مختصر سیرت رسول کے نام سے محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) کی مشہور کتاب ہے – اس کا ایک ترجمہ اہل حدیث کی جانب سے پیش کیا گیا – ایک مترجم جہلم کے غیر مقلد حافظ محمد اسحاق ہیں جنہوں نے ١٩٩٠ میں ترجمہ کیا اور جامعه علوم اثریہ نے اس کو چھپوایا ، اس کی تسوید وتصحیح کا فریضہ مولانا اکرام اللہ ساجد کیلانی (سابق مدیر معاون ماہنامہ محدث،لاہور ) نےانجام دیا ہے – دوسرا ترجمہ محمد خالد سیف کا ہے جو پہلی بار ١٣٩٩ ھ یعنی ١٩٧٩ ع میں چھپا لیکن اب اس کو جدید ترجمہ کہہ کر اہل حدیث ویب سائٹ پر پیش کر رہے ہیں
https://kitabosunnat.com/kutub-library/mukhtasir-seerat-ul-rasool-jadeed-audition
https://ia800400.us.archive.org/24/items/FP158199/158199.pdf
https://kitabosunnat.com/kutub-library/mukhtasar-seerat-ul-rasool
اب ہم اصل کتاب کا متن دیکھیں گے اور اس کا تقابل ترجموں سے کرتے ہیں- جنگ جمل کے حوالے سے النجدی لکھتے ہیں
ثم التقى علي وعائشة. فاعتذر كل منهما للآخر. ثم جهزها إلى المدينة. وأمر لها بكل شيء ينبغي لها. وأرسل معها أربعين امرأة من نساء أهل البصرة المعروفات.
اور علی اور عائشہ کی ملاقات ہوئی دونوں نے ایک دوسرے سے معذرت کی پھر علی نے عائشہ کو مدینہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ ان کو وہ سب دیا جائے جو درکار ہو اور ان کے ساتھ بصرہ کی چالیس معروف عورتوں کو کیا
اب اس متن کے اردو ترجمے دیکھتے ہیں
حافظ محمد اسحاق کا ترجمہ
محمد خالد سیف کا ترجمہ
جو النجدی نے عربی میں لکھا اس کا صحیح ترجمہ محمد خالد سیف نے کیا لیکن حافظ محمد اسحاق نے متن بالکل ہی بدل دیا اور اس کو النجدی سے منسوب کیا – حافظ محمد اسحاق نے یہ کذب کا راستہ صرف بغض ام المومنین میں اختیار کیا –
النجدی نے کتاب میں محمد بن ابی بکر پر تنقید کی
خالد سیف نے اس کا صحیح ترجمہ کیا ہے
چونکہ اس میں محمد بن ابی بکر پر تنقید تھی جو علی کا سوتیلا بیٹا ہے اور اس کا دفاع غیر مقلد حافظ اسحاق جہلمی کیا کرتا تھا اس نے متن میں تحریف کی
اس کے علاوہ حافظ اسحاق نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھی ہاتھ صاف کیا لکھا جبکہ عربی متن میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں
اسی طرح النجدی نے لکھا
وفيها: قتل علي رضي الله عنه. قتله ابن ملجم – رجل من الخوارج – لما خرج لصلاة الصبح لثلاث عشرة ليلة بقيت من رمضان.
فبايع الناس ابنه الحسن.
اس سال علی کا قتل ہوا ابن ملجم کے ہاتھوں جو ایک خارجی مرد تھا جب علی نماز کے لئے رمضان میں تیرہ رات کم نکلے اور حسن کی بیعت ہوئی
النجدی نے کتاب میں کوئی قصہ ذکر نہیں کیا کہ حسن کی بیعت کس طرح ہوئی لیکن مولوی اسحاق جھملی نے قصہ نقل کیا کہ علی نے کوئی نامزد نہ کیا
مولوی اسحاق نے اضافہ کیا
يه عربی متن میں نہیں ملا یعنی اس کو زبردستی اردو ترجمہ میں ڈالا گیا
مولوی اسحاق نے ترجمہ میں ڈالا کہ حسن نے معاویہ کو کہا
یہ بھی عربی متن میں نہیں ہے
یہ جھوٹ کئی دہائییوں تک چھپتا رہا اور کسی نے نکیر نہیں کی اور آج نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ اہل حدیث رافضی بن رہے ہیں – قابل غور ہے کہ حافظ اسحاق کے ساتھ اکرام اللہ ساجد کیلانی (سابق مدیر معاون ماہنامہ محدث،لاہور ) بھی ملا ہوا تھا جس نے اس متن پر اس کی تسوید وتصحیح کا فریضہ انجام دیا ہے
ان تحریفات کا تذکرہ اب راقم نے ام المومینن عائشہ رضی اللہ عنہا پر کتاب میں درج کیا ہے
اہل حدیث فرقہ میں دیکھیں بر سر منبر کیا ہو رہا ہے – افسوس اگر ١٩٩٠ میں ہی جھوٹ کو جھوٹ کہا ہوتا تو یہ نوبت نہ اتی