صحيح ابن ماجہ 2014 اور ترمذي 1174 میں ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الحَضْرَمِيِّ، عَنْ [ص:469] مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الحُورِ العِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا “: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ»، «وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنِ الشَّامِيِّينَ أَصْلَحُ، وَلَهُ عَنْ أَهْلِ الحِجَازِ وَأَهْلِ العِرَاقِ مَنَاكِيرُ
مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئي عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ايذا پہنچاتي ہے تو بڑی آنکھوں والی حوروں ميں سے اس کی بیوی اس پر کہتی ہے کہ اللہ کی مار تجھ پر (یعنی دنیاوی بیوی پر )، اس کو تنگ مت کر یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے، قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے
امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے روایت کیا جس کی شامیوں سے روایت اصلح ہے اور اہل حجاز اور اہل عراق سے اس کی منکر روایات ہیں
امام بخاری کا قول ہے
قال البخاري إذا حدث عن الشاميين فصحيح
جب یہ شامیوں سے روایت کرے تو حدیث صحیح ہے
راقم کہتا ہے کہ ترمذی و بخاری کے قول کے تحت یہاں سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے اس کو حمص شام کے بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ سے روایت کیا ہے لہذا اس روایت کا درجہ اصلح یا صحیح کا ہوا – اس روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے -شعيب الأرنؤوط نے حسن قرار دیا ہے اور امام الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے
راقم کہتا ہے متن منکر ہے – حور کو کیا علم الغیب ہے ؟ کیا وہ جنت سے اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ رہی ہے یا اس پر عرض عمل ہو رہا ہے ؟ اس روایت کی نکارت پر حیرت ہے کہ کسی شارح یا محدث نے کلام نہیں کیا
إسماعيل بن عياش حمص کا رہنے والا ہے اور یہ مختلط بھی ہوا تھا لہذا یہاں اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس راوی کی وہ روایات جو اہل شام سے ہیں ان میں بھی مسائل ہیں اس کا دور اختلاط شروع ہو چکا تھا