مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بلایا اور صحیح بخاری کے مطابق ان کے مدارس بھی گئے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ: أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت المدارس پہنچے پس آپ نے فرمایا اسلام قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کے لئے ہے
ہمارے راویات پسند علماء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ شریعت منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره المائدہ میں اہل کتاب کو کہتا ہے
قل ياأهل الكتاب لستم على شيء حتى تقيموا التوراة والإنجيل وما أنزل إليكم من ربكم وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فلا تأس على القوم الكافرين
کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور وہ جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی سر کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں کی حالت پر افسوس نہ کرو
یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے-
یہ بحث کہ اصل توریت کیا ہے اس کے لئے اس ویب سائٹ پر کتاب
In Search of Hidden Torah
دیکھئے
اس میں اہل کتاب کی کتب اور قرآن و حدیث کا تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اصل توریت کتاب استثنا کے باب ١٢ یا ٢٦ میں ہے جس کا اقرار اہل کتاب آج کر رہے ہیں کہ اس کی عبرانی باقی توریت سے الگ ہے – اس کو انگریزی میں
Book of Deuteronomy
کہا جاتا ہے – عجیب بات ہے جب بھی قرآن کہتا ہے ہم نے توریت میں یہ حکم دیا تو وہ استثنا کے اسی باب ١٢ یا ٢٦ میں موجود ہے جو آہل ایمان کے لئے نشانی ہے
تورات کا ایک حکم – رجم کی سزا
نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کے زنا کا مقدمہ پیش ہوا – یہود نے اس کی سزا گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کرنا بتائی – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت لانے اور اسکو پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : میں تورات ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ چنانچہ (اُس یہودی اور یہودیہ کے بارے میں) حکم دیا گیا اور وہ دونوں سنگ سار کر دیے گئے
تورات کتاب استثنا باب ٢٢ کی آیت ٢٠ اگر کوئی شادی شدہ مرد اپنی بیوی میں باکرہ ہونے کی علامت نہ پائے تو ایسی عورت کو سنگسار کر دو
یہودیوں میں توریت پر فقہی مباحث جاری تھے اور اس مجموعے کو تلمود کہا جاتا ہے اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں یروشلم اور بابل میں کام جاری تھا تلمود کے مطابق( سات) بڑے گناہوں کی سزا کوڑے ہے اور قتل یا رجم نہیں کیونکہ زنا کی سزا کے لئے دو گواہ ہونے چاہییں – اگردو گواہ مرد و عورت کو حالت زنا میں دیکھیں اور بولیں الگ ہو جاؤ اور وہ زانی الگ ہو جائیں تو توریت کا حکم نہیں لگے گا -یہ علماء کا فتوی تھا جو تلمود میں ہے- لیکن مدنیہ والے ان سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے انہوں نے فتوی دیا کہ صرف گدھے پر منہ کالا کر کے بیٹھا دو- نہ کوڑے کی سزا دے رہے تھے جو تلمود میں ہے، نہ رجم کر رہے تھے جو توریت میں ہے
تفصیل کے لئے کتاب دیکھئے
The Religious and Spiritual Life of the Jews of Medina
By Haggai Mazuz, Brill Publisher, 2014
صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے روایت میں ہے مَجْلُودًا کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن یہ روایت غریب اور شاذ ہے کوڑے مارنے کا مجموعہ کتب حدیث میں کہیں اور ذکر نہیں ہے جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے
رجم کا یہ حکم توریت سے لیا گیا اور اخلاقا یہ ممکن نہیں کہ یہودیوں کے زانی کو تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم توریت کا حوالہ دے کر رجم کا حکم دیں اور مسلمانوں کو بچا لیں لہذا شادی شدہ مسلمان زانی کے لئے یہی حکم جاری ہوا
عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں کہ بعض معتزلہ اور خوارج نے رجم کی سزا کا انکار کیا – اسی طرح بعض اہل سنت کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس سلسلے میں انے والی صحیح و ضعیف روایات کو ملا کر ان پر تبصرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام روایات میں اضطراب ہے – دوسری طرف روایت پسند علماء نے رجم کی ایک ایک روایت کو صحیح کہہ دیا جس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ گیا – عصر حاضر میں مصری علماء مثلا محمد الصادق عرجون نے رجم کی روایات پر جرح کی – اسی طرح برصغیر میں جاوید احمد غامدی نے اس سزا کو واپس موضوع بحث بنایا اور اس پر اپنی کتاب میزان میں تبصرہ کیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس سسلے کی ضعیف و صحیح روایات باہم ملا کر ان پر تبصرہ کر دیا-
غامدي صاحب رجم کی سزا کو مانتے ہیں کہ یہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کی دلیل وہ سوره المائدہ سے لیتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں اور فساد کریں ان کو سولی دی جائے، ملک بدر کیا جائے، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دے جائیں –
سوره المائدہ کی آیت ٣٣ ہے
بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے
اس طرح غامدی صاحب رجم کی سزا کو فساد فی الارض کے زمرے میں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ لے کرموقف رکھتے ہیں کہ حاکم وقت چاہے تو یہ سزا دے سکتا ہے اس کا تعلق خاص شادی شدہ زانی کے لئے نہیں بلکہ اس موقف کے تحت غیر شادی شدہ کو بھی رجم کی سزا دی جا سکتی ہے اگر وہ غنڈہ ہو اور زنا بالجبر کرتا ہو- اس کے لئے ان کی تحاریر دیکھی جا سکتی ہیں – لیکن اس موقف میں کئی خامیاں ہیں اول سوره المائدہ کی آیات قرآن كي سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جس میں اليوم أكملت لكم دينكم کی آیت بھی ہے – قرطبی کہتے ہیں سوره المائدہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے (الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره)- کہا جاتا ہے مَا نَزَلَ لَيْسَ فِيهَا مَنْسُوخٌ اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے (تفسیر القرطبی) – محمد سيد طنطاوي التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں کہتے ہیں أن سورة المائدة من آخر القرآن نزولا بے شک سوره المائدہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی – سوره المائدہ کی آیات حجه الوداع پر مکمل ہوئیں یعنی ١٠ ہجری میں اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی – اب مسئلہ یہ اٹھتا ہے دور نبوی میں جن افراد کو رجم کی سزا دی گئی وہ سب ظاہر ہے اس سوره المائدہ کے نزول کے بعد ہی دی گئی ہو گی تو اس ایک سال میں اتنے سارے لوگوں کو رجم کیا گیا – مدینہ میں ایسی کیا ہیجانی کیفیت تھی کہ حجه الوداع کے بعد اتنی زنا بالجبر کی کروائیاں ہو رہی تھیں اس کی تہہ میں کیا تحریک پوشیدہ تھی ؟ غامدی صاحب اس سب کو گول کر جاتے ہیں اور چونکہ ایک عام آدمی اس سب سے لا علم ہے وہ ان کی تحقیق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور اس پر ان کی تحقیق کا جھول واضح نہیں ہوتا – دوم سوره النور میں جو زانی کی سزا ہے اور بقول غامدی صاحب ” چنانچہ یہ آیت بھی اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اُس کے جرم کی انتہائی سزا قرآن مجید کی رو سے سو کوڑے ہی ہے ۔ قرآن کی اِن دونوں آیات میں سے سورۂ نور کی آیت ۸ کے بارے میں کوئی دوسری رائے ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ” (برہان از جاوید غامدی) – یعنی غامدی صاحب کے نزدیک سوره النور کی آیات کا تعلق شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں سے ہے – سوال ہے کیا اس کا حکم سوره المائدہ کی آیت سے منسوخ ہے ؟ اپنی مختلف تحاریر میں اس سے خوبصورتی سے کترا جاتے ہیں
غامدی صاحب کی پیش کردہ روایات مندرجہ ذیل ہیں جن سب کو صحیح سمجھتے ہوئے انہوں نے ان میں اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
رجم کی ضعیف روایات
مسند احمد کی روایت ہے
عن الشعبی ان علیاً جلد شراحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال: اجلدھا بکتاب اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.(احمد، رقم ۸۳۹) ’
شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا: میں نے اِسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا ہوں۔‘‘
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه…..وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء
عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور…. یہ امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں
یعنی شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے
دوسری ضعیف روایت
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، «أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَلَمْ يَعْلَمْ بِإِحْصَانِهِ، فَجُلِدَ، ثُمَّ عَلِمَ بِإِحْصَانِهِ، فَرُجِمَ
عن جابر ان رجلاً زنیٰ بامراۃ، فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجلد الحد، ثم اخبر انہ محصن فامر بہ فرجم.(ابوداؤد، رقم ۴۴۳۸)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں سزا کا حکم دیا ۔ چنانچہ اُسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے تو حکم دیا گیا اور اُسے رجم کر دیا گیا۔
اس کی سند میں محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مدلس ہے – کتاب التبيين لأسماء المدلسين از ابن العجمي کے مطابق مشهور بالتدليس یہ تدلیس کے لئے مشھور ہے- البانی اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں
تیسری ضعیف روایت
طبقات الکبری از ابن سعد کی روایت ہے
قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي هشام بن عاصم بن الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَمْزَةَ بْنِ سِنَانٍ كَانَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَدِمَ الْمَدِينَةَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَادِيَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالضَّبُّوعَةِ عَلَى بُرَيْدٍ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى الْمَحَجَّةِ إِلَى مَكَّةَ لَقِيَ جارية من العرب وضيئة فنزعه الشَّيْطَانُ حَتَّى أَصَابَهَا وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ. ثُمَّ نَدِمَ فَأَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ. أَمَرَ رَجُلا أَنْ يَجْلِدَهُ بَيْنَ الْجِلْدَيْنِ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ ولان.
عمرو بن حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے ۔ وہ مدینہ آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی کہ اپنے بادیہ کی طرف لوٹ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو نکلے، یہاں تک کہ جب مدینہ سے مکہ کی طرف راستے کے درمیان ایک منزل ضبوعہ پہنچے تو عرب کی ایک خوب صورت لونڈی سے ملاقات ہوئی۔ شیطان نے اکسایا تو اُس سے زنا کر بیٹھے اور اُس وقت وہ محصن نہ تھے۔ پھر نادم ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ نے اُن پر حد جاری کر دی
اس نسخہ میں اس روایت کی سند میں غلطی ہے کتاب تلخيص المتشابه في الرسم از الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق اصل میں راوی يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ الأَسْلَمِيُّ الْمَدِينِيُّ ہے جو الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ سے روایت کرتا ہے اور یحیی سے مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ نے كِتَابِ الْمَغَازِي میں روایت لکھی ہے- لہذا یہی راوی ہے جس سے واقدی نے روایت کیا اور ان سے ابن سعد نے – اب چاہے یہ يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ ہو یا هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ – دونوں کا حال مجھول ہے
لہذا روایت ضعیف ہے
چوتھی ضعیف روایت
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْبُرْدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ فَيَّاضٍ الْأَبْنَاوِيِّ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ “
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ اُس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے ۔ وہ کنوارا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سو کوڑے لگوائے ۔ پھر اُس سے عورت کے خلاف ثبوت چاہا تو اُس بی بی نے کہا : اللہ کی قسم ، اِس نے جھوٹ بولا ہے ، یا رسول اللہ ۔ اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قذف کے اسی کوڑے لگوائے
البانی اس روایت کو منکر کہتے ہیں
پانچویں ضعیف روایت
أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ , فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ,وقد قال اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاَثُونَ شَهْرًا} , وَقَالَ: {وفصاله في عامين} وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} قال: والرضاعة أربعة وعشرون شهراً والْحَمْلُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فأمر بها عُثْمَانُ أن ترد , فَوَجَدَت قَدْ رُجِمَتْ
ایک عورت نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شادی کے بعد چھ ماہ میں بچا جنا – اس کا مقدمہ عثمان رضی الله عنہ پر پیش ہوا انہوں نے اس کو رجم کرا دیا – بعد میں جب ان کو سمجھایا گیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے تو انہوں نے حکم واپس لیا لیکن اس وقت تک عورت رجم کی جا چکی تھی
موطآ امام مالک کی روایت ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے – امام مالک نے اس کی سند نہیں دی لہذا یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے- اگر اس کو صحیح مانا جائے تو خلیفہ اور اس کی شوری کی اجتماعی غلطی ہے جبکہ اس میں جلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم شامل ہیں اور ان سے یہ غلطی ممکن نہیں
چھٹی ضعیف روایت
مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جو مسروق کا قول ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: «الْبِكْرَانِ يُجْلَدَانِ أَوْ يُنْفَيَانِ، وَالثَّيِّبَانِ يُرْجَمَانِ وَلَا يُجْلَدَانِ، وَالشَّيْخَانِ يُجْلَدَانِ وَيُرْجَمَانِ
کنوارے زانی کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی اور بوڑھے زانیوں کو پہلے کوڑے مارے جائیں گے او ر اِس کے بعد رجم کیا جائے گا
یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ موقوف قول صحابی ہے نہ مرسل روایت ہے – یہ ایک تابعی کا قول ہے- دلیل نہیں بن سکتا
ساتویں روایت ہے
صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے لو ، مجھ سے لو ،مجھ سے لو ، زانیہ عورتوں کے معاملے میں اللہ نے ان کے لئے رستہ نکالا (جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ نازل فرما دیا )۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیرشادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور رجم
اسکی سند میں الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ ہیں جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں – اس روایت کا کوئی اور طرق نہیں ملا اور دیگر روایات کے خلاف ہے لہذا ضعیف ہے
مسند الإمام الشافعي میں اس روایت پر ہے
وَقَدْ حَدَّثَنِي الثِّقَةُ: أنَّ الحَسَنَ كانَ يَدْخُلُ بَيْنَهُ وبينَ عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي
اور ایک ثقہ نے بتایا کہ حسن بصری اپنے اور عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي کے درمیان ایک دوسرے شخص کو داخل کرتے تھے
مسند البزار میں ہے
وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُبَادَةَ مُرْسَلًا
اور ایک سے زیادہ نے اس کو حسن بصری سے انہوں نے عبادہ سے مرسل روایت کیا ہے
یعنی صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے اور اس کو صحیح میں لکھنا امام مسلم کی غلطی ہے ان کے ہم عصر علماء اس کو مرسل کہتے تھے
اب ان تمام روایات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا ان کو صحیح روایات کے ساتھ ملا کر خلط مبحث کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ یہ ہیں ہی ضعیف روایات – غامدی صاحب نے ان ضعیف روایات کو صحیح سے ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے اور پھر اس طرح تمام روایات پر جرح کرکے آن روایات میں اضطراب ثابت کیا جاتا ہے – حقیقیت میں اوپر والی روایات ضعیف ہیں
رجم سے متعلق بعض صحیح روایات
سنن النسائی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا يَحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مِحْصَنٌ يُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَيُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ لِيُحَارِبَ اللهَ عَزَّ وَجَلّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہے : ایک شادی شدہ زانی اُسے رجم کیا جائے گا۔ دوسرے وہ شخص جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسرے وہ شخص جو اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ، اُسے قتل کیا
جائے گا یا سولی دی جائے گی یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا
البانی اس کو صحیح کہتے ہیں
نتیجہ : ایک شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا۔
صحیح بخاری کی روایت ہے
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)
روایت اپنے متن میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت کو رجم کر دیا گیا اور شریعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ جلا وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد کا مطالبہ کیا ہے جو صرف اور صرف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا – مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بلاخر مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر ضروری سوالات ہیں کیونکہ یہ اعتراض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے
نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جلا وطن بھی کیاجائے گا
يه روایت دلیل ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُس کی سزا غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے ہونی چاہیے
لیکن اگر شادی شدہ مرد یا عورت غیر شادی شدہ مرد یا عورت سے زنا کرے تو شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا
موطأ اور بخاری كي ایک روایت
امام مالک ، امام یحییٰ بن سعید سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا
قَالَ: إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ». أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا – الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ – فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا
قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: «فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ» قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: قَوْلُهُ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ يَعْنِي: «الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ
تم آیت رجم کا انکار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے کہیں کہ ہم تو اللہ کی کتاب میں دو سزاؤں (تازیانہ اور رجم) کا ذکر کہیں نہیں پاتے ۔ بے شک ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا او ر ہم نے بھی ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا تو میں یہ آیت : الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ ’’بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کو لازماً رجم کردو ، قرآن مجید میں لکھ دیتا، اِس لیے کہ ہم نے یہ آیت خود تلاوت کی ہے ۔
امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کہا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَة سے مراد الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں –
موطا کی روایت کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن المسیب کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل
یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے
کیونکہ سعید بن المسیب ، عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کو دیکھا کچھ سنا نہیں
شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دوسری سند سے دی ہے – امام بخاری اس کو عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے
(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) بے شک ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ ہوں گے ۔ یاد رکھو، رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی کے بعد زنا کرے
نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا
غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل بات قرار دیا ہے – حالانکہ جب بات زنا کے تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں – مثلا آج الشیخ کا لفظ علماء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بولا جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عالم ہو یا قبیلہ کا سردار ہو- آج سیدنا کا لفظ انبیاء کے ساتھ استعمال ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح علم حدیث کے قدیم قلمی نسخوں میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا علیہ السلام نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ لاحقہ عام ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے- قرآن میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے استعمال کیا (سوره الهود)– الشيخ كبير كا لفظ يعقوب عليه السلام کے لئے سوره یوسف میں ہے اور شیخ مدین سسر موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا لفظ ہے – یعنی بعض کا یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا پیوند ہے صحیح نہیں – الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے کتب شیعہ مثلا تهذيب الأحكام للطوسي 8/195، الاستبصار ً 3/377، اور وسائل الشيعة از آلحر العاملي 15/610 میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعتراض کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اس میں بما قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکالا کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے – اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة فارجموهما البتة بما قضيا الشهوة اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعتراض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو بکر رضی الله عنہ نے جمع ضرور کیا لیکن وہ عثمان رضی الله عنہ کے دور تک تقسیم نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا اس کا کوئی ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات علی اور عمر رضی الله عنہما اس وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر کی- سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی الله عنہ اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو املا کرا دیتے – انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا
بخاری کی اس حدیث میں کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا – ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دوسری آیات میں بھی ہوا ہے – لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں
اگر کوئی رجم کی سزا کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم یہود کے لئے توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے یہود پر سخت سزا اور مسلمانوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی – سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلمان سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟ مدینہ میں یہود کے تین بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسرے قبیلہ بنو قريظة کے مردوں کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ ہجری ميں ہوا – ایک روایت کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو نافذ کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ توریت لاو اور پڑھو تو ان کے ایک عالم عَبْدَ اللهِ ابْنَ صُورِيَا نے اس کو پڑھا اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي، مسند أحمد، صحیح ابن حبان، شرح مشکل الآثار، البداية والنهاية ) – سیرت ابن اسحٰق اور البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عالم تھا اور بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْيَوْنِ میں سے تھا –- سنن الکبری البیہقی کے مطابق اس توریت کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دوسری روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق)- ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود پر رجم کی حد سن ٥ ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود پر لگی
توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا
جنگ خندق میں بنو قریظہ کی عہد شکنی کے معآملے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ پر فیصلہ چھوڑا – انہوں نے عہد شکنی کی سزا تجویز کی کہ جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بادشاہ کا فیصلہ دیا یعنی الله کا فیصلہ-
توریت کتاب استثنآ باب ٢٠ آیات ١٠ تا ١٤ ہے
صحیح مسلم کی روایات ہیں
۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلٰی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلٰی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هٰٓؤُلَآءِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ قَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اللہِ وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَلَمْ يَذْکُرْ ابْنُ الْمُثَنّٰی وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف، ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو، پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے، ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔
مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ سعد نے کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں
انکار حدیث کے رد میں کہا جاتا ہے کہ یہ سزا قرآن میں نہیں لہذا یہ حدیث میں ہے جو وحی خفی یا غیر متلو کی مثال
ہے یہ ہمارے علماء کی غلطی ہے اصلا یہ سزا توریت کی ہے – وحی غیر متلو تو تب بنتی جب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تجویز کی ہوتی اور ہم اسکو قرآن میں نہ پاتے – یہ تو سعد کی تجویز کردہ سزا ہے اور توریت سے مطابقت رکھتی ہے اسی لئے کہا گیا کہ تم نے بادشاہ یعنی الله کے فیصلے کے مطابق حکم دیا- سعد بن معآذ مدینہ کے قبیلہ کے سردار تھے اور یہود کا قبیلہ بھی ان کو سردار مانتا تھا
توریت کا تیسرا حکم – ارتاد کی سزا
توریت کا حکم ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے- مرتد کے حوالے سے غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے مرتدین کے لئے تھی جو مشرک تھے ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔ لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے – توریت کا انکار ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو
غامدی صاحب لکھتے ہیں
ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے – جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔ ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیں جس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانۂ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔ لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں ’مشرکین‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مشرکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر اتمام حجت ہو گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر اتمام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر پہنچی اس پر اتمام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں اس کا مکمل بیان ہے کہ اتمام حجت میں یہود شامل ہیں
اصل میں ارتاد کی سزا کا تعلق اصلا اہل کتاب سے ہے – اہل کتاب کی اسٹریٹجی تھی کہ صبح کو ایمان لاو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢ تا ٨٤ کا ترجمہ کرتے ہیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لاؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو – یہود کے مطابق اسی حکم کی بنیاد پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ اس نے (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصلا یہود کا اتہام ہے) – توریت کی استثنا کے باب ١٣ کی آیات ٦ تا ١٠ ہے
ارتاد پر مشرکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا مثلا یمن میں جب معآذ بن جبل رضی الله عنہ پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو
یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عملا ختم ہو چکی تھی وہ توریت کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره المائدہ میں اہل کتاب کو کہا کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے
لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو اسلام میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر تو لگایا جائے لیکن اہل اسلام کو بچا لیا جائے؟ سوچئے
و سلام على من اتبع الهدى
سلام علیکم
رجم تورات کا حکم تها اسلام اسکو بر قرار رکہا اور منسوخ نہ کیا.جو روایت بخاری مے عمر رضی الله عنه کا ہے کے آیت رجم کتاب اللہ تہا لیکن منسوخ ھو گیا اور حکم جاری ہے.کچھ سمجھ مے نہ آیا ،پلیز وضاحت کردے
جزاکم اللله خیرا
رجم کے سلسلے میں احادیث کے مطابق یہ ایک قرانی حکم تھا جو تلاوت کیا جاتا تھا لیکن اس کی قرات منسوخ ہوئی حکم رہ گیا
یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے
راقم کے نزدیک تاریخا رجم کی سزا سن ٥ ہجری سے پہلے یہود پر لگآئی گئی ہے جیسا کہ روایات کا تقابل کرنے سے پتا چلتا ہے لہذا جب ایک دین پر اس کو لگایا گیا تو یہ حکم توریت سے لیا گیا تھا اور یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ جو سخت سزا دوسروں کے لئے مقرر کی جائے وہی مسلمانوں پر لگائی جائے اس بنا پر راقم کا نقطۂ نظر ہے کہ یہ حکم توریت کا ہی ہے جس کو اسلام میں بھی جاری کیا گیا
یہ ایک تضاد ہے جس کی طرف اپ نے اشارہ کیا کیونکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمر رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے کہ اس حکم کی تلاوت کی جاتی تھی
چونکہ یہ رائے امت میں چلی ا رہی ہے اس کا انکار نہیں کیا جائے گا بلکہ امکان کہا جائے گا کہ بہت ممکن ہے یہ دونوں باتیں صحیح ہوں کہ یہود پر توریت سے حکم لیا گیا اسی دور میں مسلمانوں کے لئے بھی ایسا حکم قرآن میں آیا لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوئی
پلیز ان احادیث کے نمبر دے دیں تا کہ ان کا حوالہ دیا جا سکے
١.
صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے روایت میں ہے مَجْلُودًا کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن یہ روایت غریب اور شاذ ہے
٢.
جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے
حدیث صحیح مسلم ١٧٠٠ باب بَابُ رَجْمِ الْيَهُودِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِي الزِّنَى
کیا زنا انسان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے
جی مقدر میں ہی لکھا ہے چاہے گناہ ہو یا نیکی ہو
مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں کی وضاحت درکار ہے ؟
جب لکھ دیا گیا ہے پہلے سے تو پھر امتحان کیسا اور انسان کا گناہ کیسا ؟
مقدر کا لکھنا الله کا علم ہے اس کو مستقبل کا ہمارا سب کا علم ہے
——
لکھا وہ گیا ہے جو ہم اپنی مرضی سے کر رہے ہیں یعنی علم کی بنا پر لکھا جا چکا ہے
اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہوتا وہی ہے جو لکھ دیا گیا ہے البتہ ہم محنت کرتے ہیں اور جنتی توفیق ہوتی ہے اتنا کرتے ہیں اس میں جبر نہیں ہے
بعد از بعثت ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کی پیروی کے حوالے سے چاراقوال
پہلا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے تمام احکام کی اتباع ہمارے اوپر واجب ہے، جب تک ناسخ نہ آئے۔
دوسرا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کے کسی بھی حکم کی اتباع ہمارے اوپر واجب نہیں، الا یہ کہ عمل کرنے کا حکم دلیل سے ثابت ہوجائے ۔
تیسرا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کے تمام احکام کی اتباع ہمارے اوپر لازم ہے، لیکن اس حیثیت سے کہ ہماری شریعت بن گئی۔
چوتھا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے ان احکام کی پیروی ہمارے اوپر لازم ہے، جن کو قرآن مجید یا احادیثِ نبویہ میں انکار یا تردید کے بغیر نقل کیا جائے۔
ْآپ کے نزدیک ان چاروں اقوال میں سے درست کونسا ہے؟
توریت کے وہ احکام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیے ان کو صرف لیا جائے گا
باقی کی ہمارے پاس مطلق و صریح دلیل نہیں ہے لہذا اس میں توقف کیا جائے گا
توریت کے احکام ، قرآن کے تحت اہل کتاب کو جاری کرنے ہیں ہم کو نہیں لہذا ان کا حکم اہل کتاب پر باقی ہے ہم کو قرآن دے دیا گیا ہے
لہذا سوال میں پیش کردہ دوسرا قول میرے موقف کے قریب ہے