https://www.islamic-belief.net/واقعہ-معراج-سے-متعلق/ اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے
اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ ہے کہ مکی دور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عالم بالا لے جایا گیا اس میں عالم ملکوت و جبروت کا مشاہدہ ہوا- جنت کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا – انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے
سوره النجم میں ہے
اسے پوری طاقت والے نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6
اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7
پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8
پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10
دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11
کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)
اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15
جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16
نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17
یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18
صحیح بخاری کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر بتایا ہے کہ یہاں ان آیات میں الله تعالی کا ذکر ہے
، ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَتَدَلَّى، حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ
۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی
راقم کہتا ہے امام بخاری سے غلطی ہوئی ان کا اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے اس کی تفصیل نیچے آئی گی
معراج کا کوئی چشم دید شاہد نہیں یہ رسول الله کو جسمانی ہوئی ان کو عین الیقین کرانے کے لئے اور ایمان والے ایمان لائے اس کا ذکر سوره النجم میں بھی ہے
اس واقعہ پر کئی آراء اور روایات ہیں جن میں سے کچھ مباحث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں
معراج جسمانی تھی یا خواب تھا؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم آسمان پر گئے وہاں سے واپس آئے اور اسکی خبر مشرکین کو دی انہوں نے انکار کیا کہ ایسا ممکن نہیں اس پر سوره الاسراء یا بنی اسرائیل نازل ہوئی اس کی آیت ہے کہ مشرک کہتے ہیں کہ
وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (90) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (92)
أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (93)
ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین پھاڑ کر نہریں نہ بنا دو، انگور و کھجور کے باغ نہ لگا دو ، آسمان کا ٹکڑا نہ گرا دو یا الله اور کے فرشتے آ جائیں یا تمہارا گھر سونے کا ہو جائے یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کتاب لاؤ جو ہم پڑھیں! کہو: سبحان الله! کیا میں ایک انسانی رسول کے علاوہ کچھ ہوں؟
بعض لوگوں نے معراج کا انکار کیا اور دلیل میں انہی آیات کو پیش کیا
آسمان پر چڑھنے کا مطلب ہے کہ یہ عمل مشرکین کے سامنے ہونا چاہیے کہ وہ دیکھ لیں جیسا شق قمر میں ہوا لیکن انہوں نے اس کو جادو کہا – اگر وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آسمان پر جاتا دیکھ لیتے تو کیا ایمان لے اتے؟ وہ اس کو بھی جادو کہتے- خواب کے لئے لفظ حَلَم ہے اسی سے احتلام نکلا ہے جو سوتے میں ہوتا ہے – رویا کا مطلب دیکھنا ہے صرف الرویا کا مطلب منظر ہے جو نیند اور جاگنے میں دونوں پر استمعال ہوتا ہے
کتاب معجم الصواب اللغوي دليل المثقف العربي از الدكتور أحمد مختار عمر بمساعدة فريق عمل کے مطابق
أن العرب قد استعملت الرؤيا في اليقظة كثيرًا على سبيل المجاز
بے شک عرب الرویا کو مجازا جاگنے (کی حالت) کے لئے بہت استمعال کرتے ہیں
سوره بني إسرائيل میں ہے
{وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء: 60]
اور ہم نے جو الرویا (منظر) تمھارے لئے کیا جو تم کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لئے تھا
صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے کہ
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ
یہ منظر کشی یہ آنکھ سے دیکھنے پر ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھا
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔
بعض لوگوں نے کہا معراج ایک خواب تھا مثلا امیر المومنین فی الحدیث الدجال من الدجاجله محمد بن اسحاق کہتے تھے کہ معراج ایک خواب ہے تفسیر طبری میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا سَلَمَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: ثني بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، كَانَتْ تَقُولُ: مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِرُوحِهِ
محمد نے کہا کہ اس کو بعض ال ابی بکر نے بتایا کہ عائشہ کہتیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد نہیں کھویا تھا بلکہ روح کو معراج ہوئی
ابن اسحاق اس قول کو ثابت سجھتے تھے لہذا کہتے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال ابن إسحاق: فلم ينكر ذلك من قولها الحسن أن هذه الآية نزلت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ) ولقول الله في الخبر عن إبراهيم، إذ قال لابنه (يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى) ثم مضى على ذلك، فعرفت أن الوحي يأتي بالأنبياء من الله أيقاظا ونياما، وكان رسول صلى الله عليه وسلم يقول: “تَنَامُ عَيْني وَقَلْبي يَقْظانُ” فالله أعلم أيّ ذلك كان قد جاءه وعاين فيه من أمر الله ما عاين على أيّ حالاته كان نائما أو يقظانا كلّ ذلك حقّ وصدق.
ابن اسحاق نے کہا : عائشہ رضی الله عنہا کے اس قول کا انکار نہیں کیا … انبیاء پر الوحی نیند اور جاگنے دونوں میں اتی ہے اور رسول الله کہتے میری آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے
کتاب السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة از محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (المتوفى: 1403هـ) کے مطابق
وذهب بعض أهل العلم إلى أنهما كانا بروحه- عليه الصلاة والسلام- ونسب القول به إلى السيدة عائشة- رضي الله عنها- وسيدنا معاوية- رضي الله عنه- ورووا في هذا عن السيدة عائشة أنها قالت: «ما فقدت «1» جسد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولكن أسري بروحه» وهو حديث غير ثابت، وهّنه القاضي عياض في «الشفا» «2» سندا ومتنا، وحكم عليه الحافظ ابن دحية بالوضع
اور بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ معراج روح سے ہوئی اور اس قول کی نسبت عائشہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے کی جاتی ہے رضی الله عنہم اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد کہیں نہیں کھویا تھا بلکہ معراج روح کو ہوئی اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے اس کو قاضی عیاض نے کمزور کیا ہے الشفا میں سندا اور متنا اور اس پر ابن دحیہ نے گھڑنے کا حکم لگایا ہے
اگر یہ روایت گھڑی ہوئی ہے تو اس کا بار امیر المومنین فی الحدیث، الدجال من الدجاجلہ محمد بن اسحاق پر ہے کہ نہیں؟
ابن اسحٰق باوجود اس کے کہ اس میں انہوں نے نام تک نہیں لیا جس سے سنا اس قول کا دفاع کرتے تھے لگتا ہے اس دور میں اصول حدیث ہی الگ تھے
بعض لوگوں نے ابن اسحاق کو چھپا کر اس میں نام محمد بن حميد بن حيان کر دیا جو بہت بعد کا ہے اور خود تفسیر طبری میں اس روایت کے تحت ابن اسحاق کا نام لیا گیا ہے
اسی طرح کا ایک قول معاویہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے لیکن وہ منقطع ہے کیونکہ اس کا قائل يعقوب بن عتبة بن المغيرة بن الأخنس المتوفی ١٢٨ ھ ہے جس کی ملاقات معاوية المتوفی ٦٠ ھ سے نہیں بلکہ کسی بھی صحابی سے نہیں
کیا معراج پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے؟
ایک روایت کتاب دلائل النبوه از البیہقی کی ہے جس کو شیعہ اور یہاں تک کہ اہل سنت بھی پیش کرتے رہتے ہیں کہ معراج کی خبر پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے- روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ الْمُزَكِّي قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْقَاضِي أَبُو الْأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصِّيصِيُّ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ [ص:361] الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانُوا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَوْا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ فِي صَاحِبِكَ؟ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ فِي اللَّيْلِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: وَتُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ , إِنِّي لَأُصَدِّقُهُ بِمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ: أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ. فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ
عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد الاقصی تک سیر کی اس سے اگلی صبح جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات لوگوں میں ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی) تصدیق کرنے والے تھے. کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو اپنے صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہو کر مکہ واپس آ گئے ہیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کیا واقعی انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں بالکل کہی ہے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے! لوگوں نے کہا کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کے وہ ایک ہی رات میں شام تک چلے گئے اور واپس مکہ صبح ہونے سے پہلے آ گئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں ان کی تصدیق اس سے دور مسافت پر بھی کرتا ہوں کیونکہ میں اس کی تصدیق آسمانوں کی خبر کی صبح و شام کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں اسی معاملے کے بعد ان کا لقب صدیق مشہور ہو گیا.
أخرجه الحاكم في «المستدرك» (3: 62- 63) ، وقال: «هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه» ، ووافقه الذهبي، وأخرجه ابن مردويه من طريق هشام بن عروة، عن أبيه، عنها.
امام حاکم اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے
اس کی سند میں محمد بن كثير الصنعاني المصيصي ہے کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق
قال ابن سعد ـ:ـ يذكرون أنه اختلط في آخر عمره
ابن سعد نے کہا ذکر کیا جاتا ہے یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا
عقیلی نے اس کا الضعفاء میں ذکر کیا ہے
قال عبد الله بن أحمد: ذكر أبي محمد بن كثير المصيصي فضعفه جدًا، وقال سمع من معمر، ثم بعث إلى اليمن فأخذها فرواها، وضعف حديثه عن معمر جدًا وقال: هو منكر الحديث، أو قال: يروي أشياء منكره. «العلل» (5109) .
عبد الله بن امام احمد نے کہا میں نے باپ سے محمد بن کثیر کا ذکر کیا انہوں نے شدت سے اس کی تضعیف کی اور کہا اس نے معمر سے سناپھر یمن گیا ان سے اخذ کیا اور روایت کیا اور یہ معمر سے روایت کرنے میں شدید ضعیف ہے اور یہ منکر الحدیث ہے
مستدرک میں امام الذھبی سے غلطی ہوئی ایک مقام پر اس روایت کو صحیح کہا ہے
أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ فَمَنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَمِعُوا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِيمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4407 – صحيح
لیکن آگے جا کر اس کو تلخیص میں نقل نہیں کیا لہذا محقق کہتے ہیں یہ ضعیف تھی
حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ الزَّاهِدُ، بِبَغْدَادَ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمُ الْبَلَوِيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَى رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكِ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِي مَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ فِي خَبَرِ السَّمَاءِ فِي غُدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» ، «فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيَّ صَدُوقٌ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4458 – حذفه الذهبي من التلخيص لضعفه
اس طرح کی ایک روایت مسند احمد میں ابن عباس سے مروی ہے
حسنه الألباني في كتاب الإسراء والمعراج ص76، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح. وصححه الحافظ ابن كثير في “تفسيره” 5/26.
البانی نے كتاب الإسراء والمعراج ص76 میں اس کو حسن کہہ دیا ہے اور ابن کثیر ، شعیب اور احمد شاکر نے صحیح
مسند احمد میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَبِعِيرِهِمْ فَقَالَ نَاسٌ قَالَ حَسَنٌ نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا … وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ … الی آخر الحدیث(مسند احمد جلد 3 صفحہ477-478 روایت نمبر 3546 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ ،مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 476-477 روایت نمبر 3546، مکتبۃ الشاملہ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آ گئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بات کی کیسے تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے…اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کہ خواب میں.
سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَحَسَنٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ حَسَنٌ أَبُو زَيْدٍ: قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
اس کی سند میں هلال بن خباب البصري کا تفرد ہے
ابن القطان: تغير بأخرة
ابن القطان کہتے ہیں یہ آخری عمر میں تغير کا شکار تھا
کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق
قال يحيى القطان أتيته وكان قد تغير وقال العقيلي في حديثه وهم وتغير بأخرة
ابن حبان ، الساجی ، عقیلی، ابن حجر سب کے مطابق یہ راوی اختلاط کا شکار تھا
ابن حبان کہتے ہیں ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد. اس کی منفرد روایت سے دلیل نہ لی جائے
واقعہ معراج اور انبیاء سے ملاقات
واقعہ معراج صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان میں بھی اضطراب بھی ہے
صحیح بخاری | صحیح بخاری | صحیح بخاری | صحیح بخاری | صحیح مسلم | مسند البزار | |
امام الزہری کی روایت | قتادہ بصری کی روایت | شریک کی روایت | حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ بصری کی روایت | حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ بصری کی روایت | ||
حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ | حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ | حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا | حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، | حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ | حَدَّثنا حَمَّادٌ، عَنْ ثابتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ | |
سِدْرَةُ المُنْتَهَى | سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے | سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے | السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے | السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے | ||
ساتواں آسمان | إِبْرَاهِيمُ | مُوسَى | ابراہیم – الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ | ابراہیم | ||
چھٹا آسمان | ابراہیم | ابراہیم | مُوسَى | إِبْرَاهِيمَ | موسی | موسی |
پانچواں آسمان | هَارُونُ | ھارُونَ | ھارُونَ | |||
چوتھا آسمان | إِدْرِيسَ | هَارُونَ | إِدْرِيسَ | ادریس | ||
تیسرا آسمان | يُوسُفُ | يُوسُفَ | یوسف | |||
دوسرا آسمان | يَحْيَى وَعِيسَى | إِدْرِيسَ | عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ | عِيسَى وَيَحْيَى | ||
پہلا آسمان | آدم | آدم | آدم | آدَمَ | آدم | آدم |
صحیح بخاری کی شریک بن عبد الله کی روایت پر محدثین کو بہت اعتراض ہے
شريك بن عبد الله النخعي القاضي
وسماع المتأخرين عنه بالكوفة فيه أوهام انتهى
اس سے کوفہ کے متاخرین نے سنا ہے اور اس کو وہم بہت ہے
الذھبی میزان میں کہتے ہیں
ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء،
ابن حزم نے اس کو واہی قرار دیا ہے اس کی حدیث معراج کی بنا پر
تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں
وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ
یہ حدیث معراج کا راوی ہے اور اس میں غریب الفاظ پر اس کا تفرد ہے
سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی کہتے ہیں
وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي (صَحِيْحِ البُخَارِيِّ) .
اور اس کی حدیث معراج ہے ان الفاظ سے جن کی متابعت نہیں ہے اور ایسا صحیح بخاری میں ہے
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطآئی میں ہے
وفي كتاب ابن الجارود: ليس به بأس، وليس بالقوي، وكان يحيى بن سعيد لا يحدث عنه.
ابن الجارود کی کتاب میں ہے اس میں برائی نہیں ، یہ قوی نہیں اور یحیی بن سعید القطان اس سے روایت نہیں کرتے
شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ نے اس روایت میں دعوی کیا کہ معراج ایک خواب تھا جو نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے
لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الحَرَامِ
جس رات نبی صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی وہ مسجد کعبہ میں تھے … قبل اس کے ان پر الوحی ہوئی
کتاب التوشيح شرح الجامع الصحيح از السيوطي کے مطابق
فمما أنكر عليه فيه قوله: “قبل أن يوحى إليه”، فإن الإجماع على أنه كان من النبوة، وأجيب عنه بأن الإسراء وقع مرتين، مرة في المنام قبل البعثة وهي رواية شريك، ومرة في اليقظة بعدها.
شریک کی روایت کا جو انکار کیا گیا ہے اس میں یہ قول ہے کہ یہ الوحی کی آمد سے پہلے ہوا پس اجماع ہے کہ معراج نبوت میں ہوئی اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ دو بار ہوئی ایک دفعہ نیند میں بعثت سے پہلے اور دوسری بار جاگتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ بات عقل سے عاری ہے روایت صحیح نہیں لیکن زبر دستی اس کو صحیح قرار دیا جا رہا ہے
معراج کی رات کیا انبیاء کو نماز پڑھائی؟
اس میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا اختلاف تھا سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیں یہ سب ایک کرشمہ الہی اور معجزاتی رات ہے اس میں جو بھی ہو گا وہ عام نہیں ہے خاص ہے
امام طحآوی نے مشکل الاثار میں اس بات پر بحث کی ہے اور ان کی رائے میں نماز پڑھائی ہے
وہاں انہوں نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک روایت دی ہے
عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا اور وہاں تین انبیاء ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی بشمول دیگر انبیاء کے جن کا نام قرآن میں نہیں ہے واضح رہے کہ مسجد الاقصی داود یا سلیمان علیہ السلام کے دور میں بنی اس میں نہ موسی علیہ السلام نے نماز پڑھی نہ ابراہیم علیہ السلام نے نماز پڑھی لہذا روایت میں ہے انبیاء نے نماز پڑھی فَصَلَّيْتُ بِهِمْ إِلَّا هَؤُلَاءِ النَّفْرَ سوائے ان تین کے جن میں إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمُ السَّلَامُ ہیں – اسکی سند میں مَيْمُون أَبُو حَمْزَة الْقَصَّاب الأعور كوفي. کا تفرد ہے جو متروک الحدیث ہے حیرت ہے امام حاکم اس روایت کو اسی سند سے مستدرک میں پیش کرتے ہیں
الهيثمي اس ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت کو کتاب المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں
قُلْتُ: لابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ فِي الإِسْرَاءِ فِي الصَّحِيحِ غَيْرُ هَذَا
میں کہتا ہوں صحیح میں اس سے الگ روایت ہے
مسند احمد میں انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا ثُمَّ دَخَلْتُ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ میں اس مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت پڑھی- لیکن انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں – اس روایت میں حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ البصری کا تفرد بھی ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے اور بصرہ کے ہیں
مشکل آثار میں الطحاوی نے اس بات کے لئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انبیاء کی امامت کی کچھ اور روایات پیش کی ہیں مثلا
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا جَاءَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي أُسْرِيَ بِهِ إِلَيْهِ فِيهَا، بُعِثَ لَهُ آدَمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ دُونَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَمَّهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، انس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیت المقدس معراج کی رات پہنچے وہاں آدم علیہ السلام دیگر انبیاء کے ساتھ آئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امامت کی
اس کی سند میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ہیں جو مجھول ہیں دیکھئے المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ
جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ نماز ادا کر رہے تھے
امام احمد ( 4 / 167 ) نے اس کو ابن عباس سے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی کمزور ہے سند میں قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ الْجَنْبِيُّ ہے جس کے لئے ابن سعد کہتے ہیں وَفِيهِ ضَعْفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ اس میں کزوری ہے نا قابل دلیل ہے البتہ ابن کثیر نے اس روایت کو تفسیر میں صحیح کہا ہے شعيب الأرنؤوط اس کو اسنادہ ضعیف اور احمد شاکر صحیح کہتے ہیں
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ نمازکا وقت آیا تومیں نے انبیاء کی امامت کرائی
سندآ یہ بات صرف أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ المتوفی ١١٠ ھ ، أَبِي هُرَيْرَةَ سے نقل کرتے ہیں
یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس وقت – وقت نہیں ہے – وقت تھم چکا ہے اور کسی نماز کا وقت نہیں آ سکتا کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رات کی نماز پڑھ کر سوتے تھے انکو سونے کے بعد جگایا گیا اور اسی رات میں آپ مکہ سے یروشلم گئے وہاں سے سات آسمان اور پھر انبیاء سے مکالمے ہوئے – جنت و جنہم کے مناظر، سدرہ المنتہی کا منظر یہ سب دیکھا تو کیا وقت ڈھلتا رہا؟ نہیں
صحیح بخاری کی کسی بھی حدیث میں معراج کی رات انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے جبکہ بخاری میں أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کی سند سے روایات موجود ہیں – لہذا انس رضی الله عنہ کی کسی بھی صحیح روایت میں انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے
الغرض یہ قول اغلبا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس میں انبیاء کی امامت کی بقیہ اصحاب رسول اس کو بیان نہیں کرتے
روایات کا اضطراب آپ کے سامنے ہے ایک میں ہے باقاعدہ نماز کے وقت جماعت ہوئی جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ کو جگایا گیا دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں یعنی یہ سب مضطرب روایات ہیں
صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: ” فَانْطَلَقْتُ ـ أَوْ انْطَلَقْنَا ـ حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ “، فَلَمْ يَدْخُلَاهُ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ دَخَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ وَصَلَّى فِيهِ، قَالَ: مَا اسْمُكَ يَا أَصْلَعُ؟ فَإِنِّي أَعْرِفُ وَجْهَكَ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُكَ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ، قَالَ: فَمَا عِلْمُكَ بِأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: الْقُرْآنُ يُخْبِرُنِي بِذَلِكَ، قَالَ: مَنْ تَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فَلَجَ، اقْرَأْ، قَالَ: فَقَرَأْتُ: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [الإسراء: 1] ، قَالَ: فَلَمْ أَجِدْهُ صَلَّى فِيهِ، قَالَ: يَا أَصْلَعُ، هَلْ تَجِدُ صَلَّى فِيهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَاللهِ مَا صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ، لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِيهِ، كَمَا كُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِي الْبَيْتِ الْعَتِيقِ، وَاللهِ مَا زَايَلَا الْبُرَاقَ حَتَّى فُتِحَتْ لَهُمَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَرَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ عَادَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ، قَالَ: وَيُحَدِّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ أَلِيَفِرَّ مِنْهُ؟، وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، قَالَ: قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ اللهِ، أَيُّ دَابَّةٍ الْبُرَاقُ؟ قَالَ: دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ الْبَصَرِ
أَبُو النَّضْرِ کہتے ہیں ہم سے شَيْبَانُ نے روایت کیا ان سے ْ عَاصِمٍ نے ان سے زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ نے کہا میں حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنہ کے پاس پہنچا اور وہ معراج کی رات کا بیان کر رہے تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چلا یا ہم چلے (یعنی جبریل و نبی) یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے لیکن اس میں داخل نہ ہوئے- میں ( زر بن حبیش ) نے کہا بلکہ وہ داخل ہوئے اس رات اور اس میں نماز پڑھی – حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ نے کہا اے گنجے تیرا نام کیا ہے ؟ میں تیرا چہرہ جانتا ہوں لیکن نام نہیں – میں نے کہا زر بن حبیش- حُذَيْفَةَ نے کہا تمہیں کیسے پتا کہ اس رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا قرآن نے اس پر خبر دی – حُذَيْفَةَ نے کہ جس نے قرآن کی بات کی وہ حجت میں غالب ہوا – پڑھ ! میں نے پڑھاپاک ہے وہ جو لے گیا رات کے سفر میں اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی .. حُذَيْفَةَ نے کہا مجھے تو اس میں نہیں ملا کہ نماز بھی پڑھی – انہوں نے کہا اے گنجے کیا تجھے اس میں ملا کہ نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا نہیں – حُذَيْفَةَ نے کہا الله کی قسم کوئی نماز نہ پڑھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس رات اگر پڑھی ہوتی تو فرض ہو جاتا جیسا کہ بیت الحرام کے لئے فرض ہے اور الله کی قسم وہ براق سے نہ اترے حتی کہ آسمان کے دروازے کھلے اور جنت و جہنم کو دیکھا اور دوسری باتوں کو دیکھا جن کا وعدہ ہے پھر وہ آسمان ویسا ہی ہو گیا جسے کہ پہلے تھآ -زر نے کہا پھر حُذَيْفَةَ ہنسے اور کہا اور لوگ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو (براق کو) باندھا کہ بھاگ نہ جائے، جبکہ اس کو تو عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مسخر کیا
حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت عاصم بن ابی النجود سے ہے جو اختلاط کا شکار ہو گئے تھے لہذا اس روایت کو بھی رد کیا جاتا ہے لیکن جتنی کمزور امامت کرنے والی روایت ہے اتنی ہی امامت نہ کرنے والی ہے
راقم کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے اور صوآب ہے- یہ صحابہ کا اختلاف ہے – حذیفہ رضی الله عنہ کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم یروشلم گئے آپ کو مسجد الاقصی فضا سے ہی دکھائی گئی – واضح رہے براق سے اترنے کا صحیح بخاری میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے- محدث ابن حبان کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت صحیح ہے اور انہوں نے اسکو صحیح ابن حبان میں بیان کیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے دوسرے اصحاب کے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن میں براق سے اترنے کا ذکر ہے
راقم کہتا ہے اگر یہ مان لیں کہ انبیاء کو نماز پڑھائی تو وہاں بیت المقدس میں عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے ان کا بھی جسد عنصری تھا کیونکہ ان پر ابھی موت واقع نہیں ہوئی – یعنی امام مسلم کا عقیدہ تھا کہ دو انبیا کو جسد عنصری کے ساتھ اس رات معراج ہوئی ایک نبی علیہ السلام اور دوسرے عیسیٰ علیہ السلام – راقم کہتا ہے یہ موقف کیسے درست ہے ؟ اس طرح تو نزول مسیح معراج پر ہو چکا لہذا انبیاء زمین پر نہیں آئے نہ نماز ہوئی
معراج پر سدرہ المنتہی سے آگے جانا؟
نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے بیان کی جاتی ہے کہ
موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو
اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک گئے
جلتے ہیں پر جبریل کے جس مقام پر
اسکی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم جب سدرہ المنتہی سے آگے بڑھے تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اگے جائیے ہماریے تو پر جلتے ہیں
تفسیر روح البیان از مفسر إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ) کے مطابق جبریل کے الفاظ تھے
لو تجاوزت لاحرقت بالنور. وفى رواية لو دنوت انملة لاحترقت
ان الفاظ کو فصوص الحکم میں ابن عربی ٦٣٨ ہجری نے نقل کیا ہے اور شیعوں کی کتاب بحار الانوار از ملا باقر مجلسی (المتوفی ١١١١ ھ) میں بھی یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں
ابن عربی کی تفسیر میں ہے
تفسير ابن عربي – ابن العربي – ج 2 – ص 148
هو الذي يصلي عليكم ) * بحسب تسبيحكم بتجليات الأفعال والصفات دون
الذات لاحتراقهم هناك بالسبحات ، كما قال جبريل عليه السلام : ‘ لو دنوت أنملة
لاحترقت ‘ .
جیسا کہ جبریل نے کہا : اگر سرکوں تو بھسم ہو جاؤں
اصل میں بات کس سند سے اہل سنت کو ملی پتا نہیں
شیخ سعدی صوفی شیرازی المتوفی ٦٩٠ ھ کے اشعار ہیں
چنان كرم در تيه قربت براند … كه در سدره جبريل از وباز ماند
بدو كفت سالار بيت الحرام … كه اى حامل وحي برتر خرام
چودر دوستى مخلصم يافتى … عنانم ز صحبت چرا تافتى
بگفتا فرا تر مجالم نماند … بماندم كه نيروى بالم نماند
اگر يك سر موى برتر پرم … فروغ تجلى بسوزد پرم
آخری شعر اسی پر ہے
لگتا ہے ساتویں صدی میں ابن عربی اور شیخ سعدی کو یہ بات کسی شیعہ سے ملی اور عالم میں پھیل گئی
تفسير الميزان از العلامة الطباطبائي کے مطابق
و في أمالي الصدوق، عن أبيه عن علي عن أبيه عن ابن أبي عمير عن أبان بن عثمان عن أبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق (عليه السلام) قال: لما أسري برسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إلى بيت المقدس حمله جبرئيل على البراق فأتيا بيت المقدس و عرض عليه محاريب الأنبياء و صلى بها
…
و فيه، بإسناده عن عبد الله بن عباس قال: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) لما أسري به إلى السماء انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور
….
فلما بلغ إلى سدرة المنتهى و انتهى إلى الحجب، قال جبرئيل: تقدم يا رسول الله ليس لي أن أجوز هذا المكان و لو دنوت أنملة لاحترقت.
پس جب سدرہ المنتہی تک پھنچے اور حجاب تک آئے جبریل نے کہا یا رسول الله اپ آگے جائیے میری لئے جائز نہیں کہ آگے جاؤں اس مکان سے اور اگر ایک قدم بھی سرکوں گا میں جل جاؤں گا
یعنی یہ بات امالی صدوق المتوفی ٣٨١ ھ کی ہے جو شیعوں کی مستند کتاب ہے
کتاب حقيقة علم آل محمد (ع) وجهاته – السيد علي عاشور – ص 44 کے مطابق
وعن أبي عبد الله ( عليه السلام ) : ” ان هذه الآية مشافهة الله لنبيه لما أسرى به إلى
السماء ، قال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : انتهيت إلى سدرة المنتهى ” ( 3 ) .
ومنها الحديث المستفيض : قول جبرائيل للنبي محمد ( صلى الله عليه وآله ) : تقدم .
فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : ” في هذا الموضع تفارقني ” .
فقال جبرائيل : لو دنوت أنملة لاحترقت
اس کتاب کے شیعہ محقق کے مطابق یہ قول ان شیعہ تفاسیر اور کتابوں میں بھی ہے
راجع تفسير الميزان : 19 / 35 ، وتفسير نور الثقلين : 5 / 155 ، وعيون الأخبار
1 / 205 باب 26 ح 22 ، وينابيع المودة : 2 / 583 ، وكمال الدين : 1 / 255 وبحار الأنوار :
26 / 337 ، وتاريخ الخميس : 1 / 311 ذكر المعراج .
اب اس قول کی سند اور متن اصل مصدر سے دیکھتے ہیں
الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 – 436
ثم قال : تقدم يا محمد .
فقال له : يا جبرئيل ، ولم لا تكون معي ؟ قال : ليس لي أن أجوز هذا المكان . فتقدم
‹ صفحة 436 ›
رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ما شاء الله أن يتقدم ، حتى سمع ما قال الرب تبارك وتعالى : أنا
المحمود ، وأنت محمد ، شققت اسمك من اسمي ، فمن وصلك وصلته ومن قطعك
بتلته ( 1 ) انزل إلى عبادي فأخبرهم بكرامتي إياك ، وأني لم أبعث نبيا إلا جعلت له
وزيرا ، وأنك رسولي ، وأن عليا وزيرك .
جبریل نے رسول الله سے کہا : اپ آگے بڑھیے -رسول الله نے پوچھا اے جبریل اپ نہیں جائیں گے؟
جبریل نے کہا : میرے لئے نہیں کہ اس مقام سے آگے جاؤں پس رسول الله خود گئے جہاں تک اللہ نے چاہا یہاں تک کہ رب تبارک و تعالی کو سنا : میں محمود ہیں اور اپ محمد ہیں میں نے اپنا نام تمہارے نام میں ملایا جس کو تم جوڑو میں جوڑوں گا جس کو تم توڑوں میں اس کو ختم کر دوں گا میرے بندوں پر نازل کرو پس ان کو خبر دو جو تمہاری کرامت میرے پاس ہے کہ میں کوئی نبی مبعوث نہیں کرتا لیکن اس کا وزیر کرتا ہوں اور تم میرے رسول ہو اور علی تمہارے وزیر
اس کی سند اس کتاب الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 میں ہے
576 / 10 –
حدثنا أبي ( رضي الله عنه ) ، قال : حدثنا سعد بن عبد الله ، قال : حدثنا
أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، عن خلف بن حماد الأسدي ، عن أبي الحسن
العبدي ، عن الأعمش ، عن عباية بن ربعي ، عن عبد الله بن عباس ، قال : إن رسول
الله ( صلى الله عليه وآله ) لما أسري به إلى السماء ، انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور ، وهو
….قول الله عز وجل : ( خلق الظلمات والنور
روایت کی سند میں عباية بن ربعى ہے الذھبی میزان میں اس پر کہتے ہیں
من غلاة الشيعة.
شیعہ کے غالییوں میں سے ہیں
اس سے اعمش روایت کرتے ہیں میزان میں الذھبی لکھتے ہیں
قال العلاء بن المبارك: سمعت أبا بكر بن عياش يقول: قلت للاعمش: أنت حين تحدث عن موسى، عن عباية..فذكره، فقال: والله ما رويته إلا على وجه الاستهزاء.
ابو بکر بن عیاش نے اعمش سے کہا : تم کہاں تھے جب موسى بن طريف نے عباية بن ربعى سے روایت کی ؟ اعمش نے کہا والله میں تو عباية بن ربعى کا مذاق اڑنے کے لئے اس سے روایت کرتا ہوں
الغرض اس کی سند میں غالی شیعہ ہیں اور اعمش کھیل کھیل میں ان کی روایات بیان کرتے تھے
ما شاء اللہ
اس میں دو باتیں قابل غور ہیں کتاب الامالی از صدوق میں یہ بھی تھا کہ جبریل نے کہا میرے پر جل جائیں گے جیسا لوگ لکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کتاب میں یہ الفاظ اب نہیں ہیں
یہ کتاب اب قم سے چھپی ہے
قسم الدراسات الإسلامية – مؤسسة البعثة – قم
Print : الأولى
Date of print : 1417
Publication :
Publisher : مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة
ISBN : 964-309-068-X
دوسری اہم بات ہے کہ عباية بن ربعى نے ایسا کیوں کہ کہ جبریل کو ہٹا دیا – ؟ اس کی وجہ ہے کہ عباية بن ربعى یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ بات کہ علی وزیر ہیں الوحی کی اس قسم میں سے نہیں جو جبریل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ملی لہذا علی کی امامت کا ذکر قرآن میں اس وجہ سے نہیں کیونکہ یہ تو رسول الله کو الله تعالی نے براہ راست حکم دیا تھا کہ علی وزیر ہیں اس کی خبر تک جبریل علیہ السلام کو نہ ہو سکی
شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة [ 315 ]) میں روایت ہے
ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات
حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم) پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں
یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی کا ذکر تھا
خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا
لب لباب ہے کہ یہ دعوی کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے عرش تک گئے اور ان کے نعلین پاک نے نعوذباللہ عرش عظیم کو مس کیا سراسر بے سروپا بات ہے
بیت المعمور یا بیت المقدس ؟
اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے
کتاب اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 – میں علی کی امامت پر روایت ہے جس کی سند اور متن ہے
حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين
ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا
واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون
اور پوچھو پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں میں سے کیا ہم نے رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے عبادت کی ؟
امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے
ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي، سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں اس روایت کی سند ہے
كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة
کتاب تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص ٥٦٤ کے مطابق سند ہے
وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟
أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی الحسين بن سعيد ہیں جو فضالة سے روایت کرتے ہیں کتاب معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق
قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم
ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة
سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے اور ایک جماعت اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم
الغرض یہ روایت شیعہ محققین کے نزدیک منقطع ہے لیکن بعض اس کو جوش و خروش سے سناتے ہیں
تفسیر فرات میں ہے
فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا
عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے
سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے
معراج پر کیا نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا؟
امام بخاری نے اس سلسلے میں متضاد روایات پیش کی ہیں ایک میں ان کے مطابق نبوت سے قبل رسول الله پر الوحی ہوئی اس میں دیکھا کہ الله تعالی قاب قوسین کے فاصلے پر ہیں اور پھر صحیح میں ہی عائشہ رضی الله عنہا کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سختی سے اس کا انکار کیا کہ معراج میں الله تعالی کو دیکھا
عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها -: يَا أُمَّتَاهْ! هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} , وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166)، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ [شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ 5/ 188} [مِنَ الوَحْي 8/ 210]؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} الآية. [قالَ: قلت: فإنَّ قَوْلَهُ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}. قالَتْ:] ولكنَّهُ [قَدْ 4/ 83] رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – (وفى روايةٍ: ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِى صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ) فِى صُورَتِهِ [الَّتِى هِىَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ]؛ مَرَّتَيْنِ
عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مسروق رحمہ الله علیہ نے پوچھا کہ اے اماں کیا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ تمہاری اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دے تم سے جو کوئی تین باتیں کہے اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے قرات کی {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ باریک بین اور جاننے والا ہے ، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ الله اس سے کلام کرے سوائے وحی سے یا پردے کے پیچھے سے آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ جو یہ کہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ کل کیا ہو گا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے تلاوت کی {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166) اور ایک روایت کے مطابق کوئی نہیں جانتا غیب کو سوائے الله کے . اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا پھر آپ نے تلاوت کی ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} اے رسول جو الله نے آپ پر نازل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا . مسروق کہتے ہیں میں نے عرض کی کہ الله تعالی کا قول ہے {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} پھر قریب آیا اور معلق ہوا اور دو کمانوں اور اس اس سے کم فاصلہ رہ گیا. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ایکروایت میں ہے کہ وہ جبریل تھے وہ آدمی کی شکل میں اتے تھے اور اس دفعہ وہ اپنی اصلی شکل میں آئے یہ وہی صورت تھی جو افق پر دیکھی تھی دو دفعہ
دوسری طرف قاضی ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ اپنی دوسری کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقعہ پر
ورأى ربه، وأدناه، وقربه، وكلمه، وشرّفه، وشاهد الكرامات والدلالات، حتى دنا من ربه فتدلى، فكان قاب قوسين أو أدنى. وأن الله وضع يده بين كتفيه فوجد بردها بين ثدييه فعلم علم الأولين والآخرين وقال عز وجل: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] . وهي رؤيا يقظة (1) لا منام. ثم رجع في ليلته بجسده إلى مكة
اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا وہ قریب آیا ہم کلام ہوا شرف دیا اور کرامات دکھائی یہاں تک کہ قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ اور بے شک الله تعالی نے اپنا باتھ شانے کی ہڈیوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک نبی صلی الله علیہ وسلم نے پائی اور علم اولین ا آخرین دیا اور الله عز و جل نے کہا {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] اور یہ دیکھنا جاگنے میں ہوا نہ کہ نیند میں. پھر اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد کے ساتھ واپس مکہ آئے
حنبلیوں کا یہ عقیدہ قاضی ابو یعلی مولف طبقات الحنابلہ پیش کر رہے ہیں جو ان کے مستند امام ہیں
حنبلی عالم عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ) کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل كما قال عز وجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى الله عليه وسلم رأى عز وجل، فإنه مأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم، صحيح رواه قتادة عكرمة عن ابن عباس. [ورواه الحكم بن إبان عن عكرمة عن ابن عباس] ، ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مهران عن ابن عباس. والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً
وروى عن عكرمة عن ابن عباس قال: ” إن الله عز وجل اصطفى إبراهيم بالخلة واصطفى موسى بالكلام، واصطفى محمدً صلى الله عليه وسلم بالرؤية ” ـ وروى عطاء عن ابن عباس قال: ” رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه مرتين ” وروي عن أحمد ـ رحمه الله ـ أنه قيل له: بم تجيب عن قول عائشة رضي الله عنها: ” من زعم أن محمداً قد رأى ربه عز وجل …” الحديث؟ قال: بقول النبي صلى الله عليه وسلم: ” رأيت ربي عز وجل
بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى امام احمد کہتے ہیں جیسا ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ہے جیسا روایت کیا ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے اور عکرمہ ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالی نے نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے چنا اور موسٰی کو دولت کلام کے لئے چنا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے دیدار کے لئے چنا اور عطا ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا اور احمد سے روایت کیا جاتا ہے الله رحم کرے کہ وہ ان سے پوچھا گیا ہم عائشہ رضی الله عنہا کا قول کا کیا جواب دیں کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا … الحدیث ؟ امام احمد نے فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے (ہی کرو) کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عز وجل کودیکھا
راقم کے نزدیک ابان عن عکرمہ والی روایت اور قتادہ عن عکرمہ والی رویت باری تعالی لی روایات صحیح نہیں ہیں
قاضی عیاض کتاب الشفاء بتعريف حقوق المصطفی میں لکھتے ہیں کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے
صحیح ابن خزیمہ کے مولف أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة المتوفی ٣١١ ھ كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل کہتے ہیں
فَأَمَّا خَبَرُ قَتَادَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمَا، وَخَبَرُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهعَنْهُمَا فَبَيِّنٌ وَاضِحٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُثْبِتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ
پس جو خبر قتادہ اور الحکم بن ابان سے عکرمہ سے اور ابن عباس سے آئی ہے اور خبر جو عبد الله بن ابی سلمہ سے وہ ابن عباس سے آئی ہے اس میں بین اور واضح ہے کہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا
ابن خزیمہ اسی کتاب میں لکھتے ہیں
وَأَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِرُؤْيَةِ خَالِقِهِ، وَهُوَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، لَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا،
اور بے شک یہ جائز ہے کہ اپنے خالق کو دیکھنا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہو اور وہ ساتویں آسمان پر تھے اور دینا میں نہیں تھے جب انہوں نے الله تعالی کو دیکھا تھا
اس طرح محدثین اور متکلمیں کے گروہ کا اجماع ہوا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا ہر چند کہ ام المومنین عائشہ صدیقه رضی الله عنہا اس کا انکار کرتی تھیں
یہ بات کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا مختلف سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہ سے منسوب ہیں جن میں بعض میں ہے کہ الله تعالی کو دل کی آنکھ سے دیکھا
لیکن بعض میں یہ بھی ہے کہ الله تعالی کو ایک جوان مرد کی صورت گھنگھریالے بالوں کے ساتھ دیکھا جس کی تصحیح بہت سے علماء نے کی ہے
ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٢٥ پر ان روایات کو پیش کرتے ہیں اور امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ
قال حدثنا عبد الله بن الإمام أحمد حدثني أبي قال حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء قال وأبلغت أن الطبراني قال حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس في الرؤية صحيح وقال من زعم أني رجعت عن هذا الحديث بعدما حدثت به فقد كذب وقال هذا حديث رواه جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من التابعين عن ابن عباس وجماعة من تابعي التابعين عن عكرمة وجماعة من الثقات عن حماد بن سلمة قال وقال أبي رحمه الله روى هذا الحديث جماعة من الأئمة الثقات عن حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أسماءهم بطولها وأخبرنا محمد بن عبيد الله الأنصاري سمعت أبا الحسن عبيد الله بن محمد بن معدان يقول سمعت سليمان بن أحمد يقول سمعت ابن صدقة الحافظ يقول من لم يؤمن بحديث عكرمة فهو زنديق وأخبرنا محمد بن سليمان قال سمعت بندار بن أبي إسحاق يقول سمعت علي بن محمد بن أبان يقول سمعت البراذعي يقول سمعت أبا زرعة الرازي يقول من أنكر حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عيه وسلم رأيت ربي عز وجل فهو معتزلي
عبد الله کہتے ہیں کہ امام احمد نے کہا حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور مجھ تک پہنچا کہ طبرانی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے جو یہ کہے کہ اس کو روایت کرنے کے بعد میں نے اس سے رجوع کیا جھوٹا ہے اور امام احمد نے کہا اس کو صحابہ کی ایک جماعت رسول الله سے روایت کرتی ہے …. اور ابو زرعہ نے کہا جو اس کا انکار کرے وہ معتزلی ہے
یعنی امام ابن تیمیہ ان روایات کو صحیح کہتے تھے اور ان کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو قلب سے دیکھا حنابلہ میں بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ معراج حقیقی تھی جسم کے ساتھ تھی نہ کہ خواب اور وہ ان روایات کو معراج پر مانتے ہیں ابن تیمیہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن قلبی رویت مانتے ہیں
صالح المنجد یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس حدیث کو ائمہ نے صحیح کہا ہے
=================
ورد حديث يفيد رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه مناما على صورة شاب أمرد ، وهو حديث مختلف في صحته ، صححه بعض الأئمة ، وضعفه آخرون
https://islamqa.info/ar/152835
————-
اور ان کے مطابق صحیح کہتے والے ہیں
===============
وممن صحح الحديث من الأئمة : أحمد بن حنبل ، وأبو يعلى الحنبلي ، وأبو زرعة الرازي .
==================
یہ وہ ائمہ ہیں جن میں حنابلہ کے سرخیل امام احمد اور قاضی ابویعلی ہیں اور ابن تیمیہ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص مانتے ہیں
===============
صالح المنجد کہتے ہیں
وممن ضعفه : يحيى بن معين ، والنسائي ، وابن حبان ، وابن حجر ، والسيوطي .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في “بيان تلبيس الجهمية”: (7/ 229): ” وكلها [يعني روايات الحديث] فيها ما يبين أن ذلك كان في المنام وأنه كان بالمدينة إلا حديث عكرمة عن ابن عباس وقد جعل أحمد أصلهما واحداً وكذلك قال العلماء”.
وقال أيضا (7/ 194): ” وهذا الحديث الذي أمر أحمد بتحديثه قد صرح فيه بأنه رأى ذلك في المنام ” انتهى .
=============
یہ علمی خیانت ہے ابن تیمیہ نے معاذ بن جبل کی روایت کو خواب والی قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس سے منسوب روایات کو
اسی سوال سے منسلک ایک تحقیق میں محقق لکھتے ہیں کہ یہ مرد کی صورت والی روایت کو صحیح کہتے تھے
http://www.dorar.net/art/483
((رأيت ربي في صورة شاب أمرد جعد عليه حلة خضراء))
وهذا الحديث من هذا الطريق صححه جمعٌ من أهل العلم، منهم:
الإمام أحمد (المنتخب من علل الخلال: ص282، وإبطال التأويلات لأبي يعلى 1/139)
وأبو زرعة الرازي (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/144)
والطبراني (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/143)
وأبو الحسن بن بشار (إبطال التأويلات 1/ 142، 143، 222)
وأبو يعلى في (إبطال التأويلات 1/ 141، 142، 143)
وابن صدقة (إبطال التأويلات 1/144) (تلبيس الجهمية 7 /225 )
وابن تيمية في (بيان تلبيس الجهمية 7/290، 356) (طبعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف- 1426هـ)
حنابلہ یا غیر مقلدین میں فرق صرف اتنا ہے کہ حنابلہ کے نزدیک یہ دیکھا اصلی آنکھ سے تھا اور غیر مقلدین کے نزدیک قلبی رویت تھا
راقم کہتا ہے روایات ضعیف ہیں اس کے خلاف الذھبی نے ابن جوزی نے حکم لگائے ہیں
صحیح مسلم کی روایت نور دیکھا؟
صحیح مسلم کی ایک روایت ٤٤٣ اور ٤٤٤ ہے جو ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے اس میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ
یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا : وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھتا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا عفَّانُ بْنُ مُسْلمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ كِلَاهمَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: رَأَيْتُ نُورًا
ہشام اورہمام دونوں نے، قتادہ سے روایت کیا انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے ،انہوں نےکہا : میں نےابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم ان کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے آپ سے (یہی) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا : ’’ میں نے نور دیکھا ۔
کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی نے اس پر تبصرہ کیا ہے
وَفِي الحَدِيث السَّابِع عشر: سَأَلت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: هَل رَأَيْت رَبك؟ فَقَالَ: ” نور، أَنى اراه “. ذكر أَبُو بكر الْخلال فِي كتاب ” الْعِلَل ” عَن أَحْمد بن حَنْبَل أَنه سُئِلَ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ: مَا زلت مُنْكرا لهَذَا الحَدِيث وَمَا أَدْرِي مَا وَجهه. وَذكر أَبُو بكر مُحَمَّد بن إِسْحَق بن خُزَيْمَة فِي هَذَا الحَدِيث تضعيفا فَقَالَ: فِي الْقلب من صِحَة سَنَد هَذَا الْخَبَر شَيْء، لم أر أحدا من عُلَمَاء الْأَثر فطن لعِلَّة فِي إِسْنَاده، فَإِن عبد الله بن شَقِيق كَأَنَّهُ لم يكن يثبت أَبَا ذَر وَلَا يعرفهُ بِعَيْنِه واسْمه وَنسبه، لِأَن أَبَا مُوسَى مُحَمَّد ابْن الْمثنى حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: أتيت الْمَدِينَة، فَإِذا رجل قَائِم على غَرَائِر سود يَقُول: أَلا ليبشر أَصْحَاب الْكُنُوز بكي فِي الجباه والجنوب فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَر، فَكَأَنَّهُ لَا يُثبتهُ وَلَا يعلم أَنه أَبُو ذَر. وَقَالَ ابْن عقيل: قد أجمعنا على أَنه لَيْسَ بِنور، وخطأنا الْمَجُوس فِي قَوْلهم: هُوَ نور. فإثباته نورا مَجُوسِيَّة مَحْضَة، والأنوار أجسام. والبارئ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَيْسَ بجسم، وَالْمرَاد بِهَذَا الحَدِيث: ” حجابه النُّور ” وَكَذَلِكَ رُوِيَ فِي حَدِيث أبي مُوسَى، فَالْمَعْنى: كَيفَ أرَاهُ وحجابه النُّور، فَأَقَامَ الْمُضَاف مقَام الْمُضَاف إِلَيْهِ. قلت: من ثَبت رُؤْيَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ربه عز وَجل فَإِنَّمَا ثَبت كَونهَا لَيْلَة الْمِعْرَاج، وَأَبُو ذَر أسلم بِمَكَّة قَدِيما قبل الْمِعْرَاج بِسنتَيْنِ ثمَّ رَجَعَ إِلَى بِلَاد قومه فَأَقَامَ بهَا حَتَّى مَضَت بدر وَأحد وَالْخَنْدَق، ثمَّ قدم الْمَدِينَة، فَيحْتَمل أَنه سَأَلَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِين إِسْلَامه: هَل رَأَيْت رَبك، وَمَا كَانَ قد عرج بِهِ بعد، فَقَالَ: ” نور، أَنى أرَاهُ؟ ” أَي أَن النُّور يمْنَع من رُؤْيَته، وَقد قَالَ بعد الْمِعْرَاج فِيمَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن عَبَّاس: ” رَأَيْت رَبِّي “.
رسول الله سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا نور ہے کیسے دیکھتا اور اس کا ذکر ابو بکر الخلال نے کتاب العلل میں امام احمد کے حوالے سے کیا کہ ان سے اس حدیث پر سوال ہوا پس کہا میں اس کو منکر کہنے سے نہیں ہٹا اور … ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا اس خبر کی صحت پر دل میں کچھ ہے اور میں نہیں دیکھتا کہ محدثین سوائے اس کے کہ وہ اس کی اسناد پر طعن ہی کرتے رہے کیونکہ اس میں عبد الله بن شقیق ہے جو ابو ذر سے روایت کرنے میں مضبوط نہیں اور اس کو نام و نسب سے نہیں جانا جاتا کیونکہ ابو موسی نے روایت کیا حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة کہ عبد الله بن شَقِيق نے کہا میں مدینہ پہنچا تو وہاں ایک شخص کو … کھڑے دیکھا … پس لوگوں نے کہا یہ ابو ذر ہیں.. کہ گویا کہ اس عبد الله کو پتا تک نہیں تھا کہ ابو ذر کون ہیں! اور ابن عقیل نے کہا ہمارا اجماع ہے کہ الله نور نہیں ہے اور مجوس نے اس قول میں غلطی کی کہ وہ نور ہے پس اس کا اثبات مجوسیت ہے اور اجسام منور ہوتے ہیں نہ کہ الله سبحانہ و تعالی اور یہ حدیث میں مراد ہے کہ نور اس کا حجاب ہے … اور میں ابن جوزی کہتا ہوں : اور جس کسی نے اس روایت کو ثابت کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا انہوں نے اس کو معراج کی رات میں ثابت کیا ہے اور ابی ذر مکہ میں ایمان لائے معراج سے دو سال پہلے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹے ان کے ساتھ رہے یھاں تک کہ بدر اور احد اور خندق گزری پھر مدینہ پہنچے پس احتمال ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ہو جب ایمان لائے ہوں کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ اور اس وقت اپ کو معراج نہیں ہوئی تھی پس رسول الله نے فرمایا نور ہے اس کو کیسے دیکھوں اور بے شک معراج کے بعد کہا جو ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا
صحیح مسلم میں ایک طرف تو معراج کی روایت میں کہیں نہیں کہ اپ صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں دوسری طرف علماء کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نور دیکھا جو حجاب عظمت تھا جو نوری ہے اور اس کی روشنی اس قدر تھی کہ آنکھ بشری سے کچھ دیکھ نہ سکے
اس تضاد کو شارح مسلم امام ابو عبداللہ مازری نے بیان کیا اور ان کے بعد سب لوگ شروحات میں بغیر سوچے نقل کرتے رہے – مازری کہتے ہیں
الضمير في أراه عائد على الله سبحانه وتعالى ومعناه أن النور منعني من الرؤية كما جرت العادة بإغشاء الأنوار الأبصار ومنعها من إدراك ما حالت بين الرائى وبينه وقوله صلى الله عليه وسلم (رأيت نورا) معناه رأيت النور فحسب ولم أر غيره
حدیث کے الفاظ أراه میں ضمیر اللہ تعالی کی طرف پلٹتی ہے ، یعنی میں اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ کیونکہ نور جو اس کا حجاب ہے وہ مجھے اللہ کو دیکھنے سے روک لیتا ہے ، جیسا کہ عادت جاری میں ہے کہ تیز روشنی نگاہ پر چھا جاتی ہے اور ادراک میں مانع ہوتی ہے دیکھنے والے کو سامنے والی چیز دکھائی نہیں دیتی ، اور رسول الله کا قول ہے میں نے نور دیکھا تو مطلب یہ ہے کہ میں نے صرف نور ہی دیکھا اور کچھ نہیں دیکھا
بحث اس میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا سدرہ المنتہی سے بھی آگے حجاب عظمت تک پہنچ گئے تھے ؟
کیونکہ ابو ذر رضی الله عنہ کے قول سے یہی ثابت ہوتا ہے اگر یہ صحیح ہے
یعنی علماء کے ایک گروہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اصلی آنکھ سے بعض کہتے ہیں دیکھا قلبی آنکھ سے اور بعض کہتے ہیں سدرہ المنتہی سے آگے جانا ہی نہیں ہوا تو کب دیکھا
راقم آخری قول کا قائل ہے اور ابو ذر رضی الله عنہ سے منسوب روایات کو رد کرتا ہے
رجب کے فضائل؟
سال کے چار ماہ مسجد الحرام کی وجہ سے روز ازل سے الله نے حرمت والے مقرر کیے ہیں
رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے یہ باقی تین سے بالکل الگ ہے جبکہ شوال، ذیقعدہ، ذو الحجہ ساتھ اتے ہیں
( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ
آیت میں فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ سے مراد مشرکین کا رد ہے جو ان مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے
اس طرح مہینے اپنی تاریخوں میں نہیں رہتے تھے یا کہہ لیں کہ جو گردش سماوات و ارض میں بندھے ہیں ان مہینوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا جاتا تھا
اس وجہ سے حج ہوتا لیکن اس مدت میں نہیں جو الله نے مقرر کی
جدال کی یہ قید تمام عالم پر ہے جہاں سے بھی حاجی مکہ آ سکتے ہوں وہاں وہاں جنگ نہیں کی جا سکتی نہ مکہ تک انے کے رستہ کو فضا سے یا بحر و بر سے روکا جا سکتا ہے ورنہ یہ الله کے حکم کی خلاف ورزی ہے
باقی گناہ کرنا ہر وقت منع ہے لیکن بعض مفسرین نے ان چار ماہ کو گناہ نہ کرنے سے ملا دیا ہے جو نہایت سطحی قول ہے
رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے
آپ نے محمد اسحاق کے ساتھ امیر المومنین فی الحدیث الدجال من الدجاجله محمد بن اسحاق کیوں لکھا ہے – پلیز وضاحت کر دیں
یہ دونوں ٹائٹل محدثین نے ان کو دیے ہیں ہم تو ناقل ہیں
آپ نے جو اوپر ایک ٹیبل بنا کر اس میں جو اضطراب ثابت کیا ہے اس کو امیج بنا کر لگا دیں تا کہ کہیں حوالہ کے لئے استعمال ہو سکے
بلاگ سے ایک ٹیبل کیسے کاپی ہو گا
یہ ٹیبل بڑا ہے اس کا امیج بنانے کا وقت نہیں
اپ خود حصوں میں سکرین شاٹ لیں اور بنا لیں
ٹیبل میں جن احادیث کی سند دی گئی ہے پلیز ان احادیث کے نمبر بھی بتا دیں تا کہ پوچھنے پر دیے جا سکیں
وہ یہ ہیں
مسند البزار ٦٩٦٤ میں
صحیح مسلم ٢٥٩ پر
صحیح بخاری ٧٥١٧ پر
صحیح بخاری ٣٨٨٧ پر
صحیح بخاری ٣٣٤٢ پر
صحیح بخاری ٣٤٩ پر
آپ نے صحیح مسلم کا حوالہ غلط دیا
اس کا حوالہ یہ ہے
صحیح مسلم ٤١١
لنک
http://mohaddis.com/View/Muslim/411
راقم کے پاس اس کا وہی نمبر ہے جو دیا
یہ باب بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ میں ہے
مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)
المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي
الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت
عدد الأجزاء: 5
شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ کی حدیث پر امام مسلم رحمہ الله نے بھی کچھ کہا ہے – کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ)
صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان
(باب: رسو ل اللہﷺ کو رات کے وقت آسمانوں پر لے جانا اور نمازوں کی فرضیت)
414 . حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُنَا عَنْ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ، أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ نَحْوَ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، وَقَدَّمَ فِيهِ شَيْئًا وَأَخَّرَ وَزَادَ وَنَقَصَ
حکم : صحیح
شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے حدیث سنائی (کہا): میں نے حضرت انس بن مالک سے سنا ، وہ ہمیں اس رات کے بارے میں حدیث سنا رہے تھے جس میں رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے رات کے سفر پر لے جایا گیا کہ آپ کی طرف وحی کیے جانے سے پہلے آپ کے پاس تین نفر (فرشتے) آئے ، اس وقت آپ مسجد حرام میں سوئے تھے ۔ شریک نے ’’واقعہ اسراء‘‘ ثابت بنانی کی حدیث کی طرح سنایا اور اس میں کچھ چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا اور (کچھ میں ) کمی بیشی کی۔ ( امام مسلم نے یہ تفصیل بتا کر پوری ورایت نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ )
لگتا ہے کہ شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے ثابت کی روایات جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہیں – ان کو اکھٹا کر دیا ہے
١.
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ” ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اتاه جبريل عليه السلام وهو يلعب مع الغلمان، فاخذه فصرعه، فشق عن قلبه، فاستخرج القلب، فاستخرج منه علقة، فقال: هذا حظ الشيطان منك، ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم، ثم لامه، ثم اعاده في مكانه، وجاء الغلمان يسعون إلى امه يعني ظئره، فقالوا: إن محمدا قد قتل، فاستقبلوه وهو منتقع اللون، قال انس: وقد كنت ارى اثر ذلك المخيط في صدره ”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا اور پچھاڑا اور دل کو چیر کر نکالا، پھر اس میں سے ایک پھٹکی جدا کر ڈالی اور کہا کہ اتنا حصہ شیطان کا تھا تم میں، پھر اس دل کو دھویا سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے (اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ہم کو سونے کے برتن کا استعمال درست ہے۔ کیونکہ یہ فرشتوں کا فعل تھا اور ممکن ہے کہ ان کی شریعت ہماری شریعت کے مغائر ہو۔ دوسرے یہ کہ اس وقت تک سونے کا استعمال حرام نہیں ہوا تھا) پھر جوڑا اس کو اور اپنی جگہ میں رکھا اور لڑکے دوڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کے پاس آئے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انا کے پاس اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مار ڈالے گئے۔ یہ سن کر لوگ دوڑے دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح اور سالم ہیں اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل گیا ہے (ڈر خوف سے) سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس سلائی کا (جو جبرئیل علیہ السلام نے کی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر نشان دیکھا تھا۔
٢.
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” اتيت فانطلقوا بي إلى زمزم، فشرح عن صدري، ثم غسل بماء زمزم، ثم انزلت “.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس فرشتے آئے اور مجھے لے گئے زم زم کے پاس، پھر چیرا گیا سینہ میرا اور دھویا گیا زم زم کے پانی سے، پھر چھوڑ دیا گیا میں اپنی جگہ پر۔“
٣.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے براق لایا گیا۔ اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا اپنے سم وہاں رکھتا ہے، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے) میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ وہاں اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا۔ جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعتیں نماز کی پڑھیں بعد اس کے باہر نکلا تو جبرئیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ میں نے دودھ پسند کیا۔ جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ آسمان پر چڑھے (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے کہا: دروازہ کھولنے کیلئے، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل ہے۔ انہوں نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا بلائے گئے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بلائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھولا گیا ہمارے لئے اور ہم نے آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی بہتری کی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا، فرشتوں نے پوچھا: کون ہے۔ انہوں نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا ان کو حکم ہوا تھا بلانے کا۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے کہا: کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے کہا: دوسرا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا ان کو پیغام کیا گیا تھا بلانے کے لئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو پیغام کیا گیا تھا پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مرحبا کہا مجھ کو اور نیک دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہم کو لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا بلوائے گے ہیں؟ جبرئیل نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور اچھی دعا دی مجھ کو، اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ہم نے اٹھا لیا ادریس کو اونچی جگہ پر (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے) پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا: کون؟ کہا جبرئیل۔ پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا بلائے گئے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا اور کون ہے تمہارے ساتھ؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ نے ان کو پیغام بھیجا آ ملنے کیلئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بھیجا، پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے کہا: مرحبا اور اچھی دعا دی مجھ کو، پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے اپنی پیٹھ کا بیت المعمور کی طرف (اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا درست ہے) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں جو پھر کبھی نہیں آتے پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر جیسے قلہ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی پھر اللہ جل جلالہ نے ڈالا میرے دل میں جو کچھ ڈالا اور پچاس نمازیں ہر رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں جب میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا: تمہارے پروردگار نے کیا فرض کیا تمہاری امت پر۔ میں نے کہا: پچاس نمازیں فرض کیں۔ انہوں نے کہا: پھر لوٹ جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں لوٹ گیا اپنے پروردگار کے پاس اور عرض کیا: اے پروردگار! تخفیف کر میری امت پر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسٰی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی تم پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس طرح برابر اپنے پروردگار اور موسٰی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: اے محمد! وہ پانچ نمازیں ہیں، ہر دن اور ہر رات میں اور ہر ایک نماز میں دس نماز کا ثواب ہے، تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی کیسی عنایت اپنے غلاموں پر ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب ملے پچاس کا) اور جو کوئی شخص نیت کرے کام کرنے کی نیک، پھر اس کو نہ کرے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو دس نیکیوں کا اور جو شخص نیت کرے برائی کی پھر اس کو نہ کرے تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر بیٹھے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا: پھر جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں شرما گیا اس سے۔“
نہیں ایسا نہیں ہے – شريك بن عبد الله النخعي القاضي ایک وہمی ہے جس نے وہم میں ایک اور ہی روایت بنا ڈالی ہے اسی وجہ سے محدثین نے اس پر جرح کی ہے
ابن عدی نے الکامل میں کہا
خْبَرنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيى السَّاجِيُّ سمعتُ ابن المثنى يقول ما سمعت يَحْيى بْن سَعِيد، وَعَبد الرَّحْمَنِ بن مهدي حدثا عن شَرِيك شَيئًا.
سمعت أبا يعلى أحمد بْنَ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى يَقُولُ سئل يَحْيى بن مَعِين، وَهو حاضر روى يَحْيى القطان عن شَرِيك؟ فقال: لاَ لم يرو عن شَرِيك، ولاَ عن إسرائيل.
حَدَّثَنَا السَّاجِيُّ سمعتُ ابْنَ الْمُثَنَّى يقول ما سمعت يَحْيى بن سَعِيد حدث عن إسرائيل، ولاَ شَرِيك وَكَانَ عَبد الرَّحْمَنِ يحدث عنهما.
امام یحیی بن سعید نے شریک کا بائیکاٹ کا حکم دیا
امام مسلم نے اس طرف اشارہ کیا کہ اس میں شریک غلطی کر رہا ہے اور انہوں نے اس کو مکمل نقل کرنا بھی مناسب نہ
سمجھا بلکہ اس کے بعد مکمل روایت دوسری سند سے دی لہذا اس طرح انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا
بھائی آپ کہہ رہے ہیں کہ
===================
صحیح بخاری کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر بتایا ہے کہ یہاں ان آیات میں الله تعالی کا ذکر ہے
، ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَتَدَلَّى، حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ
۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی
راقم کہتا ہے امام بخاری سے غلطی ہوئی ان کا اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے اس کی تفصیل نیچے آئی گی
=============
ایک بات سمجھ نہیں آئ کہ آپ کو اعترض صحیح بخاری کی اس حدیث پر ہے یا ان الفاظ پر . کیا یہ الفاظ کسی اور حدیث میں بھی بیان ہویے ہیں
اس حدیث پر یہ اعترض ہو سکتا ہو کہ شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے ثابت کی روایات جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہیں – ان کو اکھٹا کر دیا
اسی وجہ سے
شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ کی اس روایت کے مطابق معراج نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے
لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الحَرَامِ
جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے
———
مزید وضاحت آپ کر دیں گے انشاءاللہ
راقم اس روایت کو ضعیف کہتا ہے لیکن امام بخاری اس کو صحیح کہتے ہیں اور ان کے نزدیک سوره النجم کی آیات الله کے متعلق ہیں جیسا اس روایت میں آیا ہے
اب کیا رسول الله بعثت سے پہلے نبی تھے ؟ نہیں تھے کیونکہ قرآن میں ہے
سوره الشوری
مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي .
تم کو نہیں پتا تھا کہ کتاب الله کیا ہے اور نہ تم کو ایمان کا پتا تھا
لہذا بعثت سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کوئی الوحی نہیں ہوئی نہ خواب میں نہ اصل میں
یہ روایت اس طرح خلاف قرآن ہے
معراج نبوت سے پہلے ممکن نہیں
آپ کے جواب پر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے
کسی بھی جگہ پر جو بھی نقد کی گنجائش نکل سکتی تھی ، محدثین نے اس پر تفصیل سے گفتگو کردی ہے ، اور ساتھ وجہ بھی ذکر کردی ہے ۔
اب اس طرح کے چند مقامات لیکر کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی ۔
محدث فورم کے کسی جاہل کا کلام یہاں نقل مت کیا کریں اپ کا دماغ کس کام کا ہے
مولویوں کی پرستش چھوڑ دیں
میرے بھائی میں نے پوری بات پیش کر دی ہے لیکن وہ جواب دینے سے قاصر ہیں
میں ان کا نہ مرید ہوں نہ ان کا مقلد ہوں
باقی یہ ایک دوسرے کو جاہل کہنا ان لوگوں کا شیوہ ہے
آپ نے حق بات پیش کر دی اب اگر کوئی مانتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ الله کے سامنے جواب دہ ہو گا
ان لوگوں نے اپنے اصول بنا رکھے ہیں – جن کی وجہ سے وہ حق کو قبول کرنے سے انکاری ہیں
ورنہ آپ نے اتنی وضاحت کر دی ہے کہ ایک عام بندہ بھی بات کو سمجھ سکتا ہے
الله ہم سب کو حق بات سمجھنے کی توفیق دے – آمین
جب اپ سمجھ چکے ہیں کہ حق کیا ہے تو پھر اس پر بحث براۓ بحث بے کار ہے
وہاں مولویوں کو اپنی آنا کی پڑی ہے اپ ان میں جا کر حق پیش کرتے ہیں وہ اپ کو ائمہ کی پوجا کا حکم کرتے ہیں
لہذا جواب ایک حد تک دیا جاتا ہے ہر ٹام ڈک اور ہیری کا سوال کا جواب نہیں
دیا جاتا
———-
اپ نے کہا
اب اس طرح کے چند مقامات لیکر کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی
راقم کہتا ہے
ساری صحیح بخاری و مسلم پر ہم کو کوئی اعتراض نہیں نہ کہا گیا ہے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری و مسلم سے غلطی ہوئی چند روایات کی تصحیح میں
اور کیا یہ امام ابو زرعہ نے صحیح مسلم کے متعلق نہیں کہا؟
دوم نئے کون سے اصول ہیں ؟
شق صدرکا واقعہ کتنی دفعہ ہوا – کیا یہ صرف ایک دفعہ ہوا یا کئی بار ہوا
١.
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ) صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: رسو ل اللہﷺ کو رات کے وقت آسمانوں پر لے جانا اور نمازوں کی فرضیت)
412 . حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُتِيتُ فَانْطَلَقُوا بِي إِلَى زَمْزَمَ، فَشُرِحَ عَنْ صَدْرِي، ثُمَّ غُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُنْزِلْتُ»
حکم : صحیح 412 . سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے پاس (فرشتے ) آئے اور مجھے زمزم کے پاس لے گئے ، میرا سینہ چاک کیا گیا ، پھر زمزم کے پانی سے دھویا گیا ، پھر مجھے (واپس اپنی جگہ ) اتارا دیا گیا ۔ ‘‘( یہ معراج سے فوراً پہلے کا واقعہ ہے ۔ )
٢.
جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ أَلَمْ نَشْرَحْ) جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر)
3346 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ أَحَدٌ بَيْنَ الثَّلَاثَةِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مَاءُ زَمْزَمَ فَشَرَحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا قَالَ قَتَادَةُ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَا يَعْنِي قَالَ إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِي فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي فَغُسِلَ قَلْبِي بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَهَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَفِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ
حکم : صحیح 3346 . انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہاتھا اور کچھ جاگ رہاتھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھاتین آدمیوں میں سے ایک (محمدہیں) ۱؎ ،پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایاگیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک ، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا:’پیٹ کے نیچے تک،پھرآپ نے فرمایا:’ اس نے میرادل نکالا ، پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا، پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان وحکمت سے اسے بھر دیاگیا ۲؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے’ ۳؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اسے ہشام دستوائی اورہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے ،۳- اس باب میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
٣.
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” اتيت فانطلقوا بي إلى زمزم، فشرح عن صدري، ثم غسل بماء زمزم، ثم انزلت “.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس فرشتے آئے اور مجھے لے گئے زم زم کے پاس، پھر چیرا گیا سینہ میرا اور دھویا گیا زم زم کے پانی سے، پھر چھوڑ دیا گیا میں اپنی جگہ پر۔“
٤.
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ” ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اتاه جبريل عليه السلام وهو يلعب مع الغلمان، فاخذه فصرعه، فشق عن قلبه، فاستخرج القلب، فاستخرج منه علقة، فقال: هذا حظ الشيطان منك، ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم، ثم لامه، ثم اعاده في مكانه، وجاء الغلمان يسعون إلى امه يعني ظئره، فقالوا: إن محمدا قد قتل، فاستقبلوه وهو منتقع اللون، قال انس: وقد كنت ارى اثر ذلك المخيط في صدره ”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا اور پچھاڑا اور دل کو چیر کر نکالا، پھر اس میں سے ایک پھٹکی جدا کر ڈالی اور کہا کہ اتنا حصہ شیطان کا تھا تم میں، پھر اس دل کو دھویا سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے (اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ہم کو سونے کے برتن کا استعمال درست ہے۔ کیونکہ یہ فرشتوں کا فعل تھا اور ممکن ہے کہ ان کی شریعت ہماری شریعت کے مغائر ہو۔ دوسرے یہ کہ اس وقت تک سونے کا استعمال حرام نہیں ہوا تھا) پھر جوڑا اس کو اور اپنی جگہ میں رکھا اور لڑکے دوڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کے پاس آئے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انا کے پاس اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مار ڈالے گئے۔ یہ سن کر لوگ دوڑے دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح اور سالم ہیں اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل گیا ہے (ڈر خوف سے) سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس سلائی کا (جو جبرئیل علیہ السلام نے کی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر نشان دیکھا تھا۔
٥.
حدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني سليمان وهو ابن بلال ، قال: حدثني شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، قال: سمعت انس بن مالك يحدثنا، عن ليلة اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم من مسجد الكعبة، ” انه جاءه ثلاثة نفر قبل ان يوحى إليه وهو نائم في المسجد الحرام “، وساق الحديث بقصته نحو حديث ثابت البناني، وقدم فيه شيئا واخر، وزاد ونقص.
شریک بن عبداللہ سے روایت ہے، میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ بیان کرتے تھے اس رات کا جس میں معراج ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کی مسجد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین فرشتے آئے وحی آنے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سو رہے تھے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے ثابت نے روایت کیا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے، لیکن آگے بیان کیا بعض باتوں کو اور پیچھے بیان کیا بعض باتوں کو اور زیادہ کیا اور کم کیا۔
پلیز یہ بتا دیں کہ حقیقت کیا ہے – کیا یہ ساری احادیث صحیح ہیں یا کچھ ضعیف ہیں اور شق صدر کتنی بار ہوا
شق صدر بچپن میں ہوا یہ صرف ایک سند سے ہے
حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ بن اسلم البنانی، عَنْ أَنَسٍ
اس میں بصریوں کا تفرد ہے
حماد بن سلمہ آخری عمر میں مختلط تھے لگتا ہے یہ روایت اسی دور کی ہے
ابن حجر کہتے ہیں
قال: احد ائمة المسلمين إلا أنه لما كبر ساء حفظه فلدا تركه البخاري وأما مسلم فاجتهد وأخرج من حديثه عن ثابت ما سمع منه قبل تغيره
حماد ائمہ مسلم ہیں جب یہ بوڑھے ہوئے تو حافظہ خراب ہوا لہذا بخاری نے ان کو ترک کر دیا اور مسلم نے اجتہاد کیا ان کی ثابت سے احادیث پر کہ کیا انہوں نے تغیر سے پہلے سنا
راقم کے نزدیک یہاں اس اجتہاد میں امام مسلم سے غلطی ہوئی اور انہوں نے اس تغیر کی روایت کو صحیح سمجھ لیا
کتاب سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم
کے مطابق
قَالَ ابو دَاوُد عَن حَمَّاد بن سَلمَة قَالَ قلت هَذَا قَامَ لِثَابِت فَجعلت أقلب عَلَيْهِ الْأَحَادِيث فَأَقُول أنس فَيَقُول لَا إِنَّمَا حَدثنَا بِهِ ابْن ابي ليلى لَا إِنَّمَا حَدثنَا بِهِ انس يَعْنِي لما يذكرهُ أَيْضا لَهُ عَن غير أنس مَا هُوَ لأنس
امام ابو داود نے امام احمد سے حماد بن سلمہ پر پوچھا احمد نے کہا کہ یہ ثابت سے روایت کرنے میں احادیث کو ألٹ پلٹ کرتے پس کہتے انس نے کہا پھر کہتے نہیں اس ابن ابی لیلی نے کہا – نہیں ایسا انس نے کہا یعنی جو انس نے نہیں کہا ہوتا اس کو بھی انس کا قول بنا دیتے
تفسیر روح البیان کے مطابق جبریل کے الفاظ تھے
لو تجاوزت لاحرقت بالنور. وفى رواية لو دنوت انملة لاحترقت
ان الفاظ کو فصوص الحکم میں ابن عربی نے نقل کیا ہے اور شیعوں کی کتاب بحار الانوار از ملا باقر مجلسی (المتوفی ١١١١ ھ) میں بھی یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں . معلوم یہی ہوتا ہے کہ شیعوں نے اس کو ابن عربی نے نقل کیا اور سنی مفسرین نے اس کو تفسیروں میں لکھا
ایک طرف آپ تفسیر روح بین کا حوالہ دے رہے ہیں – دوسری طرف ابن عربی تیسری طرف شیعہ کی کتاب کا
اصل میں یہ الفاظ کہاں لکھے ہیں اور کس نے یہ الفاظ لکھے ہیں
اصل میں بات کس سند سے اہل سنت کو ملی پتا نہیں
ان میں ابن عربی ٦٣٨ ہجری سب سے پرانے ہیں
مفسر إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)
شیخ سعدی صوفی شیرازی المتوفی ٦٩٠ ھ کے اشعار ہیں
چنان كرم در تيه قربت براند … كه در سدره جبريل از وباز ماند
بدو كفت سالار بيت الحرام … كه اى حامل وحي برتر خرام
چودر دوستى مخلصم يافتى … عنانم ز صحبت چرا تافتى
بگفتا فرا تر مجالم نماند … بماندم كه نيروى بالم نماند
اگر يك سر موى برتر پرم … فروغ تجلى بسوزد پرم
آخری شعر اسی پر ہے
لگتا ہے ساتویں صدی میں ابن عربی اور شیخ سعدی کو یہ بات کسی شیعہ سے ملی اور عالم میں پھیل گئی
تفسير الميزان از العلامة الطباطبائي کے مطابق
و في أمالي الصدوق، عن أبيه عن علي عن أبيه عن ابن أبي عمير عن أبان بن عثمان عن أبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق (عليه السلام) قال: لما أسري برسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إلى بيت المقدس حمله جبرئيل على البراق فأتيا بيت المقدس و عرض عليه محاريب الأنبياء و صلى بها
…
و فيه، بإسناده عن عبد الله بن عباس قال: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) لما أسري به إلى السماء انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور
….
فلما بلغ إلى سدرة المنتهى و انتهى إلى الحجب، قال جبرئيل: تقدم يا رسول الله ليس لي أن أجوز هذا المكان و لو دنوت أنملة لاحترقت.
پس جب سدرہ المنتہی تک پھنچے اور حجاب تک آئے جبریل نے کہا یا رسول الله اپ آگے جائیے میری لئے جائز نہیں کہ آگے جاؤں اس مکان سے اور اگر ایک قدم بھی سرکوں گا میں جل جاؤں گا
یعنی یہ بات امالی صدوق المتوفی ٣٨١ ھ کی ہے جو شیعوں کی مستند کتاب ہے
تلاش کرنے پر یہ حوالہ مل گیا لہذا بلاگ میں تبدیلی کر دی گئی ہے
کیا مہراج کی رات حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے پربھی صحابہ میں اختلاف یا صرف صحابہ کا اختلاف رب کو دیکھنے پر ہے – پلیز وضاحت کر دیں – اور کیا کوئی ایسی حدیث پیش کی جا سکتی ہے کہ جس میں حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے پر اختلاف ہوا ہو
راقم کے علم میں اختلاف رویت باری پر ہے
بلاگ میں اضافہ کر دیا ہے
اوپر جو آپ نے لکھا ہے کہ
کیا معراج پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہیں حدیث پر کلام کیا ہے. اور انھوں نے مرتد والے ٹکڑے کو شاید صحیح نہیں بتایا ہے
کیا البانی کا کوئی ایسا کلام ہے
اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اہل تشیع کے ہاں معراج کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علی کی امامت کا حکم تھا جو خاص سدرہ المنتہی کے بعد ملا یہاں تک کہ جبریل کو اس کی خبر نہ ہوئی پس الله اور اس کے رسول کے مابین رہی لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھل کر اس کو امت پرظاہر نہیں کیا مکی دور میں جب سابقوں اولوں کو اس کی خبر ہوئی تو ان میں سے بعض مرتد تک ہو گئے
اس کو هلال بن خباب البصري نے بیان کیا جو یونس بن خباب کے بھائی ہیں دونوں کٹر رافضی ہیں – یونس کھل کر اس کا اظہار کرتے اور ھلال نہ کرتے بلکہ اس طرح روایت بیان کی کہ ابو بکر کی تعریف تو ہو لیکن باقی کے لئے ذہن میں رہے کہ سابقوں اولون مرتد ہوئے – محدثین کو ھلال پسند تھے لہذا ان کو مختلط کہا لیکن یونس کو کٹر رافضی
البانی نے کتاب الإسراء والمعراج وذكر أحاديثهما وتخريجها وبيان صحيحها میں ھلال کی روایت کو حسن کہا ہے وہ سب سے مناسب مقام تھا اگر اس کے الفاظ پر شک تھا جس کا انہوں نے اظہار نہیں کیا
اگر کسی اور جگہ کیا ہے تو وہ راقم کے علم میں نہیں
بلکہ کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من (50) عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد» میں کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ
وكانت الفتنة لضعفاء الإيمان والمشركين
یہ کمزور ایمان اور مشرکین کے لئے فتنہ تھا
——-
یہ بات کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے یہاں تک کہ رب کو دیکھا
ان کو کوئی ایسا حکم دیا گیا جو رسول الله نے امت سے چھپایا
اس قول باطل کو ذہن میں رکھتے ہوئے صحیح بخاری کی عائشہ رضی الله عنہا کی روایت میں ہے
اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا
اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا
اہل سنت دھوکہ کھا گئے اور یہ ماننے لگ گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المتنھی سے گے گئے اور سابقوں اولوں مرتد ہوئے
اہل تشیع کے بقول اس سب کی وجہ علی رضی الله عنہ سے متعلق احکام تھے
ان دو احادیث کی تھوڑی وضاحت کردیں ، ان میں پہلی حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ،” وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ”
جبکہ دوسری روایت میں فرمایا : میں نے نور دیکھا ”
443
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ
یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا : وہ نور ہے،میں اسے کہاں سے دیکھوں!
444
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا عفَّانُ بْنُ مُسْلمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ كِلَاهمَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: رَأَيْتُ نُورًا
ہشام اورہمام دونوں نے دو مختلف سندوں کے ساتھ قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے ،انہوں نےکہا : میں نےابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم ان کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے آپ سے (یہی) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا : ’’ میں نے نور دیکھا ۔
Reply
بلاگ میں اضافہ کر دیا گیا ہے
کیا معراج میں الله اور نبی ہم کلام ہوئے- کیونکہ بعض مفسر سوره النجم کی آیت کہ بندے کی طرف الوحی کی .. اس سے مراد جبریل کو لیتے ہیں جبکہ حدیث میں ہے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ نماز کی تخفیف کے لئے میں نے موسی اور اپنے رب کے درمیان کئی چکر لگائے
کیا صحیح ہے ؟
نبی صلی الله علیہ وسلم پر پانچ نماز کا حکم سدرہ المنتہی پر الوحی ہوا اپ اس سے آگے نہیں گئے- پھر جب موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے مشورہ دیا کہ کم کرا لو تو اپ نے اغلبا دعا کی اور واپس الوحی سے تعداد نماز کو کم کیا گیا- کسی حدیث میں صریحا نہیں آیا کہ اس میں باقاعدہ کلام ہوا یہ بس لوگوں نے مشہور کر دیا ہے
حدیث میں ہے
فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ، وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ، قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ: أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي، وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي
موسی نے کہا اپنے رب کی طرف پلٹیے ان سے اپنی امت پر تخفیف کا سوال کریں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کر لیا یہاں تک کہ اب شرم اتی ہے لیکن میں راضی و اسلم ہوں
پس یہاں سے آگے بڑھا تو پکارنے والے نے کہا … میں نے اپنے بندوں پر کمی کر دی
ارجع کا مطلب یہاں الله سے دعا کرنا ہے
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں
فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ
پس میں اس سے نہیں ہٹا کہ رب سے رجوع کروں اور موسی سے
یہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ کئی چکر لگائے
ابو شہر یار بھائی آپ نے یہاں صحیح بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/3887
اور صحیح مسلم کی اس حدیث کا حوالہ دیا
http://mohaddis.com/View/Muslim/411
ان میں تو چکروں کا ذکر ہے بھائی – کیا ان دونو احادیث کا جو ترجمہ محدثفورم پر موجود ہے وہ صحیح ہے یا نہیں
اگر آپ کے پاس وقت ہو تو صحیح ترجمہ کر دیں تا کہ بات واضح ہو
ایک بھائی نے یہ بھی کہا ہے – غیر مقلدوں کو
ویسے حدیث معراج میں نمازکی فرضیت کے ضمن میں موسی علیہ السلام کے اتنے چکر لگوانا فہم سے کچھ بعید معلوم ہوتا ہے۔ نہ رب کو معلوم تھا کہ میرے نبی کی اُمت کی سکت یا ہمت کہاں تک ہے اور نہ نبی کی ذات مبارکہ کو ۔ معلوم تھا تو موسیٰ علیہ السلام کو۔ کسی نے خوب جوڑی ہے۔ اب بخاری کی روایت ہے تو اس پر ایمان لانا بھی لازمی ہے، چاہے اُس کیلئے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہی کیوں نہ کی جائے۔ بڑے بڑے جغادری یہاں آکر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور فہم و فراست پر تین طلاق بھیجنا فرض جانتے ہیں لیکن اس کی نفی نہیں کرسکتے۔ واللہ اعلم
بھائی معراج سے متعلق یہی کل روایات ہیں جن پر میں نے بلاگ لکھا ہے
اس میں کس قدر تضاد ہے اپ دیکھ سکتے ہیں
بعض چیزیں میرے علم سے باہر ہیں – مثلا بنی اسرائیل پر چالیس وقت کی نماز سمجھ سے باہر ہے
الله تعالی نے اس قدر عبادت کا حکم دیا ؟ توریت میں لکھا نہیں ہے
اب غور کریں دشت میں جہاں چالیس سال بنی اسرائیل رہے وہ صبح شام من و سلوی اکھٹا کرتے اس کو پکاتے اور اسی دشت میں گزر بسر کرتے رہے
اس دوران کیا وہ چالیس وقت کی نماز پڑھتے تھے ؟ دن میں آج ہم پانچ وقت کی نماز کے اوقات میں ہی اختلاف کرتے ہیں – دوسری طرف ٤٠ وقت کی نماز کب کب ہو گی کیسے معلوم ہو گا اور انسانی ذہن کی محدودیت دیکھیں دس کے بعد یاد ہی نہیں رہے گا کہ اب کون سی نماز پڑھ رہا ہوں
تراویح کی ہم آج ٢٠ رکعت ہی پڑھ کر بے ہوش ہو جاتے ہیں
لہذا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں اس کا انکار نہیں کرتا کہ موسی سے کلام ہوا ہو ممکن ہے ایسا ہوا ہو لیکن راوی یا صحابی کو یاد نہیں رہا اور انہوں نے تین چار چکر لگانے کا ذکر کیا- پھر یہ روایات انس بن مالک کی ہیں جو معراج کے وقت پیدا نہ ہوئے تھے مدینہ میں رسول الله کے خادم ہوئے اور امام ابو حنیفہ سے منسوب قول ہے کہ یہ آخری عمر میں مختلط تھے – یہ سب قابل غور ہے
Namazein 50 se kaamho k 5 hoi..
Or jo 4 chakr Aap s.a.w k hazrat mosa o sidratul muntaha k darmyan lage us mn shyad mn ne kisi hadith ya kisi ki tehrir mn prha tha.. K hazrat mosa k qol k mutabiq 3 namzein farz thi unki shariat mn jo unki ummat na prh saki.. To yeh ummat kese itni namzein prhy ge islie phle 40 pr 30 pr 10 or akhir mn namzein 5 kr di gai.
Yeh mera khyl ha i
Us k elawa 50namzein namaz ki ahmiat btane k lie ki gai. Or phir ,5 ka sawab 50 k braber kr diya gya galiban is mn Allah ki mashiyat lagti hai.. Q k i think yahood o nasara ne is mn hi krabi paida kr li thi tabi Quran mn hai. Phe kisi nabi ko hukm diya gya k ghar bnao or usko qibla karo…. Or phir kha gya k Allah ki masjido mn uska naam khalis kr k lo… So kha ja sakta k namz ki ehmiat btane k lie aisa hoa
Ap kya khty ho
میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے
نماز کی اہمیت کا درس اس کو دیا جائے جس کو اس کی اہمیت کا علم نہ ہو یہاں تو نبی صلی الله علیہ وسلم کی بات ہو رہی ہے جن کو اس کا علم تھا
——-
اپ نے کہا یہودیوں پر تین وقت نماز تھی تو اس کا بھی حتمی میں نہیں کہہ سکتا البتہ یہ کتاب دانیال میں لکھا ہے کہ وہ تین وقت کی نماز پڑھتا تھا – یہودی کہتے ہیں دانیال نبی نہیں صوفی تھا
کیا دریائے نیل اور فرات جنت کی نہریں ہیں ؟
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ، وَالْفُرَاتُ وَالنِّيلُ كُلٌّ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ»
ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
سَيْحَانُ اور جَيْحَانُ اور الْفُرَاتُ اور النِّيلُ یہ تمام جنت کی نہریں ہیں
سند صحیح ہے
حقیقت الله کو معلوم ہے
یہ روایت قتادہ بصری کی معراج سے متعلق حدیث میں صحیح بخاری میں ہے کہ نیل و فرات جنت کی نہریں ہیں صحیح بخاری میں سَيْحُون وَجَيْحُون کا ذکر نہیں ہے
صحیح بخاری کی امام زہری کی معراج سے متعلق کسی حدیث میں ان چار نہروں کا ذکر نہیں ہے
———-
عربوں میں جيحون بالواو نهر وراء خراسان عند بلخ
جيحون خراسان میں بلخ کے پاس کوئی نہر ہے
قال الاصطخري: نهر جيحون يخرج من حدود بذخشان
الاصطخري نے کہا جيحون کی نہر بدخشان سے نکلتی ہے
بدخشان آج کل افغانستان میں ہے
اور کہا جاتا ہے
سيحان وجيحان نهران بالعواصم عند المصيصة وطرسوس
سيحان اور جيحان دو نہریں ہیں جو المصيصة اور طرسوس کے پاس ہیں
المصيصة اور طرسوس آج کل ترکی میں ہیں
تعريف بالأماكن الواردة في البداية والنهاية لابن كثير – (ج 2 / ص 391) نهر سيحون ينبع من آسيا الوسطى من منطقة (كيركيسان
(kirghizistan الروسية، ويصب في بحر أرال. وكان يسمى باليونانية (جاكسارتس (jaxartes ، وفي العصر الموغولي أضحى اسمه (سيرداريا Syradaria).
سيحون کو کرگستسان میں بھی بتایا جاتا ہے
نیل مصر میں ہے اور فرات عراق میں ہے
عرب علماء کہتے ہیں جن میں نووی ہیں کہ جان لو سَيْحَان وَجَيْحَان وہ نہیں جو سَيْحُون وَجَيْحُون ہیں
لیکن نیل و فرات عربوں کے پاس ہیں اس پر نہیں کہتے کہ یہ جنت کی نہر نہیں ہیں
راقم سمجھ نہیں سکا کہ اس نکتہ سنجی کی وجہ کیا ہے کہ سَيْحُون وَجَيْحُون کو تو جنت کی نہر کہا جائے لیکن نیل و فرات کو وہی کہا جائے جو ہم کو معلوم ہے
مسند البزار میں سَيْحَان وَجَيْحَان کی بجائے سَيْحُون وَجَيْحُون کہا گیا ہے
حَدَّثنا يَحْيَى بْنُ مُحَمد بْنِ السَّكَنِ، قَال: حَدَّثنا يحيى بن كثير، قَال: حَدَّثنا شُعْبَةُ، عَن خبيب عن حفص بن عَاصِم، عَن أَبِي هُرَيرة، عَن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قال: سيحون وجيحون والنيل والفرات كل من أنهار الجنة وكل قد رأيت وشربت منه.
سند وہی صحیح مسلم جیسی ہے
یعنی راویوں نے کبھی سَيْحَان وَجَيْحَان کہا تو کبھی سَيْحُون وَجَيْحُون کہا ان کے نزدیک یہ دونوں ایک تھے لیکن بعد والوں نے ان کو الگ الگ اور غیر معروف قرار دینے کی کوشش کی
کتاب السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها از عثمان بن سعيد بن عثمان بن عمر أبو عمرو الداني (المتوفى: 444هـ) کے مطابق
حُدِّثْنَا عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَاشِمِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْمَادْرَائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَابِقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْجَنَّةِ إِلَى الْأَرْضِ خَمْسَةَ أَنْهَارٍ سَيْحُونَ وَهُوَ نَهْرُ الْهِنْدِ، وَجَيْحُونَ وَهُوَ نَهْرُ بَلْخٍ
سَيْحُونَ نہر ہند ہے اور جَيْحُونَ بلخ میں ہے
اغلبا نہر ہند سے مراد دریائے گنگا ہے
سند میں مقاتل ہے جس کو تہذیب التہذیب از ابن حجر کے مطابق امام احمد کوئی عیب نہ دیتے
وكان أحمد بن حنبل لا يعبأ بمقاتل بن سليمان، ولا بمقاتل بن حيان
لیکن دیگر رد کرتے تھے
ابو شہر یار بھائی پلیز مسند البزار والی حدیث جس کا آپ نے اوپر حوالہ دیا ہے جس میں واقعہ مہراج کا ذکر ہے پلیز اس کی پوری عربی اور اردو ترجمہ چاہیے
مکمل متن ہے ترجمہ کا وقت نہیں ہے
مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار
المؤلف: أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ)
حدیث ٦٩٦٤
حَدَّثنا محمد بن مَعْمَر، حَدَّثنا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ – مَاتَ قَرِيبًا سَنَةَ مِائَتَيْنِ، وهُو ثقة، حَدَّثنا حَمَّادٌ، عَنْ ثابتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ , وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ , فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ , يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ , قَالَ: فَرَكِبْتُهُ فَسَارَ بِي حَتَّى أَتَيْتُ بَابَ الْمَقْدِسِ , فَرَبَطْتُ الدَّابَّةَ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الأَنْبِيَاءُ , قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ خَرَجْتُ , فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ , وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ , فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ , فَقَالَ جِبْرِيلُ: أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ.
ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , فَقِيلَ: ومَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا جِبْرِيلُ , قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ , قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ , قَالَ: فَفُتِحَ لَنَا , فَإِذَا أنا آدم , فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , قِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا جِبْرِيلُ , قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ , قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْه , قَالَ: فَفُتِحَ لَنَا , فَإِذَا أَنَا بِابْنَيِ الْخَالَةِ عِيسَى وَيَحْيَى فَرَحَّبَا وَدَعُوا لِي بِخَيْرٍ , ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثة فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ , قَالَ: جِبْرِيلُ , قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ , قَالَ: مُحَمَّدٌ قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ، وَإِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ , فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا الرَّابِعَةَ , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , قِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ،
قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ , قَالَ: فَفُتِحَ لَنَا , فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ , فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ قَالَ: يَقُولُ الله تبارك وتعالى: {ورفعنه مكانا عليا} قَالَ: ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ , قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ , قَالَ: ففتح لنا , فإذا أَنَا بِهَارُونَ , فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , قِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إليه.
فَفُتِحَ لَنَا , فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم , فَرَحَّبَ وَدَعَا بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ , فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ , فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ، قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا , فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم، وَإِذَا هُوَ مُسْنِدٌ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ , فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ، يَعْنِي الْبَيْتَ الْمَعْمُورَ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، ثُمَّ لا يَعُودُونَ إِلَيْهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى , فَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلالِ , فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ , تَغَيَّرَتْ , فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعِتَهَا مِنْ حُسْنِهَا , فَأَوْحَى إليَّ مَا أَوْحَى , وَفَرَضَ عَلَيَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَمْسِينَ صَلاةً.
فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى , فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ , فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ , فَإِنَّ أُمَّتَك لَا تُطِيقُ ذَلِكَ , وَقَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ , قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَقُلْتُ: أَيْ رَبِّ خَفِّفْ عَنْ أُمَّتِي , فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى , فَقَالَ: مَا فَعَلْتَ؟ قُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَقَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ , فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ , فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ ربي وموسى يحط خمسا , حتى قال: يامحمد , هِيَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ , بِكُلِّ صَلاةٍ عَشْرًا , فَتِلْكَ خَمْسُونَ صَلاةً , وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا , كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ , فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا , وَمَنْ هَمَّ بسيئة فلم يعملها , لم تكتب شئ , فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً , قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ , فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حتى استحييت.
اوپر جن احادیث کی بات کی گئی ہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی کیا وہ یہ ہیں
http://mohaddis.com/View/Muslim/411
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/3887
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/7517
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/3342
اوپر باکس میں آپ نے جو تفصیل دی ہے اگر اس میں احادیث کے نمبر بھی ہوں تو آگے پیش کرنے والوں کو سہولت ہو گی – کچھ بھایئوں کو احادیث کے ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی ہے
جی یہی روایات ہیں
صحیح مسلم شاملہ میں ٢٥٩ ہے اور محدث فورم اس کو ٤١١ نمبر دیتا ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/7517
اس کے آخر میں عربی کا یہ ترجمہ کیا گیا
قَالَ مُوسَى قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مُوسَى قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ
موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کہا: اے موسیٰ، واللہ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آ گئے۔
قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ
ان الفاظ کی وضاحت چاہیے – کچھ بھائی یہاں خواب کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ خواب میں تھی
یہ روایت بے کار ہے – اس کی سند تو دیکھیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ
اس کا ذکر بلاگ میں میں نے کیا ہے کہ یہ راوی شریک بن عبد الله کے اختلاط کی روایت ہے
اس کے متن میں اور غلطیاں بھی ہیں
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بعثت سے قبل کی روایت ہے- بعثت سے قبل کا خواب الوحی نہیں
الله آپ کو جزایۓ خیر دے
آپ نے اوپر لکھا ہے کہ
———–
روایات کا اضطراب آپ کے سامنے ہے ایک میں ہے باقاعدہ نماز کے وقت جماعت ہوئی جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ کو جگایا گیا دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں یعنی یہ سب مضطرب روایات ہیں
———–
یہاں آپ نے کون کون سی احادیث مراد لی ہیں
١.
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ کو جگایا گیا
٢.
دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں
٣.
تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں
احادیث کے نمبر بتا دیں
١.
صحیح بخاری ٣٥٧٠ کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ کو جگایا گیا
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمَةٌ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، وَكَذَلِكَ الأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلاَ تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَتَوَلَّاهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ
٢.
دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں
مسند احمد 12505 ہے
شعیب نے کہا
إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير حماد بن سلمة، فمن رجال مسلم.
٣.
تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں
مسند احمد ٢٣٢٤ میں ہے
شعیب کہتے ہیں اسناد ضعیف ہیں لیکن ابن کثیر نے تفسیر میں صحیح کہہ دیا ہے
إسناده ضعيف، قابوس مختلف فيه، وقد تقدمت ترجمته قريباً، وباقي رجاله ثقات رجال الشيخين، وصحح ابن كثير إسناده في “التفسير
آپ نے اوپر جہاں تھریڈ میں اس بارے میں لکھا ہے کہ
معراج پر کیا نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا؟
وہاں ان دو احادیث کو شامل کیا جا سکتا ہے – جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود کہہ رہے ہیں
جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی مرنے تک اپنے رب وعزوجل کو ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔
http://mohaddis.com/View/Muslim/7356
—————-
حالانکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے ۔
http://mohaddis.com/View/ibn-majah/4077
ساتھ ہی ایک عالم محدث فورم پر ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں
جناب رسول اللہ ﷺ کا اللہ تعالی کو خواب میں دیکھنا تو صحیح احادیث میں ثابت ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%A8-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1.34236/#post-269233
دوسری طرف وہی عالم ایک تھریڈ
کیا محمّد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا ؟
http://forum.mohaddis.com/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%91%D8%AF-%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D8%B5%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B3%D9%84%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D8%A7-%D8%AA%DA%BE%D8%A7-%D8%9F.35304/page-2#post-295427
http://mohaddis.com/View/Muslim/7356
http://mohaddis.com/View/ibn-majah/4077
یہ سمجھ نہیں آیا کہ ایک طرف وہ احادیث رہے ہیں کہ الله کو موت سے پہلے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور دوسری طرف خواب میں دیکھ سکتا ہے – خواب تو زندہ بندہ ہی دیکھتا ہے – پھر موت سے پہلے دیکھنا کیسے ہوا
ان لوگوں کا مقصد ہے کہ سر میں لگی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا لیکن خواب میں دیکھ سکتا ہے
یہ احادیث مخالفین جانتے ہیں لہذا وہ اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت قرار دیتے ہیں
Khty hai aj b Allah ko kuwab mn deedar kiya ja sakta hai…
Kia ibne abbas ki riwayts theak hai . K dil ki ankh se dekha or kuch hadith mn hai sar ki annkh se dekha .
Hazrat aisha b sar ki ankh se dekhne ka inkar krti hai.. To kya to jo hazrat aisha ki hadith hai k jis kha Nabi ne Allah ko dekha wo jotha hai . Is mn dekhne se mutalaqan inkar hai ya sar ki ankh se dekne ka inkar hai
⇓ کیا نبی (ص) نے الله کو دیکھا؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/
=======
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جسم کی آنکھ سے نہیں دیکھا – عائشہ رضی الله عنہا مطلقا انکار کرتیں کہ دیکھا اندازہ ہے کہ ان کے نزدیک قلب کی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا
ان باتوں کا حوالہ چاہیے
١.
امام احمد بن حنبلؒ کا اللہ کی خواب میں زیارت کا واقعہ امام ابن جوزیؒ کی کتاب ” مناقب امام احمد بن حنبل” میں اور امام ذہبیؒ کی کتاب ”سیر اعلام النبلاء” میں ذکر کیا گیا ہے۔
٢.
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نقل کرتے ہیں کہ ”جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطابق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک هے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خوبصورت اور بہترین صورت میں دیکها”
(مجموع الفتاوی ، جلد ٥ ، صفحہ ٢٥١)
٣.
شیخ ابن بازؒ اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ ”دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن خواب میں اس کی زیارت ہوسکتی ہے اور دلوں کے حالات کے مطابق قلبی مکاشفات اور مشاہدات ہوسکتے ہیں۔”
(فتاوی ابن باز،جلد دوم صفحہ 127)
اور یہی فتوی سعودیہ کی فتاوی لجنہ الدائمہ کی کمیٹی کا بھی ہے
(فتاوی،جلد2 صفحہ 235)
کتاب مناقب امام احمد ص ٢٣١ جو ابن جوزی سے منسوب ہے اس میں ہے
وأن النبي صلى الله عليه وسلم قد رأى ربه، فإنه مأثور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم صحيح، رواه قتادة عن عِكْرِمة عن ابن عباس. ورواه الحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس. ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مِهران عن ابن عباس والحديث عندنا على ظاهره كما جاءَ عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة؛ ولكن نُؤمن به على ظاهره ولا نُناظر فيه أحداً.
اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس یہ ماثور صحیح میں ہے اس کو قتادہ نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے …. اور اس میں کلام بدعت ہے لیکن ہم اس کے ظاہر پر ایمان لائیں گے اور کسی اور کو نہیں دیکھیں گے
راقم کہتا ہے یہ وہی گھنگھریالے بالوں والا رب والی روایت ہے جس جو صحیح کہا جا رہا ہے – دوسری طرف کتاب کتاب دفع شبه التشبيه جو ابن جوزی کی ہے
اس میں انہی روایات کو رد کیا گیا ہے
https://www.islamic-belief.net/4969-2/
لہذا یہ مناقب امام احمد مشکوک کتاب ہے اس کی نسبت ابن جوزی سے نہیں کی جا سکتی کسی نے منسوب کی ہے
———-
ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى میں کہا
وَمَنْ رَأَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْمَنَامِ فَإِنَّهُ يَرَاهُ فِي صُورَةٍ مِنْ الصُّوَرِ بِحَسَبِ حَالِ الرَّائِي إنْ كَانَ صَالِحًا رَآهُ فِي صُورَةٍ حَسَنَةٍ؛ وَلِهَذَا رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ
Sultan bahoo ki book noor ul huda page 204 pr hai k nabi s.a.w ne farmaya k jab tum apny mamat mn preshan ho to jao qabr walo se madad mango
Iski haqiqat bta dein
ایسی کوئی حدیث نہیں
*🌷بسمہ تعالیٰ🌷*
”ایامِ فاطمیہ“
🌹 *رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ(ص)فرماتے ہیں:*🌹
❣جس رات مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو
میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا:
*اللہ(ج)* کے سوا کوئی *معبود* نہیں *محمدؐ اللہ* کے *رسول(ص)* ہیں، *علی(ع)* محبوب *خدا* ہیں اور *حسن(ع) و حسین(ع) خدا* کے بر گزیدہ ہیں اور *فاطمہ(س) خدا* کی منتخب شدہ ہیں۔
جو بھی *ان* سے بغض رکھے گا *اللہ(ج)* کی اس پر *لعنت* ہے۔۔۔!!!❣
📚شواہد التنزیل ج1 ص 295
📚الطرائف ص379
*💐صبح بخیر💐*
*اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحمَّــدٍؐ ﻭَّآلِؑ مُحمَّــدٍؐ ﻭَّﻋَﺠِّﻞْ ﻓَﺮَﺟَﻬُﻢ*
الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف – السيد ابن طاووس الحسني
شیعہ کتاب ہے
وروى الحافظ أبو بكر بن ثابت الخطيب ، قال : أخبرنا أبو الفتح هلال بن محمد بن جعفر الحفار ، قال حدثني أبو الحسن علي بن أحمد بن ميمونة الحلواني المؤدب ، قال حدثني محمد بن اسحاق المقرى ، حدثنا علي بن حماد الخشاب ، حدثنا علي بن المديني ، حدثنا وكيع بن الخراج ، حدثنا سليمان بن مهربان ، حدثنا جابر ، عن مجاهد ، عن ابن عباس قال : قال رسول الله ( ص ) ليلة عرج بي الى السماء رأيت على باب الجنة مكتوبا : لا اله إلا الله ، محمد رسول الله ، علي حبيب الله ، الحسن والحسين صفوة الله ، فاطمة أمة الله ، على باغضيهم لعنة الله
علي بن حماد الخشاب مجہول ہے
واقعہ معراج اور نماز کا فرض ہونا !!
ایک کہانی آپ لوگوں نے بچپن سے سنی ہوگی کہ نبی اکرم ؐ کو واقعہ معراج میں پہلے 50 نمازوں کا حکم ملا پھر مختلف انبیاُ کے مشورے سے نبی اکرمؐ اللہ کے پاس جاتے رہے اور بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ نمازیں رہ گئیں یہ پوری کہانی جھوٹی ہے واقعہ معراج میں نبی اکرمؐ پہ پہلے سے موجود پانچ نمازوں کے علاوہ صرف اور صرف تہجد کی نماز فرض ہوئ تھی جی ہاں باقی امت پہ نہی صرف نبی اکرمؐ پہ
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا
اور رات کے کچھ حصے میں نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لئے زیادہ کی گئ ہے یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پہ فائز کرے گا 17:79
آئیں دیکھتے ہیں نماز کی ابتداُ کہاں سے ہوتی ہے سورہ ابراھیم کی آیت نمبر 40 میں حضرت ابراھیم ؑ نے دعا مانگی
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
اے پروردگار مجھ کو توفیق عنایت کر کہ نماز پڑھتا رہوں اور میری اولاد کو بھی اے پروردگار میری دعا قبول فرما اسی سورہ میں آگے بتایا گیا کہ حضرت ابراھیم ؑ کی تمام دعائیں پوری ہوئیں کل 52 آیات پہ مشتمل سورہ ابراھیم کو سمجھ کر ہڑھ لیں بہت ساری حقیقتیں آشکار ہوجائیں گی
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو تین بڑے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے عظیم پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان حضرت ابراہیم کو اپنے اپنے مذاہب کا بانی مانتے ہیں، جبکہ قرآن کریم میں حضرت ابراھیم ؑ کو اللہ نے مُسلمان کہہ کر پُکارا اور ہم اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتےہیں
Iska kya jawab hoga
پانچ نماز معراج پر فرض ہوئیں یہ معراج سے متعلق صحیحین کی احادیث میں ہے – اس کا انکار کرنے کی صورت میں معراج سے متعلق کوئی صحیح روایت نہیں رہے گی لہذا اس میں توقف کیا جائے
——-
انبیاء تو نماز پڑھتے تھے اس کا فرضیت نماز سے تعلق ہے ؟ اس امت پر فرض تو پانچ نماز ہوئی ہیں
in sahib ne kha k farz 5 hi hoi thi 50 nahi toh qol ko kesy raad kiya jae khty yeh quran mn nahi hai
قرآن میں پچاس کا ذکر کیوں ہو گا – پچاس تو چند لمحوں میں فرض ہوئی اور ختم ہوئی وہ بھی عالم بالا میں – زمین تک تو پچاس کا حکم آیا ہی نہیں تو قرآن میں ذکر کیوں اتا
معراج کی کوئی ایک حدیث بتا دیں جو صحیح ہو اور اس میں نماز کی فرضیت کا ذکر ہو
نماز طواف اور حج تو حضرت ابراہیم علیہ سلام کے زمانے سے آ رہے ہیں جب الله نے ان سے عہد لیا اور انہوں نے دعا کی اور اپنے عہد کو سچ کر دکھایا
باقی سورہ ابراھیم میں کافی تفصیل ہے – یقنیناً آپ کا علم مجھ سے زیادہ ہے
معراج سے متعلق روایات میں اضطراب ہے کہ ایک صحابی کہتا ہے الله کو دیکھا دوسرا کہتا ہے نہیں دیکھا
ایک کہتا ہے کہ انبیاء کو نماز پڑھائی دوسرا کہتا ہے نہیں پڑھائی
پھر شریک بن عبد الله کی روایات کہ رب تعالی اتنا قریب آیا جتنا کہ قاب قوسین
پھر بیان ہوا کہ اصحاب رسول مرتد ہوئے اور صحیح سند سے یہ نہیں آیا
یہ ان کا اضطراب ہے – لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معراج پر سرے سے کوئی حدیث میرے
نزدیک صحیح نہیں ہے امام الزہری کی سند سے صحیحین میں معراج پر جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں
——
انبیاء نے نماز پڑھی ہے مثلا موسی علیہ السلام نے توریت نازل ہونے سے پہلے نماز مصر میں پڑھی سورہ یونس میں ہے
وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِکُمَا بِمِصۡرَ بُیُوۡتًا وَّ اجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ قِبۡلَۃً وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۷﴾
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے مصر میں گھر برقرار رکھو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو قبلہ بنا لو اور نماز کے پابند رہو اور آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں ۔
لیکن فرضیت ایک الگ بات ہے نفلی پڑھنا الگ بات ہے
انبیاء میں رسول الله نے کب نماز پڑھی یہ سوال ہے ؟ اس کا جواب ہے کہ معراج سے پہلے سے پڑھی ہے مگر نفلی پڑھی ہے
Kya humara namaz ka tareka or Hazrat misa a.s ki ummat ka namaz ka tareka same hai ..agr hai to toh jo Namazka tareka hazrat jibrail ne btaya tha to phr kya 2no namazon mn tafreeq na hogai
ایک نہیں ہے
سجدہ ہے قیام ہے رکوع ہے لیکن ترتیب الگ ہے
https://www.youtube.com/watch?v=FrWyhVwpURQ
Meraj mn jo namamz prhi gai kya wo aisi thi… Hesi video ka link mn hai. Jab k.Nabi s.a.w ne toh kisi se b ilm nsi liya thax …
Or phir bad mn jibrail a.s ne sikhai thi jesy k hadith e jibrail mn hai .
معراج میں کوئی نماز نہیں پڑھی گئی
———
⇓ کیا معراج کی رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انبیاء کو نماز پڑھائی
https://www.islamic-belief.net/q-a/مساجد/
Logon ne ibdat mn gaflat ki islie Allah ne apne pas bula kr namaz ka tohfa dia .. Kya aisa kehna theak hai
یہ قول اصحاب رسول کی تکفیر ہے
kesy ….. Explain kren
Mushriken ne ibdat ka tareeka badla islie namaz ka tohfa uper bhula kr diya gya .. Yeh takfeer kesy hai
Or m namaz meraj pr deny mn kya hikmat hai
Namaz ibdat ka tareek hai usko khalis krna maqsod tha islie apny pas bula kr hukm diya gya
Yeh qol sahih hai kya
رسول الله کی عبادت سب سے خالص تھی چاہے معراج سے پہلے کی ہو یا بعد میں
معراج سے پہلے سے عبادت کی جا رہی تھی کیا وہ خالص نہیں تھی – ایسا کہنا تو شرک کی تہمت لگانا ہوا
Logon ne ibdat mn gaflat ki islie Allah ne apne pas bula kr namaz ka tohfa dia
لوگوں سے کون مراد ہے اصحاب رسول یا مشرک؟ میں سمجھا اپ اصحاب رسول کا ذکر کر رہی ہیں
Agr yeh dono qol mushrikeen ko zehan mn rakh kr diye ge ho to kya theak hon gy
مشرک کی نماز تو سیٹی اور تالی بجانا تھی وہ تو ایک تماشہ ہوتا تھا خالص غیر خالص اس میں کیا تھا
Q k mushrikeen isra surat mn kha tha k asman pe char dikao ya wahn se kitab lao….
سمجھ نہیں سکا کیا اپ کہنا چاہ رہی ہیں
MN NE iK post lagai this jothi… Namaz wo wahid hukm hai jo Allah NE Wahi k zarye nahi Utara bal k mehbob love pass bula kr diya
Iski caption MN mean NE likha tha
Asia is lie hoa q k namaz ibadat kA tareek hai or us ko Khais kerna maqsood tha
Kya yeah caption right hai
اپ نے کہا نماز وہ واحد حکم ہے جو الوحی سے نہیں آیا
میں مسلسل کہہ رہا ہوں کہ نماز کا حکم الوحی سے آیا اور معراج سے پہلے سے نماز پڑھی جا رہی ہے
معراج پر پانچ وقت بس فرضیت ہوئی ہے پہلے نفلی تھی
Yani ummat e mosa pr b nafil namaz thi or jo hazrat ibrahim a.s ki dua mn zikr hai jo tasshud mn prhty hai us mn woh khty nanaz ka pabnd kr wo b kya nafli nama thi
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
Nafil or farz mn kya fark hai Farziyat ka hukm bula kr q dia gya….
Yani jo Aap s.a.w pr jo tahajud ki farziat ki ayat quran mn hai wo phle utri phir meraj hoi or namaz farz kr di gai
In sahib ka views pr jawab chahiye
https://youtu.be/-xgaSiPF5YA
موسی علیہ السلام پر مصر میں چند لوگ تھے جو ایمان لائے تمام بنی اسرائیلی ایمان نہ لائے تھے گھروں میں چھپ کر نماز پڑھتے تھے لیکن خروج مصر کے وقت تمام بنی اسرائیلی ساتھ تھے کیونکہ یہ غلامی سے آزادی تھی – اس کو امت موسی کہا جاتا ہے لیکن ان میں سامری جیسا شر پسند بھی تھا گائے کی پوجا پسند کرنے والے بھی تھے بد تمیز لوگ ناشکرے بھی تھے بد معاش قائل بھی تھے یہ سب من و سلوی کھاتے تھے – یہ سب جم غفیر امت موسی تھا جس نے بحر احمر پار کیا – نماز کی فرضیت کا حکم کتاب توریت میں آیا
ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو چند لوگ تھے جو کنعان میں ان کے ساتھ رہتے تھے البتہ اسلام میں اس کی کوئی خبر نہیں یہ بائبل میں ہے – ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے الفاظ سے یہ معلوم نہیں کہ نماز فرض تھی یا نفلی تھی
نفل تو اپ جب چاہیں پڑھ لیں لیکن رسول الله کا معمول تھا کہ مکہ میں رات میں پڑھتے تھے
سوره بني إسرائيل جو واقعه معراج کے بعد نازل ہوئی اس میں تہجد کی نماز کو نفل کہا گیا ہے
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ
اور رات میں تہجد پڑھو تمھارے لئے زائد ہے
اس پر فقہاء کی رائے میں یہ چھٹی نماز رسول الله پر واجب تھی لیکن ان کی امت کے لئے نفلی ہے
بعض نے اس کو فرض کہا ہے
التفسير الوسيط للقرآن الكريم
المؤلف: مجموعة من العلماء بإشراف مجمع البحوث الإسلامية بالأزهر
وبقيت فريضة قيام الليل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بدليل قوله تعالى: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا) وهذا رأَي كثير من المفسرين والفقهاءِ.
أبو محمد مكي بن أبي طالب الأندلسي القرطبي المالكي (المتوفى: 437هـ) کا قول ہے کہ
نَافِلَةً لَّكَ} أي: خاصة لك دون أمتك
یہ نماز رسول الله کے لئے خاص ہے ان کی امت سے الگ
———
غلام احمد پرویز ہیں جن کا ویڈیو لنک اپ نے دیا ہے انہوں نے کہا وقت ١١:٣٠ منٹ پر کہ
/////
مودودی کا کہنا ہے کہ یہودی معبد سن ٧٠ ع میں تباہ کر دیا گیا تھا – سن ٧٠ میں رومن نے آ کر … معبد کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا یہود کو نکال دیا گیا .. پھر عیسیٰیؤن کا مرکز بن گیا اور وہاں سے یہود کا نام و نشان مٹا دیا – اس معبد کو ختم کر دیا گیا تھا اور … عمر کے دور میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو کوئی معبد نہیں تھا – یہ مودودی کے الفاظ ہیں ابھی کہتے ہیں حضور نے اس میں نماز پڑھی جبکہ وہ مسمار ہو چکا تھا … کوئی مسجد معبد کوئی ہیکل نہیں تھا … اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی پھر اسی سال میں کہا کوئی مسجد نہیں تھی پھر کہا اس کی طرف نماز پڑھتے تھے
معراج پر حضور مسجد سلیمانی میں داخل ہوئے تو پھر خود ہی کہا وہاں کو معبد نہیں تھا پھر کہا مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے
////
یہ تاریخی حقائق اور روایات کا ملغوبہ ہے جو مودودی نے پیش کیے ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے اپ نے کیا یہ پڑھ لیا ہے
https://www.islamic-belief.net/حشر-دوم-سے-عبد-الملک-تک/
Pervezi fitna pr ap kya kahe ge. Uski meraj pr ara k bary mn kya khyl hai….
Ap ne kha k torat mn namaz ki farziat ka hukm hai so jo namaz meraj se phle parri wo b farziat k hukm mn thi. Q k ashab b to ahlul kitab mn se the…. Jab namaz phle hi farz thi to phir meraj pr bula kr dobra q farz ki gai
Ya jo tahajud ki nama thi jo farz hoi Nabi pr wohi prha krty thy sirf
Is hadith ka kya mutlb hoga. K hazrt aisha r.a khte hai k phle safr o hazr mn 2 rakats thi phir safr mn 2 or hazr mn 4 hogy…
اپ وہی مرغی کی ایک ٹانگ پر آ جاتی ہیں
واقعہ معراج میں رسول الله کا نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی روحین آسمان دنیا سے اس زمین پر وفات کے بعد کبھی بھی نہیں آئیں
توریت کا حکم اہل توریت پر لگے گا – صالح یا ہود یا غیر اھل کتاب انبیاء پر کیوں لگے گا جبکہ لوگوں کا کہنا ہے سب کو نماز پڑھائی – پھر اس مسجد الاقصی میں نہ تو کبھی ابراھیم علیہ السلام نے نماز پڑھی نہ موسی کبھی ارض مقدس داخل ہو سکے – پھر جن انبیاء نے اس مسجد کو تعمیر کیا داود و سلیمان علیھما السلام ان کا کوئی تذکرہ ہی نہیں کہ وہ وہاں تھے بھی یا نہیں
مزید براں صرف موسی علیہ السلام کا مقابلہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے کیا گیا ہے کہ رسول الله کو تو براق پر جانا پڑا لیکن موسی کسی بھی براق کے بغیر عالم بالا ہو قبر و مسجد ہو کہیں بھی آ جاتے ہیں بلکہ اگر یہ مان لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ موسی کو کئی معراج ہوئیں وہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے
نماز کیا مرنے والوں پر فرض ہے – یہ بنیادی بات کے مکلف مخلوق پر مرنے کے بعد کچھ بھی فرض نہیں ہے
اس کا نامہ عمل بند ہو چکا ہے چاہے نبی ہو یا غیر نبی ہو
مکہ میں سابقوں اولون میں اصحاب رسول میں سے کون کون اہل کتاب میں سے ہے ؟ لسٹ پیش کریں
تہجد کی نماز رسول الله پر سورہ بنی اسرائیل میں واجب کی گئی ہے اور یہ معراج کے بعد نازل ہوئی ہے
——-
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں آیا ہے کہ :
فرضت الصلوٰة ركعتين ثم هاجر النبى صلى الله عليه وسلم ففرضت أربعأ و تركت صلوٰة السفر على الأوليٰ
نماز دو (دو) رکعتیں فرض ہوئی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار (چار) رکعتیں فرض کر دی گئیں اور سفر کی نماز کو اس کے پہلے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ [صحيح بخاري : 3935
اس کا بحث سے کیا تعلق ہے
——
پرویز کا طریقہ لغت دیکھنے کا تھا پھر وہ اپنا ہی کوئی مفہوم بیان کرتے تھے جو آج تک کسی انسان کے ذہن میں نہ آیا ہو گا – پرویز کی کتب کو پڑھنا وقت کا ضیاع ہے
طارق جمیل کا کہنا ہے کہ عرش پر حضور کے پیر پڑے
https://www.youtube.com/watch?v=z0g5sme2Y5M
٢:١٥ منٹ پر
دیوبندی اور بریلوی یہ جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے
http://salafiexpose.blogspot.com/2015/06/sifat-e-bari-tahallah-kay-mutaliq-salaf.html
پھر جب معراج کا ذکر کرتے ہیں تو تمام قیود کو لانگ جاتے ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عرش تک لے جاتے ہیں کہ گویا الله تعالی اس رات وہاں خصوصی طور پر تھے
—-
اس شخص نے کہا : تمام پردے ہٹ گئے اور براہ راست الله کو دیکھا … اور اللہ نے اپنا اپ دکھا دیا
راقم وہی کہتا ہے جو عائشہ رضی الله عنہا کا کہنا تھا کہ یہ قول باطل ہے
وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ کا کیا مطلب ہے
کیا اس سے مراد ذبح کرتے وقت غیر الله کا نام لینا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=7j-81fgiMWs
6:40 منٹ پر
——
ام سعد کی ماں کا کنواں سے کیا مراد یہ لی جائے گی کہ یہ اھل لغیر الله به کے زمرے میں اتا ہے
اھل کا تعلق پکار لگانے سے ہے کہ اس رزق پر غیر الله کا نام لے لیا جائے
الإهلال هو رفع الصوت
الإهلال کا مطلب آواز بلند کرنا ہے
اس کا صرف ذبح کرنے سے تعلق نہیں ہے – بریلوی علماء کا آج کا قول ہے کہ یہ ان کے نزدیک ایصال ثواب ہے – راقم کہتا ہے کہ کیا عبد القادر جیلانی کو ایصال ثواب کی ضرورت ہے کیا یہ ان کے نزدیک ولی الله نہیں ہے؟
—–
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے ایمان والوں اس کو دوست مت کرو جب پر الله کا غضب ہوا اور وہ آخرت سے مایوس ہیں جس طرح کفار اصحاب قبور سے مایوس ہیں
بریلوی عالم کا کہنا ہے اصحاب قبور سے مسلمان مایوس نہ ہوں – جبکہ یہ صریح دھوکہ ہے – کفار مکہ کے نزدیک قبر میں زندگی ہی نہیں تھی وہ تو جسم و روح کے معدوم ہونے اور آخرت کے انکاری تھے لہذا صحیح مفہوم ہے کہ کفار اصحاب قبور کے واپس دنیا میں انے سے مایوس ہیں یا ان کے نزدیک قیامت و حشر نہیں ہے – کیا الله کا حکم ہے قبروں پر معتکف ہو جاو تو اس پر رسول الله کا عمل کیوں نہیں ملتا ہے کہ عرب میں آدم و ہود و اسمعیل و صالح علیہما السلام کی قبروں کو تلاش کیا جاتا اس پر مزار تعمیر کرنے کا حکم ہوتا اور ایصال ثواب کرنے کا
Ibne abbas se mansib qol rabko dil se dekha .se kya murad hai. Qol sahih hai kya
جب کہا جاتا ہے دل میں پڑھو تو مطلب ہوتا ہے دماغ میں سوچیں اسی طرح قلبی آنکھ یعنی دماغ سے سوچا – میرے نزدیک الله لیس کمثلہ شی ہے اس کے مثل کچھ نہیں تو الله کو اگر دیکھا بھی تو اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ زبانوں میں اس پر الفاظ ہی نہیں ہیں-
زبان صرف انہی اشیاء کا احاطہ کرتے ہیں جو اس دور کے ماحول میں موجود ہوں مثلا حدیث میں ہے کہ سدرہ المنتہی پر رنگ چھا رہے تھے رسول الله نے فرمایا میں اس کو بیان نہیں کر سکتا
Kya yeh murad lena theak hau k deedar Allah ki nisanio ka hoa dil se
یہ متن کی تحریف کے مترادف ہے
Meraj dunavi jism k 7 thi k barzagi jism k 7
رسول الله کا جسد عنصری تھا – اگر اپ مانتی ہیں کہ انبیاء کو نماز پڑھائی تو اس پر قول ہے کہ برزخی جسم تھے دوسرا قول ہے روحیں تھیں – میں کہتا ہوں اگر یہ مان لیں تو وہاں بیت المقدس میں عیسیٰ بھی تھے تو ان کا بھی جسد عنصری تھا کیونکہ ان پر ابھی موت واقع نہیں ہوئی – یعنی دو انبیا کو جسد عنصری کے ساتھ اس رات معراج ہوئی ایک نبی علیہ السلام اور دوسرے عیسیٰ علیہ السلام لہذا میرے نزدیک انبیاء زمین پر نہیں آئے نہ نماز ہوئی
Tu asmano mn kis jism se mile ansari ya barzagii
انبیاء کے برزخی اجسام تھے – باقی فرقے کہتے ہیں ارواح تھیں
Kya Nabi ko gafil kehna is sense mn k ab ko humary mutalik kuch nahi jante to yeh kehna theak ho ga kya… Jesy k quran mn hai k esa a.s se jab qoam k bary mn pocha jae ga k Allah mere uthaye jane k bad tu un pr gawah tha… Kya is ayat pr yeh kehna theak hai k or gafil the qoqm k haal se…. Agr sahi nai to phir kyaword kehna sahih hoga
غافل کا لفظ صحیح نہیں -انبیاء اپنی امتوں کی موجود حالت سے لا علم ہیں
عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے
قالوا سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا
تو عیب سے پاک ہے ہم (انبیاء) کو علم نہیں الا وہ جو اپ نے دیا
La ilm keh sakty hai
لا علم اگر بغیر تخصیص کے بولا جائے تو صحیح نہیں لگے گا لہذا جب بھی بولا جائے تو علم غیب کا ذکر کیا جائے
Sir muslim mn anas r.a ki meraj ki phlu riwayt jo k us baap mn phli hadith hai uska tarjuma kr dein … 7th sky se le kr end takq k wahid uzzamn k tarjume mn hai sidratul.munha pr Aap s.a.w jibrail a.s k 7 the jab k mehr ali shah shib ne tafseer mn yeh hadith likhi ir tarjuma kia k wahn aap s.a w akele the islie unko deedar hia Allah ka.. Kindly yeh tafseer prh kr jawab dein
صحیح مسلم
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان
حديث:411
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَّائَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ
إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَإِذَا وَرَقُهَا کَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا ثَمَرُهَا کَالْقِلَالِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَی فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلَی أُمَّتِکَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَی أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَبَيْنَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّی قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِکَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُکْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّي حَتَّی اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
ترجمہ : شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کو پسند کیا، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیی بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، حضرت ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا حضرت جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر حضرت جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض
فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس حضرت موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں پھر واپس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔
===========
mehr ali shah shib ne tafseer mn yeh hadith likhi ir tarjuma kia k wahn aap s.a w akele the islie unko deedar hia Allah ka.. Kindly yeh tafseer prh kr jawab dein
مہر علی شاہ کا کلام باطل ہے اس پر کوئی دلیل نہیں – جب دیکھا جاتا ہے تو مکالمہ ہوتا ہے
الوحی نہیں ہوتی- الله تعالی نے انبیاء میں موسی علیہ السلام کو شرف کلام بخشا ہے ہمارے نبی علیہ السلام کو نہیں – لیکن مسلمان اس حقیقت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں – حدیث معراج میں الوحی کا ذکر ہے جس سے نماز فرض ہوئی
Ik tpjeh yeh di gai k agr Allah ka deedar ankh se mumkin na hota toh hazrat mosa a.s kbhi kuwaish na krtty???
Or ibne hazm jo ik qol btaty hai ibne abbas k a k ik humwar muqam pr le jaya gya whn qala m ki awaz suni yeh qol wo Nabi s.a.w se bayn krty hai toh wo muqam konsa ha
Ap nekha tha anbiya barzagii ijsam se mile or un ijsam ki kafiat dunia se ilag hoti hai to Aap s.aw toh sahaba se kuch anbiya ki tashbih de rahe hai
Yeh jo hadith likhi ap ne is mn hai asman mn jaane se phle 2 rakat prhi
Jab k imamat ka zikr us hadoth mn hai jab hateem mn masjid Aap s.a.w k samne lai gai to waqia to diffrent hoa na
Surah najm ki ayat 13 ka sahi tarjuma kr dein or ayat 2 bar aai hai ik bar yhn or dosri bar surah takwir mn jo ayats hazrat aysha r.a se mankol hai wo takwir ki hai jab k takwir m. Ifak ul mubeen
Hai or or najm mn ifak aalah mehr sahib ne b kha k yeh Allah ki deed hi
Hai wazeh kr dein
Ik tpjeh yeh di gai k agr Allah ka deedar ankh se mumkin na hota toh hazrat mosa a.s kbhi kuwaish na krtty???
جواب
موسی اس سے لا علم تھے کہ آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ان کا اصرار تھا لیکن الله نے ان کی آنکھ بدلی نہیں اسی حال میں تجلی کی اور معلوم ہوا زمین اپنے رب کو اٹھا نہیں سکے گی اور اس کو اس بشری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا
اور کیا مقصد ہے ان آیات کا ؟
===========
Or ibne hazm jo ik qol btaty hai ibne abbas k a k ik humwar muqam pr le jaya gya whn qalam ki awaz suni yeh qol wo Nabi s.a.w se bayn krty hai toh wo muqam konsa ha
جواب جنت میں ہی کسی مقام پر ایسا سنا لیکن وہ کہاں تھا بیان نہیں ہوا
==========
Ap nekha tha anbiya barzagii ijsam se mile or un ijsam ki kafiat dunia se ilag hoti hai to Aap s.aw toh sahaba se kuch anbiya ki tashbih de rahe hai
جواب
جنت میں انبیاء رسول الله سے برزخی جسم میں ملے اور عیسیٰ اصلی جسم میں – اس کا شباہت سے کیا تعلق ہے ؟
کسی نبی کی شکل شنوہ قبیلے جیسی کسی کے بال گیلے معلوم ہوتے تھے اس میں اگر کسی کی شکل عرب صحابی جیسی ہو تو کیا اشکال ہے – بلکہ یہ تو دلیل ہے کہ برزخی جسم ایک جسم ہے اور انبیاء کی روحوں کی حالت میں نبی سے ملاقات نہیں ہوئی جسم کی حالت میں ہوئی جس کے نقوش انسانوں جیسے ہی تھے
==============
Yeh jo hadith likhi ap ne is mn hai asman mn jaane se phle 2 rakat prhi
Jab k imamat ka zikr us hadoth mn hai jab hateem mn masjid Aap s.a.w k samne lai gai to waqia to diffrent hoa na
جواب
صحیح مسلم کی حدیث صحیح نہیں ہے
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
– اس میں ہے
میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں
اس کی سند میں گڑبڑ ہے کہ حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے جو مختلط تھا
شيبان بن فروخ کا علم نہیں کہ کب حماد سے سنا
میرے نزدیک اس سے سماع اختلاط میں ہوا ہے کیونکہ اسی سند سے صحیح مسلم میں ہے کہ بچپن میں بھی رسول اللہ کا سینہ چاک کیا گیا تھا
امام بخاری نے حماد بن سلمہ کی روایت اپنی صحیح میں نہیں لکھی ہے – ابن حجر نے تقریب میں کھا ہے
تركه البخاري
امام بخاری نے اس کو ترک کیا
یعنی امام بخاری کے نزدیک اصول میں اس کی روایت نہیں لی جائے گی شاہد کے طور پر ذکر کر سکتے ہیں
– امام القطان نے اس کو کذاب کہا ہے اور احمد نے کہا
ضاع كتاب حماد بن سلمة، عن قيس بن سعد فكان يحدثهم من حفظه، فهذه قضيته
حماد بن سلمہ نے حدیث کی کتاب گھڑی جو قیس سے روایت کی اور اپنے حافظہ سے اس سے روایت کیا یہ جھگڑا ہوا
وقال أبو داود: قلت لأحمد: قيس بن سعد؟ قال: ثقة، ولكن زعموا أن كتاب حماد بن سلمة ضاع، فصار يروي عنه أحاديث
محدثین دعوی کیا کہ حماد نے گھڑا اور قیس بن سعد سے روایت کیا
ابو داود نے ذکر کیا
سمعت أحمد. قال: قال أبو داود: عن حماد بن سلمة. قال: قلت: هذا قام لثابت، فجعلت أقلب عليه الأحاديث، فأقول: أنس. فيقول: لا، إنما حدثنا به ابن ابي ليلى، لا إنما حدثنا به أنس، يعني لما يذكره أيضا له عن غير أنس ما هو لأنس.
احمد نے کہا حماد نے ثابت سے احادیث کو الٹ پلٹ کر دیا پس کہا یہ انس سے ہیں -ہم نے اس سے کہا نہیں اس کو تو ہم سے ابن ابی لیلی نے بیان کیا ہے … یعنی جب ایسا بیان کیا جاتا تو جو غیر انس کا تھا وہ بھی انس سے کر دیا
افسوس امام مسلم نے اس سب سے اتفاق نہیں کیا اور الذہبی نے لکھا ہے
ولم يخرج له مسلم في الأصول إلا عن ثابت البناني
مسلم نے اس سے اصول میں صرف اس کی ثابت البنانی والی روایت لی ہے
==============
Surah najm ki ayat 13 ka sahi tarjuma kr dein or ayat 2 bar aai hai ik bar yhn or dosri bar surah takwir mn jo ayats hazrat aysha r.a se mankol hai wo takwir ki hai jab k takwir m. Ifak ul mubeen
Hai or or najm mn ifak aalah mehr sahib ne b kha k yeh Allah ki deed hi Hai wazeh kr dein
جواب
سورہ نجم میں ہے
عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى (5)
بڑے طاقتور (جبرائیل) نے اسے سکھایا ہے۔
ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى (6)
جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا (اصلی صورت میں)۔
وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى (7)
اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا۔
ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى (8)
پھر نزدیک ہوا پھر اور بھی قریب ہوا۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (9)
پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى (10)
پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى (11)
جھوٹ نہیں کہا تھا جو دیکھا تھا۔
اَفَتُمَارُوْنَهٝ عَلٰى مَا يَرٰى (12)
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَـةً اُخْرٰى (13)
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى (14)
سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔
عِنْدَهَا جَنَّـةُ الْمَاْوٰى (15)
جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى (16)
جب کہ اس سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى (17)
نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی۔
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْـرٰى (18)
بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
غور کریں الله کو نہیں الله کی نشانی کو دیکھا قرآن میں صاف نہیں لکھا کہ الله کو دیکھا –
سورہ تکویر میں ہے
اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)
بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے۔
ذِىْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)
جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے۔
مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21)
وہاں کا سردار امانت دار ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22)
اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)
اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔
معلوم ہوا کہ جبریل کو دو بار دیکھا ایک افق مبین پر پھر دوسری بار سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى پر جس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا کہ اس نے اسی ذات کو دو بار دیکھا ہے
مہر شاہ کا علم عائشہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر نہیں – ام المومنین نے اس کا انکار کیا ہے کہ رسول الله نے الله کو دیکھا تو اپ کو مجھ کو اس پر اعتراض کیوں ہے
جو حقائق ہیں ان پر سر تسلیم خم کریں
اپ کی سادگی ہے کہ اپ اس عقیدے کی تہہ تک نہیں جا پا رہیں – سورہ نجم کی آیات سے جہمی فرقے جن میں بریلوی و دیوبندی ہیں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ الله تعالی اسی کائنات میں حلول کے ہوئے ہیں – وہ مجسم ہوا اور رسول الله کے اتنے پاس آیا کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا اور یہ اس زمین کے افق پر ہوا – یہ اس عقیدے کی اصل ہے – نبی نے دیکھا یا نہیں دیکھا یہ سیکنڈری بحث ہے – پھر ان کے مطابق الله عرش پر نہیں لیکن جنت میں وہ پھر مجسم ہوا اور رسول الله نے اپنے رب کو دوسری بار دیکھا – راقم کہتا ہے یہ تمام باطل ہے – رسول الله نے اپنے رب کو نہیں دیکھا جبریل کو دیکھا تھا
Kya Hazrat Ausha ko Nabi s.anw ne faqeh kha hai…
. Ibne abbas o ibbe masud ko Nabi a.a.w ne faqeh kha hai yeh riway sahi hai kia
Actuall mn mn quran k tarjume se hi jan gai thi k jibrail a.s ko dekha Allah ko nai dekha.. Yeh sawal islie kiye ta k koi ishkal jre to usko jawab dia ja sake…
Ab yeh mera sawal hai ap ne kga tha k barzagii ijsam ki jo siffat hadith mb hai k wo 60 hath lamby ya phely hogy to kya unki shebat humre jism ya face jesi hai jesa k hazrat ibrahim i mosa ki b kusi sihabi se shabeh bayn ki gai hai hala k unka barzagii jism tha siwaye esa a.s kap k mutabik
Kya Hazrat Ausha ko Nabi s.anw ne faqeh kha hai…
. Ibne abbas o ibbe masud ko Nabi a.a.w ne faqeh kha hai yeh riway sahi hai kia
Actuall mn mn quran k tarjume se hi jan gai thi k jibrail a.s ko dekha Allah ko nai dekha.. Yeh sawal islie kiye ta k koi ishkal jre to usko jawab dia ja sake…
جواب
ابن عباس کو فقیہہ نہیں کہا ان کے لئے دعا کی کہ ان کو علم ملےلیکن کیا یہ دعا قبول ہوئی کہ نہیں ہم لو اس کی خبر نہیں ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم کی کیا تمام دعا قبول هوئیں ؟ ایسا تو نہیں ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی کہ امت میں اپس میں
نہ لڑے
میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے یہ سوال کیا کہ میری اُمَّت کے لوگ ایک دوسرے سے جنگ نہ کریں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اس سوال سے روک دیا ۔
(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی ثلاثا فی امتہ، ۴/۷۲، حدیث:۲۱۸۲)
ابن عباس کے بعض اقوال کو جمہور اصحاب رسول نے ترک کیا ہے مثلا متعہ کے جواز کا ان کا فتوی
——
Ab yeh mera sawal hai ap ne kga tha k barzagii ijsam ki jo siffat hadith mb hai k wo 60 hath lamby ya phely hogy to kya unki shebat humre jism ya face jesi hai jesa k hazrat ibrahim i mosa ki b kusi sihabi se shabeh bayn ki gai hai hala k unka barzagii jism tha siwaye esa a.s kap k mutabik
جواب روایت میں صرف آدم علیہ السلام کا جسد ٦٠ ہاتھ بیان ہوا ہے – یہ قول برزخی جسم پر نہیں ہے
البتہ برزخی جسم یا عیسیٰ کے اصلی جسم کی شباہت کا ذکر جب رسول الله نے کیا تو اس کو اپنے دور کے لوگوں سے ملا کر سمجھایا
مثلا موسی کو کہا شنوءة کے مردوں جیسی شکل تھی یہ عرب قبیله ازد ہے جو آجکل عمان میں ہے
ياقوت کی معجم البلدان 3/368 میں ہے
«شنوءة مخلاف باليمن، بينها وبين صنعاء اثنان وأربعون فرسخًا، تنسب إليها قبائل من الأزد يقال لهم: أزد شنوءة»
شنوءة کا علاقہ یمن کے مخالف سمت پر ہے اور اس میں اور صنعاء میں ٤٢ فرسخ کا فاصلہ ہے اس کی نسبت قبیلہ ازد سے ہے جن کو أزد شنوءة کہا جاتا ہے
Zahbi or ibne jauzi ne jo qalbi royat or curling hair wali hadith pr hukm laga hai wo bayn kr dein
رویت باری پر تین روایات اتی ہیں
ابو ذر کی سند سے صحیح مسلم والی روایت اس کو ابن جوزی اور الذھبی دونوں نے رد کیا ہے
ابن جوزی نے صحیح مسلم کی ابوذر والی روایت کو رد کیا ہے
کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی نے اس پر تبصرہ کیا ہے
وَفِي الحَدِيث السَّابِع عشر: سَأَلت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: هَل رَأَيْت رَبك؟ فَقَالَ: ” نور، أَنى اراه “. ذكر أَبُو بكر الْخلال فِي كتاب ” الْعِلَل ” عَن أَحْمد بن حَنْبَل أَنه سُئِلَ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ: مَا زلت مُنْكرا لهَذَا الحَدِيث وَمَا أَدْرِي مَا وَجهه. وَذكر أَبُو بكر مُحَمَّد بن إِسْحَق بن خُزَيْمَة فِي هَذَا الحَدِيث تضعيفا فَقَالَ: فِي الْقلب من صِحَة سَنَد هَذَا الْخَبَر شَيْء، لم أر أحدا من عُلَمَاء الْأَثر فطن لعِلَّة فِي إِسْنَاده، فَإِن عبد الله بن شَقِيق كَأَنَّهُ لم يكن يثبت أَبَا ذَر وَلَا يعرفهُ بِعَيْنِه واسْمه وَنسبه، لِأَن أَبَا مُوسَى مُحَمَّد ابْن الْمثنى حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: أتيت الْمَدِينَة، فَإِذا رجل قَائِم على غَرَائِر سود يَقُول: أَلا ليبشر أَصْحَاب الْكُنُوز بكي فِي الجباه والجنوب فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَر، فَكَأَنَّهُ لَا يُثبتهُ وَلَا يعلم أَنه أَبُو ذَر. وَقَالَ ابْن عقيل: قد أجمعنا على أَنه لَيْسَ بِنور، وخطأنا الْمَجُوس فِي قَوْلهم: هُوَ نور. فإثباته نورا مَجُوسِيَّة مَحْضَة، والأنوار أجسام. والبارئ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَيْسَ بجسم، وَالْمرَاد بِهَذَا الحَدِيث: ” حجابه النُّور ” وَكَذَلِكَ رُوِيَ فِي حَدِيث أبي مُوسَى، فَالْمَعْنى: كَيفَ أرَاهُ وحجابه النُّور، فَأَقَامَ الْمُضَاف مقَام الْمُضَاف إِلَيْهِ. قلت: من ثَبت رُؤْيَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ربه عز وَجل فَإِنَّمَا ثَبت كَونهَا لَيْلَة الْمِعْرَاج، وَأَبُو ذَر أسلم بِمَكَّة قَدِيما قبل الْمِعْرَاج بِسنتَيْنِ ثمَّ رَجَعَ إِلَى بِلَاد قومه فَأَقَامَ بهَا حَتَّى مَضَت بدر وَأحد وَالْخَنْدَق، ثمَّ قدم الْمَدِينَة، فَيحْتَمل أَنه سَأَلَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِين إِسْلَامه: هَل رَأَيْت رَبك، وَمَا كَانَ قد عرج بِهِ بعد، فَقَالَ: ” نور، أَنى أرَاهُ؟ ” أَي أَن النُّور يمْنَع من رُؤْيَته، وَقد قَالَ بعد الْمِعْرَاج فِيمَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن عَبَّاس: ” رَأَيْت رَبِّي “.
رسول الله سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا نور ہے کیسے دیکھتا اور اس کا ذکر ابو بکر الخلال نے کتاب العلل میں امام احمد کے حوالے سے کیا کہ ان سے اس حدیث پر سوال ہوا پس کہا میں اس کو منکر کہنے سے نہیں ہٹا اور … ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا اس خبر کی صحت پر دل میں کچھ ہے اور میں نہیں دیکھتا کہ محدثین سوائے اس کے کہ وہ اس کی اسناد پر طعن ہی کرتے رہے کیونکہ اس میں عبد الله بن شقیق ہے جو ابو ذر سے روایت کرنے میں مضبوط نہیں اور اس کو نام و نسب سے نہیں جانا جاتا کیونکہ ابو موسی نے روایت کیا حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة کہ عبد الله بن شَقِيق نے کہا میں مدینہ پہنچا تو وہاں ایک شخص کو … کھڑے دیکھا … پس لوگوں نے کہا یہ ابو ذر ہیں.. کہ گویا کہ اس عبد الله کو پتا تک نہیں تھا کہ ابو ذر کون ہیں! اور ابن عقیل نے کہا ہمارا اجماع ہے کہ الله نور نہیں ہے اور مجوس نے اس قول میں غلطی کی کہ وہ نور ہے پس اس کا اثبات مجوسیت ہے اور اجسام منور ہوتے ہیں نہ کہ الله سبحانہ و تعالی اور یہ حدیث میں مراد ہے کہ نور اس کا حجاب ہے … اور میں ابن جوزی کہتا ہوں : اور جس کسی نے اس روایت کو ثابت کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا انہوں نے اس کو معراج کی رات میں ثابت کیا ہے اور ابی ذر مکہ میں ایمان لائے معراج سے دو سال پہلے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹے ان کے ساتھ رہے یھاں تک کہ بدر اور احد اور خندق گزری پھر مدینہ پہنچے پس احتمال ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ہو جب ایمان لائے ہوں کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ اور اس وقت اپ کو معراج نہیں ہوئی تھی پس رسول الله نے فرمایا نور ہے اس کو کیسے دیکھوں اور بے شک معراج کے بعد کہا جو ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا
==================
صحیح مسلم میں ابو ذر والی روایت کو الذھبی نے رد کیا ہے
⇑ صحیح مسلم کی روایت کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا پر سوال ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/
لیکن العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس پر تبصرہ کیا ہے
قُلْتُ هَذَا بِعَيْنِهِ يَنْفِي الرُّؤْيَةَ حَيْثُ يُقَرِّرُ إِنَّمَا أَرَى نُورًا
میں کہتا ہوں اس میں آنکھ سے دیکھنے کی نفی ہے کیونکہ رسول الله نے اقرار کیا کہ انہوں نے نور دیکھا
یعنی الذھبی کے نزدیک رسول الله معراج پر الله تعالی کو نہ دیکھ سکے
============
ابن عباس سے منسوب بالوں والی روایت
اس کو صحیح سمجھتے ہوئے بہت سے محدثین قبول کیا ہے مثلا امام احمد نے بھی
الذھبی نے بالوں والی روایت کا ذکر میزان میں حماد بن سلمة کے ترجمہ میں کیا ہے وہاں لکھا
وقال ابن عدى: حدثنا عبد الله بن عبد الحميد الواسطي، حدثنا النضر بن سلمة شاذان، حدثنا الأسود بن عامر، عن حماد، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس
پھر اس کا دوسرا طرق دیا اور وقال عفان: حدثنا عبد الصمد بن كيسان، حدثنا حماد، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: رأيت ربى.
وقال أبو بكر بن أبي داود: حدثنا الحسن بن يحيى بن كثير، حدثنا أبي، حدثنا حماد بنحوه، فهذا من أنكر ما أتى به حماد بن سلمة، وهذه الرؤية رؤية منام إن صحت.
اور احمد کا قول نقل کیا کہ قتادہ کا عکرمہ سے سماع ہے
قال المرودى: قلت لاحمد: يقولون لم يسمع قتادة عن عكرمة.
فغضب وأخرج كتابه بسماع قتادة، عن عكرمة، في ستة أحاديث.
پھر احمد پر کوئی کلام نہیں کیا نہ قتادہ پر کیا نہ حماد بن سلمة پر کیا
یعنی اس پر تبصرہ گول کر دیا ہے
—
ابن جوزی نے دفع شبه التشبيه لابن الجوزي میں اس کو رد کیا ہے
قلت : هذا الحديث كذب قبيح . … فذكر (الوضاع) هذا في ليلة الاسراء كافأهم الله وجزاهم النار يشبهون الله سبحانه بعروس
میں کہتا ہون بدترین جھوٹ ہے … گھڑنے والوں کا کہنا ہے یہ معراج کی رات ہوا ….انہوں نے الله کو دولہا سے تشہبہ دی ہے
معراج پر غالی رسول الله کو بھی دولہا کہتے ہیں
https://www.youtube.com/watch?v=JoHic0XwaTU
نوٹ : البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ ابن معین نے اس کو رد کیا ہے
================
ابن عبّاس کی دوسری روایت جس میں الله تعالی کا حلیہ/جلوہ بیان نہیں ہوا صرف ہے کہ دیکھا
اس روایت کو ابن جوزی نے کشف المشکل میں صحیح قرار دیا ہے ! یاللعجب
وَقد صَحَّ الْإِثْبَات للرؤية من طرقه، وَقد مضى من طَرِيق مُتَّفق عَلَيْهَا: ” إِنَّكُم لترون ربكُم ” و ” هَل تضَارونَ فِي رُؤْيَة الشَّمْس وَالْقَمَر، فَكَذَلِك لَا تضَارونَ فِي رُؤْيَته ” وَقد روى ابْن عَبَّاس عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه قَالَ: ” رَأَيْت رَبِّي “.
اس میں حدیث عائشہ کہ جس نے کہا رب کو دیکھا جھوٹ بولا اس پر تبصرہ کیا کہ ان سے شادی معراج کے بعد ہوئی ان کو علم نہ ہو سکا ہو گا
العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں الذھبی نے اس کو بلا تبصرہ نقل کیا ہے
وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُول رأى مُحَمَّد ربه عزوجل مَرَّتَيْنِ
253 – قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} قَالَ دنا ربه عزوجل
254 – قَالَ يحيى بن كثير الْعَنْبَري حَدثنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَأَى مُحَمَّدُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عزوجل
فَقلت أَلَيْسَ يَقُول الله عزوجل {لَا تُدْرِكهُ الْأَبْصَار} قَالَ وَيْحَكَ إِذَا جَاءَ بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ
قَالَ وَقَالَ رأى مُحَمَّد ربه عزوجل مَرَّتَيْنِ
==========
بات یہ ہے کہ ابن عباس کی سند سے اس کو قبول کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ رسول الله نے الله تعالی کو دیکھا
متاخرین نے اس کی تاویل کی کہ خواب میں دیکھا بعض نے کہا آنکھ سے دیکھا
اس کو الذھبی نے ابن جوزی نے رد نہیں کیا ہے کہ ابن عباس کا ایسا کہنا تھا
لیکن جب الله کے بالوں کا لباس کا ذکر ہوتا ہے تو یہ یہ دونوں اسی سند کو سختی سے رد کرتے ہیں
طارق جمیل کا کہنا ہے کہ عرش پر حضور کے پیر پڑے
https://www.youtube.com/watch?v=z0g5sme2Y5M
٢:١٥ منٹ پر
Reply
Islamic-Belief says:
February 16, 2018 at 11:26 am
دیوبندی اور بریلوی یہ جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے
مجھے آپکی بات تکفیر کے حوالے سے سمجھ نہیں آ تی ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ یہ جہمی عقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ جہمیوں کی تکفیر امام احمد اور امام بخاری نے کی ہے آپکی ویب پر پڑھا ہے پھر یہ مسلمان کی تعریف میں کیسے آئے گے؟
مسلمان نام ہے امت مسلمہ کا- مسلمان کا مطلب صحیح عقیدہ ہونا نہیں ہے
مسلمان کا مطلب صرف مطیع ہونا ہے
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے – ان سے کہو تم یہ نہ کہو ایمان لائے بلکہ کہو اسلام لائے – ایمان تو تمھارے دل میں داخل نہیں ہوا
اس بنا پر فرقے مسلمان تو ہیں لیکن ایمان والے نہیں ہیں
حدیث میں ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم «بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ».
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد ٥ پر ہے شہادت دینا کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں نماز قائم کرنا زکوه دینا حج کرنا روزے رکھنا
فرقے اس کے انکاری نہیں وہ زبان سے دو شہادتیں دے رہے ہیں اس بنا پر مسلم ہیں لیکن ان کے ایمان میں خرابی ہے آ گئی ہے
سابقون الاولون علی رضی اللہ عنہ کی امامت یا احکامات کی خبر سنکر مرتد کیوں ہوئے بقول شیعوں کے؟؟
شیعہ کے مطابق اصحاب رسول ، علی کو نا پسند کرتے تھے علی کو خلیفہ اول نہیں بننے دیا گیا اور ابو بکر خود بن گئے