راقم کہتا ہے یہ اسرائیلیات کی خبر ہے جو ابن جریج اور الكلبي نے ابن عباس سے منسوب کر دی ہے
قرآن سورہ طہ میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس آیت کی قرات میں اختلاف بھی ہے – برواية خلف عن حَمْزَةُ و برواية َالْكِسَائِيُّ و برواية َالْأَعْمَشُ وَ برواية خَلَفٌ نے اس آیت کی قرات اس طرح کی
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ تَبْصُرُوا بہ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو تم نے نہیں دیکھا
اور رواية قالون، رواية ورش اور عاصم کی قرات میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہوں نے نہیں دیکھا
قرطبی نے سورہ طہ کی اس آیت کی شرح میں لکھا
وَيُقَالُ: إِنَّ أُمَّ السَّامِرِيِّ جَعَلَتْهُ حِينَ وَضَعَتْهُ فِي غَارٍ خوفا
مِنْ أَنْ يَقْتُلَهُ فِرْعَوْنُ، فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَجَعَلَ كَفَّ السَّامِرِيِّ فِي فَمِ السَّامِرِيِّ، فَرَضَعَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ فَاخْتَلَفَ إِلَيْهِ فَعَرَفَهُ مِنْ حِينِئِذٍ
کہا جاتا ہے کہ سامری کی ماں نے اس کو ایک غار میں چھوڑ دیا جب اس کو جنا کہ کہیں فرعون اس کو قتل نہ کر دے پس جبریل علیہ السلام آئے اور اس کو دودھ اور شہد سے پالا – پس سامری خروج مصر کے وقت جبریل کو پہچان گیا
اسی طرح ایک اور قصہ ذکر کیا
وَيُقَالُ: إِنَّ السَّامِرِيَّ سَمِعَ كَلَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَيْثُ عَمِلَ تِمْثَالَيْنِ مِنْ شَمْعٍ أَحَدُهُمَا ثَوْرٌ وَالْآخَرُ فَرَسٌ فَأَلْقَاهُمَا فِي النِّيلِ طَلَبَ قَبْرَ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ فِي تَابُوتٍ مِنْ حَجَرٍ فِي النِّيلِ فَأَتَى بِهِ الثَّوْرُ عَلَى قَرْنِهِ
سامری نے موسی کا کلام سنا جب وہ ایک بیل اور گھوڑے کا بت بنا رہا تھا
اس نے ان بتوں کو نیل میں ڈالا اور بیل کا بت یوسف کے پتھر کے تابوت کو سر پر اٹھائے نیل میں سے نکل آیا
السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے
فقال ابن عباس في رواية الكلبي: إنما عرفه لأنه رباه في صغره، وحفظه من القتل حين أمر فرعون بذبح أولاد بني إسرائيل، فكانت المرأة إذا ولدت طرحت ولدها حيث لا يشعر به آل فرعون، فتأخذ الملائكة الولدان ويربونهم حتى يترعرعوا ويختلطوا بالناس، فكان السامري ممن أخذه جبريل عليه السلام، وجعل كف نفسه في فيه، وارتضع منه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فلما رآه عرفه؛ قال ابن جريح: فعلى هذا قوله: بصرت بما لم يبصروا به يعني: رأيت ما لم يروه.
کلبی کی ابن عباس سے روایت ہے کہ سامری ، جبریل کو بچپن سے جانتا تھا کیونکہ جبریل نے اس کو پالا تھا اور اس کو فرعون کے قتل سے بچایا تھا جب اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا جائے – عورتیں اپنے بچوں کو پھینک دیتی تھیں کہ کہیں ال فرعون دیکھ کر قتل نہ کر دیں ، ان بچوں کو فرشتے لے جاتے اور ان کو پالتے حتی کہ یہ بڑے ہوتے اور اور لوگوں میں مل جاتے – سامری ان بچوں میں سے تھا جن کو جبریل نے پالا اور اس کو دودھ و شہد پلایا پس سامری نے ان کو پہچاننا نہ چھوڑا اور جب (خروج مصر پر ) دیکھا تب پہچان گیا
ابن جریج نے کہا پس اس کا ذکر اس قول تعالی میں ہے کہ سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو دوسروں نے نہ دیکھا
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، قال: لما قتل فرعون الولدان قالت أمّ السامريّ: لو نحيته عني حتى لا أراه، ولا أدري قتله، فجعلته في غار، فأتى جبرائيل، فجعل كفّ نفسه في فيه، فجعل يُرضعه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فمن ثم معرفته إياه حين قال: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ)
الْحُسَيْنُ بْنَ داود (لقب سنيد ) نے حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا –
الحسين بن داود کو سُنَيد بن داود بھی سندوں میں کہا جاتا ہے – ان پر نسائي کا قول ہے : ليس بثقة یہ ثقہ نہیں ہے
خطیب بغدادی کا قول ہے
قُلْتُ لا أعلم أي شيء غمصوا عَلَى سنيد، وقد رأيت الأكابر من أهل العلم رووا عنه، واحتجوا به، ولم أسمع عنهم فيه إِلا الخير، وقد كَانَ سنيد لَهُ معرفة بالحديث، وضبط لَهُ، فالله أعلم.
وذكره أَبُو حاتم الرَّازِيّ فِي جملة شيوخه الذين روى عنهم، وَقَالَ: بغدادي صدوق
ان کی حدیث قابل دلیل ہے اور ابو حاتم رازی کے شیوخ میں سے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ صدوق ہیں
ابن سعد نے طبقات میں حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ پر ذکر کیا
وكان ثقة كثير الحديث عن ابن جريج
یہ ثقہ ہیں اور ابن جریج سے اکثر احادیث روایت کرتے ہیں
حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مختلط بھی ہوئے لیکن معلوم نہیں کہ سنید نے کس دور میں ان سے سنا
ابن جریج کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے لہذا اس روایت کی سند معضل یعنی ٹوٹی ہوئی ہے – البتہ جو معلوم ہوا وہ یہ کہ ابن جریج اس قصے کو لوگوں کو سناتے تھے اور کسی مقام پر ان سے اس قصے کا رد منقول نہیں ہے
دوسرا قصہ جو سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اس کے مطابق سامری بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سامری گائے کی عبادت کرتا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے مجاورت کرتا تھا اور یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے
ان قصوں کو اس طرح ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے