حج کے بعد قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیارت کے لئے جانا امت میں ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے – اس میں صواب رائے یہ ہے کہ اس کا ارکان حج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی حکم نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے بلکہ اس کی بیشتر روایات عباسی دور خلافت کی ایجاد و گھرنٹ ہیں
کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی احادیث ) از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، بَاب ذمّ من حج وَلم يزر رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب کہ اس کی قَدْح کا ذکر جس نے حج کیا اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ کی میں ہے
أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْبَزَّارُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ على عَن الدَّارقطني عَن أبي حَاتِم بن حبَان حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ حَدَّثَنِي جَدِّي عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ” من حَجَّ الْبَيْتَ وَلَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي “.
مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ نے اپنے دادا سے انہوں نے امام مالک سے انہوں بے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا کہ قال رسول اللہ : جس نے حج بیت اللہ کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے روگردانی و جفا کی
قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: ” النُّعْمَان يَأْتِي عَن الثقاة بالطامات.
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: الطعْن فِي هَذَا الحَدِيث من مُحَمَّد بْن مُحَمَّد لَا من النُّعْمَان.
الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) میں ہے
فالذي حكيناه من كلام الدارقطني هو الإنكار لا التضعيف، فيحصل من هذا إبطال الحكم عليه بالوضع،
جو کلام دارقطنی کا اس راوی پر نقل کیا گیا ہے وہ انکار اس کو ضعیف کہنے پر نہیں بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ گھڑتا ہے
ابن حجر نے لسان المیزان میں ذکر کیا کہ دارقطنی نے اس کا ذکر حدیث منکر کے طور پر کیا ہے
وقال ابن حجر: وقد أخرج الدَّارَقُطْنِيّ في «غرائب مالك» أحاديث من طريق ابن شبل محمد بن محمد بن النعمان بن شبل البصرى حدثنا جدي، حدثنا مالك، واستنكرها.
اس کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے
راقم کہتا ہے ایسا راوی جو مسلسل منکرات بیان کرتا ہو اس کا درجہ منکر الحدیث کا ہو جاتا ہے اور یہاں محمد بن محمد بن نعمان کا یہی حال ہے
عثمانی صاحب نے یہ مزار یہ میلے میں ذکر کیا
امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق میں ذکر کرتے ہیں
راقم کہتا ہے یہاں حوالہ غلط ہے جو عثمانی صاحب نے دیا البتہ جو جرح نقل کی وہ جھوٹ ہرگز نہیں لہذا اس تسامح کو جھوٹ نہیں کہا جا سکتا
کتاب الموضوعات از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، میں ہے
أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الرَّزَّازُ قَالَ أَنبأَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشَّافِعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا عبد الملك بْنُ قُرَيْبٍ الأَصْمَعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” من صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا وَكَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَّل مَلَكًا يُبْلِغُنِي وَكُفِيَ أَمْرَ دُنْيَاهُ وَآخِرَتِهِ وَكُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا “.
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَان هُوَ السدى.
قَالَ يَحْيَى: لَيْسَ بِثِقَةٍ.
وَقَالَ ابْن نمير: كَذَّاب.
وَقَالَ السَّعْدِيّ: ذَاهِب.
وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكٌ.
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا اعْتِبَارا.
قَالَ الْعقيلِيّ: لَا أصل لهَذَا الحَدِيث من حَدِيث الْأَعْمَش وَلَيْسَ بِمَحْفُوظ.
محمد بن یونس بن موسی نے عبد الملک بن قریب سے روایت کیا اس نے مروان سے اس نے اعمش سے اس نے ابو صالح سے اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے میری قبر کے پاس درود پڑھا وہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو اللہ اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کو مجھ تک لاتا ہے اور اس کے لئے دنیا و آخرت کا کام کافی ہو جاتا ہے اور میں اس پر گواہ ہو جاتا ہوں اور شفاعت کرنے والا
ابن جوزی نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں اور محمد بن مروان السدی ہے – یحیی نے کہا ثقہ نہیں ہے ابن نمیر نے کذاب کہا ہے اور جوزجانی نے ذاھب اور نسانی نے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان نے کہا اس کی حدیث حلال نہیں سوائے یہ کہ اعتبار کے لئے لکھی جائے
عقیلی نے کہا اس کی حدیث کی اصل نہیں ہے اور اس کی حدیث اعمش سے غیر محفوظ ہے
عثمانی صاحب نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا
امین اکاڑوی کہتے ہیں
یہاں محمد بن یونس بن موسی اپنے دادا سے منسوب ہے لہذا نام محمد بن موسی لیا جاتا ہے – جیسے امام احمد بن حنبل میں حنبل دادا کا نام ہے باپ کا نام نہیں ہے – میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی میں موجود ہے
قال ابن عدي: قد اتهم الكديمى بالوضع.
وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
وقال ابن عدي: ادعى الرواية عمن لم يرهم، ترك عامة مشايخنا الرواية عنه.
وقال أبو عبيد الآجرى: رأيت أبا داود يطلق في الكديمى الكذب، وكذا كذبه موسى بن هارون، والقاسم (1) المطرز.
ابن عدی نے کہا اس پر کذب کا الزام ہے
ابن حبان نے کہا اس نے ہزار احادیث گھڑی ہیں
یہ سب میزان از الذھبی میں موجود ہے – امین صاحب کو خود یہاں تسامح ہوا ہے
عثمانی صاحب نے یہ مزاریہ میلے میں ذکر کیا
عثمانی صاحب نے الموضوعات ابن جوزی کے اقتباس کو میزان الاعتدال از الذھبی بنا دیا ہے جو ممکن ہے کتابت کی
غلطی ہو – بہر حال یہ سب جروح ثابت ہیں
میزان از الذھبی میں ہے
محمد بن مروان السدى الكوفي، وهو السدى الصغير.
يروي عن هشام بن عروة والأعمش.
تركوه واتهمه بعضهم بالكذب.
اس کو ترک کر دیا گیا ہے اور بعض نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے
تہذیب الکمال میں ہے وَقَال النَّسَائي : متروك الحديث.
قال عبد السلام (1) بن عاصم عن جرير بن عبد الحميد: كذاب.
امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق عمیق کا ذکر کرتے ہیں
راقم کہتا ہے عدل و انصاف یہ ہے عثمانی صاحب سے ایک ادھ حوالہ میں غلطی ہوئی ان کا حوالہ درست نہیں تھا لیکن امین صاحب کی غلطی اس سے بڑھ کر ہے کہ انہوں نے سرے سے ہی ان حوالوں کو کذب کہہ دیا جبکہ یہ حوالے مختلف کتب سے معلوم ہیں اور خود میزان از الذھبی میں بعض موجود ہیں
عثمانی صاحب نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا
امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں اس پر تنقید کی کہ
راقم کہتا ہے حفص بن سليمان الأسدي کا حدیث میں متروک ہونا مشہور و معروف ہے اور اس کی بنا پر کوئی اس کی حدیث نہیں لیتا اور نہ محدث پر تنقید کرتا ہے کہ وہ قاری قرآن پر جرح کیوں کر رہا ہے مثلا امام احمد کا قول ہے کہ حفص بن سليمان الأسدي متروک ہے
قرآن کی قرات کئی سندوں سے معلوم ہے حفص بن سليمان الأسدي کے متروک ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا
ابن عدی الکامل میں کہتے ہیں امام بخاری کاقول ہے
سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ حفص بن سليمان تركوه.
حفص متروک ہے
وقال بن خراش كذاب متروك يضع الحديث
شیعوں میں بھی یہ متروک ہے کتاب أصحاب الامام الصادق از عبد الحسين الشبستري میں ہے
حفص ابن أبي داود سليمان بن المغيرة الأسدي بالولاء، الغاضري، وقيل الفاخري، البزاز، الكوفي، المعروف بحفيص. محدث إمامي مجهول الحال، وقيل من الحسان، وبعض العامة ضعفوا حديثه وتركوه. كان كوفيا نزل بغداد، وجاور مكة المكرمة. كان مقرئا مشهورا، قاضيا، وكان قارئ الكوفة وقاضيها، وأعلم أصحاب عاصم بن بهدلة القارئ بقراءته.
اب اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ہوں دونوں اس کو قرآن کا قاری کہتے ہیں اور متروک بھی قرار دیتے ہیں تو یہ ترک حدیث میں ہے قرآن میں نہیں ہے کیونکہ قرآن کی آیات تواتر سے معلوم ہیں – اختلاف قرات میں اکثر اختلاف اشکال و اعراب پر ہوتا ہے یا لحن پر جو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے – مسئلہ اس وقت آتا جب حفص قرآن میں آیات کا اضافہ کرتا
زیارت قبر نبوی پر امت کا اجماع کہا جاتا ہے کہ امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی – قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں
وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ مُرَغَّبٌ فيها.
اور قبر صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں
ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں
زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها
قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں
لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی کہ زیارت قبر نبوی کی غرض سے کیا جانے والا سفر بدعت ہے
ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے
سوال ہے کہ قبر النبی کے پاس پہنچنے پر مومن کیا کرے گا ؟ اس کا جواب اثر میں موجود ہے کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کر سکتا ہے
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے
امام محمد نے کہا : اس طرح یہ ہونا چاہیے کہ جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر آتے ہوں
یعنی مومن درود ابراہیمی پڑھ سکتا ہے اور اس کا مقصد اللہ سے دعا کرنا ہو گا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانا کیونکہ انبیاء اب جنت میں ہیں قبروں میں نہیں ہیں
کیا انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ؟ امین اکاڑوی لکھتے ہیں
راقم کہتا ہے اس حدیث کو متواتر کہنا انصاف کا قتل ہے اس کی سند میں کیا تیس تیس اصحاب کا ایک ہی دور میں اتفاق رہا ہے جوایک شہر کے نہ ہوں اور یہ معلوم تواتر کی تعریف ہے – لیکن اس میں اہل عراق کا تفرد ہے – اس کا راوی حجاج مجہول الحال ہے اور پھر راوی مستلم ہے جو شہر واسط کا جوگی ہے جو پانی کو اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا
اس حالت میں اس کے ذہن میں جو امنڈتا ہو گا اسی کو حدیث بنا دیتا ہو گا – پانی سے چالیس دن دور رہنا ہندوؤں جوگیوں میں معروف عمل ہے لیکن اطبا اسلام نے اس کو جسم پر ظلم کہا ہے اور جسم پر ظلم کرنا حرام ہے – اس قسم کے بدعتییوں کی روایت قابل قبول نہیں ہے – پھر کیا شہداء کے لئے کوئی نص ہے کہ وہ دنیا میں ہی زندہ ہیں ؟ زندگی تو جنت سے شروع ہوئی زمین سے نہیں اور اسی میں لوٹنا اصل نعمت ہے