مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
اس کتاب کا اجراء سن ٢٠١٧ میں ہوا تھا – اس کے بعد سے اب تک اس میں اضافہ ہوا ہے
تعویذ کی ممانعت سے متعلق احادیث حسن اور صحیح لغیرہ درجہ کی ہیں- یہ ممانعت قولی احادیث میں ہے یعنی بزبان نبوی اس سے منع کیا گیا ہے – تعویذ کے جواز سے متعلق بیشتر روایات میں اہل مکہ کا تفرد ہے اور ممانعت کی روایت فقہائے عراق سے نقل لی گئی ہے – اس بنا پر تعویذ چاہے قرانی ہو یا غیر قرانی اس کو استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قولی حدیث میں اس کی ممانعت مل گئی ہے-
دم کی اسلام میں اجازت ہے لیکن یہ دم اگر شرکیہ ہوں تو مطلقا حرام ہیں – اس کتاب میں دم اور تعویذ سے متعلق مباحث ہیں
بھائی آپ نے کتاب میں بخاری کی حدیث کا حوالہ دیا جس میں اونٹ کو نظر لگنے کا ذکر ہے سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی کی نظر کو بھی نظر بد ہی کہا جائے گا؟جس کا ذکر اس روایت میں آیا ہے
حدیث میں نظر کو بد قرار نہیں دیا گیا
العین حق کہا گیا ہے
اردو میں ماں بیٹی سے کہتی ہے کہیں میری نظر نہ لگ جائے
تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بد نظر ہے
نظر میرے نزدیک انسانوں کا کسی چیز کی خوبی پر ہم رائے ہونا ہے یہاں تک کہ الله تعالی اس خوبی میں عیب دکھا دیتا ہے
عموما یہ خوبی وہبی ہوتی ہے یعنی الله ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے مثلا
حسین و خوبصورت ہونا
ہمت و طاقت رکھنا
صحت مند ہونا
زہین ہونا
یہ تمام الله کی عطا کردہ نعمت ہیں لیکن انسان سمجھتے ہیں کہ یہ اس چیز میں بذات موجود ہے اس وجہ سے ان چیزوں پر نظر لگتی ہے اور الله اس میں عیب پیدا کرتا ہے کہ لوگ پھر دیکھیں – کہیں اور سمجھیں سبحان الله
——–
صحیح بخاری
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ المِنْهَالِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ، وَيَقُولُ: ” إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ
النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ کو پناہ میں کرتے کہ کہتے: پناہ مانگتا ہوں الله کے تمام کلمات کی – ہر شیطان و زہر سے اور بیماری والی نظر سے
اس سے کہا جا سکتا ہے کہ نظر بد ہوتی ہے لیکن ظاہر ہے نظر صحابی کی صحابی کو بھی لگی ہے اور رسول الله کے گھوڑے کو بھی لہذا تمام نظر لگنے کو بد نظر نہیں کہا جائے گا صرف نظر لگنا کہا جائے گا
جزاک اللہ بھائی اللہ تعالیٰ آپکے علم میں مزید اضافہ فرمائےآمین
بخاری کی روایت نظر کے متعلق جو ابو ہریرہ سے مروی ہے جس میں نظر حق ہے ۔۔اس میں اک راوی عبدالرزاق ہے جس کے بارے میں ابو داؤد نے کہا کہ عبدالرزاق معاویہ رضی پر بدگوئی کرتا تھا، عباس عنبری نے کہا کہ وہ بہت جھوٹا ہے اور واقعی کذاب اس سے سچا ہے ۔۔عبدالرزاق جھوٹا تھا اور حدیث چوری کرتا تھا ….تہذیب التہذیب جلد نمبر 6 ص نمبر 28…..
بھائی تحقیق چاہیے
کہتے ہیں کہ محدثین واقدی کے جھوٹا ہونے پر متفق تھے اور عبدالرزاق تو واقدی سے زیادہ جھوٹا ہے ۔۔۔بخاری اور مسلم میں نظر کے بارے میں جو ایک روایت ہے امام دارقطنی نے اس کا تعاقب کیا ہے ۔۔۔۔شرح مسلم النووی ص 223.جلد2جلد
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَيْنُ حَقٌّ
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «العَيْنُ حَقٌّ
موطا امام مالک میں ہے
وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ: …..فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ….إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ،
اس سند میں عبد الرزاق نہیں ہے
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَيْنُ حَقٌّ، وَإِذَا اسْتُغْسِلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَغْتَسِلْ»
اس میں عبد الرزاق نہیں ہے
سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْعَيْنُ حَقٌّ»
اس سند میں بھی عبد الرزاق نہیں ہے
————
عبد الرزاق کا اس روایت میں تفرد نہیں ہے
جزاکم اللہ خیرا
اس کتاب میں پنجہ کیا وغیرہ کے ٹوپک میں محسن سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
محسن سے مراد شیعہ کہتے ہیں فاطمہ کے بیٹے تھے جو حمل میں تھے لیکن عمر رضی الله عنہ نے ان کو دھکا دیا تو فاطمہ کا حمل گر گیا – محسن شہید ہو گئے
بھائی ۔۔۔ بخاری کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے تھے اللہ کی پناہ میں لیتے تھے ہر شیطان وزہر اور بیماری والی نظر سے ۔۔۔بیماری والی نظر کو کس طرح سمجھا جائے گا ۔جیسا جہ آج کل بہت سننے میں آتا ہے کہ کسی کس بچہ اگر کھانا پینا چھوڑ دے تو ماں کہتی ہے میرے بچے کو کسی کی نظر لگ گئی ۔۔۔منکرین نظر کا کہنا ہے کہ نظر کو نافع و ضار سمجھنا شرک ہے
نظر کو نافع و ضار سمجھنا شرک ہے صحیح بات ہے کوئی بھی نقصان من جانب الله ہے – لیکن گولی یا چاقو سے کیا نقصان نہیں ہوتا ؟
لہذا نظر میں کچھ نہیں صرف لوگوں کا مجموعی فہم ہے کہ اس شخص میں یا عورت میں خوبی ہے
نظر بد سے متعلق مذکورہ تھریڈ میں ابن قیم کا یہ قول ہے
ومن علاج ذلك أيضا والاحتراز منه ستر محاسن من يخاف عليه العين بما يردها عنه،
یعنی نظر لگنے سے بچنے کیلئے ان محاسن کو ان طریقوں سے چھپانا جن کے اظہار سے نظر لگنے کا خطرہ ہو
آگے انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان کی روایت لکھی ہے
كما ذكر البغوي في كتاب ” شرح السنة “: أن عثمان رضي الله عنه رأى صبيا مليحا فقال: ( «دسموا نونته؛ لئلا تصيبه العين» )
کہ امام بغویؒ نے ’’ شرح السنہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے ایک خوبصورت لڑکے دیکھا ، تو فرمایا : اس کی ٹھوڑی پر کالا رنگ لگا دو ، تاکہ اسے نظر نہ لگے ، آگے ’’ دسموا نونتہ ‘‘ کا معنی بتاتے ہیں
کہ اس کی تفسیر میں فرمایا :’’ دسموا نونتہ ‘‘ کا مطلب ہے کہ اس کی ٹھوڑی پر کالک لگا دو ، اور ۔۔ نونۃ ۔۔ بچے کی ٹھوڑی میں جو ہلکا سا گڑھا ہوت ہے اس کو کہیں ہیں
آخر میں سلفی شیخ “اسحاق سلفی ” فرماتے ہیں کہ
علامہ ابن قیم ،امام خطابیؒ سمیت کئی قدیم و ہم عصر علماء نے اس پر عمل کو جائز کہا ہے-
اور اسکی حیثیت صرف اتنی ہی ہے جیسے دھوپ کی تپش سے بچنے کیلئے سر پر کپڑا رکھ لیا جاتا ہے ،اسلئے اگر کوئی نظر بد کے اثرات سے بچنے کیلئے یہ عمل کرنا چاہے تو علمائے سلف کی تصدیق کی روشنی میں ایسا کرنا جائز ہے
واللہ اعلم
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%86%D8%B8%D8%B1-%D8%A8%D8%AF-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%86%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%93-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%DB%81-%D9%84%DA%AF%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7.33673/
آپ کا تبصرہ درکار ہے
میں نے اس قول کی سند تلاش کی مجھے نہیں ملی
كما ذكر البغوي في كتاب ” شرح السنة “: أن عثمان رضي الله عنه رأى صبيا مليحا فقال: ( «دسموا نونته؛ لئلا تصيبه العين» )
کہ امام بغویؒ نے ’’ شرح السنہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے ایک خوبصورت لڑکے دیکھا ، تو فرمایا : اس کی ٹھوڑی پر کالا رنگ لگا دو ، تاکہ اسے نظر نہ لگے
———-
محدث فورم والوں کے بقول اس کا سب سے قدیم حوالہ امام أبو سليمان الخطابي (المتوفى: 388 ھ) کی غریب الحدیث کا ہے
اس کتاب میں بھی سند نہیں ہے نہ بغوی کی کتاب میں ہے
اور کہیں بھی نہیں ہے
اپنے رجال کا نام لو کا درس دینے والے اور
یہ دین ہے دیکھو کس سے لے رہے ہو کہنے والے بلا سند نظر کے ٹیکے لگا دیں تو ان کی مرضی
ہم قبول نہیں کریں گے
———-
نظر لگنا حق ہے یعنی نظر لگتی ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان کو جس چیز میں بھی یا جس شخص میں بھی خوبی لگتی ہے من جانب اللہ اس میں عیب آ جاتا ہے
مثلا گاڑی چل رہی ہے کسی نے تعریف کر دی تو چند دن بعد اس میں خرابی ہو گئی
عرف عام میں اس کو نظر لگنا کہتے ہیں
لیکن کا علاج نظر کا ٹیکا لگا کر مصنوعی عیب دکھانے میں مجھے معلوم نہیں ہے بلکہ بہتر ہے سبحان اللہ کہا جائے کہ صرف اللہ کی ذات بے عیب ہے
جزاک الله
AOA
Hope you will be fine ,
Please share Tawezat ka shirk pdf file ASAP
Thanks ,
سلام
ابھی یہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کی کتاب میرے پاس نہیں ہے
—–
میری کتاب اس حوالے سے ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/05/دم-اور-تعویذ-A5.pdf
تعویذ سے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث ہے ؟
تعویذ لٹکانے سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے – اس پر کوئی قولی حکم نہیں ملا
سلام علیکم بہائ بقیہ ابن الولید نام کے راوی پرتدلیس تسویہ کی جرا سابت ہے یا نی مکمل تحقیق راکار ہے
تدلیس تسویہ یہ مجھے بقیہ کے لئے معلوم نہیں ہے البتہ یہ بد ترین مدلس ہے اور منکرات بیان کرتا ہے
بقية ابن الوليد الحمصي المتوفی ١١٠ ھ سے بخاری نے تعلیق میں روایت لی ہے اور صحیح روایت نہیں لی مسلم نے بھی شواہد میں حدیث لکھی ہے
نسائی کہتے ہیں قال النسائى : إذا قال : حدثنا و أخبرنا فهو ثقة
اگر یہ اخبرنا یا حدثنا کہے تو ثقہ ہے
سیر الاعلام از الذھبی کے مطابق
ابْنِ عُيَيْنَةَ: لاَ تَسْمَعُوا مِنْ بَقِيَّةَ مَا كَانَ فِي سُنَّةٍ، وَاسْمَعُوا مِنْهُ مَا كَانَ فِي ثَوَابٍ وَغَيْرِه.
سفیان ابْنِ عُيَيْنَةَ کہتے ہیں بَقِيَّةَ سے سنت پر کچھ نہ سنو البتہ ثواب کی روایت سنو
تدلیس پر لکھی جانے والی کتابوں کے حساب سے ان کی تدلیس مجہولین اور ضعیف راویوں سے ہوتی ہے
کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق
مختلف في الحتجاج به
ان سے دلیل لینا مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے
وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل، رحمه الله، يقول: توهمت أن بقية لا يحدث المناكر إلا عن المجاهيل فإذا هو يحدث المناكير عن المشاهير، فعلمت من أين أتي. «المجروحون لابن حبان» 1/191.
احمد بن حسن نے کہا میں نے احمد کو کہتے سنا مجھ کو وہم ہوا کہ بقیہ صرف مجھول راویوں سے مناکیر روایت کرتا ہے پس جب یہ ثقات سے بھی منکر روایت کرے تو جان لو کہ کہاں سے یہ آئی ہے
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی کے مطابق
حَدَّثني عَبد المؤمن بن أحمد بن حوثرة، حَدَّثَنا أَبُو حاتم الرازي، قالَ: سَألتُ أبا مسهر عَن حديث لبقية فَقَالَ احذر أحاديث بَقِيَّة وكن منها عَلَى تقية فإنها غير نقية.
أَبُو حاتم الرازي نے کہا میں نے أبا مسهر سے بقیہ کی روایات کے بارے میں پوچھا کہا ان سے دور رہو ہو سکتا ہے اس میں تقیہ ہو کیونکہ یہ صاف (دل) نہ تھا
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی کے مطابق
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ يقُول: مَن، قَال: إِنَّ بَقِيَّةَ، قَال: حَدَّثَنا فَقَدْ كَذَبَ مَا قَالَ بَقِيَّةُ قَطُّ إِلا، حَدَّثني فلان
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ کہتے جو یہ کہے کہ بقیہ نے کہا حدثنا وہ جھوٹ ہے بقیہ نے کبھی بھی یہ نہیں بولا بلکہ کہتا حدثنی فلاں
یعنی بقیہ اپنے اپ کو محدث کا خاص شاگرد باور کراتا کہ اس نے مجمع میں نہیں بلکہ خاص شیخ نے اس کو سنائی
بقیہ کو ثقہ بھی کہا گیا اور بے کار شخص بھی کہا گیا ہے
عقیلی کہتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں
بیہقی کہتے ہیں وقد أجمعوا على أن بقية ليس بحجة وفيه نظر اس پر اجماع ہے کہ اس کی روایت حجت نہیں اور اس پر نظر ہے
ابن حزم: ضعيف کہا ہے
کیا تعویذپہننا شرک ہے؟
………مولانا محمد اسحاق﷾
قسط اول
ہر انسان کے ذمہ کچھ دنیا کی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ آخرت کی اس لیے ہم جو کام موت سے پہلے کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کاموں کو دنیا کے کام کہا جاتا ہے اور جو کام موت کے بعد آخرت کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کو دین کا کام کہا جاتا ہے۔
مثلاً ہم ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں تاکہ آخرت کا گھر آباد ہو جائے اس لیے ان کو دین کا کام اور ان کے احکام کو دینی احکام کہا جاتا ہے۔ دینی احکام کا مآخذ قرآن و سنت اجماع و قیاس ہیں۔ ہم روز مرہ کے جتنے دنیاوی کام کرتے ہیں مثلاً کھیتی باڑی ، تجارت ، سیر وسیاحت ، کھیل کود وغیرہ تو صحت و تندرستی سے کرتے ہیں یا کبھی ہمیں بیماری بھی گھیر لیتی ہے اس کے لیے ہم دوائی لیتے ہیں یا دم تعویذ وغیرہ کراتے ہیں ان سب امور کا نفع یا نقصان موت سے پہلے والی زندگی کے لیے ہے۔ اور یہ سب دنیاوی کام ہیں دوائی ، دم اور تعویذ وغیرہ طریق علاج ہیں۔ جس طرح بخار کی دوا کے لیے اس کا نسخہ ، وزن ، ترکیب استعمال اور پرہیز کا دلائل اربعہ میں مکمل تفصیلات کا مذکور ہونا ضروری نہیں اس طرح بخار کے دم اور تعویذ کا بھی قرآن پاک میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح بعض بیماریوں کی دواؤں کا ذکر بعض احادیث میں ہے لیکن بہت ساری دواؤں کا ذکر احادیث میں نہیں ملتا اس طرح بعض دم و تعویذ احادیث میں مذکور ہیں بعض مذکور نہیں۔
باقی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی شخص اس نیت اور غرض کے لیے تعویذ نہیں پہن لیتا کہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزر جائے۔ نہ اس لیے تعویذ پہنتا ہے کہ منکر نکیر کے سوالات کا جواب آسان ہو جائے اور نہ ہی دوزخ سے بچنے کا تعویذ مانگتا ہے۔ جب دوا اور دم دنیوی طریقہ علاج ہیں تو دنیاوی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل کے قصہ کے ضمن میں یہ قاعدہ ارشاد فرمایا ہے کہ
انتم اعلم بامر دنیاکم۔
) صحیح مسلم ج 1 ص 264(
کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو اپنے تجربات کی بنیاد پر بہتر سمجھتے ہو۔
اس حدیث مبارک میں ثابت ہو گیا کہ دنیاوی امور کی مکمل تفصیلات کا ادلہ اربعہ میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت کی صحیح تفسیر و تشریح اسلاف اور خدائی انعام یافتہ طبقات کامتوارث عمل ہے ہر وہ تفسیر و تشریح جو اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں کی تشریح و عمل کے خلاف ہو وہ قابل تردید ہے۔
دم اور تعویذ وغیرہ کا جواز قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
1: قرآن پاک میں ہے
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔
)سورۃ بنی اسرائیل (
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
) سنن ابن ماجہ (
دم کرنا اورتعویذات لکھ کر استعمال کرانا امت کے تواتر سے ثابت ہے
1: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543(
2: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔
3: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60 (
4: حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(
5: حضرت سعید بن مسیب کے ہاں چمڑے میں مڑھ کر تعویذ پہننا جائز ہے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(
6: حجاج بن اسود کہتے ہیں میں نے مکہ مکرمہ کے مفتی حضرت عطاء سے اس بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے ہم نے تو نہیں سنا کہ کوئی اس کام کو مکروہ کہتا ہو۔ ہاں تمہارے بعض عراقی مکروہ کہتے ہیں۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(
7: امام باقر رحمہ اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قران کریم کی آیات چمڑے پر لکھ کر لٹکایا جائے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج 12 ص 74(
8: خود غیر مقلد علماء میں سے محترم داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
) فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298(
لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔
اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث مولانا عبدالرحمان مبارکپوی لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
) فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299(
تمیمہ والی حدیث کا صحیح مطلب:
منکرین تعویذ غیر مقلدین جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں تمیمہ سے منع کیا گیا ہے یہ زمانہ جاہلیت میں دعا اور دوا کے علاوہ نقصان سے بچنے کا ایک مزعومہ طریقہ تھا۔ تمیمہ در حقیقت ایک منکا ہوتا تھا جس کو مریض کے گلے میں لٹکایا جاتا تھا اور وہ لوگ تمیمہ کو نقصان سے بچنے کے لیے مستقل موثر بالذات اور علت تامہ قرار دیتے تھے۔ جو کہ شرک کے ضمن میں آتا ہے اس لیے اسلام نے اس سے منع کر دیا۔ تعویذات کو تمیمہ قرار دے کر تمیمہ کا حکم لگانا درست نہیں۔ یہ حدیث پاک کی ایسی غلط تشریح ہے جو مزاج نبوت اور اسلاف کی تعبیرات سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے اس تشریح کا سرے سے کوئی اعتبار ہی نہیں۔
معلوم ہوا کہ دم ، جھاڑ ، تعویذ کو شرک کہنا کم علمی اور جہالت ہے۔…..۔۔۔۔۔۔مدلل جواب درکار ہے
اس پر میں نے بلاگ بنا دیا ہے
https://www.islamic-belief.net/تعویذ-کے-جواز-کے-دلائل-کا-جائزہ/
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم یہ جمائی اور شیطان کا اندر گھس جانا اس سے کیا مراد ہے۔ جزاک اللہ خیرا
صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ
9. باب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَكَرَاهَةِ التَّثَاؤُبِ:
حدیث نمبر: 7491
حدثني ابو غسان المسمعي مالك بن عبد الواحد ، حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا سهيل بن ابي صالح ، قال: سمعت ابنا لابي سعيد الخدري يحدث ابي، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إذا تثاوب احدكم، فليمسك بيده على فيه، فإن الشيطان يدخل “.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“
وعلیکم السلام
شیطان سے متعلق ان احادیث کو ان کے ظاہری مطلب پر بھی لیا گیا ہے اور مجازی بھی لیا گیا ہے
مثلا یہجمائی والی حدیث یا حدیث کہ شیطان انسان کے ساتھ کھاتا ہے جب انسان بسم اللہ پڑھتا ہے تو شیطان کو الٹی آ جاتی ہے
وغیرہ
ان کا اصل مطلب میرے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے