فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں
وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں
وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.
أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے
الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں
إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة
عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے
حديث 2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔
تبصرہ
فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔
اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔
یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا
سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔
الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔
اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔
فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، يَقُولُ
پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”
تبصرہ
سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے
سنن نسائی جیسی سند سے یہ روایت مسند احمد 25855 موجود ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنْ أُمِّي؟ – فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ – قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ
شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔
شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ
اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔
نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے
اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ
اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا
خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ
حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ
یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا
سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
قُلْتُ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ
میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔
اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔
سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا
حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ خَرَجَ، قَالَتْ: فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔
تبصرہ
یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے
یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے
سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے
حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔
تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا
لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے
محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی – ام المومنین رضی اللہ عنہا پر الزام مہنگا پڑے گا
اللہ کا حکم یاد رہے
اِذْ تَلَقَّوْنَهٝ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّّتَحْسَبُوْنَهٝ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْـمٌ (15
جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔
وہابی عالم لکھتے ہیں
یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں
ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»
اور یہ سند وہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے
البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ
کتاب تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ [ص:88] بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ: «نَعَمْ
یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے
راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا
راوی کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے
سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًاۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّـٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٝ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَكَ هٰذَا ۖ قَالَ نَبَّاَنِىَ الْعَلِـيْمُ الْخَبِيْـرُ (3)
اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔
راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت تنقیص عائشہ سے محمول ہے
ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات ہے – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے شک و شبہ کا شکار رہیں
صحیح مسلم میں بقیع والا واقعہ درج ذیل سند سے بھی مروی ہے اس میں کیا بات قابل اعتراض یے؟
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَت
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ – قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ» وَلَمْ يُقِمْ قُتَيْبَةُ قَوْلَهُ «وَأَتَاكُمْ»
یحیی بن یحیی تمیمی، یحیی بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، شریک، ابونمر، عطاء بن عسار، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے السلام علیکم دار قوم مومنین تمہارے اوپر سلام ہو اے مومنوں کے گھر والو تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما قتیبہ نے أَتَاکُمْ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
یہ روایت شاذ ہے – عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کی ہر رات کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبرستان جانا معلوم نہیں ہے
سند میں شريك بن عبد الله بن أبى نمر ہے جو مختلط ہو گیا تھا
قال ابن معين والنسائي ليس بالقوي
شریک بن عبداللہ پر مختلط ہونے کی جرح کا حوالہ درکار ہے؟
اچھا ہوا جو آپ نے یہ سوال کیا
مجھ سے غلطی ہوئی
شريك بن عبد الله بن أبى شريك النخعى ، أبو عبد الله الكوفى القاضى مختلط ہوا تھا
اس سند میں شريك بن عبد الله بن ابی نمر ہے وہ مختلط نہیں ہوا
البتہ شريك بن عبد الله بن ابی نمر پر نسائی اور ابن معین کی جرح ہے
اس سوال کو
QA
میں منتقل کر دیا ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/#comment-14500
شریك بن عبدالله بن ابی النمر پر نسائی اور ابن معین نے کیا جرح کی ہے؟
https://www.islamic-belief.net/%d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%d8%b1%d8%b6-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a8%d9%86%db%8c%d8%a7%d8%af%db%8c-%d8%b9%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af/#comment-14489
لنک اوپن نہیں ہورہا ہے آپ تحریری بتادیں شریك بن عبدالله بن ابی النمر پر نسائی اور ابن معین نے کیا جرح کی ہے؟
قوی نہیں قرار دیا ہے
کیامجرد اس جرح پر صحیح مسلم کی روایت کو منکر قرار دیا جاسکتا ہے؟
کیا میں نے مجرد اس بات پر حدیث کو منکر کہا ہے ؟ کیا بلاگ میں اس جرح کا ذکر ہے
صحیح مسلم کی روایت جو آپ نے پیش کی ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ – قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ» وَلَمْ يُقِمْ قُتَيْبَةُ قَوْلَهُ «وَأَتَاكُمْ»
یحیی بن یحیی تمیمی، یحیی بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، شریک، ابونمر، عطاء بن عسار، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے السلام علیکم دار قوم مومنین تمہارے اوپر سلام ہو اے مومنوں کے گھر والو تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما قتیبہ نے أَتَاکُمْ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
یہ ہ وہی ہے جس پر تبصرہ کیا گیا ہے
//////////
سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے
حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔
تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا
//////////////
معلوم ھوا کہ یہ روایت نسائی اور ابن معین کے نزدیک ضعیف ھے جس کو مسلم نے صحیح سمجھ لیا ھے
لیکن صحیح مسلم کی دوسری روایت میں تو ایک رات کا ذکر ہے؟
قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَى قَالَ قَالَتْ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي
اس کو تسلیم کرو تو ثابت ہو گا کہ اماں عائشہ کو صحیح عقیدہ معلوم نہیں تھا
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ
اسی پر تو پوسٹ ہے
قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ… (لوگ کتنا ہی چھپالیں اللہ اس کو جانتا یے) اس جملے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی عقیدے کے متعلق لاعلمی کیا ہے؟
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ سوالیہ ہیں
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ
جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں (تو کیا) اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں
——-
کیا یہ بنیادی بات نہیں جو ہر شخص جانتا ہے ؟
اعتراض اس جملے کے سوالیہ ہونے پر ہے
جناب اتنی نکتہ سنجی بندے کو شکی بنادیتی ہے اور تحقیق کے لئے مضر بھی ہے ملاحظہ کریں سنن نسائی کے الفاظ۔
قُلْتُ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي
افسوس بھائی
آپ ایک جاہل ہیں
اول تو یہ ترجمہ عربی میں نے نہیں کی اہل حدیث فرقے نے کیا ہے اور ان کے مطابق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا عقیدے کی خرابی میں مبتلا تھیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی
لہذا اس حدیث کو اپنی تکفیر کی کتب میں دلیل کے طور پر لکھ رہے ہیں
دوم اس حدیث کو ہم ایک عرصہ سے رد کر رہے ہیں اور شب برات کے حوالے سے اس حدیث کو جب بریلوی پیش کرتے ہیں کہ رات میں قبرستان جاؤ تو ہم اس کو رد کرتے رہے ہیں کہ ام المومنین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرنا راوی کا جھوٹ ہے
سوم اس کا راوی بھی مجہول ہے جس پر تحقیق پیش کر دی گئی ہے
چہارم سنن نسائی کی روایت سے اضافی بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر ہفتے رات میں قبرستان جانا سنت ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری ہر ہفتے اتی تھی اور آخری عمر میں تو سودہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی باری ان کو دے دی تھی
اس طرح ہفتے میں دو بار کم از کم قبرستان رات میں جانا ثابت ہوا
——————-
اور یہ تمام ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے
پہلے روایات میں جو آیا ہے اس کو سمجھنا سیکھیں پھر بات کیا کریں
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ سوالیہ ہیں
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ
جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں (تو کیا) اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں
——-
کیا یہ بنیادی بات نہیں جو ہر شخص جانتا ہے ؟
اعتراض اس جملے کے سوالیہ ہونے پر ہے
آپ کو یہ شک لگتا ہے تو یہ آپ کی جہالت ہے کیونکہ اس میں صریح عقیدہ سے لا علمی کا ذکر ہے
جناب مسلم کی اس روایت کو تو ڈاکٹر عثمانی رح بھی مانتے ہیں تو کیا اب اس روایت سے ہی ڈاکٹر عثمانی صاحب کا مسئلہ تکفیر کے متعلق موقف غلط ثابت ہوگیا ؟؟؟ ایڈمن صاحب اب تو کوئی بھی اھلحدیث آپ پر اعتراض کرسکتا ہے کہ عائشہ رض کی اس قدر واضح، صریح، قطعی اور غیر مبہم بدعقیدگی کے باوجود مسلم کی اس روایت کو سند اور متن کے لحاظ سےصحیح مان کر ڈاکٹر عثمانی انہیں صحیح العقیدہ ڈکلیئر کررہے ہیں پھر احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ کے ساتھ یہ رویہ کیوں؟؟؟
اھل حدیث اور وہابی اس حدیث سے یہ ثابت کر رھے ھین کہ وہ بنیادی عقیدے سے لا علم تھین
اپ اس روایت کو صحیح سمجھیں تو اپ کی مرضی
میرا موقف واضح ھے
اس روایت کو ھم شب برات کی ھر تقریر مین رد کرتے ھین
——–
اپ کو فضول کی لفاظی کرنے کا کیوں شوق ہے
بد عقیدہ ہونا الگ چیز ہے جو عقیدے میں ایک غلط موقف کو اپنانا ہوتا ہے جبکہ صحیح عقیدے پر سوال کرنا ایک الگ بات ہے
—————
ابن قیم، ابن تیمیہ وغیرہ کا بد عقیدہ ہونا معلوم ہے – اگر کسی کو صحیح عقیدہ معلوم نہ ہو اور وہ سوال کرے تو یہ الگ معاملہ ہے
اس کی مثال میں سے ہے کہ زوجہ ابن مسعود نے گلے میں دھاگہ ڈالا جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کاٹ دیا
أن أل عبد اللہ لأغنياء عن الشرك
ال عبد اللہ شرک سے پاک ہیں
ابن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی کو تعویذ کی ممانعت والی حدیث نہیں پہنچی تھی – جب ان کو علم ہوا اور ابن مسعود نے وضاحت کر دی تو انہوں نے اس کا اعادہ نہیں کیا
—————
مسلم کی حدیث میں صحیح عقیدے پر سوال ہے اور مجھے اعتراض اس پر ہے کہ اللہ ہر چھپی بات سے واقف ہے یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے چہ جائیکہ یہ سمجھا جائے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا تک اس سے لا علم ہوں گی
فرقوں نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ ام المومنین تک صحیح عقیدہ نہیں جانتی تھیں ہم اس حدیث کے متن کو صحیح نہیں کہیں گے کیونکہ اس کا راوی مجہول ہے
ایڈمن صاحب آپ کی اطلاع کیلئے ڈاکٹر عثمانی رح نے صحیح مسلم کی زیر بحث روایت کو مانا ہے اور تمام جزئیات کے ساتھ مانا ہے۔ ملاحظہ ہو رسالہ حبل الله، مجلہ نمبر14،صفحہ 58،57 ، سلسلہ سوال وجواب ۔
حوالہ کا شکریہ
عثمانی صاحب نے اس کو ایک مخصوص رات واحد کا واقعہ قرار دیا ہے جبکہ آپ نے سنن نسائی کی اور صحیح مسلم کی دوسری روایت سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی قبرستان جاتے تھے
ملاحظہ کریں اپنی روایت کا حوالہ
December 15, 2018 at 10:08 pm
/////
صحیح مسلم کی روایت جو آپ نے پیش کی ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ – قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ» وَلَمْ يُقِمْ قُتَيْبَةُ قَوْلَهُ «وَأَتَاكُمْ»
یحیی بن یحیی تمیمی، یحیی بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، شریک، ابونمر، عطاء بن عسار، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے السلام علیکم دار قوم مومنین تمہارے اوپر سلام ہو اے مومنوں کے گھر والو تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما قتیبہ نے أَتَاکُمْ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
یعنی آپ کا موقف ہے کہ ہر ہفتے جانا ہوتا اور عثمانی صاحب نے اس کو محض ایک رات کا واقعہ قرار دیا ہے
===============
میرا موقف ان روایات پر اوپر موجود ہے
یہاں میں امام مسلم کا رد کر رہا ہوں کہ یہ حدیث منکر ہے جس کو امام مسلم صحیح سمجھ بیٹھے ہیں
علم حدیث میں عثمانی صاحب کا کوئی مقام نہیں ہے لیکن امام مسلم کا بہت بڑا مقام ہے
لیکن معاملہ جب صحیح غلط کا ہو تو ہم کو صحیح بات بیان کرنے کا ہی حکم ہے
عثمانی صاحب کا اس کو صحیح تصور کرنا ان کی غلطی ہے اور یہ غلطی ان سے بڑے محدث امام مسلم نے بھی کی ہے
اب کیا کریں ؟ ان دونوں کے کہنے پر روایت کو صحیح مان لیں جبکہ اس کے متن سے ثابت ہو رہا ہے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو عقیدہ کا صحیح علم نہیں تھا ؟
آپ صحیح سمجھیں تو آپ کی مرضی -آپ نہ روایت کا متن بدل سکیں گے نہ راوی کی جہالت
لیکن شوق تقلید میں نام پیدا کریں گے
عثمانی صاحب نے اس روایت کے متن پر تحقیق نہیں کی ہو گی کہ ان پر واضح ہوتا کہ ان الفاظ کو سوالیہ انداز میں بھی راوی نے بیان کیا ہے
صحیح مسلم میں الفاظ کا ترجمہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ام المومنین کا ایک مربوط جملہ بن جائے یعنی
اللہ اس کو جانتا ہے جو خواہ لوگ چھپائیں (پھر دل میں آیا ہاں ایسا ہی ہے تو زبان سے نکلا ) بالکل
یعنی نعم کا لفظ ام المومنین کے الفاظ ہیں کا حصہ ہیں
اس طرح صحیح مسلم کی حدیث پر اعتراض ختم ہو جاتا ہے اور یہ سوال نہیں رہتا بلکہ اقرار بن جاتا ہے
یہ شرح امام نووی نے کی ہے
البتہ جب دیگر کتب میں اس حدیث کا متن دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ راوی کا مدعا نہیں ہے وہ اس کو سوال بیان کر رہا ہے
اس پر یہ حدیث منکر ہے کیونکہ راوی مجہول ہے
محدثین میں امام الذھبی نے بھی اس کے راوی کو مجہول قرار دیا ہے اور خاص اس بقیع کی روایت کا ذکر کیا ہے
لہذا میری رائے یہاں امام الذھبی کے مطابق ہو گئی ہے