سر میں لگی آنکھوں سے الله تعالی کا دیدار کرنا ممکن نہیں لیکن آخرت میں چونکہ انسانی جسم کی تشکیل نو ہو گی اس کو تبدیل کیا جائے گا اور اس وقت محشر میں اہل ایمان اپنے رب کو دیکھ لیں گے
صحیح بخاری و مسلم میں معراج سے متعلق کسی حدیث میں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں اور الله تعالی کو دیکھا ہو البتہ بعض ضعیف اور غیر مظبوط روایات میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا بغیر داڑھی مونچھ جس پر سبز لباس تھا – قاضی ابو یعلی کے مطابق یہ معراج پر ہوا اور ابن تیمیہ کے مطابق یہ قلب پر آشکار ہوا – محدثین کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایات کو رد کیا اور ایک نے قبول کر کے دلیل لی – اسی طرح ایک دوسری روایت بھی ہے جس میں رب تعالی کا نبی صلی الله علیہ وسلم کو چھونے تک کا ذکر ہے
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت
کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں البانی کہتے ہیں
ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ثنا يَحْيَى بْنُ أبي بكير ثنا إبراهيم ابن طَهْمَانَ ثنا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَلَّى لِي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَسَأَلَنِي فِيمَا يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: رَبِّي لا أَعْلَمُ بِهِ, قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثديي أو وضعهما بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفَيَّ فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شيء إلا علمته”.
– إسناد حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير سماك بن حرب فهو من رجال مسلم
إبراهيم ابن طَهْمَانَ نے سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ سے اس نے جَابِرِ بْنِ سَمُرَة رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالی نے میرے لئے تجلی کی حسین صورت میں پھر پوچھا کہ یہ ملا الاعلی کیوں جھگڑتے رہتے ہیں پھر اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک محسوس کی
اس کی اسناد حسن ہیں اس کے رجال ثقات ہیں سوائے سماك بن حرب کے جو صحیح مسلم کا راوی ہے
اس کے برعکس مسند احمد کی تحقیق میں شعيب الأرنؤوط اس کو إبراهيم ابن طَهْمَانَ کی وجہ سے ضعیف قرار دیتے ہیں
عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ کی روایت
سنن دارمی، ج 5، ص 1365 پر ایک روایت درج ہے
2195 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، وَسَأَلَهُ، مَكْحُولٌ أَنْ يُحَدِّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:1366] يَقُولُ: «رَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ فَقُلْتُ: «أَنْتَ أَعْلَمُ يَا رَبِّ» ، قَالَ: ” فَوَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، [ص:1367] فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَلَا {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ}
نبی اکرم نے فرمایا کہ میں نے رب کو اچھی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمانوں میں کس بات پر لڑائی ہے؟ میں نے کہا کہ اے رب! آپ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ نبی اکرم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپن ہاتھ میرے چھاتی کے درمیان رکھا حتی کہ مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، مجھے اس کا علم ہو گیا۔ پھر نبی اکرم نے اس ایت کی تلاوت کی کہ اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین والوں میں ہو
کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح قرار دیا جبکہ سلف اس کو رد کر چکے تھے
عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جبکہ یہ صحابی نہیں ہے
وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف
ابو حاتم نے کہا یہ تابعی ہے اور اس نے غلطی کی جس نے اس کو صحابی کہا اور ابو زرعہ نے کہا غیر معروف ہے
ابن عبّاس رضی الله عنہ سے منسوب روایت
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ – أَحْسِبُهُ يَعْنِي فِي النَّوْمِ – فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا ” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ – أَوْ قَالَ: نَحْرِي – فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، يَخْتَصِمُونَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالدَّرَجَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ وَالدَّرَجَاتُ؟ قَالَ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقُلْ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً، أَنْ تَقْبِضَنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ: بَذْلُ الطَّعَامِ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ “
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
ترمذی ح ٣٢٣٤ میں سند میں ابو قلابہ اور ابن عباس کے درمیان ْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ ہے
. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ رَبِّ لَا أَدْرِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ فِي الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِي نَقْلِ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں باب: سورہ ص سے بعض آیات کی تفسیر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: میرا رب بہترین صورت میں آیا اور اس نے مجھ سے کہا: محمد- میں نے کہا : میرے رب میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد میں نے عرض کیا: رب میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میں – میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا”۔ امام ترمذی کہتے ہیں: – یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے
البانی کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں
قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية
اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے
اس کے بر عکس شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں
إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً
اس کی اسناد ضعیف ہیں – أبو قلابة- جس کا نام عبد الله بن زيد الجرمي ہے اس کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے پھر اس روایت میں اضطراب بہت ہے
راقم کہتا ہے جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے : کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے
اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے
ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے منسوب روایت
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ: احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا، فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ. قَالَ: ” كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ (2) “. ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا. فَقَالَ: ” إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يَا رَبِّ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يا رَبِّ ، فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ. قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ، وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَواتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ. قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلَامِ، وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ. قَالَ: سَلْ. قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ “. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا
معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی میرے مقدر میں تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی۔ اچانک میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی
البانی نے اس کو صحیح کہہ دیا ہے
جبکہ دارقطنی علل ج ٦ ص ٥٤ میں اس روایت پر کہتے ہیں
وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة
اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں
شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس روایت پر کہتے ہیں
ضعيف لاضطرابه
اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے
ابن حجر کتاب “النكت الظراف 4/38 میں کہتے ہیں
هذا حديث اضطرب الرواةُ في إسناده، وليس يثبت عن أهل المعرفة.
اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں
کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کہتے ہیں
وقوله: ” فيم يختصم الملأ الأعلى ” وقد تكلمنا عَلَى هَذَا السؤال فِي أول الكتاب فِي قوله: ” رأيت ربي ” فإن قِيلَ: هَذَا الخبر كان رؤيا منام، والشيء يرى فِي المنام عَلَى خلاف مَا يكون
اور قول کس پر الملأ الأعلى جھگڑا کر رہے ہیں ؟ اور اس سوال پر ہم نے اس کتاب کے شروع میں کلام کیا ہے کہ اگر کہیں کہ یہ خبر نیند کا خواب ہے اور یا چیز جو نیند میں دیکھی تو یہ اس کے خلاف ہے جو کہا گیا
القاضي أبو يعلى کے مطابق یہ سب معراج پر ہوا نہ کہ نیند میں
اس کے برعکس ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں موقف لیا کہ یہ نیند میں ہوا
وَإِنَّمَا الرُّؤْيَةُ فِي أَحَادِيثَ مَدَنِيَّةٍ كَانَتْ فِي الْمَنَامِ كَحَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: ” «أَتَانِي الْبَارِحَةَ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» ” إِلَى آخِرِهِ، فَهَذَا مَنَامٌ رَآهُ فِي الْمَدِينَةِ، * وَكَذَلِكَ مَا شَابَهَهُ كُلُّهَا كَانَتْ فِي الْمَدِينَةِ فِي الْمَنَامِ
اور یہ دیکھنا نیند میں تھا جو مدینہ کی احادیث ہیں جیسے معاذ بن جبل کی حدیث کل میرا رب اچھی صورت میرے پاس آیا آخر تک تو یہ نیند میں دیکھا تھا مدینہ میں اور اسی طرح روایات ہیں جو مدینہ میں نیند میں ہیں
یعنی ٥٠٠ صدی ہجری کے بعد حنابلہ کا ان روایات پر اختلاف ہوا کہ یہ نیند میں دیکھا تھا یا معراج پر پس ان مخصوص روایات کو ابن تیمیہ نے خواب قرار دیا
ابن تیمیہ کے ہم عصر امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس قسم کی ایک روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء میں نے اپنے رب کو بغیر داڑھی مونچھ مرد کی صورت سبز لباس میں دیکھا ) پر لکھتے ہیں
أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ . وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ: قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ. وَالَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الدَّلِيْلُ عَدَمُ الرُّؤْيَةِ مَعَ إِمْكَانِهَا ، فَنَقِفُ عَنْ هَذِهِ المَسْأَلَةِ، فَإِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ المَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيْهِ، فَإِثْبَاتُ ذَلِكَ أَوْ نَفْيُهُ صَعْبٌ، وَالوُقُوْفُ سَبِيْلُ السَّلاَمَةِ – وَاللهُ أَعْلَمُ -. وَإِذَا ثَبَتَ شَيْءٌ، قُلْنَا بِهِ، وَلاَ نُعَنِّفُ مَنْ أَثْبَتَ الرُّؤْيَةَ لِنَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي الدُّنْيَا، وَلاَ مَنْ نَفَاهَا، بَلْ نَقُوْلُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، بَلَى نُعَنِّفُ وَنُبَدِّعُ مَنْ أَنْكَرَ الرُّؤْيَةَ فِي الآخِرَةِ، إِذْ رُؤْيَةُ اللهِ فِي الآخِرَةِ ثَبَتَ بِنُصُوْصٍ مُتَوَافِرَةٍ.
بیہقی نے کتاب الصفات میں روایت کیا …. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا .. اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے – ہم الله سے اس پر سلامتی چاہتے ہیں پس نہ تو یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر ہے اور اگر یہ سب غیر الزام زدہ ہوں بھی تو یہ خطاء و نسیان سے کہاں معصوم ہیں ؟ اب جو پہلی خبر ہے اس میں ہے کہ رسول الله نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – اس میں نیند کی کوئی قید نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو معراج کی رات دیکھا اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے – پر رویت نہیں ہے اس کا امکان ہے جو اس دلیل میں ہے – پس ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کہ اسلام کا حسن ہے کہ آدمی اس کو چھوڑ دے جس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس رویت باری کا اثبات یا نفی مشکل ہے اور اس میں توقف میں سلامتی ہے و الله اعلم اور اگر ایک چیز ثابت ہو تو ہم اس کا کہیں گے اور نہ ہی ہم برا کہیں گے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے اس کا اثبات کرے کہ انہوں نے دیکھا اس دنیا میں نہ اس کا انکار کریں گے بلکہ کہیں گے الله اور اسکا رسول جانتے ہیں بلا شبہ ہم برا کہیں گے اور رد کریں گے جو اس کا انکار کرے کہ یہ رویت آخرت میں بھی نہیں ہے کیونکہ الله کو آخرت میں دیکھنا نصوص موجودہ سے ثابت ہے
الذھبی کے بعد انے والے ابن کثیر سوره النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں
فَأَمَّا الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ : حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» فَإِنَّهُ حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ عَلَى شَرْطِ الصَّحِيحِ، لَكِنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ الْمَنَامِ كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ
پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو امام احمد نے روایت کی ہے حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھا تو اس کی اسناد الصحیح کی شرط پر ہیں لیکن اس کو مختصرا روایت کیا ہے نیند کی حدیث میں جیسا امام احمد نے کیا ہے
الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کتاب تشنيف المسامع بجمع الجوامع لتاج الدين السبكي میں لکھتے ہیں
هل يجوز أن يرى في المنام؟ اختلف فيه فجوزه معظم المثبتة للرؤية من غير كيفية وجهة مقابلة وخيال، وحكي عن كثير من السلف أنهم رأوه كذلك ولأن ما جاز رؤيته لا تختلف بين النوم واليقظة وصارت طائفة إلى أنه مستحيل لأن ما يرى في النوم خيال ومثال وهما على القديم محال، والخلاف في هذه المسألة عزيز قل من ذكره وقد ظفرت به في كلام الصابوني من الحنفية في عقيدته والقاضي أبي يعلى من الحنابلة في كتابه (المعتمد الكبير)، ونقل عن أحمد أنه قال: رأيت رب (94/ك) العزة في النوم فقلت: يا رب، ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ قال: كلامي يا أحمد قلت: يا رب، بفهم أو بغير فهم، قال: بفهم وبغير فهم قال: وهذا يدل من مذهب أحمد على الجواز، قال: ويدل له حديث: ((رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة)) وما كان من النبوة لا يكون إلا حقا ولأن من صنف في تعبير الرؤيا ذكر فيه رؤية الله تعالى وتكلم عليه، قال ابن سيرين: إذا رأى الله عز وجل أو رأى أنه يكلمه فإنه يدخل الجنة وينجو من هم كان فيه إن شاء الله تعالى. واحتج المانع بأنه لو كان رؤيته في المنام جائزة لجازت في اليقظة في دار الدنيا. والجواب: أن الشرع منع من رؤيته في الدنيا ولم يمنعه في المنام
کیا یہ جائز ہے کہ الله تعالی کو نیند میں دیکھا جائے ؟ اس میں اختلاف ہے … اور بہت سے سلف سے حکایت کیا گیا ہے انہوں نے دیکھا … اور ایک طائفہ گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نیند میں جو دیکھا جاتا ہے وہ خیال و مثال ہوتا ہے …. اور اسکے خلاف احناف میں الصابونی کا عقیدہ میں کلام ہے اور حنابلہ میں قاضی ابو یعلی کا کتاب المعتمد میں … اور امام احمد کا مذھب جواز کا ہے … اور اس کا جواب ہے ہے کہ شرع میں دنیا میں دیکھنا منع ہے لیکن نیند میں منع نہیں ہے
ابن حجر فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨٧ میں قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں
وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ رُؤْيَةِ اللَّهِ تَعَالَى فِي الْمَنَامِ
اور الله تعالی کو نیند میں دیکھنے پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے
تابعین اور اصحاب رسول کا الله تعالی کو خواب میں دیکھنا
ابو بکر رضی الله عنہ کا قول
کتاب ظلال الجنه کے مطابق
ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ عَنِ ابْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَفْضَلُ مَا يَرَى أَحَدُكُمْ فِي مَنَامِهِ أَنْ يرى ربه أو نَبِيَّهُ أَوْ يَرَى وَالِدَيْهِ مَاتَا على الإسلام.
ابو بکر نے کہا سب سے افضل جو تم نیند میں دیکھتے ہو وہ یہ ہے کہ اپنے رب کو دیکھو یا اپنے نبی کو یا اپنے والدین کو جن کی موت اسلام پر ہوئی
البانی اس اثر کے تحت لکھتے ہیں
إسناده ضعيف ورجاله ثقات غير العباس بن ميمون فلم أعرفه
اس کی اسناد ضعیف ہیں اور رجال ثقات ہیں سوائے عباس بن میمون کے جس کو میں نہیں جانتا
ابن سیرین کا قول
مسند الدارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قُطْبَةَ، عَنْ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: «مَنْ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ دَخَلَ الْجَنَّةَ
ابْنِ سِيرِينَ نے کہا جس نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا وہ جنت میں داخل ہوا
اس کی سند میں یوسف الصَّبَّاغِ ہے جو سخت ضعیف ہے لیکن صوفی منش ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں اس کو نقل کر دیا
مسند دارمی کے محقق حسين سليم أسد الداراني اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں
یعنی بعض نے اس طرح کی روایات کو رد کیا- بعض نے اس کو معراج کا واقعہ کہا جو نیند نہیں تھا اور بعض نے اس کو خواب قرار دیا – بعض نے تقسیم کی مثلا ابن تیمیہ کے نزدیک ابن عباس کی رویت باری سے متعلق روایات صحیح ہیں لیکن شانوں پر ہاتھ رکھنے والی روایت مدینہ کا خواب ہے اور گھنگھریالے بالوں والی روایت قلبی رویت ہے اور دونوں صحیح ہیں – الذھبی کے نزدیک دونوں لائق التفات نہیں ہیں
الغرض الله تعالی کو خواب میں دیکھنا سلف میں اختلافی مسئلہ رہا ہے جس میں راقم کی رائے میں یہ روایات ضعیف ہیں
Iska mutlb Aap s.a.w ne na kuwab mn na hi meraj pr Allah ka deedar kya
جی ہان معراج پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رویت باری تعالی نہیں کی نہ ہی کوئی نور دیکھا
صحیح مسلم کی روایت صحیح نہیں
Kuwab mn b aisa nahi hoa
عائشہ رضی الله عنہا کے نزدیک اغلبا ایسا کبھی نہیں ہوا- ابن عباس رضی الله عنہ سے منسوب قول ہے کہ خواب میں دیکھا
لیکن جیسا اس بلاگ میں ہے اس روایت کی سند ضعیف ہے
کتاب الاایمان ابن مندہ میں روایت ہے کہ
أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] ، قَالَ: «رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ نُمَيْرٍ
ابن عبّاس کہتے ہیں الله کا قول : {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] اس کے دل نے جھوٹ نہیں ملایا جو اس نے دیکھا کے لئے کہا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ قلب سے دیکھا ایسا ہی ثوری اور ابن نمیر روایت کرتے ہیں
اس کی سند میں أَبِي الْعَالِيَةِ ہے جس پر امام شافعی کی رائے ہے کہ اس کی روایت ہوائی بات ہے
یعنی یہ بھی ضعیف ہے