شرعی تعویذات کا فراڈ

عام مسلمان جن کے گلے میں تعویذ ہو جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اپ تعویذ کیوں لٹکاتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن کلام الله ہے اس میں قوت و طاقت ہے اس کی وجہ سے جنات بھاگ جاتے ہیں شیاطین قریب نہیں اتے اور بیماری نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شفا ہے

قرآن  سوره الاسراء  ٨٢ میں  ہے

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

أور هم نے اس قرآن میں نازل کیا  ہے وہ جس میں  شفاء اور  رحمت  ہے اور ظالموں کے لئے سوائے خسارے کے یہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

یہاں  شفا سے مراد قرانی اصطلاح فی قلوبھم مرض کی طرف اشارہ ہے کہ آیات سے ان کو شفا مل سکتی ہے – ظاہر ہے جب ہم قرآن میں فی قلوبھم مرض پڑھتے ہیں تو ہم اس کا مطلب یہ نہیں لیتے کہ کفار عنید کو دل کا آپریشن یا ٹرانسپلانٹ درکار ہے بلکہ ان الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے – فرقوں کی جانب سے  آیت کا مفہوم ایک طرف تو اس کے ظاہر پر لیا جاتا ہے کہ  مومن کو شفا ملتی ہے لیکن یہ نہیں کہتے کہ  ظالم  (یا مشرک ) کو قرآن سے  شفا نہیں ملتی –   دوسری طرف فرقہ پرستوں کی جانب سے حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ایک  مشرک سردار  کو شفا ملنے کا ذکر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ واقعہ خاص تھا عام نہیں تھا

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا – قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفتاحہ پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا -اس کے بدلے میں انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

بے شک تم حق رکھتے تھے اس اجر  پر جو تم نے کتاب الله سے حاصل کیا

اس حدیث کی غلط تاویل  کر کے  تعویذ لکھنے پر علماء کی طرف سے اجرت طلب کی جاتی ہے یا با الفاظ دیگر تعویذ بیچا جاتا ہے –  اس طرح قرآن اور حدیث سے اس پر اپنی  پسند کی نص لانے کے بعد سلف کا عمل بھی دلیل میں پیش ہوتا ہے -فرقہ پرستوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں تعویذ جائز ہے اور اس کے لئے دلیل سلف کا عمل ہے مثلا    امام احمد کے صلبی  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی   جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

 میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

شریعت کا یہ حکم  کوئی بتائے جس میں ہو کہ  سرعت ولادت کے لئے  باریک کپڑے پر تعویذ لکھنا جائزہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس تعویذ کو  گھول کر پیا جائے یا جسم پر باندھا جائے –  اسی طرح کے سلف کے فتووں کی وجہ سے   بعض علماء نے  قرآن لکھ کر عورت کے جسم پر باندھنے کا بھی فتوی دیا ہے مثلا   اشرف علی تھانوی  اعمال قرآن حصہ اول صفحہ ۲۴,۲۵ میں اسی طرح لکھتے ہیں

 سہولت ولادت
إِذَا السَّمَاء انشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4)
ان آیتوں کو لکھ کر ولادت کی آسانی کے لیے بائیں ران میں باندھ دے ان شاء اللہ تعالى بہت آسانی سے ولادت ہوگی , مگر بعد ولادت تعویذ کو فورا کھول دینا چاہیے اور اسی عورت کے سر کے بالوں کی دھونی مقام خاص پر دینا مفید ولادت ہے

نہ صرف سرعت ولادت بلکہ عام حالات میں تعویذ کے جواز کا فتوی سلف سے منقول  ہے – كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں امام احمد کے فتووں میں ارتقاء کا ذکر  ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے- أبو داود   المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا- یعنی مرزوی کے انتقال کے بعد احمد کا نقطہ نظر تعویذ پر بدل  گیا تھا – مزید  سوال ہے کہ تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم   تمیمہ کی وضاحت اس طرح  کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

ابن قیم نے کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں واضح اقرار کیا ہے کہ امام احمد تعویذ کرتے تھے
قَالَ حرب: وَلَمْ يُشَدِّدْ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ أحمد: وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَكْرَهُهُ كَرَاهَةً شَدِيدَةً جِدًّا. وَقَالَ أحمد وَقَدْ سُئِلَ عَنِ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ؟ قَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ.

حرب کرمانی نے کہا امام احمد تعویذ میں شدت نہیں کرتے تھے اور احمد نے کہا ابن مسعود کو اس سے سخت کراہت تھی اور کہا احمد سے تمائم پر سوال ہوا کہ آفت کے بعد لٹکایا جائے تو فرمایا امید ہے اس میں برائی نہیں ہے

امام احمد سے متاثر ابن تیمیہ  کا بھی تاریخ میں ذکر ہے –   البدایہ و النہایہ میں ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ کی موت پر جو ازدہام ہوا اس کے ذکر میں ابن کثیر  (المتوفى: 774هـ) نے یہ   نقل کیا ہے

 وَشَرِبَ جَمَاعَةٌ الْمَاءَ الَّذِي فَضَلَ مِنْ غُسْلِهِ، وَاقْتَسَمَ جَمَاعَةٌ بَقِيَّةَ السِّدْرِ الّذي غسل به، ودفع في الْخَيْطَ الَّذِي كَانَ فِيهِ الزِّئْبَقُ الَّذِي كَانَ في عنقه بسبب القمل مائة وخمسون درهما
ایک جماعت نے اس پانی کو پیا جو ان کے غسل (میت) میں زائد تھا اور جو بیری غسل کے بعد بچی اس کو بانٹ دیا گا اور ان کے گلے میں جوؤں کے سبب جو مرکری کا دھاگہ تھا اس کو ١٥٠ درہم میں دور کیا گیا

https://www.youtube.com/watch?v=Pa7Q2_j7VLE

 

اس کے برعکس مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي [ص:652] شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ أَوْ مَا رَكِبْتُ، إِذَا أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا، أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً، أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي»
عبد الله رضی الله عنہ  نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں بے پرواہ ہوا اس سے جو مجھے ملا .. کہ اگر میں تریاق پی لوں یا تعویذ لٹکا لوں یا اشعار کہوں

حیرت ہے کہ ابن تیمیہ فتوی میں اس روایت کا متن  تک تبدیل کرتے  ہیں
مَا رُوِيَ أَيْضًا فِي سُنَنِهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ» وَهُوَ نَصٌّ جَامِعٌ مَانِعٌ، وَهُوَ صُورَةُ الْفَتْوَى فِي الْمَسْأَلَةِ. الْوَجْهُ السَّادِسُ: الْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ: «مَا أُبَالِي مَا أُتِيت أَوْ مَا رَكِبْت – إذَا شَرِبْت تِرْيَاقًا، أَوْ نَطَقْت تَمِيمَةً، أَوْ قُلْت الشِّعْرَ مِنْ نَفْسِي

اس میں  ابن تیمیہ نے تعویذ لٹکانے کو  نَطَقْت تَمِيمَةً یعنی تَمِيمَةً بولوں کر دیا ہے  – یہ الفاظ مجموعہ کتب احادیث میں نہیں ہیں

دوم کتب ابن تیمیہ میں تعویذ کی ممانعت والی احادیث   نہیں ملیں  اسی طرح  ممکن ہے یہ دم شدہ دھاگہ ہو جس میں مرکری پر دم کیا گیا ہو – مرکری ایک زہریلا مادہ ہے ممکن ہے ابن تیمیہ کی ہلاکت اسی دھاگہ کے سبب ہوئی ہو کیونکہ ابن تیمیہ سائنس  سے نا بلد تھے

جن اتارنے کا علاج بتاتے ہوئے ابن تیمیہ نے فتوی لکھا ہے جب سوال ہوا کہ شرع میں جن اتارنے کا علاج تمیمہ سے کیا جائے؟

هَلْ الشَّرْعُ الْمُطَهَّرُ يُنْكِرُ مَا تَفْعَلُهُ الشَّيَاطِينُ الجانة مِنْ مَسِّهَا وتخبيطها وَجَوَلَانِ بَوَارِقِهَا عَلَى بَنِي آدَمَ وَاعْتِرَاضِهَا؟ فَهَلْ لِذَلِكَ مُعَالَجَةٌ بِالْمُخَرَّقَاتِ وَالْأَحْرَازِ وَالْعَزَائِمِ وَالْأَقْسَامِ وَالرُّقَى وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالتَّمَائِمِ؟

جواب دیا
وَأَمَّا مُعَالَجَةُ الْمَصْرُوعِ بِالرُّقَى، وَالتَّعَوُّذَاتِ. فَهَذَا عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ الرُّقَى وَالتَّعَاوِيذُ مِمَّا يُعْرَفُ مَعْنَاهَا، وَمِمَّا يَجُوزُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهَا الرَّجُلُ، دَاعِيًا لِلَّهِ، ذَاكِرًا لَهُ، وَمُخَاطِبًا لِخَلْقِهِ، وَنَحْوُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَجُوزُ أَنْ يُرْقَى بِهَا الْمَصْرُوعُ، وَيُعَوَّذَ
اور جس پر جن چڑھا ہو اس کا علاج دم سے یا تعویذ سے کرنا اس میں دو رخ ہیں کہ اگر ان کا مطلب معروف ہے اور دین اسلام میں جائز ہو تو الله کو پکارا گیا ہو اس کا ذکر ہو اور … تو اس سے دم جائز ہے اس سے پناہ لی جا سکتی ہے

 اپ دیکھ سکتے ہیں ابن تیمیہ نے تعویذ پر سوال ہوا لیکن اس کا رد نہیں کیا کہ اس کو لٹکانا شرک ہے بلکہ دم و تعویذ کو ملا کر ان کو جائز کہا ہے – جبکہ اگر کوئی سائل شرک پر سوال کرے تو لازم اتا ہے کہ سب سے پہلے اس شرک کا رد کیا جائے

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا کس سنت سے معلوم ہے ؟   ابن تیمیہ  نے آیات سے تجربات کر کے یہ جانا کہ کون سی آیات کس مرض میں افاقہ دے سکتی ہیں ان کو جسم پر مقام مرض کے پاس لکھا جائے – اس طرح قرآن عظیم پر ان کے تجربات جاری تھے کہ موصوف کا انتقال اس حال میں  ہوا کہ گلے میں مرکری میں آلودہ  تار پڑا تھا

4 thoughts on “شرعی تعویذات کا فراڈ

  1. anum shoukat

    آپ نے سورت الاسراء کی آیت جو پیش کی ہے کہ اس آیت کو اگر ان مسلک پرستوں کے نزدیک ظاہرا لیا جائے تو اس میں صرف مومنوں کیلئے شفا کہا گیا ہے کافروں کیلئے تو خسارہ ہے لیکن مولوی حضرات دین پر اجرت ثابت کرنے کیلئے سعید الخدری کی روایت پیش کرتے ہیں جس سے کافر کو شفا ملی سورت فاتحہ پڑھنے پر۔جبکہ سورت الاسراء میں تو، بتایا گیا ہے اگر انکے ظاہری معنی لیے جائیں جسکا یہ مطلب بنتا ہے کہ کافروں کے جسمانی امراض کیلئے شفا نہیں ہے۔ کیا میں نے جو مطلب اخذ کیا ہے وہ صحیح ہے کہ قرآن کافروں کے جسمانی امراض کیلئے شفا نہیں ہے ان مولویوں کے نزدیک یہ معنی ہونا چاہیے پھر؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی یہی میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ آیت کے ظاہر سے حدیث کا رد ہوتا ہے کہ مشرک کو قرآن سے شفاء ملی جبکہ قرآن میں ہے کہ ان کو خسارہ ہوتا ہے

      Reply
  2. Shakeel Ahmed

    بھائی اس حدیث کے بارے بتائے
    کیا یہ حدیث درست ھے؟

    Malik Zain Ul Abideen
    اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر میں جاتے اور ان کے بچھونے پر سو رہتے ، اور وہ گھر میں نہیں ہوتیں تھیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر سو رہے ۔ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں ، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے ۔ ام سلیم نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشوں میں بھرنے لگیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اے ام سلیم! کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ام سلیم اور ام حرام – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ ہیں
      نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھیال مدینہ سے بھی تعلق رکھتا تھا

      یہ قول نووی کا ہے اور ان کے مطابق اس پر علماء کا اجماع ہے
      ———

      بعض علماء نے اس رضاعت کا انکار بھی کیا ہے
      اور کہا ہے کہ انس اور ان کی والدہ، خالہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے خادم تھے

      =========

      اگر یہ رضاعت تھی تو پھر محرم کے تحت اس کو لیا جائے گا اور یہ بات معلوم ہے کہ نبی کا پسینہ بہت سے لوگوں نے جمع کیا
      نبی صلی الله علیہ وسلم کے پسینے میں خوشبو تھی اس کو عطر کی طرح لگایا جاتا تھا

      اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
      اول نبی صلی الله علیہ وسلم کا پسینہ اصحاب رسول و صحابیات جمع کرتے تھے
      دوم خادم کے بستر پر سویا جا سکتا ہے
      سوم حیات النبی میں پسینہ برکت کے طور پر لیا جاتا تھا جو معجزہ تھا

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *