کہا جاتا ہے کہ ابو سعید الخدری کا قتل واقعہ حرہ میں ہوا – یہ ایک جھوٹی کہانی ہے – صحیح مسلم میں ہے
ترجمہ : قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوسعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ حرہ کی رات میں ابوسعید خدری (رض) کے پاس آئے اور ان سے مدینہ سے واپس چلے جانے کے بارے میں مشورہ طلب کیا اور شکایت کی کہ مدینہ میں مہنگائی بہت ہے اور ان کی عیال داری بال بچے زیادہ ہیں اور میں مدینہ کی مشقت اور اس کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرسکتا تو ابوسعید (رض) نے اس سے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے میں تجھے اس کا حکم (مشورہ) نہیں دوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اسی حال میں اس کی موت آجائے تو میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا جبکہ وہ مسلمان ہو
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ فتنہ حرہ کے وقت مدینہ سے مت جاؤ – ایک روایت میں اس کے برعکس بیان ہوا ہے کہ ابو سعید خود شامی فوج کو دیکھ ، مدینہ چھوڑ کر ایک غار میں چلے گئے ،جہاں ایک شامی ان کو قتل کرنے آیا اور پھر ڈانٹ پڑنے پر چلا گیا – ایسا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ مدینہ میں کوئی غار بھی نہیں ہے –
بہت سے اصحاب رسول کے نزدیک واقعہ حرہ ایک فساد تھا جس میں شرکت جائز نہیں تھی – ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو خاص تنبیہ کی کہ اس میں شرکت مت کرنا ، عبد اللہ بن مطیع کی بیعت مت کرنا – صحیح مسلم 296 میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ جَائَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ کَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا کَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِکَ لِأَجْلِسَ أَتَيْتُکَ لِأُحَدِّثَکَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابن محمد بن زید، زید بن محمد، نافع، عبداللہ بن عمر، نافع (رض) سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر (رض) نے کہا میں تمھارے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو تم کو حدیث بیان کر نے آیا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔
معلوم ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عبد اللہ بن مطیع جاہلیت کی موت مرا
صحیح بخاری ح ٤١٦٧ میں ہے
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے ان سے سلیمان بن بلال نے ان سے عمرو بن یحییٰ نے اور ان سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی میں لوگ عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ سے کس بات پر بیعت کی جا رہی ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ موت پر۔ ابن زید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔
البتہ یقینا جو ہوا وہ افسوسناک تھا – صحیح بخاری ح ٤٩٠٦ میں ہے
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی
طبرانی نے متعدد طرق سے نقل کرتے ہوئے کہا
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا علي بن حكيم الأودي . وحدثنا الحسين بن جعفر القتات الكوفي ثنا منجاب بن الحارث .وحدثنا أحمد بن عمرو القطراني ثنا محمد بن الطفيل ثنا شريك عن فطر بن خليفة عن حبيب بن أبي ثابت عن ابن عمر قال ما أجدني آسى على شيء إلا أني لم أقاتل الفئة الباغية مع علي
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ کسی پر افسوس نہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باغی گروہ سے قتال نہیں کرسکا [المعجم الكبير للطبراني 13/ 145]
الذھبی کا قول ہے فهذا منقطع [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 231]
أبو زيد عمر بن شبة (المتوفى 262) نے کہا
حدثنا أبو أحمد، حدثنا عبد الجبار بن العباس، عن أبي العنبس، عن أبي بكر بن أبي الجهم، قال: سمعت ابن عمر يقول: ما آسى على شيء إلا تركي قتال الفئة الباغية مع على
ابوبکر بن ابی الجھم نے کہا کہ میں نے ابن عمررضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ : مجھے اس سے زیادہ کسی پرافسوس نہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باغی گروہ سے قتال کرنے سےاجتناب کیا
[الإستيعاب لابن عبد البر: 3/ 953]
عبد الجبار بن العباس اس کی سند میں سخت مجروح ہے
صحیح قول یہ ہے کہ ابن عمر نے حرہ کے باغیوں سے قتال نہ کرنے پر افسوس کیا – سنن الکبری بیہقی میں ہے
حدثنا أبو عبد الله الحافظ إملاء حدثنا أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الزاهد حدثنا أحمد بن مهدى بن رستم حدثنا بشر بن شعيب بن أبى حمزة القرشى حدثنى أبى ح وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا الحجاج بن أبى منيع حدثنا جدى وحدثنا يعقوب حدثنى محمد بن يحيى بن إسماعيل عن ابن وهب عن يونس جميعا عن الزهرى وهذا لفظ حديث شعيب بن أبى حمزة عن الزهرى أخبرنى حمزة بن عبد الله بن عمر : أنه بينما هو جالس مع عبد الله بن عمر إذ جاءه رجل من أهل العراق فقال : يا أبا عبد الرحمن ….. فقال : ما وجدت فى نفسى من شىء من أمر هذه الأمة ما وجدت فى نفسى أنى لم أقاتل هذه الفئة الباغية كما أمرنى الله عز وجل زاد القطان فى روايته قال حمزة فقلنا له : ومن ترى الفئة الباغية؟ قال ابن عمر : ابن الزبير بغى على هؤلاء القوم فأخرجهم من ديارهم ونكث عهدهم
ابن عمر نے کہا اس امت کے معاملات میں سے کسی معاملہ پرمجھے اتنا افسوس نہیں ہواجنتا اس بات پرافسوس ہوا کہ میں نے اس ( حرہ کی ) باغی جماعت سے قتال کیوں نہیں کیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے- حسین بن القطان نے مزید بیان کیا کہ :حمزہ نے کہا: ہم نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کس کو باغی جماعت سمجھتے ہیں؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن زبیر نے قوم سے بغاوت کی ہے -ان ( مدینہ والوں) کو ان کے گھروں سے نکال دیا ،کیا گیا عہد توڑ دیا (یعنی بیعت توڑ دی)
الذھبی کے بقول ابن عمر کے نزدیک ابن زبیر باغی تھے نہ کہ حجاج و یزید جیسا بعض راویوں کا گمان تھا