عقائد کا قرآن و حدیث سے استخراج کرتے وقت خبر عام ہے یا خاص کا خیال رکھا جاتا ہے یہ اصول نہایت منطقی ہے جس سے قرآن کی بعض باہم مخالف آیات کی تشریح و تطبیق کی جاتی ہے
گمراہ عقائد کو کشید کرنے کے لئے قرآن کے نصوص کو رد کر کے ان میں باہم اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا قرآن کے مطابق روح کے جسم سے خروج کے بعد اس کا امساک کیا جاتا ہے یعنی روک لیا جاتا ہے (سوره الزمر اور سوره الانعام) اس کے برعکس حیات فی القبر کا عقیدہ اس امت کے گمراہ فرقوں نے اختیار کیا ہوا ہے جس میں مردہ میں عود روح کروایا جاتا ہے اس کو استثنیٰ قرار دے کر ایک خاص بات کہا جاتا ہے پھر اس کو تمام مردوں پر عام کر دیا جاتا ہے
اسی طرح سماع الموتی کے مسئلہ میں بھی زبردستی ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہا کی آراء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ گویا بعض کو صحیح عقیدہ پتا نہیں تھا اس طرح اصحاب رسول اور امہات المومنین کو مختلف العقائد بتایا جاتا ہے جبکہ اصول جو قرآن میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ و ما یستوی الاحیاء و الاموات ان الله یسمع من یشاء کہ مردہ زندہ برابر نہیں الله جس کو چاہے سنوائے- اس کے بعد تمام مردوں میں زبردستی ایک عجیب حیات کا بزعم خود دعوی کیا جاتا ہے جس میں وہ دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں اور ان سے مانوس بھی ہوتے ہیں
قرآن کے عموم و خصوص میں التباس پیدا کر کے، قبر پرستی پر سند جواز دینے کے بعد، معصوم بن کر ان لا علم لوگوں پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جو بعض محدثین کے منہج پر قبروں سے فیض جاصل کر رہے ہیں مثلا
محدث ابن حبان طوس جاتے ہیں اور قبر سے فیض لیتے ہیں – ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں
وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا
[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]
ابن کثیر سوره التوبہ کی تفسیر میں فوت شدہ رشتہ داروں پر زندوں کا عمل پیش ہونا لکھتے ہیں جبکہ قرآن میں کہیں یہ عقیدہ نہیں ابن کثیر تفسیر میں کہتے ہیں
قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ
بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں
ابن قیم کہتے ہیں سلف اس پر جمع ہیں کہ میت زائر سے خوش ہوتی ہے اور روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے کتاب الروح
ابن تیمیہ عقیدہ رکھتے ہیں قبر سے اذان سنی جا سکتی ہے اور میت قرات سنتی ہے
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
افسوس علماء ہی نے ان عقائد کو پھیلایا جو تھے ہی غلط اور غیر ثابت – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر توبہ کرتے لیکن اسلاف پرستی میں ان سند یافتہ علماء نے اپنی خو الگ ہی ڈالی اور لگے ان شخصیات اور ناموں کا دفاع کرنے اور اپنے تعلی و علمیت کا رعب بٹھانے
عقائد میں اضطراب کو دور کرنے کے لئے اصول و خاص کی بحث بہت اہم ہے جو اصول و فقہ کی کتب میں ہے – کتاب منهج علماء الحديث والسنة في أصول الدين از مصطفى محمد حلمي الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى – 1426 هـ قرآن کے عموم و خصوص پر لکھتے ہیں
فأنزل الله عز وجل القرآن على أربعة أخبار خاصة وعامة (1) .
فمنها: 1 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] وقوله: (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59] ثم قال: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] والناس اسم يجمع آدم وعيسى وما بينهما وما بعدهما فعقل المؤمنون عن الله عز وجل أنه لم يعن آدم وعيسى لأنه قدم خبر خلقهما.
پس اللہ عز و جل نے چار قسم کی خاص و عام خبریں قرآن میں دیں جن میں ہیں
خبر جو خصوص سے نکلے اور اس کا معنی بھی مخصوص ہو اور یہ ہے الله تعالی کا قول (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] میں گیلی مٹی سے ایک بشر خلق کر رہا ہوں اور الله تعالی کا قول (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59] بے شک عیسی کی مثال الله کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی – پھر کہا (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] اے لوگوں ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا اور الناس میں آدم و عیسی جمع ہو گئے اور ان کے درمیان اور بعد والے انسان پس مومن تعقل کرتے ہیں کہ آدم و عیسی کو (مرد و عورت سے تخلیق میں) شمار نہیں کیا گیا کیونکہ انکی تخلیق کی خبر دی گئی
2 خبر مخرجه مخرج العموم ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156] فعقل عن الله أنه لم يعن إبليس فيمن تسعه الرحمة لما تقدم فيه من الخبر الخاص قبل ذلك وهو قوله: (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] فصار معنى ذلك الخبر العام خاصًا لخروج إبليس ومن تبعه من سعة رحمة الله التي وسعت كل شيء.
خبر جو عموم سے نکلے اور اس کا معنی مخصوص ہو اور یہ الله تعالی کا قول ہے (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156] میری رحمت ہر شی پر پھیلی ہے پس یہ الله کا مقصد ہے کہ اس میں ابلیس کو شمار نہیں کیا گیا جس کو رحمت سے الگ کیا ہے جیسا کہ اسکی خبر خاص دی پہلے (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] بلاشبہ میں جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ،سب کو! پس یہ خبر معنا عام ہے خاص ابلیس کا خروج ہے اور جو اس کی اتبآع کریں انکو اس رحمت سے الگ کیا جو چیز پر چھائی ہے
3 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى العموم وهو قوله: (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] ، فكان مخرجه خاصًا ومعناه عامًا.
خبر جو نکلی ہے خصوص سے اور اسکا معنی عموم ہے اور الله تعالی کا قول ہے (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] اور بے شک وہ الشِّعْرَى کا رب ہے پس یہ خاص خبر ہے لیکن اس کا معنی عام ہے
4- خبر مخرجه العموم ومعناه العموم.
فهذه الأربعة الأخبار خص الله العرب بفهمها ومعرفة معانيها وألفاظها وخصوصها وعمومها والخطاب بها، ثم لم يدعها اشتباهاً على خلقه وفيها بيان ظاهر لا يخفى على من تدبره من غير العرب ممن يعرف الخاص والعام،
خبر جو عموم سے ملی اور معنی بھی عام ہے
پس ان چار خبروں سے الله تعالی نے عربوں کا فہم ، معنوں کی معرفت، الفاظ اور اس کا خصوص و عموم اور خطاب خاص کیا پھر اس میں اشتباہ مخلوق کے لئے نہیں رہا اور اس کا بیان غیر عرب پر ظاہر ہے جو اس میں تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں جو خاص و عام کو جانتے ہیں
الغرض تمام مردے نہیں سنتے الله جس کو چاہتا سنواتا ہے جیسا قلیب بدر میں ہوا اسی طرح عود روح صرف ان لوگوں کا ہوا جو موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور عذاب کا شکار ہوئے یا جن کو عیسی علیہ السلام نے واپس زندہ کیا اس کے علاوہ کوئی اور خبر قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے
jazakullah