بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ حق واضح کر کے اتمام حجت کر رہے ہیں – راقم کہتا ہے اتمام حجت قرآن سے ہو چکا ہے، قرآن کی دنیا میں موجودگی کی وجہ سے اتمام حجت مسلسل ہو رہا ہے – جس نے قرآن سے دلیل لی تو قرآن حجت ہے لیکن کسی فرد کا یہ دعوی کہ وہ اتمام حجت کر رہا ہے درست موقف نہیں ہے
اتمام حجت لغوی طور پر ہے دلیل مکمل ہونا ہے – اصطلاحا اس کا ذکر انبیاء و رسل کے حوالے سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں پر اتمام حجت کر دیا اور اس کے بعد ان کی قوم یا تو ایمان لائی یا فنا ہو گئی – یہ الله کی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے اس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے کہ عذاب کا عمل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک انبیاء اپنی قوموں کے بیچ ہوتے ہیں اور اس میں آسمانی عذاب یا زمینی جنگ سب ہو سکتا ہے-
سوره فاطر میں ہے
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا (42) اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (43) أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
اب اس سے منسلک بعض اور مباحث بھی ہیں- ورہ الاسراء میں ہے
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
أور هم عذاب نہیں کرتے یہاں تک نہ رسول نہ بھیج دیں
اول: بعض انبیاء کی قوموں کو معدوم کر دیا گیا کہ ان کی خبر تک نہیں کیونکہ وہ بیشتر کافر تھیں – وہ قومیں جو مکمل معدوم هو گئیں وہ وہ تھیں جن میں ایمان والے صرف چند لوگ تھے مثلا قوم نوح یا قوم ثمود یا عاد مکمل تباہ ہو گئیں- ان پر عذاب شدید آیا جس نے ان کی نسل کاٹ دی – قرآن میں اس کو جڑ کاٹنا کہا گیا ہے – سوره الانعام میں ہے
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پس ہم نے اس ظالموں کی قوم کی جڑ کاٹ دی اور تمام تعریف عالموں کے رب کی ہے
دوم : بعض انبیاء کی قوموں کو باقی بھی رکھا گیا مثلا بنی اسرائیل انبیاء کا قتل کرتے رہے لیکن باقی رہے کیونکہ ان میں ربانیین موجود تھے جو اللہ کی مغفرت طلب کرتے رہے – بنی اسرائیل کو باقی رکھا گیا کیونکہ یہ حامل کتاب الله قومیں تھیں ان میں تمام کافر نہ تھے مومن بھی تھے- بنی اسرائیل معدوم نہ ہوئے لیکن اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے – ان پر عذاب ان پر آیا جس میں ان کو غلام بنا لیا گیا
بعض لوگوں نے تطبیق کے لئے یہ رائے اختیار کی کہ نبی اور رسول میں فرق ہے – لیکن راقم اس رائے سے متفق نہیں ہے
حجت کیا ہے؟
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهِيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
[سورة الأنعام (6) : آية ٨٢]
دعوت اس طرح دی جائے کہ صحیح و غلط عقائد کا فرق واضح ہو جائے اور مخالف کا عقیدہ مشرکانہ ثابت ہو جائے تو یہ حجت ہے – مثلا ظلم یا شرک ، مشرک قوموں نے کیا لیکن اس کو گناہ سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ نیکی سمجھتے ہوئے – اس میں انبیاء و رسل اور فرشتوں کا وسیلہ لینے والے مشرکین مکہ ہوں یا کواکب پرست ابراہیم علیہ السلام کی قوم ہو- ان سب پر اتمام حجت ہوا اور دلیل سے ثابت کیا گیا کہ یہ شرک کر رہے ہیں جو قوم مان بھی گئی اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں بلکہ توجیہ کی – آپ نے پڑھا ہو گا جب ابراہیم عليه ألسلام نے تمام اصنام کو توڑ کر ایک صنم چھوڑ دیا اور قوم سے کہا اس سے کلام کرو تو اس وقت کا سورہ انبیاء میں اس طرح ذکر ہے
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ
کہا یہ ان بتوں کے سب سے بڑے بت کا کام ہے ، اس سے پوچھو اگر یہ جواب دے ، پس وہ اپنے نفس کی طرف پلٹے اور (ایک دوسرے کو ) کہنے لگے تم لوگ ظالم ہو
قوم مان گئی کہ وہ مشرک ہے- یہ اتمام حجت ہوا – یہ ابراھیم علیہ السلام نے کیا
یہی اتمام حجت نبی صلی الله علیہ وسلم نے مکہ والوں پر کیا – مشرکین نے اقرار کیا (سورہ الزمر)
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
ہم ان کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں کہ قرب الہی حاصل ہو- یہ اتمام حجت ہوا- انبیاء نے مخالف کو مشرک ثابت کر دیا جس کا اقرار قوم نہیں کر رہی تھی
یہاں اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے – انبیاء کو ان کو قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے – قوم میں سب کافر ہوتے ہیں پھر کچھ ایمان لاتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں وہ قوم نہیں امت کہلاتے ہیں-اتمام حجت قوم پر ہوتا ہے امت پر نہیں-
امت سے مراد اہل قبلہ ہیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقے آتے ہیں لیکن ان میں بھی وقت کے ساتھ شرک کی تحلیل ہو جاتی ہے لہذا امت موسی میں آج یہودی ہیں اور امت عیسیٰ میں آج نصرانی ہیں اور امت محمد میں اس کے تمام فرقے ہیں – اتمام حجت انبیاء کر چکے اپنی اپنی قوموں پر اور قرآن کتاب الله سے انسانیت پر اب قیامت تک کے لئے اتمام حجت ہو چکا- حق ہم تک آ گیا ہے لہذا اب ہم قرآن پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ صحیح عقیدہ کیا ہے -کیا کوئی غلط عقیدہ تو اختیار نہیں کر رکھا – یہ اتمام حجت نہیں اصلاح عقائد ہے
سورہ انبیاء میں ہے
قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَآءَ لَـهَدَاكُمْ اَجْـمَعِيْنَ (149)
کہہ دو پس اللہ کی حجت پوری ہو چکی، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔
قرآن میں ربانی اہل کتاب کا ذکر ہے یہ انبیاء نہیں تھے – دور فترت میں جب کوئی نبی نہیں تھا یعنی عیسیٰ اور محمد صلی الله علیھما کے درمیان کا دور تھا – اس وقت لوگ توریت و انجیل اگرچہ تبدیل شدہ تھی لیکن غور سے پڑھنے کی وجہ سے وہ صحیح عقیدہ رکھتے تھے جان چکے تھے کہ دین حق کو کہاں تبدیل کر دیا گیا ہے
ایک روایت میں ہے کہ قرآن تیرے لئے حجت ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ – أَوْ تَمْلَأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا»
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان الله اور الحمد لله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض ) اپنا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو خود آزاد کرنےوالا ہوتا ہے خود کو تباہ کرنے والا ۔
یہ روایت ضعیف ہے سند میں سلام بن أبى سلام : ممطور ، الحبشى الشامى ہے جس کو مجھول کہا جاتا ہے اور اسکا سماع ابی مالک رضی الله عنہ سے نہیں ہے – ممطور أبو سلام الحبشي روى عن حذيفة وأبي مالك الأشعري وذلك في صحيح مسلم وقال الدارقطني لم يسمع منهما
دارقطنی کہتے ہیں اس کا سماع نہیں ہے
البتہ یہ متنا صحیح ہے انسانیت پر کتاب الله کی بنا پر حجت تمام ہو چکی جو آخری نبی صلی الله علیہ وسلم نے کی ہے
افسوس مسلک پرستوں نے قرآن کے خلاف موقف گھڑ لیا ہے کہ اتمام حجت افراد کا کام ہے – صرف آسمان سے کتاب اللہ نازل ہونے پر اتمام حجت نہیں ہوا ہے