اہل حدیث فرقہ کے ایک سر خیل ضلع اٹک کے غیر مقلد عالم ( جو ابن تیمیہ کے مقلد تھے ) اور نام حافظ زبیر علی زئی رکھتے تھے گزرے ہیں – یہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے کٹر دشمن تھے اور خط و کتابت سے دشمن حق ابو جابر دامانوی کو خام مال مہیا کرتے کہ لوگ ڈاکٹر عثمانی کا رد لکھ سکیں
افسوس حافظ زبیر علی زئی اب ہمارے درمیان نہیں ان کی ایک زندگی اور دو موتیں ہو چکی ہیں اور بلا توبہ کے ان جہانی ہو چکے ہیں -البتہ ہم احقاق حق کے لئے اور تبین کے لئے حیات فی القبر کی دو مشہور روایات پر ان کی بدلتی آراء کا ذکر کرنا چاہیں گے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں روح کا آنا
سنن ابو داود کی حدیث ٢٠٤١ ہے کہ
باب في الصلاة على النبي – صلَّى الله عليه وسلم – وزيارة قبره (1)
– حدَّثنا محمدُ بنُ عوفٍ، حدَّثنا المقرئ، حدَّثنا حيوةُ، عن أبي صَخْرٍ حميدِ بنِ زياد، عن يزيدَ بنِ عبد الله بن قُسيطٍ عن أبي هريرة أن رسولَ اللهِ – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “ما مِنْ أحَدٍ يُسلِّمُ علي إلا ردَّ اللهُ عليَّ رُوحي حتى أردَّ عليه السَّلامَ
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پرسلام کہے تو اللہ میری روح نہ لوٹا دے
سن ٨٠ کی دہانی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی نے سب سے پہلے اس روایت کو ضعیف کہا – ان سے قبل علماء کا جمہور اس روایت کو صحیح کہتا آیا تھا لیکن حق کو حق کہنا جوان مردوں کا کام ہے جس کی ہمت ڈاکٹر صاحب میں پیدا ہوئی اور اس کا بطلان انہوں نے واضح کیا – پھر خواجہ محمد قاسم اہل حدیث نے بھی اس کو ضعیف کہا – لیکن زبیر علی اور ان کے شاگرد رشید ابو جابر اس پر قائم رہے کہ یہ روایت صحیح ہے
زبیر علی کے ذہن میں یقینا یہ روایت ایک الجھن بن گئی اور وہ اس پر تحقیق کرتے رہے اور بالاخر مرنے سے قبل انہوں نے اس روایت پر جو کلام کیا وہ حاضر خدمت ہے
زبیر علی زئی کا موقف : زبیر علی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں
یو ٹیوب پر موجود ١٧ جون ٢٠٠٩ کی ایک ویڈیو ہے
اس ویڈیو میں ١٠:٣٠ منٹ پر جناب زبیر زئی بیان کرتے ہیں کہ یہ فتوی مقالات جلد اول میں صفحہ ١٩ پر چھپا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی برزخی ہے –
یو ٹیوب پر موجود اسی سلسلے کی ایک دوسری ویڈیو (٥٣:٣٠ منٹ)میں سوال ہواکہ کیا قبروں میں انبیاء نماز پڑھتے ہیں- ؟
زبیر علی زئی کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے
اسی ویڈیو میں ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح لوٹائے جانے والی روایت پر سوال ہوا
ما من یسلم کی وضاحت فرمائیں کہ صحیح ہے یا نہیں ؟
اس پر زبیر علی تفصیلی جواب میں کہتے ہیں
اس میں آتا ہے کہ کوئی مجھ پر سلام پڑھتا ہے تو الله تعالی میری روح کو لوٹا دیتا ہے – یہ بھی بڑی مشکل روایتوں میں سے ہے – اس کو بھی کچھ لوگ ، البانی وغیرہ صحیح کہتے ہیں – تو ہم یہ کہتے ہیں کہ بھئی روح کو لوٹانے سے مراد کیا ہے ؟ پہلی تو یہ بات ہے روح تو نکلی پھر آئی – نکلی پھر آئی – نکلی آئی – نکلی آئی – (ہاتھ سے اشارات کیے) – یہ کیا ہوا ؟ یہ تو مسئلہ عجیب ہوا ! پھر یہ بھی اس وقت لوٹانی جائے گی جب قبر پر کوئی درود پڑھے گا نا – علماء تو اس کو قبر کے باب میں لے کر آئیں ہیں – تو قبر پر تو درود پڑھتا ہی کوئی نہیں سارے حجرہ کے باہر پڑھتے ہیں – قبر پر تو پرویز (مشرف ) نے پڑھا ہو گا ، جو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا ڈکٹیٹر – اس (پرویز مشرف) کے لئے جب جاتے ہیں تو (وہابی)کھولتے ہیں نا حجرہ – اندر چلا جاتا ہے یا کوئی اور – زرداری جا کر پڑھتا ہو گا – ہمارے لئے تو قبر، کدھر دروازہ کھلتا ہے جی – (سائل نے دخل در مقولات کی، مرزا : لیکن علمائے عرب تو قائل ہیں؟ ) – زبیر: مجھے بات کرنے دیں – ہم قبر پر نہیں جا سکتے ہم باہر کھڑے ہوتے ہیں ، باہر سے تو کوئی ثبوت نہیں ہے – یہ لوگ دروازہ کھولیں ، قبر پر کوئی جائے گا تو پھر روح لوٹائی جائے گی – اچھا ! تو قبر پر بادشاہوں کے لئے سعودی عرب والے دروازہ کھولتے ہیں، عام لوگوں کے لئے نہیں کھولتے – .. ابن عبد الہادی اور دوسرے علماء نے اس سے یہی مراد لیا ہے کہ یہ قبر پر مراد ہے – یہ حدیث میری تحقیق میں ضعیف ہے – صحیح نہیں- عالم اس کو صحیح کہتے ہیں نا ، وہ تو بعد میں بات کریں گے – جلال الدین سیوطی نام کے ایک مولوی صاحب گزرے تھے وہ حیات النبی کے قائل تھے ان کے لئے یہ حدیث بڑی پکی تھی انہوں نے اٹھارہ جواب دیے کبھی یہ کبھی وہ – لیکن ہے تو بڑی عجیب بات – اگر باہر سے بھی روح لوٹائی جاتی ہے تو لاکھوں آدمی باہر سے سلام دے رہے ہیں تو لاکھوں بار لوٹائی جائے گی – ایک دفعہ نہیں ہے کہ روح لوٹائی گئی اور قیامت تک کے لئے لوٹائی گئی – … تو یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، امت میں اس کا کوئی قائل نہیں – (سائل نے دخل در مقولات کی ) زبیر : برزخی معاملہ ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے – اس میں یزید بن عبد الله بن قسیط جو ہے جو یہ روایت کرتا ہے تابعین سے ، اسکی تو عام روایتیں تابعین سے ہیں تو اس نے نہیں بتایا کہ یہ حدیث ابو ہریرہ سے سنی ہے – جس روایت میں آتا ہے کہ اس نے ابو صالح سے سنی ہے، ان کے شاگروں سے اس کی سند ضعیف ہے
یعنی زبیر علی زئی زبانی جوابات اور تحریری مقالات میں روح لوٹائے جانے والی روایت کو ضعیف کہتے رہے لیکن ٢٠٠٤ میں جب عربوں کے لئے انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ مرتب کی تو ارض و سماء حیران تھے اس میں سے روح لوٹائے جانے والی روایت موجود نہیں تھی [1]– اور اس کتاب میں مقدمہ میں یہ لکھا
تنبیہ: سنن الاربعہ کی ہر وہ حدیث جس کا ذکر یہاں نہ ہو وہ ہمارے نزدیک صحیح یا حسن ہے قابل احتجاج ہے و الله اعلم
اس کتاب میں زبیر علی نے روح لوٹانے والی روایت شامل نہیں کی یعنی چار ماہ کے اندر (توضیح الاحکام میں شعبان ھ١٤٢٤ سے انوار الصحیفہ محرم ١٤٢٥ ھ ) انہوں نے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا ؟ زبیر علی زئی پر اکتوبر ٢٠٠٣ (شعبان ١٤٢٤ ھ ) میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت صحیح نہیں ہے لیکن محرم ٥ سن ١٤٢٥ ھ بمطابق ٢٥ فروری ٢٠٠٤ عیسوی میں انوار الصحیفہ میں اس ضعیف روایت کو شامل نہیں کیا – پھر ٢٠٠٩ میں ویڈیو میں اس کو پھر ضعیف کہا[2]
پھر اگلے سال زبیر علی زئی نے سنن ابوداود دارالسلام (جس پر زبیر علی زئی نے مقدمہ تحقیق میں مارچ ٢٠٠٥ کی تاریخ ڈالی ہے ) میں حدیث( ٢٠٤١ ) اس کی تحقیق میں اپنے منفرد گول مول انداز میں لکھا ہے
اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ، یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع
اسکی سند ضعیف ہے ، اس کی تخریج احمد نے المقریء سے کی ہے اور ابن ملقن نے اگرچ اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ، یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ، لیکن وہ تابعین کی سند سے صحابہ کی روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے
یعنی عربی تحقیق میں اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا لیکن جو اردو میں تحقیق لکھی اس میں اس کو ضعیف کہا – اس قدر تضاد بیانی اس لئے کی گئی کیونکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ عربی میں تھی – عرب علماء دیکھتے کہ زبیر علی نے روح لوٹائی جانے والی روایت ضعیف قرار دے دی ہے تو اس کتاب کو پذیرائی نہیں مل پاتی لہذا سنن اربعہ کی ضعیف روایات کے مجموعہ میں اس روایت کو شامل نہیں کیا گیا-
زبیر علی کے حوالے سے اس روایت کی تصحیح آج تک فورمز پر پیش کی جا رہی ہے- مثلا کہا جاتا ہے کہ زبیر علی زئی نے،ریاض الصالحین کی تخریج میں اس حدیث کو ’’ حسن ‘‘ کہا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اسے عراقی نے ’’ جید ‘‘ کہا ہے
معلوم ہوا کہ زبیر علی زئی اس روایت کی تصحیح پر پینترے بدلتے رہے اور اپنی ناقص تحقیق کی بنیاد پر ڈاکٹر عثمانی کی بے جا مخالفت پر جمے رہے کبھی رد روح النبی والی روایت کو صحیح کہا تو کبھی حسن اور یہاں تک کہ آخر میں ضعیف لکھا تو اردو میں لکھا لیکن عربی میں یہ لکھنے کی ہمت نہ ہوئی
http://www.urdumajlis.net/threads/انوار-الصحيفة-في-الاحاديث-الضعيفة-من-السنن-الاربعة-مع-ادلة-طبعة-ثالثة.31/
حالیہ اڈیشن چونکہ کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جس کوزبیر علی زئی اپنی زندگی میں مکمل کر چکے تھے مگر یہ اڈیشن طبع نہ ہوسکا۔اس اڈیشن کے صفحہ اول پر ایسی احادیث کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے جن کے بارے میں ان کی تحقیق تبدیل ہو گئی تھی اور انہوں نے اس کتاب کے سابقہ اڈیشنوں میں درج شدہ احکامات سے رجوع کر لیا تھا۔لہذا کتاب سے استفادہ کرتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا جائے۔ یہاں آسانی کے لئے یہ لسٹ پیش خذمت ہے جس میں سنن ابو داود کی روایات لی لسٹ ہے
روح لوٹائے جانے والی روایت رقم ٢٠٤١ سے ہے دیکھا جا سکتا ہے کہ جن روایات سے زبیر علی نے حکم پر رجوع کیا ان میں رقم ٢٠٤١ موجود نہیں-
انبیاء کے اجسام باقی رہتے ہیں ؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے
زبیر علی زئی کتاب فضائل درود و سلام (جس کی اشاعت فروری ٢٠١٠ کی ہے) میں تعلیق میں ص ٦٥ اور ٦٦ پر لکھتے ہیں
ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں لکھتے ہیں
وَقَالَ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عن أبى خلد بْنِ دِينَارٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ قَالَ لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ وَجَدْنَا فِي مَالِ بَيْتِ الْهُرْمُزَانِ سَرِيرًا عَلَيْهِ رَجُلٌ مَيِّتٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مُصْحَفٌ .. قُلْتُ مَنْ كُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ قَالَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ دَانْيَالُ قُلْتُ مُنْذُ كَمْ وَجَدْتُمُوهُ قَدْ مَاتَ قَالَ مُنْذُ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ قُلْتُ مَا تَغَيَّرَ مِنْهُ شَيْءٌ قَالَ لَا إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ قَفَاهُ إِنَّ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ لَا تُبْلِيهَا الْأَرْضُ وَلَا تَأْكُلُهَا السِّبَاعُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ وَلَكِنْ إِنْ كَانَ تَارِيخُ وَفَاتِهِ مَحْفُوظًا مِنْ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ فَلَيْسَ بِنَبِيٍّ بَلْ هو رجل صالح لأن عيسى بن مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ بِنَصِّ الْحَدِيثِ الَّذِي فِي الْبُخَارِيِّ
جب تستر فتح ہوا تو ایک لاش ملی جس کے اوپر مصحف رکھا تھا … ظن و گمان ہوا کہ یہ لاش دانیال کی ہے لوگوں سے پتہ کیا کہ یہ کب مرا کہا تین سو سال پہلے .. ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اسکی سند أَبِي الْعَالِيَةِ تک صحیح ہے لیکن اگر یہ تاریخ ٣٠٠ سال صحیح ہے تو یہ نبی نہیں ہو سکتا… ہمارے نبی اور عیسیٰ کے ردمیان ٦٠٠ سال کا فاصلہ ہے جیسا بخاری نے روایت کیاہے
معلوم ہوا کہ شخص نبی نہیں تھا کیونکہ اس کی موت میں اور نبی صلی الله علیہ وسلم میں صرف ٣٠٠ سال کا فرق تھا
عود روح کی روایت
زاذان کی مشہور عود روح والی روایت کو زبیر علی ساری زندگی صحیح کہتے رہے اس کے شیعہ راویوں کا دفاع کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی-لیکن یہ روایت بھی ان کی ذہنی الجھن میں اضافہ کرتی رہی-
سن ٢٠٠٢ میں زبیر علی نے اثبات عذاب قبر از بیہقی کا اردو میں ترجمہ کیا
اس میں زاذان والی روایت کو حسن قرار دیا اور اس کے آخر میں ایک اضافہ کو بھی حسن کہا
یہان تک کہ سن ٢٠٠٩ میں شائع کردہ کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال سے معلوم ہوا کہ زبیر اس میں بھی اب شک کرنے لگے ہیں لہذا ارشد کمال نے لکھا
زاذان کی روایت جس کے کسی بھی حصے کو جمہور علماء نے مشکوک نہیں کہا تھا تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس کا بعض حصہ مشکوک ہے-
و للہ الحمد
اس اضافہ کو ان علماء نے صحیح قرار دیا ہے
بیہقی اثبات عذاب القبر ص ٣٩ پر
ابن تیمیہ مجموع الفتاوی ج ١ ص ٣٤٩ اور ج ٤ ص ٢٨٩ پر
ابن قیم کتاب الروح ص ٤٨ پر
ناصر الدین البانی صحیح ترغیب و ترھیب ص ٢١٩ ج ٣ پر اور احکام الجنائز ص ١٥٩ پر اور مشکاة المصابيح ص ٢٨
راقم کہتا ہے زبیر علی کا قول صحیح نہیں کہ اس میں اعمش کی تدلیس ہے کیونکہ اعمش نے سماع کی تصریح کر دی ہے – سنن ابو داود ٤٧٥٤ میں ہے
حدثنا هناد بن السري حدثنا عبد الله بن نمير حدثنا الأعمش حدثنا المنهال عن أبي عمر زاذان قال سمعت البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحوه.
یعنی اس متن پر اعمش کی تدلیس کہنا سرے سے ہی غلط ہے
بہر کیف زبیر میں کچھ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس روایت کی تحقیق کر سکیں اور اس کو صحیح کہنے کی بجائے اب وہ نیچے حسن کے درجہ پر لے آئے – یہ ارتقاء کی منزلیں چل رہی تھیں اور وہ حق کی طرف جا رہے تھے افسوس وہ مکمل تحقیق نہ کر پائے لیکن حیات فی القبر کی دو اہم روایات کو رد کر گئے اور ایک میں شک پیدا کر گئے
زبیر علی زئی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح رہتی ہے یہں تک کہ قبر سے باہر بھی اتا ہے لہذا کتاب میں اس روایت کو حسن کا درجہ دیا
قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “
زبیر کی موت اس عقیدے پر نہ ہوئی جو آجکل جمہور اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں
اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں
گویا اس کے نزدیک روح کا واپس نکلنا معلوم ہی نہیں دوسری طرف ابو جابر دامانوی یہ عقیدہ ہے کہ روح نکل کر جنت یا جہنم میں چلی جاتی ہے
ہمارے نزدیک تو یہ شروع سے ہی منکر روایات ہیں
الغرض ڈاکٹر صاحب کی رد کردہ احادیث کو غیر مقلد عالم ان کی وفات کے کئی سال بعد ضعیف کہنے پر مجبور ہوئے
السلام علينا و على عباد الله الصالحين
فرشتہ کا خواب میں آنا
مناقب امام احمد میں ابن جوزی نے امام ابو داود کے خواب کا ذکر کیا
أخبرنا محمد بن أبي منصور، قال: اخبرنا عبد القادر بن محمد؛ قال: أنبأنا إبراهيم بن عمر، قال: أنبأنا عبد العزيز بن جعفر، قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال، قال: حدثنا أبو داود السجستاني، قال: رأيت في المنام سنة ثمان وعشرين ومئتين كأني في المسجد الجامع، فأقبل رجل شبه الخصي من ناحية المقصورة وهو يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتدوا باللذين من بعدي أحمد بن حنبل وفلان- قال أبو داود: لا أحفظ اسمه- فجعلت أقول في نفسي، هذا حديث غريب، ففسرته على رجل، فقال: الخصي ملك.
ابو داود نے کہا میں نے خواب میں دیکھا سن ٢٢٨ ھ میں کہ میں مسجد الجامع میں ہوں تو ایک شخص ہیجڑے جیسا آیا مقصورہ کی طرف سے اور وہ کہہ رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان کی اقتداء کرنا میرے بعد – احمد بن حنبل کی اور فلاں کی – ابو داود نے کہا اس کا نام یاد نہیں رہا تو میں نے اپنے دل میں کہا یہ حدیث غریب ہے پس ایک شخص نے اس کی تفسیر کی کہ یہ فرشتہ ہیجڑا تھا
زبیر علی زئی شمارہ الحدیث نمبر ٢٦ میں اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں اور ایک انوکھا تبصرہ کرتے ہیں
کیسا دجل ہے ایک ثقہ محدث کو خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تلقین پیش کی گئی لیکن اس بار اس تلقین رسول کا دین کو کوئی فائدہ نہیں ہے-
janab u tube pe dhaikeay zubair A zai 100 sawal ous ny apni taraf sy hi kissi rewayet ko sahi or kissi ko ghalat kaha hy pl need ur comments.
اس ویڈیو کا لنک بھیج دیں
اس میں کس روایت پر اپ کو اشکال ہے ؟ زبیر کی تصحیح و تضعیف سے ہم اتفاق نہیں کرتے
جس روایت پر سوال ہو
اس کا ٹائم لکھ دیں
مثلا
٢
منٹ ٣٠ سیکنڈ
اگر آپ لوگوں کے بقول محدثین ان روایات کو صحٰھ کہہ رہے تھے تو پھر خود ڈاکٹر ؑعثمانی کا مقام کیا ہے کہ وہ کسی روایت کو ضعیف کہے ، کیا ڈاکٹر عثمانی محدث تھا، انھوں نے کونسے کتابیں لکھی ہے جس میں احادیث کی تخریج کی ہو، انھوں نے متفق علیہ روایات کو بھی رد کیا ہے یا ایسے تاویلات کی ہے جو 1980 تک موجود نہیں تھے، ادھر آپ خود کہہ رہے ہو کہ 1980 میں ڈاکٹر عثمانی نے ضعیف کہا مطلب اگر یہی ایمان کا مدار تھا تو اس سے پہلے مسلمان ختم ہوگئے تھے اس عقیدہ کو مانکر، آپ لوگوں کا اپنا رویہ خوارج جیسا ہے
محدثین میں سے بعض نے صحیح کہا ہے تو بعض نے منکر و ضعیف بھی کہا ہے
جس کو ١١٠٠ سال سے چھپایا جا رہا ہے اسی کو ڈاکٹر عثمانی نے واضح کیا ہے کہ یہ روایات متقدمین محدثین کے نزدیک صحیح نہیں تھیں
دوم کون سی ایسی تاویل کی ہے جو عثمانی نے خود کی ہو اور پچھلی کتب میں اس کا ذکر نہ ہو ؟
یہ سب اقوال متقدمین کی کتب میں موجود ہیں
———–
ایمانیات میں قرآن کی آیات سب سے اول ہیں -آیات قرانی کا رد جس بھی روایت سے ہو گا ان کی تحقیق قیامت تک چلے گی
اس میں کسی کی دو رائے نہیں ہیں
———
خوارج کے نزدیک گناہ کبیرہ کرنے سے ایمان ختم ہو جاتا ہے
یہی قول بعض محدثین کا بھی ہے
لیکن راقم ان محدثین کا بھی رد کرتا ہے اور خوارج کا بھی رد کرتا ہے
آپ کو مطالعہ و تحقیق کی ضرورت ہے
———-
جنہوں نے حدیث پر کام کیا ہو اس کی تخریج کی ہو ان پر روایات کا ضعف واضح ہوتا ہے
اسی وجہ سے زبیر اپنی آخری عمر میں ان روایت کو ضعیف کہہ رہا تھا جن کو وہ اوائل عمر میں ڈاکٹر عثمانی کی مخالفت میں صحیح کہتا تھا
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1-%d8%b9%d9%84%db%8c-%d8%b2%d8%a6%db%8c-%d8%aa%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%d8%a7%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%88%d8%b4%d9%86%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%a2/
———