قرآن و حدیث میں انبیاء کے قبل نبوت سچے خوابوں کا ذکر موجود ہے – ان خوابوں کے بارے میں جو رہمنائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ خواب سچے تھے لیکن یہ الوحی کی مد میں سے نہیں تھے
قبل نبوت – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب
صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ذکر ہے کہ نبی پر اس امر نبوت کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیکھتے دوسرے دن پورا ہو جاتا – اس کیفیت نے آپ کو دنیا سے بے رغبت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحنث پہاڑ پر جا کر کرنا شروع کر دیا-
صحیح بخاری حدیث ٣ ہے اس میں الوحی کا لفظ ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے
صحیح بخاری ح ٦٩٨٢ میں الوحی کا لفظ ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے
صحیح بخاری ح ٤٩٥٥ میں اسی سند سے الوحی کا لفظ نہیں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے
صحیح بخاری ٤٩٥٣ میں ہے اس میں الوحی کا لفظ نہیں ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وَحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ،
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے
ان تمام سندوں اور مختصر متن سے ظاہر ہے کہ کوئی راوی الوحی کے لفظ کو خود کم کر دیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے
یہ ایک ہی سند ہے اصلا تو امام زہری کی روایت ہے – صحیح میں پانچ مقام پر اسی سند سے ہے اور متن میں ایک لفظ بدل رہا ہے- الفاظ میں الوحی کا اضافہ ہو جاتا ہے-
الوحی کا لفظ اس میں اضافہ ہے جو دیگر مقام پر انہی اسناد سے نہیں آ رہا – لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ ام المومنین نے کہا کہ شروع میں نبی نے صرف سچے خواب دیکھے – انہوں نے الوحی کا ذکر کیا یہ راویوں کا اپنا اضافہ ہے
کتاب عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير میں اس واقعہ کی دوسرے صحابی سے بھی تفصیل ہے وہ بھی اس کو الوحی کا آغاز نہیں کہتے
وَرُوِّينَا عَنْ أَبِي بِشْرٍ الدَّوْلابِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو قُرَّةَ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى بْنِ تَلِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضْلَةَ عَنْ أَبِي الطَّاهِرِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أَنَّهُ كَانَ مِنْ بَدْءِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَى فِي الْمَنَامِ رُؤْيَا،
جس وقت سچے خواب آ رہے تھے اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لا علم تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے-
متن کی تاویل
ہم ان روایات کی تاویل کریں گے کہ راوی کا الوحی کا اضافہ کرنے سے مراد النُّبُوَّة یعنی خبر ملنا ہے- ابھی اس النبوه کی کیفیت وہی ہے جو ایک عام مومن کی ہوتی ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لم يبق من النبوة إلا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة
صحیح بخاری ٦٥٨٩
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النبوه میں کچھ باقی نہیں سوائے مبشرات کے جو اچھے خواب ہیں
اس کی تائید سیرت ابن ہشام سے ہوتی ہے جس میں ہے
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَذَكَرَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنَّ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ،
امام زہری نے کہا عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا النبوہ میں رسول اللہ پر سب سے پہلے جب اللہ تعالی نے ان پر رحم و کرامت کا ارادہ کیا تو سچے خوابوں سے کیا
یہ آغاز الوحی والی روایت ہی ہے فرق ہے تو الوحی کو النبوه سے بدلا گیا ہے اور النبوہ سے مراد صرف سچی خبر ہے
متن میں مدرج جملے
فتح الباری میں ابن حجر نے اس پر لکھا ہے کہ اس روایت شروع میں التحنث کا ذکر راوی کا ادراج ہے
قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ هَذَا ظَاهِرٌ فِي الْإِدْرَاجِ إِذْ لَوْ كَانَ مِنْ بَقِيَّةِ كَلَامِ عَائِشَةَ لَجَاءَ فِيهِ قَالَتْ وَهُوَ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَلَامِ عُرْوَةَ أَوْ مَنْ دُونَهُ
راقم کے نزدیک شروع کے جملوں میں الفاظ مدرج ہیں – زہری نے عروہ سے جو سنا اس میں اپنا فہم ملا دیا ہے
ایسا مرویات زہری میں مسئلہ رہا ہے کہ اصل متن کیا تھا معلوم نہیں ہو پاتا
الوحی کا آغاز
الوحی کا آغاز اقراء سے ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے رب کا حکم آنے لگا- اس کے بعد تمام خواب الوحی ہیں – اس سے قبل جو خواب تھے وہ الوحی نہیں تھے کیونکہ اس میں صرف جو دیکھا وہ پورا ہو رہا تھا کسی تبلیغ کا حکم نہیں تھا نہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ نبی بننے والے ہیں
قرآن میں سورہ شوری آیت ٥٣ میں ہے
وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان
اور اسی طرح ہم نے تم پر اپنے حکم سے الوحی کیا – تم نہیں جانتے تھے کتاب کیا ہے- ایمان کیا ہے
جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھ رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب آپ کو نہ کتاب کا معلوم تھا نہ ایمان کا معلوم تھا لہذا اس وقت آپ نبی نہیں تھے- اگر جانتے ہوتے تو جبریل کی آمد کے منتظر ہوتے- ان کو دیکھ کر گھبراتے نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کتاب اللہ کا علم تھا نہ ایمان کا ، الوحی کے آنے سے پہلے اور یہ باتیں انبیاء کو فرشتے بناتے ہیں- کیا خواب میں ایمان کامل کا معلوم ہو سکتا ہے ؟ خواب اس وقت الوحی بنتا ہے جب انبیاء – انبیاء بن چکے ہوتے ہیں
اگر ہم مان لیں کہ رسول اللہ پر خوابی الوحی سب سے پہلے آئی تو اس کا دور کب شروع ہوا ؟ اس کی کوئی حد نہیں ہے – بعض علماء نے اسی متن سے دلیل لی ہے کہ رسول اللہ پیدائشی نبی تھے- ہم کو معلوم ہے کہ الوحی تین طرح اتی ہے
ترجمه: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے ۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا بڑی حکمت کا مالک ہے ۔
اور سچا خواب مومن بھی دیکھتا ہے اور نبی بھی لیکن چونکہ نبی بننے کے بعد انبیاء کا دل نہیں سوتا ان کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے جبکہ ایک عام شخص کا خواب سچا تو ہو سکتا ہے لیکن الوحی ہرگز نہیں –
کیا التحنث سنت ہے ؟
اگر آمد جبریل سے قبل خواب میں رسول اللہ پر الوحی آ رہی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ایمان کے مندرجات (مثلا فرشتوں پر غیب پر ایمان )کو جانتے تھے (لیکن اس کی تبلیغ نہیں کرتے تھے) تو پھر فرشتہ دیکھ کر گھبرائے کیوں ؟ – اگر آمد جبریل سے قبل کے خوابوں کو الوحی مان لیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ جبریل کی آمد سے قبل ہی رسول اللہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمان کیا ہے اور کتاب کیا ہے- سوال ہے تو پھر وہ التحنث کیوں کر رہے تھے ؟ کیا دین میں اس عبادت کی کوئی دلیل موجود ہے کہ رہبان کی طرح پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاؤ ؟ اسلام میں تو گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانے کا حکم نہیں ہے – اللہ نے رہبانیت کو نصرانی بدعت قرار دیا ہے – عرب کے حنفاء کو یہ چیز انہی سے ملی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اور آپ نے بھی مراقبہ غار میں کیا- پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا وہاں مراقبہ یا التحنث کرنا، یہ عمل نبی بننے سے پہلے کا تھا اسی لیے ہمارے لئے دلیل نہیں ہے – اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آمد جبریل سے قبل سے نبی سمجھیں گے تو التحنث سنت ہوا – گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا دلیل ہوا
یوسف علیہ السلام کا خواب
سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا
قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں
یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہماری شریعت میں سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اندازہ لگا لیا کہ الله کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے. یعقوب علیہ السلام نے خواب چھپانے کا حکم دیا
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ
کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مصر پہنچایا اور الله نے عزیز مصر کا وزیر بنوایا پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مصر آنا پڑا اور بلاخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا
رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ ھ۔ذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا
اور احترام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا
اس خواب کی بابت بعض لوگوں نے بلا دلیل موقف اختیار کر لیا ہے کہ یہ خواب دیکھنا ہی یوسف کی نبوت کا آغاز تھا- یہ موقف اس لئے اپنایا گیا کہ کسی طرح اس سجدہ کو حکم الہی قرار دیا جائے جو سورت میں بیان ہوا کہ اولاد یعقوب سے یوسف کے حوالے سے ہوا – بعض نے اس سجدے کو اللہ تعالی کو سجدہ قرار دیا جبکہ آیت میں ضمیر الہا یوسف کی طرف ہے نہ کہ اللہ تعالی کی طرف – راقم کا موقف ہے کہ یہ سجدہ انحنا تھا یعنی صرف شرمندہ ہو کر جھکنا تھا نہ کہ معروف نماز کا اصطلاحی سجدہ- یاد رہے کہ سجد کا لفظ قریش کی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا ہے – جب ان کے بھائی مصر کے دربار میں پہنچے تو یوسف کے بھائی شرم و ندامت سے جھک گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ صرف زمین کی طرف جھکنا تھا جس کو الانحناء بھی کہا جاتا ہے- یوسف علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فرمایا
وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ
اے باپ یہ میرے پچھلے خواب کی تاویل تھی (آج) میرے رب نے اس کو حق کر دیا
یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا
اس پر دلیل یہ ہے کہ انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں و اللہ یعصمک من الناس
اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا
سورہ المائدہ ٦٧ میں
جس کو علم کی بات معلوم ہو اور اس کو چھپا دے اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث
ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا- یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف نبی بن چکے ہو بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا – نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی
کوئی بھی خواب دیکھ کر عام مومن نہیں کہہ سکتا ایسا ہو گا لیکن اگر وہ عام مومن اپنا خواب نبی پر پیش کرے تو وہ نبی اس کی تاویل کر سکتا ہے – یوسف (علیہ السلام ) جب غیر نبی تھے تو انہوں نے اپنا خواب نبی یعقوب (علیہ السلام ) پر پیش کیا – یعقوب علیہ السلام نے تاویل کی- یعقوب کو بھی اس خواب کی مکمل تفصیل الوحی سے نہیں پتا چلی تھی کہ یوسف بچھڑ جائیں گے اور یہ سب مصر میں ہو گا – انبیاء جب تاویل کرتے ہیں تو وہ ان کو اشارات پر کرتے ہیں اس پر الوحی نہیں اتی کیونکہ تاویل ایک علم ہے جو سکھا دیا جاتا ہے اس کا استعمال کر کے انبیاء خواب کی تعبیر کرتے ہیں – دوسری طرف الوحی ہے جو کب آئے کی خود انبیاء کو بھی علم نہیں ہوتا-
یوسف علیہ السلام کے تمثیلی خواب کو اگر ہم وحی مان لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ انبیاء نے جو تمثیلی خواب دیکھے ان کو اس کا مطلب خود بھی نہیں پتا تھا جو ممکن نہیں کہ ایک نبی کو خواب دکھایا جائے لیکن وہ اس خواب کی تاویل کو سمجھ ہی نہ پائے – لہذا ثابت یہی ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام اس خواب کے آنے کے وقت نبی نہیں عام بشر تھے – یوسف علیہ السلام کے خواب پر یعقوب علیہ السلام نے پیغمبرانہ تبصرہ کیا اور تبصرہ بھی انبیاء کر سکتے ہیں اور دعا بھی دے سکتے ہیں- یعقوب علیہ السلام کے تبصرے میں الفاظ محض دعا جیسے کلمات ہیں –
یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
سورہ بقرہ ١٢٤
جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں
یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر یعقوب علیہ السلام کی بات اسی وعدہ کی عملی شکل کا ذکر ہے کہ اب ابراہیم کے بعد اللہ تعالی یوسف کو امام بنا رہا ہے- فرمایا
(سورہ یوسف، آیت6)
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم والا اور حکمت والا ہے۔