حشر دوم سے عبد الملک تک

قصہ مختصر
اصل مسجد الاقصی یروشلم میں تھی- یہ سن ٧٠ بعد مسیح میں رومیوں کی جانب سے تباہ کر دی گئی اور اس کے اثر کو زمین سے مٹا دیا گا یہاں تک کہ یہودی مورخ جوسیفث کے بقول کوئی اس مقام سے گزرتا تو اس کو یقین تک نہ اتا کہ یہاں کبھی کوئی بستا بھی تھا -صحیح ابن حبان اور سنن ترمذی کی روایت کے مطابق معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے ہی اصل مسجد الاقصی دکھائی گئی اور پھر آپ علیہ السلام سات آسمان کی طرف چلے گئے – سن ١٧ ھ میں عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں ایک رومی قلعہ پر مسجد عمر بنا دی – اس کو بعد میں مسجد بیت المقدس کہا جانے لگا اور الولید بن عبد الملک کے دور میں مسجد عمر کے پاس قبہ الصخرہ بنایا گیا جس کا مقصد زائرین بیت المقدس کے لئے ایک ہوٹل یا سرائے بنانا تھا – بعد کے ادوار میں مسجد عمر کو مسجد القبلی کہا جانے لگا اور یہاں تک کہ اس کا نام پھر مسجد الاقصی ہی رکھ دیا گیا – اس بلاگ میں اس چیز کی وضاحت ہے کہ مسجد القبلی ، مسجد الاقصی نہیں ہے یہ مسجد عمر ہے – اصل مسجد الاقصی کسی زندہ بشر کو معلوم نہیں کہاں ہے – نہ کسی صحابی کو معلوم تھی – نہ  آج کسی مسلمان کو معلوم ہے نہ کسی یہوودی کو معلوم ہے

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

188 Downloads

قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ  

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر کیا ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر جس کو براق کہا جاتا ہے- اس میں ایک ان میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے

دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

الله تعالی فرماتے ہیں

فإذا جاء وعد الآخرة ليسوءوا وجوهكم وليدخلوا المسجد كما دخلوه أول مرة وليتبروا ما علوا تتبيرا عسى ربكم أن يرحمكم وإن عدتم عدنا وجعلنا جهنم للكافرين حصيرا

پس جب دوسرا وعدا ہونے کو  آیا کہ چہروں کو بگاڑ دے اور اسی طرح مسجد میں داخل ہوں جیسے پہلے ہوا تھا اور تتر  بتر کر دیں جس پر بھی غلبہ پائیں ہو سکتا ہے کہ اب تم پر تمہارا رب رحم کرے لیکن اگر تم پلٹے تو ھم بھی پلٹیں گے   اور  ہم جہنم کو  تمام کافروں کے لئے گھیرا بنائیں گے

arch-titus

روم میں آرچ اف ٹائیتس پر بنا ایک نقش -رومی فوجی قدس الاقدس کا خالص سونے کا چراغ مال غنیمت کے طور پر لے جا رہے ہیں

یہودی مورخ جوسفس لکھتا ہے

For the same month and day were now observed, as I said before, wherein the holy house was burnt formerly by the Babylonians 

– Josephus Wars chapter 4

قدس الاقدس اسی مہینے اور دن جلایا گیا جس دن بابلیوں نے اس کو جلایا تھا

ظاہر ہے اصل مسجد الاقصی کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس شہر دکھایا گیا اور کفار مکہ نے بھی اسی شہر پر سوالات کیے وہاں کوئی مسجد تھی ہی نہیں لہذا جو بھی دیکھا وہ اصلی مسجد الاقصی  اور اس کا ماحول تھا جو الله کی قدرت کا نمونہ تھا کہ اسی مسجد کو اصل حالت میں  دکھایا گیا  جبکہ وہ وہاں تباہ شدہ حال میں تھی یعنی یہ ایک نشانی تھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تھی

ایک بات سمجھنے کی ہے اور قرآن میں یہی بات سوره الاسراء کے شروع میں بیان ہوئی ہے اور معراج کے ساتھ مسجد الاقصی کی تباہی کا خاص ذکر ہے تاکہ غور کرنے والے بات سمجھیں

رومی مشرکوں کا بیت المقدس کو آباد کرنا

یروشلم کے لئے بیت المقدس بہت بعد میں مستعمل ہوا مشرکین مکہ اس شہر کو عیلیا کہتے تھے

بیت المقدس اصلا یہود کی زبان  کا لفظ ہے عرب مشرکین اس کو عیلیا کہتے تھے جو اصل میں

AELIA CAPITOLINA

ہے  جو ایک رومن کالونی تھی جو ہیرود کے شہر پر بنی

عیلیا کپٹلونا کو رومن ملٹری کیمپ بنانے کا حکم شاہ ہیڈرین

Hadrian

نے دیا جو رومن سلطنت کا ١٤ واں بادشاہ تھا اس کا مکمل نام تھا

Publius Aelius Hadrianus Augustus

لہذا اپنے نام

Aelius

پر اس نے یروشلم کا نام رکھا جو بعد میں ایلیا میں بدل گیا

CAPITOLINA

کا مطلب دار الحکومت ہے یعنی ایسا مقام جہاں سے اس صوبے کی عمل داری ہو گی اسی سے انگریزی لفظ کیپٹل نکلا ہے

–واضح رہے کہ  شاہ ہیڈرین کے  وقت اس شہر میں نہ عیسائیوں کے کلیسا تھے نہ یہود کے معبد  تھے کیونکہ اس دور میں یروشلم تباہ شدہ کھنڈرات کا شہر تھا – مشرک رومی فوجیوں  نے اس شہر میں ١٣٥ بعد مسیح میں پڑاو کیا اور وہاں یہودی بدعتی فرقہ عیسیٰ کے ماننے والوں کو انے دیا اور یہود  کا داخلہ بند رہا –  سن ٣٢٥ ع  ب م میں  رومن بادشاہ کونسٹنٹین عیسائی ہوا جو دین متھرا پر تھا  – اس وقت اس شہر پر متھرا دھرم کا راج تھا اور تمام مندر اسی مذھب والوں کے تھے جن میں رومیوں کی کثرت تھی جو اجرام فلکی اور برجوں  کے پجاری تھے  – متھرا اصلا ایک فارسی مذھب تھا لیکن اس کی اپیل بہت تھی انہی کا تہوار نو روز ہے جس کو آج تک ایران سے لے کر ترکی  تک منایا جاتا ہے –  عیلیا کپٹلونا کو مختصر کر کے اور ساتھ ہی  اس لفظ  کو تبدیل کر کے  اہل کتاب اور مسلمانوں نے  ایلیا کہنا شروع کر دیا  جبکہ ایلیا  عبرانی میں ایک نبی کا نام تھا نہ کہ اس شہر کا نام– یہ ایک تاریخی غلط العام چیز ہے

یہود میں ایلیا اصل میں  عیسیٰ سے 9 صدیوں قبل انے والے ایک نبی الیاس علیہ السلام کا نام ہے جو یروشلم میں نہیں آئے تھے ان کا نام انگریزی میں

Elijah

ہے جو شمال میں ایک  علاقے میں آئے تھے اور یروشلم میں کبھی بھی نہیں آئے

AELIA CAPITOLINA , name given to the rebuilt city of Jerusalem by the Romans in 135 c.e. Following the destruction of Jerusalem by the Romans in 70 c.e. the city remained in ruins except for the camp (castrum) of the Tenth Legion (Fretensis), which was situated in the area of the Upper City and within the ruins of the Praetorium (the old palace of Herod the Great), protected, according to the first-century historian Josephus (War, 7, 1:1) by remnants of the city wall and towers on the northwest edge of the city. Although Jews were banished from the city (except apparently during the Ninth of *Av), some Jewish peasants still lived in the countryside, and remains of houses (with stone vessels) have been found immediately north of Jerusalem (close to Tell el-Ful).

http://www.encyclopedia.com/article-1G2-2587500497/aelia-capitolina.html

عیلیا کپٹلونا نام ہے جو یروشلم کو دیا گیا رومیوں کی جانب سے سن ١٣٥ ب م میں جب یروشلم تباہ ہوا رومیوں کے ہاتھوں سن ٧٠ ب م میں اور اس کے کھنڈرات پر ایک لشکر تعنات ہوا جو پرایتروریم (جو ہیرود کا محل تھا)  پر رکا – اور پہلی صدی کے جوزیفس مورخ  (کتاب جنگیں ج ٧ ) کہتے ہیں شہر کی دیوار کے کنارے اور ان میناروں کے پاس جو شمال مغربی کناروں پر تھیں وہاں پڑاؤ ڈالا  – اگرچہ یہود پر داخلہ بند تھا (سوائے او کے ماہ کی نویں تاریخ پر ) کچھ یہودی کسان اس کے باہر آباد تھے جن کے گھروں کی باقیات ملی ہیں یروشلم کے شمال میں

آج اس   پرایتروریم

Praetorium

 پر ہی مسجد الأقصى ہے

فتح بیت المقدس اور عمر رضی الله عنہ کی آمد

سوره  الاسراء میں بتایا گیا کہ رومیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے دور کی مسجد  الاقصی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہر اس چیز کو تباہ کر دیا جس پر ان کا ہاتھ پڑا بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے اس کواشوریوں کے ذریعہ  تباہ کیا گیا یعنی الله کا عذاب بن کر اشوری یروشلم پر پڑے اور انہوں نے حشر اول کیا اس کے بعد رومیوں نے حشر دوم کیا-مسجد الاقصی ٧٠ بعد مسیح  میں رومیوں نے مسمار کی اور انجیل کے مطابق یہ عیسیٰ کی زبان سے اہل کتاب پر  لعنت تھی کہ  اس مسجد کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ نہ رہے گا یہاں تک کہ اس کا نشان مٹا دیا گیا اور صخرہ چٹان تک کو کھود دیا گیا اس وجہ سے اس کا مقام انسانوں سے محو ہو گیا

جب عمر رضی الله  عنہ ١٧ ہجری میں  بیت المقدس میں داخل ہوئے تو طبری کی تاریخ کی ایک بے سند روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ أبو إسحاق كعب بن ماتع الحميرى اليمنى( یمن کے حبر یعنی یہودی عالم تھے- عمر رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لائے لیکن شاید ہی انہوں نے کبھی مسجد الاقصی کا سفر کیا ہو کیونکہ یہودی ہونے کی وجہ سے    ان پر یروشلم میں  داخلے پر پابندی تھی-  انہوں)  نے عمر رضی الله عنہ کو مشورہ دیا کہ الصخرہ پر مسجد الاقصی  تھی-

عمر رضی الله عنہ نے اجتہاد سے کام لیا اور  مسجد الاقصی کو  الگ رومی فورٹ انتونیا   ( پرایتروریم ) پر ایک مقام پر بنایا اور  وہ یروشلم کا سب سے اونچا مقام تھا – لہذا مسجد الاقصی ایک غیر متنازعہ  جگہ بنائی گئی-  بعض مسلمانوں کو روایات میں الفاظ ملے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے  یروشلم میں محراب داودی پر نماز پڑھی لیکن ان محققین  کو خود نہیں پتا کہ محراب داودی کی کوئی اصل نہیں – یہ اصل میں جافا گیٹ

Jaffa Gate

ہے  جو عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد  ( موجودہ الاقصی) سے بہت دور شہر کا مخالف سمت میں دروازہ ہے جو یقینا داود علیہ السلام کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ رومیوں کی تعمیر ہے  اس کو بعض  باب الخلیل بھی کہتے ہیں -عمر رضی الله عنہ کی بنائی ہوئی مسجد الاقصی اصل میں   عمر رضی الله  عنہ نے اپنے اجتہاد سے بنائی –     عمر رضی الله عنہ نے کعب  الاحبار سے پوچھا کہ  مسجدالاقصی کہاں تھی،   جس سے ظاہر ہے ان کو خود عمر  کو بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں تھی نہ کسی اور صحابی نے اس کی کوئی مر فوع حدیث میں بیان کردہ  کوئی ایسی نشانی بتائی جس سے اس تک پہنچا جاتا-

طبری کی عمر رضی الله عنہ  اور کعب کے مکالمے کی  اس  روایت کی سند ہے وعن رجاء بْن حيوة، عمن شهد، قال جس میں مجھول راوی ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا أسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن أبي سنان عن عُبيد بن آدم وأبي مريم وأبي شعيب: أن عمر بن الخطاب كان بالجابية، فذكر فتح بيت المقدس، قال: فقال أبو سلمة: فحدثني أبو سنان عن عبيد بن آدم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب: أين ترى أن أصلي؟ فقال: إن أخذت عني صليت خلف الصخرة فكانت القدس كلها بين يديك! فقال عمر: ضاهيت اليهودية، لا، ولكن أصلى حيث صلى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه وكنس الناس.

أبو سنان ،  عبيد بن آدم سے روایت کرتا ہے کہ میں نے سنا عمر رضی الله عنہ نے کعب سے پوچھا کہ تمھاری رائے میں کہاں نماز پڑھیں ؟ کعب نے کہا اگر میں پڑھوں تو صخرہ سے پیچھے پڑھوں گا اس طرح پورا قدس آپ کے سامنے ہو گا پس عمر نے کہا یہودیوں کی گمراہی ! نہیں ہم نماز پڑھیں گے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی پس آگے بڑھ کر قبلہ کی طرف نماز پڑھی

اس کی سند میں أَبُو سِنَانٍ  عِيسَى بْنُ سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ   ہے جس کی تضعیف محدثین نے کی ہے ابو حاتم کہتے ہیں  ليس بقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے  ابن معين وأحمد بن حنبلاس کو ضعیف کہتے ہیں اور أبو زرعة  اس کو مخلط ضعیف الحدیث کہتے ہیں الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے متروک نہیں ہے ابن حجر لین الحدیث کہتے ہیں البیہقی سنن الکبری میں ضعیف کہتے ہیں المعلمي  بھی ضعیف کہتے ہیں یہ روایت صرف بصرہ کی ہے کیونکہ اس راوی نے اسکو بصرہ میں بیان کیا ہے اسکی وفات  141 – 150 ھ کے دوران ہوئی ہے

مسند احمد کی روایت کی سند میں عبید بن ادم بھی مجھول ہے – المعلمي  کہتے ہیں لم يُذْكرْ له راوٍ إلا أبو سنان اس سے صرف ابو سنان ہی روایت کرتا ہے

شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اسکی سند ضعیف ہے حیرت ہے کہ اس روایت کو  ابن کثیر اور احمد شاکر حسن کہتے ہیں

کتاب فضائل بيت المقدس از المقدسی  کی روایت کی  ابو سنان کی روایت ہے

أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عِيسَى بْنِ سَنَانَ الشَّامِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ فِي كَنِيسَةٍ يُقَالُ لَهَا كَنِيسَةُ مَرْيَمَ فِي وَادِي جَهَنَّمَ قَالَ ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فِي مَقْدِمِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَى الصَّخْرَةِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ

ابو سنان ، المغیرہ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کے ساتھ چرچ میں نماز پڑھی جس کو مریم کا چرچ کہا جاتا ہے جو وادی جہنم میں ہے –  کہا پھر ہم مسجد میں آئے اور عمر نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ  معراج کی رات میں نے مسجد کے مقام پر نماز پڑھی پھر صخرہ آیا اور بیت المقدس شہر میں داخل ہوا

دوسری تاریخی روایات کے مطابق تو عمر رضی الله عنہ نے کسی چرچ میں نماز نہ پڑھی ابو سنان کی یہ دونوں روایآت ضعیف ہیں اگرچہ اس میں ایک نئی چیز ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز مسجد الاقصی پر پڑھی اور پھر صخرہ تک آئے جبکہ شیعہ روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم صخرہ آئے جو مسجد تھی اس پر تفصیل نیچے آئے گی

کنیسہ مریم

وادی ہنوم/وادی جہنم میں کنیسہ مریم کا اندرونی منظر قبر مریم کا مقام 

Church of Assumption

قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے – عمر رضی الله عنہ , مریم علیہ السلام کی قبر پر نماز کیوں پڑھتے –  یہ نحوست ابو سنان  کی ہے

ابو سنان کی بیت المقدس کی ان روایات میں تفرد ہے انکو کوئی اور بیان نہیں کرتا خود یہ فلسطین کے ہیں اور بصرہ جا کر اس قسم کی روایات بیان کی ہیں

مسجد الاقصی

الغرض عمر اور کعب کی صخرہ کے حوالے سے بحث  فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہے اور ١٥٠ سال بعد کی قصہ گوئی ہے

عیسائیوں کے مطابق 

کہا جاتا ہے کہ الصخرہ پر عیسائیوں  کا ایک چرچ  ، چرچ اف  ہولی وسڈوم   تھا  جس کو ٦١٤ ع میں فارس والوں نے تباہ  کیا – یہ وہی حملہ تھا جس کا ذکر سوره الروم میں ہے کہ روم پر(فارسی) غالب آ گئے – شاید اسی کلیسا کا ملبہ الصخرہ پر تھا-   اس کا تذکرہ    عیسائیوں  کی کتاب   زیارت  میں ملتا ہے   جس کا عنوان ہے

Bordeaux Pilgrim

سن  ٣٣٣ ع  میں ایک عیسائی  زائر نے یروشلم کا دورہ کیا اور بتایا کہ   قلعہ انتونیا پر ایک چٹان پر ایک چرچ ہے جہاں پلاٹس نے عیسیٰ  پر    فیصلہ سنایا –  اس چٹان کا یہودی مورخ  جوسیفس  نے بھی ذکر کیا ہے

The tower of Antonia…was built upon a rock fifty cubits high and on all sides precipitous…the rock was covered from its base upwards with smooth flagstones”

(Jewish War, V.v,8 para.238)

انتونیا کا مینار  جو ٥٠ کیوبت بلند اور تمام طرف سے عمودی ہے اس نے  چٹان کو گھیرا ہوا ہے اس کی تہہ سے اوپر تک پتھر جڑے ہیں  

یعنی ہیرود کے رومی قلعہ پر بھی ایک چٹان تھی  اسی کو اب  الصخرہ کہا جاتا ہے

عیسائیوں میں یہ مشہور ہوا کہ اور اس پر عیسیٰ کے قدم کے نشان ہیں  ( جیسے  ہم مقام ابراہیم کے لئے مانتے ہیں کہ اس پر ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشان تھے) کہ جب ان سے رومی تفتیش کر رہے تھے ان کو اس چٹان پر کھڑا کیا گیا اسلام کے مطابق ایسا کوئی موقعہ ہی نہیں آیا عیسیٰ کا اس سب سے قبل رفع ہو گیا لیکن عسائیوں کو اپنے مذھب کی حقانیت  کے لئے کچھ اقوال درکار تھے جس میں سے ایک یہ بھی ہے

 –  شاید یہی وجہ کے کہ  عبد الملک نے  قبہ الصخرہ کی  عمارت پر جو آیات  لکھوائیں ان میں عیسیٰ کی الوہیت کا انکار ہے  اور ہیکل کی تباہی سے متعلق ایک آیت   بھی نہیں-

صلاح الدین ایوبی کے دور کے عزالدین الزنجلی  نے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اسی پلیٹ فارم پر ایک  قبه المعراج بنوایا جہاں آج بھی عیسائی آ کر رفع عیسیٰ کی تقریبات کرتے ہیں  – صلیبی جنگوں کا اصل مدعآ تھا کہ قبه الصخرہ اصل میں ایک چرچ ہے جیسے سوفیا چرچ یا چرچ اف ہولی وسڈوم کہا جاتا تھا جب بیت المقدس عسائیوں سے آزاد ہوا تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہوئے اسی پلیٹ فارم پر ایک نیا قبه رفع

Dome of Ascension

بنا دیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس کو قبه المعراج  کہا گیا

صليبي عسائیوں نے یروشلم پر قبضہ ہی اس مقام کی اہمیت کی وجہ سے کیا- اب کتاب البدایہ و النہایہ از ابن کثیر کی ایک بے سند روایت کا قول جو روینا یعنی ہم سے روایت کیا گیا ہے سے شروع ہو رہا ہے اس میں لکھا ہے

 وَقَدْ كَانَتِ الرُّومُ جَعَلُوا الصَّخْرَةَ مَزْبَلَةً ; لِأَنَّهَا قِبْلَةَ الْيَهُودِ، حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ كَانَتْ تُرْسِلُ خِرْقَةَ حَيْضَتِهَا مِنْ دَاخِلِ الْحَوْزِ لِتُلْقَى فِي الصَّخْرَةِ

اور اہل روم نے صخرہ کو کوڑا ڈالنے کی جگہ بنایا ہوا تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے یہاں تک کہ انکی عورتیں اپنے حیض کا کپڑا بھی اس پر پھینکتیں 

 عیسائیوں میں حیض کوئی نا پاک چیز نہیں رہی تھی –  یہ توریت کا حکم تھا جوانکے مطابق  عیسیٰ کے انے پر معطل ہو چکی ہے

صلیبی عسائیوں نے قبه الصخرہ کو

Templum Domini

کا نام دیا اور یہ اس دور کا ایک مقدس چرچ تھا اس کو انکی مہروں پر بھی بنایا گیا – جبکہ موجودہ مسجد الاقصی کو انہوں نے محل میں تبدیل کر دیا-  اب پروٹسٹنٹ کے نزدیک صلیبیوں کی طرح قبه  متبرک  ہے اصل ہیکل سلیمانی کا مقام ہے

یہود کے مطابق

    یہود کے مطابق ہیکل  سلیمانی کا سب سے اہم مقام ایک  چٹان تھی جس کو کعبہ  کی طرح  قبلہ سمجھا جاتا اورقُدس‌الاقداس   (ہولی آف ہولیز) کہا جاتا تھا –  قُدس‌الاقداس کے گرد  ، تباہ ہونے سے پہلے،  غلاف کعبہ کی طرح    ایک   دبیز پردہ تھا –  سال میں صرف ایک دن  امام یا  پروہت  اس   میں  سے  داخل ہوتا تھا-  لیکن یہود  کو خود پتا نہیں کہ اصل مسجد الاقصی کس مقام پر تھی – جب انہوں نے دیکھا کہ  مسلمانوں نے پرایتروریم پر  ایک مقام پر مسجد  کو مسجد سلیمان سے نسبت دیتے ہوئے مسجد الاقصی کہنا شروع کر دیا ہے تو انہوں بھی اس پر دعوی دائر کر دیا ہے جبکہ خود انکی کتب میں اس پر اشارات موجود ہیں کہ اس کا مقام موجودہ مسجد الاقصی والا نہیں ہے

پہلی دلیل  یہود کی کتاب تلمود کے مطابق ہیرود کے محل سے ہیکل سلیمانی میں اٹھنے والا الاو اور بخور دیکھا جا سکتا تھا اور مقصد تھا کہ ہر وقت ہیکل پر نگاہ رکھی جائے جیسا کہ آجکل سعودی حکومت نے عین حرم کے سامنے بلند عمارت بنوا رکھی ہیں بالکل اسی طرح شاہ ہیرود کی محل سے  ہیکل پر نظر تھی  اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہیکل سلیمانی (اصل مسجد الاقصی) نیچے اور ہیرود کا محل اوپر ہوں جیسا کہ یہودی مورخ جوسیفس نے کہا ہے کہ ہیرود کا محل پرتوریم پر فورٹ انتونیا پر تھا جہاں آج مسجد الاقصی ہے یعنی اسلامی مسجد الاقصی ایک سابقہ قلعہ پر ہے اور یہود کی اس سے نیچے تھی

دوسری دلیل ہے کہ آج جس مقام پر مسجد الاقصی ہے وہ تاریخی شہر سے جو سلیمان یا دود علیہ السلام نے آباد کیا اس سے باہر ہے – کیا یہ  انبیاء کی سنت تھی کہ وہ مسجد شہر سے باہر  بناتے اور  اپنے گھر کے برابر میں نہیں بناتے ہیں؟ سیرت النبوی میں تو ایسا نہیں ہے اور یہی انبیاء کی سنت ہو گی

سوم اصل مسجد کے صحن سے جیحوں کا چشمہ ابلتا تھا جو آج دریافت ہو چکا ہے اور وہ بھی موجودہ مسجد سے دور قدیم شہر ہی میں ہے اور یہودی موجودہ مسجد الاقصی کی بنیادیں کھودتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نیچے پانی کا کوئی چشمہ ہے لہذا اس کے سکین کرتے ہیں – پرتوریم کا پلیٹ فارم اصلا مختلف آرچ پر بنا کر کھڑا کیا گیا ہے اگر وہ ستون ہلا دے جائیں تو پورا پلیٹ فارم اور اس کے اوپر موجود عمارتیں دھنس جائیں گئی

چوتھی دلیل ہے کہ مسجد الاقصی کسی ہموار مقام پر نہ تھی جیسی آج ہے جیسے جیسے آدمی ہیکل سلیمانی  میں داخل ہوتا تھا وہ سیڑھیاں چڑھتا جاتا اور بلند ہوتا جاتا تھا جیسا کہ کتاب

Book of Kings

اور

Book of Chronicles

میں ہے

یعنی اصل مسجد ایک سطح مرتفع پر تھی اور آج اگر قدیم  داودی یروشلم سے موجودہ مسجد الاقصی کی سمت میں چلا جائے  تو سطح بلند ہوتی جاتی ہے

 پانچویں دلیل قدس الاقدس سے مشرقی سمت میں کوہ زیتون تھا  آج اس کوہ کا نام

Hill of  Gethsemane

رکھ دیا گیا ہے اور کوہ زیتون کو پرتوریم کے پاس بتایا جاتا ہے کیونکہ اہل کتاب کے ذہن میں ہے کہ موجودہ مسجد الاقصی ہی اصل ہیکل سلیمانی تھا – جس  پہاڑ کو کوہ زیتون کہا جا رہا ہے وہ اصلا صحیح نہیں ہے یہ بات انجیل سے پتا چلتی ہے کہ آخری وقت میں رفع سے پہلے عیسیٰ اسی پہاڑ میں چھپے ہوئے تھے اس کا  نام اب لاطینی میں گھاتصمنی  رکھ دیا گیا ہے جبکہ یہ اصل کوہ زیتون ہے

اگر اس پہاڑ کا مقام دیکھا جائے تو یہ بھی اصل مسجد الاقصی کو قدیم شہر میں لے اتی ہے

چھٹی دلیل ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے-الصخرہ  جو قبه الصخرہ کے نیچے ہے وہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا سا غار ہے –   اصل الصخرہ جو ہیکل میں قدس الاقداس میں تھی اس کے بارے میں کسی بھی یہودی کتاب میں  غار کی خبر نہیں -ہاں وہاں ایک معمولی ابھری ہوئی چٹان ضرور تھی ( لیکن اتنی بے ہنگم   ابھری ہوئی چٹان نہ تھی جیسی کہ قبه الصخرہ کے نیچے ہے )– ہیکل کی سطح اس معمولی ابھری چٹان کے باوجود بھی ایسی تھی کہ اس پر پروہت کھڑا ہوتا تھا  جبکہ الصخرہ کے نیچے والی چٹان ہموار نہیں ہے – چٹان جو ہیکل میں تھی وہ چھوٹی تھی اور ہیکل کی جو پیمائش یہودی کتب میں ہیں ان کو جب قبه الصخرہ کے اوپر رکھا جاتا ہے تو قبه الصخرہ والی چٹان بہت بڑی ہے

ساتویں دلیل یہودی مسجد الاقصی کی ایک دیوار جس کو دیوار گریہ  کہتے ہیں اس کے پاس عبادت کرتے ہیں کیونکہ اس دیوار پر ایک آیت لکھی ہے جس میں ہے

And when ye see this, your heart shall rejoice, and their bones as grass

اور جب تم اس کو دیکھو گے تمہارا دل باغ ہو گا اور انکی ہڈیاں گھانس جیسی

یہ یسیعآہ باب ٦٦ کی ١٤ وین آیت ہے جو عین دیوار گریہ پر لکھی ہے اس میں اشارہ ہے کہ یہ مقام کسی دور میں قبرستان تھا چونکہ یہود کے مطابق یہ جگہ ہیکل تھی وہ اب  کہتے ہیں کہ کسی نے غلط آیت غلط مقام پر لکھ دی ہے لیکن یہ آج ان کا موقف  ہے جب شروع میں یہودی واپس اس شہر میں آئے ہوں گے تو اسی دیوار پر آیت دیکھ کر ہی  یہاں جمع ہوئے اور انکی غلطی کو چھپا کر موجودہ مسجد الاقصی پر انہوں نے دعوی کیا ہے

آٹھویں دلیل صخرہ کا پتھر لائم اسٹون

Lime Stone

ہے جبکہ یہود کے مطابق یہ چٹان دنیا کی پہلی تخلیق ہے یہود اسکو

Eben haShetiya

کہتے ہیں یعنی بنیاد کا پتھر لہذا اگر یہ اتنی قدیم  چٹان ہے  تو اس کا پتھر اگنیوس

Igneous

ہونا چاہیے جو لاوا سے بنا ہو کیونکہ چٹانوں میں لائم اسٹون بعد کے ہیں اگنیوس ان سے بھی  قدیم ہیں

نویں دلیل یہودی مورخ جوسیفس لکھتا ہے

It was so thoroughly laid even with the ground by those that dug it up to the foundation, that there was nothing left to make those that came thither believe it   had ever been inhabited.   – War VII.1,1.

رومیوں نے مسجد الاقصی کو مکمل تباہ کر دیا زمین تک یہاں تک کہ اسکی بنیادیں کھود دیں اور اس پر کچھ باقی نہ رہا کہ جو اس پر سے گزرتا اس کو یقین تک نہ اتا کہ کبھی یہاں کوئی رہتا بھی تھا

یعنی صخرہ تک کو کھود دیا گیا یہ الله کا عذاب تھا کیونکہ قدس الاقدس کی دیواروں میں سونا لگا ہوا تھا  یہاں تک کہ جوسیفس کے بقول جب اس میں روشنی ہوتی تو دیکھنے والے کو نگاہ ہٹآنی پڑتی- جوسیفس لکھتا ہے جب مسجد الاقصی کو اگ لگائی گئی تو

Moreover, the hope of plunder induced many to go on; as having this opinion, that all the places within were full of money: and as seeing that all round about it was made of gold. And besides, one of those that went into the place prevented Cæsar, when he ran so hastily out to restrain the soldiers: and threw the fire upon the hinges of the gate, in the dark. Whereby the flame burst out from within the holy house itself immediately: when the commanders retired, and Cæsar with them; and when nobody any longer forbad those that were without to set fire to it. And thus was the holy house burnt down, without Cæsar’s approbation.

War 4,7

رومی فوجی اپے سے باہر ہو چکے تھے یہاں تک کہ اگرچہ مسجد الاقصی جل رہی تھی اس کا قدس الاقدس نہیں جلا تھا اور انکا کمانڈر سیزر مسلسل فوجیوں کو اگ لگانے سے منع کر رہا تھا لیکن فوج میں اس قدر غصہ تھا اور شاید سونے کی لالچ تھی کہ انہوں نے اس کے دروازے پر اگ پھینکی اور اور قدس الاقدس بھڑک گیا ظاہر ہے اس میں موجود  سونا پگھل کر صخرہ پر پھیل گیا ہو گا اور  اسکو حاصل کرنے کے لئے صخرہ کو توڑ توڑ کر سونا نکالا گیا  ہو گا – لہذا  ممکن ہے اصل  صخرہ اس طرح معدوم ہو گیا

اہل سنت  اور مسجد الاقصی

مسلمانوں میں  عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد کو  آہستہ آہستہ مسجد الاقصی کہا جانے لگا اور دوسری طرف امت میں تعمیراتی جھگڑے  بھی ہو رہے تھے

کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں  جمادى الآخرة   ٦٤ ھ  میں گرایا گیا اور دوبارہ  بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا

 اموی خلیفہ عبد الملک  بن مروان  نے  ابن زبیر کی تعمیراتی کاوش کو کم کرنے کے لئے دو سال کے اندر  صخرہ پر (چٹان)  پر ایک   آٹھ کونوں والی عمارت بنوائی جس میں عیسیٰ کے بارے میں آیات ہیں کیونکہ عسائیوں کے مطابق یہ ہیرود کا محل تھا اور اس میں چٹان پر عیسیٰ کے قدموں کے نشان تھے

 اور اس کو مسجد میں آنے والوں کے لئے سرائے کہا ساتھ  یہ سرائے اب مسجد کا ہی حصہ بن گئی

کتاب   الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل  میں   عبد الرحمن بن محمد الحنبلي، أبو اليمن (المتوفى: 928هـ)  لکھتے ہیں

فَلَمَّا دخلت سنة سِتّ وَسِتِّينَ ابْتَدَأَ بِبِنَاء قبَّة الصَّخْرَة الشَّرِيفَة وَعمارَة الْمَسْجِد الْأَقْصَى الشريف وَذَلِكَ لِأَنَّهُ منع النَّاس عَن الْحَج لِئَلَّا يميلوا مَعَ ابْن الزبير فضجوا فقصد أَن يشغل النَّاس بعمارة هَذَا الْمَسْجِد عَن الْحَج فَكَانَ ابْن الزبير يشنع على عبد املك بذلك وَكَانَ من خبر الْبناء أَن عبد الْملك بن مَرْوَان حِين حضر إِلَى بَيت الْمُقَدّس وَأمر بِبِنَاء الْقبَّة عل الصَّخْرَة الشَّرِيفَة بعث الْكتب فِي جَمِيع عمله وَالِي سَائِر الامصار إِن عبد الْملك قد أَرَادَ أَن يَبْنِي قبَّة على صَخْرَة بَيت الْمُقَدّس تَقِيّ الْمُسلمين من الْحر وَالْبرد وَأَن يَبْنِي الْمَسْجِد وَكره أَن يفعل ذَلِك دون رَأْي رَعيته فلتكتب الرّعية إِلَيْهِ برأيهم وَمَا هم عَلَيْهِ فوردت الْكتب عَلَيْهِ من سَائِر عُمَّال الْأَمْصَار نر رَأْي أَمِير الْمُؤمنِينَ مُوَافقا رشيدا إِن شَاءَ الله

پس جب سن ٦٦ ہجری  شروع ہوا تو   قبہ   الصَّخْرَة   اور مسجد الاقصی کی تعمیر  شروع ہوئی  اور یہ یوں کہ   عبد الملک لوگوں کو حج سے  منع کرنا چاہتا تھا کہ ممکن ہے ان کا میلان ابن زبیررضی الله عنہ  کی طرف ہو جائے     اور وہ (واپس آ کر اس کے خلاف)  شور کریں  پس اس نے لوگوں کو اس عمارت کی تعمیر میں حج میں مشغول کیا –  پس ابن زبیر نے عبد الملک کو اس  کام سے منع کیا    اور  تعمیر کی خبر میں ہے کہ  عبد الملک    بن مروان جب بیت المقدس پہنچا اور قبہ بنانے کا حکم دیا  تو اس نے اپنے تمام گورنروں کو لکھا اور ساری مملکت میں  لکھ بھیجا کہ  بے شک  عبد الملک نے ارادہ کیا ہے چٹان پر قبہ بنانے کا ،    بیت المقدس میں،    تاکہ مسلمانوں کو سردی ،گرمی سے بچائے اور مسجد کو بنائے   اور وہ کراہت کرتے ہیں کہ ایسا کریں سوائے اس کے کہ رعیت بھی اس کے حق میں ہو سو تمام گورنروں نے لکھا کہ ہم امیر المومنین کی رائے سے موافقت   رشید رکھتے ہیں    جیسا الله نے چاہا!

عبد الملک کا مقابلہ ابن زبیر رضی الله عنہ سے تھا جو مکہ میں اپنی خلافت میں کعبه کو بدل رہے تھے  اور اس میں حطیم کو شامل کر رہے تھے دوسری طرف عبد الملک بن مروان اپنے علاقہ شام میں  صخرہ پر تعمیر کر رہے تھے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کا مقصد رائے عامہ کو اپنی طرح متوجہ کرنا تھا

کتاب  ابن تيمية  (اقتضاء الصراط المستقيم) میں اور ابن القيم  (المنار المنيف) میں اور محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ (المتوفى: 1389هـ) اپنے  فتاوى ورسائل میں بیان کرتے ہیں کہ

 عن كعب أنه قال: قرأت في ” التوراة” أن الله يقول للصخرة أنت عرشي الأدنى إلخ …
كذب وافتراء على الله، وقد قال عروة بن الزبير لما سمع ذلك عن كعب الأحبار عند عبد الملك بن مروان قال عروة: سبحان الله؟

کعب سے روایت کیا جاتا ہے کہ اس نے توریت  میں سے پڑھا بے شک الله صخرہ کے لئے کہتا ہے تو میرا نچلا عرش ہے … محمد بن ابراہیم نے کہا یہ جھوٹ ہے اور بے شک عروہ نے جب اسکو سنا عبد الملک سے تو کہا سبحان اللہ

یعنی صخرہ پر تعمیر کے وقت کعب الاحبار کے اقوال سے دلیل لی گئی

تاریخ الیعقوبی ج ٢ ص  ٣٦١ اور کے  الدولَة الأمويَّة  از عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي مطابق

  معظم العالم الإسلامي كان قد بايع عبد الله بن الزبير بالخلافة (64 ـ 73هـ) ما عدا إقليم الأردن (2)، فقد قال في كتابه: ومنع عبد الملك أهل الشام من الحج، وذلك لأن ابن الزبير كان يأخذهم إذا حجوا بالبيعة، فلما رأى عبد الملك ذلك منعهم من الخروج إلى مكة فضج الناس وقالوا: تمنعنا من حج بيت الله الحرام، وهو فرض علينا، فقال: هذا ابن شهاب الزهري يحدثكم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاث مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ومسجد بيت المقدس. وهو يقوم لكم مقام المسجد الحرام، وهذه الصخرة التي يروى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع قدمه لما صعد إلى السماء

عالم اسلامی کی اکثریت نے عبد الله بن زبیر کی خلافت کی بیعت کی سوائے اردن  کے اور اپنی کتاب میں یعقوبی نے لکھا کہ عبد الملک نے شام والوں کو حج پر جانے سے منع کیا اور یہ اس وجہ سے کہ ابن زبیر ان سے زبردستی بیعت لیتے پس جب عبد الملک نے یہ دیکھا ان کے خروج پر پابندی عائد کر دی اور لوگ بگڑ گئے اور کہا ہم حج بیت الله کرنا چاہتے ہیں یہ فرض ہے ہم پر پس عبد الملک نے کہا کہ ابن شہاب الزہری تم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواری نہ کسی جائے سواۓ تین مسجدوں کے لئے مسجد الحرام میری مسجد اور مسجد بیت المقدس اور وہ تو مسجد الحرام ہے اور یہ صخرہ اس کے لئے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر قدم رکھا جب آسمان کی طرف گئے

اس پر اعتراض اتا ہے

 تاريخ دمشق 11/ ق66 پر ابن عساکر کہتے ہیں

أخبرنا أبو القاسم السمرقندي أنا أبو بكر محمد بن هبة الله أنامحمد بن الحسين أنا عبد الله نا يعقوب نا ابن بكير قال قال الليث: وفي سنة اثنتين وثمانين قدم ابن شهاب على عبد الملك

امام الزہری سن ٨٢ ھ میں عبد الملک کے پاس پہنچے اور ابن زبیر کی شہادت ٧٢ ھ میں ہوئی

وبالإسناد السابق نا يعقوب قال سمعت ابن بكير يقول: مولد ابن شهاب سنة ست وخمسين

امام الزہری سن ٥٦ ھ میں پیدا ہوئے یعنی امام الزہری دس سال کے تھے جب قبه الصخرہ پر تعمیر کی گئی لہذا یعقوبی کی بات صحیح نہیں ہو سکتی

الغرض مسجد عمر وقت کے ساتھ مسجد الاقصی بن گئی اور قبه الصخرہ کو مقام معراج کہا جانے لگا جبکہ اصلا نہ یہ مسجد الاقصی ہے نہ معراج کا مقام ہے  جن روایات میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات اس   کو دیکھا تو اس سے مراد نہ مسجد عمر ہو سکتی ہے نہ عبد الملک کا قبه الصخرہ کیونکہ یہ بعد کی تعمیرات ہیں  اصل مسجد  الاقصی کا مقام اب  شاید ابد تک مخفی ہی رہے گا کیونکہ اس کا مقصد و غایت فنا ہو گئی و الله اعلم

الصخرہ

قبه الصخرہ  کا اندرونی منظر  اس چٹان کے نیچے غار ہے

well of souls

Well of Souls- sakhrh cave روحوں کا غار

اہل تشیع کی معراج سے متعلق مضطرب روایات

الأمالي – از الصدوق – ص 534 – 538 کی روایت ہے

حدثنا الحسن بن محمد بن سعيد الهاشمي ، قال : حدثنا فرات بن إبراهيم بن فرات الكوفي ، قال : حدثنا محمد بن أحمد بن علي الهمداني ، قال : حدثنا الحسن بن علي الشامي ، عن أبيه ، قال : حدثنا أبو جرير ، قال : حدثنا عطاء الخراساني ، رفعه ، عن عبد الرحمن بن غنم ، …..   ثم مضى حتى إذا كان بالجبل الشرقي من بيت المقدس ، وجد ريحا حارة ، وسمع صوتا قال : ما هذه الريح يا جبرئيل التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه جهنم ، فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : أعوذ بالله من جهنم . ثم وجد ريحا عن يمينه طيبة ، وسمع صوتا ، فقال : ما هذه الريح التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه الجنة . فقال : أسأل الله الجنة . قال : ثم مضى حتى انتهى إلى باب مدينة بيت المقدس ، وفيها هرقل ، وكانت أبواب المدينة تغلق كل ليلة ، ويؤتى بالمفاتيح وتوضع عند رأسه ، فلما كانت تلك الليلة امتنع الباب أن ينغلق فأخبروه ، فقال : ضاعفوا عليها من الحرس . قال : فجاء رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فدخل بيت المقدس ، فجاء جبرئيل عليه السلام إلى الصخرة فرفعها ، فأخرج من تحتها ثلاثة أقداح : قدحا من لبن ، وقدحا من عسل ، وقدحا من خمر ، فناوله قدح اللبن فشرب ، ثم ناوله قدح العسل فشرب ، ثم ناوله قدح الخمر ، فقال : قد رويت يا جبرئيل . قال : أما إنك لو شربته ضلت أمتك وتفرقت عنك . قال : ثم أم رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) في مسجد بيت المقدس بسبعين نبيا . قال : وهبط مع جبرئيل ( عليه السلام ) ملك لم يطأ الأرض قط ، معه مفاتيح خزائن الأرض ، فقال : يا محمد ، إن ربك يقرئك السلام ويقول : هذه مفاتيح خزائن الأرض ، فإن شئت فكن نبيا عبدا ، وإن شئت فكن نبيا ملكا . فأشار إليه جبرئيل ( عليه السلام ) أن تواضع يا محمد . فقال : بل أكون نبيا عبدا . ثم صعد إلى السماء ، فلما انتهى إلى باب السماء استفتح جبرئيل ( عليه السلام ) ، ‹ صفحة 536 › فقالوا : من هذا ؟ قال : محمد . قالوا : نعم المجئ جاء فدخل فما مر على ملا من الملائكة إلا سلموا عليه ودعوا له ، وشيعه مقربوها ، فمر على شيخ قاعد تحت شجرة وحوله أطفال ، فقال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من هذا الشيخ يا جبرئيل ؟ قال : هذا أبوك إبراهيم . قال : فما هؤلاء الأطفال حوله ؟ قال : هؤلاء أطفال المؤمنين حوله يغذوهم .

عبد الرحمن بن غنم سے مروی ہے (کہ جبریل آئے اور نبی کو بیت المقدس لے کر گئے )…  یہاں تک کہ بیت المقدس کے ایک مشرقی پہاڑ پر سے گزرے جہاں کی ہوا گرم تھی اور آواز سنی رسول الله نے پوچھا  جبریل ! یہ کیسی بو ہے جو آئی اور جو آواز سنی؟ جبریل نے کہا یہ جہنم ہے – رسول الله صلی الله علیہ و الہ  نے فرمایا اس سے الله کی پناہ – پھر ایک خوشبو آئی اور آواز آئی پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبریل نے کہا یہ جنت ہے – آپ صلی الله علیہ و الہ نے فرمایا میں الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں – پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس کے شہر کے دروازے تک پہنچے اور وہاں ہرقل تھا اور شہر کے دروازے تمام رات کو بند رھتے- … پس رسول الله بیت المقدس میں داخل ہوئے اور جبریل صخرہ تک آئے اس کو اٹھایا اور اس کے نیچے سے تین قدح نکالے – ایک قدح دودھ کا تھا ایک شہد کا ایک شراب کا – پس رسول الله نے دودھ پسند کیا اور پیا – پس کہا کہ جبریل بیان کرو- انہوں نے کہا اگر آپ اس شراب سے پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اس میں تفرقہ ہوتا –  پھر رسول الله نے ستر انبیاء کی امامت کی  اور کہا جبریل کے ساتھ اترآ ایک فرشتہ جو اس سے پہلے زمین پر نہیں آیا تھا ….. پھر آپ آسمان پر پہنچے اور ایک شیخ پر سے گزرے جن کے ساتھ بچے تھے پوچھا یہ کون شیخ ہیں ؟ کہا گیا ابراہیم آپ کے باپ – رسول الله نے فرمایا اور ان کے ارد گرد یہ بچے ؟ جبریل نے کہا یہ مومنوں کی اولاد ہیں

اس روایت کے مطابق جنت و جہنم دونوں بیت المقدس میں ہیں اور صخرہ سے آپ کو آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء سے نہیں صرف ٧٠ کی امامت کی

صخرہ  کو اصل مسجد الاقصی بھی بیان کیا گیا ہے

بیت المقدس میں جہنم کا ہونا ایک یہودی قول ہے جس کو ہنوم کی وادی کہا جاتا ہے

اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے

کتاب  اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 –  میں  علی کی امامت پر روایت ہے جس  کی سند اور متن ہے

حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) *   ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا  لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين

ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے  مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا

  واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون

اور پوچھو  پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں  میں سے کیا ہم نے  رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے  عبادت  کی ؟

امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے

ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء  تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي،  سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا  – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا

بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں  اس  روایت کی سند ہے

 كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة

کتاب  تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص  ٥٦٤ کے مطابق سند ہے

وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟

أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو   أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی  الحسين بن سعيد ہیں  جو فضالة سے روایت کرتے ہیں  کتاب  معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق

 قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم

ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید  نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة

 سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے  اور ایک جماعت  اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم

عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد الاقصی اور اموی خلیفہ عبد الملک کے تعمیر شدہ قبه الصخرہ کی اہمیت پر اہل تشیع کا جلوس نکالنا اور اس کے حق میں تقریریں کرنا بھی عجیب  بات ہے- کسی بھی شیعہ امام کا مسجد الاقصی جا کر عبادت کرنا ثابت نہیں ہے

=========

یہ بلاگ چند سال پہلے کا ہے – سن ٢٠١٧ میں یہ ویڈیو یو ٹیوب پر آئی ہے جس کے مطابق اصل مسجد اقصی داود علیہ السلام کے شہر میں تھی آج جہاں کہا جا رہا ہے وہاں نہیں تھی

15 thoughts on “حشر دوم سے عبد الملک تک

  1. shahzad khan

    بھائی موجودہ دور کے یہودی اس مسجد اقصیٰ کو کیا سمجھتے ہیں؟؟ آجکل کچھ منکر حدیث جو خود کو اہل قرآن کہلاتے ہیں وہ اس موجودہ خانہ کعبہ جو مکہ میں موجود ہے اس پر بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ وہ مقام نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے وہ پہلا گھر بتایا جو مسلمانوں کے لئے مقرر ہوا ۔۔۔۔ان اعتراضات کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ۔۔۔کیا اس اعتراض کا تعلق مسجد اقصیٰ سے ہو سکتا ہے ۔۔رہنمائی فرما دیں ۔۔جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہودیوں کا اس مقام پر اختلاف ہے کہ کیا قبہ الصخرہ ہی اصل مسجد الاقصی یا ہیکل سلیمانی ہے یا نہیں

      اس میں ان کے تین گروہ ہیں

      ایک کہتا ہے یہی ہے
      دوسرا کہتا ہے اصطبل سلیمان مسجد اقصی ہے جو پرتوریم سے الگ مقام ہے
      تیسرا کہتا ہے یہ داود علیہ السلام کے قدیم شہر میں ہے

      ——
      مثال
      https://en.wikipedia.org/wiki/Neturei_Karta
      نام کا ایک گروہ ہے جو اس مقام کو مسجد اقصی یا ہیکل سلیمانی نہیں مانتا

      ——–

      راقم یہی کہتا ہے کہ اصل مسجد داود علیہ السلام کے شہر میں ہے جو موجود یروشلم کا ایک حصہ ہے اور پرتوریم اس سے الگ اور بعد میں بنا ہے (جس پر آج مشہور مسجد الاقصی ہے) لیکن یہ اصل میں مسجد عمر ہے جو عمر رضی الله عنہ نے بنائی اس کو مسجد الاقصی قرار نہیں دیا

      عمر رضی الله عنہ نے بیت المقدس کا سفر کیا لیکن خود وہ اس کے قائل نہ تھے کہ بیت المقدس کا سفر اس مسجد کے لئے کیا جائے – بیت المقدس کا سفر عیسائیوں کی درخوست پر کیا گیا تھا کہ وہ اپنے کلیساووں کی چابیاں امیر المومنین کو دین گے نہ کہ کسی اور کو – عمر رضی الله عنہ ، اہل کتاب کے مطابق یروشلم وہاں کے پٹریارک صوفرونئوس (المتوفی ١٧ ھ/ ٦٣٨ ع) کی درخواست پر گئے کہ یروشلم کے اہم چرچ کی چابی وہ کسی عام مسلمان کو نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلیفہ کو دیں گے- اس کا آج تک احترام کیا جاتا اور چرچ اف نتویتے یعنی عیسیٰ کی پیدائش کے چرچ کی چابی مسلمانوں کے پاس ہے اور اس کا تالا مسلمان ہی کھولتے ہیں اور اس روایت کا عیسائی بھی احترام کرتے ہیں –

      امیر المومنین عمر رضی الله عنہ جہنوں نے یروشلم تک کا سفر کیا اور وہ خود اس سے منع کرتے کہ کوئی مسجد الحرام کے علاوہ کسی اور مسجد کے لئے سفر کرے قابل غور ہے
      مصنف ابن ابی شیبه میں ہے کہ عبد الله بن أبي الهذيل کا قول ہے

      لا تشد الرحال إلا إلى البيت العتيق

      سواری نہ کسی جائے سوائے مسجد الحرام کے لئے

      اور مسند الفاروق از ابن کثیر کے مطابق عمر رضی الله عنہ کہتے تھے

      لا تشد الرحال إلا إلى البيت العتيق

      سواری نہ کسی جائے سوائے مسجد الحرام کے لئے

      معلوم ہوا کہ عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی اس کو مسجد اقصی نہیں کہا جاتا تھا

      بعد میں لوگوں نے اس مسجد عمر کو مسجد الاقصی مشہور کیا
      ————-

      عمر رضی الله عنہ جن نصرانیوں سے یروشلم میں ملے وہ
      Eastern Orthodox Church
      کے تھے – ان کے نزدیک موجود مسجد الاقصی وہ مقام ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کو کھڑا کر کے مقدمہ چلا تھا اور ان کے قدم وہاں چٹان جو الصخرہ ہے اس میں اس کے آثار تھے
      —–
      عبد الملک نے اسی مقام کو مسجد اقصی کہا جو ابن زبیر کی مخالفت میں اس نے کیا اور اس مقام پر عمارت بنا کر اس کو قبہ الصخرہ قرار دیا
      اس پر جو آیات لکھی ہیں وہ تمام عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہیں – جبکہ اس پر سوره بنی اسرائیل کی حشر اول کی آیات لکھی جانی چاہیے تھیں اگر یہ واقعی مسجد الاقصی تھی – اس دور کے نصرانی جو یروشلم میں تھے ان کے نزدیک یہ رومن قلعہ تھا جس میں پیلاطس رومی گورنر کے آگے یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کو پیش کیا تھا
      اسی بنا پر اس پر تمام آیات عیسیٰ اور توحید سے متعلق لکھوا دیں گئیں
      ———
      صلیبی جنگوں میں جن نصرانیوں کا قبضہ یروشلم پر ہوا وہ
      Knight Templars
      کہلاتے ہیں
      وہ اس مقام کو
      Church of Holy Wisdom
      کہتے تھے – یہ رومن کتھولک یا ایسٹرن آرتھوڈوکس نہیں تھے یہ ان دونوں سے الگ عقیدہ رکھتے تھے
      اب یہ فرقہ معدوم ہے لیکن ان کا اصل مقصد اس قبہ الصخرہ کو حاصل کرنا تھا
      قبہ الصخرہ کو انہوں نے چرچ بنا دیا تھا اور موجودہ مسجد الاقصی کو محل
      اس فرقہ کا پوپ نے بعد میں قتل عام کرایا اوران کے لیڈر کو سولی دی گئی

      اس فرقہ کے بہت سے عقائد اب
      Protestant Christians
      اختیار کر چکے ہیں
      انہی کا اب اہل مغرب میں عمل دخل ہے سیاسی افکار یہی فرقہ بناتا ہے اور امریکہ میں بھی انہی کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے
      یہ کہتے ہیں کہ موجودہ مسجد اقصی اصل میں ہیکل سلیمانی ہے اور یہ یہود کو ملنی چاہیے
      لیکن اس کے پس پردہ ان کا عقیدہ ہے کہ کتاب حزقی ایل کی آیات ابھی تک ظہور پذیر نہیں ہوئی ہیں
      ان کے مطابق جب یہود مسجد الاقصی یا ہیکل سلیمانی تیسری بار بنا لیں گے تب نزول مسیح یروشلم میں ہو گا اور وہ یہود کو قتل کر دیں گے

      یہود اس عقیدہ کو جانتے ہیں لہذا وہ یہ کام نہیں کریں گے بس شور کرتے رہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کر رہے کیونکہ ہمارے ہیکل پر مسلمانوں کا قبضہ ہے دوسرے وہ جانتے ہیں کہ یہ اصل مقام ہے ہی نہیں لہذا ان کے علماء کا فتوی ہے کہ قبہ الصخرہ پر قدم رکھنا حرام ہے
      یہود اس میں داخل نہیں سکتے جب تک ایک خاص لال گائے کی سوختی قربانی نہ دی جائے اور اس کی راکھ کو جسم پر ملا جاۓ جیسا ان کے مطابق توریت میں نجس کو پاک کرنے کے لئے لکھا ہے
      ===================
      لب لباب ہے یہود و نصاری کو مسجد عمر ( مشہور الاقصی مسجد) سے کوئی دلچسپی نہیں ان کا محور قبہ الصخرہ ہے وہاں یہ ہیکل سلیمانی بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اپس میں اس پر اختلافات ہیں کہ کیا یہ صحیح مقام ہے یا نہیں
      راقم نے اس پر تحقیق کے بعد سمجھا ہے کہ یہ اصل مسجد الاقصی نہیں ہے – عبد الملک نے مسجد عمر کو مشہور کرایا کہ یہ مسجد الاقصی ہے اور قبہ الصخرہ جو اس دور میں خالی پڑا تھا اس کو اس پر اس نے آٹھ کونوں کی عمارت بنا دی اور اس کو سرائے قرار دیا تھا کہ زیارت کرنے والے وہاں دھوپ سے بچنے کے لئے بیٹھ جائیں – لیکن اس عمارت کا گنبد تو چمکتا ہوا سونے جیسا کر دیا اور مسجد الاقصی کا سادہ سا رہنے دیا
      اصل مقصد لوگوں کو حج سے روکنا تھا کہ لوگ وہاں جا کر ابن زبیر رضی الله عنہ کی تقریروں سے متاثر نہ ہو جائیں

      پھر اہل بیت النبی میں سے کسی نے بھی نہ تو مسجد الاقصی کا نہ قبہ الصخرہ کا کسی کا بھی سفر نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ کوئی سیاسی چال ہی تھی ورنہ ایک مقام معلوم ہو با برکت ہو تو وہ کیوں نہیں جاتے
      ————–
      کعبہ کے حوالے سے منکرین حدیث جو کہہ رہے ہیں وہ صریح جھل ہے کیونکہ اسی کعبہ کا (جو مکہ میں ہے) رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے طواف کیا ہے
      ان کی تحریر کا کوئی لنک دیں

      Reply
  2. وجاہت

    ابو شہر یار بھائی بہت علمی تھریڈ بنایا آپ نے – الله آپ کو جزایۓ خیر دیے – آمین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس ویڈیو کو سمجھنے کے لئے اپ کو میری تفسیر کی کتاب پڑھنی چاہیے

      اصل میں یہ شخص اہل کتاب کے
      Revisionist Historians
      میں سے ہے
      اس گروہ کی تحقیق کا آغاز سن ٧٠ کی دہانی میں ہوا اور ان کا مقصد ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن اور اسلام کاآغاز اردن یا شام میں ہوا ہے
      لہذا انہوں نے اس سلسلے میں بہت سی کتب لکھی ہیں جن میں نصرانی شعراء کی شاعری کو آخری پارہ کی سورتوں کا اصل کہا گیا ہے
      ان کے نزدیک وہ بت جو عرب پوجتے تھے وہ سارے نبطی تھے
      —–
      وڈیو کے نکات ہیں

      مکہ کا نام قرآن میں صرف ایک بار اتا ہے جب اس کو بکہ کہا جاتا ہے
      مکہ کو مسجد الحرام بھی کہا گیا ہے
      مکہ کاروان کے راستہ میں نہیں اتا تھا
      شمالی عرب میں پیٹرا میں اسلام کا آغاز ہوا
      مکہ میں آثار قدیمہ کو ختم کیا جا رہا ہے اور وہاں کوئی تاریخی چیز باقی رہنے نہیں دی گئی ہے
      مکہ میں کچھ نہیں اگتا مذہبی کتب میں مکہ کو پھلوں کی جگہ کہا گیا ہے
      مکہ اسلام سے قبل کسی نقشے میں موجود نہیں ہے تجارت کے طور پر بھی اس کا ذکر نہیں ہے
      اسلام کے ریکارڈ میں اور آثار قدیمہ میں تفاوت ہے
      محمد ایک الگ جگہ پیدا ہوئے مکہ میں نہیں
      عرب ان بتوں کو پوجتے تھے جو جیومتری کی شکل تھے اور یہ لوکل خدا تھے
      تمام مندروں میں جنگ حرام تھی
      آلات ایک نبطی دیوی تھی
      مسجد الحرام کا مطلب جہاں لوگ جمع ہوں
      اسلام سے قبل وہاں کا حج ہوتا تھا اور ایسا پیٹرا میں بھی ہوتا تھا
      مسجدوں میں محراب کا رخ قبلہ کی طرف ہے لیکن قبلہ کیا مکہ ہی تھا یہ واضح نہیں ہے
      مسلمان یروشلم کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے پھر مسجد الحرام کی طرف رخ کیا جو پتا نہیں کیا ہے
      سو سال پہلے اس قسم کی تحقیق ممکن نہیں ہے گوگل ارتھ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قبلہ کا رخ کیا ہے
      شروع کی مسجدوں میں قبلہ کا رخ ستاروں سے متعین کیا گیا ہے
      مسجد قبلتین مدینہ میں اس کا اصل پہلا قبلہ کہاں تھا
      تمام مسجدوں کا قبلہ الگ الگ تھا اس میں گیارہ مسجدیں لی گئی ہیں
      ———

      سب سے پہلے تو سمجھ لیں کہ عرب نبطی بتوں کو نہیں پوج رہے تھے

      ⇓ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى
      https://www.islamic-belief.net/history/

      یہ بت اصلا اہل کتاب سے ملے
      ——

      اہل کتاب کہتے ہیں کہ ٹیمپل اف ابراہیم شام میں تھا جس کو مسلمان عرب میں کہتے ہیں
      اس کی تفصیل یہاں ہے
      ⇓ مقام ابراہیم ، بیت العتیق، مکہ
      https://www.islamic-belief.net/history/

      مسجدوں کے قبلہ کی بات بھی احمقانہ ہے کیونکہ یہ کیسے ثابت ہو گا کہ محل میں محراب مسجد ہی تھی یہ ان کا خیال ہے

      باقی قرآن میں مکہ کو واد غیر ذی زرع کہا گیا ہے یعنی بے اب و گیاہ وادی

      یہ بات صحیح ہے کہ مکہ میں آثار قدیمہ تباہ ہو چکے ہیں ان کی حفاظت نہیں کی گئی جو کیا جانا چاہے تھا

      کعبہ کو پیٹرا میں لا کر یہ لوگ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ اسلام اصل میں نبطی مذھب تھا

      قدیم نقشوں سے ان کی مراد یونانییوں کے نقشے ہیں جن میں ان کے بقول مکہ نہیں ملتا اگر یہ اہم ہوتا تو ملتا
      یونان والوں نے نقشے اپنی جنگوں کی وجہ سے بنائے تھے عرب میں وہ داخل نہیں ہوئے لہذا عرب جزیرہ کا کوئی یونانی نقشہ نہیں ہے
      یہ ہے اصل بات لیکن یہ گھما کر کچھ بات کرتے ہیں

      ان لوگوں کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ ثابت کریں کہ الله کا نام الات کی ایک شکل ہے یہ نصرانی جاہل ہیں کیونکہ اسلام سے نفرت میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ یہ اس حقیقت کو بھی جھٹلانا چاہتے ہیں کہ ہم نصرانی اور یہودی ایک ہی رب کو مانتے ہیں
      یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو بت پرستوں کے مذھب میں تھوڑی تبدیلی کی
      باقی قرآن بنو امیہ کا شام میں تیار ہوا اور کعبہ کو ابن زبیر نے مکہ میں بنا دیا
      یہ سب جھل در جھل ہے

      کیونکہ اس تھیوری کا مواد ان کو مل نہیں رہا تو یہ آثار قدیمہ پر آ گئے ہیں تاکہ کھود کھاد کے اپنی پسند کی بات کہہ دیں

      Reply
  3. shahzad khan

    بھائی آپکی تفسیر کی کتاب کہاں ملے گی

    Reply
  4. Shahzadkhan

    بھائی قرآن پاک میں جیسا کہ آیا ہے کہ مسجد القصیٰ جس ماحول ہم نے بابرکت کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی وہاں کا ماحول بابرکت ہے؟ جس جگہ کو بیت المقدس کہا جاتا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی اب بھی ہے کیونکہ اس میں انقطاع کا علم نہیں دیا گیا
      موسی علیہ السلام سے کہا گیا ارض مقدس میں داخل ہو
      اور دور نبوی میں کہا گیا اس کا ماحول با برکت ہے
      لہذا یہ ابھی تک ہے
      و الله اعلم

      Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ کسی جھل مرکب کی تحریر ہے جس پر یہ اخباری خبر ہے
      مسجد الاقصی یروشلم میں ہی ہے لیکن یہود کو علم نہیں کہاں ہے

      میری تحقیق میں جس مسجد کو مسجد الاقصی کہا جاتا ہے وہ مسجد عمر ہے جو
      Antonia Fortress
      یا
      Praetorium
      پر ہے – جو اصل میں ایک رومن قلعہ تھا اور اسی پر یہودی شاہ ہیرود کا محل تھا جو رومیوں کے تحت حکومت کر رہا تھا

      مسجد جعرأنة تو مکہ کے پاس ہے – وہ الاقصی کب ہے ؟ مکی دور نبوت میں تو کوئی مسجد تھی ہی نہیں

      بہر حال یہ یہودی نئی تھوری دے رہے ہیں تاکہ مسلمان وہاں موجود مسجد الاقصی کو چھوڑ دیں اور یہ خود وہاں اپنی عبادت گاہ بنا لیں

      یہود میں خود اختلاف ہے کہ مسجد الاقصی کہاں ہے تو اس قسم کی بحث مسلمانوں سے ان کا کرتے رہنا بے کار ہے
      پہلے یہ ثابت کریں کہ مسجد الاقصی ہی ہیکل سلیمانی ہے
      ——-

      میرے علم کے مطابق مسجد الاقصی بیت المقدس میں قدیم شہر میں ہے جس کو داود کا شہر کہا جاتا ہے جو
      Praetorium
      سے نیچے ہے اور اس مقام پر جیحوں کا چشمہ ہے جو اصل مسجد الاقصی کے صحن میں ابلتا تھا

      Reply
  5. anum shoukat

    جالوت ہو یا نخت نصر اللہ نے انہیں اپنے بندے کہا مطلب وہ نیک تھے عبادا لنا اولی باس شدید کے الفاظ استعمال کیے؟
    یہود کا دو دفعہ فساد کا ذکر ہے اس سے مراد یہود کا انبیاء علیہ السلام کو قتل کرنا ہے؟؟ اور انکا کا انبیاء علیہم السلام کو قتل کرنے پر اللہ نے ان پر جابر اور ظالم حکمران مسلط کر دئیے جنہوں نے انہیں بیت المقدس سے نکال دیا انکو قیدی بنایا گیا اور یہودیوں کا قتل کیا گیا۔

    ہیکل سلیمانی کی جگہ اب بیت المقدس بنا ہوا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      الله نے جالوت کو اپنا بندہ کب کہا ؟ جالوت کو تو داود علیہ السلام نے قتل کیا تھا
      مصنف عبد الرزاق میں ہے
      عَبْدُ الرَّزَّاقِ 1538 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ} [الإسراء: 4] , قَالَ: ” أَمَّا الْمَرَّةُ الْأُولَى فَسَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ جَالُوتَ حَتَّى بَعَثَ طَالُوتَ , وَمَعَهُ دَاوُدُ فَقَتَلَهُ دَاوُدُ
      قتادہ کا قول ہے کہ پہلا حشر ہوا جب جالوت کو ان پر مسلط کیا گیا اور پھر داود نے اس کو قتل کیا

      راقم کہتا ہے قتادہ کی تفسیر بے کار ہے اس میں کوئی حشر نہیں ہوا
      ———
      مورخین کے مطابق بخت نصر ایک مشرک بت پرست بادشاہ تھا مسلم نہیں تھا
      ایسا یہود کا کہنا ہے جو ان کا پروپیگنڈا بھی ہو سکتا ہے

      سورہ بنی اسرائیل میں ہے
      اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بتلا دی تھی کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ خرابی کرو گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔
      فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَـآ اُولِىْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا (5)
      پھر جب پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے سخت لڑائی والے بھیجے پھر وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے، اور اللہ کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔
      ثُـمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْـهِـمْ وَاَمْدَدْنَاكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنَاكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْـرًا (6)
      پھر ہم نے تمہیں دشمنوں پر غلبہ دیا اور تمہیں مال اور اولاد میں ترقی دی اور تمہیں بڑی جماعت والا بنا دیا۔


      یہاں پر ہے اپنے بندے سخت لڑائی والے بھیجے – اس سے دلیل لی گئی ہے کہ یہ مومن تھا
      ممکن ہے ایسا ہو لیکن قرآن میں ہی مشرک کو بھی بندے کہا گیا ہے مثلا الله نے موسی کو حکم دیا
      فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ
      میرے بندوں کو لے کر نکل جاو تمہارا پیچھا گیا جائے گا

      یہاں بندے کہا ہے جبکہ بنی اسرائیل تمام مسلمان نہیں تھے

      و الله اعلم

      ————–
      فساد کا مطلب جو قوم کے طور پر انہوں نے کیا اور ان کا اس غلط عمل پر اجماع ہوا پہلا حشر زکریا علیہ السلام نام کے ایک رسول کے قتل پر ہوا یہ زکریا والد یحیی علیہ السلام نہیں تھے یہ ان سے صدیوں پہلے گزرنے والے کوئی نبی ہیں
      دوسرا حشر یحیی علیہ السلام کا قتل کرنے اور مسیح علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی بنا پر ہوا
      ——-

      مسجد الاقصی اور ہیکل سلیمانی ایک ہی چیز ہے – ہیکل مطلب بیت الله ہے جو اصل مسجد الاقصی کے صحن میں ایک عمارت تھی جس میں تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا
      میری تحقیق کے مطابق ہیکل کا اصل مقام معلوم نہیں اور اسی طرح اصل مسجد الاقصی کا مقام معلوم نہیں ہے

      Reply
  6. Shahzad Niazi

    السلام و علیکم ابو شہریار بھائی فلسطین اور مسجد الاقصی جس کو کہا جاتا ہے یہ اصل معاملہ کیا ہے یعنی کیا یہودی جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس مسجد پر الجھائے رکھنا
    چاہتے ہیں ؟ اور کیا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مسجد الاقصی پر سے یہودیوں کا قبضہ ختم کرائیں ؟ بھائی اس معاملے پر ہو سکے تو تفصیل بیان کر دیجئے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      تاریخ قبلتین کا مطالعہ کریں – اس پیج پر ہے

      https://www.islamic-belief.net/asbooks3/

      مسجد الاقصی معدوم ہے اس کا اصل مقام کسی کو معلوم نہیں ہے – جب دور صحابہ میں مسلمان بیت المقدس پہنچے تو انہوں نے ایک مسجد بنائی جس کو مسجد القبلی کہا جاتا تھا – اس مسجد کا نام پھر مسجد بیت المقدس پڑ گیا پھر دور خلیفہ عبد الملک بن مروان میں اس مسجد کے پاس ایک سرائے بنائی گئی کہ وہاں مسلمان آ کر قیام کریں جیسے کہ ہوٹل اس مقام کو آجکل ڈوم اف روک کہا جاتا ہے
      وقت کے ساتھ مسجد القبلی کا نام مسجد الاقصی مشہور ہو گیا – اور ڈوم اف روک کو بھی مسجد قرار دے دیا گیا یہاں تک کہ دور ابن تیمیہ یعنی ٨٠٠ ہجری میں وہاں چٹان کے گرد کعبہ کی طرح طواف بھی کیا جاتا تھا

      پھر صلیبی نصرانی آئے انہوں نے ڈوم اف روک کو ہیکل سلیمان سمجھ کر اس کا نام ٹیمپل ماؤنٹ رکھ دیا – نصرانی جو کیتھولک ہیں ان کے نزدیک ڈوم اف روک ایک معتوب یا لعنت زدہ مقام ہے وہاں ان کے بقول عیسیٰ علیہ السلام پر حد جرم لگائی گئی تھی – اسی قسم کا موقف ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کا ہے لیکن پروٹسٹنٹ نصرانی اس کو صلیبی نصرانیوں کی طرح ہیکل سلیمان کہتے ہیں

      یہود بھی اس حوالے سے منقسم ہیں – یہود کے بعض فرقوں کے نزدیک ڈوم اف روک ہیکل سلیمان نہیں
      ان کو نٹوری کتزی کہتے ہیں
      کٹر یہودی اور صیہونی ڈوم اف روک پر ہیکل سلیمان بنانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ نہ کرنا ان کی سیاسی موت ہے

      فارس کے یہود کے نزدیک ہیکل اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک خروج مسیح نہ ہو جائے

      میری تحقیق جہاں تک ہے اس کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ایک رومن قعلے پر بنائی تھی کیونکہ وہ اس وقت کھنڈر تھا اور کسی کی ملکیت میں نہیں تھا
      اصل مسجد الاقصی اس قعلے سے نیچے تھی جہاں آجکل یہودی آباد ہیں
      یہود جب واپس اس شہر میں آئے تو ان کو اس قعلے کی دیوار پر کتاب یسیاہ کی ایک آیت ملی جس سے ان کو گمان ہوا کہ یہ کوئی مقدس مقام ہو گا -انہوں نے اس دیوار کو ہیکل یا مسجد سلیمان سمجھا -اس کو دیوار گریہ کہا جاتا ہے
      آیت میں لکھا تھا کہ تمارے مردے جی اٹھائیں گے یعنی اغلبا یہ کوئی مقبرہ تھا جس کو یہ اب ہیکل کی باقی رہ جانے والی دیوار کہتے ہیں

      ١٩٧٠ کی دھانی میں ایک یہودی آرکٹیکٹ نے پہاڑ کو سکین کیا اور اس کے بقول اس پہاڑ میں جہاں ڈوم اف راک ہے اس کے نیچے کوئی عمارت بھی ہے
      لہذا امکان ہے کہ وہاں ہیکل ہو

      اس طرح یہ جھگڑا چلا آ رہا ہے

      ——-
      یہود کی کتاب تلمود کے تحت رومن فوج کی جانب سے ہیکل سلیمان کو زمین کے برابر کر دیا گیا تھا اور جب کوئی اس مقام پر وہاں جاتا تو اس کو معلوم بھی ہوتا کہ یہاں کبھی کوئی عمارت تھی
      یعنی اصل مسجد الاقصی مکمل معدوم ہو گئی کسی انسان کو اب معلوم نہیں کہاں تھی

      اصل بات یہ ہے کہ بائبل کی کتب کے مطابق جب نیا ہیکل بن جائے گا تو یہود کا قتل ہو گا اور پروٹسٹنٹ نصرانی کہتے ہیں اس پر عیسیٰ کا نزول ہو گا لہذا یہ نصرانی عیسیٰ کو واپس لانے یہود کا قتل کرانا چاہتے ہیں

      صیہونی کہتے ہیں کہ ہم اپنے خود ساختہ ہیکل کو موجودہ ڈوم اف روک پر بنا کر فساد برپا کریں کے اور اللہ تعالی کو مجبور کریں کے کہ وہ خروج مسیح کرے

      ڈوم اف روک کے حوالے سے صلیبی نصرانی کہتے تھے کہ عیسیٰ موت کے بعد یہاں سے آسمان میں گیا ہے اور یہ بات انہوں نے ایک افواہ کی طرح پھیلائی
      صلاح الدین نے فتح بیت المقدس کے بعد نصرانییوں کے لئے ایک قبہ اس مقام پر بنوا دیا کہ وہ مسجد میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اس قبہ پر آئیں گے مناجات کریں گے
      اس قبہ کو رفع عیسیٰ کا قبہ سمجھا جاتا تھا
      dome of ascension
      وقت کے ساتھ مسلمانوں نے اس قبہ کو قبہ معراج کہنا شروع کر دیا اور مشہور کیا کہ معراج یہاں اس قبہ سے ہوئی اور بعض نے کہا اس چٹان پر ایک سیڑھی نمودار ہوئی اور پھر اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں گئے

      اس طرح نصرانی و یہودی مقابر و مقامات کو مسلمانوں نے اپنے قبضے میں لے کر ان پر اپنے دعوے جتا دیے

      نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا گیا تھا کہ اہل کتاب کے انبیاء سے منسوب مقبروں سے دور رہیں

      معراج مسجد الاقصی سے نہیں ہوئی نہ یروشلم میں رسول اللہ نے قدم رکھا کہ بلکہ براق پر رہتے ہویے آسمان سے ان کو مسجد الاقصی دکھائی گئی تھی
      اس بات کو حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
      لیکن ابو ہریرہ جن کو کعب احبار سے باتیں کرنے کا شوق تھا انہوں نے کہا کہ یہاں انبیاء کو نماز پڑھائی
      امام بخاری نے اس اہم خبر کو کو جامع الصحیح میں نہ بیان کر کے اس کا رد کیا ہے
      صحیح بخاری میں ایک بھی روایت نہیں جس میں ہو کہ انبیاء کو بیت المقدس میں نماز پڑھائی

      اس پر تفصیل اپ کو کتاب تاریخ قبلتین اور معراج پر میری کتاب میں مل جائے گی

      جو معائدہ ہوا ہے اس کے تحت موجودہ منسوب مسجد الاقصی حکومت یہود کے ہاتھ میں نہیں ہے یہ حکومت اردن کے کنٹرول میں ہے
      یہ بات عام مسلمان کو معلوم نہیں ہے

      حکومت اردن ہی اس مسجد کا امام مقرر کرتی ہے

      حکومت اسرائیل کی جانب سے اس مسجد تک غیر فلسطینی مسلمانوں کا جانا منع نہیں ہے – مثلا ترک اردن و ملائیایشیا کے مسلمان آج بھی وہاں جاتے ہیں
      یہ تو بعض مسلمان ملکوں نے عرب کاذ کے چکر میں اپنے اوپر خود پابندی لگا رکھی ہے کہ ان کے عوام اس مسجد تک نہیں جائیں گے

      اگر تمام دنیا کے مسلمان اسرائیل جا رہے ہوتےتو اج جو ظلم ہو رہا ہے اس کی جرات یہود کو نہیں ہوتی اور آہستہ آہستہ ڈائلاگ کی صورت پیدا ہوئی
      جب تک مسلمان ملکوں کے عوام، اسرائیلی عوام ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گے حکومتیں اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں

      جنگ دنیا میں ہوتی رہتی ہے لیکن جیسے ہی ارض مقدس کا جھگرا ہو اس کو ملحمہ الکبری بنا دیا جاتا ہے
      خروج مہدی و مسیح ہونے لگتا ہے
      پھر سب بھول جاتے ہیں

      اس کی وجہ وہ بہت سی ضعیف روایات ہیں جن کو قرب قیامت کے تحت ہم نے قبول کیا ہو ہے لیکن ان کا متن منکر و مضطرب ہے

      و اللہ اعلم

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *