قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سامری دجال نے قوم موسی کو گمراہ کیا ایک بت ایجاد کیا جس میں آواز بھی آتی تھی – جب موسی علیہ السلام نے اس پر سوال کیا تو سامری بولا (سورہ طہ ٩٦) –
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی
وہ علماء جو استدراج کے قائل ہیں انہوں نے اس کو نقش قدم جبریل/موسی یا جبریل کے گھوڑے کے قدم کی مٹی کی برکت قرار دیا ہے – دوسری طرف وہ علماء جو سامری کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہوں نے اس کو محض ایک جھانسہ قرار دیا ہے اور سامری کی دھوکہ بازی والی تقریر اور آواز کا بچھڑے میں پیدا ہونا صرف کوئی شعبدہ بازی
سامری کا مدعا تھا کہ اس کے عمل کو کوئی معجزہ سمجھا جائے کہ اس نے نقش قدم کی مٹی سے بولنے والا پتلا خلق کر دیا – یہاں رسول سے مراد بعض نے جبریل علیہ السلام کو لیا ہے کہ فرشتہ کی برکت سے ایسا ممکن ہوا کہ بچھڑہ بولنے لگا اور بعض نے اس کو موسی علیہ السلام کے قدم کی برکت قرار دیا ہے – اور بعض نے جبریل کے گھوڑے کا ذکر کیا ہے –
قتادہ بصری کا قول ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے بچھڑہ بولنے لگا تفسیر طبری میں ہے
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة (فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ) قال: كان الله وقَّت لموسى ثلاثين ليلة ثم أتمها بعشر، فلما مضت الثلاثون قال عدوّ الله السامري: إنما أصابكم الذي أصابكم عقوبة بالحلي الذي كان معكم، فهلموا وكانت حليا تعيروها (1) من آل فرعون، فساروا وهي معهم، فقذفوها إليه، فصوّرها صورة بقرة، وكان قد صرّ في عمامته أو في ثوبه قبضة من أثر فرس جبرائيل، فقذفها مع الحليّ والصورة (فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ) فجعل يخور خوار البقر، فقال (هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى) .
حدثنا الحسن، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن قتادة، قال: لما استبطأ موسى قومه قال لهم السامريّ: إنما احتبس عليكم لأجل ما عندكم من الحليّ، وكانوا استعاروا حليا من آل فرعون فجمعوه فأعطوه السامريّ فصاغ منه عجلا ثم أخذ القبضة التي قبض من أثر الفرس، فرس الملك، فنبذها في جوفه، فإذا هو عجل جسد له خوار، قالوا: هذا إلهكم وإله موسى، ولكن موسى نسي ربه عندكم.
حدثني أحمد بن يوسف، قال: ثنا القاسم، قال: ثنا هشيم، عن عباد، عن قَتادة مثل ذلك بالصاد بمعنى: أخذت بأصابعي من تراب أثر فرس الرسول
یہ قتادہ مدلس کے اقوال ہیں اور یہ اس کو کس سے معلوم ہوا خبر نہیں ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے ایسا ہوا
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثني محمد بن إسحاق، عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما قذفت بنو إسرائيل ما كان معهم من زينة آل فرعون في النار، وتكسرت، ورأى السامري أثر فرس جبرائيل عليه السلام، فأخذ ترابا من أثر حافره، ثم أقبل إلى النار فقذفه فيها، وقال: كن عجلا جسدا له خوار، فكان للبلاء والفتنة.
اس کی سند میں ابن اسحاق مدلس ہے
تفسیر طبری میں یہ قول مجاہد کا بھی ہے کہ جبریل کے گھوڑے کے قدم سے ایسا ہوا
حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قول الله: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا) قال: من تحت حافر فرس جبرائيل، نبذه السامريّ على حلية بني إسرائيل، فانسبك عجلا جسدا له خوار، حفيف الريح فيه فهو خواره، والعجل: ولد البقرة
اس کی سند میں انقطاع ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم
أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد وإنما أخذه من القاسم بن أبي برة
امام ابن معین نے کہا کہ یحیی القطان نے دعوی کیا کہ ابن أبي نجيح نے تفسیر مجاہد سے نہیں سنی
مستدرک حاکم میں ہے
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو السَّلُولِيُّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ عَمَدَ السَّامِرِيُّ فَجَمَعَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِنَ الْحُلِيِّ، حُلِيِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَضَرَبَهُ عِجْلًا، ثُمَّ أَلْقَى الْقَبْضَةَ فِي جَوْفِهِ، فَإِذَا هُوَ عِجْلٌ لَهُ خُوَارٌ فَقَالَ لَهُمُ السَّامِرِيُّ: هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَقَالَ لَهُمْ هَارُونُ: يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدُكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا. فَلَمَّا أَنْ رَجَعَ مُوسَى إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَدْ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ فَقَالَ لَهُ هَارُونُ مَا قَالَ فَقَالَ مُوسَى لِلسَّامِرِيِّ مَا خَطْبُكَ؟ قَالَ السَّامِرِيُّ: قَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي. قَالَ: فَعَمَدَ مُوسَى إِلَى الْعِجْلِ فَوَضَعَ عَلَيْهِ الْمَبَارِدَ فَبَرَدَهُ بِهَا وَهُوَ عَلَى شِفِّ نَهَرٍ، فَمَا شَرِبَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ مِمَّنْ كَانَ يَعْبُدُ ذَلِكَ الْعِجْلَ إِلَّا اصْفَرَّ وَجْهُهُ مِثْلَ الذَّهَبِ، فَقَالُوا لِمُوسَى: مَا تَوْبَتُنَا؟ قَالَ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. فَأَخَذُوا السَّكَاكِينَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَقْتُلُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ وَلَا يُبَالِي مَنْ قَتَلَ حَتَّى قُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى مُرْهُمْ فَلْيَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لِمَنْ قُتِلَ وَتُبْتُ عَلَى مَنْ بَقِيَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
3434 – على شرط البخاري ومسلم
علی نے کہا سامری نے مورت بناتے وقت اس کے پیٹ میں مٹھی بھر پھینکا تو بیل بولنے لگا
سند میں أَبُو إِسْحَاقَ مدلس نے عَنْ سے روایت کیا ہے یہ روایت تدلیس کے احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں ہے
اس طرح یہ تمام اقوال لائق التفات نہیں ہیں –
مستدرک حاکم میں ہے کہ بچھڑے میں آواز ہارون علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئی
حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ فِي دَارِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى هَارُونُ عَلَى السَّامِرِيِّ وَهُوَ يَصْنَعُ الْعِجْلَ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: مَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ مَا سَأَلَكَ فِي نَفْسِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ يَخُورَ فَخَارَ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ خَارَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ خَارَ، وَذَلِكَ بِدَعْوَةِ هَارُونَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
3251 – على شرط مسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہارون ، سامری کے پاس پہنچے تو وہ بچھڑہ بنا رہا تھا – پوچھا یہ کیا ہے ؟ سامری بولا یہ وہ ہے جو نہ نفع دے گا نہ نقصان – ہارون علیہ السلام نے دعا کی : اے اللہ اس کو وہ دے جو اس نے خود مانگا ہے پس جب جا نے لگے تو کہا : اے اللہ میں سوال کرتا ہوں کہ یہ بیل کی آواز نکالے جب سجدہ کرے جب سر اٹھائے – اور یہ سب ہارون کی دعا سے ہوا
راقم کہتا ہے اس کی سند میں سماك بن حرب ضعیف ہے – احمد کے نزدیک مضطرب الحدیث ہے
سنن الکبری نسائی، مسند ابو یعلی ، میں ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس سے مروی ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أني سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا} [طه: 40]، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفُتُونِ مَا هُوَ؟ قَالَ: اسْتَأْنِفِ النَّهَارَ يَا ابْنَ جُبَيْرٍ، فَإِنَّ لَهَا حَدِيثًا طَوِيلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْهُ مَا وَعَدَنِي مِنْ حَدِيثِ الْفُتُونِ، ……….. وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَاحْتَمَلَ مَعَ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ حِينَ احْتَمَلُوا،فَقُضِيَ لَهُ أَنْ رَأَى أَثَرًا فَأَخَذَ مِنْهُ قَبْضَةً، فَمَرَّ بِهَارُونَ، فَقَالَ لَهُ هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا سَامِرِيِّ، أَلَا تُلْقِي مَا فِي يَدِكَ؟ وَهُوَ قَابِضٌ عَلَيْهِ لَا يَرَاهُ أَحَدٌ طُوَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذِهِ قَبْضَةٌ مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ الَّذِي جَاوَزَ بِكَمُ الْبَحْرَ، فَلَا أُلْقِيهَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَدْعُوَ اللهَ إِذَا أَلْقِيْتُ أَنْ يَكُونَ مَا أُرِيدُ، فَأَلْقَاهَا وَدَعَا لَهُ هَارُونُ، فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عِجْلًا، فَاجْتَمَعَ مَا كَانَ فِي الْحُفْرَةِ مِنْ مَتَاعٍ أَوْ حِلْيَةٍ أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، فَصَارَ عِجْلًا أَجْوَفَ لَيْسَ فِيهِ رَوْحٌ لَهُ خُوَارٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لَهُ صَوْتٌ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَتِ الرِّيحُ تَدْخُلُ مِنْ دُبُرِهِ وَتَخْرُجُ مِنْ فِيهِ، فَكَانَ ذَلِكَ الصَّوْتُ مِنْ ذَلِكَ
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : سامری ان میں سے تھا جو بنی اسرائیل کے لئے گائے کے پجاری تھے مجاور تھا اور یہ خود بنی اسرائیل کا نہ تھا پس یہ موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ (خروج مصر کے وقت ) ہو لیا – پس یہ لکھا تھا کہ وہ نقش قدم کو دیکھے اور سامری نے اس میں سے مٹی لی اور ہارون کا اس کے پاس گذر ہوا تو انہوں نے کہا : اے سامری یہ ہاتھ میں کیا ہے پھینکو ؟ وہ اس کو مٹھی میں پکڑے تھا جس کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا – سامری نے کہا اس مٹھی میں نقش رسول ہے جب سمندر پار کیا تھا تب سے میں نے اس کو نہیں پھینکا ہے – اس کو میں اللہ سے دعا کر کے پھینکوں گا کہ وہ ہو جائے جو میں چاہ رہا ہوں – پس سامری نے پھینکا اور ہارون نے اس کو دعا دی – (سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ نے پوچھا) سامری نے کہا میں چاہتا ہوں تو بچھڑہ کی شکل لے پس اس نے جمع کیا جو گڑھے میں (مٹی ) تھی زیور، دھواں، لوہا اور بنایا اس سے بچھڑہ جس کے اندر روح نہیں تھی لیکن آواز تھی ؟ ابن عبّاس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اس میں آواز بھی نہیں تھی بلکہ ہوا اس کی دبر سے اندر جاتی اور نکلتی تو آواز یہ تھی
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے – اس روایت میں کئی اقوال کو ملا دیا گیا ہے مثلا یہ مانا گیا ہے کہ سامری نے واقعی موسی علیہ السلام کے قدم کی مٹی لی – یہ بھی مانا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے دعا دی اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ پتلے میں آواز کا پیدا ہونا صرف شعبدہ تھا- اس طرح اس میں تمام اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے – البتہ اس راوی أصبغ بن زيد کا معلوم ہے کہ یہ کاتب تھا اور یہ متن کسی اور سند سے معلوم نہیں ہے لہذا یہ روایت بھی لائق التفات نہیں ہے
قال ابن كثير: وهو موقوف من كلام ابن عباس وليس فيه مرفوع إلا قليل منه، وكأنه تلقاه ابن عباس مما أبيح نقله من الإسرائيليات عن كعب الأحبار أو غيره، وسمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول ذلك أيضاً” التفسير3/ 153
ابن کثیر نے کہا یہ کلام ابن عباس پر موقوف ہے اور اس کا کچھ حصہ مرفوع بھی ہے مگر بہت تھوڑا – اور ابن عباس نے گویا کہ روایت میں کعب الاحبار کی الإسرائيليات کو نقل کر دیا ہے اور دوسروں کی اور ہمارے شیخ المزی بھی ایسا ہی کہتے ہیں
بحوالہ أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از نبيل بن منصور البصارة الكويتي
روایات میں ہارون علیہ السلام کا ذکر اسرائیلیات کا اثر ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیل کا دعوی ہے کہ بچھڑے یا عجل کا بت ہارون نے تراشا – توریت خروج باب ٣٢ میں اس کا ذکر ہے
شیعوں کی تفسیر قمی ، تفسیر طبرسی وغیرہ میں بھی اس کو قدم رمکہ جبریل یعنی جبریل کے گھوڑے کے پیر کی مٹی کی برکت قرار دیا گیا ہے جو سامری نے سمندر پھٹنے پر جو رستہ بنا اس میں سے لی تھی (من تحت حافر رمكه جبرئيل في البحر فنبذتها يعني أمسكتها فنبذتها في جوف العجل) – اس قول کی سند شیعہ تفسیروں میں موجود نہیں ہے
راقم کہتا ہے سامری کا یہ قول محض جھانسا دینا ہے – وہ موسی علیہ السلام کو ذہنی رشوت دے رہا ہے کہ گویا ابھی قوم کے سامنے موسی تم میری بات کو اس طرح قبول کر لو کہ تمہاری برکت سے ایسا ہوا اور ہم دونوں آپس میں مل جاتے ہیں-موسی علیہ السلام نے اس کو فورا بد دعا دے دی- حبل اللہ شمارہ ٢١ (مدیر اعظم خان ، نائب مدیر انیس الدین ) میں اسی کو سامری کی نفسیاتی چا ل قرار دیا گیا ہے نہ کہ جبریل علیہ السلام یا موسی یا ہارون علیہما السلام کا کوئی معجزہ –
راقم کہتا ہے ایک جم غفیر نے سامری کے عمل کو موسی علیہ السلام یا جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے سم کی برکت قرار دیا ہے اور اس کو تابعین و اصحاب رسول کا قول کہہ کر قبول کیا ہے – اسی گروہ کے علماء کا کہنا ہے کہ کفار کو معجزہ یا استدراج من جانب اللہ ملتا ہے – لیکن جیسا ہم نے دیکھا یہ نتیجہ جن روایات کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے وہ سندا صحیح نہیں ہیں اور متن قران میں بھی کسی دھوکہ باز کے جملے ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے وہ حقیقت حال ہیں کیونکہ جو دھوکہ باز ہو وہ دھوکہ دھی کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے
السلام علیکم
شکریہ ابو شہر یار بھائی
آپ کی تحاریر سے بہت فائدہ ہو رہا ہے – بات سمجھ آ رہی ہے
اللہ کا شکر ہے کہ مسئلہ استدراج واضح سے واضح تر ہوتا جا رہا ہے
سلام ابو شہریار
آپ نے اچھی تحقیق پیش کی – میں نے دیو بندی اور اہل حدیث علماء سے اس حوالے سے پوچھا ہے ان کا موقف ہے کہ یہ سب قدم جبریل کی برکت سے ہوا – گویا کہ یہ آواز من جانب اللہ پیدا ہوئی
آپ کیا کہتے ہیں
وعلیکم السلام
شکریہ
اصلا یہ ضعیف روایات ہیں جن سے ذہن سازی کی گئی ہے کہ ید سامری سے معجزہ حاضر ہوا کہ مٹی بابرکت ہوئی اور بت بولنے لگا
ایسا تو اگر ہے تو مدینہ کی دیواروں میں آواز پیدا ہو جاتی جس کی مٹی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے
جہاں فرشتوں کا آنا جانا رہا
لہذا آواز کا پیدا ہونا صرف شعبدہ بازی ہے
جناب اگر بالفرض آپ کی یہ بات کسی حد تک تسلیم کرلی جائے کہ اس باب کی تمام روایات کے ذریعہ مفسرین کی ذھن سازی کی گئی ہے اور مفسرین نے ان روایات کو سامری کے بیان کے تناظر میں دیکھا ھے __ لیکن جناب جو کچھ وقوعہ ہوا اس کی تصدیق تو الله عالم الغيب درج ذیل الفاظ میں خود فرمارہا ھے۔ (فاخرج لهم عجلا له خوار)۔
سامری کے بیان کو تو جھوٹ پر محمول کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو تو غلط نہیں کہا جاسکتا کہ:(فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ …) کیونکہ یہ خبر دینے والا الله تعالی ھے کہ بچھڑے کا جسد (جو گوشت اور خون کا مرکب ہوتا یے) بن گیا اور وہ آواز نکالنے لگا۔
یہ بات حماقت پر مبنی ہے کہ زیورات کو سامری نے گوشت اور خون کے مرکب میں بدل دیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو لفظ جسد کا لغوی مطلب معلوم نہیں ہے
آپ کے کہنے کا مقصد ہے کہ سامری نے جو عمل کیا اس کے پیچھے اللہ نے بھی اپنا حکم دیا اور نتیجے میں ایک جیتا جاگتا بچھڑا جو گوشت و خون رکھتا تھا وہ بیل لو آواز نکال رہا تھا
یہ فہم جھل ہے – ایسا نہیں ہوا – صحیح بات یہ ہے کہ جو زیورات کا پتلا یا بت تراشا گیا وہ میٹل یا دھات کا ہی رہا بس وہ آواز کا شعبدہ رکھتا تھا
موسی نے کہا
ہم اس بت کو جلا کر سمندر میں بہا دیں گے یہ نہیں کہا کہ ہم اب اس کو ذبح کریں گے
سلام ابو شہر یار بھائی
کیا سامری کے عمل سے بچھڑے کا جسد یعنی گوشت اور خون کا مرکب بن گیا اور وہ آواز نکالنے لگا؟
فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ
پس ان کے لئے بچھڑے کا جسد نکالا جس کے لئے بیل کی آواز تھی
وعلیکم السلام
جسد عربی میں جسم کی ہیت رکھنے والی چیز کو کہتے ہیں (اردو میں متبادل لفظ پتلا ہے ) یعنی بچھڑے کا بت تراشا گیا جس میں آواز نکلتی تھی
جسد کا مطلب گوشت و خون کا زندہ بچھڑا مراد نہیں ہے
سامری نے اپنی صناعی سے اس بت میں آواز پیدا کی اور زیوارت کو استعمال کیا – یعنی ہوا کے خروج سےبت میں گونج پیدا ہوتی
بت اندر سے کھوکھلا تھا اس وجہ سے یہ سب ممکن ہوا
ایسا نہیں ہوا کہ زیوارت گوشت اور خون میں بدل گئے ہوں
———
بت سازی کس طرح ہوتی ہے اپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں
https://www.youtube.com/watch?v=ZoEW85KDZKQ
https://www.youtube.com/watch?v=MDPRDfc6Brg
———–
موسی علیہ السلام کے معجزہ سے جب سمندر پھٹا اور سامری اس میں سے گزرا
سامری نے اگر سمندر کی تہہ کی مٹی سنبھال کر رکھی تھی تو اس کا مقصد شروع سے یہی تھا کہ کسی وقت وہ بت بنائے گا
کیونکہ سمندر کی تہہ کی مٹی سے مولڈ باننا اسان ہو گا بنست کوہ طور کے پاس کی چٹیالی بجری کے
یاد رہے کہ وہاں چٹان سے بارہ چشمے نکلے تھے یعنی وہاں پانی کا نام و نشان نہیں تھا وہاں کی مٹی خشک تھی
سمندری مٹی سے جب بت بنایا گیا تو اس میں پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت تھی اور گرم تانبہ یا سونا انے پر اس میں بخارات پیدا ہوئے
جس کی بنا پر بت اندر سے کھوکھلا ہو گیا
https://www.youtube.com/watch?v=PHFGBtsfLSM
سلام شیخ صاحب
ایک بندے کا کہنا ہے کہ سامری جادو گر تھا اور ایک بندہ کہتا ہے وہ شعبدہ باز تھا
آپ ان میں سے کس موقف کو راجح سمجھتے ہیں ؟
و علیکم السلام
سامری جادو گر تھا یہ بہت سے علماء کا قول ہے جس طرح بہت سوں نے دجال کو بھی جادو گر کہا ہے
سامری مصری مذھب کا ایک پروہت تھا جو ظاہر ہے جادو سے واقف تھا ہم کو معلوم ہے کہ فرعون نے اپنے مذھب کے اعلام کو جمع کیا تاکہ دین مصر کو نصرت حاصل ہو – قرآن نے خبر دی کہ وہ تمام جادو گر تھے
لہذا یہ قول قرین قیاس ہے کہ سامری بھی یہی تھا اس نے فرعونی مذھب کی دیوی کی شکل عجل کو تراشا
قرآن میں خبر ہے جادو گروں نے مجمع کی آنکھوں پر سحر کیا اور ان کو وہ دکھایا جو وہاں نہیں تھا – سحر سے نظر بندی ممکن ہے تو سماعت پر اثر بھی ممکن ہے
البتہ میرے نزدیک صحیح تر یہ ہے کہ سامری نے کوئی شعبدہ کیا جس سے بیل کے بت میں آواز پیدا ہوئی
شعبدہ کا مطلب لغوی طور سے جادو نہیں ہے – جادو الگ چیز ہے – شعبدہ الگ چیز ہے
سحر سے انسان کے دماغ پر اثر کیا جاتا ہے جیسے موسی علیہ السلام نے لاٹھی کو چلتے دیکھا – روایت میں اتا ہے کہ نبی علیہ السلام کو یاد نہیں رہتا تھا کہ فلاں کام کیا ہے یا نہیں
میرا سوال یہ ہے کہ سامری نے جادو سے آواز پیدا کی ؟
آپ نے سمجھنے میں غلطی کی جادو سے کچھ پیدا نہیں کیا جا سکتا یا چیز کو بدلا نہیں جا سکتا لیکن ذہن و تخیل کو بدلا جاتا ہے مثلا کوئی چیز دیکھنا جبکہ وہ وہاں نہیں ہے یا بھلا دینا
یا آواز سنا دینا جبکہ آواز نہیں تھی
یہ صرف ایک امکان ہے جو بعض مفسرین نے پیش کیا ہے
جو میرے نزدیک زیادہ قرین قیاس ہے وہ ہے کہ سامری نے ایسا پتلا تراشا جس میں سے آواز نکالتی تھی جو کوئی تکنیک تھی