سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی منقبت

جنگ خندق کے بعد مدینہ کے باسی  یہود کے قبائل کی سازش کی بنا پر ان کا حصار کر لیا گیا اور فیصلہ  یہود  کی ڈیمانڈ پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پر چھوڑ دیا گیا  کیونکہ وہ اسلام سے قبل ان قبائل سے اچھے تعلقات رکھتے تھے اور ان کے روساء کو جانتے تھے –  صحیح بخاری کی حدیث ہے  کہ

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے ابوامامہ نے ‘ جو سہل بن حنیف کے لڑکے تھے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے) سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

افسوس   بعض جہلاء   نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی کہ اس فتوی کو دینےوالے  سعد بن معاذ رضی  اللہ عنہ پر عذاب قبر ہو گا

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیں کہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منکر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱) مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

 ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔

 یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے ۔

’یہ بھی لکھا

جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند (اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔

روایات کے مطابق سعد رضی الله عنہ کو قبر کے دبوچنے کا واقعہ عین تدفین کے قورا بعد پیش آیا

مسند احمد  میں  جابر بن عبد الله رضی الله عنہ  سے منسوب  روایت ہے

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ الله، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ الله عَنْهُ

جابر کہتے ہیں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس دن سعد کی وفات ہوئی پس جب نبی نے ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ان کو قبر میں رکھا اور اس کو ہموار کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کی پاکی بیان کی بہت دیر تک پھر تکبیر کہی پس پوچھا گیا اے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپ نے تسبیح کیوں کی تھی کہا کہا بے شک تنگی ہوئی اس صالح بندے پر اس کی قبر میں پھر  الله نے اس کو فراخ کیا

معجم طبرانی کی ابن عباس رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ سعد رضی الله عنہ پر یہ عذاب تدفین پر ہوا

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مِقْلَاصٍ، ثنا أَبِي، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ دُفِنَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى قَبْرِهِ قَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ رُخِّيَ عَنْهُ

ابن عباس نے کہا جس روز سعد کو دفن کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر کے پاس بیٹھے تھے فرمایا اگر کوئی فتنہ قبر سے نجات پاتا تو سعد ہوتے لیکن بے شک قبر نے ان کو دبوچا  پھر چھوڑا

سعد رضی الله عنہ پر عذاب کی یہ خبر سنن النسائی ٢٠٥٥ میں بھی ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں اور الصحیحہ میں اس کے طرق نقل کر کے اس عذاب کی خبر کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ»

  لیکن ایک دن  البانی سے اس واقعہ پر  سوال ہوا تو  پینترا اس طرح بدلا

موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من (50) عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد»

المؤلف: أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين، بن الحاج نوح بن نجاتي بن آدم، الأشقودري الألباني (المتوفى: 1420هـ)

صَنَعَهُ: شادي بن محمد بن سالم آل نعمان

الناشر: مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن

الطبعة: الأولى، 1431 هـ – 2010 م

  البانی   ج ٩ ص   ١٥٩   پر کہتے ہیں  قبر کا دبوچنا  عذاب قبر نہیں ہے

لأن ضمة القبر غير عذاب القبر، كما يدل عليه أحاديث ضم القبر لسعد بن معاذ، وللصبي، وانظر “الصحيحة” (1695و2164)

قبر کا دبانا   دبوچنا عذاب قبر نہیں ہے جیساکہ دلیل ہے کہ قبر نے سعد بن معاذ  اور بچے کو بھی دبایا  ہے

راقم کہتا ہے کہ مولویوں کا تضاد ہے ایک اس قبر کو دبوچنے کو کھلا عذاب کہہ رہا ہے تو دوسرا اس کا انکار کر رہا ہے

 سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی شہادت غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن پر  عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا. مومن پر عذاب قبر کی خبر سن ١٠ ہجری میں دی گئی جیسا کہ بخاری کتاب الکسوف میں بیان ہوا ہے لہذا یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے-    سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اہل جنت میں ہیں.  شہید تو الله کی بارگاہ میں سب سے مقرب ہوتے ہیں ان کے گناہ تو خوں کا پہلا قطرہ گرنے پر ہی معاف ہو جاتے ہیں-    نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ایک  رومال نبی صلی الله علیہ وسلم کو تحفتا پیش کیا گیا . صحابہ کو حیرانگی ہوئی کہ کتنا اچھا رومال ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

والذي نفسي بيده لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها

اور وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے سعد بن معاذ کا رومال جنت میں اس سے بہتر ہے

معلوم ہوا سعد بن معاذ رضی الله عنہ تو جنت میں ہیں اور ان پر نعوذ باللہ عذاب قبر کیوں ہو گا

ابن حجر کتاب فتح الباری ج ١ ص ٣٢٠ میں لکھتے ہیں

وَمَا حَكَاهُ الْقُرْطُبِيُّ فِي التَّذْكِرَةِ وَضَعَّفَهُ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ أَحَدَهُمَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَهُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ لَا يَنْبَغِي ذِكْرُهُ إِلَّا مَقْرُونًا بِبَيَانِهِ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِ الْحِكَايَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَضَرَ دَفْنَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَمَا ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ وَأَمَّا قِصَّةُ الْمَقْبُورَيْنِ فَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ أَنَّهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ مَنْ دَفَنْتُمُ الْيَوْم هَا هُنَا فَدَلَّ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَحْضُرْهُمَا وَإِنَّمَا ذَكَرْتُ هَذَا ذَبًّا عَنْ هَذَا السَّيِّدِ الَّذِي سَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيِّدًا وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ وَقَالَ إِنَّ حُكْمَهُ قد وَافق حُكْمَ الله وَقَالَ إِنَّ عَرْشَ الرَّحْمَنِ اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ مَنَاقِبِهِ الْجَلِيلَةِ خَشْيَةَ أَنْ يَغْتَرَّ نَاقِصُ الْعِلْمِ بِمَا ذَكَرَهُ الْقُرْطُبِيُّ فَيَعْتَقِدَ صِحَّةَ ذَلِكَ وَهُوَ بَاطِلٌ

اور القرطبی نے کتاب التذکرہ میں جو حکایت کیا ہے اور اس میں سے بعض کو ضعیف کہا ہے جن میں سے ایک  سعد بن معاذ رضی للہ عنہ (کے بارے میں ہے) پس وہ سب باطل ہے اس کا ذکر نہیں کیا جانا چاہئے سوائے مقرؤنا اور جو چیز اس حکایت مذکورہ کے بطلان  پر بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سعد بن معاد کے دفن پر کہا جبکہ الْمَقْبُورَيْنِ والا قصہ جو  حدیث  ابو امامہ جو (مسند) احمد میں اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ  آج تم نے ادھر کس کو دفن کیا؟ پس یہ دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے ساتھ (سعد کی) تدفین پر نہیں تھے اور بے شک ان لوگوں (قرطبی وغیرہ) نے اس کو اس سید (سعد رضی اللہ عنہ) کی تنقیص میں ذکر کیا ہے جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے  سردار کہا اور اپنے صحابہ کو کہا کہ سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ اورکہا کہ انکا حکم الله کےحکم کے مطابق ہے اور کہا کہ بےشک رحمان کا عرش ان کی موت پر ہلا اور اسی طرح کے دیگر مناقب جلیلہ  ذکر کے پس ڈر ہے کہ کوئی ناقص علم غلطی پر ا جائے اور ان کو صحیح کہے اور یہ (روایت) باطل ہے 

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر نے دبوچا دو وجہ سے صحیح نہیں

اول یہ واقعہ سن ٥ ہجری میں پیش آیا جبکہ مومن پر عذاب قبر کا سن ١٠ ہجری میں بتایا گیا

دوم ابن حجر کے مطابق اس تدفین کے موقعہ پر اپ صلی الله علیہ وسلم موجود نہیں تھے جبکہ سعد پر عذاب کی روایت کے مطابق اپ صلی الله عالیہ وسلم نے ہی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی تدفین کے موقعہ پر عذاب ہوا –    الله کا شکر ہے کہ حال ہی میں ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اس کو بالاخر رد کرتے ہیں-     ارشد کمال ، المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

دامانوی صاحب جس واقعہ کی تصحیح پر جان نثار کر رہے ہیں. ہونہار شاگرد اسی کو سراسر جھوٹی من گھڑت بات قرار دے رہا ہے.  ان قلابازیوں کے باوجود کوئی غیر مقلد پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہے؟      اللہ ہم سب کو ہدایت دے

زبیر علی زئی نے اپنے مضمون قبر میں عذاب حق ہے شمارہ الحدیث ٤٦  میں اس کو جھٹکا قرار دیا

زبیر نے ضم  کا ترجمہ جھٹکا کیا ہے جبکہ یہ ترجمہ راقم کو کسی لغت میں نہیں ملا

جس نے بھی اس حدیث کا ترجمہ کیا ہے اس نے اس کو دبوچنا یا دبانا یا  بھینچا کیا ہے

اس حوالے سے خود اہل حدیث کے ترجمے دیکھے جا سکتے ہیں

http://islamicurdubooks.com/Hadith/ad.php?bsc_id=1144&bookid=11

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *