قرآن میں بعض واقعات کا ذکر ہے جن کی صحیح تعبیر کا علم نہیں دیا گیا مثلا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جب سلیمان نے سوال کیا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا عرش یہاں یروشلم میں لے آئے تو
قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين
قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كري
عفریت میں سے ایک نے کہا میں لاتا ہوں اس سے پہلے کہ یہ اجلاس برخاست ہو اس پر ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو پلک جھپکتے میں ہی لاتا ہوں اور یکایک عرش اہل دربار کے سامنے تھا – سلیمان نے اس پر الله کا شکر ادا کیا
مقصد یہ تھا کہ جنات کی قوت کو انسانی علم سے کم تر کیا گیا کہ اگرچہ جنات میں قوت ہے لیکن انسانوں کی طرح علم مکمل نہیں ہے انسان علم میں ان سے بڑھ کر ہیں- ان کے مقابلے پر سرکش جنات کا علم اصل میں سحر و کہانت ہے جس میں انسانوں میں سے بعض ان کی مدد حاصل کرتے ہیں اور یہ شیطانی علوم ہیں
سوره النمل كي اس آیت کی مختلف فرقوں نے تاویلات کی ہیں
اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، دونوں اپنی تفسیروں میں ایک شخصیت آصف بن برخیا کا ذکر کرتے ہیں
اہل تشیع کی آراء
سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ
محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم
شريس الوابشي نے جابر سے انہوں نے ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کیا کہ
الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے اصف نے صرف ایک حرف کو ادا کیا تھا کہ اسکے اور ملکہ بلقیس کے عرش کے درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا. ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتتر ٧٢ حروف ہیں . الله نے بس علم غیب میں ہم سے ایک حرف پوشیدہ رکھا ہے
کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے
وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.
فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.
فقلت: صدقت والله جعلت فداك
ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا پس انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43 اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب
تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق
عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين
ابی عبد الله سے روایت ہے کہ قال الذي عنده علم الكتاب یہ امیر المومنین (علی) ہیں
کہتے ہیں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس شخص کا نام اصف بن برخیا تھا یعنی علی کرم الله وجھہ اس دور میں اصف بن برخیا کی شکل میں تھے
اٹھارہ ذی الحجہ یعنی عید الغدیر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کتاب السرائر – ابن إدريس الحلي – ج 1 – ص 418 میں لکھتے ہیں
وفيه أشهد سليمان بن داود سائر رعيته على استخلاف آصف بن برخيا وصيه ، وهو يوم عظيم ، كثير البركات
اور اس روز سلیمان بن داود اور تمام عوام کو اصف بن برخیا کی خلافت کی وصیت کی اور وہ دن بہت عظیم اور بڑی برکت والا ہے
کتاب الإمامة والتبصرة از ابن بابويه القمي میں نے اصف کی خلافت کا ذکر کیا ہے
کتاب الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 487 – 488 میں اور كمال الدين وتمام النعمة از الشيخ الصدوق ص ٢١٢ میں ہے
وأوصى داود ( عليه السلام ) إلى سليمان ( عليه السلام ) ، وأوصى سليمان ( عليه السلام ) إلى آصف بن برخيا ، وأوصى آصف بن برخيا إلى زكريا ( عليه السلام
اور داود نے سلیمان علیہ السلام کی وصیت کی اور سلیمان نے اصف بن برخیا کی وصیت کی اور اصف بن برخیا نے زکریا علیہ السلام کی وصیت کی
کتاب تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص 476 – 478 کے مطابق يحيى بن أكثم نے علی بن محمد الباقر سے سوال کیا
قلت : كتب يسألني عن قول الله : ” قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك ” نبي الله كان محتاجا إلى علم آصف ؟
میں يحيى بن أكثم نے پوچھا : (میرے نصیب میں ) لکھا ہے کہ میں سوال کروں گا اللہ کے قول قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك پر کہ الله کا نبی کیا اصف کا محتاج تھا ؟
امام الباقر نے جواب دیا
سألت : عن قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب ” فهو آصف بن برخيا ولم يعجز سليمان عليه السلام عن معرفة ما عرف آصف لكنه صلوات الله عليه أحب أن يعرف أمته من الجن والإنس أنه الحجة من بعده ، وذلك من علم سليمان عليه السلام أودعه عند آصف بأمر الله ، ففهمه ذلك لئلا يختلف عليه في إمامته ودلالته كما فهم سليمان عليه السلام في حياة داود عليه السلام لتعرف نبوته وإمامته من بعده لتأكد الحجة على الخلق
تم نے سوال کیا کہ قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب پر تو وہ اصف بن برخیا ہیں اور سلیمان عاجز نہیں تھے اس معرفت میں جو اصف کو حاصل تھی لیکن آپ صلوات الله عليه نے اس کو پسند کیا کہ اپنی جن و انس کی امت پر اس کو حجت بنا دیں اس کے بعد اور یہ سلیمان کا علم تھا جو اصف کو ان سے عطا ہوا تھا- اس کا فہم دینا تھا کہ بعد میں امامت و دلالت پر کہیں (بنو اسرائیل) اختلاف نہ کریں جیسا ان سلیمان کے لئے داود کی زندگی میں (لوگوں کا ) فہم تھا کہ انکی نبوت و امامت کو مانتے تھے تاکہ خلق پر حجت کی تاکید ہو جائے
یعنی آصف اصل میں سلیمان علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کو تھے تو ان کو ایک علم دیا گیا تاکہ عوام میں ان کی دھاک بٹھا دی جائے اور بعد میں کوئی اس پر اختلاف نہ کر سکے
کتاب مستدرك الوسائل – الميرزا النوري الطبرسی – ج 13 – ص 105 میں ہے کہ
العياشي في تفسيره : عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : ” لما هلك سليمان ، وضع إبليس السحر ، ثم كتبه في كتاب وطواه وكتب على ظهره : هذا ما وضع آصف بن برخيا للملك سليمان بن داود ( عليهما السلام ) من ذخائر كنوز العلم ، من أراد كذا وكذا فليقل كذا وكذا ، ثم دفنه تحت السرير ، ثم استثاره لهم ، فقال الكافرون : ما كان يغلبنا سليمان الا بهذا ، وقال المؤمنون : هو عبد الله ونبيه ، فقال الله في كتابه : ( واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان ) اي : السحر
العياشي اپنی تفسیر میں کہتے ہیں عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) سے کہ امام ابی جعفر نے کہا جب سلیمان ہلاک ہوئے تو ابلیس نے سحر لیا اور ایک کتاب لکھی ..(اور لوگوں کو ورغلایا). یہ وہ کتاب تھی جو اصف کو سلیمان سے حاصل ہوئی جو علم کا خزانہ ہے جو اس میں یہ اور یہ کہے اس کو یہ یہ ملے گا پھر اس سحر کی کتاب کو تخت کے نیچے دفن کر دیا پھر اس کو (دھوکہ دینے کے لئے واپس) نکالا اور کافروں نے کہا ہم پر سلیمان غالب نہیں آ سکتا تھا سوائے اس (جادو) کے (زور سے) اور ایمان والوں نے کہا وہ تو الله کے نبی تھے پس الله نے اپنی کتاب میں کہا اور لگے وہ (یہود) اس علم کے پیچھے جو شیاطین ملک سلیمان کے بارے میں پڑھتے تھے یعنی جادو
یعنی شیعوں کے نزدیک اصف بن برخیا اصل میں سلیمان علیہ السلام کے امام بنے اور وہ ایک خاص علم رکھتے تھے بعض کے نزدیک علی رضی الله عنہ ہی تھے اور اس دور میں وہ اصف بن بر خیا کہلاتے تھے یہاں تک کہ اصف نے مریم علیہ السلام کے کفیل زکریا علیہ السلام کے وصی ہونے کی وصیت کی گویا اصف کئی ہزار سال تک زندہ ہی تھے پتا نہیں شیعوں کے نزدیک اب وفات ہو گئی یا نہیں
اہل سنت کی آراء
تفسیر السمرقندي یا تفسير بحر العلوم أز أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) میں ہے
ويقال: إن آصف بن برخيا لما أراد أن يأتي بعرش بلقيس إلى سليمان- عليه السلام- دعا بقوله يا حي يا قيوم- ويقال: إن بني إسرائيل، سألوا موسى- عليه السلام- عن اسم الله الأعظم فقال لهم: قولوا اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-
اور کہا جاتا ہے جب اصف بن برخیا نے بلقیس کا عرش سلیمان کے پاس لانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا يا حي يا قيوم- اور کہا جاتا ہے نبی اسرئیل نے موسی سے اسم الأعظم کا سوال کیا تو ان سے موسی نے کہا کہو اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-
تفسیر القرطبی میں ہے
وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ الَّذِي دَعَا بِهِ آصَفُ بْنُ بَرْخِيَا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ” قِيلَ: وَهُوَ بِلِسَانِهِمْ، أَهَيَا شَرَاهِيَا
اور عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ اسم اللَّهِ الْأَعْظَمَ جس سے اصف نے دعا کی وہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ہے ان کی زبان میں تھا َاهَيَا شَرَاهِيَا
اهَيَا شَرَاهِيَا کا ذکر شوکانی کی فتح القدیر اور تفسیر الرازی میں بھی ہے
اس سے قطع النظر کہ وہ الفاظ کیا تھے جو بولے گئے جو بات قابل غور ہے وہ اصف بن برخیا کا ذکر ہے جو اہل سنت کی کتب میں بھی ہے
صوفیاء نے اس آیت سے ولی کا تصور نکالا کہ ولی نبی سے بڑھ کر ہے اور محی الدین ابن العربی کی کتب میں اس قول کو بیان کیا گیا اور صوفیاء میں اس کو تلقہا بالقبول کا درجہ حاصل ہوا
پردہ اٹھتا ہے
اصف بن برخیا کا کردار اصلا یمنی یہودیوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اغلبا عبد الله ابن سبا سے ہم کو ملا ہے اگرچہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اصل میں چکر کچھ اور ہی ہے
اصف بن برخیا کا ذکر بائبل کی کتاب تواریخ میں ہے
Asaph the son of Berechiah, son of Shimea
اس نام کا ایک شخص اصل میں غلام بنا جب اشوریوں نے مملکت اسرایل پر حملہ کیا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد نبی اسرائیل میں پھوٹ پڑی اور ان کی مملکت دو میں تقسیم ہو گئی ایک شمال میں تھی جس کو اسرئیل کہا جاتا تھا اور دوسری جنوب میں تھی جس میں یروشلم تھا اور اس کو یہودا کہا جاتا تھا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد ختم ہونے والی ان دو ریاستوں میں بادشاہت رہی اور کہیں بھی اتنی طویل مدت تک زندہ رہنے والے شخص کا ذکر ملتا
سلیمان علیہ السلام (وفات ١٠٢٢ ق م) کے بعد ان کے بیٹے رهوبم خلیفہ ہوئے اور اس کے بعد مملکت دو حصوں میں ٹوٹ گئی جس میں شمالی سلطنت کو ٧١٩ قبل مسیح میں اشوریوں نے تباہ کیا – یعنی مفسرین کے مطابق ٣٠٣ سال بعد جب اشوریوں نے غلام بنایا تو ان میں سلیمان کے درباری اصف بن برخیا بھی تھے جو ایک عجیب بات ہے
شمال میں اسرائیل میں دان اور نفتالی کے یہودی قبائل رہتے تھے جو اشوریوں کے حملے کےبعد یمن منتقل ہوئے اور بعض وسطی ایشیا میں آرمینیا وغیرہ میں – دان اور نفتالی قبائل کا رشتہ اصف بن برخیا سے تھا کیونکہ وہ مملکت اسرئیل کا تھا اور وہیں سے غلام بنا اور چونکہ یہ ایک اہم شخصیت ہو گا اسی وجہ سے اس کے غلام بننے کا خاص طور پر بائبل کی کتاب میں ذکر ہے-
ابن سبا بھی یمن کا ایک یہودی تھا جو شاید انہی قبائل سے ہو گا جن کا تعلق دان و نفتالی قبائل سے تھا- پر لطف بات ہے کہ ان میں سے ایک قبیلے کا نشان ترازو تھا اور عدل کو اہمیت دیتا تھا جو ان کے مطابق توحید کے بعد سب سے اہم رکن تھا – شمال میں امراء پر جھگڑا رہتا تھا اور ان پر قاضی حکومت کرتے تھے ایک مرکزی حکومت نہیں تھی یہاں تک کہ آج تک ان کے شہر کو
Tel Dan
یا
Tel Qadi
کہا جاتا ہے
یعنی اس قبیلہ میں امراء کے خلاف زہر اگلنا اور عدل کو توحید کے بعد سب سے اہم سمجھنا پہلے سے موجود ہے اور ابن سبا نے انہی فطری اجزا کو جمع کیا اور اس پر مصر میں اپنا سیاسی منشور مرتب کیا
اهَيَا شَرَاهِيَا بھی اصلا عبرانی الفاظ ہیں جو یمنی یہودیوں نے اصف سے منسوب کیے اور یہ توریت سے لئے گئے جس میں موسی علیہ السلام اور الله تعالی کا مکالمہ درج ہے – توریت کا یہ حصہ یقینا موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا ہے کیونکہ اصلی توریت میں احکام درج تھے لہذا اهَيَا شَرَاهِيَا کو اصلا الحی القیوم کہنا راقم کے نزدیک ثابت نہیں ہے
اصف بن بر خیا اصل میں یہود کی جادو کی کتب کا راوی ہے اور اس سے منسوب ایک کتاب کتاب الاجنس ہے جس میں انبیاء پر جادو کی تہمت ہے اس قسم کے لوگ جن پر اشوری قہر الہی بن کر ٹوٹے ان کو مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کا درباری بنا کر ایک طرح سے جادو کی کتاب کے اس راوی کی ثقاہت قبول کر لی
بائبل ہی میں یہ بھی ہے کہ اصف نام کا ایک شخص داود علیہ السلام کے دور میں ہیکل میں موسیقی کا ماہر تھا – کتاب سلاطین میں پہلے ہیکل میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں جبکہ کتاب تواریخ میں اس کا ذکر ہے لہذا اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ موسیقی کا عبادت میں دخل بعد میں کیا گیا ہے جو اغلبا عزیر اور نحمیاہ نے کیا ہو گا اور انہوں نے جگہ جگہ اصف کا حوالہ موسیقی کے حوالے سے شامل کیا
داود علیہ السلام اسلامی روایات کے مطابق موسیقی اور سازوں کی مدد سے عبادت نہیں کرتے تھے یہ یقینا اہل کتاب کا اپنے دین میں اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے اصف نام کا ایک شخص گھڑا جو موسیقار تھا اور مسجد سلیمان ہر وقت موسیقی سے گونجتی رہنے کا انہوں نے دعوی کیا اور اس کو سند دینے کے لئے اصف کو پروہتوں کے قبیلہ لاوی سے بتایا پھر اس کی مدت عمر کو اتنا طویل کہا کہ وہ داود و سلیمان سے ہوتا ہوا اشوریوں کا قیدی تک بنا
یہ سب داستان بائبل کی مختلف کتب میں ہے جس کو ملا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے
اسلامی کتب میں الفہرست ابن ندیم میں بھی اس کا ذکر ہے یہاں بات کو بدل دیا ہے
وكان يكتب لسليمان بن داود آصف بن برخيا
اور اصف بن برخیا سلیمان کے لئے لکھتے تھے
یعنی اصف بن بر خیا ایک کاتب تھے نہ کہ موسیقار
اصف کو یہود ایک طبیب بھی کہتے ہیں اور اس سے منسوب ایک کتاب سفرریفوط ہے جس میں بیماریوں کا ذکر ہے
زبور کی مندرجہ ذیل ابیات کو اصف کی ابیات کہا جاتا ہے
Asaph Psalm 50, 73, 74,75,76,77,78,79,80,81,82,83
گویا خود یہود کے اس پر اتنے اقوال ہیں کہ اس کی شخصیت خود ان پر واضح نہیں
Agr as ki haqeeqat abhi tak wazih nahin to as ki tahreer kis tarah wazih ho gee.