شيعوں کي معتبر کتاب بصائر الدرجات از ابو جعفر محمدبن الحسن بن فروخ الصفار المعروف بالصفار القمي (المتوفي 290 ق) جو الإمام الحسن عسکري کے اصحاب ميں سے تھے اور امام بخاري و مسلم کے ہم عصر بھي ہيں روايت پيش کرتے ہيں
حدثنا احمد بن محمد عن على بن الحكم عن سيف بن عميره عن ابى بكر الحضرمى عن حذيفة بن اسيد الغفار قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله ماتكاملت النبوة لنبى في الاظلة حتى عرضت عليه ولايتى وولاية اهل بيتى ومثلوا له فاقروا بطاعتهم وولايتهم.
حذيفة بن اسيد الغفار رضي اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلى الله عليه وآله نے فرمايا
کسي نبي کو اس وقت تک نبوت نہيں ملي جب تک اس کے سامنے ميري اور ميرے اہل بيت کي ولايت پيش نہيں کي گئي اور يہ ائمہ ان کے سامنے پيش نہيں کئے گئے پس انہوں نے ان کي ولايت و اطاعت کا اقرار کيا تب ان کو نبوت ملي
يعني شيعہ جب کسي غير نبي کو “عليہ السلام ” کہتے ہيں تو احتراما ايسا نہيں کہہ رہے ہوتے ، بلکہ وہ ان کو مامور من اللہ ، انبياء سے افضل يا کم از کم برابر جان کے ايسا کہتے ہيں اور ائمہ اہل بيت کے ساتھ علیہ السلام کے لاحقہ کو لگانا ضروري سمجھتے ہيں- يہ بات اہل سنت کو معلوم ہے اس بنا پر وہ ائمہ شيعہ يا اہل بيت کے ساتھ عليہ السلام کا لاحقہ نہيں لگاتے
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں امام حسن عسکری کے ہم عصر امام بخاری کی جامع الصحیح تک میں اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا ہوا ہے
صحيح بخاري 2089 ميں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: «كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي، فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرُسِي
صحيح بخاري 4947 ميں
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ» فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ نَتَّكِلُ؟ قَالَ: «لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ» ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} [الليل: 5] إِلَى قَوْلِهِ {فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [الليل: 10]
صحيح بخاري 3748 ميں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: «كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَةِ»
صحيح بخاري ميں 20 بار متن حديث ميں فاطمةَ عليها السلامُ لکھا ہوا ہے
520
2911
3092
3110
3113
3185
3705
3711
3854
4035
4240
4433
4462
5248
5362
5722
6280
6285
اور دو بار فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ تعلیق ابواب میں اتا ہے – اس طرح کل ملا کر یہ ٢٠ حوالے بنتے ہیں
اس سب کو دکھانے کا مقصد ہے کہ اہل سنت کو معلوم ہونا چاہیے کہ کتاب میں مذھبی الفاظ کا اضافہ کاتب کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی پابندی کا کسی محدث نے ذکر نہیں کیا کہ کاتب ضروری ہے کہ شیعہ یا خارجی یا رافضی نہ ہو کیونکہ کتابت ایک فن ہے اور فن کی قیمت ادا کی جاتی ہے اس میں دین و مذھب کو نہیں دیکھا جاتا – اگرچہ یہ ضروری تھا کہ اضافہ شدہ علیہ السلام کے الفاظ کو رضی اللہ عنہ سے بدلا جاتا لیکن یہ نہیں کیا گیا اور اب صحیح البخاری میں الگ الگ مقامات پر ان اضافوں کو دیکھا جا سکتا ہے
عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اپنا فتویٰ نقل کرتے ہیں
“اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لئے “علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)
بھوجیانی کے بقول یہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ وغیرہ کی اضافت محمد بن أبي حاتم الرازي الورّاق النحوي کا کمال ہے جو امام بخاری کا شاگرد ہے جبکہ اس کی دلیل نہیں ہے
مسلمانوں میں کتابت میں یہ عالم تھا کہ امام احمد کہتے ہیں کہ قرآن تک نصرانی سے لکھوایا جاتا تھا کیونکہ کاتب کم تھے
جزء في مسائل عن أبي عبد الله أحمد بن حنبل المؤلف: أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ) تحقيق: أبي عبد الله محمود بن محمد الحداد
الناشر: دار العاصمة، الرياض
الطبعة: الأولى، 1407 هـ
وَقَالَ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَحْمَدَ وَأَنَا أَسْمَعُ: بَلَغَنِي أَنَّ نَصَارَى يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ فَهَلْ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ نَصَارَى الْحَيْرَةِ كَانُوا يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّمَا كَانُوا يَكْتُبُونَهَا لِقِلَّةِ مَنْ كَانَ يَكْتُبُهَا. فَقَالَ رَجُلٌ: يُعْجِبُكَ ذَلِكَ؟ ! قَالَ: لا مَا يُعْجِبُنِي.
ایک رجل نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، یہ بات صحیح ہے ؟احمد نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ کاتب کم تھے۔
ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ: کیا تم کو اس جواب سے تعجب ہوا ؟ اس نے کہا: نہیں
یہ حوالہ بہت سی کتب میں موجود ہے
قرآن تو تواتر سے ملا ہے اور ظاہر ہے اس میں غلطی آج بھی فورا پکڑ لی جاتی ہے جو وعدہ الہی کی عملی شکل ہے
رہی سہی کسر پبلشرز نے پوری کر دی کہ انہوں نے جامع الصحیح میں جہاں بھی صحابی کا نام آئے وہاں رضی اللہ عنہ وغیرہ کے الفاظ کا اضافہ خود کر دیا ہے جبکہ محدثین میں اس قسم کا رواج نہیں تھا نہ جرح و تعدیل کی کتب میں اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رحمتوں کا لاحقہ لگایا جاتا تھا
راقم کا مدعا یہ کہنا نہیں کہ اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہ لکھا جائے بلکہ نسخوں کی اصل حالت اور ان کے مندرجات میں بعد والوں کی تحریفات و اضافوں کا رد کرنا ہے – مصنف ابن ابی شیبہ میں اور مصنف عبد الرزاق کے نسخوں میں اہل حدیث کے بقول احناف نے ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور حدیث نور کا اضافہ کر دیا ہے – – یعنی اہل سنت کے فرقوں کے بقول احادیث تک کو نسخوں میں بدلا یا ڈالا گیا ہے
اہل حدیث علماء میں صلاح الدین یوسف اپنی کتاب “رسومات محرم الحرام اور واقعہ کربلا “صفحہ ۵۲ میں اہل سنت کے علماء کی جانب سے ائمہ اہل تشیع اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا نے پر لکھتے ہیں:
محترم !اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء و فقہاء کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسینؓ کے لئے بھی اسے اس معنیٰ میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنیٰ میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسینؓ کو اس معنی میں “امام” نہیں کہا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ابوبکر و عمر و دیگر صحابہ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسینؓ سے زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سے بڑے صحابی کے لئے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ صرف حضرت حسینؓ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے۔ بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے۔ اس لئے اہلسنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے
سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری میں پھر علیہ السلام کیوں لکھا جا رہا ہے
==========================
نوٹ : صحیح میں اضافوں کی مزید مثال
کہا جاتا ہے امام بخاری نے احمد کو رحمہ اللہ لکھا
Sahih Bukhari Hadees # 377
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ : سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ ؟ فَقَالَ : مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي ، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، ثُمَّ رَكَعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ ، فَهَذَا شَأْنُهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عْلَى مِنَ النَّمسِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ ، قَالَ : لَا .
راقم کہتا ہے اس مقام پر رحمہ اللہ کے الفاظ متن میں تحریف ہیں کیونکہ زندہ کو کوئی مرحوم نہیں کہتا
امام بخاری نے علی المدینی کا قول نقل کیا اور علی المدینی نے زندہ احمد کو رحمہ اللہ کہا
اب سوال ہے
اول امام احمد کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا یا حیات تھے ؟ زندہ پر کوئی اس طرح رحمت کی دعا نہیں کرتا اکثر مردوں پر کی جاتی ہے
علی المدینی کا تو احمد سے بھی پہلے انتقال ہو گیا تھا
دوسرا سوال ہے کہ بعض الناس کے بقول امام بخاری نے صحیح مرتب کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا
کیا اس میں یہ الفاظ اس وقت لکھے ہوئے تھے؟
زندہ شخص کو اگر آج بھی کوئی مرحوم کہہ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے جبکہ مرحوم کا مطلب ہے اس پر رحم ہو، جو دعا ہے
یہ الفاظ ہر متن میں نہیں بلکہ اس اقتباس کا حوالہ ابن اثیر المتوفي ٦٠٦ نے جامع الأصول في أحاديث الرسول مين بھی دیا ہے اور رحمہ اللہ علیہ نہیں لکھا
قال البخاري: قال علي بن عبد الله (2) : سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث؟ وقال: إنما أردتُ أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم- كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت له: إن سفيانَ بن عيينة كان يُسألُ عن هذا كثيراً فلم تسمعه منه؟ قال: لا
حمیدی ٤٨٨ ھ نے الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے
قَالَ أَبُو عبد الله البُخَارِيّ: قَالَ عَليّ بن عبد الله: سَأَلَني أَحْمد بن حَنْبَل عَن هَذَا الحَدِيث، وَقَالَ: إِنَّمَا أردْت أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ أَعلَى من النَّاس، فَلَا بَأْس أَن يكون الإِمَام أَعلَى من النَّاس بِهَذَا الحَدِيث. قَالَ: فَقلت لَهُ: إِن سُفْيَان بن عُيَيْنَة كَانَ يسْأَل عَن هَذَا كثيرا، فَلم تسمعه مِنْهُ؟ قَالَ: لَا
یعنی حمیدی اور ابن اثیر کے دور تک یعنی ٦٠٦ ہجری تک صحیح بخاری کے متن میں یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں لکھا تھا اس کو بعد میں ڈالا گیا ہے