مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
قرآن کی آیات کی غلط تشریحات کی بنا پر امت میں صوفیوں کی جانب سے انسانوں اور قبروں کو سجدہ کرنا قبول کر لیا گیا ہے – اس کو سجدہ تعظیمی کا نام دیا گیا ہے اور جوابا کہا جاتا ہے کہ چونکہ ہم سجدہ عبادت نہیں کر رہے، اس لئے یہ جائز ہے – ایک بریلوی عالم شعر میں کہتے ہیں
سنگ در جاناں پہ کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ
نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ
یعنی ظاہر میں یہ سجدہ ہے مگر مقصد و مدعا اپنا سر محبوب (ولی اللہ یا نبی ) کی خدمت میں پیش کرنا ہے – راقم کہتا ہے کسی سے اتنی محبت کرنا کہ اللہ کی عبادت اور مخلوق سے محبت کی سرحد مل جائے تو ایسا عمل قابل رد ہے – ایک بت پرست بھی پتھر کے صنم سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی الفت میں شکار ہو کر سجدے کرنے لگ جاتا ہے –
انبیاء کو سجدہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ بحث آجکل کی نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے قرن دوم سے ہی روایات بیان کی جا رہی ہیں کہ اللہ تعالی کی غیر مکلف مخلوقات تک نبی علیہ السلام کو سجدہ کرتی تھیں- بعض راویوں نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (جن سے قرآن سیکھنے کا حکم نبوی تھا ) انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کر دیا ،کیونکہ وہ اہل کتاب میں مروج اس عمل سے متاثر ہوئے – حاشا للہ – یہ سخت مصیبت کا قول ہے ، روایت کے پردے میں صحابی پر تہمت ہے اور راقم نے اس روایت کا تقاقب کیا ہے، ثابت کیا ہے کہ یہ روایات مضطرب السند، منکر المتن ہیں – کتاب هذا میں سجدہ تعظیمی کی روایات پر اسنادی تحقیق پیش کی گئی ہے –
اس حوالے سے يه اشکال پیش نظر ہیں
اول : کیا فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا یا ان کو قبلہ سمجھتے ہوئے یہ سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا تھا ؟
دوم : کیا ابناء یعقوب علیہ السلام اور والدین یوسف نے اپنے ہی بھائی یا بیٹے کو دربار مصر میں سجدہ تعظیمی کیا تھا ؟
سوم : کیا شریعت میں (فرض نماز کے علاوہ )سجدہ کو سات اعضا پر کرنا فرض کیا گیا ہے ؟
چہارم : شریعت میں اور عربی میں سجدہ کا لفظ کن کن معنوں پر بولا گیا ہے ؟
ابو شہر یار
٢٠١٩