قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کتاب میں آیات ہیں جو متشابھات ہیں اور اہل علم ان پر ایمان رکھتے ہیں ان کی صحیح تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے
سورہ الطلاق کی آخری آیات
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} قَالَ: لَوْ حَدَّثْتُكُمْ بِتَفْسِيرِهَا لَكَفَرْتُمْ وَكُفْرُكُمْ تَكْذِيبُكُمْ بِهَا
ابن عباس رضی الله عنہ نے اللہ تعالی کے قول پر کہا سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی پر کہا اگر اس کی تفسیر کروں تو تم کفر کرو گے
اس کی سند میں إبراهيم بن مهاجر البجلي الكوفي ہے جس پر امام القطان و امام نسائی کا کہنا ہے
عن طارق بن شهاب ونحوه قال القطان لم يكن بالقوي وكذا قال النسائي
یہ قوی نہیں
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الْقُمِّيُّ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ [ص:79] {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} الْآيَةُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا يُؤَمِّنُكَ أَنْ أُخْبِرَكَ بِهَا فَتَكْفُرَ
سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ابن عباس سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کے قول
سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی
کا کیا مطلب ہے
پس ابن عباس نے فرمایا تم اس پر ایمان نہ لاؤ گے اگر اس کی خبر کروں
وفي «كتاب الصريفيني»: قال ابن منده: ليس بقوي في سعيد بن جبير
ابن مندہ کا قول ہے کہ راوی جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، سعید بن جبیر سے روایت میں قوی نہیں ہے
نوٹ سات زمین موجود ہیں ان پر ایمان ہے لیکن یہ قرآن میںموجود نہیں کہ ان تک انسان جا کر واپس زمین پر بھی آ جاتے ہیں
سورہ کہف میں سببا کا مطلب ؟
ساحل عدیم صاحب کی پورٹل تھیوری کی دوسری بڑی دلیل سورہ کہف کی آیات ہیں جن میں سببا کا لفظ ہے
سبب کا لفظ ہم اردو میں بھی بولتے ہیں اور اس کا مطلب ہے وجہ یا رخ یا جانب یا سرا
اس کا کیا سبب ہے یعنی اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا سرا دیں ؟ اس کا رخ بتائیں ؟ ان تمام جملوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس مسئلہ کو اس جانب ، رخ سے سمجھا جائے اس حوالے سے کوئی سرا ملے – عربی میں بھی اس لفظ کے یہی مطلب ہیں
إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (84) فَأَتْبَعَ سَبَبًا (85)
ہم نے اس کو زمین میں بادشاہت دی اور اس کو ہر چیز کا سرا دیا
پھر اس نے اس سرے کو فالو کرنا شروع کیا
یہاں کہا جا رہا ہے کہ ذو القرنین کو کوئی نشان یا سرا ملا اور انہوں نے اس پر کھوج کی کہ سفر کیا
تفسیر طبری میں ہے
حدثني عليّ، قال ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما
ابن عباس نے فرمایا ہم نے اس کو ہر چیز پر سبب دیا ، فرمایا یعنی علم دیا
اس پر متعدد تفسیری اقول ہیں
– حدثنا القاسم، قال ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) قال: علم كلّ شيء.
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) علما.
حُدثت عن الحسين، قال: سمعت أبا معاذ يقول: ثنا عبيد، قال: سمعت الضحاك يقول في قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما.
ان سب کا کہنا ہے کہ یہ سبب یہاں علم دیا جانا ہے
اس حوالے سے ساحل عدیم صاحب کو جو روایت سب سے پسند آئی ہے وہ تفسیر طبری میں ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله (فاتَّبَعَ سَبَبا) قال: هذه الآن سبب الطرق (1) كما قال فرعون (يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ) قال: طرق السماوات
عبد الرحمان بن زید بن اسلم نے قول (فاتَّبَعَ سَبَبا) پر کہا کہ یہ وہی سبب ہے جیسا فرعون نے کہا تھا اے ہامان میرے لئے ایک صرح بنالو جس سے میں آسمانوں نے اسباب کو دیکھوں – کہا یہ آسمان کے رستے ہیں
امام بخاری اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں عَبد الرَّحمَن بْن زَيد بْن أَسلَم پر کہتے ہیں
ضَعَّفَهُ عليٌّ جِدًّا.
امام علی المدینی اس کی شدید تضعیف کرتے تھے
امام الذھبی اپنی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين
میں ذکر کرتے ہیں
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم: ضعفه أحمد بن حنبل، والدارقطني
امام احمد و دارقطنی فی اس کی ضعیف کہتے ہیں
المعلمی کتاب التغليق میں کہتے ہیں أولاد زيد بن أسلم ضعفاء زید بن اسلم کی تمام اولاد ضعیف ہے
قال النسائي: ضعيف مدني. “الضعفاء والمتروكون
لب لباب ہوا کہ یہ تفسیری قول کہ ذو القرنین کا سبب وہی ہے جس کا فرعون نے ذکر کیا وہ قول ہی ضعیف ہے
سورہ النمل میں ہے کہ سلیمان نے ملکہ سبا سے کہا ادْخُلِي الصَّرْحَ عمارت میں داخل ہو
فرعون نے عمارت بنانے کا حکم دیا نہ کہ ہامان کو پورٹل کھولنے کا حکم دیا
فرعون نے کہا کہ وہ آسمان میں کوئی نشان دیکھے کہ اللہ بھی وہاں سے زمین کو کنٹرول کر رہا ہے
ال فرعون اللہ کے وجود کے انکاری نہیں تھے – سورہ المومن میں ہے ال فر عون سمجھتے تھے کہ یوسف کے بعد مصر میں اللہ کا کوئی اور نبی نہ آئے گا – یعنی وہ اللہ کو جانتے تھے لیکن بحث اس میں تھی کہ کیا اللہ تعالی زمین کے قریب ہے یا دیگر اجرام فلکی – ان کے نزدیک زمین کے قریب اجرام فلکی زمین پر اثر رکھتے تھے نہ کہ دور آسمانوں سے باہر کا کوئی رب – لہذا فرعون نے ہامان سے کہا کہ کوئی مینار بنا دو دیکھوں کہ ستاروں کے سوا بھی کوئی اور مصر پر اثر کر سکتا ہو
دیکھا جا سکتا ہے کہ عبد الرحمان بن اسلم کی تفسیری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ تابعین کے نزدیک زمین پر پورٹل کھلتے تھے اور اصحاب کہف ، یاجوج و ماجوج ، ذوالقرنین و دجال تمام پورٹل سے اتے جاتے رہے ہیں
عَيْنٍ حَمِئَةٍ پر ساحل عدیم کا تصور
سورہ کہف کی آیت ہے ذو القرنین ایسی جگہ پہنچا جہاں
حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب کی جگہ پہنچا تو پایا اس کو کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوتے ہوئے
طبری نے ذکر کیا کہ اس آیت میں اختلاف قرات موجود ہے
فقرأه بعض قراء المدينة والبصرة (فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ) بمعنى: أنها تغرب في عين ماء ذات حمأة، وقرأته جماعة من قراء المدينة، وعامَّة قرّاء الكوفة (فِي عَيْنٍ حامِيَةٍ (يعني أنها تغرب في عين ماء حارّة.
مدینہ و بصرہ کے قاری قرات کرتے ہیں فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ یعنی کیچڑ کا چشمہ اور کوفہ میں جماعت نے قرات کی عَيْنٍ حامِيَةٍ یعنی سورج کھولتے پانی میں غروب ہو رہا تھا
ساحل عدیم کا خیال ہے کہ عَيْنٍ کا مطلب عربی میں آنکھ ہے اور حَمِئَةٍ گرم ہے لہذا یہ آتشی آنکھ بن گئی گویا کہ ایک گول پورٹل بنا گیا
عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ (المطفّفين – 28)
مقربین عین سے پئیں ہے
یعنی چشموں سے
اللہ تعالی نے موسی سے کہا
فإنك باعيننا
تم ہماری آنکھوں میں تھے
یعنی موسی تم پر ہماری نظر ہے
عین کا لفظ چشمہ کے لئے ہے – آنکھ پر اس کا اطلاق مجازی ہے کیونکہ آنکھ سے انسؤ یا پانی اتا ہے
دابه ألأرض بر تصور
دابه ألأرض پر ساحل عدیم کا قول ہے کہ یہ زمین کا جانور بھی اسی زمین سے نہیں بلکہ کسی اور سیارہ سے آئے گا
ساحل عدیم کے نزدیک دجال کا گدھا ہے جو ٹائم ٹریول کرتا ہے جبکہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں
ان تمام تصورات کو بنانے کا مقصد ساحل عدیم کے نزدیک یہ ہے کہ روایتوں میں ہے کہ سورہ کہف فتنہ دجال سے بچائے گی – راقم کہتا ہے تحقیق سے ثابت کہ سورہ کہف مانع دجال والی روایات میں ہابمی اضطراب موجود ہے – اور مضطرب روایات پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا
مزید تفصیل کے لئے دیکھینے کتاب
ساحل صاحب کی تھیوری میں مسائل یہ ہیں کہ وہ معجزہ کو انبیا کے ساتھ ساتھ دجال سے منسوب کر رہے ہیں کہ دجال کسی اور
سیارہ سے آئے گا – اس تصور سے گمراہی پھیلنے کا خطرہ ہے
==========================================================================
In the Quran, Allah Almighty has said that there are verses in this book that are ambiguous, and those who are well-versed in knowledge have faith in them. Only Allah has the knowledge of their true interpretation.
The last verses of Surah At-Talaq:
Narrated by ‘Amr ibn ‘Ali: Wakī’ narrated from Al-A’mash, who narrated from Ibrahim ibn Muhajir, who narrated from Mujahid, who narrated from Ibn ‘Abbas regarding the statement of Allah: “Seven heavens and of the earth the like thereof.” Ibn ‘Abbas said: “If I were to explain it to you, you would disbelieve, and your disbelief would be similar to the denial of it.”
Ibrahim ibn Muhajir, the narrator in the chain, is mentioned by Imam Al-Qutayni and Imam An-Nasa’i. They said he was not reliable.
Narrated by Ibn Humaid: Yahya ibn Ya’qub narrated from Ja’far ibn Abi Al-Mughira that Sa’id ibn Jubayr said: A man asked Ibn ‘Abbas about the verse: “It is Allah who created seven heavens and of the earth, the like of them.” The man asked, “What does it mean?” So Ibn ‘Abbas said, “What makes you think that I would tell you its meaning, and then you would disbelieve?”
In the book “Kitab As-Sarifini,” Ibn Mandah said: Sa’id ibn Jubayr is not reliable.
Note: The existence of seven heavens is confirmed, and people have faith in them. However, it is not mentioned in the Quran that humans can travel to these heavens and return to Earth.
Meaning of word Sabab
The word “sabab” in Surah Al-Kahf has different interpretations. Saahil Adim Sahib’s second major evidence for his portal theory is based on the verses of Surah Al-Kahf that contain the word “sabab.”
In Urdu, we also use the word “sabab,” which means cause, direction, side, or path. All these phrases convey the same meaning that the issue should be understood from a certain direction or perspective without deviating. In Arabic, the same meanings are associated with this word.
The verses in Surah Al-Kahf (18:84-85) state: “Indeed, We established him upon the earth, and We gave him [the means of] everything as a sabab. Then he followed a sabab.”
Here it is mentioned that Zul-Qarnain was given dominion over the earth and he was provided with the means for everything. Then he followed a path or direction.
According to the Tafsir of Tabari, Ibn Abbas said that it means they were given knowledge of everything.
There are various interpretations regarding this:
– Qasim narrated from Al-Husayn, who narrated from Hujaj, who narrated from Ibn Jurayj, regarding the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab.” He said: “Knowledge of everything.”
– Muhammad bin Sa’d narrated from his father, who narrated from his uncle, who narrated from his father, who narrated from Ibn Abbas: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” means knowledge.
– It is mentioned that Abu Mu’adh said: “Ubayd narrated to me, he said: ‘I heard Dahhak saying about the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” – he said: “Knowledge of the paths of the heavens.”‘
These narrations suggest that the meaning here is knowledge.
Saahil Adim Sahib prefers the interpretation mentioned in Tabari’s Tafsir.
According to Imam Bukhari in his book “Tarikh al-Kabir,” Ali said that Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam is extremely weak.
Imam Ali Al-Madini also considered him very weak.
Imam Ath-Tha’labi mentioned in his book “Diyar Al-Ifta’ Wal-Matrookin” that the children of Zaid bin Aslam are weak.
Al-Nasai said: “Weak in Madinan narrations” (Al-Du’afa’ Wal-Matrookin).
It can be concluded that the interpretation by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam holds no authority, and it is a weak opinion to link the portals mentioned in Surah Al-Kahf with the idea of people traveling through them.
In Surah An-Naml, it is mentioned that Solomon addressed the Queen of Sheba and said, “Enter the palace.” It was a command to enter a building, not to open a portal. Pharaoh commanded the construction of a building, not the opening of a portal through Haman.
Pharaoh asked for a tower to be built so that he could see signs beyond the stars and observe their influence on Egypt. Pharaoh and his people did not deny the existence of Allah; rather, their debate was whether Allah was near the Earth or if celestial bodies close to the Earth had an influence. They believed that the celestial bodies had an impact on the Earth, not that there was a god beyond the distant heavens. Therefore, Pharaoh instructed Haman to build a tower to observe the stars and their effects on Egypt.
It can be observed that the interpretation provided by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam does not hold any significant authority. It cannot be considered as conclusive evidence to support the notion that portals were opened on Earth during the time of the Companions, allowing the people of the Cave, Ya’juj and Ma’juj, Dhul-Qarnayn, or the Dajjal to pass through them.
The idea of portals enabling such travel is not supported by strong and reliable evidence from the Qur’an or authentic Hadith sources. It is important to rely on sound scholarly interpretations and established sources of Islamic knowledge when considering these matters.
Meaning of Aynin hami’ah:
The concept of “عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (aynin hami’ah) according to Sahil Adim is found in the verse of Surah Al-Kahf where it is mentioned that Dhu al-Qarnayn reached a place where “حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (until he reached the setting of the sun, he found it [as if] setting in a muddy spring). It is stated that when he reached the place of the sunset, he found it setting in a spring of murky water.
Tabari mentioned that there is a difference in the recitation of this verse. Some readers in Medina and Basra recite “فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (in a muddy spring) in the sense that the sun appeared to set in a spring of hot water. And a group of readers in Medina and the majority of readers in Kufa recite it as “فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ” (in a hot spring), meaning that the sun appeared to set in hot water.
According to the recitation of Medina and Basra, it means a muddy spring, and according to the recitation of Kufa, it means the setting of the sun in water that is being heated. Sahil Adim suggests that the meaning of “عَيْنٍ” (ayn) in Arabic is an eye, and “حَمِئَةٍ” (hami’ah) means hot. So it is as if an fiery eye was formed, like a round portal.
In Surah Al-Mutaffifin (83:28), it is mentioned “عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ” (A spring from which those near [to Allah] drink). Here, the term “مُقَرَّبُونَ” (those near [to Allah]) is drinking from the spring.
It means through their eyes.
Allah has said to Musa (Moses) “فإنك باعيننا” (For you are in our sight). Meaning, “you were in our eyes.”
The term “عَيْنٌ” (ayn) refers to a spring, but it is metaphorically used for an eye because the eye is a means of perceiving water or moisture.
Regarding the creature “دابة ألأرض” (Dabbah al-Ardh), Sahil Adim suggests that it is mentioned that this creature will not come from the same earth but from another planet.
According to Sahil Adim, near the coast, there is a misconception that the creature of Dajjal is a donkey-like animal that engages in time travel. However, there is no authentic hadith to support this.
The purpose of creating all these concepts by Sahil Adim is to convey the narrations that Surah Al-Kahf will protect from the trials of the Dajjal (the Antichrist). This Site Author states that there is significant uncertainty regarding the authenticity of the narrations that consider Surah Al-Kahf as a safeguard against the Dajjal. Through research, it has been established that there is ambiguity present in these narrations, and a belief cannot be formed based on uncertain narrations.
السلام عليكم
ساحل عدیم حیات فی القبر کا عقیدہ بھی رکھتا ہے
ساحل عدیم کے اسکے علاوہ کونسے موقف قرآن وحدیث کے خلاف ہیں اس پر اپ کا تبصرہ درکار ہے؟
وعلیکم السلام
مجھے ساحل عدیم کے تمام عقائد کا علم نہیں
Here is ghulamullah.
How r u ?
الحمد للہ
ساحل عدیم کی پورٹل تھیوری ایک۔اور صاحب بھی بتاتے رہتے ہیں انکا اسم۔گرامی ہے عبد السلام عارف جو ایک۔ٹی وی چینل پر اپنا اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔۔اور نئی نئی تھیوری بتاتے۔ رہتے ہیں۔۔۔موجودہ۔زمانے میں ان چیزوں پر چیک اینڈ بیلنس بہت ضروری ہے
ان کا کوئی ویڈیو لنک ہے ؟