سن ٩٠ کی دہائی میں غیر مقلدوں کے وہ علماء جن کو صرف اپنے ہاتھ کی کتب پڑھنے کا شوق تھا اور کمزور مطالعہ تھا انہوں نے دعوی داغ دیا کہ برزخی جسم کا ذکر دجال غلام احمد قادیانی نے کیا – اس طرح اپنے معتقدؤن کو احمق بنا کر داد و تحسین لی – افسوس حق کو چھپانے والے ان کے علماء میں سے بعض یقینا جانتے ہوں گے کہ اسمعیل سلفی نے ایک نہیں کئی بار بررخی جسم کا ذکر اپنی کتاب میں ڈاکٹر عثمانی سے قبل کیا ہے اور اس کا رد نہیں کیا – راقم نے حق کو چھپانے والے ان علماء کا تعقب کیا اور ان کے منہ پر متقدمین علماء کے حوالہ جات مارے ہیں جن کو اب اس کتاب میں یکجا کیا گیا ہے
الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی – جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم)
کافر کا جہنمی جسم دیکھئے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔
ان احادیث سے پتا چلا کہ جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے
دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی ینی عذاب ان جسموں کو ہوگا جنہوں نے گناہ نہ کیا ہو گا – گناہ تو ٥ سے ٧ فٹ کے جسم نی کیے لیکن عذاب اس جسم کو ہے جو عظیم حجم کا ہے
یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے الگ ہے ، بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی
اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عذاب قبر حق ہے اور اس کی مثال میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف گرہن کے بعد جو خطبہ دیا اس میں ذکر کیا
ایک عورت کا جس کو بلی ابھی بھی نوچ رہی ہے (صحیح ابن حبان)
ایک مشرک شخص (عمرو بن لحیی) کا جو اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا ہے (صحیح بخاری )
ایک شخص کا جو لاٹھی پر ٹیک لگائے عذاب جھیل رہا ہے (صحیح ابن خزیمہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تمام عذابات براہ راست دیکھے جب پر نماز کسوف پڑھا رہے تھے اور اس نماز کے بعد خطبہ میں مومن پر عذاب قبر کی خبر پہلی بار سن ١٠ ہجری میں دی گئی
اتفاق سے اسی دن پسر نبی ابراہیم کی بھی وفات ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس کے لئے جنت میں اس وقت ایک دائی ہے جو دودھ پلا رہی ہے
اس طرح ایک ہی دن میں مشرک اور مومن پر عذاب قبر اور مومن پر راحت کا ذکر فرمایا – ان سب عذابات کا مقام اس بنا پر زمین پر نہیں رہتا کیونکہ مثالیں دے دے کر سمجھایا گیا کہ کس طرح روح ایک نئے جسم میں عالم بالا میں جاتی ہے ، عذاب و راحت پاتی ہے
یہ چیز فقہاء و شارحین حدیث و متکلمین بیان کرتے رہے تھے لیکن افسوس جب آٹھویں صدی اور اس کے بعد جمہور نے روح پر عذاب کا انکار کرنا شروع کیا تو ان احادیث کو چھپایا جانے لگا کیونکہ ایک بار روح کے لئے نیا عالم بالا میں جسم کا عقیدہ لوگوں پر واضح ہو جاتا تو روح پھر اس طرح سات آسمانوں میں بھٹکتی نہ پھرتیں جس کے قائل بہت سے علماء ہو چلے تھے – عقائد میں برزخی جسم کی خبر کو چھپایا جانا آٹھویں صدی سے چلا آ رہا ہے
البتہ کتب شرح میں وہی گروہ جو روح کے سات آسمان میں بھٹکنے کا قائل ہے انہوں نے ہی شروحات حدیث میں ذکر کیا ہے کہ متقدمین روح کے جسم کا ذکر ان احادیث کی وجہ سے کرتے تھے – عثمانی صاحب نے اس حقیقت کو واپس واضح کیا اور مسلک پرستوں نے اس پر دعوی کیا کہ ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی نے نہیں کہا – راقم کہتا ہے فرقے جھوٹ بول رہے ہیں – قارئین اس کتاب میں درج حوالہ جات کو دیکھ سکتے ہیں – افادہ عامہ کے تحت ان حوالوں کو جمع کیا گیا ہے –
صحیح بخاری میں حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ میں تفصیل سے مومن پر عذابات کا ذکر وارد ہوا ہے البتہ اس کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے ، راقم کی دوسری کتاب بنام اثبات عذاب قبر میں اس حدیث کی شرح پر کلام ہے
ابو شہر یار
٢٠٢١
السلام عليكم
بخاری میں ہے گھوڑوں پر زکوۃ نہیں ہے بعض کے نزدیک گھوڑوں پر زکوۃ نہ ہونا عقل کے خلاف بات ہے یعنی ان کے نزدیک عقل پر ہر چیز کو نہیں پرکھنا چاہیے؟؟
استعمال کی چیز پی زکوات نہیں ہے زائد پر ہے
سادہ اصول ہے
سورہ بقرہ میں موجود ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان ( خوشبو ) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہو جا، تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت و ریحان ( خوشبو ) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب ملتا ہے: یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے ۱؎۔
ابن ماجہ :4262
السلام عليكم
سر یہ روایت کیسی ہے اس پر جرح درکار ہے؟ شکریہ
یہ روایت مہمل الفاظ پر مشتمل ہے
اس پر غور کریں
ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے
ایسا کیا ہر روز ہوتا ہے ؟
اگر روز ہر وقت ہوتا ہے تو یہ فرشتوں کی غلطی ہے
بار بار اس کو دہراتے ہیں
فرشتے غلطیاں نہیں کرتے کہ ایک غلط عمل کرتے رہیں
کفار کی روح آسمان تک لائیں اور پھر اس کو چھوڑ دیں
وہاں سے یہ روح قبر میں آئے
یہ اس روایت کی نکارت ہے
———–
کفار تو نوح علیہ السلام کے دور سے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں کہ یہ قول نبوی ہو
متنا یہ رجعت کے عقیدہ کی روایت ہے اسی کو بیان کر رہی ہے
==============
سندا راوی بھی شیعہ ہیں مزید تفصیل کتاب
اثبات عذاب القبر و رد عقیدہ عود روح میں ہے
جزاک اللہ خیرا
ابن ماجہ کی روایت میں کونسا راوی شیعہ ہے ؟
اس میں ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، مدلس ہے اور تدلیس کی ہے اصل نام چھپا دیا ہے
اصلا یہ متن شیعوں کا بیان کردہ ہے
محدثین کہتے تھے
إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث
بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں
ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت کو عن سے بھی روایت کیا ہے – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
وقال أبو زرعة وقد سئل عن حديث جابر لا طلاق قبل نكاح لم يسمع بن أبي ذئب من عطاء إنما رواه عمن سمع عطاء
أبو زرعة نے کہا جب ان سے جابر کی حدیث سے متعلق پوچھا گیا کہ نکاح سے قبل کوئی طلاق نہیں-( أبو زرعة نے کہا) اس کو ابن أبي ذئب نے عطاء (بْنِ أَبِي رَبَاحٍ) سے نہیں سنا بلکہ اس سے سنا جس نے عطاء سے روایت کیا
ابن ماجہ میں مکمل متن نہیں ہے مکمل متن مسند احمد میں ہے
راقم کہتا ہے ابن أبي ذئب نے جو روایت ابو ہریرہ سے منسوب کی ہے اس کا ر وایت کا متن مبہم اور منکر ہے امکان ہے کہ اس میں تدلیس ہے – اس روایت میں ہے کہ مومن کی
حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے
اللہ تعالی آسمان پر نہیں ہے، عرش پر مستوی ہے
——-
نوٹ یہ روایت مردے کی روح قبر میں آنے کی بات کرتی ہے جسم میں جانے کی نہیں
اس طرح یہ روح مسلسل بلا فرشتوں کے زمین و آسمان میں بھٹک رہی ہے
اس کا متن زاذان کی روایت سے یہاں الگ ہے
زاذان مردے کو زندہ کرتا ہے ، ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ یہ کھل کر نہیں کہتا بلکہ روح کو قبر میں لاتا ہے
اور نا معلوم سوال جواب کس سا ہوتا ہے جسم سے روح سے واضح نہیں ہے
جزاک اللہ خیرا
کہا جاتا ہے کہ یحیی بن معین نے منہال کو ثقہ قرار دیا ہے؟
جبکہ آپکی بک اثبات عذاب قبر۔۔۔ میں نور پوری کی ایک عبارت ہے جس کو پیش کرکے آپ نے ثابت کیا کہ یحیی بن معین نے منہال پر جرح کی ہے وہ درست ہے۔سوال یہ ہے کہ جب یحیی بن معین کی منہال پر جرح موجود ہے پھر یحیی بن معین نے بعض کے مطابق منہال کو ثقہ بھی قرار دیا ہے یہ کیسے ہوسکتا ایک ہی محدث منہال پر جرح بھی کرے اور پھر ثقات میں بھی شمار کرے یا پھر یہ خیانت کی گی ہے اس کی وضاحت درکار ہے شکریہ ۔
فرض کریں میں محدث ہوں اور اپ سوال کریں کہ فلاں ثقہ ہے یا نہیں اور میں نے اس کی روایت میں کوئی نکارت نہ دیکھی ہو تو میں ثقہ کہوں گا
اس کے چار پانچ سال بعد اسی راوی کی اور روایت ملیں تو رائے بدل گئی پھر دوسرے شاگرد نے سوال کیا تو میں نے کہا نہیں یہ اس درجہ کا نہیں
ایسا ہی یہاں ہے ابن معین کے دو الگ الگ شاگردوں نے اس کا ذکر کیا ہے
پرانے دور میں لوگ سفر کر کے محدث تک جاتے تھے نہ کہ انٹرنیٹ سے
سوال کرتے ، لکھتے اور اپنے شہر وں کو لوٹ جاتے
اس طرح ایک ہی محدث کے لا تعداد شاگرد تھے اور ان سب کی اپس میں ملاقات نہ تھی
جرح اسی وجہ سے تعدیل پر مقدم ہے – حرج کو ہٹانے کے لئے دلیل درکار ہے
تعدیل بدل سکتی ہے
تحقیقی مسائل میں منفی رائے مثبت کے بعد ہی بنتی ہے
7 : سورة الأعراف 40
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
——————————————-
روح قبر میں لوٹا دی جاتی ہے (مسند احمد )
——————————————-
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: ” إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ ” وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ۔
سورہ الاعراف میں ہے کہ آسمان کے دروزے نہ کھولے جائیں گے یعنی کفار کا عمل آسمان پر درجہ قبولیت نہیں رکھتا
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
عبد الله بن شقیق نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ … جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل آسمان کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے کہا پھر وہ کہتے ہیں اس کو آخری اجل تک کے لئے لے جاؤ
قرآن میں ہے کہ کافر فرعون کی روح کو النار پر پیش کیا جا رہا ہے اور جہنم کی وسعت کا ذکر احادیث میں ہے کہ وہ زمین و آسمان سے بڑھ کر ہے
https://www.islamic-belief.net/%d9%88%d9%8e%d9%85%d9%8e%d8%a7-%d8%a3%d9%8e%d8%af%d9%92%d8%b1%d9%8e%d8%a7%d9%83%d9%8e-%d9%85%d9%8e%d8%a7-%d8%b9%d9%90%d9%84%d9%91%d9%90%d9%8a%d9%91%d9%8f%d9%88%d9%86%d9%8e/
مسند احمد کی روایت منکر ہے جس میں روح لوٹانے کا ذکر ہے
https://www.islamic-belief.net/%d8%b1%d9%88%d8%a7%db%8c%d8%aa-%d8%b9%d9%88%d8%af-%d8%b1%d9%88%d8%ad-%da%a9%db%8c-%d9%86%da%a9%d8%a7%d8%b1%d8%aa/
ان دونوں بلاگ کو دیکھیں اس میں تفصیل ہے
————
اس پیج پر سے
https://www.islamic-belief.net/%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%a7%d8%a8%d9%88-%d8%b4%db%81%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b1-%d9%a2/
اثبات عذاب القبر طبع جدید کو ڈونلوڈ کر لیں
سوال یہ ہے کہ اس وقت جہنم کہاں ہے – اپ نے جو حوالے دیے ان کا مدعا بیان نہیں کیا البتہ اکثر ان چند حوالوں سے ثابت کیا جاتا ہے کہ جہنم زمین میں ہے
اس کی تہہ میں ہے یعنی زمین جہنم پر لپٹی ہوئی ہے
یہ منکر قول ہے – جہنم کو زمین میں کہنا اصل میں یہود کا قول ہے ، ان سے شیعہ میں آیا اور پھر زاذان سبائی نے اس کو صحابی رسول سے منسوب کیا
اسی طرح اس قول کو سابقہ یہودی عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے
زمین کا دروزہ اس طرح یمن میں برھوت میں بتایا جاتا ہے جو ایک کنواں ہے اور روایات میں اس کا نام لے کر اس کو باب جہنم کہا گیا ہے
جہنم کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں کیا ہے کہ حشر برپا ہونے پر جب انسان زندہ ہوں گے پھر جہنم کو لایا جائے گا
سورہ الفجر
وَجِيٓءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّـمَ ۚ
اور اس دن دوزخ لائی جائے گی
اس طرح اس کو زمین سے الگ بتایا ہے
اور سورہ الذاریات میں انسان سے جنت و جنہم کے وعدے پر کہا
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
آسمان میں ہے تمہارا حصہ اور وہ جس کا وعدہ ہے
اس طرح یہاں جہنم کو آسمان میں بتایا گیا ہے
السلام عليكم
۔۔۔ فَقُمْتُ حَتّٰی تَجَلاَّنِی الْغَشْیُ وَجَعَلْتُ اَصُبُّ فَوْقَ رَاْسِیْ مَاءً، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اﷲِ ا حَمِدَاﷲَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ مَامِنْ شَیْءٍ کُنْتُ لَمْ اَرَہُ اِلاَّ قَدْ رَایْتُہُ فِیْ مَقَامِیْ ھٰذَا حَتَّی الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی الْقُبُوْرِ مِثْلَ اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ یُؤْتٰی اَحَدُکُمْ فَیُقَالُ لَہٗ مَاعِلْمُکَ بِھٰذَالرَّجُلِ فَاَمّا المُؤْمِنُ اَوِ الْمُوْقِنُ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ ھُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ جَآءَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالْھُدٰی فَاَجَبْنَا وَ اٰمَنَّا وَاتَّبَعْنَا فَیُقَالُ نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا اِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَ اَمَّا الْمُنَافِقُ اَوِ الْمُرْتَابُ لَآاَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ لَآاَدْرِیْ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْءًا فَقُلْتُہٗ
(بخاری:کتاب الوضوء۔باب من لم یتوضا الا من الغشی المثقل)
’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اسماء ؓ سورج گرہن کی صلوٰۃ ادا کرنے کا واقعہ روایت کرتی ہیں کہ) ۔۔۔میں بھی کھڑی ہوگئی یہاں تک کہ(صلوٰۃ کی طوالت سے) مجھ پر غشی طاری ہونے لگی اورمیں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔جب رسول اﷲ ﷺ (صلوٰۃ سے) فارغ ہوئے تو اﷲ کی حمد و ثناء فرمائی، اس کے بعد فرمایا کہ جس چیز کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس کو آج اسی جگہ دیکھ لیا یہاں تک کہ جنت و جہنم کوبھی۔ اور میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤگے دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب۔۔۔ تم میں سے ہر ایک کولایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اس مرد کے متعلق کیا علم رکھتے ہو۔ مومن یا موقن( وہ کہتی ہیں)مجھے یاد نہیں، کہے گا وہ اﷲ کے رسول محمدﷺہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے ،ہم نے ان کی بات مانی اور ایمان لائے اور پیروی کی۔ا س سے کہا جائے گا سو جا ،اس لیے کہ ہم نے جان لیا ہے کہ تو مومن ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا کہے گا کہ مجھے نہیں معلوم، میں نے تو جولوگوں کو کہتے ہوئے سنا وہی میں نے کہا‘‘۔
یُؤْتٰی اَحَدُکُمْ کا ترجمہ کسی اہل حدیث نے یہ کیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے پاس پہنچے گے
یہ ترجمہ صحیح ہے؟
لفظی ترجمہ ہے
يُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ لَهُ
تم میں سے ہر ایک سے ملیں گے وہ کہیں گے
یہاں ملائکہ کا لفظ محذوف ہے لھذا ترجمہ کیا جاتا ہے
تم میں سے ہر ایک کے پاس (اللہ کے فرشتے) آئیں گے