وہ احادیث جو متواتر نہ ہوں ان کو اخبار احاد یا خبر واحد کہا جاتا ہے – اس طرح ٩٩% احادیث خبر واحد کے درجے میں ہیں – خبر واحد سے سنت النبی اور سنت اصحاب رسول کو جانا جاتا ہے اور اصلا یہی واحد مصدر ہے – البتہ اس پر عقیدہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف چلا آ رہا ہے- بعض علمائے احناف کے نزدیک خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا البتہ حنابلہ اور مالکیہ میں ثابت ہوتا ہے –
اصول کی کتب میں دلالة قطعية یا قطعية الثبوت کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے مراد دین کی یقینی دلیلں ہیں اور ان میں ظاہر ہے قرآن سب سے اول ہے پھر حدیث متواتر پھربعض کے نزدیک اخبار احاد– جہاں تک متواتر احادیث ہیں تو ذخیرہ احادیث میں ان کا شمار بہت کم ہے اندازا صرف ایک فی صد ہیں – باقی ٩٩ فی صد اخبار احاد ہیں
ایک فاتر العقل شخص نے جس کی ملاقات تک ڈاکٹر صاحب سے نہیں ہے اس نے راقم سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کیے- جواب ملنے پر اس نے اپنے جھل مرکب کا اظہار شروع کیا جس کا اندازہ آپ کو پڑھتے ہوئے ہو جائے گا – ان سوال و جواب کو افادہ عامہ کی غرض سے یہاں لگایا جا رہا ہے
اس نام نہاد مقلد ڈاکٹر عثمانی معترض نے کہا کہ عثمانی نے ایمان خالص ص ٢٤ پر لکھا ہے
اصحاب حدیث کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
لہذا میرے نزدیک برزخی جسم کی خبر خبر واحد ہونے کی بنا پر عقیدہ کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ نظریہ کا درجہ رکھتی ہے
اس پر راقم نے کہا : یہ قول لکھنا مسعود الدین عثمانی کی خطا ہے کیونکہ اصحاب حدیث کا اس پر اتفاق ثابت نہیں بلکہ یہ قول احناف متاخرین، بعض شوافع (ابن حجر و النووی وغیرہم ) اور متکلمین کا ہے – امام ابو حنیفہ سے منسوب چند اقوال ہیں کہ چند اصحاب رسول غیر فقیہ ہیں ان کی روایات یا اخبار احاد کو نہیں لیا جائے گا – یہ قول تمام اصحاب رسول کے لئے نہ تھا – فقہ حنفی کی بنیاد فقہائے عراق کا مذھب ہے جو علقمہ سے ابراہیم النخعی سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیا ہے- کیا فقہ میں احکام نہیں ہیں ؟ احکام تو کتاب اللہ سے خبر واحد سے لئے جاتے ہیں – چور کا ہاتھ کاٹ دو قرآن میں ہے لیکن کتنا یہ خبر واحد سے ہے – اللہ کے حکم پر عمل انسان کے عقیدے کا حصہ ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا جو میرا حکم نافذ نہ کرے کافر ہے- اگر ہم ہاتھ کاٹنے کی مقدار میں اضافہ کریں تو یہ ظلم ہوا اگر کم کریں تو حکم مکمل نافذ نہ ہوا –دونوں صورتوں ہم نے ظلم کیا-
اصحاب حدیث میں امام مالک کی موطا میں خبر واحد جمع کی گئی ہیں جو حدیث کی کتاب ہے اور ان احادیث میں عقائد بھی بیان ہوئے ہیں جن میں خروج دجال کی بھی خبر ہے – احناف میں امام طحاوی نے عقیدہ طحاویہ میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد ہی خبر واحد ہے – یعنی مطلقا خبر واحد کو عقیدہ میں نہ احناف نے رد کیا ہے نہ ڈاکٹر عثمانی نے-
یہ اصول کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اصل میں مکمل بات نہیں ہے – فقہ حنفی میں جو بات کہی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ غیر فقیہ اصحاب رسول کی حدیث سے دلیل نہ لی جائے – ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اور تیسری جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی – اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
یہی انداز ابراھیم النخعي کا تھا احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
بہر حال ان احتیاطوں کا مقصد مطلق خبر واحد کا انکار نہیں تھا بلکہ صرف چند اصحاب رسول تک اس کو محدود رکھا گیا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ امام محمد اور امام ابو یوسف نے فقہ میں اخبار احاد کو لیا ہے اور بعض اوقات کہتے ہیں یہ ہمارا موقف ہے یا یہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے – جب وہ موقف کہتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ کا بیان بھی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھ کر اس میں بیان کردہ عقیدہ کو بھی قبول کر رہے ہیں
لیکن بعض متاخرین احناف نے بیان کیا کہ خبر واحد کو عقیدے میں نہ لیا جائے جو اصلا غلطی ہے کیونکہ یہ امام ابو حنیفہ کا مقصد نہیں تھا – بعد میں احناف نے اس کو خود محسوس کیا کیونکہ مسئلہ یہ آتا کہ متواتر احادیث کی تعداد تو اٹے میں نمک کے برابر ہے تو انہوں نے امداد زما نہ کے ساتھ اس اصول کو خود عملا خیر باد کہہ دیا – لہذا یہ اصول صرف اس وقت بیان ہوتا ہے جب کسی عقیدے کو رد کرنا ہو اور سرسری انداز میں لکھ دیا جاتا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا لکھنا بھی ایسا ہی ہے
احناف میں بہت سے گروہ ہیں – کوئی ایک قسم کے احناف نہیں ہیں – تصوف کے دلداہ احناف بھی ہیں – اس کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں – ان سب میں فقہ کے اصول بھی بدل رہے ہیں اور خبر احاد پر موقف بھی بدل جاتا ہے – ہند و پاک کے حنفی تو اصلا صوفی ہیںجو کشف تک سے خبریں ثابت کرتے ہیں
اپنی کتب میں جا بجا اخبار احاد کو ڈاکٹر عثمانی نے عقیدہ پر پیش کیا ہے مثلا تعویذ پر کتاب میں صرف حسن روایات سے تعویذ کو رد کیا ہے اور راقم کہتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی کی کتب میں جو احادیث متواتر بیان ہوئیں ہیں وہ جو چاہے جمع کر کے دیکھ لے بمشکل تمام پانچ چھ ہوں گی –
فرقہ اہل حدیث اور حنابلہ میں خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے نہ صرف صحیح سے بلکہ البانی کہتے ہیں حسن تک سے – البانی ڈاکٹر عثمانی کے ہم عصر تھے – یہ ڈاکٹر صاحب کی علم کی کمی ہوئی اگر انہوں نے یہ سب کے لئے لکھا – میں اس کا قائل نہیں کہ ان میں علم کی کمی تھی – میرے نزدیک عثمانی صاحب نے اس کو چلتے چلتے ہی فرقوں کے لئے لکھا ہے کہ دیکھو تمہارا اپنا اصول کہتا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
میں اس میں آپ پر افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ (عثمانی صاحب کے چند جملوں پر اپنی غلط سمجھ بوجھ کی وجہ سے ) آپ اپنی جان نا حق ان باتوں میں صرف کر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں
مقلد معترض نے کہا کہ خبر واحد سے عقائد نہیں صرف نظریات ثابت ہوتے ہیں
اس کی دلیل ہے کہ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) نے کہا
في أَخْبارِ الآحادِ المُنْقَسِمَة إِلى مَشْهورٍ وعَزيزٍ وغَريبٍ؛ مَا يُفيدُ العِلْمَ النَّظريَّ بالقَرائِنِ؛ عَلى المُختارِ؛ خِلافاً لِمَنْ أَبى ذلك.والخِلافُ في التَّحْقيقِ لَفْظيٌّ؛ لأنَّ مَنْ جَوَّزَ إِطلاقَ العِلْمِ قَيَّدَهُ بِكونِهِ نَظَريّاً، وهُو الحاصِلُ عن الاسْتِدلالِ، ومَنْ أَبى الإِطلاقَ؛ خَصَّ لَفْظ العِلْمِ بالمُتواتِرِ، وما عَداهُ عِنْدَهُ [كُلُّهُ] ظَنِّيٌّ، لكنَّهُ لا يَنْفِي أَنَّ ما احْتفَّ «منه» بالقرائِنِ أَرْجَحُ ممَّا خَلا عَنها.
یعنی خبر واحد محض ناظریات ہیں
راقم نے جوابا کہا
یہاں عربی لفظ نَظَريّاً کا مطلب اردو کا نظریہ نہیں ہے بلکہ علم نظری مراد ہے یعنی خبر واحد اعتبار کرنے کے لئے ظنية الثُّبُوت کے درجے پر ہیں یعنی پہلا قرآن پھر متواتر پھر اخبار احاد
ابن حجر نے اصل میں یہ کہا ہے
اخبار احاد کی تقسیم مشہور اور عزیز اور غریب میں کی گئی ہے جس سے (مذھب ) مختار (اختیار کردہ) کو علم نظری میں قرائن کے ساتھ فائدہ ہوتا ہے بر خلاف اس کے جو اس کا انکار کرے اور یہ اختلاف لفظی ہے کیونکہ جس نے خبر واحد پر علم کے جواز کا اطلاق کیا اس نے خبر واحد کو مقید کیا کہ یہ (علم ) نظری ہے اور یہ (ان کے ) استدلال کا حاصل ہے اور وہ جو خبر واحد (پر لفظ علم کے) اطلاق کا انکار کرے (یعنی خبر واحد کا علم میں مفید ہونے کا ) تو وہ علم کے لئے لفظ متواتر کو خاص کرتے ہیں اور اس کے سوا سب روایات کو ظنی کے طور پر شمار کرتے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ جو خبر قرائن پر اتر رہی ہو وہ راجح ہے
راقم کے ترجمہ کی تائید اس ترجمہ سے ہوتی ہے
تأويل مختلف الحديث میں أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) لکھتے ہیں
وانقسمت الأحادیث بِاعْتِبَار رواتها إِلَى قَطْعِيَّة الثُّبُوت وظنية الثُّبُوت
اور اعتبار کرنے کے لئے احادیث کو قَطْعِيَّة الثُّبُوت اور ظنی ثبوت میں تقسیم کیا گیا ہے
عقائد میں اپنے اپنے نظریات یا تھیوری پیش نہیں کی جاتیں جو خبروں میں آیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کچھ ثابت کیا جاتا ہے- اور ڈاکٹر عثمانی نے سبز پرندوں والی حدیث، ابراہیم کو دودھ پلانے والی حدیث سے جسم ثابت کیا ہے ان کے الفاظ ہیں
یعنی عثمانی صاحب نے خبر واحد سے ثابت کیا ہے اور ثابت شدہ نصوص ہوتے ہیں نظریات تو تھیوریز ہیں جن میں بات بدلتی رہتی ہے –
خبر واحد کے حوالے سے نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر (مطبوع ملحقا بكتاب سبل السلام) میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کی وضاحت موجود ہے
الخبر إما أن يكون له: * طرق بلا عدد معين. * أو مع حصر بما فوق الاثنتين. * أو بهما. * أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها – سوى الأول – آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار [كأن يخرج الخبر الشيخان في صحيحهما أو يكون مشهورا وله طرق متباينة سالمة من ضعف الرواة والعلل أو يكون مسلسلا بالأئمة الحفاظ المتقنين حيث لا يكون غريبا] .
خبر ہو سکتی ہے ایک طرق سے جس میں عدد معین نہ ہو (یعنی راوی کثیر تعداد ہو) یا دو سے زائد راوی ہوں یا ایک ہو – پس پہلی ہے متواتر … دوسری المشہور … تیسری العزیز … چو تھی الغریب اور سوائے متواتر کے یہ سب خبر واحد ہیں- اور ان میں مقبول بھی ہے جس پر جمہور کے نزدیک عمل واجب ہے اور مردود وہ ہے جس پر راویوں کے احوال کی وجہ سے استدلال لینے میں توقف کیا جاتا ہے – اور خبر واحد میں واقع ہوئی ہیں وہ احادیث جو علم نظری میں مفید ہیں قرائن (مذھب ) مختار کو دیکھتے ہوئے (مثلا) وہ جن کی شیخین (بخاری و مسلم ) نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے یا وہ مشہور ہیں اور ان کے طرق ضعیف راویوں ، علل سے الگ ہیں اور یہ تسلسل کے ساتھ احتیاط کرنے والے حفاظ نے روایت کی ہیں اور غریب نہیں ہیں
مزید یہ کہ علم حدیث کی کتب کی شرح اور لوگوں نے بھی کی ہے – النكت على مقدمة ابن الصلاح میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) کا کہنا ہے
وَذَلِكَ يُفِيد الْعلم النظري َهُوَ فِي إِفَادَة الْعلم كالمتواتر إِلَّا أَن الْمُتَوَاتر يُفِيد الْعلم الضَّرُورِيّ وتلقي الْأمة بِالْقبُولِ يُفِيد الْعلم النظري
اخبار احاد مفید علم نظری میں فائدہ کرتی ہے اور یہ افادہ علم میں متواتر ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ متواتر سے مفید علم ضروری حاصل ہوتا ہے اور امت نے مفید علم نظری کو تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے
مزید لکھا ہے
وَنَقله بَعضهم عَن السَّرخسِيّ من الْحَنَفِيَّة وَجَمَاعَة من الْحَنَابِلَة كَأبي يعلى وَأبي الْخطاب وَابْن حَامِد وَابْن الزَّاغُونِيّ وَأكْثر أهل الْكَلَام من الأشعرية وَغَيرهم وَأهل الحَدِيث قاطبة وَمذهب السّلف عَامَّة وَقد تبين مُوَافقَة ابْن الصّلاح لِلْجُمْهُورِ وَهُوَ لَازم للمتأخرين فَإِنَّهُم صححوا أَن خبر الْوَاحِد إِذا احتفت بِهِ الْقَرَائِن أَفَادَ الْقطع
اور بعض احناف نے السَّرخسِيّ سے نقل کیا ہے اور حنابلہ کی ایک جماعت جسے ابو یعلی اور ابو الخطاب اور ابن حامد اور ابْن الزَّاغُونِيّ اور اہل کلام میں الأشعرية اور دوسروں نے اور اہل حدیث قاطبة نے اور مذھب سلف عام نے اور اس پر ابن صلاح نے جمہور کی موافقت واضح کی ہے اور یہ متاخرین کے لئے لازم کیا ہے کہ اگر خبر واحد پر قرائن ہوں تو یہ قطعی (علم ) میں فائدہ مند ہیں
البحر المحيط في أصول الفقه میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) لکھتے ہیں
سَبَقَ مَنْعُ بَعْضِ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ التَّمَسُّكِ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ فِيمَا طَرِيقُهُ الْقَطْعُ مِنْ الْعَقَائِدِ؛ لِأَنَّهُ لَا يُفِيدُ إلَّا الظَّنَّ، وَالْعَقِيدَةُ قَطْعِيَّةٌ، وَالْحَقُّ الْجَوَازُ، وَالِاحْتِجَاجُ إنَّمَا هُوَ بِالْمَجْمُوعِ مِنْهَا وربما بلغ مبلغ القطع، ولهذا أثبتنا المعجزات المروية بالآحاد
یہ گزرا ہے کہ بعض متکلمین نے عقائد میں اخبار احاد سے قطعی (علم ) کے طور پر تمسک کرنے سے روکا ہے کہ ان سے ظن میں فائدہ ہوتا ہے اور عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور حق ہے جواز پر اور ان دونوں کے مجموع سے دلیل لینے پر اور بعض اوقات (خبر) پہنچانے والا قطعی خبر لاتا ہے اور اس بنا پر ہم ان معجزات کا اثبات کرتے ہیں جو اخبار احاد میں آئے ہیں
ابن حزم کتاب الإحكام في أصول الأحكام میں کہتے ہیں
قال أبو سليمان والحسين عن أبي علي الكرابيسي والحارث بن أسد المحاسبي وغيرهم أن خبر الواحد العدل عن مثله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجب العلم والعمل معا وبهذا نقول وقد ذكر هذا القول أحمد بن إسحاق المعروف بابن خويز منداد عن مالك بن أنس وقال الحنفيون والشافعيون وجمهور المالكيين وجميع المعتزلة والخوارج إن خبر الواحد لا يوجب العلم
ابن حزم نے کہا ابو سلیمان اور حسین نے امام کرابیسی سے روایت کیا اور حارث محاسبی اور دیگر سے کہ خبر واحد جو رسول اللہ سے ملے تو یہ علم اور عمل میں واجب ہے اور یہی ہمارا قول ہے اور اس قول کا ذکر أحمد بن إسحاق المعروف ابن خويز منداد نے امام مالک کے لئے کیا ہے – اور احناف اور شوافع اور جمہور مالکیہ اور تمام المعتزلة والخوارج کہتے ہیں کہ خبر واحد سے علم واجب نہیں ہے
فتح الباری میں ابن رجب نے کہا
أن خبر الواحد يفيد العلم إذا احتفت به القرائن
بے شک خبر واحد علم میں فائدہ دیتی ہے جب قرائن سے مل جائے
متکلمین میں اشاعرہ اس کے قائل ہیں کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا- وہابی علماء کے مطابق نووی اور ابن حجر دونوں عقیدے میں اشعری ہیں
لہذا عثمانی صاحب کو لکھنا چاہیے تھا
اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
اس طرح یہ جملہ صرف دیو بندی اور بریلوی فرقے سے کہا گیا ہے – اہل حدیث فرقہ اور حنبلی وہابی خبر واحد پر عقیدہ لینے کے قائل ہیں
راقم کہتا ہے کہ یہ جملہ بھی صرف ان مسائل میں چلتا ہے جن کا تعلق اسماء و صفات سے ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ آپ کا کہنے کا مقصد ہوا کہ ڈاکٹر عثمانی نے اصول سمجھا نہیں اور فرقوں پر لگا دیا
راقم نے جواب میں کہا
عثمانی بشر تھے اور غلطی بھی کرتے تھے اور اپنی کتب میں تصحیح و تبدیلی بھی کرتے رہے ہیں اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے خبر واحد کو دلیل بنایا ہے اور اگر وہ ان کو عقائد میں دلیل نہیں سمجھتے تو لکھتے نہیں
یہاں انہوں نے اصحاب حدیث کا جو اتفاق نقل کیا ہے یہ صرف ان محدثین کا اتفاق ہے جو مذھب میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں یعنی ابن حجر یا النووی وغیرہ – اغلبا ان کو یہ مغالطہ اسی بنا پر ہوا کہ انہوں نے ابن حجر کا حوالہ دیا ہے جو عقیدے میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں لیکن محدث بھی مشہور ہیں – اس کے بر خلاف حنابلہ محدثین خبر واحد کو عقیدے میں لیتے ہیں
وہابی مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) فتوی میں کہتا ہے
وأن خبر الآحاد إذا استقام سنده حجة يجب العمل به عند جميع أهل العلم في العقائد وغيرها
اور خبر واحد اگر اس کی سند قائم ہو – حجت ہے – اس پر تمام اہل علم کے ہاں اس پر عمل واجب ہے عقائد میں اور دوسرں میں
وہابی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے
والآحاد يحتج به في الفروع بإجماع، ويحتج به في العقائد على الصحيح من قولي العلماء الإمام ابن عبد البر والخطيب البغدادي إجماعا في العقيدة والفروع، ومن رأى أن لا يحتج به في العقائد قد خالف فعله رأيه فاحتج به في العقائد والأصول، بل احتج بالضعيف منه في ذلك.
فروع میں اخبار احاد سے دلیل لینے پر اجماع ہے اور ان میں جو صحیح ہوں ان سے عقائد میں بقول علماء کےدلیل لی جائے جن میں ہیں امام ابن عبد البر اور خطیب بغدادی کہ اجماع ہے اخبار احاد سے عقائد اور فروع میں دلیل لینے پر اور جس نے یہ رائے رکھی کہ ان سے عقیدہ میں دلیل نہیں لی جائے گی اس نے مخالفت کی اپنی ہی رائے کی کہ اس نے رائے سے عقائد میں اور اصول میں دلیل لی بلکہ اس سے جو اس سے بھی ضعیف ہے
ابن عبد البر نے کہا
كلهم يدين بخبر الواحد العدل في الاعتقادات، ويعادي ويوالي عليها، ويجعلها شرعاً وديناً في معتقده، على ذلك جميع أهل السنة). (التمهيد لابن عبد البر1/8).
یہ فتوی سلفی عقائد رکھنے والے حنابلہ کے منہج کے عین مطابق ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ اگر میں خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ کی احادیث کا خبر واحد کا انکار کروں تو کیا میں کافر ہوں؟
راقم نے جوابا کہا تواتر کا شمار ادلہ قطعیہ میں کیا گیا ہے اس کا منکر کافر ہے جب ان اجزاء کو عقائد میں بیان کیا جاتا ہے تو اہلسنت کی جانب سے ان کو تواتر قرار دیا جاتا ہے اور اس بنا پر اہل سنت کا ان کا عقائد میں شامل ہونے پر اجماع ہے
مسئلہ عذاب قبر ، خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ متواتر احادیث سے معلوم ہے
عثمانی مقلد معترض نے کہا ابن حزم برزخی جسم کے قائل نہیں کیا ڈاکٹرصاحب رح نے اس بات پر ابن حزم کی تکفیر کی
راقم کہتا ہے
قرآن و احادیث کے تفسیری اختلاف پر کفر کا فتوی نہیں دیا جاتا الا یہ کہ ادلہ قطعیہ کا رد ہو رہا ہو – مثلا بعض مسائل میں اصحاب رسول تک کی اختلافی و تفسیری آراء ملتی ہیں لیکن ان سے قرآن کا یا تواتر کا رد نہیں ہوتا – برزخی جسم کا منکر کافر نہیں لیکن اس شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مجرد روح نعمت و راحت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ جس کا یہ شخص جواب نہ دے سکے گا کیونکہ اس کو جو علم پہنچا اس نے اس کو جھٹلا دیا
عثمانی مقلد معترض نے کہا عقیدے میں ایک صحیح اور ایک کفر ہوتا ہے – بدعقیدہ شخص کو صرف گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ اسکی واضح طور پر تکفیر کی جاتی ہے
راقم نے جوابا کہا
اگر ادلہ قطعیہ یعنی قرآن و متواتر حدیث کا انکار ہو تو بدعقیدہ شخص کی تکفیر کی جاتی ہے بصورت دیگر اس کو مضل یا گمراہ یا زایغ قرار دے کر اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا : امام بخاری رح نے روایت کیا ہے کہ عذاب قبر مویشی سنتے ہیں تو کیا وہ کافر ہیں؟ کیا خود بخاری کی اس حدیث سے ہی برزخ میں جانوروں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ کیونکہ جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر توصحیح مسلم میں ہے
راقم نے جوابا کہا
صحیح بخاری کی یہ خبر واحد منکر ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
یہ روایت واقعہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اس وجہ سے قابل رد ہے – قرائن اس کے خلاف ہیں اس بنا پر یہ متن منکر ہے – ہم اس کو اور باقی کسوف کی روایات کو ایک ساتھ صحیح نہیں کہہ سکتے – امام بخاری سے یہاں تصحیح میں غلطی ہوئی ہے – زیادہ توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ اگر صحیح حدیث میں علت موجود ہے تو اس کو رد کریں نہ کہ معلول حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے رہیں – اللہ تعالی نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم کیا ہے کسی عثمانی یا بخاری کی اتباع کا حکم نہیں کیا –
اس حدیث کو اگر صحیح تصور کریں تو اس میں مویشی کہاں کے ہیں ؟ یہ ہم کو معلوم نہیں ہے
کیونکہ جہنم میں مویشی کی خبر نہیں ہے – جب جہنم میں مویشی ہیں ہی نہیں اور عذاب برزخ وہاں ہو رہا ہے تو میت کی یہ چیخ سات آسمانوں میں زمیں میں سب میں گونج نہیں سکتی ؟ ایسی بات حماقت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس سے میت مزید پاور فل ہو گئی کہ اس کی آواز زمین و آسمانوں میں سب جگہ ہے
اب ایک امکان ہی رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے امام بخاری نے اس کو جہنم میں مویشی سمجھا ہو اگر وہ ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے – اور ممکن ہے انہوں نے اس عذاب کو زمین پر ہی سمجھا ہو اگر وہ فرقوں جیسا عقیدہ رکھتے تھے – امام بخاری کا عقیدہ اس حوالے سے کیا ہے راقم کو علم نہیں ہے اور اس میں اشکال رہا ہے ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے واضح نہیں لکھا کہ عذاب روح کو ہے یا جسم کو ہے – یعنی فرقوں کو بھی اعتراف ہے کہ صرف الصحیح میں احادیث نقل کرنے سے عذاب قبر کے حوالے سے امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا واضح نہیں ہوتا – اس بنا پر میں کہتا ہوں مجھ کو عذاب قبر کے باب میں بخاری کے عقیدہ کا صحیح علم نہیں ہےاور اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگا سکتا
یہ اصرار کیوں ہے کہ اس خبر واحد کو مان لیا جائے تاویل کی جائے جبکہ آپ کا قول ہے خبر واحد کو عقیدہ میں نہ لو – اب جب ہم کو علم آ گیا ہے کہ کسوف کی باقی روایات سے یہ متصادم ہے اور متن میں غلطی ہے پھر بھی اس حدیث کی تاویل کی بات کرنا مسلک پرستی کی نشانی ہے
امام بخاری نے کیا سمجھا یا ڈاکٹر عثمانی نے کیا کہا اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ایسا عقیدہ بیان کیا یا راوی بھول گیا یا غلطی کر گیا یا مختلط ہوا یا وہم کا شکار ہوا
عثمانی مقلد معترض نے کہا کیا ڈاکٹر عثمانی صاحب زمین پر چوپایوں کے سننے کے قائل تھے؟
راقم نے جوابا کہا
ڈاکٹر عثمانی صاحب چوپایوں کے سننے کے قائل نہیں کیونکہ انہوں نے مسلم کی ایک حدیث پر تبصرہ کر کے اپنا موقف وہاں واضح کر دیا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا طریقہ متکلم اہل رائے جیسا یا اشاعرہ جیسا ہے وہ حدیث پر رائے زنی کرتے ہیں ، تاویل کرتے ہیں – لیکن تاویل میں کوئی اصول نہیں ہوتا کوئی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے جو روایت کی تطبیق قرآن سے کر دے – اچھی تاویل کر دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تاویل بالکل وہی ہے جو امام بخاری نے بھی کی ہو گی – امام بخاری نصوص کی تاویل کرتے تھے –
امام بخاری کے مقابلے پر وہ محدثین تھے جو قرن ثلاثہ میں عقائد میں خبر مرسل تک کو لیتے تھے مثلا امام احمد سے لے کر دارقطنی تک ، تابعی مجاہد کے مرسل قول پر اس عقیدہ کے حامل تھے کہ عرش پر روز محشر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھا دیا جائے گا- اس کی مخالفت کرنے والے کو وہ جھمی کہتے تھے اور آج تک یہ عقیدہ وہابیوں میں موجود ہے – لہذا بعض محدثین کے نزدیک خبر واحد مرسل بھی یقینی ہوتی تھی اور اس پر عقیدہ استوار بالکل کیا جا سکتا تھا – اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقائد میں ہمارا یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج ان محدثین جیسا بالکل نہیں ہے- دوسری طرف امام بخاری اور امام ترمذی اور بہت سے اور محدثین تھے جو حدیث کی تاویل بھی کرتے تھے- اس کی دلیل ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں امام بخاری اور امام ترمذی دونوں نے اپنی کتب میں احادیث یا آیات صفات کی بعض مقام پر تاویل کی ہے
عثمانی مقلد معترض نے کہا
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ [ص:79] أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا» فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ
صحیح بخاری کی إس حدیث میں مویشی عذاب سن رہے ہیں جس طرح مرغ فرشتے کو دیکھ سکتا ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام مویشی سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
راقم نے کہا
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اس حدیث میں البَهَائِمُ کا لفظ ہے جس کا مطلب وہ چوپائے ہیں جو مویشی ہیں جن کو پالا جاتا ہے یہ خچر یا گھوڑا نہیں ہیں بلکہ یہاں روایت میں مویشی مراد ہیں
برزخ میرے نزدیک بھینسوں کا باڑا نہیں ہے مجھے نہیں معلوم امام بخاری کیا تاویل کرتے تھے
قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ مرغا فرشتے کو دیکھتا ہے یا مویشی عذاب قبر سنتا ہے
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَالحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے فرمایا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مرغ کو چختے یا بانگ دیتے سنو تو اللہ سے رزق طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ سے شیطان کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے
راقم کہتا ہے یہ روایت تو امام بخاری سے بڑے محدث ابن معین نے ہی رد کی ہوئی ہے
وفي «كتاب» الساجي: قال يحيى بن معين: جعفر بن ربيعة ليس بشيء ضعيف.
دوسری سنن ابی داود میں ہے
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلَابِ، وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ، فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لَا تَرَوْنَ” ,
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب کتے کا بھوکنا سنو اور گدھے کی آواز رات میں تو اللہ سے پناہ طلب کرو کیونکہ وہ وہ دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے
راقم کہتا ہے اس کی سند تو خود عثمانی صاحب کے اصول پر صحیح نہیں کیونکہ اس میں ابن اسحاق ہے جس کو انہوں نے دجال قرار دیا ہے مزید یہ کہ امام احمد نے اس کے راوی محمد بن إبراهيم التيمي کو رد کیا ہے
قال أحمد في حديثه شيء روى مناكير
لہذا یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں
کتا بلی مرغا گدھا خچر فرشتوں کو جنات کو نہیں دیکھتے نہ سنتے ہیں ؟ سوال عثمانی صاحب کی تاویلات کا نہیں ہے – سوال حقائق کا ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جانور غیب میں دیکھتا ہے ؟ معلوم ہوا اس کی بودی دلیلیں ہیں اور بقول آپ کے خبر واحد پر عقیدہ بھی نہیں بنتا پھر اس دلیل کو آپ کیسے پیش کر رہے ہیں
عثمانی مقلد معترض نے کہا
مرغ والی حدیث بخاری میں دوسری سند سے بھی ہے جس سے امام بخاری رح نے احتجاج کیا ہے حدیث کی سند یہ ہے (حدثنا محمد بن سلام: اخبرنا مخلد بن یزید: اخبرنا ابن جریج: قال ابن شهاب: اخبرني يحي بن عروة: انه سمع عروة يقول: قالت عائشة:۔۔۔۔)۔
نبی علیہ السلام نے جنات کے فرشتوں سے لی گئی بات کو کاھن کے کان میں ڈالنے کو مرغ کے آواز کی طرح ڈالنے سے تشبیہ کیوں دی
راقم کہتا ہے
حدیث جس کا آپ نے ذکر کیا وہ یہ ہے
حدیث نمبر: 6213
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَيْسُوا بِشَيْءٍ”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ”.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات، سچی بات ہوتی ہے جسے جِن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
اس میں کہاں لکھا ہے کہ مرغ نے فرشتے کو یا جن کو دیکھا؟ جس طرح مرغ بانگ دیتا ہے جن اسی طرح کاہن کے دماغ میں اس کو ڈالتا ہے- مرغ کی بانگ تو سب سنتے ہیں اس میں دیکھنا کہاں ثابت ہوا کہ مرغے نے جن کو یا فرشتے کو دیکھا – آپ جس حدیث کو لائے ہیں اس میں آپ کے مدعا کا ذکر نہیں ہے
اب جب یہ ثابت ہی نہیں ہوا کہ جانور غیب میں جھانک سکتے ہیں تو ان روایات سے ہم دلیل نہیں لیں گے
عثمانی مقلد معترض نے کہا : امام بخاری رحمهما الله کے متعلق یہ کہنا کہ یہ خبر واحد صحیح پر عقیدہ بنانے کے قائل تھے ان پر کھلا بہتان ہے
راقم نے جوابا کہا : اگر ہم صحیح بخاری کھول کر دیکھیں تو امام بخاری کا جامع الصحیح کا مقصد ظاہر ہو جاتا ہے – اس کا مقصد صحیح حدیث دینا ہے جس سے دین میں دلیل لی جا سکتی ہو –
لیکن آپ کے بقول وہ جن احادیث کو صحیح کہتے تھے ان پر خود ایمان نہیں رکھتے تھے جو ظاہر ہے کھلا جھوٹ ہے
راقم بعض روایات کی تصحیح پر امام بخاری سے اختلاف کرتا ہے کیونکہ روایت کو صحیح کہنا محدث کا اجتہاد ہے جو صحیح یا غلط ہو سکتا ہے – افسوس آپ کا مطمح نظر ہے کہ ہر وقت امام صاحب کا دفاع کیا جائے – لیکن امام بخاری کا دفاع کرنا میرا مذھب نہیں ہے – میرا مقصد صحیح حدیث کو جاننا ہے – امام بخاری نے ان روایات تک کو صحیح کہا ہے جن کو امام مالک نے رد کرنے کا حکم دیا- لیکن امام بخاری نے ان کو صحیح میں لکھا ہے لہذا ان پر اور انکی لائی گئی روایات پر محققین تنقید کرتے رہے ہیں – امام اابن بی حاتم نے باقاعدہ بيان خطأ البخاري کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں تاریخ الکبیر و تاریخ الاوسط میں امام بخاری کی راویوں پر غلطیاں جمع کی ہیں اور اس میں ٧٦٦ غلطیاں اندارج کی ہیں
عثمانی مقلد معترض نے کہا : آپ کا امام بخاری رح پر اعتراض ہے کہ وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے ہیں یقینا یہ قول تنقیص پر محمول ہے
راقم نے جوابا کہا
امام بخاری اہل رائے میں سے نہیں ہیں -بلا شبہ امام بخاری نے خبر واحد کو عقیدہ میں لیا ہے اور اس پر دال ان کی مسئلہ خلق قرآن پر تالیف خلق افعال العباد ہے جس میں جا بجا خبر واحد سے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے، پھر مزید یہ کہ جامع الصحیح کی ٣٠٠٠ ہزار سے اوپر روایات ہیں – کوئی یہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ امام بخاری نے خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیا بلکہ اس کا الٹ ثابت ہوتا ہے
امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ لیتے تھے ان کی کتابیں پکار رہی ہیں – امام بخاری محدث ہیں کوئی حنفی فقیہ نہیں جو خبر واحد سے عقیدہ نہ لو کی بات کرتے
خبر واحد پر وضاحت
راقم وضاحتا کہتا ہے کہ قرآن میں دلائل موجود ہیں کہ خبر واحد علم یقینی کا درجہ رکھتی ہے
نبا الیقین
خبر واحد کو قرآن میں نبا الیقین یعنی یقینی خبر کہا گیا ہے- مثلا ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو آ کر مملکت سبا پر خبر واحد دی – سلیمان نے خط لکھ کر اس کی تصدیق کی یعنی قرائن دیکھ کر اس خبر کو قبول کیا- ہدہد نے خبر کو یقینی خبر کہا اور قرآن میں اس کا رد نہیں بلکہ اثبات ہے وہ خبر واحد سچی تھی اور تمام مومن بنی اسرائیل نے اس خبر واحد کو قبول کیا – اس وقت قرآن اور انجیل نازل نہیں ہوئے تھے اور توریت زبور نازل ہو چکی تھیں – قرآن میں ہے کہ ملکہ سبا کی خبر کی صداقت کو راوی یعنی ہدہد کی عدالت کے علاوہ زمینی قرائن سے جانچا گیا نہ کہ وحی الہی کا انتظار کیا گیا- اس طرح ہمیں علم دیا گیا کہ اگر قرائن و شواھد مل جائیں تو خبر واحد سے علم ظنی نہیں خبر یقین مل جاتی ہے اور ظاہر ہے خبر یقینی ، عقائد میں لی جائے گی-
اہل ذکر سے دلیل لینا
حنبلی عالم ابن عقیل خبر واحد پر کتاب الفنون ص ٦٦٣ اور ٦٣٨ میں کہتے ہیں
حنبلی (یعنی ابن عقیل) نے استدلال کیا کہ خبر واحد سے علم واجب ہے اور اعتقادات کا اثبات ہوتا ہے اس پر تین آیات ہیں
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سوره ألرعد
کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے
اور اللہ کا قول ہے
سوره الشعراء أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا ان کے لئے نشانی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ سورہ یونس
تو اگر ان کو شک ہے جو نازل ہوا ہے تمہاری طرف تو ان سے سوال کرو جن پر تم سے پہلے کتاب نازل ہوئی
اور مراد ہے اور اشارہ ہے ان کی طرف جو اسلام لائے اور تصدیق کی اور ان میں ہیں کعب احبار اور وھب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام اور جو اسلام لائے اور یہ تمام احاد ہیں احاد سے اوپر نہیں جا سکتے
رجم کا حکم
قرآن میں ہے جو ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو کافر ہے ۔ رجم کرنا یا تو اللہ کا حکم ہے یا نہیں ہے – امت نے اس
کو خبر واحد کی بنیاد پر لیا ہے اور کسی سے منقول نہیں کہ امام ابو حنیفہ نے اس کا انکار کیا ہو-
ابن عقیل نے مزید وضاحت کی
ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ خبر واحد ( صحیح المتن و سند جو نکارت و شذوذ سے پاک ہو، چاہے بنی اسرائیل کی روایت ہو ) اس سے مفید علم یقینی حاصل ہو سکتا ہے
واضح رہے کہ جب قرائن ساتھ نہ دیں تو خبر واحد کو رد بھی کیا جاتا ہے جس کی تفصیل راقم کی علم حدیث کی کتاب میں ہے
دوم متواتر میں بھی سند میں ضعیف راوی ہوتے ہیں -مثلا کہنے والے کہہ تو دیتے ہیں قرآن تواتر سے ملا ہے لیکن ان کو یہ علم نہیں کہ اس کی سند ہوتی ہے جس عاصم بن ابی النجود سے آ رہی ہے اور عاصم ضعیف ہیں
اور قرآن کی قرات ہیں جو دس متواتر کہی جاتی ہیں لیکن ان میں قرات میں الفاظ بدل بھی جاتے ہیں اگرچہ مفہوم نہیں بدلتا
تفصیل اس بلاگ میں ہے
ماشاء الله ـــــ جزاک الله ــــ بھت ہی
زبردست جواب دیا ابو شہر یار بھائی نے
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله ـــ بھائی کے
علم میں مزید اضافہ عطا فرمائے اور اجر
عظیم عطا فرمائے آمین ـ
بس اب اختلاف
کرنے والوں کے لیئے ہے کہ
وہ تکبر چھوڑ کر غور کرین
امین
———–
اللہ ہم سب کو عقل دے
شیخ آپ نے پوسٹ میں لکھا ہے کہ عثمانی صاحب کو لکھنا چاہیئے تھا کہ:(( اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں)) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک اس جملے کا کیا مطلب ہوگا؟
سرے دست اس کا وقت نہیں ہے- اس میں ان کی بہت سی آراء ہیں – آپ اشعری علماء کی کتب میں دیکھ سکتے ہیں کہ وہ خبر واحد سے عقیدہ لینے کو کب کب رد کر رہے ہیں اور کب کب قبول کرتے ہیں
مثلا ایک حدیث ہے
انما الاعمال بالنیات بہت سنی جاتی ہے لیکن نیت کا تعلق عقیدے سے ہے اور اس کی بنیاد پر عمل ہوتا ہے
لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کو صرف ایک صحابی نے روایت کیا ہے اور خبر واحد ہے
اس کو سب فرقے دلیل میں پیش کرتے ہیں
شرح العقيدة الطحاوية
المؤلف: صدر الدين محمد بن علاء الدين عليّ بن محمد ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ)
وَخَبَرُ الْوَاحِدِ إِذَا تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ، عَمَلًا بِهِ وَتَصْدِيقًا لَهُ: يُفِيدُ الْعِلْمَ [الْيَقِينِيَّ] عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ أَحَدُ قِسْمَيِ الْمُتَوَاتِرِ, وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ سَلَفِ الْأُمَّةِ فِي ذَلِكَ نِزَاعٌ، كَخَبَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: “إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
ابن أبي العز الحنفي، کہتے ہیں خبر واحد سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے
یعنی خود اشاعرہ کے علماء بھی خبر واحد کو لے لیتے ہیں اگرچہ ان کی جانب سے لکھی گئی اصول حدیث کی کتب میں خبر واحد پر علم یقینی نہ لینے کا ذکر ہے
شیخ پہلے آپ نے اس جملے کو کہ ((خبر واحد صحیح تک سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا )) ڈاکٹر عثمانی صاحب رح کی غلطی قرار دیا اور دلیل یہ دی کہ انہوں نے خود لٹریچر میں خبر واحد سے عقیدے کا اثبات کیا ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی تصحیح آپ نے جملے کی اس تبدیلی
سے فرمائی کہ:- (( اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں)) ___ لیکن اب آپ کا یہ جملہ بھی غلط ثابت ہوا کیونکہ بقول خود آپ کے اشاعرہ کے علماء بھی خبر واحد صحیح سے عقیدے کا اثبات کرتے ہیں؟ شیخ یہ معاملہ کچھ اور ہے ابو عبداللہ کی بات پر غور تو کیجئے۔
یہ جملہ صحیح ہوتا اگر محدثین کا اتفاق ملتا – امام احمد ہمارے نزدیک عود روح کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ نہیں ؟ پھر یہ اتفاق کیسے ممکن ہے
عود روح تو روایت سے ہی معلوم ہے لہذا عثمانی صاحب کا جملہ غلط ہے
اب جو اس خبر واحد کے اصول کو پیش کرتے ہیں تو وہ کون ہیں ؟ نہ وہ اہل حدیث ہیں نہ وہابی نہ سلفی- یہ صرف اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں -یہ بھی تحریری طور پر مشہور ہے یعنی یہ لوگ اس اصول کو لکھتے ضرور ہیں لیکن عملا اس پر کسی کا عمل نہیں ہے – سب خبر واحد سے دلیل لیتے ہیں
———
مزید وضاحت کر دوں اشاعرہ خبر واحد کو صرف اسماء و صفات میں رد کرتے ہیں
دیگر مسائل مثلا عذاب قبر، سماع الموتی وغیرہ میں وہ بھی خبر واحد کو قبول کر رہے ہیں
یہ جملہ اور درست کیا جا سکتا ہے کہ اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا
کہتے ہیں جتنا چھانو اتنا کر کرا ہو جاتا ہے
یہاں ایسا ہی ہو گیا ہے – عثمانی صاحب کا جملہ موجودہ دور کے فرقوں میں سے کسی بھی فرقے پر فٹ نہیں بیٹھے گا
سب خبر واحد کو لے رہے ہیں کیونکہ اشاعرہ بھی اب وہ اشاعرہ نہیں رہے یہ تصوف کو اپنے عقائد میں ملا چکے ہیں
اور امام احمد کے مذھب سے نکلے حنابلہ جدید و قدیم نے کبھی بھی خبر واحد کو رد نہیں کیا ہے
شیخ (( اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا)) اول اس اصول حوالہ درکار ہے دوئم کیا نؤوی اور ابن حجر اسماء و صفات سے متعلق خبر واحد کو نہیں مانتے؟
شرح صحیح مسلم میں نووی نے لکھا ہے
وَلِلْأُصُولِيِّينَ الْمُتَأَخِّرِينَ خِلَافٌ فِي تَسْمِيَةِ اللَّهِ تَعَالَى بِمَا ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَبَرِ الْآحَادِ فَقَالَ بَعْضُ حُذَّاقِ الْأَشْعَرِيَّةِ يَجُوزُ لِأَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ عِنْدَهُ يَقْتَضِي الْعَمَلَ وَهَذَا عِنْدَهُ مِنْ بَابِ الْعَمَلِيَّاتِ لَكِنَّهُ يَمْنَعُ إِثْبَاتَ أَسْمَائِهِ تَعَالَى بِالْأَقْيِسَةِ الشَّرْعِيَّةِ
اصولیین متاخرین اس کے خلاف ہیں کہ اللہ کو وہ نام دیا جائے جو خبر واحد سے ملا ہو پس بعض ماہرین الْأَشْعَرِيَّةِ نے کہا خبر واحد سے عمل کا فیصلہ تو ہو گا … لیکن اسماء الحسنی کے اثبات سے منع کیا جائے گا
التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث ميں نووي نے کہا ہے کہ صحيحين کي احاديث پر
المحققون والأكثرون، فقالوا: يفيد الظن ما لم يتواتر
اکثر محققين کا کہنا ہے ان سے ظن ميں فائدہ ہے جو متواتر نہيں ہيں
البانی ایک سوال کے جواب میں مفوضہ پر کہتے ہیں
وكما جاء في بعض كتب الأشاعرة كالحافظ ابن حجر العسقلاني، وهو من حيث الأصول والعقيدة أشعري
اور ایسا بعض الأشاعرة کی کتب میں ہے جیسے ابن حجر عسقلانی کی کتب اور وہ اصول (یعنی عقائد ) میں أشعري عقیدہ پر ہیں
نووی بھی عقیدے میں اشاعرہ والا عقیدہ رکھتے ہیں لهذا وہابی عالم عالم مشهور حسن سلمان نے کتاب لکھی جس کا نام ہے
الردود والتعقبات على ما وقع للإمام النووي في شرح صحيح مسلم من التأويل في الصفات وغيرها من المسائل المهمات
جس میں ان کے مطابق امام نووی بھی صفات میں صحیح عقیدہ نہیں رکھتے تھے – اسی طرح ان کے مطابق ابن حجر بھی كان متذبذباً في عقيدته صفات پر عقیدے میں متذبذب تھے
Ap.ne kaha k.khbr e wahid b ilm yakeeni ka darjarakhi hai
Or aqeedy mn asbat ho sakta hai
Or tafseeri aqwal.ki bina pr kisi ki takfeer nsi ho sakti
Toh wo hadith jis mn zikr hai sab se phle mera noor tskhleeq hoA
Kbhr e wahid b hai or sanadan. B sahi hai .. Toh us ki zahir pr usko.le kr kehna k noor min.noorillah yani Allah k noor k.sabab se noor hai Ap s.a.w ki zat e aqdas es mn to phur toh takfeer nai bnti in logo. Ki
Sirf un k shia hony se hadith ko rad nai kr sakty ya wo ravi mukhtalt mn galt kbhr dd ge ? Kya mukhtalt shakhs ki fiwayt es alam mn aubool nai ki jati???? Chahy wo siqqa o hafiz ho
اپ نے اس کو مکمل نہیں پڑھا
////
واضح رہے کہ جب قرائن ساتھ نہ دیں تو خبر واحد کو رد بھی کیا جاتا ہے جس کی تفصیل راقم کی علم حدیث کی کتاب میں ہے
////
سوائے اس نور والی روایت کے کوئی اور روایت نہیں جس میں صریح لکھا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی ذات کا حصہ ہیں
دوم نور کو خلق ظلمت کے ساتھ کیا گیا ہے جس کا ذکر سورہ الانعام میں ہے
لہذا نور مخلوق ہے – اللہ خود نوری نہیں ہے ورنہ خالق کا مخلوق میں ملنا لازم آئے گا تمام عالم قدیم و لافانی ہو جائے گا جہاں جہاں روشنی جا رہی ہو
———
اس حدیث کو رد متن کی بنا پر بھی کیا گیا ہے اس میں کروبی کا لفظ ہے جو قریش کی عربی نہیں ہے نہ کسی اور حدیث میں رسول اللہ نے بولا ہے
——-
سندا اس میں مختلط عبد الرزاق ہے جنہوں نے عالم اختلاط میں رسول اللہ کو نور بنا دیا ہے یہ بدعتی عقیدہ رافضییوں کا بھی ہے جو اغلبا انہوں نے ان سے سنا اور بیان کر دیا
سوالات ابن هاني؛ 228/5 کے مطابق احمد نے عبد الرزاق کے حوالے سے کہا
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة
جس نے عبد الرزاق کے نابینا ہونے کے بعد اس سے احادیث سنی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ باطل حدیثوں کی تلقین قبول کر لیتے تھے۔
———–
مختلط شخص اس عالم میں روایت کرتا ہے جس کا ممکن ہے ہر ایک کو علم نہ ہو کہ یہ مختلط ہے
اس کی مثال بھی موجود ہے
محدث ابن صلاح کا قول ہے عبد الرزاق ابن همام مختلط تھے – اس پر حافظ عراقی نے لکھا ہے
لم يذكر المصنف أحدا ممن سمع من عبد الرزاق بعد تغيره إلا إسحق بن إبراهيم الدبرى فقط وممن سمع منه بعد ما عمى أحمد بن محمد بن شبوية قاله أحمد بن حنبل وسمع منه أيضا بعد التغير محمد بن حماد الطهرانى والظاهر أن الذين سمع منهم الطبرانى فى رحلته إلى صنعاء من أصحاب عبد الرزاق كلهم سمع منه بعد التغير وهم أربعة أحدهم الدبرى الذى ذكره المصنف وكان سماعه من عبد الرزاق سنة عشر ومائتين
مصنف ( ابن الصلاح) نے ذکر نہیں کیا کہ عبد الرزاق سے کس نے تغیر کے بعد سنا صرف اسحاق بن ابراہیم کے اور جس نے سنا ان کے نابینا ہونے کے بعد ان میں ہیں احمد بن محمد یہ امام احمد نے کہا اور ان سے اس حالت میں سنا محمد بن حماد نے اور ان سے سنا طبرانی نے جب صنعاء کا سفر کیا – ان سب نے بعد میں سنا اور یہ چار ہوئے جن میں الدبری ایک ہیں ان سب نے ١٢٠ ھ میں سنا
عالم اختلاط میں عبد الرزاق نے معمر عن ابن المنکدر کی سند سے بھی روایات بیان کی ہیں اور غیر عالم اختلاط میں بھی کی ہیں مثلا
شعب الإيمان از بیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، قَالَ: أَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ الدَّبَرِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: ” ثَلَاثَةٌ هُنَّ فَوَاقِدُ: جَارُ سَوْءٍ فِي دَارِ مَقَامِهِ، وَزَوْجَةُ سَوْءٍ إِنْ دَخَلْتَ عَلَيْهَا آذَتْكَ، وَإِنْ غِبْتَ عَنْهَا لَمْ تَأْمَنْهَا، وَسُلْطَانٌ إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ يَقْبَلْ مِنْكَ وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ يُقِلْكَ “
سنن الکبری بیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّغَانِيُّ , ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أنبأ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْفَيْءِ فَقَلَصَ عَنْهُ , فَلْيَقُمْ؛ فَإِنَّهُ مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ “
إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ نے عالم اختلاط میں سنا ہے اور یہاں پوری سند موجود ہے
عالم اختلاط تو بیماری ہے کسی کو بھی ہو سکتی ہے چاہے پہلے حافظ و ثقہ رہا ہو – اسی وجہ مختلطین پر باقاعدہ کتب لکھی گئی ہیں
ہمارا مطلوب
1ـ اتصال السند
2ـ تصریح قول ابن عباس(یہ تو ہر حال میں ثابت کرنا ہوگا ورنہ ابن عباس کی طرف متعہ متعہ کے جواز پر تصریحات موجود ہیں)
👇👇👇
مسند أبي عوانة (3/ 23)
قال يونس قال ابن شهاب وسمعت الربيع بن سبرة يحدث عمر بن عبد العزيز وأنا جالس
أنه قال ما مات ابن عباس حتى رجع عن هذا الفتيا..ابو شہریار بھائی متعہ کی حلت کے قائل اہل تشیع کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے ۔۔مدلل جواب درکار ہے
ابن عباس متعہ کے جواز کا فتوی دیتے تھے – یہ متعدد سندوں سے معلوم ہے
ان کا اس فتوی سے رجوع کرنا بھی بیان کیا جاتا ہے
مثلا جیسے اس سند میں عمر بن عبد العزیز کا قول بیان ہوا ہے کہ ابن عباس نے اس فتوی سے رجوع کیا
لیکن ظاہر ہے یہ سند منقطع ہے عمر بن عبد العزیز کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے
میرے علم میں ابن عباس کا رجوع کرنے کے حوالے سے کوئی قول متصل سند سے نہیں ہے – لوگوں کی آراء ہیں
جناب میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس جملے “مقلد عثمانی معترض” کا کیا مطلب ہے ؟
یعنی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی (رح) کے ایک مقلد جو میری تحاریر پر اعتراض کر رہے تھے لہذا وہ مقلد عثمانی معترض تھے – اس بلاگ کو جب لکھا گیا تھا ان دنوں ایک صاحب سے بحث چل رہی تھی جو عثمانی صاحب کے ایک جملے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کو پیش کر رہے تھے اور پھر اسی کی بنیاد پر بحث و اعتراضات کر رہے تھے – میں عثمانی صاحب کے اس جملہ کو عثمانی صاحب کی غلطی کہہ رہا تھا اور ان مقلد کو سمجھا رہا تھا کہ یہ جملہ درست نہیں ہے
جس پر طویل بحث ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ بلاگ بنا
——–
میرے نزدیک امام عثمانی معصوم عن الخطا نہیں تھے – جہاں میں ان کی غلطی دیکھتا ہوں بیان کر دیتا ہوں
یہی اللہ کا حکم ہے کہ ایک دوسرے کو رب نہ بنایا جائے