صحيح بخاري ميں ہے وفات النبي پر عمر رضي اللہ عنہ جذباتي ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبي زندہ ہيں صريح الفاظ ميں انہوں
نے کہا
وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اللہ کي قسم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم مرے نہيں ہيں
يہ قول حياتي ديوبنديوں جيسا تھا جن کا قول ہے کہ وفات النبي ميں روح جسم سے نہيں نکالي گئي بلکہ روح النبي قلب اطہر ميں سمٹ گئي
– اس عقيدے کا ذکر قاسم نانوتوي صاحب نے کتاب آب حيات ميں کيا ہے
اس کے بعد ابو بکر رضي اللہ عنہ تشريف لائے اور فرمايا
لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي
صحيح ابن حبان اور مسند احمد ميں ہے
لَقَدْ مُتَّ الْمَوْتَةَ الَّتِي لا تَمُوتُ بَعْدَهَا
بے شک ان کي موت نے ان کو مار ديا اب اس کے بعد موت نہيں
اللہ کا شکر ہے کہ ہم تک ابو بکر رضي اللہ عنہ کا قول پہنچ گيا – ابو بکر رضي اللہ کے الفاظ ضرب کاري تھے ان تمام آنے والے فرقوں کے لئے جو آخري نبي و رسول کو قبر ميں زندہ کہتے ہيں – ابو بکر کا قول ان فرقوں کے گلے ميں زقوم کي طرح اٹک گيا
ابن حجر فتح الباري ميں ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہيں
وَأَشَدُّ مَا فِيهِ إِشْكَالًا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ وَعَنْهُ أَجْوِبَةٌ فَقِيلَ هُوَ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَأَشَارَ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ سَيَحْيَا فَيَقْطَعُ أَيْدِي رِجَالٍ لِأَنَّهُ لَوْ صَحَّ ذَلِكَ لَلَزِمَ أَنْ يَمُوتَ مَوْتَةً أُخْرَى فَأَخْبَرَ أَنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَجْمَعَ عَلَيْهِ مَوْتَتَيْنِ كَمَا جَمَعَهُمَا عَلَى غَيْرِهِ كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ وَكَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهَذَا أَوْضَحُ الْأَجْوِبَةِ وَأَسْلَمُهَا وَقِيلَ أَرَادَ لَا يَمُوتُ مَوْتَةً أُخْرَى فِي الْقَبْرِ كَغَيْرِهِ إِذْ يحيا ليسئل ثُمَّ يَمُوتُ وَهَذَا جَوَابُ الدَّاوُدِيِّوَقِيلَ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ مَوْتَ نَفْسِكَ وَمَوْتَ شَرِيعَتِكَ وَقِيلَ كَنَّى بِالْمَوْتِ الثَّانِي عَنِ الْكَرْبِ أَيْ لَا تَلْقَى بَعْدَ كَرْبِ هَذَا الْمَوْتِ كَرْبًا آخَرَ ثَانِيهَا
اور سب سے شديد اشکال ابو بکر کے قول ميں ہے کہ اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا اور اس اشکال کا جواب ہے کہ کہا گيا ہے يہ جمع موت نہ ہونا حقيقت کے بارے ميں ہے اور اس کي طرف اشارہ ہے کہ اس ميں رد ہے اس کا جو يہ دعوي کرے کہ نبي زندہ ہو کر ہاتھ کاٹيں گے کيونکہ اگر يہ صحيح ہو تو لازم ہو گا کہ ان کو پھر ايک موت اور آئے گي پس خبر دي کہ اللہ نے ان کي تکريم کي کہ ان پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا جيسا اوروں پر کيا (قرآن ميں ہے ) وہ جو گھروں سے نکلے اور وہ ڈر ميں تھے .. اور وہ جو ايک قريہ پر سے گزرا اور يہ سب سے واضح جواب ہے
اور کہا گيا ہے ابو بکر کا اردہ و مقصد تھا کہ ان کو اور موت نہ ہو گي قبر ميں اوروں کي طرح کہ جب ان کو سوال کے لئے زندہ کيا جاتا ہے اور پھر موت دي جاتي ہے اور يہ جواب أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ الدَّاوُدِيُّ المالكي (المتوفي 402 ھ ) نے ديا ہے
اور کہا جاتا ہے اللہ تعالي آپ کے نفس کي موت کو اور آپ کي شَرِيعَتِ کي موت کو جمع نہ کرے گا
اور کہا جاتا ہے يہ موت کنايہ ہے دوسري موت سے کرب پر يعني اب اس کرب کے بعد کوئي اور کرب نہ ہو گا
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے شرح کی
قَوْله: (لَا يذيقك الله الموتتين) ، بِضَم الْيَاء من الإذاقة، وَأَرَادَ بالموتتين: الْمَوْت فِي الدُّنْيَا وَالْمَوْت فِي الْقَبْر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان، فَلذَلِك ذكرهمَا بالتعريف، وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام، فَإِنَّهُم لَا يموتون فِي قُبُورهم، بل هم أَحيَاء
ابو بکر کا قول اللہ آپ پی دو موتوں کو جمع نہ کرے گا … یہ موت دنیا کی ہے اور قبر میں ہے یہ دو معروف موتیں ہیں جو سوائے انبیاء سب کو اتی ہیں – انبیاء اپنی قبروں میں نہیں مرتے بلکہ زندہ ہیں
حياتي ديوبندي متکلم الياس گھمن کہتے ہيں کہ (منٹ 4 ) ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول کا مقصد ہے کہ ايک موت جو اني تھي وہ آ گئي اور اب قبر ميں دوسري موت نہيں آئے گي جو نيند ہے – ايک عام امتي سے قبر ميں کہا جاتا ہے
نم صالحا
اچھي نيند سو جا
ليکن نبي کو قبر ميں جو حيات ملتي ہے وہ مسلسل ہے (منٹ 4: 55) اس ميں نيند بھي نہيں ہے
الشريعہ از الاجري ميں ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ نے حکم ديا کہ قبر النبي سے اجازت طلب کرو کہ پہلو النبي ميں دفن کيا جا سکتا ہے يا نہيں ؟
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لَهُمْ: إِذَا مِتُّ وَفَرَغْتُمْ مِنْ جَهَازِي فَاحْمِلُونِي حَتَّى تَقِفُوا بِبَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِفُوا بِالْبَابِ وَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَإِنْ أُذِنَ لَكُمْ وَفُتِحَ الْبَابُ , وَكَانَ الْبَابُ مُغْلَقًا , فَأَدْخِلُونِي فَادْفِنُونِي , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَكُمْ فَأَخْرِجُونِي إِلَى الْبَقِيعِ وَادْفِنُونِي. فَفَعَلُوا فَلَمَّا وَقَفُوا بِالْبَابِ وَقَالُوا هَذَا: سَقَطَ الْقُفْلُ وَانْفَتَحَ الْبَابُ , وَسُمِعَ هَاتِفٌ مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ
أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے کہا روايت کيا جاتا ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ کي وفات کا وقت جب آيا انہوں نے کہا جب ميں مر جاؤں اور تم ميري تجہيز سے فارغ ہو تو مجھے اٹھا کر اس گھر کے باب تک لانا جس ميں قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم ہے اور وہاں رکنا اور کہنا
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
يہ ابو بکر آيا ہے اجازت ليتا ہے کہ آپ اذن کريں اور اگر مقفل دروازہ کھل جائے تو مجھ کو اس ميں داخل کر کے دفن کرنا
اور اگر اجازت نہ ملے تو الْبَقِيعِ لانا وہاں دفن کرنا
پس ايسا کيا گيا … دروازہ کھل گيا اور ھاتف نے آواز دي ان کو گھر ميں داخل کرو
داخل ہوں اے حبيب، حبيب کي طرف کہ حبيب (رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ) آپ سے ملنے کو مشتاق ہے
راقم کہتا ہے کہ يہ روايت گھڑي گئي جو ابن عساکر (المتوفى571) نے سندا تاريخ دمشق ميں لکھي ہے
اس روايت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]
يہ منکر ہے اس ميں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہيں اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کي بيوي اسماء بنت عميس نے غسل ديا
بعض محدثين نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھي کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه – يہ حديث گھڑتا تھا اس سے روايت کرنا حلال نہيں .
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث منکر حديث ہے – حديث چور ہے .
افسوس ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے ايک کذاب کے قول پر عقيدہ لے ليا
تفسير مفاتيح الغيب المعروف تفسير کبير ج21 ص433 ميں سوره کہف کي آيت فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ميں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) نے کرامت اولياء کي مثال کے طور پر اس کا ذکر کيا
أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ
اس قول سے الياس گھمن صاحب نے بھي دليل لے لي کہ صديق اکبر قبر ميں حيات النبي کا عقيدہ رکھتے تھے نعوذ باللہ
جبکہ يہ روايت بقول ابن عساکر منکر ہے ليکن الياس گھمن صاحب نے دليل لي کہ خليفہ راشد نے فيصلہ کر ديا کہ نبي قبر ميں زندہ ہيں
غور کريں روايت منکر ، راوي حديث چور مشہور اس کي بات سے فيصلہ ہوا کہ ابو بکر قبر ميں زندگي مانتے تھے
اب واپس ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر غور کريں
لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي
ابو بکر نے اس موت کی تصدیق کی اور فرمایا کہ یہ اب دوسری بار ممکن نہیں ہے کہ نبی زندہ ہوں پھر وفات ہو
ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی
جسم سے روح کا الگ ہونا موت ہے – ظاہر ہے اس روح کو جنت من لے جایا گیا جہاں معراج کے موقعہ پر دیگر انبیاء کو دیکھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے
وفات کے وقت انبیاء کو آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی زندگی واپس چاہتے ہیں یا اللہ سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں – عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب نبی نے یہ الفاظ اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے ادا کیے میں سمجھ گئی کہ آپشن دے دیا گیا ہے اور آپ کی اب (واپس دنیا میں زندہ ہو کر ) دنیا کے رفقاء سے ملنے کی تمنا نہیں ہے صرف اللہ تعالی سے ملاقات و لقاء کی تمنا ہے
قاسم نانوتوی کا فلسفہ
اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے یعنی ان کو قبضہ میں لیتا ہے اور قبض روح انبیاء کا ہو یا عام آدمی کا ایک ہی ہے لیکن الیاس گھمن اس میں التباس پیدا کرتے ہیں
کہتے ہیں (منٹ ٧ پر ) ہم قبض روح کے دو معنی کریں گے – خروج روح اور حبس (قید ) روح – حبس روح کا معنی روح کا جسم میں سمٹ جانا- الیاس گھمن نے کہا قبضت یدی (میں نے مٹھی بنا لی ) کا معنی بسط یدی (میں نے ہاتھ پھیلا دیا ) کی مخالفت میں لیا جائے گا کہ قبض کا مطلب سمیٹنا – اس کے بعد کہا یہ خروج بھی ہے – قبض کے اس طرح دو معنی کیے کہ روح قید کی گئی یا نکل گئی – قاسم نانوتوی قبض کا معنی کبھی خروج کرتے ہیں اور کبھی حبس کرتے ہیں کیونکہ ہم کو اس کا معنی پورا آتا ہے – قاسم نانوتوی کہتے ہیں کہ موت امتی پر آئے تو معنی ہوا قبض روح اور موت نبی پر آئے تو معنی ہوا حبس (قید ) روح – امتی پر موت آئے تو مطلب ہو گا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے پیغمبر کو موت آئے تو معنی ہو گا روح قلب اطہر میں سمٹ گئی ہے
راقم کہتا ہے یہ قول بلا دلیل و منکر ہے موت کا مطلب تمام بشر پر ایک ہی ہےکہ روح کا جسم سے مکمل خارج ہو جانا – اگر پیغمبروں کی روحیں ان کے قلوب میں ہیں تو یہ روحین ان کے اعضا میں نہ ہوئیں – پھر تو وہ نہ سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں جبکہ یہ فرقے انبیاء کے جواب و کلام و سماع فی القبر کے قائل ہیں- راقم کہتا ہے کہ نیند میں روح کو جسم میں قید کیا جاتا ہے اور موت پر نکال لیا جاتا ہے – یہ عمل ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے چاہے نبی ہو یا ولی
لہذا راقم کے نزدیک موت پر ہر انسان کا خروج روح ہو رہا ہے اور نیند میں حبس روح (جسم میں روح کا قید ہونا ) ہو رہا ہے اس میں انبیاء و عام بشر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کا شعور نیند میں ختم ہو جاتا ہے جبکہ انبیاء کا قلب جاگتا رہتا ہے کیونکہ ان کو نیند میں الوحی آ تی ہے
السلام و علیکم و رحمت الله
آپ نے لکھا ہے کہ “نیند میں روح کو جسم میں قید کیا جاتا ہے اور موت پر نکال لیا جاتا ہے – یہ عمل ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور موت پر ہر انسان کا خروج روح ہو رہا ہوتا ہے
اس پر ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ سوره الزمر میں الله فرماتا ہے کہ “وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى
یعنی اگر نیند میں روح جسم میں سمٹ گئی تو يُرْسِلُ کا کیا مطلب ہوا – ؟؟
وضاحت درکار ہے
و علیکم السلام
یرسل کا مطلب بھیجنا ہوتا ہے یا چھوڑنا
اکثر قرآن میں انبیاء کو قوم کی طرف بھیجنے پر یہ لفظ آیا ہے
لیکن اس کا ایک مطلب چھوڑنا بھی ہے
مثلا صحیح بخاری کی آغاز الوحی کی روایت ہے
فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قلت ما أنا بقارىء
پس اس (فرشتے ) نے مجھے پکڑا اور بھینچا یہاں تک کہ میری بساط تک اور پھر چھوڑ دیا پھر کہا پڑھو میں نے کہا میں قاری نہیں
جبریل نے پکڑا اور پھر (ارسلنی) مجھ کو چھوڑا
یہاں اس کا مطلب بھیجنا نہیں ہے صحیح چھوڑنا ہے
کیونکہ غار حرا سے نکلنا نہیں ہوا جب تک کہ سورہ اقراء الوحی نہ ہوئی
اسی طرح قرآن میں ہے
يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا
آسمان کو تم پر برستا چھوڑ دے گا
عربی میں بال کھولنے کو بھی رسل کہا جاتا ہے کہ بالوں کو چھوڑ دے
شرح مشكل الآثار میں امام أبو جعفر الطحاوي (المتوفى: 321هـ) ایک روایت پر بحث میں لکھتے ہیں
وَأَنْ يُرْسِلَ شَعْرَهُ حِينَ يَسْجُدُ بِسُجُودِهِ
اور بالوں کو چھوڑ دے جب سجدہ کرے
اس طرح جسم کے اندر قبض شدہ روح کو جسم میں ہی واپس چھوڑ دیا جاتا ہے
کتاب زندگی ، نیند ، بے ہوشی ، موت میں اس پر بات کی گئی ہے
———
https://www.islamic-belief.net/%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d8%a2%d9%be-%da%a9%d9%88-%d8%af%d9%88-%d9%85%d9%88%d8%aa%d9%8a%da%ba-%d9%86%db%81-%da%86%da%a9%da%be%d8%a7%d8%a6%db%92-%da%af%d8%a7/
اپ نے اس بات کو سمجھ لیا تو اس بلاگ کو دیکھیں اسی بات کو کہ قبض روح کا مطلب جسم میں حبس روح ہے
یہ دیوبندی فرقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا ہے
کہ روح پاک ، جسم نبوی میں ہی حبس یا قید کی گئی ہے
یہ الٹی بات ہو گئی
نیند پر حبس/قید کو لگانا تھا نہ کہ موت پر
جزاک الله
اس دیو بندی عالم کی بھی سنئیے
https://www.youtube.com/watch?v=clLcabge1os
ان کے مطابق نیند اور موت دونوں حالتوں میں روح جسم سے جدا ہوتی ہے – لیکن نیند میں واپس آجاتی ہے- موت کی صورت میں الله اس کو روک لیتا ہے -اصل میں ثابت یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ نیند کی طرح موت کے بعد بھی روح کا جسم سے تعلق رہتا ہے – بخاری کی کتاب الجنائز والی روایت کی مثال پیش کرکے کہتے ہیں کہ مردہ چارپائی پر بولتا ہے اور چیختا ہے اور جنّات اور انسانوں کے علاوہ ہر شے اس کو سنتی ہے – دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ معامله علم غیب کا ہے – اس یر ایمان ضروری ہے- لیکن یہ نہیں بتایا کہ جنّات اور انسانوں کے علاوہ جو چیزیں ہیں یعنی جانور وغیرہ – ان کو علم غیب کیسے ہوا کہ انہوں نے مردہ کے عذاب کو محسوس کر لیا -؟؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث ھ مردہ کھاٹ پر بولتا ہے میری تحقیق میں راوی کے اختلاط کی ہے
امام مسلم نے اس کو نہیں لکھا
——
مردہ کی چیخ زمین و آسمان میں سب سن رہے ہیں تو یہ غیب جمادات پر حیوانات پر ظاہر ہو گیا ہے
یہ اس روایت کی نکارت ہے
افسوس سوچنا و غور کرنا کم ہے اور صحیحین کا رعب ہے جبکہ اس سے عقائد کا اضطراب پیدا ہوتا ہے
جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے