سن ٩٣ ہجری کا دور ہے مدینہ پر عمر بن عبد العزیز گورنر ہیں – عمر کو امیر المومنین الولید کی طرف سے حکم ملتا ہے
امام بخاری تاریخ الکبیر میں بتاتے ہیں
قَالَ عَبد اللهِ بْن مُحَمد الجُعفي، حدَّثنا هِشام بْن يُوسُف، أَخبرنا مَعمَر، عَنْ أَخي الزُّهري، قَالَ: كتب الوليد إلى عُمر، وهو على المدينة، أن يضرب خُبَيب بْن عَبد اللهِ بْن الزُّبَير، فضربه أسواطا، فأقامه، فمات
اخی الزہری نے کہا الولید نے عمر بن عبد العزیز کو لکھا اور وہ اس کی طرف سے مدینہ کے عامل تھے کہ خبیب بن عبد الله بن زبیر کو کوڑے لگائے جائیں پس ان کو درے مارے گئے جس میں ان کی وفات ہوئی
شیعہ مورخ أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب کتاب تاریخ الیعقوبی کے مطابق
وكتب إلى عمر بن عبد العزيز أن يهدم مسجد رسول الله، ويدخل فيه المنازل التي حوله، ويدخل فيه حجرات أزواج النبي، وهدم الحجرات، وأدخل ذلك في المسجد. ولما بدأ بهدم الحجرات قام خبيب بن عبد الله بن الزبير إلى عمر والحجرات تهدم، فقال: نشدتك الله يا عمر أن تذهب باية من كتاب الله، يقول: إن الذين ينادونك من وراء الحجرات، فأمر به، فضرب مائة سوط، ونضح بالماء البارد، فمات، وكان يوماً بارداً. فكان عمر لما ولي الخلافة، وصار إلى ما صار إليه من الزهد، يقول: من لي بخبيب
اور الولید نے عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ مسجد النبی کو منہدم کیا جائے اور اس میں اس کے گرد کی منزلوں کو شامل کیا جائے اور حجرات ازواج النبی کو بھی پس حجرات کو گرایا گیا اور مسجد میں شامل کیا گیا پس خبیب ، عمر بن عبد العزیز کے خلاف کھڑے ہوئے اور حجرات گرائے جا رہے تھے انہوں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں اے عمر کہ تو کتاب الله کی آیات سے ہٹ گیا – جس میں ہے إن الذين ينادونك من وراء الحجرات – پس عمر نے حکم دیا اس کو سو کوڑے مارو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس اس میں خبیب مر گئے پس جب عمر خلیفہ ہوا اور اس پر زہد کا اثر ہوا کہا میرے لیے خبیب کے حوالے سے کیا ہے
حجرات ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو اچھا تھا لیکن مسجد النبي کو وسیع کرنا بھی ضروری تھا
اہل سنت کی کتب میں خبیب کو کوڑنے مارنے کی وجہ الگ ہے – ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں
وكان عالما فبلغ الوليد بن عبد الملك عنه أحاديث كرهها. فكتب إلى عامله على المدينة. أن يضربه مائة سوط. فضربه مائة سوط. وصب عليه قربة من ماء بارد بيتت بالليل. فمكث أياما ثم مات.
خبیب ایک عالم تھے پس الولید کو ان کی احادیث پہنچیں جن سے الولید کو کراہت ہوئی پس اپنے گورنر کو مدینہ میں حکم دیا کہ اس کو سو کوڑے لگاؤ پس سو کوڑے لگائے گئے اور ٹھنڈا پانی ڈالا گیا اور رات میں پس کچھ دن بعد یہ مر گئے
الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ: ضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذْ كَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ بِأَمْرِ الْخَلِيفَةِ الْوَلِيدِ خَمْسِينَ سَوْطًا، وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ قِرْبَةً فِي يومٍ بَارِدٍ، وَأَوْقَفَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَوْمًا، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ابن جریر الطبری نے کہا عمر بن عبد العزیز نے خبیب کو خلیفہ الولید کے حکم پر پچاس کوڑے مارے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اور ان کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسجد کے دروازے پر (عبرت نگاہی کے لئے) ڈال دیا
ابن سعد کے مطابق خبیب کو روایت بیان کرنے پر لگے جو الولید کے نزدیک صحیح نہیں تھیں اور عمر بن عبد العزیز نے بھی اس میں موافقت کی اور کوئی انکار نہ کیا
الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں
قال الزبير بن بكار: أدركت أصحابنا يذكرون أَنَّهُ كَانَ يَعْلَمُ عِلْمًا كَثِيرًا لا يَعْرِفُونَ وَجْهَهُ وَلا مَذْهَبَهُ فِيهِ، يُشْبِهُ مَا يَدَّعِي النَّاسُ مِنْ عِلْمِ النُّجُومِ
الزبیر بن بکار نے کہا میں بہت سے اصحاب سے ملا وہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ بہت عالم تھے جس کا منبع وہ اصحاب نہیں جانتے نہ ان کا اس پر مذھب تھا ، وہ اس علم نجوم سے ملتا جلتا تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں
جمهرة نسب قريش وأخبارها از الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ) میں ہے
حدثنا الزبير قال، وحدثني عمي مصعب بن عبد الله قال: كان خبيب قد لقي كعب الأحبار، ولقي العلماء، وقرأ الكتب، وكان من النساك، وأدركت أصحابنا وغيرهم يذكرون أنه كان يعلم علماً كثيراً لا يعرفون وجهه ولا مذهبه فيه، يشبه ما يدعي الناس من علم النجوم.
الزبير نے کہا کہ میرے چچا مصعب بن عبد الله بن زبیر نے روایت کیا کہ خبیب ، کعب الاحبار سے ملا اور علماء سے ملاقات کی اور کتابیں پڑھیں اور وہ نساک (راہب صفت) تھے اور وہ ہمارے اصحاب اور دوسروں سے ملے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کو بہت علم تھا جس کے رخ (اصل) کا پتا نہیں تھا نہ ان کا مذھب تھا – یہ اس کے مشابہ تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں علم نجوم میں سے
الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي ، خبیب کے رشتہ دار ہیں- صحاح ستہ میں سنن نسائی میں خبیب کی ایک روایت ہے
الزبیر بن بکار کے مطابق وَلَمَّا مَاتَ نَدِمَ عُمَرُ وَسُقِطَ فِي يَدِهِ وَاسْتَعْفَى مِنَ الْمَدِينَةِ جب خبیب کی وفات ہوئی عمر نادم ہوئے اور
گورنر مدینہ کے عہدے سے اسْتَعْفَى دے دیا
یعنی ان سزا کا مقصد سبق سکھانا تھا نہ کہ خبیب کا قتل
صحاح ستہ کے مولفین نے خبیب سے کوئی روایت نہیں لی صرف سنن نسائی میں ایک روایت پر ابن حجر کا کہنا ہے کہ وہ خبیب کی ہے لھذا تہذیب التہذیب میں ہے روى له النسائي حديثا واحدا في صبغ الثياب بالزعفران ولم يسمه في روايته ان سے النسائي نے ایک روایت لی کپڑوں کو زعفران سے رنگنے والی جس روایت میں ان کا نام نہ لیا
محدثین خبیب کو ثقہ کہنے کے باوجود ان کی کوئی روایت کیوں نہیں لکھتے یہ ایک معمہ ہے اغلبا ان کی روایات کا متن عجیب و غریب ہو گا جس کی بنا پر خلیفہ مسلمین نے ان کو کوڑے مارے اور عمر بن عبد العزیز نے بھی ساتھ دیا
امام احمد العلل میں کہتے ہیں عمر بن عبد العزیز کو الولید نے معزول کیا
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا سفيان، قال: قال الماجشون، لما عزله الوليد -يعني عمر بن عبد العزيز
یعنی اسْتَعْفَى نہیں دیا بلکہ خود الولید نے ان کو معزول کیا
البتہ الولید نے ان کو امیر حج مقرر کیا
تاریخ دمشق کے مطابق
قال خليفة: سنة سبع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة اثنيتين وتسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز
سن ٨٧ سے سن ٩٢ میں چار مواقع پر سن ٨٧ ، ٨٩ ، ٩٠ ، ٩٢ ہجری میں امیر حج رہے
بنو امیہ کے ” ظلم” کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما تھیں ان کی تحقیق غیر جانب انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک امت میں نہیں کی گئی ہے
مسند امام احمد میں مالك بن دينار کہتے ہیں
إنما الزاهد عمر بن عبد العزيز، الذي أتته الدنيا فتركها. «المسند» 5/249 (22495)
بے شک عمر بن عبد العزیز ایک زاہد تھے جن کو دنیا پہنچی لیکن انہوں نے اسکو ترک کیا
سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق
وَقَالَ أَبُو مُسْهِرٍ: وَلِيَ عُمَرُ المَدِيْنَةَ فِي إِمْرَةِ الوَلِيْدِ مِنْ سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِيْنَ إِلَى سَنَةِ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.
ابو مسهر نے کہا عمر مدینہ کے والی الولید کے حکم پر ہوئے سن ٨٦ ہجری سے لے کر سن ٩٣ ہجری تک
امام الذھبی کہتے ہیں سن ٧٢ ہجری تک عمر بن عبد العزیز کے مدینہ میں کوئی آثار نہیں ملتے کیونکہ وہاں جابر بن عبد الله رضی الله عنہ تھے اگر یہ ٧٢ سے پہلے وہاں ہوتے تو ان سے روایت کرتے
لَيْسَ لَهُ آثَارٌ سَنَةَ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ بِالمَدِيْنَةِ، وَلاَ سَمَاعٌ مِنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْ كَانَ بِهَا وَهُوَ حَدَثٌ، لأَخَذَ عَنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سب سے آخر میں فوت ہوئے جن سے عمر بن عبد العزیز کا سماع نہیں ہے لیکن یار دوستوں نے ایک روایت بیان کی جو سیر از امام الذھبی میں ہی ہے
العَطَّافُ بنُ خَالِدٍ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ أَسْلَمَ، قَالَ لَنَا أَنَسٌ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَشْبَهَ صَلاَةً بِرَسُوْلِ اللهِ مِنْ إِمَامِكُم هَذَا -يَعْنِي: عُمَرَ بنَ عَبْدِ العَزِيْزِ-.
زید بن اسلم نے کہا انس رضی الله عنہ نے ہم سے کہا میں نے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جس کی نماز رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسی ہو سوائے اس امام کے یعنی عمر بن عبد العزیز
محدثین اس قول کے راوی زید بن اسلم کے لئے کہتے ہیں
قال علي بن الحسين بن الجنيد زيد بن أسلم عن جابر مرسل
زید بن اسلم کی روایت جابر سے مرسل ہے
لہذا جب جابر سے ہی سماع نہیں تو زید کا سماع انس بن مالک سے کیسے ہو سکتا ہے ؟ معلوم ہوا انس بن مالک رضی الله عنہ نے عمر بن عبد العزیز کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھی
اس تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّة والی روایت پر – کہا جاتا ہے کہ صحیح خلافت صرف تیس سال ہو گی اس کے بعد دور آئے گا جس میں ملک عضوض بھنبھوڑنے والی بادشاہت ہو گی – ہمارے روایت پسند علماء (مثلا امام احمد، امام ابن تیمیہ، ابن حجر اور ایک جم غفیر) اس کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ کے دور سے کرتے ہیں اس طرح ان تمام اصحاب رسول بشمول حسن رضی الله عنہ کو مورد الزام دیتے ہیں جو امت پر ایک بادشاہ (یعنی معاویہ) کو مسلط کر گئے – ان علماء کے مطابق اس معاویہ رضی عنہ سے لے کر پورا دور بنو امیہ دور ظلم تھا
اس سلسلے میں امام احمد مسند میں ایک روایت پیش کرتے ہیں
عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز اس تشریح سے (حیرانی سے) خوش ہوئے
خلافة على منهاج نبوة کی اصطلاح زبان زد عام ہے لیکن امام بخاری اس روایت کے سخت مخالف ہیں اس روایت کا دارومدار ایک راوی حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ پر ہے
مسند احمد میں سند ہے
– حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ
حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ کے لئے امام بخاری فیه نظر کہتے ہیں اور ان سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی
امام مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز میں سوره الغاشیہ پڑھتے تھے
کتاب من قال فيه البخاري فيه نظراز أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کے مطابق
حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير: قال البخاري: “فيه نظر”. وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر بل اضطرب في أسانيد ما يروى عنه، ووثقه أبو حاتم وأبو داود، وأورده ابن حبّان في الثقات، وقال عنه ابن حجر: لا بأس به. قلت: له عند مسلم حديثٌ واحدٌ متابعةً، وروى له أحمد والدارمي والأربعة ما مجموعه أربعة أحاديث دون المكرر.
بخاری اس راوی (حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير) کو فیہ نظر کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں حدیثوں میں توازن نہیں اس کی حدیث منکر ہے بلکہ اسناد میں اضطراب بھی کرتا ہے .ابو حاتم اور ابو داود ثقہ کہتے ہیں اور ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور اس کو ابن حجر کہتے ہیں کوئی برائی نہیں. میں ( أبو ذر عبد القادر) کہتا ہوں مسلم نے متابعت میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور اس سے احمد ،دارمی اور چاروں سنن والوں نےبلا تکرار حدیث لی ہے
السیوطی کتاب تدريب الراوي میں وضاحت کرتے ہیں
تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه
پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے
کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق
وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري
اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے
اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں
فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره
فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں
افسوس بخاری کی شدید جرح کو نظر انداز کردیا گیا
اس روایت کو صحیح ماننے والے عوام کے سامنے تقرر میں اس روایت کو پورا نہیں سناتے کہ راوی خود الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کے دور کو بتاتا ہے کہ وہ گذر چکا ہے جو سن ٩٩ ہجری میں عمر بن عبد العزیز کا دور تھا
دوسری طرف آج الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ والی روایت قادیانیوں ، جہادی تنظیموں اور معتدل لیکن معجزات کی منتظر مذہبی تنظیموں کی نہایت پسندیدہ ہے – لیکن اگر غیر جانب داری کے ساتھ اوپر دی گئی صورت حال کو دیکھیں تو عقل سلیم رکھنے والوں جان سکتے ہیں کہ روایت صحیح نہیں ہے
بھائی حذیفہ بن الیمان رضی کی اس حدیث کی کیا حیثیت ہے جس کے الفاظ کے الفاظ ہیں کہ لوگ رسولؐ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے متعلق پوچھتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں ۔۔۔۔۔۔
کیا یہ حدیث ضعیف ہے
صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ) صحیح بخاری: کتاب: فضیلتوں کے بیان میں (باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان)
3606 . حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا فَقَالَ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابن جابر نے ، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبید اللہ حضرمی نے ، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا ، انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاوں ۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، یار سول اللہ ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر وبرکت ( اسلام کی ) عطا فرمائی ، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ، میں نے سوال کیا ، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہوگا ۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے ۔ ان میں کوئی بات اچھی ہوگی کوئی بری ۔ میں نے سوال کیا : کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے ، جو ان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے ۔ ہماری ہی زبان بولیں گے ۔ میں نے عرض کیا : پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاوں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے ؟ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا ، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو ۔ آپ نے فرمایا : پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا ۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے ، یہاں تک کہ تیری موت آجائے اور تو اسی حالت پر ہو
========
راقم کے علم میں اس کی سند صحیح ہے
اس پر کیا اشکال ہے ؟
یہ روایت ضعیف ہے الولید بن مسلم کی وجہ سے تفصیل آگے
Sahih Muslim Hadees #
4784
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ، جَابِرٍ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، يَقُولُ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ قَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ . قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ . فَقُلْتُ هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا . فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا . قَالَ نَعَمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ . فَقُلْتُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ .
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلی باتوں کو پوچھا کرتے اور میں بری بات کو پوچھتا اس ڈر سے کہ کہیں برائی میں نہ پڑجاؤں۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲؐ! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے پھر اﷲ نے ہم کو یہ بھلائی دی ( یعنی اسلام ) اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں لیکن اس میں دھبہ ہے۔ میں نے کہا وہ دھبہ کیسا؟ آپ نے فرمایا ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے او رمیرے طریقہ کے سوا اور راہ پر چلیں گے، ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور بری بھی۔ میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد برائی ہوگی؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جہنم کے دروازے کی طرف لوگوں کو بلاویں گے، جو ان کے بات مانے گا اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔ میں نے کہا یا رسول اﷲؐ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے؟ آپ نے فرمایا ان کا رنگ ہمارا ساہی ہوگا اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲؐ! اگر اس زمانہ کو میں پاؤں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا جماعت المسلمين کے ساتھ رہ اور ان کے امام کے ساتھ رہ۔ کہا اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ آپ نے فرمایا تو سب فرقوں کو چھوڑ دے اور اگرچہ ایک درخت کی جڑ دانت سے چباتا رہے مرتے دم تک۔
الولید بن مسلم پر جرح
محدثین کی نگاہ میں ولید بن مسلم کی حثیت ۔۔
# العالم القول
1 أبو جعفر العقيلي وهاه
2 أبو حاتم الرازي صالح الحديث
3 أبو حاتم بن حبان البستي ذكره في الثقات وقال: ربما قلب الأسامى وغير الكنى ومرة: وهاه
4 أبو عبد الله الحاكم النيسابوري أحفظ وأتقن وأعرف بحديث بلده
5 أبو مسهر الغساني من ثقات أصحابنا، ومرة: من حفاظ أصحابنا، ومرة: كان يحدث بأحاديث الأوزاعي عن الكذابين ثم يدلسها عنهم، ومرة: كان مدلسا ربما دلس عن الكذابين
6 أحمد بن حنبل كان رفاعا، ومرة: كثير الخطأ، ومرة: اختلطت عليه أحاديث ما سمع وما لم يسمع، وكانت له منكرات، ومرة: ليس لأحد أروي لحديث الشامين منه وإسماعيل بن عياش، ومرة: ما رأيت من الشامين أعقل منه
7 أحمد بن صالح الجيلي ثقة
8 ابن حجر العسقلاني ثقة لكنه كثير التدليس والتسوية، وقال مرة: مشهور متفق على توثيقه في نفسه وإنما عابوا عليه كثرة التدليس والتسوية
9 الدارقطني يرسل، يروي عن الأوزاعي أحاديثه عن شيوخ ضعفاء عن شيوخ قد أدركهم مثل نافع وعطاء والزهري، فيسقط أسماء الضعفاء، ويجعلهم عن الأوزاعي عن عطاء يعني مثل عبد الله بن عامر الأسلمي، وإسماعيل بن مسلم
10 الذهبي عالم أهل الشام، كان مدلسا فيتقى في حديثه ما قال فيه: عن
11 صدقة بن الفضل المروزي حججت معه فما رأيت رجلا أحفظ للحديث الطويل وأحاديث الملاحم منه، ومرة: حافظ متقن
12 عبد الأعلى بن مسهر الغساني من ثقات أصحابنا
13 علي بن المديني ما رأيت من الشاميين مثله، وقد أغرب الوليد أحاديث صحيحة لم يشركه فيها أحد
14 محمد بن سعد كاتب الواقدي ثقة كثير الحديث والعلم
15 يعقوب بن سفيان الفس
یہ روایت صحیح ہے
الولید بن مسلم کا اس میں تفرد نہیں ہے
صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَني مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: “نَعَمْ”، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: “نَعَمْ”، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: “نَعَمْ”، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: “يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ”، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: “تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ
نوٹ : مختصر منذری میں ہے
وذكر الدارقطني أن أبا سلام لم يسمع من حذيفة، فهو مرسل، وقد قال فيه: قال حذيفة.
دارقطنی کے نقول یہ سند منقطع ہے
———
سنن ابوداود میں ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْكُوفَةَ فِي زَمَنِ فُتِحَتْ تُسْتَرُ، أَجْلُبُ مِنْهَا بِغَالًا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا صَدْعٌ مِنَ الرِّجَالِ، وَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ تَعْرِفُ إِذَا رَأَيْتَهُ أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَتَجَهَّمَنِي الْقَوْمُ، وَقَالُوا: أَمَا تَعْرِفُ هَذَا؟ هَذَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، فَأَحْدَقَهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي أَرَى الَّذِي تُنْكِرُونَ، إِنِّي قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ هَذَا الْخَيْرَ الَّذِي أَعْطَانَا اللَّهُ، أَيَكُونُ بَعْدَهُ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ؟ قَالَ: “نَعَمْ” قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: “السَّيْفُ” قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَاذَا يَكُونُ؟ قَالَ: “إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِي الْأَرْضِ فَضَرَبَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ، فَأَطِعْهُ، وَإِلَّا فَمُتْ، وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ”، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: “ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ، فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ، وَجَبَ أَجْرُهُ، وَحُطَّ وِزْرُهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ، وَجَبَ وِزْرُهُ، وَحُطَّ أَجْرُهُ”، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: “ثُمَّ هِيَ قِيَامُ السَّاعَةِ”
اس سند کو البانی نے حسن کہا ہے
ابن ماجہ میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدِّمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ قُرْطٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “تَكُونُ فِتَنٌ عَلَى أَبْوَابِهَا دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ، فَأَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلِ شَجَرَةٍ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْهُمْ”
اس سند کو البانی نے صحیح کہا ہے
سنن الکبری بیہقی میں دو طرق ہیں ایک میں الولید ہے دوسرے میں نہیں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , أَنْبَأَ الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزِيدٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَةَ، ثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ الْيَشْكُرِيُّ، قَالُوا: ثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ , وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ , فَجَاءَنَا اللهُ بِهَذَا الْخَيْرِ , فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: ” نَعَمْ “، قَالَ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: ” نَعَمْ , وَفِيهِ دَخَنٌ ” , قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: ” قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي , تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ” , قُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: ” نَعَمْ , دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ , مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهِا قَذَفُوهُ فِيهَا ” , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: ” هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا , وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا ” , قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: ” تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ ” , قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: ” فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا , وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ كَذَلِكَ “. قَالَ أَبُو عَمَّارٍ [ص:270] فِي حَدِيثِهِ: صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: ” هُمْ مِنْ كَذَا , وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا ”
ان اسناد کو صحیح سمجھا گیا ہے الولید ان میں نہیں ہے بلکہ مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ نے روایت کیا ہے جو ثقہ ہے
ایک بھائی نے لکھا ہے کہ
چند ایک صحابہ کے بارے صحیح مسلم اور صحیح بخاری سمیت کتب ستہ کے دیگر کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں، جن سے خلافت علی منھج النبوہ کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش صرف دور جہالت کے ان قبائلی تعاصب اور خاندانی بالادستی کے لیے قصاص عثمان رض کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے- پھر اس بات کی توثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ امیر معاویہ رض کا خلافت کے لئے اپنی زندگی ہی میں اپنے فاسق اور فاجر بیٹے کی بیعت کے علاوہ کبار صحابہ “عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، حسین بن علی” میں سے کسی ایک پر بھی بھی راضی نہ ہونا، مروان بن حکم سمیت دیگر مخصوص افراد کو دیگر اصحاب کو قائل کرنے، لالچ دینے کساتھ ڈرا دھمکانے کا ٹاسک دینا، ان تاریخی روایتوں پر مہر لگاتیں ہیں، یعنی متقین پر فاسقین کو ترجیح دینا، اور متقدمین پر متاخرین کو ترجیح دینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے-
راقم کہتا ہے خلافت علی منھج النبوہ نام کی کوئی شی ثابت نہیں ہے – اس سے متعلق حدیث ضعیف ہے اور لوگوں کا پروپیگنڈا زیادہ ہے کہ اس قسم کی کسی خلافت کی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی تھی
——
اس شخص نے کہا دور جہالت کے ان قبائلی تعاصب اور خاندانی بالادستی کے لیے قصاص عثمان رض کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے
جواب
راقم کہتا ہے یہ شخص جاہل ہے – امراء قریش میں سے ہوں گے یہ حدیث نبوی ہے کیا یہ قبائلی تعصب ہے ؟ اور قصاص عثمان رض کا مطالبہ کرنا کیا قرآن کے خلاف ہے یا قرآن کا صریح حکم ہے – قصاص میں تو زندگی ہے جس کا مطالبہ کرنا بھی امت میں اخلاقیات کو زندہ کرنا تھا – افسوس علی رض اس وقت اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے تھے اور مسلمل قاتلوں کو بچاتے رہے انہی کو گورنر بناتے رہے – ظاہر ہے یہ فتنہ تھا اور اس میں اصحاب رسول قتل ہو رہے تھے
——
اس شخص نے کہا امیر معاویہ رض کا خلافت کے لئے اپنی زندگی ہی میں اپنے فاسق اور فاجر بیٹے کی بیعت
جواب
راقم کہتا ہے یزید کے فسق پر کوئی خبر ثابت نہیں ہے
——–
اس شخص نے کہا : کبار صحابہ “عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، حسین بن علی” میں سے کسی ایک پر بھی بھی راضی نہ ہونا،
جواب
یہ شخص کذاب ہے – ابن عمر رضی الله عنہ کا قول صحیح مسلم میں یزید کے بارے میں ہے
عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر عبد الله بن نِ مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا
اور ابن عباس رضی الله کا قول ہے کہ خروج کر کے حسین نے اپنا مذاق بنوایا
معاویہ کی وفات سے کم از کم تین سال پہلے سے یزید کی تعیناتی کی بات ہو رہی تھی حسین نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا جس کو ان کی رضا مندی سمجھا گیا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ (الطبرانی کبیر رقم2859)
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت سے) مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی اپنی کھال ان سے اتروائی
اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگرایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے کہا…. طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں
Agr taqarur yeh riwayt puri b suna de toh umr bin abdulazaiz k dour ko nubwat pr qaym dor kha ja rha hai… To phir yeh molukiat or badshaht ka dor knsa hai
Jab k yeh b ban ummaya mn se hukmra hai
اس روایت کو اضطراب کی وجہ سے دلیل نہیں بنایا جا سکتا
السلام علیکم ! جناب مسند احمد والی روایت جس کا دارومدار ایک راوی حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ پر ہے کی پوری سند آپ نے نہیں لکھی، وہ پلیز لکھ دیں نیز امام امہدی سے متعلق وارد شدہ احادیث کی صحت کے بارے میں بھی جاننا چاہوں گا/ شکریہ
وعلیکم السلام
مسند احمد میں سند ہے
– حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ
یہ حدیث ١٨٤٠٦ ہے
============
امام مہدی پر کافی روایات ہیں اور سب بحث طلب ہیں – اس پر یہ کتاب آپ دیکھ سکتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2019/07/روایات-ظہور-المہدی-٢٠١٩.pdf