سنن الدارمی میں ہے
أخبرنا مروان بن محمد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر معناه
سعیدبن عبد العزیز کہتے ہیں کہ جب ایام حرہ کے دن تھے تو تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان اوراقامت نماز نہیں ہوئی ، اورسعید بن المسیب ان دنوں مسجد نبوی ہی میں ٹہرے رہے اور جب نماز کا وقت ہوجاتا پتا نہیں چلتا سوائے اس کے کہ قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی
یہ سند منقطع ہے – سعید بن عبدالعزیز کی پیدائش نوے ہجری میں ہوئی ہے یہ آخری عمر میں مختلط بھی تھے
امام الذھبی سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں : وُلِدَ: سَنَةَ تِسْعِيْنَ، فِي حَيَاةِ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ یہ سن ٩٠ میں سھل بن سعد کی زندگی میں پیدا ہوا – امام الذھبی سير أعلام النبلاء میں یہ بھی لکھتے ہیں : وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، وَعَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ ابو نعیم اور امام علی کا کہنا ہے کہ سعیدبن المسیب کا انتقال سن ٩٣ میں ہوا
دوسرا طرق طبقات ابن سعد میں ہے
أخبرنا الوليد بن عطاء بن الأغر المكي قال: أخبرنا عبد الحميد بن سليمان عن أبي حازم قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: لقد رأيتني ليالي الحرة وما في المسجد أحد من خلق الله غيري، وإن أهل الشام ليدخلون زمرا زمرا يقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون، وما يأتي وقت صلاة إلا سمعت أذانا في القبر ثم تقدمت فأقمت فصليت وما في المسجد أحدغيري
اسی سند سے تاريخ ابن أبي خيثمة میں ہے
حَدَّثَنا مُحَمَّد بن سُلَيْمَان لوين ، قال : حدثنا عَبْد الحميد بن سُلَيْمَان ، عن أبي حازم ، عن سعيد بن الْمُسَيَّب ، قال : لقد رأيتني ليالي الْحَرَّة وما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدٌ غيري ، ما يأتي وقت صلاةٍ إلا سمعت الآذان مِن القبْر
عبد الحميد بن سليمان نے ابو حازم سے روایت کیا کہا میں نے سعید بن المسیب کو کہتے سنا کہتے میں نے حرہ کی راتیں دیکھیں اور مسجد میں کوئی خلق الله میرے سوا نہ تھی اور اہل شام گروہ گروہ مسجد میں آ رہے تھے اور کہتے اس بڈھے مجنوں کو دیکھو اور نماز کا وقت نہ اتا سوائے اس کے کہ میں قبر النبی سے اذان سنتا تو نماز پڑھتا اور مسجد میں میرے سوا کوئی نہ تھا
ان سندوں میں عبد الحميد بن سليمان الخزاعى ہے جو ضعیف ہے
تیسرا طرق طبقات ابن سعد میں ہے
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة في المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو في المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتى أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة
طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب نے اپنے باپ (یعنی ابن المسیب کے بیٹے ) سے روایت کیا کہ سعید بن المسیب ایام الحره میں مسجد میں ہی رہے انہوں نے بیعت نہ کی اور وہ جمعہ کی نماز تو ان کے ساتھ پڑھتے لیکن عید پر نہ نکلتے اور لوگ قتل ہو رہے تھے اور ابن المسیب کو تنبیہ کی جا رہی تھی وہ مسجد میں ہی رکے رہے سوائے راتوں میں – کہا پس جب نماز کا وقت اتا وہ اذان قبر سے سنتے جو قبر سے نکلتی یہاں تک کہ امن ہوا
طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب کے لئے امام ابی حاتم کا کہنا ہے
قال أبو حاتم: لا أعرفه میں اس کو نہیں جانتا
معلوم ہوا کہ سعید بن المسیب سے اس قول کو دو غیروں اور ایک پوتے نے منسوب کیا ہے
عبد الحميد بن سليمان الخزاعى – مدینہ کا ہے لیکن بغداد میں جا کر رہا وفات ١٧٠ سے ١٨٠ ھ کے درمیان ہے
طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب – وفات معلوم نہیں ہے مدینہ کا ہے
سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى التنوخى – وفات ١٦٧ ھ کے قریب ہے – دمشق کے ہیں
راقم کہتا ہے یہ روایت منقطع و مجہول و ضعیف سند سے تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اجماع کیسے ہوا کہ ایک دمشقی پھر ایک بغدادی اور ایک مدنی نے اس قول کو ابن المسیب سے الگ الگ علاقوں میں منسوب کیا – اس کے علاوہ اس قول کو منسوب کرنے میں دو غیر ہیں ایک پوتا ہے – یہ سب قابل غور ہے – روایت ضعیف تو ہے لیکن اس قول کی تہہ تک جانا ہو گا کہ ایسا ابن المسیب سے منسوب کیوں کیا گیا یا واقعی انہوں نے کہا
اب دو ہی صورتیں ہیں
اگر یہ ابن المسیب نے نہیں کہا تو سوال ہے کہ ان تین راویوں کو کس نے مجبور کیا کہ وہ اس قول کو ابن المسیب سے منسوب کریں- کیا بنو عباس نے ان راویوں سے کہلوایا کہ وہ بنو امیہ کی تنقیص میں اس کو بیان کریں؟ راقم کو بنو عباس کا اس قسم کا اثر رسوخ معلوم نہیں ہے لیکن یہ دور سن ١٥٠ سے ١٨٠ ھ کا معلوم ہوتا ہے – ابو جعفر المنصور کی خلافت سن ١٥٨ ھ تک تھی اور إس کے بعد أبو عبد الله محمد بن عبد الله المنصور بن محمد بن علي المهدي بالله کی خلافت سن ١٦٩ ھ تک تھی
اگر واقعی یہ قول ابن المسیب نے کہا تو اس کا مطلب ہے کہ سعید بن المسیب آخری عمر میں مختلط تھے
راقم سمجھتا ہے کہ اغلبا سعید بن المسیب آخری عمر میں مختلط تھے
صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابٌ) صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب)
4024 . وَعَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ وَقَالَ اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ الْأُولَى يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ أَحَدًا ثُمَّ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ يَعْنِي الْحَرَّةَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدًا ثُمَّ وَقَعَتْ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَلِلنَّاسِ طَبَاخٌ
اور اسی سند سے مروی ہے ، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد ( جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا ، اگر مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو میں انہیں ان کے کہنے سے چھوڑ دیتا ۔ اور لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کیا ، ا نہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر جب دو سرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا ، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی
یہ حدیث تاریخا غلط ہے – بہت سے بدری اصحاب رسول کی وفات دور معاویہ رضی الله عنہ میں ہوئی ہے اور یہ قول کہنا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا – یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ابن المسیب کا اختلاط ہے
السلام و علیکم و رحمت الله
جیسا کہ ثابت ہے کہ امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ، دونوں موصوف “حیات النبی فی القبر” کے شد و مد سے قائل تھے
کیا حرہ کی رات قبر نبی ﷺ سے اذان کی آواز سے متعلق روایت (جو کہ واضح طور پر ضعیف ہے) ان دونوں حضرات کے یہ اقوال صحیح ہیں؟؟
ابن تیمیہ واقعہ ایام حرہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ “مسجد نبوی میں برابر تین دن اذان کی آواز کا آنا جو کہ نبی اکرمﷺ کی قبر انور سے آتی تھی اورسعید ملسیب رحم اللہ کا سن کر نماز ادا کرنا فرماتے ہین شرک وبدعت میں یہ چیز داخل نہیں”- اور جو روایت ہے رسول کریم ﷺ کی قبر سے سلام کا جواب سنا اور باقی اولیا ء کی قبروں سے ۔پھرفرماتے ایام قحط سالی میں ایک شخص قبر مبارک کے پاس آیا اورقحط سالی کی شکایت کی اسنے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ عمر کہ پاس جاو اور کہو کہ نماز استسقاء پڑھائیں،فرماتے ہیں کہ یہ واقعات شرک وبدعت کے باب سے نہیں اس طرح کے کثیر واقعات آپ ﷺ کی امت کے بزرگان دین سے بھی ثابت ہیں – (اقتضائے صراط مستقیم
جمہور محدثین کرام کی اس تضعیف کے مقابلے میں
“امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا [مَا أَرٰی بِہٖ بَأْسًا (العلل : 194)] کہنا اور امام ابن عدی رحمہ اللہ کا [وَہُوَ مِمَّنْ یُّکْتَبُ حَدِیثُہٗ(الکامل : 319/5)] کہنا”
اس کو ثقہ ثابت نہیں کر سکتا۔
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/qabr-e-rasool-sae-azan/
والسلام
فهذه الآثار، إذا ضمت إلى ما قدمنا من الآثار، علم كيف كان حال السلف في هذا الباب. وأن ما عليه كثير من الخلف في ذلك (1) من المنكرات عندهم.
ولا يدخل في هذا الباب: ما يروى من أن قوما سمعوا رد السلام من قبر النبي صلى الله عليه وسلم، أو قبور غيره من الصالحين. وأن سعيد بن المسيب كان يسمع الأذان من القبر ليالي الحرة (2) . ونحو ذلك. فهذا كله حق ليس مما نحن فيه، والأمر أجل من ذلك وأعظم.
وكذلك أيضا ما يروى: ” أن رجلا جاء إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فشكا إليه الجدب عام الرمادة (3) فرآه وهو يأمره أن يأتي عمر، فيأمره أن يخرج يستسقي بالناس ” (4) فإن هذا ليس من هذا الباب. ومثل هذا يقع كثيرا لمن هو دون النبي صلى الله عليه وسلم، وأعرف من هذا وقائع.
وكذلك سؤال بعضهم للنبي صلى الله عليه وسلم، أو لغيره من أمته حاجة فتقضى له، فإن هذا قد وقع كثيرا، وليس هو مما نحن فيه.
اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (المتوفى: 728هـ)
ابن تیمیہ نے کہا بہت سے خلف نے ان واقعات کو منکرات کہہ دیا ہے جبکہ یہ منکرات نہیں ہیں مثلا قبر النبی سے حرہ کی رات اذان کا آنا یا عمر کے دور میں قبر النبی سے حکم ملنا
=============================
عبد الحمید بن سلیمان تو ضعیف ہے لیکن اس متن میں اس کا تفرد نہیں ہے جیسا میں نے بلاگ مین ذکر کیا ہے
اہل حدیث کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس وقت سنتے ہیں جب کوئی حجرہ میں جا کر سلام کہے
صرف اس معمولی اختلاف پر یہ جھگڑا کرنا صرف فرقے کا دفاع کرنا ہے
اصلا یہ سب مانتے ہیں کہ نبی قبر میں نماز بھی پڑھتے ہیں تو کیا وہ نماز بغیر اذان کے پڑھتے ہیں ؟
اس کا جواب یہ روایت ہے کہ جب اذان نہ ہو سکی تو اللہ کا معجزہ ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اذان دی
میرا موقف آپ کو معلوم ہے حیات النبی کا نہیں ہے
جزاک الله