وہابی اور اھل حدیث اور ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کے موحد علماء کا کہنا ہے کہ نبی علیہ السلام بعد وفات بریلویاں کے گھر انڈیا پاکستان میں نہیں اتے – راقم اس قول سے متفق ہے اور اتنے دن سے رو رہا ہے کہ انبیاء کے حوالے سے جو بیان کیا جاتا ہے کہ قبروں میں نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے – یہاں تک کہ اعصاب شکن ہوئے جب وہابی عالم مشہور حسن سلمان وہابی عالم کا فتوی دیکھا کہ انبیاء نہ صرف قبروں میں زندہ ہیں بلکہ یہاں تک کہ آج کل بھی حج کرتے ہیں
https://ar.islamway.net/fatwa/31129/هل-يصلي-الأنبياء-في-قبورهم-وكيف-يكون-ذلك
السؤال 256: قرأت في كتاب “أحكام الجنائز” لشيخنا رحمه الله، حديثاً عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم عن سؤال الملكين للمؤمن في قبره: ((…. فيقال له اجلس وقد دنت له الشمس وقد آذنت للغروب، فيقال له: أرأيت في هذا الذي كان فيكم ما تقول فيه؟ ماذا تشهد عليه؟ فيقول: دعوني حتى أصلي، فيقولان إنك ستفعل)) فقال الشيخ الألباني معلقاً على هذا الحديث: صريح في أن المؤمن يصلي في قبره، وذكر حديثاً {أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون}، ما صفة هذه الصلاة، هل هي كصلاتنا أم ما هي صفتها؟
الجواب: الله أكبر، المؤمن في قبره لما يأتيه الملكان عقله وقلبه متعلق بالصلاة، فيقول للملائكة: دعوني حتى أصلي، ثم اسألوني، وهكذا شأن المؤمن.
والكلام على دار البرزخ، ودار البرزخ قوانينها ليست كقوانين الدنيا، ولها قوانين خاصة، والروح والبرزخ أشياء لا تدرك بالعقل ولا يجوز أن تخضع للمألوف، فعالم البرزخ العقل يبحث فيه عن صحة النقل فقط، فإن كان صحيح نقول يصلي، وكيف يصلي؟ لا ندري، والأنبياء لهم حياة في قبورهم، وكيف هذه الحياة، لا نعرفها، فهذا خبر في عالم الغيب، ليس للعقل إلا أن يتلقى ويبحث عن الصحة، فإن صح الخبر نقول: سمعنا وأطعنا.
وبهذا نرد على المفوضة وعلى الذين ينكرون صفات الله فإذا كان الإنسان نفسه عندما ينتقل من دار لدار العقل يتوقف، فكيف نعطل صفات ربنا عز وجل بحجة أنها تشبه صفات الخلق؟ فنحن نثبت صلاة للأنبياء وللمؤمن في القبور، بل نثيت حجاً وعمرة للأنبياء، كما جاء في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى يحج في المنام ورؤيا الأنبياء حق، فنثبت ما ورد فيه النص ونسكت ونعرف قدر أنفسنا ولا نزيد على ذلك، ولا يوجد أحد ذهب لعالم البرزخ فجاء فأخبرنا وفصل لنا والعقل لا يدرك والنص قاضٍ على العقل، والله أعلم…
حسن مشہور سلمان نے جواب دیا : … دار البرزخ کے قوانین الگ ہیں … انبیاء کی حیات قبر کی ہے لیکن کیسی ہے پتا نہیں ہے ہم نہیں جانتے یہ عالم الغیب کی خبر ہے … اور المفوضہ انکار کرتے ہیں ہم (وہابی) اس کا اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات) اور مومن قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم اس کا بھی اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات) حج و عمرہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے نیند میں موسی کو دیکھا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور انبیاء کا خواب حق ہے پس ہم اثبات کرتے ہیں جو نص میں آیا
راقم کہتا ہے حدیث میں موسی یا یونس علیہما السلام کا حج کرنے کا جو ذکر ہے وہ ان کی زندگی کی خبر ہے لیکن وہابیوں نے اس حدیث کو بعد وفات کی طرف موڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انبیاء قبروں سے نکل کر میقات کی حدود میں داخل ہوتے ہیں – یہ قول باطل ہے
صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِوَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ: «أَيُّ وَادٍ هَذَا؟» فَقَالُوا: هَذَا وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ»، ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ: «أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟» قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ وَهُوَ يُلَبِّي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی ازرق سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یہ وادی ازرق ہے آپ نے فرمایا : گویا میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ پہاڑ سے اتر رہے ہیں تلبیہ کی وجہ سے ان کا ایک اللہ کے ہاں ایک مقام قرب ہے- پھر آپ ایک پہاڑ پر پہنچے فرمایا یہ کونسا پہاڑ ہے؟ عرض کی ہرشی پہاڑ ہے آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی علیہ السلام کو نحیف سرخ اونٹنی پر دیکھ رہا ہوں ان پر اون کا جبہ ہے، اونٹنی کی نکیل خشک کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ہے اور آپ علیہ السلام تلبیہ کہہ رہے ہیں
اس روایت میں نیند کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو جاگنے کی حالت میں اپ صلی الله علیہ وسلم کو غیبی کشف کیا گیا کہ گویا موسی اور یونس علیہما السلام نے جب حج کیا تو ایسے لگ رہے تھے
وہابی عالم صالح المنجد کا فتوی ہے
وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ) رواه البزار وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 2790 ) وهذه الصلاة مما يتمتعون بها كما يتنعم أهل الجنة بالتسبيح .
https://islamqa.info/ar/26117
اور بے شک صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء زندہ ہیں قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کو البزار نے روایت کیا ہے اور البانی نے نے صحیح کیا ہے اور یہ وہ نماز ہے جس سے یہ فائدہ لیتے ہیں جیسی کہ اہل جنت تسبیح سے لیتے ہیں
راقم کہتا ہے سلفی عالم اسمعیل سلفی کے بقول کہ اس روایت سے عقیدے ثابت نہیں کر سکتے
بہت علمی پوسٹ بنائی آپ نے
پلیز اس بات کی وضاحت کر دیں جو آپ نے لکھی
راقم کہتا ہے سلفی عالم اسمعیل سلفی کے بقول کہ اس روایت سے عقیدے ثابت نہیں کر سکتے
اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں لکھتے ہیں
ایسی احادیث پر عقائد کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی سکین اس سوال کے جواب میں ہے
⇑ کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/
اور دوسری بات کہ
ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کے موحد علماء
سے آپ کی مراد کون سے علماء ہیں
موحد علماء وہ ہیں جو اہل حدیث اور وہابیوں کی طرح شرک نہیں کر رہے