امام مہدی کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہے – آپ نے بنو عباس کے دور میں خروج کیا اور قتل ہوئے انہی سے متعلق روایات کتب صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں وغیرہ اس پر تفصیلی کتاب کتب کے سیکشن میں موجود ہے -محمد المہدی کے بھائی ابراہیم تھے – محمد نے مدنیہ میں خروج کیا اور قتل ہوئے اور ان کے چند ایام بعد بصرہ میں ابراہیم بن عبد اللہ نے خروج کیا –
بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ فتنہ خروج امام المھدی میں مبتلا ہوئے – ابراہیم و محمد بن عبد اللہ المہدی کے حق میں شور و جدل کرتے تھے – اس کا ذکر ضعیف اسناد سے ہم تک پہنچا ہے -راقم کی تحقیق میں یہ قصے مخالفین کی گھرنٹ ہیں اس پروپیگنڈا سے بعض احناف بھی متاثر ہوئے ہیں
مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه از الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں ہے
قالَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ: حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى نُؤْتَى فَتُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا الْحِبَالُ، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَغَدَوْتُ أُرِيدُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَلَقِيتُهُ رَاكِبًا يُرِيدُ وَدَاعَ عِيسَى بْنِ مُوسَى قَدْ كَادَ وَجْهُهُ يَسْوَدُّ، فَقَدِمَ بَغْدَادَ فَأُدْخِلَ
عَلَى الْمَنْصُورِ
ابو نعیم نے کہا میں نے سنا زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ کہہ رہے تھے ابو حنیفہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے امر پر شدید بلند آواز میں بات کر رہے تھے پس میں (زفر ) نے کہا و اللہ آپ جو بھی خواہش کر لیں لیکن جب رسیاں گردنوں میں ڈالی جائیں گی تو ہماری گردنوں میں بھی ہوں گی- ابو نعیم نے کہا پس چند دن ہوئے میں ابو حنیفہ نے ملنا چاہا تو ان سے چلتے چلتے ملاقات ہو گی وہ عِيسَى بْنِ مُوسَى کو وداع کرنا چاہتے تھے ان کا چہرہ سیاہ ہو رہا تھا بغداد پہنچے اور منصور کے پاس گئے
راقم کہتا ہے یہ ابو نعیم کا کذب ہے جس کا ذکر محدثین نے کیا ہے کہ ابو نعیم احناف کی مخالفت میں قصے گھڑتا تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
وقال العباس بن مصعب: نعيم بن حماد الفارض وضع كُتُبًا في الرّدّ على أبي حنيفة،
العباس بن مصعب نے کہا نعیم بن حماد نے ابو حنیفہ کے رد میں کتاب بنائی
جزء فيه مسائل أبي جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن شيوخه في مسائل في الجرح والتعديل از أبو جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة العبسي مولاهم الكوفي (المتوفى: 297هـ) میں ہے کہ
وسمعت ابي يقول سالت ابا نعيم يا ابا نعيم من هؤلاء الذين تركتهم من اهل الكوفة كانو يرون السيف والخروج على السلطان فقال على رأسهم ابو حنيفة وكان مرجئا يرى السيف ثم قال ابو نعيم حدثني عمار بن رزيق قال كان ابو حنيفة يكتب الى ابراهيم بن عبد الله بالبصرة يساله القدوم الى الكوفة ويوعده نصره
محمد بن عثمان بن أبي شيبة نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ابو نعیم سے سوال کیا کہ اے ابو نعیم وہ کون ہیں جن کو اہل کوفہ نے اس پر ترک کر دیا کہ وہ لوگ تلوار نکالنے اور حاکم کے خروج کے قائل تھے ؟ پس ابو نعیم نے کہا ان کا سردار ابو حنیفہ تھا
اور یہ مرجئ تھا تلوار نکالنے والا پھر ابو نعیم نے کہا مجھ کو عمار بن رزيق نے روایت کیا کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ کو بصرہ کی طرف خط لکھ کر کوفہ انے کی دعوت دی اور اس کی مدد کا وعدہ کیا
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا قول ہے کہ یہ کذاب ہے – ابن خراش کا کہنا ہے کہ یہ كان يضع الحديث حدیث گھڑتا ہے- عمار بن رزيق پر أبو الفضل أحمد بن علي بن عمرو البيكندي البخاري کا کہنا ہے کہ یہ رافضی تھا اس کا ذکر الذھبی نے میزان میں کیا ہے- عمار کا قول بھی عجیب و غریب ہے -مرجئہ کے نزدیک ایمان ختم نہیں ہوتا اور یہ خوارج سے الگ تھے جن کے نزدیک ایمان ختم ہو جاتا ہے اسی وجہ سے خوارج اور بعض محدثین کے نزدیک گناہ کبیرہ والا حاکم قتل کیا جا سکتا ہے – عمار بن زریق کو بینادی معلومات نہیں ہیں کہ مرجئہ کا خروج پر موقف نہیں تھا
المعرفة والتاريخ 2/ 277. میں ہے
قال يعقوب بن سُفيان: سمعت محمد بن عبد الله بن نمير يذكر عن عمار بن رزيق، وكان من علماء أهل الكوفة. قال: إذا سئلت عن شيء فلم يبن عندك فانظر ما قال أبو حنيفة فخالفه فإنك تصيب
ابن نمیر نے عمار بن رزيق کا یعقوب بن سفیان سے ذکر کیا کہ اگر یہ تم سے کوئی سوال کرے جو سمجھ میں نہ آئے تو دیکھو ابو حنیفہ (اس مسئلہ میں ) کیا کہتے ہیں، پس اس (عمار) کی مخالفت کرو ، تم (مسئلہ کی) سمجھ پا لو گے
معلوم ہوا کہ اگر محمد بن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے جھوٹ نہیں بولا تو عمار بن زریق تعصب عصری میں اول فول بولتے رہتے تھے- تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
قَالَ خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ: صَلَّى إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِيدَ بِالنَّاسِ أَرْبَعًا، وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَهُشَيْمٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَلَمْ يَخْرُجْ مَعَهُ شُعْبَةُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يُجَاهِرُ فِي أَمْرِهِ وَيَأْمُرُ بِالْخُرُوجِ.
خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ نے کہا ابراھیم بن عبد اللہ نے عید کی بدھ کے دن لوگوں کے ساتھ عید کی اور اس کے ساتھ (محدثین میں سے ) اَبُو خَالِدٍ الأَحْمَر ، عِيسَى بْنُ يُونس عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، هُشَيْمٌ اور يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ تھے اور امام شُعْبَةُ نہ نکلے اور ابو حنیفہ کھلم کھلا اس کے امر میں بولتے اور اس کےساتھ خروج کا حکم کرتے تھے
اسی کتاب میں ہے
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ: خَرَجَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ خَلْقٌ، وَجَمِيعُ أَهْلِ وَاسِطٍ، وَابْنَا هُشَيْمٍ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَغَيْرُهُمْ.
واسط کے محدثین نے بھی ابراہیم کے ساتھ خروج کیا اور اس فتنہ میں مبتلا ہوئے
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَنا الْعَبَّاسُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أَبُو شيبَة قَالَ نَا بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ يَقُولُ سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ بِالْكَلامِ أَيَّامَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جِهَارًا شَدِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ أَوْ تُوضَعُ الْحِبَالُ فِي أَعْنَاقِنَا فَلَمْ نَلْبَثْ أَنْ جَاءَ كِتَابُ ابى حَفْص إِلَى عِيسَى بْنِ مُوسَى أَنِ احْمِلْ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى بَغْدَادَ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ فَرَأَيْتُهُ رَاكِبًا عَلَى بَغْلَةٍ وَقَدْ صَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ مسيح قَالَ فَحمل إِلَى بِبَغْدَاد فَعَاشَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا قَالَ فَيَقُولُونَ إِنَّهُ سَقَاهُ وَذَلِكَ فِي سَنَةِ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ وَمَاتَ أَبُو حنيفَة وَهُوَ ابْن سبعين سنة
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کذاب نے روایت کیا کہ زفر کہتے کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے دور میں شور کیا پس میں نے کہا جو خواہش کر لیں اللہ کی قسم رسی ہماری گردن میں ہو گی پس زیادہ نہ گذرا کہ ابو حفص کا خط گورنر عیسیٰ کے پاس آیا کہ ابو حنیفہ کو بغداد لاو پس ان کو تلاش کیا تو وہ اپنے خچر پر سوار چل رہے تھے اور ان کا چہرہ مسیح جیسا تھا پس ان کو بغداد لے جایا گیا وہاں پندرہ دن زندہ رہے- کہا کہتے ہیں ان کو (زہر) پلایا گیا اور یہ سن ١٥٠ ہجری تھا اور ابو حنیفہ کی وفات ہوئی وہ ستر سال کے تھے
راقم کہتا ہے سند میں بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ مجہول ہے اور یہاں ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ سے مسیح جیسا کر دیا گیا ہے
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ ونا أَبُو الْقَاسِم عبيد الله بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عِمْرَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ يَقُولُ إِنَّمَا كَانَ غَيْظُ الْمَنْصُورِ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ مَعَ مَعْرِفَتِهِ بِفَضْلِهِ أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ إِبْرَاهِيمُ بن عبد الله بْنِ حَسَنٍ بِالْبَصْرَةِ ذُكِرَ لَهُ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ وَالأَعْمَشَ يُخَاطِبَانِهِ مِنَ الْكُوفَةِ فَكَتَبَ الْمَنْصُورُ كِتَابَيْنِ عَلَى لِسَانِهِ أَحَدُهُمَا إِلَى الأَعْمَشِ وَالآخَرُ إِلَى أَبى حنيفَة من ابراهيم بن عبد الله بن حَسَنٍ وَبَعَثَ بِهِمَا مَعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ فَلَمَّا قَرَأَ الاعمش الْكتاب أَخَذَهُ مِنَ الرَّجُلِ وَقَرَأَهُ ثُمَّ قَامَ فَأَطْعَمَهُ الشَّاةَ وَالرَّجُلُ يَنْظُرُ فَقَالَ لَهُ مَا أَرَدْتَ بِهَذَا قَالَ قُلْ لَهُ أَنْتَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَأَنْتُمْ كُلُّكُمْ لَهُ أَحْبَابٌ وَالسَّلامُ وَأما أَبُو حنيفَة فَقبل الْكتاب وَأجَاب عَنهُ فَلم يزل فِي نَفْسِ أَبِي جَعْفَرٍ حَتَّى فَعَلَ بِهِ مَا فعل
بشر بن ولید نے کہا اس نے امام ابو یوسف کو کہتے سنا کہ خلیفہ منصور کو ابو حنیفہ پر غصہ آیا کہ وہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے ساتھ خروج میں کیوں نکلے اور ذکر کیا کہ ابو حنیفہ اور اعمش یہ کوفہ میں تقریر کرتے پس خلیفہ منصور نے ان کی زبان میں ان دونوں ابو حنیفہ اور اعمش کو لکھا
اس قول کی سند میں بشر بن الوليد بن خالد بن الوليد الكندى الفقيه المتوفی ٢٣٨ ھ پر کافی جرح بھی کتب میں موجود ہے
وكان شيخًا منحرفًا عن محمد بن الحسن
یہ امام محمد سے منحرف ہو گئے تھے
اور یہ مختلط بھی ہو گئے تھے
قال السليمانى: منكر الحديث. وقال الآجرى: سألت أبا داود: بشر بن الوليد ثقة؟ قال: لا
موسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة «من القرن الأول إلى المعاصرين مع دراسة لعقائدهم وشيء من طرائفهم» جمع وإعداد: وليد بن أحمد الحسين الزبيري، إياد بن عبد اللطيف القيسي، مصطفى بن قحطان الحبيب، بشير بن جواد القيسي، عماد بن محمد البغدادي میں محقق لکھتے ہیں
وإن العنوان الذي عنون به الخطيب لهذه الأخبار وهو: “ذكر ما حكي عن أبي حنيفة من رأيه في الخروج على السلطان”، فيه تهويل ومبالغة، وتعميم وإبهام فليس في الأخبار التي ساقها تحت هذا العنوان، ما يفيد أن أبا حنيفة كان يدعو للثورة على الخلفاء، أو أنه أعلن هذا، وجُلُّ ما في هذه الأخبار، أن أبا إسحاق الفزاري، ادعى أن أبا حنيفة أفتى أخاه في الخروج لمؤازرة إبراهيم بن عبد الله الطالبي عندما استفتاه في ذلك
خطیب بغدادی نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ ذکر اس حکایت کا کہ ابو حنیفہ کی سلطان کے خلاف خروج کی رائے تھی تو اس میں مبالغہ آمیزی اور عامیانہ پن اور ابہام ہے اور اس عنوان کے تحت جو ذکر کیا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس میں ہو کہ ابو حنیفہ نے خلفاء پر بدلہ لینے کی پکار کی ہو یا اس کا اعلان کیا ہو اور فی جملہ ان خبروں میں ہے کہ ابو اسحاق نے دعوی کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے اس کے بھائی کو ابراہیم بن عبد اللہ کی مدد کے لئے خروج کا فتوی دیا جب ان سے اس پر فتوی طلب کیا گیا
خطیب بغدادی کا حوالہ ہے
أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن سعيد الموصلي، قال: حدثنا الحسن بن الوضاح المؤدب، حدثنا مسلم بن أبي مسلم الحرقي، حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري والأوزاعي يقولان: ما وُلدَ في الإِسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة، وكان أبو حنيفة مرجئًا يرى السيف. قال لي يومًا: يا أبا إسحاق أين تسكن؟ قلت: المصيصة، قال: لو ذهبت حيث ذهب أخوك كان خيرًا. قال: وكان أخو أبي إسحاق خرج مع المبيضة على المسودة، فقتل
سند میں مسلم بن ابی مسلم الحرقي مجہول ہے