[wpdm_package id=’8887′]
غامدی صاحب نے تھیوری پیش کی ہے کہ یافث بن نوح کی نسل کے تمام لوگ یاجوج ماجوج ہیں جن میں انہوں نے
جاپان و مغربی ممالک کا ذکر کیا – اس سے قبل وہ رسالہ اشراق میں کہہ چکے ہیں کہ دجال اور یاجوج ماجوج میں کوئی فرق نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ مکذوبہ کتاب
Book of Revelations
پر بھی ایمان لے آئے اور اس سے دلیل لینے لگے
راقم کہتا ہے غامدی صاحب بھول گئے کہ وسطی ایشیا کی قوموں میں ہندوستان وترک و جرمن و ایران بھی ہیں جو یافث ہی کی نسل سے ہیں ، اسی وجہ سے ابو الکلام آزاد نے اپنی کتب میں یافث / یاجوج ماجوج کی نسل میں پنجابی قوم کا بھی ذکر کیا ہے-
علامہ اقبال کہہ گئے ہیں
کھُل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’یَنْسِلُوْنْ‘
یعنی اقبال بھی اسی کے قائل تھے کہ یاجوج ماجوج نکل چکے ہیں اگرچہ انہوں نے غور نہیں کیا جیسا ابو الکلام آزاد نے کیا کہ بر صغیر کے مسلمان بھی ترک و ایرانی نسل سے ہیں یافث بن نوح کی ہی اولاد ہیں – اصل میں یہ سب مغالطہ در مغالطہ اس لئے پیدا ہوا کہ مسلمانوں نے اسرائیلیات کو سر چڑھایا اور یہ مان لیا کہ یاجوج ماجوج یافث کی نسل سے ہیں –
جب یہود نے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ وہ سام کی نسل ہیں تو اس کے پیچھے ان کی اپنی سیاست کارفرما تھی – وہ اپنے آپ کو ہام اور یافث کی نسلوں سے الگ کر رہے تھے اور اسی مشق میں انہوں نے نوح علیہ السلام پر زنا کی تہمت لگائی تھی جس کے بعد نوح کی بددعا کی صورت میں سام کو باقی بھائیوں پر فوقیت ملی تھی – یہود اپنے آپ کو سام بن نوح کی نسل سے بتاتے تھے لیکن جب مشرقی یورپ کی خزار ریاست نے یہودیت قبول کی تو تب سے ان میں یافث کی نسل در کر آئی اور آجکل کے مغربی یہودی اصلی سامی نہیں رہے
پھر راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں مولوی نے سی پیک کو یاجوج ماجوج کی سرنگ قرار دیا – اب یہ ویڈیو یو ٹیوب سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں – راقم کہتا ہے یہ جاہل علماء ہیں کیونکہ یہ شمالی اقلیم کے لوگوں کو یاجوج ماجوج کہہ رہے – جبکہ اسلام پھیلا ہے اور چینیوں نے بھی دور تابعین میں اسلام قبول کیا ہے – یاجوج ماجوج پر راقم کی تحقیق میں ان حماقتوں کا رد ہے
====================================================
روایات
خروج یاجوج و ماجوج
تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان پر
اس مختصر کتاب کا موضوع یاجوج و ماجوج ہیں – الله تعالی نے خبر دی کہ جب خروج یاجوج و ماجوج ہو گا تو وہ ہر بلندی سے نکل رہے ہوں گے اور منظر ایسا ہو گا جیسے سمندر کی موجیں گتھم گتھا ہو رہی ہوں یعنی یاجوج ماجوج تعداد میں بہت ہوں گے – یاجوج ماجوج کے حوالے سے علماء کے مضطرب اقوال ہیں بعض سلفی علماء کے نزدیک منگول یا ترک یاجوج و ماجوج ہیں – بعض اہل چین کو یاجوج ماجوج قرار دیتے ہیں – ابو کلام آزاد اور غامدی کے نزدیک یافث بن نوح کی نسل کے لوگ یاجوج ماجوج ہیں جن میں پاکستان انڈیا چین مغربی ممالک آسٹریلیا سب شامل ہیں – غامدی صاحب کے نزدیک دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہیں!
اہل کتاب کے مطابق جوج نام کا ایک لیڈر ہے اور اس کی قوم ماجوج ہے – ان کے پاس یاجوج کا کوئی تصور نہیں ہے – لیکن مسلمان علماء اس پر غور کیے بغیر اہل کتاب سے دلائل دینے لگ جاتے ہیں – یاجوج و ماجوج اہل کتاب کے نزدیک ایک غلط نام ہے- لہذا اہل کتاب کی کتابوں سے دلائل دینا بے کار ہے – اہل کتاب میں ماجوج پر اختلافات ہیں مثلا موجودہ پروٹسٹنٹ نصرانی آج کل ایسٹرن آرتھوڈوکس نصرانییوں میں روسیوں کو ماجوج قرار دیتے ہیں- یہود میں مورخ جوسیفس کے مطابق سکوتی یا السكوثيون یا الإصقوث یا اسکیتھیا (من اليونانيةSkythia)
کو قرار دیا ہے جن کا علاقہ آزربائیجان و ارمیننا کا تھا – اسی کی بنیاد پر نصرانی سینٹ جیروم نے ان کا علاقہ بحر کیسپین کے قریب بتایا ہے – آجکل یہ علاقہ روس میں ہے لہذا کہا جا رہا ہے کہ روسی ماجوج ہیں – یہ قول مبنی بر جھل ہے –
مسلمانوں کا اس پر بھی اختلاف رہتا ہے کہ کیا دیوار چین اور سد سکندری، وہی دیوار ہے جو ذو القرنین نے بنائی یا نہیں ؟ ذوالقرنین کون تھے ؟ سکندر یا کورش یا سائرس ؟
راقم کے نزدیک اس وقت معلوم دنیا سے یاجوج ماجوج پوشیدہ ہیں – راقم کے نزدیک یاجوج ماجوج انسان نہیں ہیں انسان نما ہوں گے – اس کتاب میں یاجوج ماجوج سے متعلق روایات کا جائزہ لیا گیا ہے – کتاب میں اس پر بھی غور کیا گیا ہے کہ قیامت کی نشانیاں کس ترتیب میں ہو سکتی ہیں جن کا علم صرف اور صرف الله تعالی کو ہے
کتاب پڑھنے سے پہلے سوره کہف ضرور پڑھ لیں اس کو کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے – مباحث کو سمجھنے کے لئے قرانی حقائق و آیات کو جاننا ضروری امر ہے
آپ کی تحقیق بہت اچھی ہے – الله آپ کو جزایۓ خیر دے – امین
آپ نے اس کتاب کے صفحہ ١٧ پر کہا ہے کہ صحیح مسلم میں قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر ہے لیکن ان کی ترتیب نہیں جیسا کہ امام مسلم نے عبدالله بن عمرو رضی الله سے ثابت کیا
یہ بات تو آپ نے ثابت کی
لیکن آگے آپ نے جو لکھا ہے کہ صحابی حذیفہ رضی الله کی روایت ٢٩٤٧ میں دس نشانیاں ہیں
جب میں نے اس حدیث کا حوالہ چیک کیا تو اس میں چھ نشانیوں کا ذکر ہے اور یہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله سے روایت ہے
حدیث نمبر ٢٩٤٧
فواد عبدالباقی حدیث نمبر: 2947
حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة بن سعيد ، وابن حجر ، قالوا: حدثنا إسماعيل يعنون بن جعفر ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” بادروا بالاعمال ستا طلوع الشمس من مغربها، او الدخان، او الدجال، او الدابة، او خاصة احدكم، او امر العامة “.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلدی کرو نیک اعمال کرنے کی چھ چیزوں سے پہلے، ایک دجال کے نکلنے سے، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے آفتاب کا پچھم سے نکلنا، پانچویں قیامت، چھٹے موت۔“ (یعنی جب یہ باتیں آ جائیں گی تو نیک اعمال کا قابو جاتا رہے گا)۔
——-
آپ کس حدیث کا حوالہ اپنی کتاب میں لکھ رہے ہیں
پلیز چیک کر لیں
صحیح مسلم کی روایت ہے
(2901) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غُرْفَةٍ وَنَحْنُ أَسْفَلَ مِنْهُ، فَاطَّلَعَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: مَا تَذْكُرُونَ؟ ” قُلْنَا: السَّاعَةَ، قَالَ: ” إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَكُونُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَالدُّخَانُ وَالدَّجَّالُ، وَدَابَّةُ الْأَرْضِ، وَيَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قُعْرَةِ عَدَنٍ تَرْحَلُ النَّاسَ ” قَالَ شُعْبَةُ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ، مِثْلَ ذَلِكَ، لَا يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ أَحَدُهُمَا فِي الْعَاشِرَةِ: نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ الْآخَرُ: وَرِيحٌ تُلْقِي النَّاسَ فِي الْبَحْرِ،
یہ روایت اہل تشیع کی بھی ہے
الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے
عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم
حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے غرفة میں اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا دابه الارض یاجوج اور ماجوج تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ)
صحیح مسلم: کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت
(باب: مسیح دجال کابیان)
7373
حکم : صحیح
ابو خیثمہ زہیر بن حراب اور محمد بن مہران رازی نے مجھے حدیث بیان کی۔الفاظ رازی کے ہیں۔کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نے یحییٰ بن جابرقاضی حمص سے انھوں نے عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر ہے۔ انھوں نےاپنے والد جبیر بن نفیرسے اور انھوں نے حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا۔ آپ نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے۔جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر)کو بھانپ لیا۔ آپ نے ہم سے پوچھا “تم لوگوں کو کیا ہواہے؟”ہم نے عرض کی اللہ کے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں (ایسا)اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مجھے تم لوگوں (حاضرین )پر دجال کے علاوہ دیگر(جہنم کی طرف بلانے والوں)کا زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے)دلائل دینے والا میں ہوں گااور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان )ہوگا ۔وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔”ہم نے عرض ۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا:”بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل )کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔وہ (دجال)بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین )کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار ۔مار کر( یکبارگی)دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا)ہو۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ وہ (دجال )اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔ کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو)وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد (Lyudia)کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے)سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے )بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل )بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو(پانی)ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔”کبھی اس (بحیرہ )میں (بھی)پانی ہوگا۔ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی)ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج )پر ان کی گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی)اس کا شکار ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اترکر (میدانی)زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے )پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ )اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹالاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی )برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام)آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔”
=============
دوسری حدیث
سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ (بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ)
سنن ابن ماجہ: کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
(باب: دجال کافتنہ‘حضرت عیسی ابن مریم کا نزول اوریاجوج وماجوج کا ظہور)
4079
حکم : حسن صحیح
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ‘‘وہ ہر ٹیلے سے بھاگتے آئیں گے’’ة تو وہ ساری زمین پر پھیل جائیں گے۔ مسلمان ان سے ایک طرف ہو جائیں گے (ان کی کثرت دیکھ کر مقابلہ نہیں کریں گے) حتی کہ بچے کھچے مسلمان اپنےشہروں اور قلعوں میں چلے جائیں گے اور مویشی بھی اپنے پاس رکھیں گے (چراگوں میں نہیں چھوڑیں گے) یاجوج ماجوج کا یہ حال ہو گا کہ کسی نہر کے پاس سے گزریں گے تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے، کچھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی فوج کا پچھلا حصہ وہاں سے گزرے گا تو ان میں سے کوئی کہنے والا کہے گا: (شاید) اس جگہ کبھی پانی ہوتا تھا۔ وہ زمین والوں پر غالب آ جائیں گے تو ان میں سے ایک آدمی کہے گا: ہم زمین والوں سے فارغ ہو چکے، اب ہم آسمان والوں کا مقابلہ کریں گے۔ ان میں سے جو کوئی آسمان کی طرف اپنا نیزہ پھینکے گا، اس کا نیزہ خون آلود ہو کر واپس آئے گا۔ تب وہ کہیں گے: ہم نے آسمان والوں کو قتل کر دیا ہے۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ ان پر ایسے حشرات ان کی گردنوں پر حملہ آور ہوں گے۔ تو وہ اس طرح مر مر کر ایک دوسرے پر گریں گے جیسے ٹڈی دل یک بارگی مرجاتا ہے۔ صبح کو مسلمانوں کو ان کی حس و حرکت سنائی نہ دے گی تو وہ کہیں گے: کون بہادر آدمی اپنی جان خطرے میں ڈال کر معلوم کرے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ان میں سے ایک آدمی (قلعے سے )اترے گا او وہ (اپنے دل میں) ان کے ہاتھوں قتل ہونے پر تیار ہوگا ، وہ دیکھے گا کہ سب (یاجوج ماجوج) ہلاک ہوچکے ہیں ۔ وہ آواز دے گا:خوش ہوجاؤ ! اللہ نے تمہارے دشمنوں کو تباہ کردیا ہے ۔ تب (مسلمان)لوگ (اپنے حصار سے )نکلیں گے اور اپنے جانوروں کوچھوڑیں گے ۔ جانوروں کوچرنے کے لئے ان (یاجوج ماجوج) کے گوشت کے سوا کوئی خوراک میسر نہ ہوگی ۔ وہ ان کوکھاکھا کر اس طرح موٹے اور بہت دودھ والے ہوجائیں گے جیسے بہترین چارہ کھاکر خوب موٹے تازے او ر دودھ والے ہوجاتےہیں ’’۔
دونوں احادیث پر صحیح کا حکم لگایا گیا ہے – پوچھنا یہ ہے ہے یہ ایک حدیث میں ہے کہ
اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے )پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔
جب کہ دوسری میں ہے کہ
(مسلمان)لوگ (اپنے حصار سے )نکلیں گے اور اپنے جانوروں کوچھوڑیں گے ۔ جانوروں کوچرنے کے لئے ان (یاجوج ماجوج) کے گوشت کے سوا کوئی خوراک میسر نہ ہوگی ۔ وہ ان کوکھاکھا کر اس طرح موٹے اور بہت دودھ والے ہوجائیں گے
یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں کیسے ہوں گی – کیا یہ دونوں باتیں صحیح ہیں –
اس بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے
——–
دونوں حدیث صحیح ہیں تو دونوں باتیں بھی بالکل صحیح ہیں ۔
چاہے کسی کو سمجھ آئیں یا نہ آئیں ۔
البتہ یہ باتیں ویسے بالکل واضح ہیں ، ان میں سرے سے اس طرح کا کوئی اشکال نہیں ۔
کچھ کو جانور کھا جائیں ، جو باقی بچیں گے ، انہیں پرندے اٹھا کر کہیں پھینک دیں گے ۔ یا ممکن ہے جہاں پرندے جاکر پھینکیں وہاں جانور انہیں جاکر کھالیں ۔
یا پرندے اکثریت کو اٹھا کر لے جائیں ، لیکن کچھ باقیات بچ جائیں ، اور جانور انہیں کھالیں ۔
اس کا جواب کتاب میں موجود ہے
راقم کے نزدیک یہ متضاد روایات ہیں اپ ان کو پڑھیں اور سمجھیں کہ زمیں پر کوئی ایسا مقام نہیں جہاں یاجوج ماجوج کی لاش نہ ہو اور النواس کی روایت میں مویشی ہیں ہی نہیں کیونکہ ایک بیل کے سر کی قیمت بہت ہو گی
دوسری میں ہے کہ مویشی لے کر مسلمان محصور ہوں گے
تیسرا مسئلہ ہے کہ کیا طور سے یاجوج ماجوج نہی نکلیں گے جبکہ قرآن میں ہے ہر بلندی سے نکل رہے ہوں گے
کیا طور پر امت مسلمہ آ جائے گی جبکہ حدیث میں ہے ان کی تعداد سیلاب کے جھاگ جنتی ہو گی
سنن ابو داود میں ہے
حدیث نمبر: 4297
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ”.
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں” تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں {وہن} ڈال دے گا” تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! {وہن} کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے”۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۰۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۵/۲۷۸) (صحیح)
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق یاجوج ماجوج کے خروج پر صالح بھی ہلاک ہوں گے جبکہ صحیح مسلم میں سب بچ جاتے ہیں
جب یاجوج ماجوج نکلیں گے تو کیا درندے ان پر حملہ نہیں کریں گے ؟ یاجوج ماجوج پانی پی جائیں گے تو مویشی اور پرندے کیسے جیتے رہیں گے ؟ اور جب وہ جھیلیں تک پی جائیں گے تو کچھ کھانے کو چھوڑیں گے ؟
یاجوج اور ماجوج کی دیوار میں دور نبوی صلی الله علیہ وسلم میں سوراخ ہوا یا نہیں ؟
اب جن احادیث میں سوراخ کا ذکر نہیں آیا ان پر اگر کوئی کہے کہ
عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ۔
یہاں عدم ذکر کی بات ہی نہیں
یہ جان چھڑانا ہے
صحیح بخاری میں ہے سوراخ ہوا
ترمذی میں ہے سوراخ بھر جاتا ہے جس کو البانی نے صحیح کہا ہے
السلام وعلیکم ابو شہریار بھائی ساحل عدیم نامی اک صاحب نے حال ہی میں یوٹیوب پر یاجوج ماجوج کے حوالے سے اپنی تحقیق بیان کی ہے جس کے مطابق بقول ان کے یاجوج ماجوج کسی اور پلانٹ کی مخلوق تھے اور ذولقرنین نے ہماری زمین اور اس پلانٹ کا درمیانی راستہ دیوار کھینچ کر بند کیا ۔۔
ساحل عدیم نے سورہ الکہف میں جو لفظ سبابا آیا ہے اس سے مراد راستہ لیا ہے جبکہ تراجم میں اس کا مطلب سامان ،کیا، گیا ہے ۔۔
بھائی اگر آپ نے ان صاحب کو سُنا ہو تو اس کے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کیجیے ۔۔
و علیکم السلام
قرآن قریش کی عربی میں نازل ہوا ہے اور دور نبوی میں ایلین مخلوق کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا قرانی الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا جو دور نبوی میں رائج تھا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
سورہ کہف ٩٢
عربی میں سبب کے بہت سے مفہوم ہیں – سبب کہتے ہیں رسی کو جو چھت سے لٹک رہی ہو
في حديث عوف بن مالك: “أَنَّه رأَى في المنامِ كأنّ سَبَباً دُلِّىَ من السَّماء
صحابی نے خواب میں (سبب ) دیکھا کہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آ رہی ہے اس کو رسول اللہ نے جب چھوڑا تو ابو بکر نے پکڑا
وأرى “سببا” وأصلا إلى السماء
دیکھا سببا رسی کو جس کی جڑ آسمان میں تھی
یہاں رسی کو سبب کہا ہے
سورہ حج میں ہے
مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو کوئی (منافق) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دینا و آخرت میں اس (رسول) کی مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر رسی ڈال کر (اپنے گلے کو) کاٹ دے
یہاں سبب کا مطلب رسی ہے
سوره غافر المومن میں ہے
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ
فرعون نے کہا ہامان سے کہ کوئی بلند عمارت بناو کہ میں آسمانوں میں کوئی اشارہ پاؤں اور موسی کے رب کو جانوں
یہاں اسباب یا اشارہ پانے کے لئے اس نے ٹاور بنانے کا حکم کیا
سورت قصص ٣٨ میں ہے
فَاجْعَلْ لِي صَرْحاً
میرے لئے ٹاور بناو
آیات کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون کوئی مینار یا ٹاور بنوانے کا حکم کر رہا تھا جس پر چڑھ کر موسی کے رب کا سبب پاوں
اس اشارہ لینے کو کو قرآن میں اسباب کہا گیا ہے
ذو القرنین کے قصے میں سورہ کہف میں ہے
إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِن كُلِّ شَىْءٍۢ سَبَبًۭا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تم نے اس کو زمین پر تمکنت دی تھی اور اس کو ہر چیز پر سبب (اشارہ ) دیا تھا
پھر اس نے ایک سبب (اشارہ) کو فالو کیا
میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ذو القرنین کو اللہ نے قوت و علم دیا کہ چیز دیکھ کر وہ اس کی حکمت جان جاتے تھے
اب چونکہ ان کا پلان تھا کہ تمام زمین پر جہاں تک ہو سکے وہ توحید کو قائم کریں وہ اس مقام سے آئی چیز دیکھ کر اشارہ پاتے اور پھر سفر کرتے وہاں تک جاتے
اور سبب یا اشارہ کو فالو کرتے اگرچہ ان علاقوں میں پہلے کبھی نہ گئے تھے
شاہ ذو القرنین کو تین اشارات ملے ایک کی وجہ سے مشرق تک کا سفر کیا
ایک سے مغرب تک کا سفر کیا
اور ایک کی وجہ سے یاجوج ماجوج کے علاقے تک کا سفر کیا
و اللہ اعلم
سبب کو انگلش میں
lead
ملنا کہہ سکتے ہیں
مثلا ہم کہتے ہیں
He got the lead and solved the problem
یا اردو میں کہتے ہیں کو سرا مل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا
رسی کا سرا ہوتا ہے
اس طرح عربی کا سبب یا اردو کا سرا ایک ہے
—
یاجوج ماجوج کے حوالے سے میرا علم کہتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں ایلین بھی نہیں ہیں
زمیں کے اندر ہی کوئی الگ مخلوق ہے جو سو رہی ہے ، نکلنے پر انسانوں کو قتل کرے گی اور حشر برپا ہو جائے گا