محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري الشافعي المتوفی ٣١١ ہجری سن ٢٢٣ ہجری میں پیدا ہوئے – سترہ سال کی عمر کے پاس انہوں نے قتیبہ بن سعید سے قرآن سیکھنے کے لئے سفر کیا
کتاب طبقات الشافعية الكبرى از تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي (المتوفى: 771هـ) کے مطابق ابن خزیمہ سے بخاری و مسلم نے بھی روایت لی جو صحیحین سے باہر کی کتب میں ہیں لکھتے ہیں
روى عَنهُ خلق من الْكِبَار مِنْهُم البخارى وَمُسلم خَارج الصَّحِيح
ابن خزیمہ سے کبار مثلا بخاری و مسلم نے صحیح سے باہر روایت لی
امام بخاری کی وفات ٢٥٦ ہجری میں ہوئی اس وقت ٣٣ سال کے ابن خزیمہ تھے – صحیح بخاری امام بخاری کی آخری تصنیف ہے – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بخاری ان سے سنی گئی روایات اس میں ذکر کرتے اس کے برعکس دوسری طرف عجیب بات ہے صحیح ابن خزیمہ میں امام بخاری سے کوئی روایت نہیں لی گئی – معلوم ہوتا ہے یار دوستوں نے ان کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے
اس کی مثال ہے کہ ابن خزیمہ سے ایک قول منسوب ہے کہا جاتا ہے امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں
ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري
آسمان کی چھت کے نیچے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کا محمد بن اسماعیل البخاری سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس علم کی جھلک صحیح ابن خزیمہ میں ہوتی لیکن امام بخاری سے صحیح ابن خزیمہ میں ایک بھی روایت نہیں ہے
المليباري کتاب عُلوم الحديث في ضوء تطبيقات المحدثين النقاد میں لکھتے ہیں
ولا ابن خزيمة يروي عن البخاري ولا عن مسلم
أور ابن خزيمة نے نہ امام بخاری سے روایت لی نہ امام مسلم سے
بحر الحال ابن خزیمہ نے کتاب التوحید لکھی جس میں جنت و جہنم کا انکار کرنے والے جھمیوں کا رد کیا اور چلتے چلتے عذاب قبر کا بھی ذکر چھڑ گیا یہاں اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے دین الخا لص قسط دوم میں پیش کیا
اہل حدیث جو سلف کو اپنآ ہم عقائد بتاتے ہیں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عقیدہ کس حد تک ابن خزیمہ جیسا ہے
ابن خزیمہ کے بقول بغیر روح عذاب قبر نہیں ہوتا جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے عود روح صرف ایک دفعہ ہوتا ہے پھر روح کو جسد سے نکال لیا جاتا ہے
ابن خزیمہ کہتے ہیں قبر والا قبر میں زندہ ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے وہ میت ہے جو مردے کو کہتے ہیں
بحر الحال ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ ہے کہ روح جسم سے نکلنے کے بعد اب قیامت کے دن ہی آئی گی اور جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے گا عذاب کا مقام البرزخ ہے نہ کہ ارضی قبر
بھائی سمجھ سے بات باھر
ھے آخر اس فلسفے کی جڑیں
کہاں سے لیں گئی ہیں کس
بنیاد پر ھے یہ فلسفہ؟
____________
روح اس عالم طبعی کے چھے فٹ کے حیوانی جسم سے ایک دفعہ نکل جائے تو پھر قیامت تک اس جسم میں واپس نہیں لوٹ سکتی ۔۔ نیند کے وقت روح عارضی طور سے اس جسم کو چھوڑ کر عجب الذنب کے اندر موجود اپنے اصل منحنی جسم حقیقی تک محدود ہو جاتی ہے ۔۔ یہ کیفیت موت کی ہوتی ہے کیونکہ انسان ارادی و اختیاری حرکت کے قابل نہیں رہتا ۔۔ تاہم پکی موت کے وقت روح قیامت تک کیلئے چھے فٹ کا طبعی حیوانی جسم چھوڑ کر مردار لیکن محفوظ عجب الذنب میں موجود اپنے جسم حقیقی تک مقید و محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔۔ جنازے پر عجب الذنب میں موجود روح اور جسم حقیقی پر مشتمل وفات یافتہ شخص جو ارادی و اختیاری حرکت کا اختیار کھو کر میت کی کیفیت میں آ چکا ہوتا ہے ۔۔ پوچھتا ہے کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو ؟ محفوظ عجب الذنب کے اندر وفات یافتہ انسان پہلے صور تل موجود رہتا ہے ۔۔ پہلے صور تک انسان کی پہلی زندگی کا دورانیہ جاری رہے گا ۔۔ تاہم جب پہلا صور پھون دیا جائے گا تو روح عجب الذنب کے اندر اپنے اصل جسم کو بھی چھوڑ کر کسی بھی قسم کے جسم سے آزاد ہو جائے گی ۔۔ انسان کی پہلی زندگی کا دورانیہ ختم ہو جائے گا اور دوسری موت کا دورانیہ شروع ہو جائے گا ۔۔ دوسرے صور تک دوسری موتر کا دورانیہ چلے گا ۔۔ دوسرے صور پر ۔۔ و اذا القبور بعثرت ۔۔ ساری ارواح اپنے اپنے اصل جسموں کی طرف لوٹیں گی جنہیں وہ محفوظ و مردار عجب الذنب کے اندر چھوڑ کر چلی گئی تھیں ۔۔ اس طرح انسان کی دوسری زندگی کا دورانیہ شروع ہو جائے گا ۔۔
یہ مذھب متکلمین کے ایک گروہ کا ہےاس کی بنیاد دو احادیث ہیں
ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ نے بتایا کہ انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے صرف عجب الذنب رہ جاتی ہے اس پر اس کو دوبارہ بنایا جائے گا
دوم میت کھاٹ پر کلام کرتی ہے جلدی لے چلو یا ہائے بربادی
ان دوسے یہ نکالا گیا کہ روح مرنے پر عجب الذنب میں چلی جاتی ہے اسی کی وجہ سے میت بولتی سنتی ہے اور روح جسم میں اس ہڈی میں سمٹ جاتی ہے
افسوس ان لوگوں نے قرآن کو نہیں دیکھا کہ روح قبض کرنے پر فرشتے مقرر ہیں اور وہ چوکتے نہیں ہیں اور روح کا امساک یہ لوگ بھول گئے – حدیث طیر بھول گئے
جب عام آدمی کی روح کولہے کے پاس ہڈی میں جا رہی ہے تو کیا انبیاء کی بھی وہی سمٹتی ہے ؟ اس پر قیاس کیا گیا کہ انبیاء کی ان کی قلب میں سمٹتی ہے
اسی کو کتاب آب حیات میں دیوبندی عالم قاسم صاحب نانوتوی صاحب نے لکھا ہے
روح اقدس جسد مطہر سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی
———–
تفصیل یہاں ہے
⇑ کیا مرنے کے بعد روح کا جسد عنصری سے تعلق قائم ہو جاتا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/
اسلام علیکم
بھائی قرآن میں جو بیان ھوا ھے کہ اللہ تعالی ھم سب انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد ھم سے احد لیا کہ “کیا میں تمہارا رب نہیں”ھم نے کہاں ” کیو نہیں تم ہی ہمارے رب ہو” یہ ہمارا بات کرنا کیا یہ ثابت کرتا ھے کہ اس وقت ہمارا جسم بھی تھا؟ اللہ کے اس فرمان کے مطابق کوئی حدیث بھی ھے کیا.؟جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ بلکل چونٹیوں کی ماند منحنی جسم جس کا تعلق عجب الذنب سے ھوجا ھے یا وہ جسم عجب الذنب میں ڈال دیا جاتا ھے جب انسان مر جاتا ھے تو وہ عجب الذنب والا جسم چار پائی پر بولتا ھے مجھے جلدی لے چلو … ھائے بربادی…جب دفن کر کے لوٹتے ہیں تو وہی جسم جو عجب الذنب میں موجود ھے وہ سنتا ھے.
کیا اس جسم کو طین و تراب والا جسم بھی کہا گیا ھے؟
اگر اللہ تعالی کے اس فرمان مطابق کوئی حدیث ھے جس میں بیان ھوا ہو کہ وہ جسم بلکل چونٹیو کے ماند منحنی جسم ….تو اس حدیث کی سند کیسی ھے مکمل وضاحت چاھیئے.
میثاق ازل کی آیت ہے
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ * أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ) الأعراف/ 172،
اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کو ان کی پشتوں ( پیٹھوں) سے لیا اور ان کو ان کے آپ پر گواہ کیا – (پوچھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ بولے بلا شبہ ہم گواہ ہیں (یہ اس لئے کیا ) کہ تم روز محشر یہ نہ کہو کہ ہم تو غافل تھے یا کہو ہم سے قبل آباواجداد نے شرک کیا ہم ان کی اولاد تھے تو اپ کیا اس پر جو خطا کاروں نے کیا ہم کو ہلاک کر دیں گے
اس میں عہد الست کا ذکر ہے اس میں تمام بنی آدم سے الله تعالی نے سوال کیا یہ خبر متشابھات میں سے ہے اس پر ایمان ہے لیکن اس پر قیاس کرنا کہ یہ روح سے ہوا ظن ہے –
قرن سوم میں معتزلہ نے ایک بحث چھیڑی کہ روح کیا ہے ؟ عرض (یعنی ٹھوس) ہے یا جوہر (یعنی گیس) ہے
آہستہ آہستہ اہل سنت کے بعض متکلمین کہنے لگے کہ روح ایک ٹھوس جسم جیسی ہے یعنی عرض ہے
اس رائے کو بعض متکلمین نے پیش کیا جبکہ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں – اس کے بعد اس بحث کو ان علماء نے بیان کیا جو عذاب قبر میں جسم اور روح پر الگ الگ عذاب کے قائل تھے اور برزخی جسم کے انکاری تھے – یہ تھیوری بہت پھیلی اور علماء نے اس کو پسند کیا- راقم کہتا ہے یہ علماء خطاء کا شکار ہوئے کیونکہ اس کی دلیل نہیں ہے
دلیل میں میثاق ازل کی مثال دی گئی کہ الله تعالی نے مخلوق کو چیونٹویوں کی مانند پھیلایا اور پھر میثاق لیا اس کی دلیل مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ – وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْهُ – قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” خَلَقَ اللهُ آدَمَ حِينَ خَلَقَهُ، فَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُمْنَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً بَيْضَاءَ، كَأَنَّهُمُ الذَّرُّ، وَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُسْرَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً سَوْدَاءَ كَأَنَّهُمُ الْحُمَمُ، فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَمِينِهِ: إِلَى الْجَنَّةِ، وَلَا أُبَالِي وَقَالَ: لِلَّذِي فِي كَفِّهِ (2) الْيُسْرَى: إِلَى النَّارِ وَلَا أُبَالِي ”
جبکہ شعيب الأرنؤوط اس کو ضعیف کہتے ہیں
شعیب نے تحقیق میں کہا
أبو الربيع -وهو سليمان بن عتبة- مختلف فيه، وقد تفرَّد به، وهو ممن لا يُحتمل تفرَّده
اس میں
أبو الربيع سليمان بن عتبة ہے جس کا تفرد اس قابل نہیں کہ قبول ہو
مسند احمد کی ابن عباس سے مروی حدیث ہے
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ – يَعْنِي عَرَفَةَ – فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قِبَلًا ” قَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ} [الأعراف: 173] (1)
لیکن یہ بھی ضعیف ہے اس کی سند میں كلثوم بن جبر ہے جس کو احمد اور ابن معین نے ثقہ کہا ہے لیکن نسائی نے لیس بالقوی قرار دیا ہے
نسائی کا کہنا ہے
النسائي: ليس بالمحفوظ
یہ سند محفوظ نہیں
لیکن اسی سند پر تکیہ کر کے ابن کثیر نے اس کو تفسیر میں لکھا ہے جس کی بنا پر یہ روایت فرقوں میں چل رہی ہے
————————————————————
تفسیر طبری میں بھی اس کی اسناد میں کلثوم ہے
حدثني أحمد بن محمد الطوسي قال: حدثنا الحسين بن محمد قال: حدثنا جرير بن حازم، عن كلثوم بن جبر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “أخذ الله الميثاق من ظهر آدم بنَعْمَان =يعني عرفة= فأخرج من صلبه كل ذرّية ذرأها، فنثرهم بين يديه كالذرِّ، ثم كلمهم قَبَلا (2) فقال: “ألست بربكم قالوا بلى شهدنا أن تقولوا … ” الآية، إلى (ما فعل المبطلون) ،
—
حدثنا عمران بن موسى قال: حدثنا عبد الوارث قال: حدثنا كلثوم بن جبر قال: سألت سعيد بن جبير عن قوله: (وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم) قال: سألت عنها ابن عباس، فقال: مسح ربُّك ظهر آدم، فخرجت كل نسمة هو خالقها إلى يوم القيامة بنَعْمَان هذه =وأشار بيده= فأخذ مواثيقهم، وأشهدهم على أنفسهم (ألست بربكم قالوا بلى)
—
حدثنا ابن وكيع ويعقوب قالا حدثنا ابن علية قال: حدثنا كلثوم بن جبر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله: (وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريَّتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا) قال: مسح ربُّك ظهر آدم، فخرجت كل نسمة هو خالقها إلى يوم القيامة بنَعْمَان هذا الذي وراء عَرَفة، وأخذ ميثاقهم (ألست بربكم قالوا بلى شهدنا) ، اللفظ لحديث يعقوب
ان سب کی سند میں کلثوم بن جبر ہے اور ایک میں ہے کہ ہر نسمہ کو نکالا یعنی ہر روح کو نکالا
———-
ان سب کی اسناد میں کلثوم بن جبر ہے
اس روایت کے الفاظ ہیں كَأَنَّهُمُ الذَّرُّ یعنی مخلوق انسانی کو نکالا جیسے کہ وہ چیونٹیاں ہوں
اس میں شباہت کا ذکر ہے واقعی چیونٹی قرار نہیں دیا گیا یعنی انسانوں کی روحیں اس طرح لگ رہی تھیں جیسے چیونٹیاں ہوں
یہ منظر کشی ہے نہ کہ حقیقت
پھر مزید یہ کہ میثاق ازل کی کیفیت پر راقم کے علم میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے
=======================
اس قسم کی روایات پر دلیل نہیں لی جا سکتی
اول اس میں روح کا ذکر ہے جسم کا نہیں
دوم اس میں چونٹیوں کے ہجوم کی طرح مماثلت کا ذکر ہے
ﻓَﻠَﻮْﻻَٓ ﺇِﺫَا ﺑَﻠَﻐَﺖِ ٱﻟْﺤُﻠْﻘُﻮﻡَ
تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے (56:83)
ﻭَﺃَﻧﺘُﻢْ ﺣِﻴﻨَﺌِﺬٍ ﺗَﻨﻈُﺮُﻭﻥَ
اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، (56:84)
ﻭَﻧَﺤْﻦُ ﺃَﻗْﺮَﺏُ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ﻣِﻨﻜُﻢْ ﻭَﻟَٰﻜِﻦ ﻻَّ ﺗُﺒْﺼِﺮُﻭﻥَ
اُس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے (56:85)
بھائی اللہ تعالی کے اس فرمان سے غلط معنی
نکالی جا رھی ھے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ
اس وقت مرنے والے کے قریب ھوتا ھے فرشتے
بھی ھوتے ہیں جب جان نکالی جا رہی ھوتی
تو روح کو نکال کر کہیں دور آسمان پر
لیجانا ذہن عثمانی کی بات ھے
اور بھائی
آپ کو واضح کر دوں کے میری ان
کے ساتھ بحث چل رھی ھے جو یہ عقیدہ
رکھتے ہیں کہ روح عجب الذنب میں سمٹ
جاتی ھے
ان کا یہ بھی کہنا ھے کہ اللہ ھر جگھ موجود ھے
اب مجھے دو سوالوں کے جواب قرآن و حدیث چاھئے کہ اللہ ھر جگھ موجود نہیں
اور فرشتو کا روح نکال کر آسمان کی طرف لیجانہ
شکریہ.
السلام علیکم
یہ دیو بندی ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ ان کا رب اس کائنات میں سمایا ہوا ہے لہذا یہ وحدت الوجود کے قائل ہیں اور وہ آیات جن میں اللہ کا مخلوق کے قریب ہونے کا ذکر ہو اس سے ان لوگوں کے نزدیک ثبات ہوتا ہے کہ رب تعالی یہیں دنیا میں بھی ہے
اس کی اصل جھم بن صفوان کے عقائد ہیں
یہ دقیق مسائل ہیں اس پر کتاب دیکھیں
https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/
اللہ تعالی نے فرمایا
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم شہ رگ سے بھی قریب ہیں
و هو معکم اینما کنتم
وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو
یہ قرآن میں ادبی انداز ہے کہ الله تعالی مخلوق کے ساتھ ہے ان کی مدد کرتا ہے ان کے قریب ہے
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ
هم قریب ہوتے ہیں مگر نظر نہیں اتے
یعنی اللہ کے فرشتے قریب ہوتے ہیں
الله تعالی کا عرش پر ہونا معلوم ہے – دیو بندی عرش کے اصلا منکر ہیں ان کے نزدیک عرش کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے
پہلے آپ اس کتاب کو دیکھیں پھر ان سے بات کیجیے
———–
السلام علیکم
بھائی عذاب قبر والے مثلے کو متشابہات
قرار دیا جا رہا ھے
______________
محترم اگر عہد الست کی کیفیت اور تفصیل متشابہات میں سے ہے تو عذاب قبر کی کیفیت اور تفصیل بھی متشابہات میں سے ہے ….
ان سے سوال کریں متشابھات کیا ہیں ؟
یہ تو قرآن کی وہ آیات ہیں جن پر ایمان لایا جاتا ہے سوال نہیں کیا جاتا اس میں میثاق ازل شامل ہے
عذاب قبر تو ایمانیات میں سے ہے اس کا تعلق آخرت سے ہے اس کے بعض اجزاء غیر واضح ہو سکتے ہیں مثلا برزخی جسم کی ساخت وغیرہ
لیکن یہ عذاب ہو رہا ہے
بحث اس نکتے پر ہو رہی ہے کہ کہاں ہو رہا ہے
عالم ارضی میں یا عالم بالا میں
عالم ارضی میں ہے تو اس کا مطلب پوری زمین جہنم میں بدل گئی ہے ہر مقام پر مشرک، یہودی ، نصرانی دفن ہیں یہاں تک کہ مکہ میں مدنیہ میں بھی
تو زمین کے اندر صرف جہنم ہی رہ جاتی ہے جو ظاہر ہے قرآن سے ثابت نہیں ہے
حدیث میں جہنم کی وسعت کا ذکر ہے جو زمین سے بہت زیادہ ہے تو ظاہر ہے یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ زمین میں جہنم نہیں ہے
————-
جہاں یہ بحث چل رہی ہے اس کا لنک دیں تاکہ ان کے دلائل کو جمع کیا جا سکے- آجکل ہر کوئی نیا آئیڈیا لے اتا ہے پھر بحث کرنے لگتا ہے – دفاع ان کا ہو رہا ہو تا ہے جو پرانے علماء تھے لیکن عقائد وہ ہو رہے ہیں جو ان علماء کے بھی نہیں تھے
مثلا ابن تیمیہ کا دفاع کرتے کرتے اہل حدیث مردے کا سننا استثنائی مان رہے ہیں اور عذاب بے روح لاش پر اب کہہ رہے ہیں
جبکہ یہ عقیدہ نہ ابن تیمیہ کا ہے نہ ابن قیم کا
یہی حال دیوبند کا ہے
اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے صحیح قرار دیا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ، بِمِصْرَ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، ثنا أَبِي، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” أَخَذَ اللَّهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ ذُرِّيَّةً ذَرَاهَا فَنَثَرَهُمْ نَثْرًا بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ، فَقَالَ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى، شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ، أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ، وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ، أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ «.» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدِ احْتَجَّ مُسْلِمٌ بِكُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ ”
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُكْرَمٍ، بِبَغْدَادَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّائِغُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، ثنا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللَّهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي بِعَرَفَةَ، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قُبُلًا وَقَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ} [الأعراف: 172] إِلَى قَوْلِهِ {بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ} [الأعراف: 173] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4000 – صحيح
ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) نے الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما میں لکھا ہے کہ نسائی نے کہا ہے یہ حدیث محفوظ نہیں ہے
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِيمِ صَاعِقَةً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَقَالَ كُلْثُومٌ هَذَا لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَحَدِيثُهُ لَيْسَ بِالْمَحْفُوظِ
یہ بات نسائی نے سنن الکبری میں لکھی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي عَرَفَةَ، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ فَتَلَا قَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكَمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ} [الأعراف: 172] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَكُلْثُومٌ هَذَا لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَحَدِيثُهُ لَيْسَ بِالْمَحْفُوظِ
————————————
اس میں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم کو اپنے ہاتھ پر پھیلایا جیسے چیونٹیاں ہوں
اس میں بنی آدم کو چیونٹی نہیں کہا گیا مشابہت دی گئی ہے
عربی میں لفظ کے ساتھ ک لگ جائے تو وہ مماثلت ہوتی ہے مثلا قرآن میں ہے
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
يه چوپایوں کو طرح ہیں
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کافر حقیقی چوپائے بن گئے ہیں
اسی طرح اس حدیث میں کلذر کا لفظ ہے یعنی چیونٹیاں کی طرح پھیلایا
———–
قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر ان کی نسل کو نطفے سے چلایا
———–
کمنٹس میں اگر کوئی نئی دلیل ہو تو مجھے بتا دیں
جزاک اللہ بھائی
اللہ آپ کے علم میں اور بھی
_زیادہ اضافہ کرے آمین
السلام عليكم :
مدرسہ دیوبند کے بانی قاسم نانوتوی نے اپنی آب حیات نامی کتاب میں نبی صلی الله عليه وسلم کی روح مبارک کا موت کے وقت جسم سے اخراج کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی الله عليه وسلم کی روح مبارک جسم اطہر سے نکلی ہی نہیں بلکہ دل میں سمٹ کر رہ گئی تھی،
دور حاضر کے مسلک دیوبند کے جدید عالم اپنے قدیم عالم کی یہ بات اپنے عقیدے حیات النبیؐ کی تائید و اثبات میں دیگر دلائل کے ساتھ لاتے ہیں،
ذیل میں ان کی ویب سائٹ پر جاری ایک طویل مضمول کا لنک لگا رہا ہوں اسے پڑھیں اور اس پر قرآن وسنت کی روشنی میں تبصرہ فرمائیں،
شکریہ
[عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم] is good,have a look at it!
http://library.ahnafmedia.com/214-books/khutbate-mutakallime-islam-03/1890-aqeeda-hyaatun-nabi-sallaho-hle-wslm
و علیکم السلام
——–
اس مضمون میں مقرر نے اپنے اشکالات کو یکجہ کر کے تقریر کر دی ہے جس میں غیر ثابت روایات سے بارہا دلیل لی گئی ہے
اور بعض صحیح روایات کی غلط تاویل کی گئی ہے
ابو بکر رضی الله عنہ کو علم میں قاسم نانوتوی سے بھی کم قرار دے دیا گیا ہے
اس میں جو بڑے بڑے اشکال ہیں ان کی خبر لی جاتی ہے
——–
اشکال
میں ہر ایک جزو پر حدیث پڑھنے لگا ہوں۔
جسد پیغمبر کا محفوظ ہونا
میرے پیغمبر کا جسد محفوظ ہے
إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء
سنن ابن ماجہ ص76
اللہ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ نبی کے بدن کو کھائے۔
جواب
امام ابن ابی حاتم نے کتاب العلل الحدیث ج ١ ص ١٩٧ میں لکھتے ہیں
وأمّا حُسينٌ الجُعفِيُّ : فإِنّهُ روى عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي يومِ الجُمُعةِ ، أنّهُ قال : أفضلُ الأيّامِ : يومُ الجُمُعةِ ، فِيهِ الصّعقةُ ، وفِيهِ النّفخةُ وفِيهِ كذا وهُو حدِيثٌ مُنكرٌ ، لا أعلمُ أحدًا رواهُ غير حُسينٍ الجُعفِيِّ وأمّا عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ فهُو ضعِيفُ الحدِيثِ ، وعبدُ الرّحمن بنُ يزِيد بنِ جابِرٍ ثِقةٌ.
اور جہاں تک حُسينٌ الجُعفِيُّ کا تعلق ہے پس یہی وہ راوی ہے جس نے عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم (کس سند سے) جُمُعةِ کے دن پر روایت کی ہے کہ اس دن الصّعقةُ اور النّفخةُ ہو گا جو ایک حدیث منکر ہے اور میں نہیں جانتا کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس حُسينٌ الجُعفِيُّ کے اور جہاں تک عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ کا تعلق ہے تو وہ ضعیف الحدیث ہے اور عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ جابر ثقہ ہے
—————–
اشکال
حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر
نبی قبر میں نماز پڑھتے ہیں
الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون
مسند ابی یعلیٰ ص658
جواب
اس میں راوی حجاج ہے جو مجہول ہے اور اس سے ایک جوگی مستلم بن سعید روایت کرتا ہے
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي (المتوفى: 762هـ) کے مطابق
وعن يزيد بن هارون ذكروا أنه لم يضع جنبه منذ أربعين عاما، فظننت أنه يعني بالليل، فقيل لي: ولا بالنهار. وعن أصبغ بن يزيد قال: قال لي مستلم: لي اليوم سبعون يوما لم أشرب ماء
یزید بن ہارون سے روایت ہے کہ مستلم نے چالیس سال تک پہلو نہیں لگایا پس گمان کیا کہ رات میں لیکن مجھ سے کہا گیا دن میں بھی اور اصبع سے روایت ہے کہ مجھ سے مستلم نے کہا ستر دن سے پانی نہیں پیا
اب اپ فیصلہ کریں جو بدعتی شخص ستر دن پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت ایسی ہو گی کہ اس کی بیان کردہ منفرد روایت پر عقیدہ رکھا جائے؟
تہذیب الکمال میں ہے
وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.
اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا
دوسرا راوی حجاج مجہول الحال ہے -اس سے صرف مستلم نے روایت کیا ہے کسی اور نے نہیں
بعض نے اس کو
حجاج الصواف کہا ہے بعض نے حجاج الاسود بعض حجاج بن الاسود بعض نے حجاج بن یزید
لیکن صحیح بات ہے کہ ان ناموں سے کسی بھی سند میں یہ نہیں ہے
اور یہ حجاج بصری ہیں جبکہ مستلم بصری نہیں ہے دوسرے شہر کا ہے
————-
اشکال
مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے احسن الفتاویٰ میں بھی لکھا ہے کہ روح کا اعادہ ہوتا ہے۔
اعادہ روح کی تو پوری امت قائل ہے۔اور اللہ کے نبی نے فرمایا
وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ
اتحاف الخیرۃ المھرہ ج 2ص 437
تفسیر مدارک میں موجود ہے،یہ تو بغوی میں موجود ہے کہ روح کا اعادہ ہوتا ہے ہم روح کے اعادہ کے قائل ہیں۔ اعادہ ہوتا ہے۔
تفسیر بغوی جلد4 ص351
جواب
روح کا جسم میں واپس آنا یہ زاذان لی روایت ہے جو شیعہ ہے اور ابن حزم نے الذھبی نے ابن حبان اس روایت کو رد کیا ہے
تفصیل کتاب
اثبات عذاب القبر میں ہے جو اس ویب سائٹ پر ہے
————–
اشکال
آدم سے لے کر عیسیٰ علیہم السلام تک کی مٹی یہ جنت والی ہے۔خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی مٹی یہ جنت الفردوس والی ہے۔
۔ لیکن جنت کی مٹی میں اصل حیات ہے۔فرمایا میرا نبی تو اس مٹی سے نہیں بنا نبی تو جنت والی مٹی سے بنا ہے
جواب
اس پر کوئی دلیل نہیں ہے
———
اشکال
عام آدمی قبر میں زندہ جیسے سونے والا زندہ ہے فرشتے نے کہا نم کنومۃ العروس آج پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا یہ بھی زندہ ہے میرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ ہے،لیکن دونوں میں فرق ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث موجود ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد پڑھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور وضو نہیں کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر بغیر وضو کیے پڑھے ام المومنین حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا حضور آپ تہجد پڑھ کے سو گئے پھر اٹھے اور آپ نے وتر پڑھے آپ نے وضو تو نہیں کیا۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں مسئلہ یہ تھا کہ نبی بھی سو کر اٹھے تو وضو کرنا چاہیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
صحیح بخاری باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ
عائشہ نبی کی آنکھ سوتی ہے نبی کا دل نہیں سوتا۔اس لیے نبی کو وضو کی ضرورت نہیں ہے۔ تو معلوم ہوا کہ نبی کی نیند الگ ہے اور امتی کی نیند الگ ہے۔ نبی سو جائے تو آنکھ سوتی ہے امتی سو جائے تو دل بھی سوتا ہے۔ نیند دونوں پر آتی ہے۔
جواب
یہ تو انبیاء کی نشانی ہے کہ زندگی میں ان کا دل سونے کی حالت میں بھی الله کے کنٹرول میں ہوتا ہے
اس میں ان پر شیطان کا القا نہیں ہو سکتا
اس لئے اس بات کو بیان کیا گیا ہے
لیکن خود نبی نے اور قرآن نے انبیاء پر لفظ موت کا اطلاق کیا ہے
آنکھ کا سونا یعنی دماغ پر سونے کی کیفیت کا ظہور ہونا ہے
اور قلب کا جاگنا اس کا کسی بھی شیطانی القا سے دور رہنا ہے
یہی وجہ ہے کہ مومن کو برا خواب اتا ہے انبیاء کو نہیں اتا
———
اشکال
حدیث مبارک بھی تو نے سنی ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا
أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه
ترمذی ج2ص209 باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ
اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر حق جاری کیا ہے۔ عمر بولتا ہے تو ٹھیک بولتا ہے، عمر سوچتا ہے تو ٹھیک سوچتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غلط تو نہیں فرماتے حضرت عمر نے یہ کیسے کہہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میت نہ کہنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔
جواب
عمر رضی الله عنہ اگر صحیح تھے ان کی بات کے پیچھے یہ فلسفہ تھا تو ابو بکر کی تقریر پر چپ نہ رہتے اور تمام اصحاب رسول کا وفات النبی پر اجماع بھی نہ ہونے پاتا
ابو بکر رضی الله عنہ نے صحیح کہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور عمر رضی اللہ عنہ کا رد کیا کہ اب رسول پر دو موتیں جمع نہ ہوں گی جیسا تم کہہ رہے ہو کہ وہ زندہ ہو جائیں گے
—————————–
اشکال
مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امتی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے نکال لیا گیا ہے۔ نبی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے دل میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ارے اگرچہ موت آگئی ہے لیکن دل پہ وفات نہیں آئی اگر نبی ہے تو روح کو سمیٹ کے دل میں رکھ دیا گیا اور اگر امتی ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا گیا لیکن نبی کو جو حیات ملتی ہے اسی روح کو پھیلا دیا جاتا ہے اور جب امتی کو حیات ملتی ہے۔امتی کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے
جواب
یہ باطل فلسفہ حدیث عجب الذنب پر کلام سے نکلا ہے جس میں روح کو سمٹنے کا سرے سے ذکر نہیں ہے
روح کے مکمل جسد سے اخراج کا قرآن میں ذکر ہے
اخرجوا انفسکم
————
اشکال
الفقہ الاکبر میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
و اعادۃ الروح الی جسدہ فی القبر حق
کہ روح کو قبر میں لوٹایا جانا جسم کی طرف یہ حق ہے۔
الفقہ الاکبر ص173
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان نے فرمایا کہ الفقہ الاکبر یہ کتاب ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہے،
جواب
⇓ کیا کتاب فقہ الاکبر کی نسبت امام ابو حنیفہ کی طرف درست ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/محدثین-و-فقہاء-سے-متعلق/
——————-
اشکال
دعا مانگی ہے۔
اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا
بخاری باب وضع الیدالیمنیٰ تحت الخدالایمن
صبح اٹھا تو دعا مانگی الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
بخاری بَاب ما یقول اذا نام
اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے سلایا تھا پھر تونے جگا دیا یہ تو جاگا ہے یا زندہ ہوا ہے
جواب
یہ دعا پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جسم کے لئے خود مانگی ہے پھر امتی کو سکھائی ہے
اور اسی کو پڑھا ہے
تو پھر ایک مومن کی موت میں اور ایک نبی کی موت میں کوئی فرق نہیں رہتا
————
اشکال
قیامت کےدن جب کافر اٹھے گا کہے گا
يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا
یسین:52
یہ نہیں کہا کہ مرنے کی جگہ سے سونے کی جگہ ارے رقود سونے کی جگہ کو کہتے ہیں
جواب
قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ یہ کون کہے گا
اول ممکن ہے مومن ہو جس کی روح برزخ سے اس عالم ارضی میں منتقل ہوئی اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا کس نے مجھے اٹھایا تو کہا گیا رحمان کا وعدہ کا دن آ گیا
نم کنومہ العروس کی وجہ سے مومن سونے جیسی کیفیت میں برزخ میں تھا
———
اشکال
تھانوی رحمہ اللہ بیان القرآن میں کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا:
عام مومن کی حیات ہے لیکن حیاتِ ضعیفہ ہے،شہید کی حیات، حیاتِ کمیہ ہے نبی کی حیات تو اقویٰ ہے۔حیات مومن کی ہے مگر کمزور درجہ کی حیات شہیدکی بھی ہے مگر اس سے زیادہ اور پیغمبر کی حیات قوی ہے نبی الانبیاء کی حیات اقویٰ ہے۔حیات تو سب کی ہے لیکن درجہ بدرجہ ہے ہم نے کہا حیات دونوں کی مانی لیکن مٹی کے جسم کو کھانے کے ساتھ مانی ہے شہید کو زندہ مانا ہے لیکن بدن کے محفوظ ہونے کے ساتھ مانا ہے۔ارے نبی کو زندہ مانا ہے تو نبی کی بیوی کو بھی نکاح میں مانا ہے۔ زندگی دونوں کی الگ الگ ہے تو دونوں کے احکام بھی الگ الگ ہیں۔سبحان اللہ
جواب
نبی کی ازواج سے نکاح الله نے حرام کر دیا ہے
اس کا ان چیزوں سے تعلق نہیں جن کا ذکر کیا گیا
——-
اشکال
امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جنازے کو اٹھایاگیا جنازے کو اٹھا کے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کے سامنے رکھ دیا گیا صحابہ نے کہا یارسول اللہ آپ کے دروازے پر آپ کا غلام آیا ہے۔فرماتے ہیں قبر مبارک سے آواز آئی ہے
ادخلوا الحبيب إلى الحبيب
تفسیر الکبیر تحت سورہ کہف
اس کو باہر نہ رکھو اس کو اندر لے آؤ۔اس کو باہر نہ رکھو اس کو مجھ تک پہنچا دو، دوست کو دوست کے پاس پہنچا دو
صحابہ کرام اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
میں ایک اور بات کہتا ہوں اگر صدیق کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ میرا نبی قبر میں سنتا ہے تو صدیق نے یہ کیوں کہا کہ میری میت کو روضے پہ رکھ دینا،آواز آئے، تالا کھلے تو داخل کرنا، تالا نہ کھلے تو داخل نہ کرنا۔میرا معنیٰ یہ ہے کہ ارے صدیق کا عقیدہ بھی یہ تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم سنتے ہیں اصحاب پیغمبر کا عقیدہ بھی یہ تھا کہ ہمارے نبی پاک قبر میں سنتے ہیں۔
اگر وصیت غلط ہو تو بعد والے کے ذمہ وصیت کو بدل دینا ہے۔ صحابی وصیت کو بدلتا نہیں اس پر عمل کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ ان سب کا عقیدہ یہ تھا کہ نبی قبر میں؟ [سامعین: سنتا ہے]نبی قبر میں؟ بولیں[سامعین:زندہ ہیں]میں ایک جملہ اور کہہ دوں تیرے ذوق کو گرمانے کے لیے ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ کیوں کہا کہ نبی کے روضے پر جاکر پوچھنا؟ وجہ میں ایک بات کہتا ہوں تم نے حدیث مبارک سنی ہوگی۔
جواب
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]۔
یہ منکر ہے اس میں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہیں اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس نے غسل دیا
بعض محدثین نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھی کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه – یہ حدیث گھڑتا تھا اس سے روایت کرنا حلال نہیں .
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث منکر حدیث ہے – حدیث چور ہے .
———-
اشکال
امی عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں لا توذوا رسول اللہ مدینہ منورہ کے دروازے پہ اگر وہاں کیل بھی لگا ہے تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ارے میرے نبی کو تکلیف نہ دو،بلند آواز سے یہاں شور نہ کرو،ارے عجیب بات ہے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کیل لگانے سے منع کرتی ہیں میرے پیغمبر کو تکلیف ہوگی۔ جب دروازہ کھلے گا میرے پیغمبر کو تکلیف نہیں ہوگی؟ ساتھ قبر بنے گی نبی کو تکلیف نہیں ہوگی ؟ میں کہتا ہوں ہاں ہاں دونوں میں فرق ہے۔
جواب
کتاب الدرة الثمينة في أخبار المدينة از محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے
أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.
اس کی سند منقطع ہے – عبد العزيز بن أبي حازم المتوفی ١٨٤ ھ اور نوفل بن عمارة (مجہول) نے خبر دی کہ عائشہ رضی الله عنہا (المتوفی ٥٧ ھ یا ٥٣ ھ ) جب کیل لگانے کی آواز سنتیں تو ایسا کہتیں – ایک شخص جو ١٨٤ میں مرا ہو وہ ام المومنین سے کس طرح سنے گا؟ اس لئے سند منقطع ہے اور ساتھ ہی جو ایک سے زائد لوگ ہیں ان کا نام نہیں لیا گیا- اس سند میں اور مسائل بھی ہیں
زبیر بن بکار جس محمد سے روایت لے رہے ہیں وہ محمد بن الحسن بن زبالة ہے اس کو مُحَمد بْن الحسن بْن أَبِي الحسن بھی کہا جاتا ہے – ابن حجر ، أبو داود اس کو کذاب کہتے ہیں اور الدَّارَقُطْنِيّ ، النسائي ، الذھبی متروک کہتے ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا- اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں
—
اشکال
مسند احمد میں حدیث تم نے نہیں پڑھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں نبی کے روضے پر جاتی تو چادر کا اہتمام نہ کرتی حضرت ابوبکر صدیق آئے تو میں پھر بھی نہ کرتی حضرت عمر آئے تو پھر میں پردے کا اہتمام کرتی۔
مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي حَيَاءً مِنْ عُمَرَ
حضور تو میرے خاوند تھے صدیق تو میرے باپ تھے۔عمر سے حیا کرتی تھی۔ اگر سماع تھا ہی نہیں حیات تھی ہی نہیں پھر حیا کا معنیٰ کیا ہوا؟
مسند احمد ص440
میں نے بات حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ کی ہے تو نےچٹیں سماع موتیٰ پہ دی ہیں
جواب
https://www.islamic-belief.net/وفات-النبی-پر-کتاب/
ص ٢٨٠ پر تفصیلی بحث ہے
یہ حدیث منکر ہے
يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں
قَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: كَانَ أَبُو أُسَامَةَ ِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ.
سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ، ثُمَّ قَالَ يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ
عمر بن حفص بن غیاث المتوفی ٢٢٢ ھ کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس ( روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پآتا
يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں
عمر بن حفص بن غياث المتوفی ٢٢٢ ھ ، ابو اسامہ کے ہم عصر ہیں. زیر بحث روایت بھی اپنے متن میں غیر واضح اور افراط کے ساتھ ہے . محدثین ایسی روایات کے لئے منکر المتن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں
————- ———-
اشکال
دلیل سوم
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
السجدۃ:23
اللہ نے قرآن میں فرمایا اے میرے پیغمبر میں نے موسیٰ کو تورات دی ہے میں تیری اور موسیٰ کی ملاقات کرآؤں گا ملاقات میں شک نہ کرنا۔جب اللہ معراج پر لے گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس موقع پر
فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ
میرے اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ بیت المقدس میں جاکر پورا کیا ہے۔یہ آیت کہتی ہے کہ نبی قبر میں زندہ ہے اس کی وجہ؟ ارے زندہ سے زندہ کی ملاقات ہے ناں!
ایک اشکال کا جواب
ارے تم کہوگے قبر میں زندہ؟ میں نے کہا جی ہاں! ارے وہ تو معراج پر گئے تھے، بیت المقدس میں تھے، قبر میں نہیں تھے۔ مماتی کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ کہا ں پر تھے؟میں نے کہا وہ سرخ ٹیلے میں قبر میں تھے،دیکھا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ کہتا ہے وہ تو معجزہ تھا۔ میں نے کہا نبی پاک کادیکھنا معجزہ تھا موسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا تو معجزہ نہیں تھا۔نہیں سمجھے؟ایک ہے موسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا ایک ہے ہمارے نبی کا دیکھ لینا موسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا معجزہ نہیں تھا اور ہمارے نبی کا دیکھنا معجزہ ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
توجہ رکھنا! میں تمہیں بات سمجھانے لگا ہوں۔ کہا موسیٰ علیہ السلام کہاں پر تھے؟میں نے کہا قبر میں۔ کہتا ہے جب بیت المقدس میں نماز پڑھی ہے موسیٰ کہاں تھے؟میں نے کہا بیت المقدس میں تھے۔کہتا ہے جب اوپر چوتھے آسمان پر گئے ملاقات ہوئی کہاں پر تھے؟ میں نے کہا آسمان پہ، کہتا ہے آپ کہتے ہیں قبر میں زندہ، جب بیت المقدس میں تھے تو قبر میں نہیں تھے، جب وہ آسمان پر گئے قبر میں نہیں تھے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر قبر میں زندہ ہونے کا معنیٰ؟
جواب
موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا میرے نزدیک ثابت نہیں ہے
تفصیل کتاب
وفات النبی میں ہے
https://www.islamic-belief.net/وفات-النبی-پر-کتاب/
تمام انبیاء کی شریعت کے اصول ایک ہیں – اور قبر میں نماز پڑھنا منع ہے ایسی نماز باطل ہے
اس روایت میں بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کے برعکس صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ
اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا
اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ
———-
اشکال
یہ تم نے جس ثابت بنانی کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے بارے میں حلیۃ الاولیاء میں لکھا ہے اس ثابت نے کہا تھا: اللہ! اگر نبی قبر میں نماز پڑھتے ہیں تو مجھے بھی قبر میں نماز پڑھنے کی توفیق دینا۔اسی ثابت بنانی کے بارے میں حلیۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہتے ہیں ثابت بنانی کو قبر میں د فن کردیا۔کوئی چیز گرگئی تو راوی کہتا ہے میں نے ثابت کو دیکھا قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے۔سبحان اللہ]
جو راوی ہے وہ خود قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ہے اس لیے میں کہتا ہوں اعتراض وہ کرو جو قابل قبول تو ہو۔
جواب
طبقات ابن سعد کے مطابق اس روایت کے راوی ثابت البنانی دعا کرتے تھے
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِي الصَّلاةَ فِي قَبْرِي
کہ اے الله اگر تو نے کسی کو قبر میں نماز کی اجازت دی تو مجھے بھی یہ دے
اگر موسی علیہ السلام قبر میں نماز پڑھتے ہوتے تو ثابت کہتے جس طرح موسی علیہ السلام کو اجازت دی اسی طرح مجھے بھی دے لیکن وہ کہتے ہیں اگر کسی کو یہ چیز ملی
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں مجھے یہ روایت نہیں ملی البتہ ایک اور روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَالِكٍ الْغَبْرِيُّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الصِّمَّةِ الْمُهَلَّبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الَّذِينَ، كَانُوا يَمُرُّونَ بِالْحُفَرِ بِالْأَسْحَارِ قَالُوا: «كُنَّا إِذَا مَرَرْنَا بِجَنَبَاتِ قَبْرِ ثَابِتٍ سَمِعْنَا قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ»
ہم جب ثابت کی قبر کے پاس سے گزرتے تو قرآن سنتے
سند میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ الصِّمَّةِ الْمُهَلَّبِيُّ مجہول ہے
—————-
جزاک الله،
قرآن وسنت کی روشنی میں تبصرہ کرنے کیلئے ۔
شکریہ
السلام علیکم
بھائی یہ ھے لنک اس پوسٹ کا
جہاں پر بحث جاری ھے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=708131442865467&id=100010058534797
شکریہ
لیکن اس پیج پر کمنٹس نظر نہیں آ رہے
بھائی یہ پیج نہیں ھے
یہ فیس بک آئی ڈی ھے
اور اس پر 54کمنٹ ہوچکے ہیں
پتہ نہیں کس برابلم کی وجہ سے
آپ کو کمنٹ نظر نہیں آ رھے اس کا
علم مجھے نہیں ھے_
اور یہ شخص جماعت اسلامی کے
ساتھ تعلق رکہتا ھے
اور جو بھی پوسٹ شیر کرتا ھے ڈاکٹر عثمانی رح کے خلاف اختلافی پوسٹ
کرتا ھے
میں نے جو آج رات کو کمنٹ کیا وہ یہ ھے
خواجہ صاحب آپ لکھتے ہیں_
///اس کی تفصیل حدیث میں ملتی ھے کہ عہد الست کے وقت سرخ چونٹی کی مانند منحنی جسم عطا کئے گئے تھے///
میں کہتا ہوں ایسی ایک بھی حدیث نہیں جس میں یہ الفاظ ہو(سرخ چنوٹی کی مانند جسم عطا کئے گئے تھے)
یہ آپ کا نبی صہ پر بھتان ھے_
عوام الناس کے ساتھ دہوکہ ھے_
آپ کا سفید جہوٹ ھے_
اور آپ کی نری جہالت کے سواء کچھ نہیں ھے_
اس روایت کا عربی متن اور ترجمہ کیا ھے_؟
کون سی حدیث میں یہ روایت موجود ھے _؟
_____
مخالف نے یہ جواب دیا
یہ مسند احمد کی روایت ہے .. جسے حسن قرار دیا گیا ہے ..
آپ سے سوال ہے کہ سورت الکہف میں اللە نے دو عام آدمیوں کی مثال دی ہے .. ایک شخص دوسرے کو کہتا ەے .. اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفت ثم سواک رجلا .. پھر کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے نے تجھے تراب سے تخلیق کیا .. پھر نطفے سے ..
اسی طرح سورت الحج میں سارے انسانوں کے بارے میں اللە کہتا ہے کہ انا خلقناكم من تراب ثم من نطفت .. ہم نے تم سب کو پہلے تراب سے تخلیق کیا پھر نطفے سے ..
یہ سورت الکہف میں ایک عام شخص کو اور سارے انسانوں کو نطفے سے پہلے جو تراب والا جسم عطا کیا تھا .. اگر وە عہد الست کے وقت موجود نہ تھا تو کب موجود تھا ؟
______
بھائی مسند احمد کی روایت جس
کی سند میں کلثوم بن جبر ھے
اس کو آپ نے دلیل کے ساتھ ضعیف
بتایہ اور یہ حسن قرار دے رہا ھے
کیا کسی نے اس روایت کو حسن بھی
کہا ھے کیا
اس مخالف کو تو میں نہیں چہوڑو گا جب تک وہ عربی متن اور یہ نہیں بتا دیتا کہ حسن کس نے قرار دیا
حسن روایت کی وضاحت آپ نے =علم حدیث
اور کتب احادیث =
ص_62_63
بھت ہی بھترین کی
اوپر جو مخالف کا کمنٹ آپ دیکھ چکے ہو
اس میں قرآن کی کچھ آیات
نقل کر مجھ سے سوال کر رہا ھے اس کی
آپ وضاحت کردیں؟
اور یہ بھی بتا دیں
وہ سارے کمنٹ کاپی کر کے
آپ کو چیک کروا دوں___ کیا نیا موقف ھے
اس بارے آپ زیادہ جانتے ہو
اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے صحیح قرار دیا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ، بِمِصْرَ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، ثنا أَبِي، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” أَخَذَ اللَّهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ ذُرِّيَّةً ذَرَاهَا فَنَثَرَهُمْ نَثْرًا بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ، فَقَالَ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى، شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ، أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ، وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ، أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ «.» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدِ احْتَجَّ مُسْلِمٌ بِكُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ ”
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُكْرَمٍ، بِبَغْدَادَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّائِغُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، ثنا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللَّهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي بِعَرَفَةَ، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قُبُلًا وَقَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ} [الأعراف: 172] إِلَى قَوْلِهِ {بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ} [الأعراف: 173] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4000 – صحيح
ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) نے الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما میں لکھا ہے کہ نسائی نے کہا ہے یہ حدیث محفوظ نہیں ہے
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِيمِ صَاعِقَةً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَقَالَ كُلْثُومٌ هَذَا لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَحَدِيثُهُ لَيْسَ بِالْمَحْفُوظِ
یہ بات نسائی نے سنن الکبری میں لکھی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي عَرَفَةَ، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ فَتَلَا قَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكَمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ} [الأعراف: 172] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَكُلْثُومٌ هَذَا لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَحَدِيثُهُ لَيْسَ بِالْمَحْفُوظِ
————————————
اس میں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم کو پھیلایا جیسے چیونٹیاں ہوں
اس میں بنی آدم کو چیونٹی نہیں کہا گیا مشابہت دی گئی ہے
عربی میں لفظ کے ساتھ ک لگ جائے تو وہ مماثلت ہوتی ہے مثلا قرآن میں ہے
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
يه چوپایوں کو طرح ہیں
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کافر حقیقی چوپائے بن گئے ہیں
اسی طرح اس حدیث میں کلذر کا لفظ ہے یعنی چیونٹیاں کی طرح پھیلایا
———–
السلام علیکم
نئی دلیل ضرور ھے لیکن قرآن و حدیٹ
کی کوئی دلیل نہیں جہاں قرآن و حدیث پیش کیا جاتا ھے وہاں معنی غلط لی جاتی ھ
اور متکلمین کے مذہب کا جہاں تک تعلق ھے وہ یہ کے روح کا تعلق عجب الذنب سے..
اور اب جو فلسفے جہاڑ رھے ہیں جماعت اسلامی والے ان کا یہ کہنا ھے کہ عجب الذنب کے اندر چونٹی نما منحنی جسم سے روح کا تعلق ہوجاتا ھے اور دلیل میں مسند احمد کی ضعیف روایت پیش کی جاتی ھے
مزید تفصیل کے لیئے ان کے کمنٹ ملاحظہ
______
آپ فرماتے ہیں کہ ۔۔
قرآن میں جب نص موجود ھے مردے کے سننے کی بلکل نفی ہوجاتی ھے تو کیونکر قیاس کیا جائے؟ اور جس کی دلیل بھی نا ہو اس کو اپنے عقل پر کیو مارا جائے؟
قرآن میں بالکل بھی مردے کے سننے کی نفی موجود نہیں ہے ۔۔ یہ آپ نے عثمانی صاحب کا مفہوم زبردستی قرآن پر تھوپا ہے ۔۔ قرآن میں جس چیز کی نفی ہے وہ نبی ص کی اور عام انسانوں کو مردے کو سنا سکنے کی نفی ہے ۔۔ یہ پتھر کے بت ہوتے ہیں جو سرے سے سن نہیں سکتے اور قرآن پتھر کے بتوں کے بارے میں صاف کہہ دیتا ہے کہ ۔۔ لا یسمع وال یبصر ۔۔ یہ سننے اور دیکھنے کی سرے سے ایہلیت ہی نہیں رکھتے ۔۔ لیکن قرآن نے واجح امتیاز برتتے ہوئے وفات یافتہ انسانوں کیلئے ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے ۔۔ انک لا تسمع الموتی ۔۔ اے نبی ص آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ۔۔ اس میں نفی نبی ص کے سنا سکنے کی ہے ۔۔ مردے تو سن سکتے ہیں ۔۔ فرشتے اخرجوا انفسکم ۔۔ کسی ایسے وجود کو تو نہیں کہہ سکتے جو سن ہی نہ سکتا ہو ۔۔ جنازے پر جو وجود کلام کر سکتا ہے وہی آگے چل کر جوتوں کی چاپ سنتا بھی ہے ۔۔ یہ میرے ذہن کی کارستانی نہیں ہے میں تو قرآن و حدیث دونوں کو ساتھ ساتھ تھام کر چل رہا ہوں ۔۔ آپ زبردستی قرآن کے اس مفہوم کو پکڑ رہے ہیں جس سے قوی احادیث کے اس سارے پیکج کا ہی انکار ہو جاتا ہے جو زمینی قبر میں سننے ، جنازے پر بولنے ، عذاب قبر زمینی قبر میں سہنے ، قبر پر عذاب میں کمی کیلئے ٹہنیاں لگنے ، عمرو بن العاص رض کی وصیت کو اپنے برزخیہ فلسفے کے ذریعہ پائوں تلے روند کر رکھ دے ۔۔
پس قرآن میں متردے کے سرے سے نہ سن سکنے کی کوئی نص موجود نہیں ہے یہ عثمانی صاحب کے دماغ کی نس ہے جو یہ نتیجہ نکال رہی ہے حالانکہ اس نتیجے کو نکالنے سے قوی احادیث کی بڑی تعداد کو جھٹلانا پڑتا ہے ۔۔
اپنی خلاف قرآن قبر ۔۔ کھلی جگہ پر متحرک وجود کو عذاب قبر دینے اور ان ساری قوی احادیث کی درگت بنا دینے کے بعد جو زمینی قبر کو ہی قبر اور اسی قبر میں عذاب کی بات کرتی ہیں ۔۔ آپ میرے موقف پر کچھ اس طرح اعتراض کرتے ہیں ۔۔
آپ اپنے نام نہاد مردے کی جو نیو اقسام بنا رھے ہو کہ ایک مردہ جو ہمارے سامنے پڑا ھے اس پڑے ہوئے مردے کی جو عجب الذنب ھے اس کے اند ایک اور جسم ھے جو چنٹویو کی ماند ھے وہ بولتا بھی سنتا بھی ھے عذاب و راحت بھی محسوس عجب الذنب والا جسم کرتا ھے یہ تہیوری آخر آپ کو کس نے بتائی؟قرآن و حدیث ایسی ایک بھی دلیل موجود نہیں اور نا ہی آپ پیش کرسکتے ہو
عجب الذنب جسد عنصری کا ایک حصہ ھے حدیث کے مطابق یہ باقی رھے گا لیکن اس میں کوئی دلیل نہیں کے اس عجب الذنب میں چونٹیاں بھی ھوتی ہیں جو سانس لیتی ہو چار پائی پر بولتی ھو سنتی ہو یہ ایک پریشان خیال بے سروپا بات ھے جس کی کوئی اصل نہیں ھے.
محترم قرآن نے سارے انسانوں کی تخبیق کے جو ترتیب وار مراحل بیان کئے ہیں ۔۔ وہ سورت الحج میں ۔۔ انا خلقناکم من تراب ثم من نطفت ۔۔۔ سورت الکہف میں ۔۔ اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفت ۔۔ یعنی سارے انسانوں کا پہلا جسم جو نطفے سے بھی پہلے ان کو عطا ہوا تھا وہ تراب سے بنا جسم تھا ۔۔
قرآن ہی سے پتہ چلتا ہے کہ ۔۔ عہد الست نفوس سے ہوا تھا ۔۔ و اشھدھم علی انفسھم ۔۔ نطفے سے پہلے تراب سے دیا جانے والا جسم اس وقت ہمارا جسم تھا ۔۔ جس کی تائید میرا قیاس یا میری عقل نہیں بلکہ حدیث کرتی ہے کہ عہد الست عرفات کے میدان میں ہوا تھا اور سارے انسانوں کے سرخ چیونٹی کی مانند منحنی جسم عطا ہوئے تھے ۔۔ روح+منحنی جسم ہی نفس ہوتا ہے ۔۔ انہی نفوس سے عہد الست لیا گیا تھا ۔۔ تنہا روح بغیر جسم کے موت ہے اور تنہا جسم بغیر روح کے موت ہے ۔۔ زندگی نام ہی روح اور جسم کے ملاپ کا ہے ۔۔ اور موت نام ہی روح اور جسم کی علاحیدگی کا ہے ۔۔ پھر قرآن ہی اس آصل نفس انسانی کے بارے مین بتلاتا ہے کہ ۔۔ و نفس و ما سواھا ۔۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا ۔۔ نفس کی ساخت کو درست کیا اور اس میں نیکی اور بدی کی تمیز الہام کی ۔۔ اسی تراب والے جسم میں ہی تو عہد الست کی یاد بھی موجود ہے اور نیکی اور بدی کی یاد بھی موجود ہے ۔۔
پس ایک مردہ جو ہمارے سامنے پڑا ہوتا ہے اسی مردے کے پاس ہم سے بھی زیادہ قریب اللہ اور فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں ۔۔ و انتم حینئذ تنظرون ۔۔ و نحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون ۔۔ جب تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو ۔۔ اس وقت ہم تمہاری نسبت مرنے والے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم ہمیں نہیں دیکھ پا رہے ہوتے ۔۔ اسی موقع پر فرشتے “اخرجوا انفسکم“ بھی کہتے ہیں جو ظاہر ہے ہم نہیں سن سکتے ۔۔ لیکن فرشتے یہ الفاظ اصل نفس کو کہتے ہیں جو برزخ کی سرحد پار کر رہا ہوتا ہے ۔۔ وہ فرشتوں کے الفاظ گوشت کے کانوں سے نہیں سنتا ۔۔ بلکہ ہماری نگاہوں کے سامنے اپنے فوق الطبعی عالم کے اصولوں کے تحت سنتا ہے ۔۔ فرشتے نفس سے مخاطب ہوتے ہیں ۔۔ وہی نفس جس کی ساخت کو اللہ نے درست کرنے کے بعد اس میں نیکی اور بدی کی تمیز رکھ دی تھی ۔۔ وہی نفس جو عہد الست میں سرخ چیونٹی کی مانند منحنی تراب اور طین والے جسم کے ساتھ موجود تھا ۔۔
ایک دہریہ بھی یا ہندو بھی کوئی بڑا غلط کام کرنے جاتا ہے تو اس کے ہاٹھ ٹھنڈے ہونے لگتے ہیں ۔۔ ایک دہریہ بھی جانتا ہے کہ کون سے کام غلط ہیں اور کون سے کام اچھے ہیں ۔۔ یہ نیکی اور بدی کی تمیز اسی اصل نفس کی بدولت ہے جس کو اللہ نے نطفہ والے جسم سے پہلے جب وہ تراب و طین والے اصل باقی رہنے والے سراپے میں تھا اس وقت عطاکی تھی ۔۔ اس نفس کو رحم مادر میں اس وقت نطفے والے جسم سے جوڑ دیاجاتا ہے جب رحم مادر میں بچہ چند ماہ گزار کر اتنا بن چکا ہوتا ہے کہ اس کی ہڈیوں کا اپتدائی اسٹرکچر بن جاتا ہے ۔۔
پس نیکی اور بدی کی تمیز سے ایک دہریے کا بھی آگاہ رہنا اس بات کا بوت ہے کہ اس کے اندر وہی نفس موجود ہے ۔۔ و نفس وما سواھا ۔۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا ۔۔ روح کی ساخت درست کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔۔ آدم ع کے بھی پتلے کی ساخت اللہ نے درست کی تھی ۔۔ یہی جسم ہی تو اصل جسم ہے جو نہ تو فنا ہو سکتا ہے ۔۔ اور نہ اس جسم کے بغٍیر انسان کا وجود ہی بن سکتا ہے ۔۔ اصل جسم اور اصل روح جب تک ملے رہتے ہیں زندگی کاس دورانیہ جاری رہتا ہے ۔۔
یہ سوال کہ تراب والا منحنی جسم عجب الذنب کے اندر ہوتا ہے اس کی دلیل کیا ہے ؟
١۔ و اذا القبور بعثرت ۔۔ جب قبریں کھول دی جائیں گی ۔۔ ارواح اپنے اصل اجسان کی طرف پلٹیں گی جنکا مقام وہی ہو گا جہاں عجب الذنب ہو گی ۔۔
٢۔ روح اپنے تراب والے جسم جس میں عہد الست کی یاد ، نیکی اور بدی کی تمیز اور سارے اعمال کی یاد بھی ہو گی ۔۔ جب تک روح اس اصل جسم سے نہ ملے کس طرح انسان کا وجود بن سکتا ہے ۔۔ پس عجب الذنب اور تراب والا جسم ساتھ ساتھ ہوں گے ۔۔
٣۔ قرآن جابجا کہتا ہے کہ جس طرح زمین سے نباتات پھوٹ پڑتی ہے ۔۔ کذالک تخرجون ۔۔ تم بھی ویسے ہی خارج ہو گے ۔۔ خواہ مرغی کا انڈا ہو یا کوئی بیج ہو یا آم کی گٹھلی ہو ۔۔ آپ دیکھیں گے کہ اوپر ایک مردار حفاظتی خول ہوتا ہے جو اپنے اندر اصل حیاتیاتی جوہر کو محفوظ رکھتا ہے ۔۔ جب موافق حالات میسر آ جاتے ہیں تو اصل حیاتیاتی جوہر اس مردار حفاظتی خول کو پھاڑتا ہوا زندگی کی شکل میں باہر آ جاتا ہے ۔۔ پس عجب الذنب جس میں سے روح نکل گئی تھی تو یہ مردار ہو چکی تھی یہی وہ اوپر کا حفاظتی خول بن کر اور اپنے اندر اصل حیاتیاتی جوہر یعنی تراب و طین والے اصل جسم کو سنبھال کررکھتی ہے ۔۔
اگتر آپ انصاف سے غور کریں تو اس سارے موقف میں میں نے اپنی عقل سے صرف قرآن و حدیث میں ربط پیدا کیا ہے ۔۔ سارئ مراحل ایک ایک چیز قرآن و حدیث سے لی ہے ۔۔ اور اس طرح جو مکمل شکل ابھر کر سامنے آتی ہے ۔۔ اس سے قرآن کی ہر آیت کا اور ہر قوی حدیث کا اثبات ہوتا ہے ۔۔
سورت الحج میں سارے انسانوں کیلئے کہا گیا کہ .. انا خلقناكم من تراب ثم من نطفت .. سورت الکہف میں ایک عام مخصوص شخص کی بابت کہا گیا کہ .. اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفت .. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان نطفے سے پہلے تراب والے جسم کا مالک رہ چکا ہے .. یہ جسم کب ملا تھا ؟
اس کی تفصیل حدیث میں ملتی ہے کہ عہد الست کے وقت سرخ چیونٹی کی مانند منحنی جسم عطا کئے گئے تھے ..
پس ثابت ہوا کہ عہد الست جن نفوس سے ہوا تھا وە روح+تراب پر مشتمل نفس تھے ..
قرآن آدم کے پتلے کے بارے میں کہتا ہے کہ فإذا سویتہ .. جب میں اس کی ساخت درست کر دوں ..
یہی قرآن ہر انسان کے نفس کے بارے میں بھی کہتا ہے .. و نفس و ما سواها فالھمھا فجورها و تقواها .. اور نفس کی ساخت کو درست کیا .. اور نیکی اور بدی کی تمیز اس میں الہام کر دی ..
پس عہد الست خالی ارواح سے نہیں لیا گیا تھا بلکە روح+تراب پر مشتمل نفس سے لیا گیا تھا .. جیسا کہ قرآن صراحت سے کہہ دیتا ہے .. و اشھدھم علی انفسھم ..
اس نفس کی زندگی کے دورانئے کو ہی زندگی کا دورانیہ اور موت کے دورانیے کو موت کا دورانیہ سمجھ لیا جائے تو ساری پیچیدگیاں اور مشکلات اور تناقضات آسانی سے حل ہو جاتے ہیں .. ایک زبردست نفخ ہی سے بنی نوع انسان کے نفس زندگی پا سکتے ہیں اور ایک زبردست نفخ ہی سے بنی نوع انسان موت پا سکتے ہیں ..
آدم ع کآ پتلا جب تک بے جان تھا سارے نفوس ٹوٹے ہوئے تھے یعنی تراب الگ اور روح الگ .. ایک بھی انسان زندہ نہ تھا .. یہ بنی نوع انسان کی پہلی موت کا دورانیہ تھا .. اس کو پہلی زندگی کے دورانیے میں بدلنے کیلئے پتلے میں نفخ ہوا ارواح تراب والے اجسام سے مل گئیں .. سارے انسان زندە ہو گئے عہد الست ہوا .. پھر اضافی حیوانی جسم ملا .. طبعی عالم کی امتحان گاہ میں انٹری ہوئی .. امتحان کا وقت ختم ہوا اضافی جسم واپس وہی روح+تراب والی کیفیت لوٹی .. عذاب و راحت قبر کے مراحل چلتے رہیں گے .. لیکن اصل نفس جو آدم ع کے پتلے میں نفخ سے زندە ہوئے تھے بدستور روح +تراب کی شکل میں موجود .. یہاں تک کہ پہلا صور پھونک دیا جائے گا .. یعنی پھر زبردست نفخ .. جو سارے انسانوں کے اس نفس کو توڑ دے گا .. روح الگ تراب الگ .. نہ زمین کے اوپر کوئی چلتا پھرتا انسان .. نہ زمین کے اندر کوئی عذاب یا راحت پاتا کوئی انسان .. نە شہید زندە نہ نبی زندە .. ایک بھی انسان زندہ نہیں .. یہ بنی نوع انسان کی دوسری موت کا دورانیہ ہو گا .. مومنوں کی ارواح جنت میں لٹک جائیں گی .. اس دورانئے کو ختم کرنے کا مطلب ظاہر ہے کہ روح اور تراب پھر سے ملیں .. جس کیلئے پھر زبردست نفخ کی ضرورت پڑتی ہے .. اور یہی ہو گا نفخ پر ارواح اپنے اصل اجسام (تراب) کی طرف لوٹیں گی .. سارے انسانوں کی دوسری زندگی کا دورانیہ شروع ہو جائے گا ..
دیکھئے کوئی ابہام نہیں .. کوئی تناقض نہیں .. اگر ذہن کو پہلے سے بنے ەوئے کسی موقف سے صاف کر کے اس تصور پر بغیر کسی تعصب کے نگاہ ڈالی جائے تو دل تصدیق کر دے گا کہ یہی وە موقف ہے جو مبنی بر حقیقت ہے ..
سورة الحج
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ
——-
سورة الكهف
قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلاً
—–
حدیث دلالت کرتی ہے کہ عہد الست عرفات کے میدان میں ہوا تھا اور سارے انسانوں کے سرخ چیونٹی کی مانند منحنی جسم عطا ہوئے تھے
===========================
جواب
جس روایت سے یہ نکلا ہے کہ عہد الست میں مخلوق کو چیونٹی کی طرح پھیلایا
اس کا ذکر نسائی نے کیا ہے
سائی نے سنن الکبری میں لکھی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَخَذَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي عَرَفَةَ، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَأَهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ فَتَلَا قَالَ: {أَلَسْتُ بِرَبِّكَمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ} [الأعراف: 172] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَكُلْثُومٌ هَذَا لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَحَدِيثُهُ لَيْسَ بِالْمَحْفُوظِ
اللہ نے نعمان میں یعنی عرفات میں بنی آدم کو ان کی پٹھوں سے نکالا اور اس کو پھیلایا وہ اس کے سامنے اس طرح تھے جیسے کے چیونٹان پھیلی ہوں پھر کہا آیت آخر تک تو انہوں نے کہا ہم گواہ ہیں – نسائی نے کہا اس میں کلثوم قوی نہیں ہے اور یہ حدیث محفوظ نہیں ہے
——
نسائی نے حدیث کو ہی سرے سے غیر محفوظ کہا ہے
یعنی اس میں راوی کا اپنا بیان شامل ہو گیا یہ واضح نہیں رہا ہے حدیث کیا تھی
اس کے صحیح ہونے کا اب اس شخص کا مسلسل اصرار ہے لیکن یہ اس کو بھی نہیں مانتا اس سے کھینچ تان کر کے صرف یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ انسانوں کو چیونٹی جیسا جسم دیا گیا جو مٹی کا بنا تھا جبکہ یہ اس روایت میں نہیں ہے
یہ روایت بھی غیر صحیح ہے نعمان طائف کی وادی ہے جو عرفات کی طرف جاتی ہے
یہ الجوهری کا صحاح میں کہنا ہے
یعنی راوی کو جغرافیہ کا بھی علم نہیں ہے
————
اب قرآن کی جن آیات کا ذکر ہے وہ اصلا آدم علیہ السلام کا ذکر ہیں ان کو مٹی سے خلق کیا گیا اور پھر ان سے نسل انسانی چل رہی ہے جو نطفہ سے ہے
اور اس میں تمام فرقے یہی کہتے ہیں میں نے پہلی بار سنا ہے کہ تمام انسانوں کو بھی آدم کی طرح مٹی سے خلق کیا گیا
یہ جاہلیت کا قول ہے کیونکہ آدم خلق ہوئے پھر طبعی موت آئی – مٹی سے بنے جسم پر موت واقعہ ہوئی تو اس کا ذکر قرآن میں کیوں نہیں ہے
———
نوٹ
میں اس شخص کا پیج دیکھا اس کی پریشان خیالی کو دیکھا
مثلا اس نےلکھا
///
Khwaja Izhar
August 23 at 7:38 AM ·
عذاب قبر کی کیفیت بتلاتی ساری احادیث جو کہ نبی ص کو خواب میں یا معراج کی معجزانہ رات میں دکھائی گئیں اور جنکی جو یاد نبی ص کو رہی وہ کبھی بھی اصل اور جوں کی توں تھی ہی نہیں ۔۔ انسان خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو بشر کی حیثیت سے کبھی بھی غیبی حقئیقت کا ادراک کر ہی نہیں سکتا اور نہ ہی ان کا ہوبہو ادراک کر سکتا ہے ۔۔ ایک ہی ممکنہ راستہ ہے کہ اسے اسی طبعی عالم کی مماثل کیفیت میں ایک مثال کے طور پر یاد رہ جائے
///
راقم کا تبصرہ
یہ کفر ہے کہ کہا جائے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بطور بشر کسی بھی غیبی حقیقت کا ادرک نہ کر سکے – معلوم نہیں یہ شخص معراج کے واقعہ کی کیا تاویلات کرے گا
——-
///
اسرائیل نے مطالبی کیا کہ موسی ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اللہ کو دیکھ نہ لیں ۔۔ اللہ نے انہیں بھی ممکنہ حد تک دکھانے کی کوشش کی اور وہ سب کومے میں چلے گئے ۔
///
راقم کا تبصرہ
الله تعالی نے تو ان کو عذاب میں پکڑا ہلاک کر دیا پھر زندگی دی یہ کومہ یا بے ہوشی کا ذکر کس قرآن میں ہے ؟
—————–
///
یوسف ع نے خواب میں اصل حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب انکی بادشاہی میں انکے والدین اور گیارہ بھائی انکے سامنے موجود ہوں گے ۔۔ یہ مشاہدہ انہوں نے نیند میں کیا ۔۔ جب انکی روح عارضی طور سے قبض ہو کر اپنے اصل فوق الطبعی عالم کے منحنی جسم تک محدود تھی ۔۔ لیکن جب روح دوبارہ طبعی حیوانی جسم میں لوٹی تو یہ ممکن ہی نہ ہو سکتا تھا کہ انہیں اصل مشاہدے کی یاد جوں کی توں رہ پاتی ۔ وہی ایک ممکنہ صورت تھی کہ ایک مماثل کیفیت میں یاد رہے
///////
راقم کا تبصرہ
یہاں اس شخص نے پھر کفر بکا ہے اور اس کو معلوم بھی نہیں کیا بک رہا ہے – انبیاء کے خواب تمام کے تمام کا انکار کر دیا ہے کہ ان کو یاد ہی نہیں رہتا کیا دیکھتے تھے
————-
کیا یہ جماعت اسلامی کے متفقہ موقف ہیں ؟
———–
اس شخص نے کہا
///
ے صور سے قبل ہی انسان کی پہلی زندگی کا خاتمہ کر کے اسے اس مطلق موت کا شکار کر رہے ہیں جو کہ پہلے صور پر ہی آئے گی .. عہد الست سے لے کر پہلے صور تک انسان کی پہلی زندگی کا ہی دورانیہ چلے گا .. اس دو
///
راقم کا تبصرہ
اس شخص کا عقیدہ ہے کہ فرشتے روح کو عجب الزنب کی ڈبیہ میں بند کر کے چلے جاتے ہیں
اور انسان کی پہلی موت واقع نہیں ہوئی اس کی ابھی زندگی ہے جو صور پھوکنے تک چلے گی
یعنی اس شخص نے موت کا سرے سے انکار کر دیا
مردے کو زندہ ثابت کرنے کا یہ نیا فلسفہ ہے تاکہ اپنے بڑوں کو بچایا جا سکے
کل نفس ذائقة الموت”
———-
یہ شخص قرآن کی آیات اخرجوا انفسکم کا بھی مذاق اڑا رہا ہے
////
قرآن کہتا ہے کہ مرنے والے سے فرشتے کہتے ہیں کہ “اخرجوا انفسکم“ اپنے نفسوں کو خارج کرو
ایک شخص مرنے سے پہلے آخری وصیت کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ۔۔ اس کے عزیز اس کی بات سن رہے ہوتے ہیں کہ وہ بات بھی مکمل نہیں کر پاتا کہ آخرئی ہچکی آ گئی ۔۔ دل بند ۔۔ آکسیجن کی فراہمی معطل ۔۔ خون کی گردش رک جاتی ہے ۔۔ اندھیرا اور موت ۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہوتا ہے کہ فرشتے کس وقت اس سے کہتے ہیں کہ نفسوں کو باہر نکالو ؟ آخری سیکنڈ تک تو اس کی توجہ ہی اپنے عزیزوں پر تھی ؟ پھر وہ فرشتوں کا کہا کون سے کانوں سے سنے گا ؟ گوشت کے کان تو اسی وقت سن سکتے ہیں جب تک خون کی فراہمی دماغ کو ملتی رہے ؟ نہ تو تنہا روح بغیر جسم کے بول سکتی ہے اور نہ تنہا جسم بغیر روح کے بول سکتا ہے ؟ عثمانی صاحب کی برزخی تھیوری اس پیچیدگی کا کوئی حل پیش نہیں کر سکتی کیونکہ یہ خلاف حقیقت ہے ۔۔
//////
راقم کا تبصرہ
اس کے جاہل ہونے میں شک نہیں
یہ قرآن کا انکار ہے- اپنے فلسفے کو جھاڑنے کا انجام اچھا نہیں ہو گا
جزاک اللہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں تبصرہ کرنے کے لئے۔
شکریہ
بھائی تقریبن تین سالوں سے فیس بک
پر اس شخص کے علاوہ ایسے قسم کا
فلسفہ اور کسی فرقے کا
شیر نہیں ھوا، اگر ھوا بھی ھو کسی فرقےکی جانب سے تو ہماری نگاہ سے نہیں گذرا
(یہ شخض(خواجہ اظہر
خود کو جماعت اسلامی سے منسوب کرتا
ھے لیکن جماعت اسلامی کے اور لوگ بھی
ہماری فرینڈ لسٹ میں
Aad ہیں_
لیکن کسی ایک سے بھی ایسے قسم کا فلسفہ
یا کمنٹ پوسٹ وغیرہ شیر نہیں
ھوئی شائد جماعت اسلامی کا متفقہ موقف نہیں ھے_
بھائی آپ نے جو تبصرہ کیا ھے بھترین کیا
اگر اس کی اور بھی وضاحت کی جائے اور
اس شخص نے جو موقف اختیار کیا ھوا ھے
اس پر بھی سوال اور بھترین طریقے سے ایک
پوسٹ کی شکل میں تیار کریں جب آپ کو ٹائم مصول ہوجائے،
وہ آپ کی تیار کردہ پوسٹ اگر میں کاپی کر کے فیس بک پر شیر کروں تو آپ کی کیا رائے ہے-؟
اس شخص کے نظریات شاذ ہیں اور یہ کسی جماعت کا موقف ابھی تک نہیں اس بنا پر ان کو مزید نہ پھیلایا جائے ہاں اگر کوئی تنظیم یا جماعت یا فرقہ اس کو اپنا لے تو بلاگ بنایا جا سکتا ہے
میرا ابھی یہ خیال ہے- اگر اپ محسوس کریں کہ اس موقف کو پھیلایا جا رہا ہے جو کم نہیں شدید جرح کریں کیونکہ جو فلسفی ہوتا ہے وہ ڈانٹ پڑنے پر ہی چپ ہ گا ورنہ بکواس جاری رہی گی
میں نے جو جوابات دیے ہیں ان کو میں کتاب اثبات عذاب قبر میں شامل کر دیتا ہوں میرا خیال ہے یہ کافی ہو گا
السلام علیکم
بھائی خواجہ اظہر کا یہ سوال کہ//آپ صرف اتنا بتا سکتے ہیں کہ .. نطفے سے پہلے جس تراب سے بنے جسم کے آپ مالک تھے وە جسم آپ کو کب ملا تھا ؟
اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفت ثم سواک رجلا …
یہ تو سورت الکہف کی آیت ہے ..//
اور بھائی آپ نے تبصرے میں اس سوال کا کچھ اس طرح سے جواب دیا-
//اب قرآن کی جن آیات کا ذکر ھے وہ اصلا آدم علیہ السلام کا ذکر ہیں ان کو مٹی سے خلق کیا گیا اور پہر ان سے نسل انسانی چل رہی ہے جو نطفہ سے ہے اور اس میں تمام فرقے یہی کہتے ہیں میں نے پہلی بار سنا ہے کہ تمام انسانوں کو بھی آدم کی طرح مٹی سے خلق کیا گیا//
بھائی انسان کی پیدائش کے متعلق سب آیات سامنے رکھ کر ان پر غور کیا تو نقشہ کچھ اس طرح سامنے آیا کہ
قَالَ لَهُۥ صَاحِبُهُۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُۥٓ أَكَفَرْتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّىٰكَ رَجُلًا
تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا
یہ آیت آدم علیہ السلام کے متعلق تو نہیں ھے
اور اس سے یہ بھی ثابت ہو رہا ھے کہ نطفے سے پہلے انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ ۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے
3-Al Imran : 59
اب یہاں پر آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ھے ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور آپ اپنی ویب سائیڈ پر “منکرین نزول مسیح کے دلائل کا بطلان”_بلانک_ پر کمنٹ میں یہ لکھا ھے//
عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ایک معجزہ ہے ان کا پیدا ہونا ان کا رفع ہونا اور ان کا آنا//
تو سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا معجزہ ہے تو تمام انسانوں کا پیدا ہونا بھی اللہ مٹی سے بیان کر رہا ہے؟
بھائی آپ سے کوئی مناظرہ نہیں ہے میں الجھن میں آگیا ہوں
اس آیت میں بھی تمام انسانیت کا ذکر ھے آدم علیہ السلام کا نہیں ہے اور نطفے سے پہلے مٹی سے پیدا کیئے جانے کا ذکر ہے-
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓا۟ أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا ۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍ
لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا تھا (یعنی ابتدا میں) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض (قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض شیخ فالی ہوجاتے اور بڑھاپے کی) نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں۔ اور (اے دیکھنے والے) تو دیکھتا ہے (کہ ایک وقت میں) زمین خشک (پڑی ہوتی ہے) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو شاداب ہوجاتی اور ابھرنے لگتی ہے اور طرح طرح کی بارونق چیزیں اُگاتی ہے
22-Al-Hajj : 5
خواجہ اظہر ؛ کا بھی یہی سوال ہے کہ//نطفے سے پہلے جس تراب سے بنے جسم کے آپ مالک تھے وہ جسم آپ کو کب ملا تھا؟
اس آیت میں بھی تمام انسانیت سے خطاب ہے کہ آپ کو مٹی سے بنایا گیا
وَمِنْ ءَايَٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَآ أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اب تم انسان ہوکر جا بجا پھیل رہے ہو
30-Ar-Rum : 20
اس آیت میں بھی نطفے سے پہلے مٹی سے پیدا ہونا ثابت ہے_
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٰجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۦ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِى كِتَٰبٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اور خدا ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑا جوڑا بنا دیا۔ اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔ اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ بےشک یہ خدا کو آسان ہے
35-Fatir : 11
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓا۟ أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا۟ شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوٓا۟ أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وہی تو ہے جس نے تم کو (پہلے) مٹی سے پیدا کیا۔ ہھر نطفہ بنا کر پھر لوتھڑا بنا کر پھر تم کو نکالتا ہے (کہ تم) بچّے (ہوتے ہو) پھر تم اپنی جوانی کو پہنچتے ہو۔ پھر بوڑھے ہوجاتے ہو۔ اور کوئی تم میں سے پہلے ہی مرجاتا ہے اور تم (موت کے) وقت مقرر تک پہنچ جاتے ہو اور تاکہ تم سمجھو
40-Ghafir : 67
اب سورہ عبس میں اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو نطفے سے پیدا ہونے کا ذکر کر رہاہے، نطفے سے پہلے مٹی کا ذکر بھی نہیں ہے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی.
ﻗُﺘِﻞَ ٱﻹِْﻧﺴَٰﻦُ ﻣَﺎٓ ﺃَﻛْﻔَﺮَﻩُۥ
لعنت ہو انسان پر، کیسا سخت منکر حق ہے یہ (80:17)
via Quran For All
http://tinyurl.com/quranforall
ﻣِﻦْ ﺃَﻯِّ ﺷَﻰْءٍ ﺧَﻠَﻘَﻪُۥ
کس چیز سے اللہ نے اِسے پیدا کیا ہے؟ (80:18)
ﻣِﻦ ﻧُّﻄْﻔَﺔٍ ﺧَﻠَﻘَﻪُۥ ﻓَﻘَﺪَّﺭَﻩُۥ
نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی (80:19)
ﺛُﻢَّ ٱﻟﺴَّﺒِﻴﻞَ ﻳَﺴَّﺮَﻩُۥ
پھر اِس کے لیے زندگی کی راہ آسان کی (80:20)
ﺛُﻢَّ ﺃَﻣَﺎﺗَﻪُۥ ﻓَﺄَﻗْﺒَﺮَﻩُۥ
پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا (80:21)
اوپر والی آیات کو کیسے سمجھا جائے اور سورہ عبس کی آیت کو کیسے سمجھا جائے کچھ سمجھ نہیں آ رہی نطفے سے پہلے مٹی سے پیدا ہونا بھی ثابت ہے اور نطفے سے پیدا ہونا بھی ثابت ہے
انسان نطفہ سے پیدا ہوتا ہے یہ ہم سب کے علم میں ہے – اللہ تعالی اس کا ذکر کرتا ہے
انسان نطفہ سے پیدا ہوتا ہے یہ معلوم ہے لیکن نسل انسانی کیسے چلی یہ کفار کو معلوم نہیں ہے اس لئے الله تعالی جب کفار سے مومن کے کلام کا ذکر کرتا ہے تو میں ہے کہ اس نے کہا تجھ کو مٹی سے بنایا یعنی اصل انسان تو آدم علیہ السلام تھے جن کو مٹی سے بنایا گیا
ان آیات کا مدعا یہی ہے کہ انسان کے ذہن کو اس طرف لایا جائےکہ اس کی ایک ابتداء ہے جس میں ان کے باپ کو مٹی سے خلق کیا گیا پھر ان کے نطفہ سے نسل انسانی چل رہی ہے
////
بھائی انسان کی پیدائش کے متعلق سب آیات سامنے رکھ کر ان پر غور کیا تو نقشہ کچھ اس طرح سامنے آیا کہ
قَالَ لَهُۥ صَاحِبُهُۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُۥٓ أَكَفَرْتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّىٰكَ رَجُلًا
تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا
یہ آیت آدم علیہ السلام کے متعلق تو نہیں ھے
///
کیوں نہیں ہے ؟ بعض اوقات نام نہیں لیا جاتا لیکن سامع کے علم میں ہوتا ہے کس کا ذکر ہو رہا ہے
قرآن میں مکمل بحثوں کا احاطہ نہیں ہوتا بات کو مختصر کر کے وہ چیز بیان کر دی جاتی ہے جو بحث کا نچوڑ ہوتی ہے
ایسا قرآن میں بہت ہے
///////
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ ۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے
3-Al Imran : 59
اب یہاں پر آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ھے ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا
//////
نہیں آپ نے غلط سمجھا اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ عیسیٰ کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے الله تعالی نے آدم کے لئے کہا ہے کہ ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا
آدم کو مٹی سے خلق کیا پھر کہا کن
یہاں ایک بات مشترک ہے کہ آدم و عیسیٰ دونوں کن سے خلق ہوئے
مٹی کا پتلا آدم کا بنا – عیسیٰ کا نہیں- عیسیٰ کی تو روح کو ان کی ماں میں ڈال دیا گیا
اس بنا پر چونکہ یہ نطفہ کے بغیر ہوا ایک معجزہ ہو گیا
جزاک الله بھائی
آپ کے ساتھ متفق ہوں
الله تعالیٰ آپ کے علم میں
اور بھی زیادہ اضافہ کرے
آمین.
بھائی جو آپ نے جوابات دیئے
جن کے متعلق لکھا کہ یہ کتاب
اثبات عذاب قبر میں شامل کر
دوںگا. جب آپ شامل کردیں تب
کتاب کا لنک کمنٹ کر دینا مین کتاب
دوبارہ ڈونلوڈ کرونگا .
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/08/اثبات-عذاب-قبر-A5.pdf
اس کے صفحہ ٦٧ سے آگے اس کو شامل کر دیا ہے
جزاک الله_بھائی