ایک وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج تھیں اور ان کے گھر مسجد النبی کے پاس تھے – انہی کو حجرات قرآن میں کہا گیا ہے اور ایک سورہ کا نام بھی اسی پر ہے – ان تمام حجرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت قرار نہیں دیا – البتہ ایک حدیث ہے
صحیح بخاری کی حدیث ١١٩٥ بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ المَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ»
میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے
گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی الله عنہا ہے لہذا اگر آپ دیکھیں تو گھر اور منبر کے درمیان جنت اصل میں مسجد النبی ہے اور مسجد کو جنت کے باغوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے – جب بھی دو چیزوں کے درمیان کی بات ہوتی ہے تو اس میں وہ دو چیزیں شامل نہیں ہوتیں ورنہ یہ کہنا آسان ہے کہ میری قبر جنت کا حصہ ہے نہ کہ یہ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے-
قبر و منبر کے درمیان – معلول اسناد
ایک روایت میں قبر اور منبر کے درمیان کا لفظ ہے – طبرانی اوسط کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ إِلَّا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: أَبُو حَصِينٍ
ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے
اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ سے سوائے يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ کے کوئی روایت نہیں کرتا اور اس میں أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ کا تفرد ہے- عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں ابن معین کہتے ہیں اس کی احادیث قوی نہیں
رسول الله کی روح جنت میں ہے اور وہ مقام الوسیلہ ہے – وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله سب سے اعلیٰ دوست ہے، اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا
ایک روایت مسند احمد ١١٦١٠ میں ہے
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أَبِي: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ حَدَّثَنَا عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ
شعیب کہتے ہیں یہ منقطع ہے
أبو بكر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، هو أبو بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، روايته عن جد أبيه منقطعة
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) اور صحیح ابن حبان میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثنا أَبُو بِشْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُصْعَبٍ , ثنا مَحْمُودُ بْنُ آدَمَ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ” قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبٌ فِي الْجَنَّةِ , وَمَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» تَفَرَّدَ بِهِ الْفَضْلُ عَنْ سُفْيَانَ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے منبر کے پائے جنت کے رَوَاتِبُ ہیں اور میری قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے
اس کی سند میں عمار بن معاوية الدهني جس نے أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سے روایت کیا ہے – عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں اس سے دلیل مت لو-
شعب الإيمان از بیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرًا، وَهُوَ يَبْكِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: هَهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ “
سند میں عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ ہے جو مجہول ہے
السنة از أبو بكر بن أبي عاصم (المتوفى: 287هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے میری قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے
اس کی سند بظاہر صحیح ہے لیکن یہ متن معلول ہے – دوم اس میں قبر کو جنت کا باغ قرار نہیں دیا گیا ہے جیسا لوگوں کا دعوی ہے
صحیح بخاری میں اسی سند سے ہے
ح ١٨٨٨ اور ١١٩٦ : حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
یعنی راوی نے خود کبھی بَيْتِي میرا گھر بولا اور کبھی قَبْرِي میری قبر بول دیا ہے –
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا بَيْنَ هَذِهِ الْبُيُوتِ ـ يَعْنِي: بُيُوتَهُ ـ إِلَى مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَالْمِنْبَرُ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گھروں اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے باغ ہے اور منبر جنت کے ٹیلے پر ہے
شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے کہ
حديث صحيح دون قوله: “ما بين هذه البيوت ” بصيغة الجمع، فقد خالف فيها فليحٌ – وهو ابن سليمان
حدیث ان گھروں کے درمیان کے الفاظ یعنی جمع کے ساتھ ضعیف ہے اس متن پر فلیح بن سلیمان نے مخالفت کی ہے
بعض کا قول ہے کہ یہ قبری کا لفظ صحیح سند سے بھی ہے
قبری کے لفظ پر متضاد آراء
بدر الدين العيني عمدة القاري 10 /248 میں لکھتے ہیں
وكذا وقع في حديث سعد بن أبي وقاص أخرجه البزار بسند صحيح،
قبری کے الفاظ صحیح سند سے مسند البزار میں سعد بن أبي وقاص کی سند سے آئے ہیں
راقم کو مسند البزار میں یہ سند ملی
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَابِلٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي، أَوْ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَتْهُ عُبَيْدَةُ، وَرَوَاهُ جُنَاحٌ مَوْلَى لَيْلَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا
اس سند میں عُبَيدة بنت نابل، حجازية. مجہول ہے
شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد کی تعلیق میں اس سند کا ذکر کر کے کہا
قال الهيثمي في “المجمع” 4/9: ورجاله ثقات، فتعقبه الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي بقوله: قلت: كلا، بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة،
حبيب الرحمن الأعظمي کا کہنا ہے اس سند میں بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة، ہے
بعض کا قول ہے کہ قبری کہنا اصل میں روایت بالمعنی ہے مثلا ابن تیمیہ کا القاعدة الجليلة میں قول ہے
ولكن بعضهم رواه بالمعنى، فقال: قبري
لیکن بعض نے کو قبری کے لفظ کے ساتھ روایت بالمعنی کیا ہے
بعض کا قول ہے قبری کا لفظ بے اصل ہے – التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں قرطبی کا کہنا ہے
وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْكُوفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكِ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَهَذَا أَيْضًا إِسْنَادٌ خَطَأٌ لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْلَ لَهُ
ابن عمر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جو ہے وہ جنت کا ٹکڑا ہے – ان اسناد میں غلطی ہے – اس کی متابعت نہیں ہے نہ اصل ہے
الرَّوضُ البَّسَام بتَرتيْبِ وَتخْريج فَوَائِدِ تَمَّام کے مؤلف أبو سليمان جاسم بن سليمان حمد الفهيد الدوسري کا کہنا ہے
تنبيه: الحديث بلفظ: “ما بين قبري ومنبري … ” عزاه النووي في “المجموع” (8/ 272) والعراقي في “تخريج الإِحياء” (1/ 260) إلى الصحيحين، وهو وهم، وقد علمت أن روايتهما بلفظ:”بيتي”.
تنبیہ حدیث الفاظ ما بين قبري ومنبري . کو نووی نے لیا ہے … اور یہ وہم ہے اور جان لو کہ روایت ہے بیتی کے الفاظ سے
أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) میں ہے
حَدِيث: ” مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة “. مُتَّفق عَلَيْهِ، وَمن يذكرهُ بِلَفْظ قَبْرِي فَهُوَ غلط.
حدیث ہے مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة یہ متفق علیہ ہے اور جس نے اس کو قبری کے لفظ سے ذکر کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے
امام بخاری کا اہتمام : صرف بیت و منبر والی روایات کی تصحیح کی
امام بخاری نے خاص وہ اسناد لی ہیں جن میں بیتی کے الفاظ ہیں
ح ٦٥٨٨ : حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
ح ٧٣٣٥ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
امام بخاری نے اس طرح خاص اہتمام کیا ہے کہ صرف وہ متن لکھیں جس میں بیتی گھر کے الفاظ ہوں نہ کہ قبر کے-
باب پر اشکال
اب بحث اس میں ہے کہ اگر یہ ہی متن امام صاحب کے نزدیک صحیح تھا تو اس پر باب بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ قائم کیوں کیا؟
ابواب بخاری کے حوالے سے راقم کی رائے ہے کہ یہ تمام کے تمام امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں – کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح از أبو الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي الأندلسي (المتوفى: 474هـ) کے مطابق
وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد وَقد بقيت عَلَيْهِ مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا
أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں نے وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور الْكشميهني اور أبي زيد الْمروزِي نے سب نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ مقام پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی
الباجی نے جو معلومات دی ہیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ باب کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری کا قائم کردہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس روایت کے متن میں خاص احتیاط برتی ہے کہ صرف وہ لیں جس میں بیتی کے الفاظ ہوں نہ کہ قبری کے
امام بخاری کا عقیدہ
امام بخاری نے اپنا عقیدہ ان احادیث پر اس طرح بیان کیا ہے
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔ صحیح بخاری ، کتاب المغازی
صحیح بخاری میں ہے
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔
امام مسلم کا اہتمام : صرف بیتی والی روایت کی تصحیح
امام مسلم نے بھی امام بخاری کی طرح صرف ان روایات کی تصحیح کی ہے جن میں بیتی کے الفاظ ہوں- امام صاحب دو اسناد دیتے ہیں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
اب اشکال یہ ہے کہ اگر امام مسلم سے نزدیک یہ متن صحیح تھا تو اس پر باب بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ کیوں قائم کیا ہے
صيانة صحيح مسلم من الإخلال والغلط وحمايته من الإسقاط والسقط میں محدث ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں
أَن مُسلما رَحمَه الله وإيانا رتب كِتَابه على الْأَبْوَاب فَهُوَ مبوب فِي الْحَقِيقَة وَلكنه لم يذكر فِيهِ تراجم الْأَبْوَاب لِئَلَّا يزْدَاد بهَا حجم الْكتاب أَو لغير ذَلِك
اللہ رحم کرے امام مسلم پر انہوں نے کتاب مرتب کی ابواب کے مطابق لیکن اس پر ابواب قائم نہ کیے کیونکہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جاتا یا کوئی اور وجہ تھی
لب لباب
صحیح اسناد سے وہ حدیث ہے جس میں گھر اور منبر کے درمیان کو جنت کہا گیا ہے
ضعیف و معلول اسناد سے وہ روایات ہیں جن میں قبر اور منبر کو جنت کہا گیا ہے
اگر یہ تسلیم کریں کہ متن میری قبر اور منبر کے درمیان کے الفاظ کے ساتھ صحیح تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حصہ یا تمام جنت میں سے تھا اور جو لوگ اس میں زندگی میں داخل ہوئے وہ جنت میں چلے گئے – ایسا دعوی ہم دیکھتے ہیں کسی نے نہیں کیا
انبیاء کی جنت آسمانوں میں ہے – زمین جیسی فانی چیزوں میں نہیں جس پر عظیم پہاڑوں کو چلایا جائے گا حتی کہ زمین چپٹی کر دی جائے گی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے
یعنی بعد حشر اس مسجد النبی کو جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا – جنت مشرک پر حرام ہے اور مسجد النبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصرانیوں سے کلام کیا ہے – یہود بھی اپنے مقدمات کو لے کر اسی مسجد میں آتے تھے – ظاہر ہے یہود و نصرانی جنت میں نہیں جا سکتے – اس حدیث کا ظاہر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات حشر کے بعد واقع ہو گی نہ کہ دنیا میں جب اس زمین کے مسجد النبی کے مقام کو باقی زمین سے الگ کر کے جنت کا حصہ بنایا جائے گا اور منبر پر حوض کوثر ہو گا
واللہ اعلم