس وروى عَن رجل يُقَال لَهُ إِبْرَاهِيم بن مَيْمُون وَهُوَ ثِقَة
میں نے ابن معین کو کہتے سنا کہ عبد الرزاق ایک رجل إِبْرَاهِيم بن مَيْمُون سے روایت کیا کرتے تھے وہ ثقہ ہے
اس سے ثابت ہوا کہ ابن معین نے اس راوی کی توثیق کی ہے – ابن معین نے ابراہیم سے ملاقات نہیں ہے- ابن معین کا یمن جانا معلوم نہیں ہے ان کا قول بھی عبد الرزاق کے بھروسے پر ہے کہ عبد الرزاق نے یمن میں اس ثقہ سے ملاقات کی ہے
عبد الرزاق کے الفاظ کہ فلاں عبادت گزار تھا میرے نزدیک تعدیل نہیں بنتی
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں إبراهيم بن ميمون الصنعاني پر یہ بھی لکھا ہے
وفي كتاب ” الجرح والتعديل ” لعبد الرحمن قال أبي: لا يحتج به.
كذا ألفيته في ” كتاب ” أبي إسحاق الصريفيني.
وفي كتاب ” الآجري “: سألت أبا داود عن إبراهيم بن ميمون – يعني العدني – فقال: لم أسمع أحدا روى عنه غير يحيى بن سليم. انتهى كلامه، وفيه نظر لما أسلفناه، ولقول ابن خلفون وذكره في كتاب ” الثقات ” وذكر يحيى وعبد الرزاق رويا عنه، قال: وروى عنه غيرهما
ابی حاتم : اس سے دلیل مت لینا
کتاب اجری میں ہے کہ ابو داود سے إبراهيم بن ميمون – يعني العدني پر سوال ہوا کہا اس سے صرف یحیی بن سلیم نے روایت کیا ہے … مغلطاي نے کہا اس قول پر نظر ہے … عبد الرزاق نے بھی اس سے روایت کیا ہے
لب لباب ہوا کہ احمد نے اس راوی پر کہا نہیں جانتا
ابو داود کے نزدیک اس سے صرف یحیی بن سلیم نے روایت کیا ہے یعنی مجہول قرار دیا
ابو حاتم نے کہا دلیل مت لینا
ابن معین نے ثقہ کہا
عبد الرزاق نے عبادت گزار کہا
اب اس روایت کو صحیح سمجھنے کا مدار عبد الرزاق پر ہوا جن کو امام بھی کہا جاتا ہے، شیعی بھی اور بقول عباس العنبري کے یہ كذاب تھے
میرے نزدیک عبد الرزاق کی منفرد روایت کو نہیں لینا چاہے اور ان کی منفرد روایات کو منکر بھی کہا گیا ہے
جزاک الله
آپ نے کہا
لب لباب ہوا کہ احمد نے اس راوی پر کہا- نہیں جانتا
—————————————————————————-
(یعنی إِبْرَاهِيم بن مَيْمُون کو نہیں جانتا)
کیا آئمہ متاخرین میں احمد بن حنبل کی جرح و تعدیل کو اہمیت حاصل ہے ؟؟ احمد بن حنبل خود عقائد کا معاملے میں کمزور تھے – کہیں پڑھا تھا کہ ان کے واقدی سے تعلقات تھے- اس بنا پر ان کے اندر رافضیت کے جراثیم پیدا ہو گئے -اس لئے ان کا کسی راوی کو مجھول کہنا کوئی اہمیت رکھتا ہے ؟؟
احمد بن حنبل کا شمار متقدمین میں ہے اور علم حدیث میں ان کی حیثیت امام کی ہے – ان کے اقوال کو حدیث کی تصحیح اور جرح و تعدیل میں درج کیا جاتا ہے
احمد کا شیعی ہونا یا واقدی کی کتب میں دلچسپی رکھنا یہ مضر رساں اس وقت تک نہیں جب تک روایت میں شیعیت کی ترویج نہ ہو
ایسی روایت جس میں شیعیت کی ترویج نہ ہو اس کو محض شبہ پر رد نہیں کیا جا سکتا
بات ہو رہی ہے راوی کے مجہول ہونے کی تو اس قول میں احمد صحیح ہیں کیونکہ اس کی خبر صرف عبد الرزاق سے ملی ہے جن کی ہر بات احمد کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے
جزاک الله
آپ نے کہا
ایسی روایت جس میں شیعیت کی ترویج نہ ہو اس کو محض شبہ پر رد نہیں کیا جا سکتا
———————————————————-
اگر اس اصول کو سامنے رکھا جائے تو پھر اس پر ڈاکٹر عثمانی کے مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ -عثمانی صاحب نے زازان عمر الکندی کو عود روح یا عذاب قبر کی روایت کے رد میں شیعہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے- اگر وہ واقعی شیعہ تھا- تو بھی عود روح کی روایت کا شیعیت کی ترویج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے- یعنی اس روایت کا اہل بیت کی فضیلت سے تو کوئی تعلق نہیں ہے -لہذا اس کو محض شبہ پر رد نہیں کیا جا سکتا
کیا کہیں گے آپ؟؟
یہ اصول کہ بدعتی کی روایت اس کی بدعت کے حق میں رد ہو گی یہ محدثین میں معروف اصول ہے
البتہ ہمارے مخالفین کے نزدیک عود روح شیعوں سے اہل سنت میں نہیں ایا ہے لہذا ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ابن حجر کا رد کرو کہ زاذان شیعہ نہیں ہے
عثمانی صاحب نے زاذان کو ابن حجر کی تحقیق پر شیعہ کہا ہے – میری تحقیق میں مجھ کو مسند احمد کی عود روح والی روایت کا متن تلمود میں ملا ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/08/اثبات-عذاب-قبر-A5.pdf
صفحہ ٢٠٣ پر
شیعیت سے بڑھ کر یعنی صرف فضائل اہل بیت کی صرف بات نہیں ہے عود روح والی روایت میں رجعت کا عقیدہ دیا گیا ہے
اس پر میں نے کافی مقام پر اس ویب سائٹ پر بات کی ہوئی ہے
مثلا
⇑ آپ کی رائے میں عقیدہ عود روح شیعوں نے گھڑا اس کی وجہ کیا تھی ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/
———-
عقیدہ رجعت کا تعلق مردوں کے زندہ ہونے سے ہی ہے جو یہود میں بھی موجود ہے
https://www.islamic-belief.net/یسعیاہ،-ابن-سبا،-الرجعة-اورعود-روح/
میں سمجھتا ہوں زاذان، ابن سبا کے نظریات سے متاثر تھا
ابو شہریار بھائی،، لا تجتمع امتی،، اس حوالے سے امام حاکم کی کتب میں اک یہ سند بھی ہے ۔اور اھل حدیث کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ یہ سند بالکل درست ہے جس کا ذکر محقق نے نہیں کیا اور کتمان کیا وہ سند یہ ہے
حدثنا ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ حدثنا محمد ابن المسیب حدثنا یعقوب بن ابراہیم حدثنا المعتمر ابن سلیمان حدثنی ابو سفیان المدینی عن عبداللہ ابن دینار عن ابن عمر
https://www.islamic-belief.net/storage/2018/06/بلا-عنوان.pdf
اس کتاب کے صفحہ ٩ پر اس سند کا ذکر ہے – محدث ابن خزیمہ کے بقول یہ ابو سفیان مجہول الحال ہے
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الدِّرْهَمِيُّ، ثنا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُفْيَانَ، أَوْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ هَكَذَا – وَرَفَعَ يَدَيْهِ – فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» . ” قَالَ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَسْتُ أَعْرِفُ سُفْيَانَ وَأَبَا سُفْيَانَ هَذَا،
————–
حاکم نے ہی ابن خزیمہ کا قول نقل کیا ہے کہ ابن خزیمہ نے کہا سفیان یا ابی سفیان نا معلوم ہے
امام حاکم نے سند دی
أَخْبَرْنَاهُ أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ سَهْلُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ الْوَاسِطِيُّ، مِنْ كِتَابِهِ، ثنا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، ثنا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبُو سُفْيَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدَنِيُّ: عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ هَكَذَا، فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ
اس سے معلوم ہوا کہ یہ ابو سفیان اصل میں سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدَنِيُّ تھا
جن کی امام الذھبی نے میزان میں تعریف یوں کی
—-
سليمان بن سفيان، [ت] أبو سفيان المدني. عن عبد الله بن دينار، وبلال بن يحيى.
قال ابن معين: ليس بشئ.
وقال – مرة: ليس بثقة.
وكذا قال النسائي.
وقال أبو حاتم والدارقطني: ضعيف.
—–
اور بخاری نے کہا
منكر الحديث
—————-
اور امام أبو زرعة الرازي نے فرمایا
وقال أبو زرعة الرازي: روى عن عبد الله بن دينار ثلاثة أحاديث كلها – يعني مناكير – وإذا روى المجهول المنكر عن المعروفين فهو كذا – (قال البرذعي: كلمة لم أتقنها عنه – يعني عن أبي زرعة
سليمان بن سفيان التيمي أبو سفيان المدني نے عبد اللہ بن دینار کی سند سے کل ملا کر تین روایات بیان کی ہیں یعنی منکر روایات
اور جب ایک مجہول منکر روایات کرتا ہے معروف راویوں سے تو ایسا ہی ہوتا ہے
—————-
امام حاکم نے لیپا پوتی کی
وَنَحْنُ إِذَا قُلْنَا هَذَا الْقَوْلَ نَسَبْنَا الرَّاوِيَ إِلَى الْجَهَالَةِ فَوَهَنَّا بِهِ الْحَدِيثَ، وَلَكِنَّا نَقُولُ: إِنَّ الْمُعْتَمِرَ بْنَ سُلَيْمَانَ أَحَدُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ بِأَسَانِيدَ يَصِحُّ بِمِثْلِهَا الْحَدِيثُ فَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَصْلٌ بِأَحَدِ هَذِهِ الْأَسَانِيدِ
جب کہا جاتا ہے کہ راوی مجہول ہے کہ اس سے حدیث ضعیف ہوتی ہے ، اس قول پر ہم کہتے ہیں کہ الْمُعْتَمِرَ بْنَ سُلَيْمَانَ ائمہ حدیث میں سے ہیں اور انہوں نے ہی اس کو روایت کیا ہے ان اسناد سے جس سے اسی طرح کی احادیث کو صحیح لیا گیا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہ ہو
راقم کہتا ہے یہ مفروضہ ہے کہ الْمُعْتَمِرَ بْنَ سُلَيْمَانَ نے اگر روایت کیا ہے تو ضرور اس کا اصل ہو گا یہ بالکل غیر ضروری کلام ہے اور اس پر جرح بھی ہے
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے
وقال يحيى بن سعيد: إذا حدثكم المعتمر بن سليمان بشيء فأعرضوه؛ فإنه سيئ الحفظ
يحيى بن سعيد نے کہا المعتمر بن سليمان تم سے کچھ روایت کرے تو پیش کرو کیونکہ یہ خراب حافظہ رکھتا تھا
میزان از الذھبی میں ہے
ابن معين: ليس بحجة
ابن معین نے کہا یہ حجت نہیں ہے
اب جب جرح موجود ہو تو اس کو چھپانا کتمان حق ہے – یہ فرقوں کے لوگ اس روایت کی بنیاد پر عقائد میں ہاتھی کے ہاتھی نگل جاتے ہیں اور راوی پر جرح یا اس کی جہالت کا ذکر ہی نہیں کرتے
جزاک اللہ خیرا
1) *سلیمان بن سفیان* کا نسب القرشی التیمی المدنی ہے اور انکی کنیت *ابو سفیان* ہے جبکہ اسم الشھرۃ *سلیمان بن سفیان القرشی* ہے اور یہ *المدنی* نسب کا سلیمان بن سفیان *آٹھویں* طبقے کا راوی ہے اور *آل طلحہ بن عبیداللہ* کا مولی ہے
اور یہ شخص *ضعیف الحدیث* ہے
امام ترمذی نے فرمایا ہے
*و سلیمان المدنی ھو عندی سلیمان بن سفیان وقد روی عنه ابو داؤد الطیالسی و ابو عامر العقدی*
میرے نزدیک سلیمان المدنی سلیمان بن سفیان ہے(نہ کہ ابو سفیان المدینی ہے) اور اس سے ابو داؤد الطیالسی اور ابو عامر العقدی نے روایت کی ہیں
امام ترمذی کی مذکورہ بالہ قول سے المدنی اور المدینی نسب کے ابو سفیان میں دفع اوھام ثابت ہوتی ہے
2) جبکہ *ابو سفیان المدینی* (نا کہ القرشی المدنی) اور آدمی ہے جسکا نسب *المدینی، المزنی، المقرنی* ہے، انکی کنیت بھی *ابو سفیان* ہی ہے اور یہ *تیسرے طبقے* کا راوی ہے
انکو امام ابن حبان نے بھی سلیمان بن سفیان ابو سفیان المدینی ہی کہا ہے(الثقات384/6)
انکو امام ابو حاتم بن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے
اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں ذکر کیا ہے
ان دونوں کے مقابلے میں ابوحاتم الرازی جو کہ متشددین میں سے ہے کا مجھول کہنا درست نہیں
صاحب تحریر کو مغالطہ یہ ہوا ہے کہ وہ آٹھویں طبقے کے راوی سلیمان بن سفیان المدنی القرشی کو تیسرے طبقے کے ابو سفیان المدینی سمجھ گئے ہیں یا باور کرگئے ہیں جو یقینا خطاء یا غلطی ہے
اسلئے جن جروح کو انہوں نے ابوسفیان المدینی پر پیش کی ہے وہ ساری کی ساری دراصل آٹھویں طبقے کے سلیمان بن سفیان المدنی القرشی پر ہیں
المزید:(1) الضعفاء والمتروکون میں سلیمان بن سفیان ابو سفیان المدنی کو المدینی کہنا خطاء ہے
(2)الجرح والتعدیل میں ہے کہ
*سئل عن یحی بن معین عن سلیمان بن سفیان الذی روی عنه ابو عامر العقدی* (الجرح والتعدیل119/4)
ان الفاظ میں *الذی روی عنه سلیلمان بن سفیان المدنی* کو سلیمان بن سفیان المدینی سے الگ کرتا ہے
(3)جہاں تک ابوبکر محمد بن اسحاق نے ابو سفیان کو مجھول کہا ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے فرمایا ہے
*لست اعرف سفیان و ابا سفیان ھذا*
میں اس سفیان(جو کہ سفیان الثوری ہے) یا ابو سفیان(جو سعید بن مسروق الثوری ہے) کو نہیں پہچان رہا
مطلب یہاں پر امام صاحب سفیان الثوری اور ابوسفیان سعید بن مسروق الثوری کے درمیان کنفیوجن کی بات کر رہے ہیں یعنی دو اشخاص کی بات کر رہے ہیں نہ کہ اکیلے شخص ابوسفیان المدینی کی بات کر رہے ہیں اور سفیان الثوری اور ابو سفیان مسروق الثوری دونوں ثقہ اور بخاری و مسلم کے راوی ہیں
اسلئے صاحب تحریر کو یہاں پر ایک بار پھر سے مغالطہ ہوا ہے اور وہ دو سفیان یعنی سفیان الثوری اور ابوسفیان مسروق الثوری کو ابوسفیان المدینی سمجھ گئے ہیں
(4)امام حاکم کی سند میں یہ الفاظ
*قال ابو سفیان سلیمان بن سفیان المدنی*
صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ابوسفیان اصل میں سلیمان بن سفیان المدنی تھا
مطلب صاحب تحریر اپنی سوچ میں یہاں پر ابوسفیان المدنی القرشی کو ابوسفیان المدینی باور کر رہے ہیں اور دلیل انکی یہ ہے کہ اس سند میں حاکم نے ابوسفیان المدنی کو ابوسفیان کنیت سے یاد کیا ہے حالانکہ المدنی کی کنیت بھی ابوسفیان ہے اور المدینی کی بھی کنیت ابو سفیان ہے اسلئے یہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ حاکم نے المدینی کو المدنی سمجھا بلکہ یہ صاحب تحریر کی ذہنی الجھن ہے
(5) *معتمر بن سلیمان التیمی* بخاری و مسلم کا راوی ہے اور یہ ثقہ و صدوق عند الجمہور ہے جس پر معمولی سا جرح جمہور کے مقابلے میں مردود ہے اور بخاری و مسلم کے ایسے راوی پر جرح صاحب تحریر کی حماقت ہیں
نیز معتمر بن سلیمان کی حدیثیں کم از کم حسن درجے کی ہوتی ہیں
اس اقتباس کا جواب راقم دیتا ہے
اعتراض
/////
جہاں تک ابوبکر محمد بن اسحاق نے ابو سفیان کو مجھول کہا ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے فرمایا ہے
*لست اعرف سفیان و ابا سفیان ھذا*
میں اس سفیان(جو کہ سفیان الثوری ہے) یا ابو سفیان(جو سعید بن مسروق الثوری ہے) کو نہیں پہچان رہا
مطلب یہاں پر امام صاحب سفیان الثوری اور ابوسفیان سعید بن مسروق الثوری کے درمیان کنفیوجن کی بات کر رہے ہیں یعنی دو اشخاص کی بات کر رہے ہیں نہ کہ اکیلے شخص ابوسفیان المدینی کی بات کر رہے ہیں اور سفیان الثوری اور ابو سفیان مسروق الثوری دونوں ثقہ اور بخاری و مسلم کے راوی ہیں
اسلئے صاحب تحریر کو یہاں پر ایک بار پھر سے مغالطہ ہوا ہے اور وہ دو سفیان یعنی سفیان الثوری اور ابوسفیان مسروق الثوری کو ابوسفیان المدینی سمجھ گئے ہیں
////
جواب
حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ ابن خزیمہ نے کہا میں ابو سفیان کو نہیں جانتا اور پھر حاکم نے لکھا
وَنَحْنُ إِذَا قُلْنَا هَذَا الْقَوْلَ نَسَبْنَا الرَّاوِيَ إِلَى الْجَهَالَةِ فَوَهَنَّا بِهِ الْحَدِيثَ
جب ہم (محدثین )یہ قول کہتے ہیں ہم راوی کو جھالت ( مجہول ہونے ) پر لا کر اس کی حدیث کو کمزور کرتے ہیں
اس سے معلوم ہوا کہ اس راوی کو مجہول ہی گردانا جا رہا تھا اور یہی ابن خزیمہ کے کہنے کا مقصد تھا جس کا ذکر حاکم نے کیا
مزید تفصیل نیچے آ رہی ہے
اعتراض
/////
1) *سلیمان بن سفیان* کا نسب القرشی التیمی المدنی ہے اور انکی کنیت *ابو سفیان* ہے جبکہ اسم الشھرۃ *سلیمان بن سفیان القرشی* ہے اور یہ *المدنی* نسب کا سلیمان بن سفیان *آٹھویں* طبقے کا راوی ہے اور *آل طلحہ بن عبیداللہ* کا مولی ہے
اور یہ شخص *ضعیف الحدیث* ہے
صاحب تحریر کو مغالطہ یہ ہوا ہے کہ وہ آٹھویں طبقے کے راوی سلیمان بن سفیان المدنی القرشی کو تیسرے طبقے کے ابو سفیان المدینی سمجھ گئے ہیں یا باور کرگئے ہیں جو یقینا خطاء یا غلطی ہے
اسلئے جن جروح کو انہوں نے ابوسفیان المدینی پر پیش کی ہے وہ ساری کی ساری دراصل آٹھویں طبقے کے سلیمان بن سفیان المدنی القرشی پر ہیں
////
جواب
یہ کہہ کر ثابت کیا جا رہا ہے کہ سلیمان بن سفیان المدنی اور سلیمان بن سفیان المدینی – دو الگ راوی ہیں
جبکہ امام حاکم نے سند میں دونوں طرح لکھا ہے
ایک بار اس کو المدنی لکھا ہے
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ الْبَزَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي – أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ
اور ایک بار المدینی لکھا ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْخُرَاسَانِيُّ، الْعَدْلُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ مِهْرَانَ، ثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ»
یعنی حاکم کے نزدیک یہ ایک ہی بندہ ہے اس کو کسی نے المدنی بولا ہے تو کسی نے المدینی بولا ہے
معتمر بن سليمان ( المتوفی 187 هـ) نے نام سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ لیا ہے اور عبد الملك بن عمرو القيسى ،
أبو عامر العقدى البصرى المتوفی ٢٠٤ ھ نے نام سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ بولا ہے
معتمر بن سليمان اور أبو عامر العقدى البصرى کی وفات میں ١٧ سال کا فرق ہے- کیا ایسا ناممکن کہ ان دونوں نے ایک ہی راوی سے سنا ہو ؟ بہت ممکن ہے اور ایسا ہم اپنی زندگی پر منطبق کر کے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے باپ نے اور ہم نے دادا سے سنا ہوتا ہے- بسا اوقات پہلے دادا کا اور پھر باپ کا انتقال ہو جاتا ہے- ہم اپنے دادا سے بھی روایت کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے باپ سے بھی جبکہ ممکن ہے دونوں کی وفات میں ٢٠ سال کا فرق آ چکا ہو – سادہ سی مثال دی ہے کہ طبقات، طبقات کر کے ایک راوی کو دو میں بدلنا ممکن نہیں ہے
اعتراض
/////
امام ترمذی نے فرمایا ہے
*و سلیمان المدنی ھو عندی سلیمان بن سفیان وقد روی عنه ابو داؤد الطیالسی و ابو عامر العقدی*
میرے نزدیک سلیمان المدنی سلیمان بن سفیان ہے(نہ کہ ابو سفیان المدینی ہے) اور اس سے ابو داؤد الطیالسی اور ابو عامر العقدی نے روایت کی ہیں
امام ترمذی کی مذکورہ بالہ قول سے المدنی اور المدینی نسب کے ابو سفیان میں دفع اوھام ثابت ہوتی ہے
/////
جواب
جو صاحب تحقیق نے سمجھا وہ غلط ہے – ترمذی نے کہیں بھی نہیں بولا کہ یہ دو الگ راوی ہیں جیسا کہ صاحب تحقیق نے ترمذی کے کلام سے اخذ کیا ہے – ترمذی نے صرف یہ کہا ہے کہ سلیمان میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہے جس سے ابو عامر العقدی نے روایت کیا ہے –
غور کرتے ہیں کہ امام حاکم نے سند دی ہے –
ایک بار اس کو المدنی لکھا ہے
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ الْبَزَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي – أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ
اور ایک بار المدینی لکھا ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْخُرَاسَانِيُّ، الْعَدْلُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ مِهْرَانَ، ثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ»
یہاں سند میں أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ ہے یعنی أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيّ نے جس سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ سے روایت لی وہ الْمَدِينِيُّ تھا – یہاں ترمذی کا کلام اور حاکم کی سند کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ہی راوی ہے – خود صاحب تحقیق کے نزدیک حدیث امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی میں راوی سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ ہے- اب اسی راوی کو مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ نے سند میں المدنی کہا ہے
مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ
معلوم ہوا کہ مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ اور نے ایک ہی راوی سلیمان سے روایت لی ہے جس کو مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ نے المدنی بولا ہے تو أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نے المدینی بولا ہے- دونوں أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ اور مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ہم عصر ہیں
اعتراض
/////
1) *سلیمان بن سفیان* کا نسب القرشی التیمی المدنی ہے اور انکی کنیت *ابو سفیان* ہے جبکہ اسم الشھرۃ *سلیمان بن سفیان القرشی* ہے اور یہ *المدنی* نسب کا سلیمان بن سفیان *آٹھویں* طبقے کا راوی ہے اور *آل طلحہ بن عبیداللہ* کا مولی ہے
اور یہ شخص *ضعیف الحدیث* ہے
امام ترمذی نے فرمایا ہے
*و سلیمان المدنی ھو عندی سلیمان بن سفیان وقد روی عنه ابو داؤد الطیالسی و ابو عامر العقدی*
میرے نزدیک سلیمان المدنی سلیمان بن سفیان ہے(نہ کہ ابو سفیان المدینی ہے) اور اس سے ابو داؤد الطیالسی اور ابو عامر العقدی نے روایت کی ہیں
امام ترمذی کی مذکورہ بالہ قول سے المدنی اور المدینی نسب کے ابو سفیان میں دفع اوھام ثابت ہوتی ہے
////
جواب
یعنی جن لوگوں نے جرح و تعدیل پر کتب لکھی ہیں ان میں ایک نہیں متعدد نے یہ غلطی کی ہے کہ راویوں کو ملا دیا ہے ؟ یہ سراسر جھانسہ ہے جو غور کرنے سے واضح ہے
امام الذھبی نے میزان میں اور ديوان الضعفاء میں سليمان بن سفيان المدني کو ضعیف قرار دیا ہے
الکامل از ابن عدی میں ترجمہ قائم کیا ہے سليمان بن سفيان مديني اور اس پر لکھا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنا مُوسَى بْنُ حَيَّانَ وَهَارُونُ بْنُ عَبد اللَّهِ، قَالا: حَدَّثَنا أَبُو عَامِرٍ عَبد الملك بن عَمْرو، حَدَّثَنا سليمان بن سفيان المديني، حَدَّثَنا بِلالُ بْنُ يَحْيى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيد اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَن جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلالَ قَالَ اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلامِ وَالإِسْلامِ ربي وربك الله.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ التُّوزِيُّ، قَال: حَدَّثَنا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنا أَبُو عامر، حَدَّثَنا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفيان، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عنِ ابْنِ عُمَر عَنْ عُمَر، قَال: لَمَّا نَزَلت هَذِهِ الآيَةُ: {فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وسعيد سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ عَلامَ نَعْمَلُ عَلَى شَيْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ أَوْ عَلَى شَيْءٍ يُفْرَغُ مِنْهُ قَالَ بَلْ عَلَى شَيْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ وَجَرَتْ بِهِ الأَقْلامُ يَا عُمَر وَلَكْنِ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ
یہاں ابن عدی نے ایک ہی راوی کے ترجمہ میں دو سندیں دی ہیں اور ایک میں سلیمان بن سفیان المديني، روایت کر رہا ہے بِلالُ بْنُ يَحْيى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيد اللَّهِ سے اور دوسری میں سُلَيْمَانُ بْنُ سُفيان روایت کر رہا ہے ، عبد اللہ بن دینار سے
امام ابن عدی کے نزدیک یہ راوی ایک ہی ہے
مزید لکھا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمد بْن علي، حَدَّثَنا عثمان بن سَعِيد سألت يَحْيى بْن مَعِين عن سليمان بْن سفيان بعرفة؟ فقال: لاَ أعرفه.
حدثناه بْن حَمَّاد، حَدَّثَنا العباس، عَن يَحْيى، قال: سليمان بْن سفيان مديني يروي عنه أبو عامر العقدي حديث الهلال وليس بثقة.
وقال النَّسائِيُّ، فيما أخبرني مُحَمد بْن الْعَبَّاس، عنه: قال سليمان بن سفيان ليس بثقة.
يَحْيى بْن مَعِين نے کہا میں کو نہیں جانتا
اور دیگر نے غیر ثقہ قرار دیا ہے
دارقطنی نے بھی اس راوی کو الگ الگ نہیں لیا ہے- موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله میں ہے
سليمان بن سفيان التيمي، أبو سفيان المدني، مولى آل طلحة بن عبيد الله ذكر الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (254) ، وقال عن عبد الله بن دينار، وبلال بن يحيى، سمع منه أبو عامر العقدي، ومعتمر بن سليمان.
یعنی سليمان بن سفيان التيمي، أبو سفيان المدني، مولى آل طلحة بن عبيد الله ہی ہے جو عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتا ہے اور اس سے معتمر بن سليمان
ترمذی نے العلل میں امام بخاری کا قول( روایت اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ) لکھا ہے
سألت محمدًا عن هذا الحديث، فقال: سليمان المدني هذا منكر الحديث
میں نے محمد بن اسمعیل (امام بخاری ) سے اس حدیث کا پوچھا فرمایا سلیمان المدنی ہے یہ منکر الحدیث ہے
اہل حدیث عالم مبارکپوری ترمذی کی شرح تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں اس حدیث پر لکھتے ہیں
قَوْلُهُ (وَسُلَيْمَانُ الْمَدِينِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ) قَالَ التِّرْمِذِيُّ فِي الْعِلَلِ الْمُفْرَدِ عَنِ الْبُخَارِيِّ إنَّهُ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ كَذَا فِي تَهْذِيبِ التَّهْذِيبِ
ترمذی کا قول ( سلیمان المدینی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہے ) ترمذی نے العلل میں بخاری سے روایت کہ ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے اور ایسا ہی تہذیب التہذیب میں ہے
یعنی جامع ترمذی کے شارحین کے نزدیک بھی ترمذی کا مقصد یہاں یہ نہیں ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے بلکہ انہوں نے صرف اس کی ولدیت کا ذکر کیا ہے اور العلل میں اس کی تضیف کا
اعتراض
/////
انکو امام ابن حبان نے بھی سلیمان بن سفیان ابو سفیان المدینی ہی کہا ہے(الثقات384/6)
انکو امام ابو حاتم بن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے
اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں ذکر کیا ہے
////
جواب
مصری محقق أبو عمرو نور الدين بن علي بن عبد الله السدعي الوصابي کا تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير «التقريب میں کہنا ہے کہ ترمذی کا راوی ضعیف اور منکر الحدیث ہے
سليمان بن سفيان التيمي مولاهم أبو سفيان المدني: ضعيف (ت).
“ضعيف ضعفه يحيى بن معين وأبو زرعة وأبو حاتم وآخرون، وقال البخاري: “منكر الحديث”، ولم أرَ فيه توثيقًا لأحد غير أن ابن حبان ذكره في “الثقات”، وقال: “يخطئ”، وإذا كان يخطئ وهو مقل فكيف يذكر في “الثقات”! ! فالمعتمد ما قال الجماعة
سليمان بن سفيان التيمي مولاهم أبو سفيان المدني کی توثیق کسی نے نہیں کی سوائے ابن حبان کے کہ اس کا ذکر الثقات میں کیا ہے اور ابن حبان نے کہا غلطی کرتا ہے اور اگر یہ غلطی کرتا ہے اور اس راوی پر کلام بھی ہے تو ثقات میں سے کیسے ہوا ؟ پس اعتماد اس پر ہے جو جماعت نے کہا
امام بخاری نے تو اس کو منکر الحدیث کہا ہے جس کا متعدد محدثین نے ذکر کیا ہے اس کا ذکر اوپر کر دیا ہے
اعتراض
/////
2) جبکہ *ابو سفیان المدینی* (نا کہ القرشی المدنی) اور آدمی ہے جسکا نسب *المدینی، المزنی، المقرنی* ہے، انکی کنیت بھی *ابو سفیان* ہی ہے اور یہ *تیسرے طبقے* کا راوی ہے
ان دونوں کے مقابلے میں ابوحاتم الرازی جو کہ متشددین میں سے ہے کا مجھول کہنا درست نہیں
///
جواب
ابن خزیمہ نے کہا اس راوی کو کہا نہیں جانتا
حاکم نے کہا اس کو ہم (محدثین) مجہول کہہ رہے ہیں لیکن معتمر کی وجہ سے روایت لے لی جائے
امام ابو حاکم رازی نے اس کو مجہول کہا
الکامل از ابن عدی میں امام ابن معین نے بھی مجہول کہا ہے
اس طرح متعدد محدثین نے اس کو مجہول ہی گردانا ہے
الجرح و التعدیل میں امام ابو حاتم کا قول ہے
بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله روى عن أبيه روى عنه سليمان بن سفيان المديني سمعت أبي يقول ذلك
بلال بن یحیی سے سلیمان بن سفیان المدینی نے روایت کیا ہے
اور مزید لکھا
سليمان بن سفيان أبو سفيان المديني روى عن عبد الله بن دينار وبلال بن يحيى بن طلحة روى عنه معتمر بن سليمان وأبو داود الطيالسي وأبو عامر العقدي [سمعت أبى يقول ذلك.
أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سئل يحيى بن معين عن سليمان بن سفيان الذي روى عنه أبو عامر العقدي – 1] فقال: ليس بشئ.
حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عن سليمان بن سفيان فقال: هو ضعيف الحديث، يروي عن الثقات أحاديث منكرة.
حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن أبي سفيان سليمان بن سفيان فقال: مديني منكر الحديث، روى عن
عبد الله بن دينار.
[ثلاثة – 2] أحاديث كلها – يعني مناكير وإذا روى (3) المجهول المنكر عن المعروفين فهو كذا – كلمة ذكرها
سلیمان بن سفیان ابو سفیان المدینی ہے جو عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتا ہے اور بلال بن یحیی سے اور اس سے معتمر بن سليمان وأبو داود الطيالسي وأبو عامر العقدي نے روایت کیا ہے ایسا میرے باپ ابو حاتم نے کہا
أبو بكر بن أبي خيثمة نے امام ابن معین کی طرف لکھا اور سوال کیا سلیمان بن سفیان پر جس سے ابو عامر روایت کرتا ہے تو کہا کوئی چیز نہیں ہے
ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے باپ سے سلیمان بن سفیان کا پوچھا فرمایا ضعیف الحدیث ہے جو ثقات سے منکرات نقل کرتا ہے
ابن ابی حاتم نے کہا میں نے امام ابو زرعہ سے سلیمان بن سفیان کا پوچھا کہا مدینی ہے منکر الحدیث ہے جو عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتا ہے تین احادیث جو تمام منکر ہیں اور جب ایک مجہول منکر راوی معروف راویوں سے روایت کرے تو ایسا ہی ہوتا ہے
یہاں ابو حاتم ، ابن معین، ابو زرعہ کا اجماع ہے کہ یہ راوی ابو سفیان سلیمان بن سفیان ہے ہو عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتا ہے سخت مجروح ہے
تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں الذھبی نے بھی اس کو ایک راوی لیا ہے
سليمان (1) بن سفيان التيمي، مولى آل طلحة، أبو
سفيان [المدني] (2).
عن: عبد الله دينار، وبلال بن يحيى بن طلحة.
وعنه: سليمان التيمي – وهو أكبر منه – ومعتمر بن سليمان، وأبو
عامر العقدي، وأبو داود الطيالسي.
قال ابن معين: ليس بشيء. وقال ابن المديني: روى أحاديث
منكرة. وقال أبو حاتم وغيره: ضعيف. وقال ابن معين في رواية عباس
الدوري وأبو بشر الدولابي: ليس بثقة. وأما ابن حبان فقال في كتاب
الثقات: كان يخطئ.
—-
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں مغلطاي نے بھی اس کو ایک راوی لیا ہے
سليمان بن سفيان القرشي التيمي مولاهم أبو سفيان المدني.
قال أبو زرعة الرازي: لين، وقال يعقوب بن شيبة في مسنده: له أحاديث مناكير وفي كتاب «ابن الجارود»: ليس بثقة، وخرج الحاكم حديثه في «مستدركه» وقال النسائي: ليس بثقة، وذكره أبو العرب في «جملة الضعفاء»، وقال الدارقطني: ضعيف.
اگر یہ راوی
سلیمان بن سفیان المدنی اور سلیمان بن سفیان المدینی الگ الگ تھے اور راویوں کو الگ کرنے والی کتب المؤتَلِف والمختَلِف وغیرہ میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے ؟ معلوم ہوا حق محدثین کے ساتھ ہے جو سلیمان بن سفیا ن المدنی اور سلیمان بن سفیان المدینی کو الگ نہیں کرتے –
اعتراض
/////
صاحب تحریر کو مغالطہ یہ ہوا ہے کہ وہ آٹھویں طبقے کے راوی سلیمان بن سفیان المدنی القرشی کو تیسرے طبقے کے ابو سفیان المدینی سمجھ گئے ہیں یا باور کرگئے ہیں جو یقینا خطاء یا غلطی ہے
اسلئے جن جروح کو انہوں نے ابوسفیان المدینی پر پیش کی ہے وہ ساری کی ساری دراصل آٹھویں طبقے کے سلیمان بن سفیان المدنی القرشی پر ہیں
صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ابوسفیان اصل میں سلیمان بن سفیان المدنی تھا
مطلب صاحب تحریر اپنی سوچ میں یہاں پر ابوسفیان المدنی القرشی کو ابوسفیان المدینی باور کر رہے ہیں اور دلیل انکی یہ ہے کہ اس سند میں حاکم نے ابوسفیان المدنی کو ابوسفیان کنیت سے یاد کیا ہے حالانکہ المدنی کی کنیت بھی ابوسفیان ہے اور المدینی کی بھی کنیت ابو سفیان ہے اسلئے یہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ حاکم نے المدینی کو المدنی سمجھا بلکہ یہ صاحب تحریر کی ذہنی الجھن ہے
////
جواب
یہ مغالطہ نہیں ہے – جیسا ذکر کیا محدثین جنہوں نے جرح و تعدیل کی کتب لکھی ہیں انہوں نے اس راوی کو الگ الگ نہیں کیا ہے –
اہل حدیث عالم مبارکپوری ترمذی کی شرح تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں اس حدیث پر لکھتے ہیں
وَلِلتِّرْمِذِيِّ وَالْحَاكِمِ عن بن عُمَرَ مَرْفُوعًا لَا تَجْتَمِعُ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى ضَلَالٍ أَبَدًا
وَفِيهِ سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدَنِيُّ وَهُوَ ضَعِيفٌ
اور ترمذی اور مستدرک حاکم میں ابن عمر سے مرفوعا روایت ہے کہ یہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کبھی بھی اور اس میں سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدَنِيُّ ہے جو ضعیف ہے
یہاں شارحین کے نزدیک بھی راوی ضعیف ہے جو سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدَنِيُّ ہے
صاحب تحقیق کا مسلسل پروپیگنڈا رہا ہے کہ ابوسفیان المدینی ثقہ ہے جبکہ موصوف کو اس کا نام معلوم ہے کہ یہ سليمان بن سفيان ہے اور اسی سليمان بن سفيان المديني پر امام ابن جنید نے امام ابن معین سے سوال کیا تو جواب دیا یہ کوئی چیز نہیں
سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں ہے
سمعت يحيى بن معين يقول: «سليمان بن سفيان المديني الذي روى عنه أبو عامر العقدي حديث طلحة عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في رؤية الهلال، ليس بشيء
امام عقیلی نے ذکر کیا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيّ ثقہ نہیں ہے
سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، مَدِينِيٌّ لَيْسَ بِثِقَةٍ
اعتراض
/////
معتمر بن سلیمان التیمی* بخاری و مسلم کا راوی ہے اور یہ ثقہ و صدوق عند الجمہور ہے جس پر معمولی سا جرح جمہور کے مقابلے میں مردود ہے اور بخاری و مسلم کے ایسے راوی پر جرح صاحب تحریر کی حماقت ہیں
////
جواب
یہ سطحی کلام ہے – بخاری و مسلم کے راوی کی ہر روایت درست ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے اور معتمر بن سلیمان نے اگر کسی مجہول سے روایت کیا ہو تو روایت صحیح متصور نہیں کی جا سکتی
ثقہ راوی بھی معلول روایت یا شاذ روایت نقل کر سکتا ہے
ابن حجر النکت میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں
قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة
میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو
مبارک پوری اہل حدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفہ الاحوذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ میں لکھتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى
اور الْهَيْثَمِيِّ کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علّت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے – الزَّيْلَعِيُّ کہتے ہیں… کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی
معلوم ہوا کہ صحیحین کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحین سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں
=============
مزید تفصیل یہاں ہے
https://www.islamic-belief.net/download/ضمیمہ-امت-گمراہی-پر-جمع-نہ-ہو-گی/
جزاک اللہ خیرا