سن ١٣٢ ہجری اسلامی تاریخ میں ایک اہمیت رکھتا ہے یہ وہ سال ہے جب تمام بلاد اسلامیہ میں عوامی انداز میں بنو امیہ کے خلاف خروج ہوتا ہے – مسلمان ہوں یا ان کے موالی و ابدال (آزاد کردہ غلام ہوں) ہوں یا مجوس ہوں یا شیعہ ہوں یا یہود ہوں سب مل کر بنو امیہ کا دھڑم تختہ کرتے ہیں
دمشق میں خوب قتل ہوتے ہیں یہاں تک کہ مسلمان بنو ہاشم اور ان کا خراسانی لشکر مسجدوں میں بھی قتل کرتا ہے – بہت سے شام کی فضلیت کے قائل راوی جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اہل شام قیامت تک غالب رہیں گے یا شام میں مسلمانوں کا ایک گروہ ہمشیہ رہے گا جو حق پر ہو گا وغیرہ وغیرہ، وائے سحر روایت ان کا بھی قتل ہوجاتا ہے
خوب قتل و غارت کے بعد بنو ہاشم میں خانوادہ عباس بن عبد المطلب (رضی الله عنہ) کے حق میں عرش کا فیصلہ اتا ہے ان کو زمام خلافت مل جاتی ہے جس کے منتظر بنو ہاشم ، حسن رضی الله عنہ کی وفات سے تھے
ابن الجوزی کتاب المنتظم میں لکھتے ہیں کہ ابو العبّاس السفاح نے ١٣٢ ھ میں منصب خلافت سنبھالا اور خطبہ دیا
وكان موعوكاً فاشتد عليه الوعك، فجلس على المنبر وتكلم فقال: إنا والله ما خرجنا لنكثر لجيناً ولا عقياناً، ولا نحفر نهراً، وإنما أخرجتنا الأنفة من ابتزازهم لحقنا، ولقد كانت أموركم ترمضنا، لكم ذمة الله عز وجل، وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم وذمة العباس أن نحكم فيكم بما أنزل الله، ونعمل بكتاب الله، ونسير فيكم بسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعلموا أن هذا الأمر فينا ليس بخارج منا حتى نسلمه إلى عيسى ابن مريم
اور وہ بیمار تھے پس منبر پر بیٹھ گئے اور کہا
بیشک اللہ نے… العبّاس کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ ہم پرالله نے جو نازل کیا ہے اس کے مطابق حکم کریں اور ہم الله کی کتاب پر عمل کریں اور ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق چلیں اور جان لو کہ خلافت ہمارے ساتھ رہے گی یہاں تک ہم یہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو منتقل کریں-
اب ہاشمیہ شہر میں ( جو بغداد سے پہلے بنو ہاشم کا دار الخلافہ تھا ) اس میں جشن کا سماں ہوتا ہے – بنو عباس کا ہمدرد لشکر خراسان سے آیا جس نے خلیفہ بنو ہاشم کی مدد کی تھی ( جیسا کہ روایات میں اتا ہے) لہذا اس کو خوش بھی رکھنا تھا – اس لشکر میں صرف مسلمان ہی نہیں مجوس بھی تھے جن کا مشہور خاندان برمکہ تھا جو عربی بولتے تھے اور آتشکدہ نوبہار کے متولی تھے لہذا نو زور آ رہا تھا اس کا جشن تو ماننا تھا – اوستا کلینڈر یا تقویم پارسیان میں سال کا آغاز ورنل اقونوقص (الاعتدال الربيعي) سے شروع ہوتا ہے- عباسی خلافت کا پہلا نو روز سن ٧٥١ ع میں ١٧ مارچ میں آتا ہے
Vernal Equinox
http://www.timeanddate.com/calendar/seasons.html?year=750&n=751
اسلامی کلینڈر میں یہ دن شعبان ١٤ سن ١٣٣ ہجری ہے لہذا اسی روز الاعتدال الربيعي ہوتا ہے
مملکت میں اس رات کی اہمیت کے پیش نظر مسلمان رات میں عبادت کرتے ہیں اور اہل مجوس و یہود اس دن کی وجہ سے چراغاں کرتے ہیں
یہ روایت ١٣ صدیوں سے آج تک چلی آئی ہے اور اس رات کو شب برات کہا جاتا ہے
اس رات کو مجوس نو روز کہتے ہیں کیوںکہ یہ نئے سال کا پہلا دن ہے اور یہود پورم کہتے ہیں جس کا ذکر فارس کی غلامی میں لکھی جانے والی بائبل کی کتاب استھار میں ہے جس کے مطابق اس رات کو یہود کو ایک ظالم بادشاہ ہامان سے نجات ملتی ہے
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے