صوفیاء کی جانب سے پر اسرار خواص میں سے ابدال کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی بدولت بارش ہوتی ہے زمیں کی گردش چلتی ہے اور ان کی تعداد ٣٠ یا ٤٠ بتائی جاتی ہے
فرقہ اہل حدیث کی جانب سے ابدال پر تمام روایات کو رد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں ابدال کا ذکر ہو موضوع ہے – ان کی اس ناقص تحقیق پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ محدثین قرن ثالث ابدال کا ذکر کرتے رہے ہیں یعنی امام ابو داود و امام بخاری و الدارمی و یزید بن ہارون و غیرھم – راقم کے نزدیک یہ محدثین کی غلطیوں میں شمار ہوتا ہے
مستدرک حاکم کی روایت ہے جس میں ابدال کی خبر ہے اور الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْهَا كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَسَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ سَيْبًا مِنَ السَّمَاءِ فَيُغْرِقُهُمْ حَتَّى لَوْ قَاتَلَتْهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عِنْدَ ذَلِكَ رَجُلًا مِنْ عِتْرَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَةَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ كَثُرُوا، أَمَارَتُهُمْ أَوْ عَلَامَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلَى ثَلَاثِ رَايَاتٍ يُقَاتِلُهُمْ أَهْلُ سَبْعِ رَايَاتٍ لَيْسَ مِنْ صَاحِبِ رَايَةٍ إِلَّا وَهُوَ يَطْمَعُ بِالْمُلْكِ، فَيَقْتَتِلُونَ وَيُهْزَمُونَ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْهَاشِمِيُّ فَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ إِلْفَتَهُمْ وَنِعْمَتَهُمْ، فَيَكُونُونَ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
8658 – صحيح
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ نے کہا انہوں نے علی سے سنا … اہل شام کوگالی مت دو ان میں ابدال ہیں
اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة میں أبو العباس البوصيري (المتوفى: 840هـ) لکھتے ہیں
عَنْ صَفْوَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ- أَوْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانٍ- قَالَ: ” قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ. فَقَالَ عَلِيٌّ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-: لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غفيرًا، فإن بها الأبدال- قالها ثَلَاثًا “.
رَوَاهُ إِسْحَاقُ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں – اس کو اسحاق نے روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں
فضائل صحابہ از امام احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ: عَلِيٌّ «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»
امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں
معمر بن أبي عمرو راشد (المتوفى: 153هـ) روایت کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»
امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں
مجمع البحرين في زوائد المعجمين از ہیثمی میں ہے
قال سعيد: سمعت قتادة يقول: لسنا نشك أن الحسن منهم
قتادہ بصری کا قول ہے جو سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا کہ ان کو اس میں شک نہیں کہ حسن بصری بھی ابدال میں سے ہیں
تہذیب الکمال از المزی میں ہے امام أبو زرعة الرازي بھی ابدال کا ذکر کرتے تھے
وقال أبو زرعة الرازي: محمد بن عبيد عندنا إمام، وعلي بن أبي بكر من الأبدال
أبو زرعة الرازي نے کہا محمد بن عبید ہمارے امام ہیں اور علی بن ابی بکر ابدال میں سے ہیں
ابن حبان صحیح میں باب قائم کیا
ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْءِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا لِمَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ الْإِبْدَالَ
آدمی کے لئے مستحب ہے کہ جب الله جَلَّ وَعَلَا سے سوال کرے تو اس پر ابدال سے دعا کرائے
أبو بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ) کتاب السنة میں ایک سند میں ابدال کا ذکر کرتے ہیں
حَدَّثَنَا ابْنُ الْبَزَّارِ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا زِيَادُ أَبُو عُمَرَ وَكَانَ يُقَالُ لَهُ إِنَّهُ مِنَ الأَبْدَالِ عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: قُلْتُ لحذيفة أين عثمان؟ قال: في الجنة ورب الكعبة قَالَ: قُلْتُ قَتَلَتُهُ قَالَ فِي النَّارِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سند میں زِيَادُ أَبُو عُمَرَ کو شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ نے ابدال میں سے قرار دیا ہے
أبو محمد عبد الله الدارمي (المتوفى: 255هـ) نے ایک راوی کو ابدال میں سے قرار دیا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَقِيلٍ، أَنَّهُ: سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرٌ فِي [ص:2157] الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأهاَ عِشْرِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا ثَلَاثَةُ قُصُورٍ فِي الْجَنَّةِ». فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَنْ لَنَكْثُرَنَّ قُصُورُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ» قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ»
امام دارمی نے ا أَبُو عُقَيْلٍ زَهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ کا سند میں ذکر کرتے ہوئے لکھا وَكَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ وہ ابدال میں سے تھے
أبو بكر ابن المقرئ (المتوفى: 381هـ) کتاب المعجم لابن المقرئ میں لکھتے ہیں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ الْأَكْرَمِ الْأَنْطَاكِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ أَنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى النَّوْسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْغَيْثَ قَالَ: «اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا»
اس سند میں أبو بكر ابن المقرئ نے اپنے شیخ کو ابدال میں سے قرار دیا ہے
إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني از أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري کے مطابق طبرانی کے شیخ أحمد بن محمد بن عبد الله بن الحسن بن حفص أبو الحسن الأصبهاني بھی ابدال میں سے تھے
قال أبو نعيم: أحد الأبدال والزهاد
ابو نعیم نے کہا یہ زہاد و ابدال میں سے ایک تھے
المقاصد الحسنة میں ابن حجر کے شاگرد محدث السخاوي (المتوفى: 902هـ) لکھتے ہیں
وقال يزيد بن هارون: الأبدال هم أهل العلم
يزيد بن هارون نے کہا ابدال سے مراد اہل علم ہیں
المقاصد الحسنة میں السخاوي (المتوفى: 902هـ) نے یہ بھی لکھا
وقول البخاري في غيره: كانوا لا يشكون أنه من الأبدال، وكذا وصف غيرهما من النقاد والحفاظ والأئمة غير واحد بأنهم من الأبدال
امام بخاری کا قول کہ اس میں شک نہیں یہ ابدال میں سے تھے اور اسی طرح نقاد محدثین و ائمہ کا تعریف کرنا تھا کہ یہ ابدال میں سے ہے
شوکانی (المتوفى: 1250هـ) کتاب الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة میں لکھتے ہیں کہ ابدال کے بارے میں حسن حدیث ہے اور یہ متواتر کے درجے پر ہیں
وله طرق عن أنس أخرجها الطبراني والخلال، وابن عساكر (3) وأبو نعيم والطبراني (4) . قال في اللآلىء: وقد ورد ذكر الأبدال من حديث على رضي الله عنه وسنده حسن (1) . ومن حديث [عبادة بن الصامت. وسنده حسن (2) ، ومن حديث عوف بن مالك رضي الله عنه. أخرجه الطبراني (1) .
ومن حديث معاذ رضي الله عنه. أخرجه أبو عبد الرحمن السلمي في كتاب سنن الصوفية (2) .
ومن حديث أبي الدرداء رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (3) .
ومن حديث أبي هريرة: أخرجه ابن حبان في الضعفاء. والخلال في كرامات الأولياء (4) .
ومن حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه. أخرجه ابن عساكر في تاريخه (5) .
ومن حديث حذيفة رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (6) .
وعن ابن عباس موقوفًا أخرجه أحمد في الزهد (1) قال الفتى في موضوعاته.
قلت: هو صحيح وإن شئت قلت: هو متواتر
میں شوکانی کہتا ہوں یہ صحیح ہیں اور چاہو تو کہو متواتر ہیں
عصر حاضر کے اہل حدیث کے لئے مثال ہے کہ ابدال سے متعلق محدثین نے ذکر کیا ہے اور روایات کو صحیح کہہ کر قبول بھی کیا ہے – احادیث کی صحیح کی کتاب میں باب بھی قائم کیا ہے تو پھر ان کو تامل کیوں ہے کہ ابدال سے متعلق احادیث صحیح نہیں – دوسری طرف عود روح سے متعلق منکر روایات کو یہی طبقہ ان اجزاء کی وجہ سے قبول کرتا ہے