فقہ کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔ اصول کی کتابوں میں ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔
کہتے ہیں اجماع امت کا انکار کفر ہے
اس کے لئے سوره النساء کی آیت ١١٥ پیش کی جاتی ہے
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا
اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے
اجماع پر ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٣٤١ لکھتے ہیں
الطَّرِيقُ الرَّابِعُ: الْإِجْمَاعُ وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ عَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ الْفُقَهَاءِ وَالصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْكَلَامِ وَغَيْرِهِمْ فِي الْجُمْلَةِ وَأَنْكَرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ لَكِنَّ الْمَعْلُومَ مِنْهُ هُوَ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَأَمَّا مَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَعَذَّرَ الْعِلْمُ بِهِ غَالِبًا وَلِهَذَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا يُذْكَرُ مِنْ الإجماعات الْحَادِثَةِ بَعْدَ الصَّحَابَةِ وَاخْتَلَفَ فِي مَسَائِلَ مِنْهُ كَإِجْمَاعِ التَّابِعِينَ عَلَى أَحَدِ قَوْلَيْ الصَّحَابَةِ وَالْإِجْمَاعِ الَّذِي لَمْ يَنْقَرِضُ عَصْرُ أَهْلِهِ حَتَّى خَالَفَهُمْ بَعْضُهُمْ وَالْإِجْمَاعِ السكوتي وَغَيْرِ ذَلِكَ.
اجماع پر عام مسلمانوں میں سے فقہاء اور صوفیاء اور اہل حدیث اور اہل کلام اور دیگر بھی سب متفق ہیں اور اس کا انکار اہل بدعت نے کیا ہے الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ نے
یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ اصل صحیح العقیدہ مسلمانوں کی بات ہے آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے
اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے
فقہی مسائل میں اجماع تو رہنے دیں عقائد تک میں اجماع کا انکار موجود ہے مثلا کہا جاتا ہے
جمہور کا اس بارے میں یہ مذہب ہے کہ اجماع حجت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے۔ اس مسئلہ میں نظام طوسی، شیعہ اور خوارج نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔بحوالہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
یہاں بطور امثال چند اجماع نقل کیے جاتے ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے
اجماع امت ١ : خضر علیہ السلام زندہ ہیں
محدث ابن الصلاح المتوفي 643 ھ (بحوالہ فتح الباري از ابن حجر) کہتے ہيں
وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ
خضر جمہور علماء کے نزديک اب بھي زندہ ہيں
امام النووي المتوفي 676 ھ شرح صحيح مسلم ميں لکھتے ہيں
جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهُ حَيٌّ مَوْجُودٌ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَذَلِكَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عِنْدَ الصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ
جمہور علماء کے نزديک وہ زندہ ہيں اور ہمارے ساتھ موجود ہيں اور يہ بات صوفيہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ ميں متفق ہے
کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق
قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.
کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور يہ صحيح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ايک صالح بندے تھے نبي نہيں تھے اور يہ صحيح ہے اور ہمارے نزديک يہ صحيح ہے کہ وہ زندہ ہيں اور يہ بھي جائز ہے کہ کسي کے در پر رکيں اور ديں يا اسي طرح ديگر
شيعوں کے نزديک بھي خضر زندہ ہيں
ابن کثیر اس اجماع کا تفسیر میں انکار کرتے ہیں اور اسی طرح ابن تیمیہ اور ان سے متاثر لوگ یعنی غیر مقلدین اور وہابی حضرات
اجماع امت ٢ : مردہ اپنے زائر کو پہچانتا ہے
آبن قيم کہتے ہيں اس پر اجماع ہے. ابن قيّم کتاب الروح ميں لکھتے ہيں
وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ
اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ ميّت قبر پر زيارت کے لئے آنے والے کو پہچانتي ہے اور خوش ہوتي ہے
ابن قیم کتاب اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔ میں امام الشافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں
حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔
غیر مقلدین ، مردوں کے زائر کو پہچاننے کے عقیدے پر اجماع کا انکار کرتے ہیں جبکہ وہابیوں کی اکثریت اس کی قائل ہے
اجماع امت ٣ وہ زمین کا حصہ جو جسد نبوی کو چھو رہا ہے کعبہ سے افضل ہے
کتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية از الزرقاني المالكي (المتوفى: 1122هـ) میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت پر لکھا گیا
وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة، كما قاله ابن عساكر والباجي والقاضي عياض، بل نقل التاج السبكي كما ذكره السيد السمهودي في “فضائل المدينة”, عن ابن عقيل الحنبلي: إنها أفضل من العرش، وصرَّح الفاكهاني بتفضيلها على السماوات
اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جوأعضاءه الشريفة سے ملے ہوئے ہیں صلی الله علیہ وسلم کے وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتی کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر اور الباجی اور قاضی عیآض نے کہا بلکہ التاج السبکی کہتے ہیں کہ السيد السمهودي نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهاني نے صرآحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے
محدث سخاوی کتاب التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفةالمؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) میں لکھتے ہیں
فلنرجع للنبذة الأخرى في الإشارة بألخص عبارة لما الاهتمام باستحضاره للزائر منهم وللسائر الساري في القربات التي بها يلم مما يتعلق بالمدينة الشريفة وجهاتها المبهجة المنيفة كأسمائها وارتفعت لدون مائة عند المجد منها زيادة على ثلثيها وأفضليتها على مكة وقد ذهب لكل من القولين جماعة مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة بل على العرش فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة
وہ ٹکڑا جو نبي صلي الله عليہ وسلم سے ملا ہوا ہے اسکي افضليت پر اجماع ہے حتي کہ کعبه سے بھي افضل ہے جو اصل شہر مدينہ سے فضليت ميں زيادہ ہے بلکہ عرش سے بھي بڑھ کر جيسا حنابلہ ميں ابن عقيل نے کہا ہے
کتاب بدائع الفوائد از محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية المتوفى: 751ھ کے مطابق
فائدة: هل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم أفضل أم الكعبة؟
قال ابن عقيل: “سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم الكعبة فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش
وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح
فائدہ کیا حجرہ نبی صلی الله علیہ وسلم کعبہ سے افضل ہے؟
ابن عقیل نے کہا ایک سائل نے مجھ سے پوچھا کہ ان میں کون افضل ہے حجرہ نبی یا کعبہ؟ میں نے کہا اگر تم کہنا چاہتے ہو کہ کمرہ ؟ تو کعبہ افضل ہے لیکن اگر ارادہ ہے کہ جو اس میں ہے تو الله کی قسم نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے نہ جنت عدن نہ افلاک کے مدار کیونکہ حجرہ میں جسد ہے اگر اس کا وزن کرو تو دونوں جہان سے بھی بڑھ جائے
تمام دیوبندی اس اجماع کا اقرار کرتے ہیں لیکن غیر مقلدین اس عقیدہ پر جرح کرتے ہیں
اجماع امت ٤ قبر نبی میں رزق دیا جانا
ابن حجر کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي
میں کہتے ہیں
يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا
ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات ہر ایک آن پر سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے
رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں
امام سخاوی کے بقول اس اجماعی عقیدہ کو امت نے اختیار کیا ہے
المہند میں ہے
اجماع امت ٥ : مقلد اندھے جیسا ہے
ابن قیم القصیدۃ النونیۃ میں لکھتے ہیں
إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر
اس امت میں مجتہدین کے مقلد ہی زیادہ ہیں غیر مقلدین کی کبھی بھی کثرت نہ تھی تو گویا امت اندھی قرار پائی
اجماع امت ٦ : اجماع صحابہ رضی الله عنھم کا انکار
اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا
افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/
یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے
دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی
گویا فرشتے خالی لوٹ گئے
امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث میں لکھتے ہیں
وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ
اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں
بیہقی کیا کہہ رہے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں واپس ڈال دی گئیں
آپ دیکھ سکتے ہیں اس قسم کے اقوال جن پر اجماع کا دعوی نقل کیا گیا ہے
یہ امثال پیش کی گئی ہیں کہ امت کا حقیقت میں کسی بھی بات پر اجماع نہیں ہے بلکہ یہ اجماع کے تمام دعوے غلط ہیں اور اس کا دعوی کرنے کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی ان گمراہ عقائد پر جرح نہ کرے
اجماع امت ٧: زیارت قبر نبوی
امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی
قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں
وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ مُرَغَّبٌ فيها.
اور قبر صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں
ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں
زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها
قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں
لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی
ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے –
دار العلوم دیوبند کے چھپنے والے رسالہ دار العلوم میں تبریز عالم لکھتے ہیں
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Rauza%20Rasul%20SAW_MDU_7-8_July&Aug_16.pdf
إعلاء السنن کے مولف ظفر أحمد العثماني التهانوي ہیں اور محقق محمد تقي عثماني ہیں
حاشیہ میں لکھا ہے
کسی سے بھی اس (قبر نبوی کی زیارت) کا انکار منقول نہیں ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے
اجماع امت ٨ : اہل حدیث کا لقب آجکل اپنے لئے استعمال کرنا جائز ہے
مسلک پرستوں کا حال یہ ہے کہ اپنے فرقوں کے نام تک پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں مثلا زبیر علی از مقالات الحدیث ص ٤٥٨ میں محب الله شاہ حاشیہ میں لکھتے ہیں
تمام محدثین سے اس مرکب اضافی کا استعمال منقول ہی نہیں نہ تمام سلف کا اس پر اجماع ہے
اجماع امت ٩ : علم ہیت و رویت کا استمعال نہیں کیا جائے گا
فتح الباری ج ٤ ص ١٢٧ پر ابن حجر لکھتے ہیں
قَالَ الْبَاجِيُّ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ الصَّالح حجَّة عَلَيْهِم وَقَالَ بن بَزِيزَةَ وَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ فَقَدْ نَهَتِ الشَّرِيعَةُ عَنِ الْخَوْضِ فِي عِلْمِ النُّجُومِ لِأَنَّهَا حَدْسٌ وَتَخْمِينٌ لَيْسَ فِيهَا قَطْعٌ وَلَا ظَنٌّ غَالِبٌ
الباجی نے کہا کہ سلف صالح کا اجماع حجت ہے .. اور شریعت میں علم نجوم سے لو لگانا منع ہے کتونکہ یہ ظن و تخمین ہے اس میں کوئی قطعی چیز نہیں اور نہ ظن غالب ہے
ابن تيميہ نے مجموع الفتاوى ( 25 / 132 – 133 ) ميں علماء كا اتفاق بيان كيا ہے كہ رمضان اور عيد وغيرہ كے ثبوت ميں فلكى حساب پر اعتماد كرنا جائز نہيں
لیکن اس اجماع کا انکار بھی آج کل موجود ہے جب عرب ممالک میں اسلامی کلینڈر سال شروع ہونے سے پہلے ہی جاری کر دیا جاتا ہے سرکاری چھٹیاں اس کی بنیاد پر پہلے سے بتا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ یہ کلنڈر کئی ممالک تک میں مستعمل ہے
اجماع امت ١٠ : روحیں قبرستانوں میں رہتی ہیں
عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ کا عقیدہ تھا کہ روحیں قبرستان میں ہی قیامت تک رہتی ہیں اسی بنا پر صوفیا قبر پر مراقبہ کر کے کشف قبور کرتے ہیں
ابن حجر عسقلانی اپنے خط میں کہتے ہیں جو کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع کے ساتھ چھپا ہے خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں
ما معرفَة الْمَيِّت بِمن يزروه وسماعه كَلَامه فَهُوَ مُفَرع عَن مَسْأَلَة مَشْهُورَة وَهِي أَيْن مُسْتَقر الْأَرْوَاح بعد الْمَوْت فجمهور أهل الحَدِيث عل أَن الْأَرْوَاح على أقنية قبورها نَقله ابْن عبد الْبر وَغَيره
جمہور اہل حدیث کا مذھب ہے کہ ارواح قبرستان میں ہیں جس کو ابن عبد البر اور دوسروں نے نقل کیا ہے
لیکن اس جمہور کے مذھب کو بھی فرقے چھوڑ چکے ہیں فرقہ اہل حدیث آج کل سن ٢٠٠٠ سے کہہ رہا ہے کہ روحیں صرف چند سوالات کے لئے قبر میں اتی ہیں پھر واپس نہیں آتیں
اجماع امت ١١ : یزید بن معاویہ پر لعنت کی جائے
کتاب فیض القدیر میں المناوی نے لکھا
أطلق جمع محققون حل لعن يزيد به حتى قال التفتازاني: الحق أن رضى يزيد بقتل الحسين وإهانته أهل البيت مما تواتر معناه وإن كان تفاصيله آحادا فنحن لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلى أنصاره وأعوانه
جمیع محققین نے یزید پر لعنت کرنے کے حلال ہونے کا اطلاق کیا ہے یہاں تک کہ تفتازانی نے کہا حق یہ ہے کہ تواتر معنوی سے آیا ہے کہ یزید قتل حسین پر اور اہانت اہل بیت پر راضی تھا اور .. ہم اس پر توقف نہیں کریں گے کہ اس پر اور اس کے مدد گاروں پر لعنت کریں
اس کے برعکس محدث ابن الصلاح کہتے ہیں
لم يصح عندنا أنه أمر بقتله – أي الحسين رضي الله عنه – ، والمحفوظ أن الآمر بقتاله المفضي إلى قتله – كرمه الله – إنما هو عبيد الله بن زياد والي العراق إذ ذاك
ہمارے ( محدثین) کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ یزید نے قتل حسین کا حکم کیا ہو
ابن تیمیہ کہتے ہیں
إن يزيد بن معاوية لم يأمر بقتل الحسين باتفاق أهل النقل
اہل نقل کا اتفاق ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم نہیں کیا
غزالی کہتے ہیں
هذا لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله
یہ اصلا ثابت نہیں کہ پس کسی کے لئے جائز نہیں کہ کہے کہ یزید نے قتل کرنے کا کہا
اجماع امت ١٢ : جو کہے محمد صلی الله علیہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے
امام ابن تیمیہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ
ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ترجمہ: اور جس نے کہا کہ النبى صلى الله عليه و سلم وحی نازل ہونے سے پہلے سے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے
دوسری طرف تصوف میں ایک بحث ہے جس کو الحقيقة المحمدية کہا جاتا ہے اس پر ابن عربی نے اپنی کتب میں بحث کی ہے اور مقصد یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پہلی مخلوق ہیں
برصغیر میں مجدد الف ثانی نے اپنے رسائل میں اس کو بطور دلائل پیش کیا ہے
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مخلوق اول کہا جاتا ہے تو پھر نور محمدی کا ذکر ہوتا ہے
ظاہر ہے ابن تیمیہ متصوفین کا رد کر رہے ہیں لیکن ان کا نام نہیں لے رہے
اجماع امت ١٣ : علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے؟
آج کل کے حنابلہ جو وہابی ہیں اس قول کو واضح انداز میں نہیں کہتے کہ علی جنگوں میں حق پر تھے
یہ قول کہ علی رضی الله عنہ کا موقف صحیح تھا اور ان سے لڑنے والے اجتہادی غلطی کر رہے تھے یہ قول ابن جوزی کے ہم عصر حنابلہ کا تھا اور یہ قول ان میں چلا آ رہا تھا جو جنبلی صوفی السفاريني النابلسي نے بھی پیش کیا
وَقَدِ اتَّفَقَ أَهْلُ الْحَقِّ أَنَّ الْمُصِيبَ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ وَالتَّنَازُعِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ – رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ – مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَلَا تَدَافُعٍ
اور اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان جنگوں میں حق پر اور امیر المومنین علی رضی الله عنہ تھے
شوافع میں النووی نے ساتویں صدی میں اس کو پیش کیا اور الطيبي (743هـ) نے آٹھویں صدی میں سيوطي نے نویں صدی میں
وإن كان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب. هذا مذهب أهل السنة
احناف میں ملا علی قاری نے گیارہویں صدی میں پیش کیا
وَكَانَ عَلِيٌّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – هُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ، وَهَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ
البتہ علی (الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ) جنگوں میں حق پر تھے یہ قول اہل سنت میں چھٹی صدی سے پہلے نہیں ملتا
بلکہ تیسری صدی میں ان اختلافات پر توقف کی رائے تھی اور بعض کا انداز علی پر جرح کا بھی تھا مثال
امام جوزجانی نصب کے لئے مشھور ہیں اسی طرح اور محدثین بھی علی رضی الله عنہ پر جرح کرتے تھے
کتاب الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة میں أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ ) لکھتے ہیں
قلت الْإِجْمَاع حجَّة على كل أحد وَإِن لم يعرف مُسْتَنده لِأَن الله عصم هَذِه الْأمة من أَن تَجْتَمِع على ضَلَالَة وَيدل لذَلِك بل يُصَرح بِهِ قَوْله تَعَالَى وَيتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ نوله مَا تولى ونصله جَهَنَّم وَسَاءَتْ مصيرا النِّسَاء 115 وَقد أَجمعُوا أَيْضا على استحقاقهم الْخلَافَة على هَذَا التَّرْتِيب لَكِن هَذَا قَطْعِيّ كَمَا مر بأدلته مَبْسُوطا فَإِن قلت لم لم يكن التَّفْضِيل بَينهم على هَذَا التَّرْتِيب قَطْعِيا أَيْضا حَتَّى عِنْد غير الْأَشْعَرِيّ للْإِجْمَاع عَلَيْهِ قلت أما بَين عُثْمَان وَعلي فَوَاضِح للْخلاف فِيهِ كَمَا تقدم وَأما بَين أبي بكر ثمَّ عمر ثمَّ غَيرهمَا فَهُوَ وَإِن أَجمعُوا عَلَيْهِ إِلَّا أَن فِي كَون الْإِجْمَاع حجَّة قَطْعِيَّة خلاف فَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنه حجَّة قَطْعِيَّة مُطلقًا فَيقدم على الْأَدِلَّة كلهَا وَلَا يُعَارضهُ دَلِيل أصلا وَيكفر أَو يبدع ويضلل مخالفه وَقَالَ الإِمَام الرَّازِيّ والآمدي إِنَّه ظَنِّي مُطلقًا وَالْحق فِي ذَلِك التَّفْضِيل فَمَا اتّفق عَلَيْهِ المعتبرون حجَّة قَطْعِيَّة وَمَا اخْتلفُوا كالإجماع السكوتي وَالْإِجْمَاع الَّذِي ندر مخالفه فَهُوَ ظَنِّي وَقد علمت مِمَّا قَرّرته لَك أَن هَذَا الْإِجْمَاع لَهُ مُخَالف نَادِر فَهُوَ وَإِن لم يعْتد بِهِ فِي الْإِجْمَاع على مَا فِيهِ من الْخلاف فِي مَحَله لكنه يُورث انحطاطه عَن الْإِجْمَاع الَّذِي لَا مُخَالف لَهُ فَالْأول ظَنِّي وَهَذَا قَطْعِيّ وَبِهَذَا يتَرَجَّح مَا قَالَه غير الْأَشْعَرِيّ من أَن الْإِجْمَاع هُنَا ظَنِّي لِأَنَّهُ اللَّائِق بِمَا قَرَّرْنَاهُ من أَن الْحق عِنْد الْأُصُولِيِّينَ التَّفْضِيل الْمَذْكُور وَكَانَ الْأَشْعَرِيّ من الْأَكْثَرين الْقَائِلين بِأَنَّهُ قَطْعِيّ مُطلقًا
میں کہتا ہوں کہ اجماع ہر ایک کے لیے حجت ہےاگرچہ کہ اس سے استناد نہ کیا جاتا ہو۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے اس امت کو گمراہی پر جمع ہونے سے بچایا ہے۔ اسپر دلالت کرتا ہے بلکہ صراحت کرتا ہے اللہ تعالٰی کا فرمان ( نساء آیت 115 )خلافت کے استحقاق اور اس کی ترتیب پر بھی یقینا اجماع قطعی ہے جیسا کہ اس کے مضبوط دلائل پہلے بیان ہوئے ہیں۔اگر میں کہوں ( یا تم کہو ) کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے ۔ میں کہتا ہوں عثمان اور علی کے درمیان یہ معاملہ برعکس ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ۔ اور ابوبکر پھر عمر اور پھر ان دونوں کے علاوہ کا معاملہ ہے اس پر اجماع ہے سوائے اس سے کہ جو اجماع حجت قطعی کے خلاف ہو پس یہی معاملہ ہے اکثر کا کہ وہ اسے قطعی حجت مانتے ہیں ۔ اس کے تمام دلائل گزرچکے ۔ اور اس کے خلاف اصلا کوئی دلیل نہیں ہے ۔ مکفرہ بدعتی اور گمراہ فرقے اس کے مخالف ہیں ۔ امام رازی اور آمدی کے نزدیک یہ مطلق ظنی ہے ۔ تفضیل کے معاملہ میں حق تو وہی ہے کہ جس پر قابل اعتبار لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ حجت قطعی ہے ۔انکا اختلاف نہیں جیسا کہ اجماع سکوتی اور وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی وہ ظنی ہے ۔ تم نے جان لیا جو کہ تمھارے لیے قرار وقعی ہے کہ وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی ہو وہ اس اس اجماع سے باہر نہیں جس کی اس کی جگہ موقع پر کوئی مخالفت نہ کی گئی ہو ۔ لیکن اجماع سے مخالفت یا اس سے ہٹنے کا معاملہ توارث ہوا ہو ۔ بنا بریں پہلا ظنی اور یہ والا قطعی ہے ۔ اس وجہ سے راجح وہ ہے جو غیر اشعریوں کا کہنا ہے کہ یہ والا اجماع ظنی ہے ۔ بہتر ہے اور ہمارے لیے موقر ہے کہ حق اصولیوں کے نزدیک مذکورہ تفضیل کے مسئلہ پر ہے اور اشعریوں کی اکثریت اس کی قائل ہے کہ یہ قطعی اور مطلق ہے ۔
الفاظ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے قابل غور ہیں
یعنی عثمان کے پہلے خلیفہ ہونے سے وہ علی سے افضل نہیں
اجماع امت ١٤ : صحیح بخاری و مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں؟
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) اپنی کتاب المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں کہ
اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول وكتاب البخاري أصحهما
علماء الله ان پر رحم کرے کا اجماع ہے کہ سب سے صحیح کتاب قرآن کے بعد دو صحیح ہیں صحیح بخاری و مسلم اور امت نے ان کو تلقھا بالقبول کیا ہے اور امام بخاری کی کتاب ان دو میں صحیح ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-14
النووی مزید کہتے ہوں
وقد قال امام الحرمين لو حلف انسان بطلاق امرأته أن ما في كتابي البخاري ومسلم مما حكما بصحته مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لما ألزمته الطلاق ولا حنثته لاجماع علماء المسلمين
http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-19
اور بے شک امام الحرمین نے کہا کہ اگر کوئی انسان قسم کھا لے صحیح بخاری و مسلم میں قول نبوی کی صحت پر تو اس کو طلاق نہ ہو گی اور نہ نکاح ٹوٹے گا کہ یہ علماء مسلمین کا اجماع ہے
أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)اپنی کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں لکھتے ہیں کہ
وقال الحافظ أبو علي النيسابوري: ما تحت أديم السماء أصح من كتاب مسلم في علم الحديث
http://shamela.ws/browse.php/book-1000#page-2192
الحافظ أبو علي النيسابوري نے کہا : آسمان تلے علم حدیث میں صحیح مسلم سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں
امام ذھبی اپنی کتاب تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي میں لکھتے ہیں کہ
قال زكريا الساجي: كتاب الله أصل الإسلام وسنن أبي داود عهد الإسلام
http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-424
اور آگے جا کر لکھتے ہیں کہ
ومن كان في بيته هذا الكتاب -يعني الجامع- فكأنما في بيته نبي يتكلم
http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-450
——–
اسی طرح صطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ) اپنی کتاب كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون میں لکھتے ہیں کہ
وهو الثاني من الكتاب الستة، وأحد الصحيحين، اللذين هما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز
http://shamela.ws/browse.php/book-2118#page-4118
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس اپنی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں کہ
وقال الذهبي في تاريخ الإسلام: وأما جامع البخاري الصحيح فأجلّ كتب الإسلام وأفضلها بعد كتاب الله تعالى
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-29
لیکن آج علمائے ہی کہہ رہے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث ہیں مثلا
البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥ پر کہتے ہیں کہ کوئی معترض کہے
إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.
بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق
البانی نے ہی صحیح مسلم کی متعدد روایات کو بھی ضعیف قرار دیا ہے
اس کی تفصیل اس ویب سائٹ کے سوالات کے سیکشن میں علم حدیث میں ہے
یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟
اجماع امت ١٥ جنازہ میں چار تکبیرات دی جائیں
نووی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا
دل الإجماع على نسخ هذا الحديث لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف (شرح مسلم
ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔
دوسری طرف امام ترمذی سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر اصحاب رسول کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔
اگر اس پر اجماع ہے تو وہ اہل علم جو اس پر عمل نہیں کرتے ان کا ایمان ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ترمذی نے کہا دیگر اہل علم کا عمل ہے سب کا نہیں کہا – دوم جب حدیث موجود ہے کہ تکبیر چار ہیں تو اس پر اجماع کی کیا ضرورت تھی
اجماع امت ١٦ مُعْتَزِلَةِ کفار ہیں
کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة از ابن قیم
الْمُعْتَزِلَةِ الَّذِينَ اتَّفَقَ السَّلَفُ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ
مُعْتَزِلَةِ جن کی تکفیر پر سلف کا اتفاق ہے
کتاب رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق
وأنت خبير بأن الصحيح في المعتزلة والرافضة وغيرهم من المبتدعة أنه لا يحكم بكفرهم
اور تم کو معلوم ہے کہ المعتزلة اور رافضیوں اور دیگر بدعتوں کے حوالے سے صحیح یہ ہے کہ ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا گیا
اجماع امت ١٧ : غیر الله کو سجدہ کرنا حرام ہے
ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں
وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى: أَنَّ السُّجُودَ لِغَيْرِ اللَّهِ مُحَرَّمٌ
اور مسلمان اس پر جمع ہیں کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے
مجموع الفتاوى (4/358) میں
دوسری طرف صوفیاء میں آج تک مروج ہے
اجماع امت ١٨ : آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض نہیں ہے
غلام مصطفی امن پوری مضمون درود کے فرض ہونے کے مواقع میں لکھتے ہیں کہ بعض کا اس پر بھی اجماع کا دعوی ہے جو صحیح نہیں
اجماع امت ١٩ : تین طلاق ایک ہی وقت میں واقع ہو جاتی ہے
محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري کتاب الإجماع میں لکھتے ہیں
وأجمعوا على أنه إن قال لها: أنت طالق ثلاثا إلا ثلاثا، أنها تطلق ثلاثا
اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کہہ دے تجھ کو تین طلاق ہے تو تین طلاق ہو گئیں
وأجمعوا على أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثًا: أنها لا تحل له إلا بعد زوج غيره على ما جاء به حديث النبي صلى الله عليه وسلم، وانفرد سعيد بن المسيب، فقال: أن تزوجها تزويجًا صحيحًا لا تريد به إحلالا؛ فلا بأس أن يتزوجها الأول
اس پر اجماع ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو وہ کے لئے حلال نہیں الا یہ کہ وہ عورت کسی اور سے کرے جیسا حدیث میں ہے
الإقناع في مسائل الإجماع میں علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) فرماتے ہیں
وأن قال: أنت طالق ثلاثًا أنها تطلق ثلاثًا
اور اگر مرد کہہ دے تجھ کو تین طلاق تو عورت پر تین طلاق واقع ہو گئیں
اس اجماع کا انکار غیر مقلد کرتے ہیں جس کا ذکر سب کرتے رهتے ہیں [1]
موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي
إعداد: د. أسامة بن سعيد القحطاني، د. علي بن عبد العزيز بن أحمد الخضير، د. ظافر بن حسن العمري، د. فيصل بن محمد الوعلان، د. فهد بن صالح بن محمد اللحيدان، د. صالح بن عبيد الحربي، د. صالح بن ناعم العمري، د. عزيز بن فرحان بن محمد الحبلاني العنزي، د. محمد بن معيض آل دواس الشهراني، د. عبد الله بن سعد بن عبد العزيز المحارب، د. عادل بن محمد العبيسي
الناشر: دار الفضيلة للنشر والتوزيع، الرياض – المملكة العربية السعودية
إذا طلق الرجل امرأته ثلاث طلقات متواليات، فيقع الطلاق ثلاثًا، ونقل الإجماع على ذلك جمع من أهل العلم• من نقل الإجماع:
1 – ابن المنذر (318 هـ) حيث قال: “وأجمعوا أن من طلق زوجته أكثر من ثلاث، أن
ثلاثًا منه تحرمها عليه” (2).
2 – ابن عبد البر (463 هـ) حيث قال: “أما وقوع الثلاث تطليقات مجتمعات بكلمة واحدة، فالفقهاء مختلفون في هيئة وقوعها كذلك، هل تقع للسنة أم لا؟ مع إجماعهم على أنها لازمة لمن أوقعها” (3). وقال أيضًا: “. . . وقوع الثلاث مجتمعات غير متفرقات، ولزومها، وهو ما لا خلاف فيه بين أئمة الفتوى بالأمصار، وهو المأثور عن جمهور السلف” (4). وقال أيضًا: “. . . الطلاق الثلاث مجتمعات لا يقعن لسُنّة. . . وهم مع ذلك يلزمونه ذلك الطلاق، ويحرمون به امرأته، إلا بعد زوج، كما لو أوقعها متفرقات عند الجميع” (5).
3 – ابن العربي (546 هـ) حيث قال: “. . . وليس معناه ما يتوهمه المبتدعة والجهّال من أن طلاق الثلاث إذا قالها الرجل في كلمة لا يلزم، وقد ضربت شرق الأرض وغربها، فما رأيت ولا سمعت أحدًا يقول ذلك إلا الشيعة الخارجين عن الإسلام” (1).
4 – ابن هبيرة (560 هـ) حيث قال: “واتفقوا على أن الطلاق الثلاث بكلمة واحدة، أو بكلمات في حالة واحدة، أو في طهر واحد يقع؛ ولم يختلفوا في ذلك” (2).
5 – الكاساني (587 هـ) حيث قال: “وروينا عن عمر -رضي اللَّه عنه- أنه كان لا يؤتى برجل قد طلق امرأته ثلاثًا إلا أوجعه ضربًا، وأجاز ذلك عليه، وكانت قضاياه بمحضر من الصحابة -رضي اللَّه عنهم-، فيكون إجماعًا منهم على ذلك” (3).
6 – ابن قدامة (620 هـ) حيث قال: “وجملة ذلك أن الرجل إذا قال لامرأته: أنت طالق ثلاثًا، فهي ثلاث، وإن نوى واحدة، لا نعلم فيه خلافًا” (4).
7 – القرطبي (671 هـ) حيث قال: “واتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة، وهو قول جمهور السلف” (5).
8 – ابن جزي (741 هـ) حيث قال: “الطلاق الرجعي والبائن، فأما البائن، فهو في أربعة مواضع: وهي طلاق غير المدخول بها، وطلاق الخلع، والطلاق بالثلاث، فهذه الثلاثة بائنة اتفاقًا، . . . ” (6). وقال أيضًا: “وتنفذ الثلاث، سواء طلقها واحدة بعد واحدة اتفاقًا، أو جمع الثلاث في كلمة واحدة” (7).
9 – قاضي صفد (بعد 780 هـ) حيث قال: “اتفق الأئمة على أن الطلاق في الحيض لمدخول بها، أو في طهر جامع فيه محرّم؛ إلا أنه يقع، وكذلك جمع الطلاق الثلاث يحرم ويقع” (8).
10 – ابن حجر (852 هـ) حيث قال: “فالراجح في الموضعين تحريم المتعة، وإيقاع الثلاث للإجماع الذي انعقد في عهد عمر على ذلك، ولا يحفظ أن أحدًا في عهد عمر خالفه في واحدة منهما، وقد دل إجماعهم على وجود ناسخ، وإن كان خفي عن بعضهم قبل ذلك حتى ظهر لجميعهم في عهد عمر، فالمخالف بعد هذا الإجماع منابذ له، والجمهور على عدم اعتبار من أحدث الاختلاف بعد الاتفاق” (9).
١١
– العيني (855 هـ) حيث قال: “لما خاطب عمر الصحابة بذلك فلم يقع منهم إنكار، صار إجماعًا” (1).
12 – ابن الهمام (861 هـ) حيث قال: “إجماعهم ظاهر، فإنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر -رضي اللَّه عنه- حين أمضى الثلاث” (2).
13 – ابن نجيم (970 هـ) حيث قال: “ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة؛ لأنه مخالف للإجماع” (3).
14 – ابن عابدين (1252 هـ) فذكره، كما قال ابن الهمام (4).
15 – ابن قاسم (1392 هـ) حيث قال: “من طلق زوجته ثلاثًا بكلمة واحدة، وقعت الثلاث، وهو مذهب الأئمة الأربعة، وجماهير العلماء، . . . وحكى ابن رشد إجماع علماء الأمصار على أن الطلاق بلفظ الثلاث حكمه حكم الطلقة الثالثة” (5).
- الموافقون على الإجماع: ما ذكره الجمهور من الإجماع على أن الرجل إذا طلق ثلاث تطليقات مجتمعات، وقعت ثلاثًا وافق عليه ابن حزم (6). وهو قول الثوري، وابن أبي ليلى، والأوزاعي، والليث، وعثمان البتي، والحسن بن حي، وإسحاق، وأبي ثور
=====================
اجماع کی بحث اھل علم کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں
کیونکہ کہا جاتا ھے کہ عود روح کا عقیدہ امت کا اجماعی عقیدہ ھے لیکن اس کا انکار ابن حزم المتوفی ٤٦٥ه کرتے ھیں جنھوں نے مراتب الاجماع کے عنوان سے کتاب لکھی جو آج تک اجماع کے حوالے سے ایک انساکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ھے
جو شخص اجماع کی اھمیت پر کتاب لکھے اور عود روح کے عقیدے کا انکار کرے اس کی یقینا کوئی تو وجہ ھے
امام حزم نے ایک کتاب المحلی بھی لکھی – جس پر شیعہ نے ایک عبارت کوٹ کر دی
صحابہ کے اس اجماع پر اللہ کی لعنت ہے جس میں حضرت علی ع موجود نہ ہوں
لنک
http://www.shiatiger.com/2014/05/jis-ijma-main-ali-na-ho-us-pr-allah-ki-lanat.html
یہ ابن حزم کی جرح کا انداز ہے جب لوگ اجماع کا دعوی کرتے ہیں جس میں صرف ایک صحابی کا یا چند کا ہی قول ہوتا ہے – ایک مقام پر اسی کتاب المحلی ج ٣ ص ٣٥٠ میں لکھتے ہیں
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: أُفٍّ لِكُلِّ إجْمَاعٍ يُخْرَجُ عَنْهُ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَالصَّحَابَةُ بِالشَّامِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
ہر اس اجماع پر تف ہے جس سے علی کو انس بن مالک کو عبد الله ابن مسعود کو ، ابن عباس کو اور شام میں اصحاب رسول رضی الله عنہم کو نکال دیا جائے
کیا اجماع صحابہ کرام قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی چیز اسلام میں ھے
سلام یعقوب صاحب
کتاب الأم میں امام الشافعي (المتوفى: 204هـ) لکھتے ہیں
وَالْعِلْمُ مِنْ وَجْهَيْنِ اتِّبَاعٌ، أَوْ اسْتِنْبَاطٌ وَالِاتِّبَاعُ اتِّبَاعُ كِتَابٍ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَسُنَّةٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَقَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفِنَا لَا نَعْلَمُ لَهُ مُخَالِفًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى قَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفٍ لَا مُخَالِفَ لَهُ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ إلَّا بِالْقِيَاسِ وَإِذَا قَاسَ مَنْ لَهُ الْقِيَاسُ فَاخْتَلَفُوا وَسِعَ كُلًّا أَنْ يَقُولَ بِمَبْلَغِ اجْتِهَادِهِ وَلَمْ يَسَعْهُ اتِّبَاعُ غَيْرِهِ فِيمَا أَدَّى إلَيْهِ اجْتِهَادُهُ بِخِلَافِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ
اور علم کے دو رخ ہیں اتباع ہے یا استنباط ہے- اتباع ، کتاب الله کی اتباع ہے اور اگر اس میں نہ ہو تو پھر سنت اور اگر اس میں نہ ہو تو ہم وہ کہیں گے جو ہم سے پہلے گزرنے والوں نے کہا اس میں ہم انکی مخالفت نہیں جانتے، پس اگر اس میں بھی نہ تو ہم پھر کتاب الله پر قیاس کریں گے ، اگر کتاب الله پر نہیں تو سنت رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پر قیاس کریں گے – اوراگر سنت رسول پر نہیں تو بیشتر سلف نے جو کہا ہو اس پر قیاس کریں گے اس میں انکی مخالفت نہیں کریں گے اور قول جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قیاس ہو اور جب قیاس ہو تو (اپس میں مسلمان) اختلاف بھی کریں گے اس سب میں وسعت ہے کہ ہم ان کے اجتہاد کی پہنچ اور اتباع کی کوشش پر بات کریں کہ یہ پیروی نہ کر سکے جو لے جاتا ہے اس کے خلاف اجتہاد پر والله اعلم
قرآن و حدیث کی اتباع ہے اور پھر اس میں استنباط ہے جو اجتہاد ہے
اصحاب رسول کا اجماع بھی حدیث سے ہی پتا چلے گا
آپ کی تحریر سے تو یہ بالکل واضع ھے کہ آپ کا ایمان سورۃالاعراف کی آئت 3 اور سورۃالنسآء آئت 59 کے کے سراسر خلاف ھے اور اپنی تحریر کا آپ نے کوئی حوالہ بھی نھیں دیا. اور قیاس تو سراسر گمراھی کا رستہ ھے
جس مسئلہ میں نہ قرآن میں کوئی حکم ہو نہ حدیث میں اس سلسلے میں کیا کیا جائے گا بتانا پسند کریں گے
دوم ایک حدیث صحیح ہے کیسے پتا چلتا ہے ؟ کیا جرح و تعدیل سے پتا نہیں چلتا ؟ جرح و تعدیل میں ان راویوں پر بھی کلام ہوتا ہے جن سے ملاقات نہ ہو -وہ کیا ہوتا ہے ؟
بھائی صاحب جرح و تعدیل بھی اجتہاد ہے جو قیاس کا دوسرا نام ہے
السلام.علیکم باائی اگر انکی بات ہی.مان لی جائے کہ.امت کا اجماع کا انکاری کافر ہے تو انکے اپنے اجماع ہی ایک دوسرے کے خلاف ہیں دیو بندیوں ایلحدیثوں اور بریلویوں کے اجماع جیسے کہ.آپ جو اوپر بیان کیے ہیں پھر تو یہ سارے مسالک ایک دوسرے کیلیے کافر ہوئے
جی یہ لوگ اب بات بدل رہے ہیں کہتے ہیں
علماء کا کسی بات پر جمع ہونا اجماع اصطلاحی نہیں
یہ اجماع نہیں تو پھر کیا ہے
یہ مرض اہل حدیث کا ہے کہ وہ اصطلاحات کی تعریف بدلتے رہتے ہیں
خالص ایمان والوں کا جو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کرتے انکااجماع کا انکار کیا کفر ہو گا سورت النساء ۱۱۵ کے مطابق؟
اجماع صحابہ کا انکار اس طرز پر لیا جا سکتا ہے
اکابر پرستوں کے اجماع کی کوئی حیثیت نہیں
قرون ثلاثہ کا دور کب ختم ہوتا ہے بھائی؟؟
٣٠٠ ہجری کے شروع ہونے پر
ایک مشھور روایت ہے خیر القرون قرنی … کہ سب سے بہتر دور میرا ہے پھر وہ جو ان سے ملیں پھر وہ جو ان سے ملیں
اس سے تین قرون نکلتے ہیں
قرن اول میں ہی رافضی اور شیعہ اور خوراج موجود ہیں – قرن اول سو سال کا دور ہے کیونکہ ایک دوسری حدیث میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج اس زمین پر جو زندہ ہے وہ اگلے سو سال میں نہ ہو گا
اس طرح ١٠٠ + ١٠٠ + ١٠٠ سے ٣٠٠ ہجری تک جاتے ہیں
اس میں تمام مشھور گمراہ فرقے معتزلہ ، قدری ، جھمی سب اتے ہیں
یہ حقیقت ہے
ظاہر ہے قول نبوی کا یہ مطلب نہیں تھا کہ منافق جو دور نبوی میں ہیں وہ قرن اول کی وجہ سے افضل ہوئے بلکہ صرف ایک انداز دیا گیا کہ آہستہ آہستہ یہ دین بدلتا چلا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے ١٠ ہجری کو مسلمانوں پر عذاب کی خبر دی اس وقت مسلمانوں میں مومن اور منافق دونوں تھے دوسری حدیث ہے کہ اگر میں منافقوں کے نام بتا دوں تو تم ان کو دفن نہ کرو
یعنی عذاب کا تعلق تدفین سے نہیں ہے
خدشہ کا لفظ لوگوں نے ترجمہ میں ڈالا ہے متن میں نہیں ہے
پھر اگر ہم آج بھی دفن نہ کریں تو کیا مردے بچ جائیں گے جیسا حدیث میں ہے ظاہر ہے اس کا مطلب وہ نہیں جو یہ لوگ لے رہے ہیں
اگر لوگ مردے دفن نہ کرتے تو مدینہ سڑتا لاشیں گدھ کھا لیتے یا لوگ جلا دیتے کیا عذاب سے بچ جاتے؟
اس پر کلام یہاں ہے
کتاب ڈونلوڈ کریں
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/07/عذاب-القبر.pdf
عثمانی صاحب کی رائے
میت کا کلام : یہ متشابہ ہے اس کا مفہوم معلوم نہیں کوئی اس کو زبان حال کہتا ہے کوئی زبان مقال بخاری نے خود میت کہا ہے
جوتوں کی چاپ : فرشتوں کی چاپ کی آواز ہے برزخ میں
===================================================================
راقم کی تحقیق
میت کا جنازہ پر کلام : راوی سعید بن ابی سعید المقبری کا دور اختلاط ہے اس میں امام بخاری کے دور تک واضح نہیں رہا تھا کس نے کب سنا بعض نے رائے لی لہ لیث بن سعد مصر سے مدینہ آئے انہوں نے سنا اور وہ جان گئے کون سی صحیح ہے کون سی غلط ہے- لیکن یہ ظن و تخمین ہے
کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا سند میں دو طرق ہیں اور ان پر بھی ٢٠٠ ہجری تک محدثین کا کلام ہے بعض طرق یہ خود رد کرتے ہیں
سعید کی کلام میت والی روایت امام مالک نے بھی نہیں لکھی جبکہ دونوں مدینہ کے باسی ہیں
امام بخاری نے لیث کی سند سے کلام میت والی کو لکھ دیا
امام مسلم نے یہ کلام میت والی کو نہیں لکھا
لہذا اس میں شک ہے کہ یہ راوی منفرد ہے کوئی اور اس کو بیان نہیں کر رہا
راقم شک پر عقیدہ نہیں رکھ سکتا
جوتوں کی چاپ: اس میں کافی مسائل ہیں – اول اس میں قدماء عربی نحویوں کے مطابق عربی کی غلطی ہے – اس میں سعید بن ابی عروبہ کے اختلاط کا مسئلہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس کو ان سے سنا وہ اسی دور کے ہیں
اس میں قتادہ بھی ایک مسئلہ ہیں کیونکہ ان کی احادیث میں اضطراب اتا ہے – ان کی وہ روایت صحیح ہے جس میں تین ائمہ ہشام دستوائی، سعید بن ابی عروبہ، شعبہ میں سے دو ائمہ کا اتفاق ہو اور اس روایت میں ایسا نہیں ہے صرف ایک سعید نے اس کو روایت کیا ہے
اور خود امام احمد کا اس روایت پر عمل نہیں ہے
اور فقہاء کا بھی عمل نہیں ہے
یہ سب کہتے ہیں قبرستان میں جوتیاں مت پہنو
صحیحین پر آراء
راقم کے نزدیک صحیحین میں ضعیف اور معلول روایات ہیں جن میں راقم منفرد نہیں – خود امام بخاری کے دور کے محدثین جن روایات کو ضعیف کہتے تھے وہ بھی امام صاحب نے اپنی دانست پر لکھ دی ہیں جو ایک اجتہادی غلطی ہے –
اس کے لئے اپ دو ہفتے تک صرف اس کو پڑھیں
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-حدیث-٢/
————
کتاب الصلاة كون سي؟
-============
وہ شخص جس نے وصیت کی کہ اس کو جلا دیا جائے وہ ایک جاہل تھا اس کو معلوم نہیں تھا کہ آخرت بھی ہے- آخرت کا انکاری جہنمی ہے – لیکن اس شخص کو الله نے معاف کر دیا کیونکہ یہ الله سے ڈرتا تھا یہ اس کا خصوص ہے
اور خصوصی معاملات پر عقیدہ نہیں رکھا جاتا
——
لوگوں نے کہا میت کو ایسے ہی عذاب دیا جاتا ہے جیسے نیند کے اندر خواب میں محسوس کرتے ہیں
اس کی کیا دلیل ہے کیونکہ خواب کوئی عذاب نہیں جسم میں کھال پر عذاب ہوتا ہے
اس کا ذکر قرآن میں ہے کہ جب کھال جلے گی دوسری آئے گی
لہذا وہ عذاب جس میں کھال پر اثر نہ ہو عذاب نہیں
—————
نیند میں جہنم دیکھنا عذاب نہیں ہے
ابن عمر نے خواب میں جہنم کو دیکھا کہ یہ کنواں نما ہے
ظاہر ہے ابن عمر کو عذاب جہنم نہیں ہوا
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: رات کی نماز کی فضیلت)
1121 . – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، ح وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَأَى رُؤْيَا قَصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَرَى رُؤْيَا، فَأَقُصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ غُلاَمًا شَابًّا، وَكُنْتُ أَنَامُ فِي المَسْجِدِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَخَذَانِي، فَذَهَبَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ البِئْرِ وَإِذَا لَهَا قَرْنَانِ وَإِذَا فِيهَا أُنَاسٌ قَدْ عَرَفْتُهُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَلَقِيَنَا مَلَكٌ آخَرُ فَقَالَ لِي: لَمْ تُرَعْ
حکم : صحیح 1121 . ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے حدیث بیان کی ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دیتے ) میرے بھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا، میں ابھی نوجوان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ پر کنویں کی طرح بندش ہے ( یعنی اس پر کنویں کی سی منڈیر بن ی ہوئی ہے ) اس کے دو جانب تھے۔ دوزخ میں بہت سے ایسے لوگو ں کو دیکھا جنہیں میں پہچانتا تھا۔ میں کہنے لگا دوزخ سے خدا کی پناہ! انہوں نے بیان کیاکہ پھر ہم کو ایک فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔
عذاب عالم ارواح کا معاملہ ہے جہاں شعور ہے احساس ہے – جسم کا معامله نہیں جس میں شعور نہیں بلکہ وہ معدوم ہو جاتا ہے
——–
یہ سب سننے کے بعد یہ الله کی قدرت کا ذکر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ الله قادر ہے لیکن اس کا نظام بھی ہے
اس میں تبدیلی معجزہ بنتی ہے
اس پر کوئی کتاب عثمانی صاحب کی نہیں ہے
ایک کتاب ہے جو بانٹی جاتی ہے جو متاخرین نے تالیف کی ہے لیکن اس ویب سائٹ پر نہیں ہے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے بعد اس تنظیم میں سن ٢٠٠٣ میں کفر طاغوت مع تبین اسم طاغوت کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے جس کی بنا پر یہ تنظیم ٹوٹ گئی
حنیف صاحب کا تفسیر میں انداز اسم طاغوت کا تذکرہ نہ کرنے کا تھا جس پر اختلاف ہوا
مسئلہ اس قدر پڑھا کہ وہ اپنے اپ کی حقیقی خلیفہ تصور کرنے لگے اور قرآن کی آیات جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہیں ان کو شوری کے جہلاء نے ان کے حوالے سے پیش کیا مثلا
يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض أن تحبط أعمالكم وأنتم لا تشعرون
إس بر معامله بڑھا اور بعد میں حنیف اپنے ذہنی خلفشار سے نکل نہیں پائے اور شیطان کے غلبے میں اہل حق و انصاف پر “انکار امیر تنظیم” کے جرم میں مرتد کا فتوی لگا بیٹھے جو پلٹ جائے گا اور محشر میں ان سے سوال ہو گا – راقم دعا کرتا ہے الله ان کو موت سے پہلے توبہ کی توفیق دے
اب تفسیر میں طاغوت کے نام ڈال دیے گئے ہیں
http://www.emanekhalis.com/archive/ur/downloads/tafaseer/2-baqarah_ver1.pdf
ص ٢٥ پر
لیکن ارتاد کا فتوی واپس نہیں لیا جا رہا
یہ تنظیمی بیرو کریسی کا انداز ہے جس کا نام انہوں نے شوری رکھا ہوا ہے
باقی جھوٹ بولنے کا اس گروہ میں رواج بھی ہو چکا ہے مثلا یہ لوگ اب کہتے ہیں لوگوں نے ہمیں کافر کہا تو ہم نے بھی کہا
حالانکہ ان کو کافر نہیں کہا گیا تھا حق کی طرف رجوع کے لئے کہا گیا تھا کہ اگر اپ اس تنظیم کے امیر بننا چاہتے ہیں جو ڈاکٹر عثمانی کی ہے تو اپ کو نام لینا ہوں گے- بہر حال امیر حنیف کا فتوی چل رہا ہے کہ میں بائیکاٹ کا اور ارتاد کا حکم کرتا ہوں
ثقات نے خبر دی کہ راقم پر بھی یہ فتوی لگا ہوا ہے
راقم سمجتا ہے یہ ذہنی نہ پختگی کا تعلق عمر سے نہیں ہے – الله جس کو چاہے سمجھ و حکمت دے
لیکن کہا جاتا ہے خدا گنجے کو ناخن نہ دے
قرآن میں ہے
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(59)
یہاں أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ سے مراد وہ ہیں جن کو اقتدار حاصل ہے جو حدود الله قائم کر سکتے ہوں
کسی تنظیم کے امیروں سے متعلق یہ حکم نہیں ہے
دوم تنازعات کا حل قول الله اور قول نبوی سے لیا جائے گا اس میں دیکھیں امیر تنظیم کی نا فرمانی پر ارتاد کا حکم کہیں نہیں ہے
جو اس حکم کو لگا رہے ہیں وہ کتاب الله کے مخالف ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ
اللہ کی معصیت میں (کسی کی) اطاعت نہیں۔ صحیح مسلم:
یہ بھی ہے
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حاکم مسلمانوں کے کسی گروہ پر حکومت کرتا ہے اگر وہ اس حالت میں فوت ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کرتا رہا تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم
اندرون خانہ یہ کلام بھی اس گروہ میں جاری ہے کہ حدیث میں حکم ہے کہ مخالف امیر کو قتل کر دو جس کو بڑی جسارت سے بیان کیا جاتا ہے
پھر سن ٢٠٠٨ میں دوبارہ اختلاف ہوا وہ یوسف علیہ السلام کو سجدہ کے حوالے سے ہوا کہ کیا یوسف کے بھائیوں نے ان کو سجدہ کیا یا الله کو؟
یعقوب علی صاحب کا موقوف تھا کہ سجدہ الله کو ہوا- دیگر کا موقف تھا کتاب الله میں ضمیر یوسف کی طرف ہے
اس پر تنظیم پھر دو حصوں میں بٹ گئی
یعقوب علی کا موقف سخت غلط ہے اور یہ قرآن کی انسانی کریکش کا انداز ہے کہ وہ آیات جن کے معنی صحیح نہ بیٹھ رہے ہوں ان میں اس قسم کی کریکشن کی جائے گی کہ ضمیروں کو ان کے مقام سے پلٹ دیا جائے گا اس پر ان سے تفصیلی بات ہوئی ہے لیکن وہ اس سے رجوع نہیں کر رہے
الله ان کو بھی ہدایت دے
اس طرح آج کل اس کے تین گروہ ہیں
ایک حنیف گروب ہے ان کی ویب سائٹ ہے
http://www.emanekhalis.com
دوسرا گروہ یعقوب علی کا ہے ان کی ویب سائٹ ہے
http://dawat-e-touheed.com
اور راقم سعید احمد کے گروب سے منسلک ہے
ان کی کوئی ویب سائٹ نہیں ہے
———–
یہ راقم کی ذاتی ویب سائٹ ہے لیکن لوگ پسند کرتے ہیں فیس بک وغیرہ پر اس کے حوالے دیے جا رہے ہیں
جن کا علم راقم کو نہیں کہ فیس بک پر اس کے پیجز کون چلا رہا ہے
بہر حال راقم الله کے حکم سے پر بغیر لومة لائم اپنی تحقیق کرتا رہتا اور ان کو پیش کرتا رہتا ہے
راقم سمجھتا ہے اس تنظیم کو ابھی بہت کچھ سکھینا ہے کہ اس مقام پر پہنچے کہ
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تو اپ کا تعق کس جماعت سے ہے جسکی حدیث نے نشان دہی کی ہے۷۳ فرقوں میں جو ایک جنت میں جانے والی ہے اپکی تحقیق کی مطابق آج وہ جماعت کونسی ہے کیوں کہ قران میں بھی ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو
9-At-Tawba : 119
ایک گروہ جو حق کی طرف بلاتا ہے وہ کونسا ہےپھر
جیسا کہ قران میں ہے
وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ
اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا رستہ بتاتے ہیں اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں
7-Al-A’raf : 181
وَمِنْ قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ
اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں
7-Al-A’raf : 159
وضاحت کر دیں
الله تعالی کے علم میں ہے
لیکن ظاہر ہے میں جو موقف رکھتا ہوں اس کو پیش کرتا ہوں جو میرے نزدیک صحیح ہے
دین میں غلو کرنا منع ہے اس کا تعلق نبی صلی الله علیہ وسلم اور اہل بیت کے حوالے سے بھی ہے اور ہم عصر لوگوں یا امیروں کے حوالے سے بھی ہے کہ ہم
ان کا کہا الله کا کہا نہ سمجھیں
جب ہم حدیث پر ضعیف کا حکم لگاتے ہیں تو یہ اصل میں راوی پر حکم ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ قول نبوی بھی اگر ہوتا تو نہیں مانتے کیونکہ قول نبوی جو حقیقت میں قول نبوی ہی ہو ہم کو معلوم ہو اور اس کا انکار کریں تو یہ کفر ہے
لیکن یہ معاملہ کسی تنظیم کے قول یا حکم امیر کا نہیں ہے اس کا انکار کفر نہیں ہے
لہذا تنظیموں میں آج کل امارت زیادہ ہے خوف الہی کم ہے بعض کو جاہ چاہیے بعض کو حشمت
دوسری طرف دین آج کل مال و کاروبار ہے کہ حق کو مسخ کرنا اس کے خلاف کتب لکھنا عام ہے
اپ الله سے دعا کریں کہ جو اہل حق ہوں ان سے اپ کو ملا دے
اور حق بات کو بیان کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حدیث ہے خوف وہیبت کی وجہ سے حق بات چھپانا :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ فِي حَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ أَوْ سَمِعَهُ (مسند احمد بن حنبل: 11017 حدیث صحيح)
بلا شبہ جب ایک انسان تک صحیح بات پہنچ جائے عقل و قرآن کے میزان میں اتر جائے
تو پھر اس کو قبول کرنا چاہیے یہ سوچے بغیر کہ تنظیم کیا ہے امیر کیا ہے کیونکہ ہم کتاب الله کی وجہ سے الله کو جواب دہ ہو چکے ہیں
اس سے الگ ہو کر اگر کسی انسان سے جڑ گئے کہ لوگ کیا کہیں گے
تو معاملہ بہت خراب ہے
الله ہم کو دین میں آزمائش سے بچائے
جزاک الله ابو شہر یار بھائی
اوپر اجماع کی نمبرنگ صحیح کر لیں ١٣ کے بعد آپ نے ١٥ اور ١٦ نمبر دے دیے ہیں – اور آپ نے ام ذھبی کے حوالے شامل نہیں کیے جو میں نے دیے ہیں
امام ذھبی اپنی کتاب تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي میں لکھتے ہیں کہ
قال زكريا الساجي: كتاب الله أصل الإسلام وسنن أبي داود عهد الإسلام
http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-424
اور آگے جا کر لکھتے ہیں کہ
ومن كان في بيته هذا الكتاب -يعني الجامع- فكأنما في بيته نبي يتكلم
http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-450
——–
اسی طرح صطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة
(المتوفى: 1067هـ)
اپنی کتاب كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون میں لکھتے ہیں کہ
وهو الثاني من الكتاب الستة، وأحد الصحيحين، اللذين هما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز
http://shamela.ws/browse.php/book-2118#page-4118
———–
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس اپنی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں کہ
وقال الذهبي في تاريخ الإسلام: وأما جامع البخاري الصحيح فأجلّ كتب الإسلام وأفضلها بعد كتاب الله تعالى
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-29
Al-Silsila-tus-Sahiha Hadees # 3406
عَنْ كَعْب بْن عَاصِم الأَشْعَرِيِّ ، سَمِعَ النِّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْل : « إِنَّ اللهَ قَدْ أَجَارَ أُمَّتِي مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ عَلَى ضَلَالَة »
کعب بن عاصم اشعری سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کو اس بات سے بچا لیا ہے کہ وہ گمراہی پر جمع ہوں۔
۔۔بھائی اس روایت کی تحقیق کو تاویل درکار ہے اس روایت کو اجماع امت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے
یہ روایت کئی کتب میں ہے
البانی نے السنہ از ابن ابی عاصم میں اس پر تحقیق کی تھی اور الصحیحہ میں البانی نے السنہ از ابن ابی عاصم کا حوالہ دیا ہے
اصل سند کتاب السنہ کی ہے
ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أنا سَعِيدُ بْنُ زَرْبِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ الأَشْعَرِيِّ سَمِعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
“إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ أَجَارَ أُمَّتِي مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ على ضلالة”.
حديث حسن إسناده ضعيف سعيد بن زربي منكر الحديث والحسن مدلس وقد عنعنه. لكن الحديث يتقوى بما بعده. وقد خرجتها في “الصحيحة” 1331 ويأتي له طريق أخرى عن كعب ابن عاصم رقم 92.
البانی نے اس کو سند ضعیف کہا ہے اور کہا ہے حدیث قوی ہو سکتی ہے اور حسن ہے
پھر اسی کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی ایک دوسری سند ٩٢ دی
ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
“إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ أَجَارَ لِي عَلَى أُمَّتِي مِنْ ثَلاثٍ لا يَجُوعُوا وَلا يَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلالَةٍ وَلا يستباح بيضة المسلمين”.
اس کو بھی رجاله ثقات غير مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ فضعيف کہہ کر ضعیف سند قرار دیا
لیکن دونوں سندوں کو ضعیف کہہ کر اس حدیث کو حسن بنا دیا ہے یعنی البانی کے نزدیک یہ روایت حسن لغیرہ ہے مکمل صحیح نہیں ہے
اس کو حسن کہنے کے بعد الصحیحہ میں نہیں لکھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے لکھا ہے
راقم کہتا ہے اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ فقہ میں حسن کی اصطلاح استمعال ہوتی ہے اور وہ ضعیف حدیث جس سے دلیل لی جائے اس کو حسن کہا جاتا ہے جب اس مسئلہ پر کوئی صحیح روایت نہ ہو – ایسا امام ترمذی نے کیا ہے
لیکن حسن سے عقیدے کا اثبات کرنا جھل ہے
چونکہ ضَلالَةٍ کا تعلق عقیدے کی گمراہی سے ہے یہ ضعیف + ضعیف مل کر حسن کے درجے پر نہیں جا سکتی
البانی ان علماء میں سے ہیں جو حسن روایت کو بھی عقیدے میں لیتے تھے
البانی سے سوال ہوا کہ حدیث حسن پر عقیدہ لیا جا سکتا ہے ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد فتوی دیا
فالحديث الحسن إما أن يقال يثبت به حكم شرعي أو لا يثبت فإذا كان من المعروف عند جماهير العلماء أنه يثبت فإذًا هو تضمن عقيدة فلا بد من الأخذ به لأنه حكم ولا يضرنا بعد ذلك أن فيه عقيدة لأن هذا أمرا شبه متفق عليه في الحديث الحسن
http://www.alalbany.me/play.php?catsmktba=19990
حدیث حسن سے حکم شرعی لیا جا سکتا ہے … اس میں عقیدہ شامل ہے
النووي نے المجموع میں لکھا ہے
قال العلماء : الحديث ثلاثة أقسام , صحيح , وحسن , وضعيف . قالوا : وإنما يجوز الاحتجاج من الحديث في الأحكام بالحديث الصحيح أو الحسن ، فأما الضعيف فلا يجوز الاحتجاج به في الأحكام والعقائد ، وتجوز روايته والعمل به في غير الأحكام ، كالقصص , وفضائل الأعمال , والترغيب والترهيب ” انتهى.
علماء کہتے ہیں حدیث تین طرح کی ہیں صحیح حسن ضعیف – کہتے ہیں یہ جائز ہے کہ احکام کے حوالے سے حدیث صحیح اور حسن سے دلیل لی جائے اور جہاں تک ضعیف ہے تو اس سے احکام و عقائد میں دلیل جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ عمل میں جیسے قصص یا فضائل یا ترغیب میں جو احکام میں سے نہ ہوں ان کو لیا جا سکتا ہے
یعنی ایک وقت تک حسن روایت عقیدہ کی دلیل نہیں تھی – البانی اور ان کی قبیل کے علماء نے حسن پر عقیدہ بھی لیا ہے
———–
اس روایت کو امام بخاری رد کرتے ہیں ترمذی میں ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کا راوی سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هَذَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، منکر الحدیث ہے
اس روایت کو امام عقیلی ضعفا الکبیر میں يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْمَكْفُوفُ صَاحِبُ بُهَيَّةَ سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابن معین کہتے ہیں کوئی شئے نہیں
مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی
حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ السَّكَنِ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا مُبَارَكٌ أَبُو سُحَيْمٍ، مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَ رَبَّهُ أَرْبَعًا: «سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَمُوتَ جُوعًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَرْتَدُّوا كُفَّارًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَغْلِبَهُمْ عَدُوٌّ لَهُمْ فَيَسْتَبِيحَ بَأْسَهُمْ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُعْطَ ذَلِكَ» . «أَمَّا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا يَمْشِي فِي مِثْلِ هَذَا الْكِتَابِ، لَكِنِّي ذَكَرْتُهُ اضْطِرَارًا. الْحَدِيثُ الثَّالِثُ فِي حُجَّةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ الْإِجْمَاعَ حُجَّةٌ»
امام حاکم لکھتے ہیں اس کتاب میں مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ کا ذکر نہیں چلنا چاہئے لیکن اضطرارا اس کا ذکر کیا جو علماء کےلئے حجت ہے کہ اجماع حجت ہے.
افسوس امت پر یہ وقت آ گیا کہ گھٹیا سے گھٹیا راوی پیش کیا گیا اس کی سند میں مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ ہے جو متروک ہے آخر امام الحاکم کو ایسی روایات لکھتے کی کیا ضرورت پیش ا گئی کہ ردی کی نذر کی جانے والی روایات ان کو اپنے مدّعا میں پیش کرنی پڑھ رہی ہیں
مستدرک کی دوسری روایت ہے
مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ
جو جماعت سے علیحدہ ہوا بالشت برابر پس نے اسلام کو گلے میں سے نکال دیا
امام الحاکم اس کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں
خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ لَمْ يُجْرَحُ فِي رِوَايَاتِهِ وَهُوَ تَابِعِيٌّ مَعْرُوفٌ
خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ کسی نے ان پر ان کی روایات کی وجہ سے جرح نہیں کی اور وہ معروف تَابِعِيٌّ ہیں
الذہبی میزان میں ان معروف تَابِعِيٌّ کو لکھتے ہیں
خالد بن وهبان [د] . عن أبي ذر مجهول.
یعنی امام حاکم اس روایت کو صحیح کرنے کے لئے اوچھی حرکتوں پر اتر آئے کہ مجہول کو معروف کہہ رہے ہیں
مستدرک کی تیسری روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ» . قَالَ الْحَاكِمُ: «فَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَدَنِيُّ هَذَا قَدْ عَدَّلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمَامُ أَهْلِ الْيَمَنِ وَتَعْدِيلُهُ حُجَّةٌ
اس کی سند میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ ہے جس کے متعلق عبد الرزاق کی تعدیل ہے لیکن
قال الميموني: قال أبو عبد الله: إبراهيم بن ميمون، لا نعرفه.
الميموني کہتے ہیں میں نے أبو عبد الله (احمد) سے پوچھا: إبراهيم بن ميمون، (کہا) نہیں جانتا
ابن ابی حاتم کہتے ہیں ان کے باپ نے کہا لا يحتج به نا قابل احتجاج
طبرانی معجم الکبیر کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»
اس کی سند میں مرزوق الباهلى ، أبو بكر البصرى ، مولى طلحة بن عبد الرحمن الباهلى ہے جن کو ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور کہا ہے يخطىء غلطی کرتے ہیں ابن حجر ان کو ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ صدوق دیتے ہیں
الغرض امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی صحیح کے درجے کی روایت نہیں اور نہ ہی امام بخاری اور امام مسلم کے معیار کی ہے
یہ تمام اسناد ضعیف ہیں
🔵🔵🔵 حدیث نبوی 🔵🔵🔵 گمراہ کن اماموں ( حکمرانوں ) کا بیان سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں ( حکمرانوں ) کا ڈر ہے ( مزید ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم ( اور باطل پر غالب ) رہے گی جو ان کو رسوا کرنا چاہے گا وہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ( قیامت ) آجائے ۔۔ ( سنن ترمذی : 2229 ، اسنادہ صحیح ) امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری کو کہتے سنا کہ میں نے امام علی بن مدینی کو کہتے سنا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ” میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ” ذکر کی اور کہا : وہ اہل حدیث ہیں ۔ ( سنن ترمذی : تحت الحدیث : 2229 ، اسنادہ صحیح )۔۔۔۔۔بھائی ۔۔اہل حدیث والوں کی طرف سے بطور دلیل اس روایت کو پیش کیا جاتا ہے ۔۔۔۔
⇓ کیا روایت میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے ۔ صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
اس روایت کے بعض متن میں ہے کہ وہ قتال کرنے والے ہیں لہذا امام احمد اور علی المدینی کا قول ہے کہ یہ مغرب میں روم سے قتال کرنے والے ہیں
یعنی اس روایت کا تعلق
External conflicts
سے ہے؟
معلوم ہے کہ مسلمان مغلوب ہوئے اور بنی اصفر یعنی رومن کا ان پر غلبہ ہوا
لہذا یہ بھی ممکن نہیں کہ قتال کرنے والے یا جہاد کرنے والے مراد ہوں
——
امام بخاری نے کہا یہ اہل علم ہیں یا محدثین ہیں جو ان کے مطابق اس امت کے
internal conflicts
سے متعلق ہے
سوال ہے اہل علم یا محدثین غلبہ میں کب رہے؟
اہل علم بھی اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں
اہل علم کی تو خوب تذلیل ہوئی – امام احمد کو کوڑے لگے
امام بخاری کو شہر نکالا ملا کسمہ پرسی میں شہر سے باہر ہلاک ہوئے
محدثین کی عوام میں کوئی قدر و منزلت نہیں تھی بلکہ بنو عباس کی حکومت ان کی مخالف رہی
——–
——
اس روایت کے بعض متن میں ہے کہ وہ شام والے ہیں یا کہا قیامت تک ہوں گے
صلیبی لشکر نے دو سو سال قبضہ شام پر کیا
انگریر نے قبضہ کیا
اور اب اس کے ایک جز پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور باقی پر نصیری فرقے کا قبضہ ہے
لہذا یہ روایت قیامت تک کے حوالے سے ہے ہی نہیں
اس کے جس متن میں بھی قیامت کا ذکر ہو اس کی سند میں علت ہے
——
حقائق کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس طائفہ منصورہ کا تعلق بارہ خلفاء سے تھا جو الله کا حکم تھا ایمان پھیلے گا اس کے مخالف مشرک و اہل کتاب اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکیں گے – اور ان بارہ خلفاء کے ساتھ لڑنے والے طائفہ منصورہ تھے
شام پر بنو عباس نے حملہ کیا اس وقت بارہ خلفاء گزر چکے تھے اور یہ طائفہ منصورہ معدوم ہو چکا تھا
اہل علم یا محدثین کہنا نہایت سطحی بات ہے – ایک گروہ کا ذکر ہے جو حق پر رہے گا اس کے مخالف اس کو نہیں گرا سکیں گے اور ساتھ ہی حدیث میں ہے ١٢ خلفاء گزریں گے جن کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا اور ایک گروہ اصل میں ان خلفاء کا مددگار گروہ ہے
یہ خلفاء بیشتر بنو امیہ کے ہوئے جن کے ہمدرد اہل شام تھے اسی بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے بنی کہ یہ اہل شام ہیں جن کو مخالف (اہل کتاب و مشرک ) گرا نہ سکیں گے
صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,
حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے
حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ میں امر الله سے مراد طائفہ منصورہ کے معدوم ہو جانے کا حکم ہے یا امر الله سے مراد موت ہے میرے نزدیک اس سے مراد قیامت قائم ہونا نہیں ہے
حدیث میں قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ سے مراد خلافت کا قائم رہنا ہے جو الله کا حکم تھا
ابن منذر کی کتاب الاجماع کیسی ہے ؟ اس میں وضو اور نماز سے متعلق اجماع امت کا ذکر ہے
محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري نے اپنی کتاب اجماع میں کچھ اجماع ذکر کیے ہیں جن پر خود ان کے دور میں بھی اجماع نہیں تھا لیکن انہوں نے اس پر اپنی اجماع کی لسٹ بنا ڈالی
مثلا لکھا
وأجمعوا على أن صلاة من اقتصر على تسليمة واحدة جائزة
اور اس پر اجماع ہے کہ اگر نماز میں کمی کر کے ایک سلام پھیرا جائے تو یہ جائز ہے
یہ آج تک فرقوں میں موضوع بحث ہے اور اس اجماع کا انکار کر دیا گیا ہے
پھر ابن المنذر نے ایک اجماع لکھا
وأجمعوا على أنه لا يجوز الاغتسال، ولا الوضوء بشيء من هذه الأشربة سوى النبيذ
اور اس پر اجماع ہے کہ نبیذ سے غسل و وضو جائز ہے
اس پر بھی اجماع امت کا انکار ہے – آج تک غیر مقلد اس اجماع کا انکار کرتے ہیں
وأجمعوا على أن ذبائح المجوس حرام لا تؤكل (8)، وانفرد سعيد بن المسيب
اور اس پر اجماع ہے کہ مجوس کا ذبحہ حرام ہے نہ کھایا جائے اور سعید بن مسیب اس میں منفرد ہے
یعنی اس اجماع کا سعید نے انکار کیا ہے – راقم کہتا ہے مجوس کو بہت سے فقہاء نے اہل کتاب میں شمار کیا ہے
السلام عليكم
بخاری مسلم پر امت کا اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں وضاحت درکار ہے؟
و علیکم السلام
اس پر اجماع کا دعوی پہلی بار ٤٠٠ ہجری کے بعد کا ہے اور اس کی تفصیل کتاب علم حدیث میں ہے
اجماع امت کسیبھی چیز پر معلوم نہیں ہے جو ہزار سال سے چلا آ رہا ہو
محض دعوے ہیں اور ہر اجماع کے مخالف اجماع بھی ہیں
لہذا یہ سب گروہی یا فرقوں کے اجماع ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف دعوے کرتے رہتے ہیں