ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی
وَفِي الْمُخْتَارَةِ لِلْحَافِظِ الضِّيَاءِ الْمُقَدِّسِيِّ مِنْ طَرِيقِ قُتَيْبَةَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ وَقَدَّرَ له الأسباب وبسط له اليد.
حَبِيبِ بْنِ حِمَاز نے کہا میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جب ایک شخص نے سوال کیا کہ ذو القرنین مشرق و مغرب تک کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ تعالی نے ان کے لیے بادل کو مسخر کیا اور اسباب پر قدرت دی اور ان کے ہاتھ کو پھیلایا
الْمُخْتَارَةِ میں المقدسی کی مکمل سند ہے
أَخْبَرَنَا عبد الْمعز بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَرَوِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ بِهَا قُلْتُ لَهُ أَخْبَرَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ الْفُضَيْلِ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنْتَ تَسْمَعُ أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الضَّبِّيُّ أَنَا الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّرَّاجُ ثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ كَيْفَ بَلَغَ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ وَمُدَّتْ لَهُ الأَسْبَابُ وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ فَقَالَ أَزِيدُكَ قَالَ فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَسَكَتَ عَلِيٌّ
راقم کو اس کی مزید اسناد ملیں
تفسیر عبد الرزاق ح 1706 میں ہے
قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ – أَخْبَرَنِي إِسْرَائِيلُ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ الْأَسَدِيِّ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ فَسَأَلَ عَلِيًّا وَأَنَا عِنْدَهُ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ , فَقَالَ: «هُوَ عَبْدٌ صَالِحٌ نَاصِحٌ لِلَّهِ , فَأَطَاعَ اللَّهَ فَسَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ فَحَمَلَهُ عَلَيْهِ , وَمَدَّ لَهُ فِي الْأَسْبَابِ وَبَسَطَ لَهُ فِي النُّورِ» , ثُمَّ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ يَا رَجُلُ أَنْ أَزِيدَكَ , فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَجَلَسَ»
حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا ایک آدمی آیا اور اس نے علی سے ذو القرنین پر سوال کیا اور میں ان کے پاس تھا ، پس علی نے اس شخص سے کہا وہ نیک آدمی تھے نصحت کرتے تھے اللہ کی اطاعت کرتے پس اللہ نے بادل کو ان کے لئے مسخر کیا جو ان کو اٹھاتا تھا اور اسباب کو ان کے لئے پھیلایا اور روشی و نور کو پھیلایا پھر کہا کیا تم خوش ہو کہ میں نے اس کو زیادہ کر کے بتایا پس وہ آدمی چپ رہا اور بیٹھ گیا
جزء من حديث أبي حفص عمر بن أحمد ابن شاهين عن شيوخه از ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَاغَنْدِيُّ، نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَائِدَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ؟ فَقَالَ عَلِيُّ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَمُدَّتْ لَهُ الْأَسْبَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ»
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ، قَالَ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ، وَمُدَّ لَهُ الْأَسْبَابُ»، ثُمَّ قَالَ: «أَزِيدُكَ؟» قَالَ: حَسْبِي
حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا میں نے علی سے پوچھا کہ ذو القرنین کیسے مشرق ق مغرب تک پہنچے ؟ علی نے کہا ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور نور کو پھیلایا گیا اور سبب تک ان کو لے جایا گیا – علی کہا اور زیادہ بتاؤں؟ کہا : اتنا کافی ہے
ابن اسحٰق نے سیرت میں ذکر کیا
نا يونس عن عمرو بن ثابت عن سماك بن حرب عن رجل من بني أسد قال:
سأل رجل علياً: أرأيت ذا القرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب؟
فقال: سخر له السحاب ومد له في الأسباب وبسط له النور فكان الليل والنهار عليه سواء.
سماک نے بنی اسد کے ایک آدمی کی سند سے روایت کیا کہا ایک آدمی نے علی سے سوال کیا کیا تم نے ذو القرنین کو دیکھا کیسے وہ مشرق و مسغرب تک پہنچ گیا ؟ علی نے کہا اس کے لئے بادل کو مسخر کیا اور اسباب تک پہنچے اور نور ان کے لئے پھیلایا پس ان کے لئے دن و رات برابر تھے
ان تمام میں سماک بن حرب کا تفرد ہے
ابن المبارك: سماك ضعيف في الحديث
وقال صالح بن محمَّد البغداديُّ: يُضَعَّف
من رواية زكريا بن عدي عن ابن المبارك عن الثوري أنه قال: سماك بن حرب ضعيف
وقال أبو طالب عن أحمد: مضطرب الحديث
وقال أحمد بن سعد بن أبي مريم عن يحيى بن معين: ثقة، وكان شعبة يضعِّفه
امام احمد ، امام ابن مبارک ، امام صالح اور امام ثوری کے نزدیک سماک ضعیف ہے
ابن اسحٰق نے سیرت میں ایک دوسری روایت دی
نا يونس عن بسام مولى علي بن أبي الطفيل قال: قام علي بن أبي طالب على المنبر فقال: سلوني قبل ألا تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي؛ فقام ابن الكواء فقال: يا أمير المؤمنين ما ذو القرنين، أنبي أو ملك؟ فقال: ليس بملك ولا نبي ولكن كان عبداً صالحاً أحب الله فأحبه وناصح الله بنصحه فضرب على قرنه الأيمن فمات ثم بعثه، ثم ضرب على قرنه الأيسر فمات وفيكم مثله.
بسام مولى علي بن أبي الطفيل نے کہا علی منبر پر کھڑے تھے پس کہا مجھ سے سوال کرو قبل اس کے سوال نہ کر پاؤ اور نہ مجھ سا کو ملے گا جس سے سوال کرو – پس ابن الكواء کھڑا ہوا اور کہا اے امیر المومنین یہ ذو القرنین کون ہے نبی ہے یا بادشاہ ہے ؟ پس علی نے کہا نہ بادشاہ ہے نہ نبی لیکن نیک بندے تھے اللہ سے محبت کرتے تھے پس اللہ ان سے محبت کرتا تھا اور وہ اللہ کے لئے نصیحت کرتے تھے – پس انہوں نے سیدھے سینگ پر ضرب لگائی پس موت ہوئی پھر زندہ ہوئے ، پھر الٹے سینگ پر ضرب کی پس موت ہوئی اور تم لوگوں کے پاس ذو القرنین کے جیسا ایک ہے
سند میں بسام مولى علي بن أبي الطفيل مجہول الحال ہے کسی محدث نے اس کیا ذکر نہیں کیا
شرح مشکل الاثار از طحاوی میں ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ الْخُرَيْبِيُّ , عَنْ بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ” سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي , وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي ” فَقَامَ إِلَيْهِ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: مَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ , أَمَلَكٌ كَانَ أَوْ نَبِيٌّ؟ قَالَ: ” لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا , وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا , أَحَبَّ اللهَ فَأَحَبَّهُ , وَنَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ , ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْمَنِ فَمَاتَ , ثُمَّ بَعَثَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْسَرِ فَمَاتَ , وَفِيكُمْ مِثْلُهُ
بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ نے أَبِي الطُّفَيْلِ سے روایت کیا کہ علی کھڑے ہوئے منبر پر اور کہا سوال کرو قبل کہ سوال نہ کر پاؤ نہ سوال کر پاؤ میرے جیسے کسی اور سے – پس ابْنُ الْكَوَّاءِ کھڑا ہوا اور کہا یہ ذو القرنین بادشاہ تھے یا نبی ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ لیکن عبد صالح ، اللہ سے محبت کی پس اللہ نے ان سے محبت کی ، اور اللہ کے لئے نصیحت کی پس سیدھے سینگ پر ضرب لگائی تو ان کی موت ہوئی پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا پھر انہوں نے الٹے ہاتھ پر سینگ کو مارا تو ان کی موت ہوئی ، اور تمھارے پاس ان کے جیسا ہے
سند میں بسام بن عبد الله، أبو الحسن الصيرفي الأسدي الكوفي یا بسَّام بن عبد الرحمن الصيرفي الكوفي ہے – امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے پاس مرسل روایات ہیں
قال البخاري: عنده مراسيل
امام طحاوی نے ذکر کیا کہ
وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَحَدَّثَنِي عَلِيٌّ
أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ نے اسی طرح روایت کیا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ سے جس نے علی سے روایت کیا
ان روایات کی اسناد میں ابو طفیل ہے جو آخری عمر میں دجال مختار ثقفی کے لشکر میں تہے اس کا جھنڈا اٹھاتے تھے
تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ
قال سيف بن وهب: دخلت شعب ابن عامر على أبي الطفيل عامر بن واثلة، قال: فإذا شيخ كبير قد وقع حاجبه على عينيه، قال: فقلت له: أحب أن تحدثني بحديث سمعته من علي ليس بينك وبينه أحد؛ قال: أحدثك به إن شاء الله، وتجدني له حافظاً: أقبل علي يتخطى رقاب الناس بالكوفة، حتى صعد المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا أيها الناس، سلوني قبل أن تفقدوني، فوالله ما بين لوحي المصحف آية تخفى علي، فيم أنزلت ولا أين نزلت، ولا ما عنى بها؛ والله لا تلقون أحداً يحدثكم ذلك بعدي حتى تلقوا نبيكم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قال: فقام رجل يتخطى رقاب الناس، فنادى: يا أمير المؤمنين، قال: فقال علي: ما أراك بمسترشد، أو ما أنت مسترشد، قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” والذاريات ذرواً “؟ قال: الرياح، ويلك، قال: ” فالحاملات وقراً “؟ قال: السحاب ويلك، قال: ” فالجاريات يسراً “؟ قال: السفن ويلك، قال: ” فالمدبرات أمراً “؟ قال: الملائكة ويلك، قال: يا أمير المؤمنين، أخبرني عن قول الله عز وجل: ” والبيت المعمور، والسقف المرفوع “؟ قال: ويلك بيت في ست سماوات، يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه إلى يوم القيامة، وهو الضراح، وهو حذاء الكعبة من السماء؛ قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفراً وأحلوا قومهم دار البوار، جهنم “؟ قال: ويلك ظلمة قريش، قال: يا أمير المؤمنين! حدثني عن قول الله عز وجل: ” قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالاً الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا “؟ قال: ويلك منهم أهل حروراء، قال: يا أمير المؤمنين، حدثني عن ذي القرنين، أنبياً كان أو رسولاً؟ قال: لم يكن نبياً ولا رسولاً ولكنه عبد ناصح الله عز وجل، فناصحه الله عز وجل وأحب الله فأحبه الله، وإنه دعا قومه إلى الله فضربوه على قرنه فهلك، فغبر زماناً، ثم بعثه الله عز وجل فدعاهم إلى الله عز وجل، فضربوه على قرنه الآخر، فهلك فذلك قرناه.
شعب ابن عامر آیا اور على أبي الطفيل عامر بن واثلة کے گھر داخل ہوا اور اس وقت ان کی نظر پر پردہ آ گیا تھا پس میں نے ان سے کہا علی کی کوئی بات بیان کریں جس میں نہ اپ اور ان کے درمیان کوئی نہ ہو پس على أبي الطفيل عامر بن واثلة نے کہا ہاں میں بیان کروں گا إن شاء الله اور تم مجھ کو یاد رکھنے والا پاؤ گے : علی لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور منبر پر چڑھ گئے پس اللہ کی تعریف کی اور کہا … پھر ایک شخص اٹھا سوال کیا کہ ذو القرنین کون تھا ؟ نبی یا بادشاہ ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ لیکن عبد صالح اور یہ اللہ سے محبت کرتے اور الله ان سے اور انہوں نے اپنی قوم کو پکارا جس نے ان کے قرن پر ضرب لگائی اور یہ ہلاک ہوئے پھر ایک زمانہ گذر گیا پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا انہوں نے اللہ کی طرف پکارا اور ان کے دوسرے سینگ پر ضرب لگی اور یہ ہلاک ہو گئے پس یہ ان کے سینگ تھے
سند میں سيف بن وهب ہے جو ضعیف ہے
قال أحمد: ضعيف الحديث، وقال يحيى: هالك، وقال النسائي: ليس بثقة.
ابن السكن اور امام احمد کے نزدیک ابو طفیل صحابی نہیں ہے
سَمعت أبا عَبْد الله محمد بن يَعْقُوبَ الأخرم وسُئل: لم ترك البخاري حديث عامر بن وائلة؟ فقال: لأنه كان يُفرط في التشيع.
امام بخاری نے اس کی احادیث نہیں لیں کیونکہ یہ شیعت میں بڑھا ہوا تھا
وقال ابن المديني: قلت لجَرير بن عَبْد الحميد: أكان مغيرة يكره الروايةَ عن أبي الطُفيل؟ قال: نعَم.
جریر بن عبد الحمید نے کہا مغیرہ ان روایات کا انکار کرتے جو ابو طفیل بیان کرتا – امام علی بن المديني نے کہا ہاں
الأعلام از الزركلي میں ہے
خرج على بني أمية مع المختار الثقفي، مطالبا بدم الحسين.
ابو طفیل نے بنو امیہ کے خلاف خروج کیا
راقم کہتا ہے یعنی اس نے خلیفہ عبد الملک یا مروان کے دور میں خروج کیا