برصغیر میں مشھور ہے کہ قبائل صرف انسانوں کو پہچاننے کے لئے ہیں اس کی دلیل قرآن میں ہے
وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفوا
أور تم کو قبائل کیا کہ تعارف ہو
لیکن احادیث رسول جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں قبائل کے حوالے سے منصبوں کا ذکر ہے کہ امت میں خلافت ، امامت، بیت المال پر چند قبائل کا ہی حق ہے مثلا حدیث مشہور ہے خلفاء قریش سے ہوں گے اس کے علاوہ مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ، وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ، وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ، وَالسُّرْعَةُ فِي الْيَمَنِ “، وَقَالَ زَيْدٌ مَرَّةً يَحْفَظُهُ: وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے
الـْمُلْكُ فِى قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِى الأَنْصَارِ وَالأَذَانُ فِى الْحَبَشَةِ وَالأَمَانَةُ فِى الأَزْدِ يَعْنِى الْيَمَنَ
بادشاہت (یعنی خلافت) قریش میں رہنی چاہیے۔(عہدہ ) قضا انصار میں، اذان اہل حبشہ میں اورامانت قبیلہ ازد یعنی یمن میں
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں
رجاله رجال الصحيح غير أبي مريم -وهو الأنصاري- فقد روى له أبو داود والترمذي وهو ثقة.
رجال صحیح کے ہیں سوائے أبي مريمکے جو الأنصاري ہیں ابو داود و ترمذی نے روایت لی ہے ثقہ ہیں
دوسری طرف قبائل سے متعلق متضاد روایات بھی ملتی ہیں- اس تحقیق میں چند قبائل کا ذکر ہے
بنو تمیم سے متعلق متضاد روایات
بنو تمیم میں سے لوگ نکلیں گے جو دین سے نکل جائیں گے | نبو تمیم دجال مخالف ہوں گے |
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا، أَتَاهُ ذُو الخُوَيْصِرَةِ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، فَقَالَ: «وَيْلَكَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ». فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ فَقَالَ: «دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ، – وَهُوَ قِدْحُهُ -، فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ، آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ، إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأَةِ، أَوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ، وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ» قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔ |
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلاَثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا فِيهِمْ: «هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ» وَكَانَتْ فِيهِمْ سَبِيَّةٌ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ: «أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ»، وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ: ” هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمٍ، أَوْ: قَوْمِي
صحیح بخاری
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ |
ربیعہ و مضر سے متعلق متضاد روایات
ربيعة اور مضر عربوں کے دو طاقت ور قبیلے تھے جو ایام جاہلیت میں یمن میں تھے پھر جزیرہ عرب کے شمال مشرق میں گئے اور پھر فرات کی طرف منتقل ہوئے – یہ قبائل علی رضی الله عنہ کے مدد گار بن گئے تھے
اہل تشیع کی کتب میں مضر اور کی تعریف کی گئی ہے
|
مضر جو مشرق میں تھے یھاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا |
شفعه الله تعالى يوم القيامة في مثل ربيعة و مضر مستدرك الوسائل —
|
قَالاَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ” وَأَهْلُ المَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ
صحیح بخاری ابوبکر اور ابوسلمہ دونوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو«سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد» کہہ کر چند لوگوں کے لیے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے۔ یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر قحط مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا۔ ان دنوں مشرق والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔
صحیح مسلم حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ – وَاللَّفْظُ لَهُ – حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يَرْوِي عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: «أَلَا إِنَّ الْإِيمَانَ هَهُنَا، وَإِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ، عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ، حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ، وَمُضَرَ
|
قحطان سے متعلق روایات
کتاب مسند الموطأ للجوهري کے مطابق
قَالَ الزُّبَيْرُ: وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْيَمَنِ: أَنَّ قَحْطَانَ هُوَ يَقْطُنُ بْنُ عَابِرٍ وَهُوَ هُودٌ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بْنُ شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْحِجَازِ: أَنَّ قَحْطَانَ بْنَ يَمَنَ بْنِ بِنْتِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
الزبیر نے کہا اہل نسب کا دعوی ہے کہ قحطان یمنی ہیں جو ہود علیہ السلام بن شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ کی نسل سے ہیں
قحطان اور المراد یا تجوبی یا سکونی یہ قبائل کا ایک جتھہ تھا جو اپنے اپ کو قریش سے قدیم مانتا ہے اور مکہ کے جنوب میں یمن میں ہے –شروع میں یہ علی کے ساتھ تھے پھر مرادی و قحطانی خوارج بنے اور علی کا قتل کیا
لشکر علی میں انکا اثر و رسوخ تھا کہ حدیث بیان کی گئی
قحطان کا کوئی شخص بھی عمل دار ہو گا کہ خلافت قریش سے نکل کر قحطان میں چلی جائے گی – یہ گمان بعض قحطان مخالف راویوں کو ہوا جب قحطان کی اکثریت علی رضی الله عنہ کے کیمپ میں شامل ہوئی اور ان کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں لڑی اور لگنے لگا کہ قحطان سے خلیفہ ہو جائے گا- بعض قحطانیوں نے اختلاف کیا اور بالاخر ایک قحطانی عبد الرحمن ابن ملجم بن عمرو نے علی رضی الله عنہ کا قتل کیا
بعض محدثین اس روایت کی علتوں کو بھانپ نہ سکے اور یہ روایت متفق علیہ بن گئی
صحيح بخاري كي روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»
صحیح مسلم کی سند ہے
وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»
سالم أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے جو لوگوں کو اپنی چھڑی سے ہانکے گا.
موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله کے مطابق امام احمد کہتے ہیں
سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. قال أبو الحسن الميموني، عن أحمد بن حنبل، وسألته عن أبي الغيث، الذي يروي، عن أبي هريرة. فقال: لا أعلم أحداً روى عنه إلا ثور، وأحاديثه متقاربة
سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. أبو الحسن الميموني نے کہا امام احمد سے اس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس سے سوائے ثور کوئی اور روایت نہیں کرتا اس کی احادیث سرسری یا واجبی سی ہیں
مقارب الحدیث یا وأحاديثه متقاربة اس وقت بولا جاتا ہے جب راوی بہت مشھور نہ ہو اور اس کی مرویات میں کوئی خاص بات نہ ہو بلکہ واجبی سی ہوں
مغلطاي کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں کہتے ہیں
وقال أحمد بن حنبل: أبو الغيث سالم- الذي يروي عنه ثور ثقة، وقال: وقال مرة أخرى: ليس بثقة.
امام احمد نے کہا أبو الغيث سالم جس سے ثور روایت کرتا ہے ثقہ ہے اور دوسری دفعہ کہا ثقہ نہیں ہے
میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین نے بھی اسکو ثقہ اور پھر غیر ثقہ کہا
لہذا یہ راوی مشتبہ ہو گیا اور روایت اس سند سے ضروری نہیں صحیح ہو
كتاب الفتن از ابو نعیم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: وَجَدْتُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَوْمَ غَزَوْنَا يَوْمَ الْيَرْمُوكِ «أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُمَرُ الْفَارُوقُ قَرْنٌ مِنْ حَدِيدٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ أُوتِيَ كِفْلَيْنِ مِنَ الرَّحْمَةِ لِأَنَّهُ قُتِلَ مَظْلُومًا أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، ثُمَّ يَكُونُ سَفَّاحٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَنْصُورٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَهْدِيُّ، ثُمَّ يَكُونُ الْأَمِينُ، ثُمَّ يَكُونُ سِينٌ وَسَلَامٌ، يَعْنِي صَلَاحًا وَعَافِيَةً، ثُمَّ يَكُونُ أَمِيرُ الْغَضَبِ، سِتَّةٌ مِنْهُمْ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَرَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، كُلُّهُمْ صَالِحٌ لَا يُرَى مِثْلُهُ»
عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عبد الله بن عمرو سے روایت کرتا ہے کہ میں نے بعض کتب میں پایا جنگ یرموک کے دن …. قحطان کا آدمی یہ سب صالح ہیں ان سا کوئی نہیں
سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين کے مطابق
قال ابن الغلابي: يزعمون أن عقبة بن أوس السدوسي لم يسمع من عبد الله بن عمرو
ابن الغلابي کہتے ہیں (محدثین) دعوی کرتے ہیں کہ عقبہ نے عبد الله بن عمرو سے نہیں سنا
مسند احمد اور صحیح بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ [ص:65] رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُنَازِعُهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ»
امام الزُّهْرِيِّ کہتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نے بتایا کہ وہ معاویہ کے پاس پہنچے اور وہ ایک قریشی وفد کے ساتھ تھے – عبد الله بن عمرو نے کہا کہ عنقریب بادشاہت قحطان میں سے ہو گی اس پر معاویہ غضب ناک ہوئے اور کہا الله کی حمد کی جس کا وہ اہل ہے پھر کہا پس مجھے پہنچا ہے کہ تم میں سے بعض مرد ایسی احادیث بیان کرتے ہو جو کتاب الله میں نہیں ہیں نہ ہی اثر میں ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملا ، یہ لوگ تمہارے جاہل ہیں ان سے بچو اور انکی خواہشات سے جس سے گمراہ ہوئے پس میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا یہ امر قریش میں رہے گا اس میں کسی کا جھگڑا نہ ہو گا سواۓ اس کے کہ وہ اوندھآ ہو جائے گا اپنے چہرے پر – جب تک یہ دین قائم کریں
اسکی سند میں بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ہے جو اپنے باپ سے روایت کر رہا ہے محدثین کا اس پر اختلاف ہے کہ اس نے اپنے باپ سے سنا یا نہیں- امام یحیی ابن معین اور امام احمد کے مطابق نہیں سنا- یعنی مسند احمد کی یہ روایت خود امام احمد کے نزدیک منقطع ہے لیکن امام بخاری نے اس کو متصل سمجھ لیا ہے
صحیحین میں ہے
سالم أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے جو لوگوں کو اپنی چھڑی سے ہانکے گا.
یہ روایت منکر ہے – خلافت قریش سے نکل کر منگولوں اور ترکوں میں چلی گئی – البتہ اس روایت کو آج تک صحیح سمجھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر محمد بن عبد الله القحطانی نے مکہ میں ١٩٧٨ میں مسجد الحرام پر قبضہ کیا اور وہاں قتل عام کیا
امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں صحابی کی ذِي مِخبَر الحَبَشيّ ایک روایت بیان کی ہے
قَالَ أَبو اليَمان: حدَّثنا حَرِيز بْنُ عُثمان، عن راشد، عن أبي حَيٍّ المُؤَذن، عَنْ ذِي مِخبَر الحَبَشيّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم: كَانَ هَذا الأَمرُ فِي حِميَرَ، فَنَزَعَهُ اللَّهُ مِنهُم، وجَعَلَهُ فِي قُرَيش، وسَيَعُودُ إِلَيهِم”.
رسول الله نے فرمایا یہ خلافت حمیر میں تھی، پس الله نے ان سے جھگڑا کیا اور اس کو قریش کے لئے کر دیا اور پھر یہ ان میں واپس پلٹ جائے گی
روایات اصل میں دور معاویہ و علی کے دوران بنی ہیں کیونکہ قحطانی قبائل کا اثر بہت تھا- روایت میں بیان کیا گیا ہے شام میں سمجھا جا رہا تھا کہ علی کے خلیفہ قریشی نہیں قحطانی ہو جائے گا – قحطانی خلیفہ تو نہیں ہو سکے لیکن علی کا قتل کر گئے
کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از قرطبی
عَبْد الرَّحْمَنِ بْن ملجم [1] ، قيل التجوبي، وقيل السكوني، وقيل الحميري. قَالَ الزُّبَيْر: تجوب رجل من حمير، كَانَ أصاب دما فِي قومه، فلجأ إِلَى مراد فَقَالَ لهم: جئت إليكم أجوب البلاد، فقيل لَهُ: أنت تجوب. فسمي بِهِ فهو اليوم في مراد، وهو رهط بعد الرَّحْمَنِ بْن ملجم المرادي ثُمَّ التجوبي، وأصله من حمير، ولم يختلفوا أَنَّهُ حليف لمراد وعداده فيهم
ابن ملجم کہا جاتا ہے تجوبی ہے کہا جاتا ہے سکونی ہے کہا جاتا ہے حمیری ہے … یہ المرادی ہے پھر تجوبی ہے جن کی اصل حمیر ہے
طبقات ابن سعد کے مطابق
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مُلْجَمٍ الْمُرَادِيُّ. وَهُوَ مِنْ حِمْيَرَ. وِعِدِادُهُ فِي مُرَادٍ. وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي جَبَلَةَ مِنْ كِنْدَةَ
عبد الرحمان ابن ملجم حِمْيَرَ کا تھا جو کندہ کا حلیف ہے
کتاب الإنباه على قبائل الرواة المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق
وَبَنُو قرن بن ردمان بن نَاجِية بن مُرَاد رَهْط اويس الْقَرنِيوَفِي عداد مُرَاد تجوب
قَالَ ابْن الزبير تجوب رجل من حمير كَانَ أصَاب دَمًا فِي قومه فلجأ إِلَى مُرَاد فَقَالَ جِئْت إِلَيْكُم أجوب الْبِلَاد لأحالفكم فَقيل لَهُ أَنْت تجوب فَسُمي بِهِ وَهُوَ الْيَوْم فِي مُرَاد رَهْط عبد الرَّحْمَن بن ملجم الْمرَادِي ثمَّ التجوبي وأصلهم من حمير
ابن ملجم التجوبي ہے جو حمیر کا ہے
کتاب الأنساب المؤلف: عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمي السمعاني المروزي، أبو سعد (المتوفى: 562هـ) کے مطابق
التدؤليّ بفتح التاء المنقوطة باثنتين من فوقها وسكون الدال المهملة وهمزة الواو المضمومة [4] وفي آخرها/ اللام، هذه النسبة الى تدؤل وهو بطن من مراد من جملتهم عبد الرحمن بن ملجم المرادي التدؤلي أحد بنى تدؤل
ابن ملجم التدؤليّ ہے المرادی ہے
کتاب سلم الوصول إلى طبقات الفحول المؤلف: مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـ «كاتب جلبي» وبـ «حاجي خليفة» (المتوفى 1067 هـ) کے مطابق
عبد الرحمن بن ملجم التجوبي قاتل علي.
التُجِيبي: [نسبة] إلى تُجِيب، بضم التاء وكسر الجيم وبفتح، قبيلة من كندة
ابن ملجم التُجِيبي ہے جو کندہ کا قبیلہ ہے
شیعہ کتاب اضبط المقال فى ضبط اسماء الرجال کے مطابق
تجوب : قبيلة من حمير حلفاء لمراد منهم ابن ملجم المرادي
تجوب اج حمیر کا قبیلہ ہے اس کے حلفا میں سے ابن ملجم المرادی تھا
تاریخ دمشق کے مطابق
فلما مات علي ودفن بعث الحسن بن علي إلى عبد الرحمن بن ملجم فأخرجه من السجن ليقتله فاجتمع الناس وجاؤوا بالنفط والبواري والنار فقالوا : نحرقه فقال عبد الله بن جعفر وحسين بن علي ومحمد بن الحنفية : دعونا حتى نشفي أنفسنا منه فقطع عبد الله بن جعفر يديه ورجليه فلم يجزع ولم يتكلم فكحل عينيه بمسمار محمى فلم يجزع وجعل يقول : إنك لتكحل عيني عمك بملمول ممض وجعل يقرأ : ” اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق ” حتى أتى على آخر السورة كلها وإن عينيه لتسيلان ثم أمر به فعولج عن لسانه ليقطعه فجزع فقيل له قطعنا يديك ورجليك وسملنا عينيك يا عدو الله فلم تجزع . فلما صرنا إلى لسانك جزعت ؟ ! فقال : ما ذاك من جزع إلا أني أكره أن أكون في الدنيا فواقا لا أذكر الله فقطعوا لسانه ثم جعلوه في قوصرة وأحرقوه بالنار والعباس بن علي يومئذ صغير فلم يستأن به بلوغه
بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ کا ذکر
مسند ابو یعلی ح ٧٤٢١ میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، جَارِهِمْ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: «كَانَ أَبْغَضَ الْأَحْيَاءِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ
أَبِي بَرْزَةَ، رضی الله عنہ نے فرمایا زندوں میں سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بغض رکھنے میں سب سے بڑھ کر بنو امیہ اور ثقیف اور بنو حنفیہ تھے
حسين سليم أسد کہتے ہیں اسناد حسن ہیں
باقی قسط کا انتظار کریں
بہت معلومات دی ہیں آپ نے – باقی قسط کا انتظار ہے
اس کا اردو ترجمہ بھی لگا دیں
تاریخ دمشق کے مطابق
فلما مات علي ودفن بعث الحسن بن علي إلى عبد الرحمن بن ملجم فأخرجه من السجن ليقتله فاجتمع الناس وجاؤوا بالنفط والبواري والنار فقالوا : نحرقه فقال عبد الله بن جعفر وحسين بن علي ومحمد بن الحنفية : دعونا حتى نشفي أنفسنا منه فقطع عبد الله بن جعفر يديه ورجليه فلم يجزع ولم يتكلم فكحل عينيه بمسمار محمى فلم يجزع وجعل يقول : إنك لتكحل عيني عمك بملمول ممض وجعل يقرأ : ” اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق ” حتى أتى على آخر السورة كلها وإن عينيه لتسيلان ثم أمر به فعولج عن لسانه ليقطعه فجزع فقيل له قطعنا يديك ورجليك وسملنا عينيك يا عدو الله فلم تجزع . فلما صرنا إلى لسانك جزعت ؟ ! فقال : ما ذاك من جزع إلا أني أكره أن أكون في الدنيا فواقا لا أذكر الله فقطعوا لسانه ثم جعلوه في قوصرة وأحرقوه بالنار والعباس بن علي يومئذ صغير فلم يستأن به بلوغه
پس جب علی کی موت ہوئی اور ان کی تدفین ہوئی – حسن نے ابن ملجم کی طرف لوگ بھیجے جنہوں نے اس کو قید خانہ سے نکالا تاکہ اس کو قتل کریں پس لوگ جمع ہوئے اور وہ اگ اور تیل لے آئے اور کہنے لگے اس کو ہم جلا دیں گے – پس عبد الله بن جعفر اور حسین بن علی اور ابن حنفیہ نے کہا کرو یہ سب یھاں تک کہ ہمارا دل ٹھنڈا ہو – پس عبد الله بن جعفر نے اس کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے لیکن ابن ملجم نے نہ ہی چیخ و پکار کی نہ کچھ بولا اس کی آنکھوں میں دہکتی سلاخ ڈالی گئی وہ چیخا نہیں اور بولا تو نے اپنے چچا کی آنکھ نکالی اور وہ قرات کر رہا تھا اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق یہاں تک کہ پوری سورت پڑھی اور اس کی آنکھ بہہ رہی تھیں – پھر حکم دیا گیا کہ اس کی زبان کاٹ دو تو
وہ چیخا – کہا اے الله کے دشمن تیرے ہاتھ پیر کاٹ دیے اور آنکھ پھوڑ دی تب تو نہ چیخا؟ اب جب زبان کی باری ہے تو چختا ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں چیخا الا یہ کہ میں نے کراہت کی کہ دنیا میں ایسا ہو جاؤں کہ الله کا ذکر نہ کر سکوں – اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر اس پر تیل ڈال کر اس کو جلا دیا گیا اور عباس بن علی اس دن چھوٹے تھے بلوغت کو نہ پہنچے تھے