اہل بیت کی خفیہ تحریریں

کیا قرن اول میں شیعأن علي کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع صرف خواص کے لئے تھا عوام کے لئے نہ تھا- اہل تشیع کے بعض جہلاء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس وقت یہ قرآن سر من رأى – سامراء العراق میں کسی غار
میں امام المھدی کے پاس ہے جو وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خبر اہل سنت کی کتب میں بھی در کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں

مستدرک حاکم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ
اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
زيد بن ارقم رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں کتاب الله  اور ميرے اہل بيت اور يہ دونوں جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ يہ ميرے حوض پر مجھ سے مليں گے
امام حاکم کہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے بخاري و مسلم کي شرط پر ہے

سند ميں الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ نامعلوم و مجہول ہے

مستدرک حاکم کي ایک اور روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ، الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ، مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلًى لِأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ:
أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

ابو ثابت مولي ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں علي کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا …. پس الله نے ميرا دل نماز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے علي کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے کہ علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح الاسناد ہے

سند ميں علي بن هاشم بن البريد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے

الکامل از ابن عدي ميں ہے
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة وقد حدث عنه جماعة من الأئمة، وَهو إن شاء الله صدوق في روايته
علي بْن هاشم کوفہ کے معروف شيعوں ميں سے ہے جو فضائل علي ميں وہ چيزيں روايت کرتا ہے جو کوئي اور نہيں کرتا مختلف اسناد سے اور اس سے ائمہ کي جماعت نے روايت کيا ہے اور يہ
صدوق ہے

ابن حبان نے کہا
كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
يہ غالي شيعہ ہے

سؤالات الحاكم ” للدارقطني: هاشم بن البريد ثقة مأمون وابنه علي كذاب
دارقطني کہتے ہيں علي بن هاشم بن البريد کذاب ہے

یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختلاط میں منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک عجیب و غریب روایات کا
مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ ملا –

اب ہم اہل تشیع کے معتبر ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے – الکافي از کليني باب النوادر کي حديث 23 ہے

محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن عبدالرحمن بن أبي هاشم، عن سالم بن سلمة قال: قرأ رجل على أبي عبدالله عليه السلام وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس، فقال أبوعبدالله عليه السلام: كف عن هذه القراء ة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم عليه السلام قرأ كتاب الله عزو جل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي عليه السلام وقال: أخرجه علي عليه السلام إلى الناس حين فرغ منه وكتبه فقال لهم: هذا كتاب الله عزوجل كما أنزله [الله] على محمد صلى الله عليه وآله وقد جمعته من اللوحين فقالوا: هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن لا حاجة لنا فيه، فقال أما والله ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا، إنما كان علي أن اخبركم حين جمعته لتقرؤوه.

سالم بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کسي شخص نے قرات کي اور ميں سن رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو علي نے لکھا تھا اور کہا جب علي نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس کو لوگوں کے پاس لائے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہمارے پاس ہے وہ جامع ہے ہميں اس کي ضرورت نہيں پس علي نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ ديکھو گے يہ ميرے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خبر دي کہ اس کو پڑھو

اس روايت کا راوي سالم شيعہ محققين کے نزديک مجہول ہے – الخوئي کتاب معجم رجال الحديث ميں کہتے ہيں

سالم بن سلمة :
روى عن أبي عبدالله عليه السلام ، وروى عنه عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 23 .
ـ 22 ـ
أقول كذا في الوافي والطبعة المعربة من الكافي ايضا ولكن في الطبعة
القديمة والمرآة : سليم بن سلمة ، ولا يبعد وقوع التحريف في الكل والصحيح
سالم أبوسلمة بقرينة الراوي والمروي عنه .

سالم بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 22 اور 23 ميں

ميں کہتا ہوں ايسا ہي الوافي ميں اور الکافي کي الطبعة المعربة ميں ہے ليکن جو قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل ميں اور صحيح ہے کہ سالم ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے

الخوئي نے اس راوي کو سالم بن سلمة، أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوسي کے نزديک ثقہ ہے ليکن الخوئي کے نزديک مجہول ہے

معلوم ہوا کہ تحريف قرآن سے متعلق يہ روايت ہي ضعيف ہے

سالم بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکافي ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب رجال شيعہ ميں نہيں ہے

الکافي کي روايت ہے

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن عبدالله بن فرقد والمعلى بن خنيس قالا: كنا عند أبي عبدالله عليه السلام ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال أبوعبدالله عليه السلام: إن كان ابن مسعود لا يقرأ على قراء تنا فهو ضال، فقال ربيعة: ضال؟ فقال: نعم ضال، ثم قال أبوعبدالله عليه السلام: أما نحن فنقرأ على قراء ة أبي
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا جہاں تک ہم ہيں تو ہم ابي بن کعب کي قرات کرتے ہيں

حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل على أن قراء ة ابى بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السلام
يہ دليل ہوئي کہ ابي بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات تھي

اس کي سند ميں معلى بن خنيس ہے نجاشي نے اس کا ذکر کيا ہے
قال النجاشي : ” معلى بن خنيس ، أبوعبدالله : مولى ( الصادق ) جعفر بن
محمد عليه السلام ، ومن قبله كان مولى بني أسد ، كوفي ، بزاز ، ضعيف جدا ،
لا يعول عليه ، له كتاب يرويه جماعة

دوسرا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کوئي معلومات نہيں ہيں

کتاب الکافی میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عبدالله بن الحجال، عن أحمد بن عمر الحلبي، عن أبي بصير قال: دخلت على أبي عبدالله عليه السلام فقلت له: جعلت فداك إني أسألك عن مسألة، ههنا أحد يسمع كلامي(1)؟ قال: فرفع أبوعبد عليه السلام سترا بينه وبين بيت آخر فأطلع فيه ثم قال: يا أبا محمد سل عما بدا لك، قال: قلت: جعلت فداك إن شيعتك يتحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وآله علم عليا عليه السلام بابا يفتح له منه ألف باب؟ قال: فقال: يا أبا محمد علم رسول الله صلى الله عليه وآله عليا عليه السلام ألف باب يفتح من كل باب ألف باب قال: قلت: هذا والله العلم قال: فنكت ساعة في الارض ثم قال: إنه
لعلم وما هو بذاك.قال: ثم قال: يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟ قال: قلت: جعلت فداك وما الجامعة؟ قال: صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه(2) من فلق فيه وخط علي
بيمينه، فيها كل حلال وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى الارش في الخدش وضرب بيده إلي فقال: تأذن لي(3) يا أبا محمد؟ قال: قلت: جعلت فداك إنما أنا لك فاصنع ما شئت، قال: فغمزني بيده وقال: حتى
أرش هذا – كأنه مغضب – قال: قلت: هذا والله العلم(4) قال إنه لعلم وليس بذاك.
ثم سكت ساعة، ثم قال: وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت: وما الجفر؟ قال: وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين، وعلم العلماء الذين مضوا من بني إسرائيل، قال قلت: إن هذا هو العلم، قال: إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه
من قرآنكم حرف واحد، قال: قلت: هذا والله العلم قال: إنه لعلم وما هو بذاك.

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کامل علم نہیں ہے

پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ہما رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمبا ہے رسول خدا نے اسے املا کیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟

میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛

ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛

میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالات کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسری  چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا

اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے

الکافی کی روایت ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسين ابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الابيض، قال: قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى،
وإنجيل عيسى، وصحف ابراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه ما يحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدة وأرش الخدش.
وعندي الجفر الاحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الاحمر؟ قال: السلاح وذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبدالله ابن أبي يعفور: أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما
يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.

الحسين ابن أبي العلاء نے کہا میں نے امام جعفر سے سنا وہ کہہ رہے تھے میرے پاس سفید جفر ہے – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا داود کی زبور اور موسی کی توریت اور عیسیٰ کی انجیل اور ابراہیم کا مصحف ہے اور حلال و حرام ہے اور مصحف فاطمہ ہے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس میں قرآن ہے لیکن اس میں ہے وہ ہے جس کو لوگوں کو حاجت ہے اور ہمیں اس کی بنا پر کسی کی حاجت نہیں … اور میرے پاس جفر سرخ ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا : اسلحہ ہے جس سے خون کھولا جاتا ہے اور تلوار والا قتل کرتا ہے اس پر عبدالله ابن أبي يعفور نے امام
جعفر سے کہا الله اصلاح کرے اپ کو بنو الحسن کی حرکت کا علم ہے ؟ فرمایا ہاں الله کی قسم جیسے تم رات کو جانتے ہو کہ رات ہے اور دن کو کہ دن ہے لیکن انہوں نے حسد کو اور طلب دنیا
کو لیا ہے اگر حق کو حق سے طلب کرتے تو اچھا ہوتا

اس کی سند میں الحسين ابن أبى العلاء الخفاف أبو على الاعور یا الخصاف أبو على الاعور ہے – اس کا ایک نام أبو العلاء الحسين ابن أبي العلاء خالد بن طهمان العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو علي بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووسى کے مولف حسن صاحب المعالم شیعہ عالم کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت الاقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شمار (متخالف ) اقوال کی وجہ سے

یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے لوگوں کو ملا کر ان کے علماء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے

الکافی کی ایک اور روایت ہے

علي بن إبرإهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عمن ذكره، عن سليمان بن خالد قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: إن في الجفر الذي يذكرونه(1) لما يسوؤهم، لانهم لا يقولون الحق(2) والحق فيه، فليخرجوا
قضايا علي وفرائضه إن كانوا صادقين، وسلوهم عن الخالات والعمات(3)، وليخرجوا مصحف فاطمة عليها السلام، فإن فيه وصية فاطمة عليها السلام، ومعه(4) سلاح رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله
عزوجل يقول: ” فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقين

سليمان بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکالا جس میں فاطمہ کی وصیت تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا

اس کی سند میں عمن ذكره، لوگ مجہول ہیں

الکافی کی ایک اور روایت ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبدالعزيز، عن حماد بن عثمان قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة
عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال: إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لا يعلمه إلا الله عزوجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها
ويحدثها، فشكت ذلك(1) إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلك فجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال: أما
إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.

حماد بن عثمان نے کہا میں نے امام جعفر المتوفی ١٤٥ ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨ میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم صرف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خبر دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان جاتا- پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ صرف حلال و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا

کہا جاتا ہے کہ سند میں حماد بن عثمان بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس کا سماع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حماد بن عثمان اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أبي بشار المعروف بزحل ہے قال النجاشي انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى المناكير
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے

الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ  علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی تمام خبریں غالیوں کی بیان کردہ ہیں جو  مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف  راوی ہیں

One thought on “اہل بیت کی خفیہ تحریریں

  1. وجاہت

    ایک اچھی تحقیق کی آپ نے

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *