عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

کیا مردے سنتے ہیں ؟  اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس  انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ  صرف مردے سنتے ہیں  بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں

اس قبیل کے علماء قبر پرستوں  کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک  مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –

اب قرآن میں اگر ہو کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ  سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں

اسی طرح قرآن میں اگر ہو

 وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں

ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے

تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے  اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے

ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع  از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں

 الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں

سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل،  قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں  کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ

  يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

 یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟

 رسول الله نے فرمایا

إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں

عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے

اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے

ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟

حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا

ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا

وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے

فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

ابن رجب کتاب أهوال  القبور میں  قبول کرتے  ہیں

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں

واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں

قرآن میں ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں

یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا

البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے

سماع الموتی کے دلائل کا تضاد

سماع الموتی کے قائلین کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین کے بعد چاپ سنتے ہیں اس سلسلے میں انبوہ غیر مقلدین کی جانب سے کہا جاتا ہے :”  یہ ایک استثناء ہے”- جبکہ یہ استثناء تو تمام مردوں کے لئے بولا جا رہا ہے تو مخصوص کیسے ہوا

ان میں سے بعض   لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے :”جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے” لیکن پھر یہی لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب وصیت بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مجھ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اتنی دیر رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے تاکہ میں تم لوگوں سے مانوس ہو جاؤں -گویا ان لوگوں کو خود بھی نہیں پتا کہ ان کے اس نام نہاد  استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں

الشِّنقيطي   ایک وہابی عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية  الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي  فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا  جس کو  أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور  مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے

اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے   کہا

الشِّنقيطي  هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا  مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے  اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی  جنہوں نے  ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي   سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

 إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ  ضرورت کے تحت  دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے  

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ 

ابو جابر دامانوی دین الخالص میں  اکابر پرستی میں  مبتلا ہو کر  اپنے بت کوبچانے کے لئے لکھتے ہیں

دامانوی عائشہ ابن تیمیہ

جوچیز دامانوی صاحب  کو سمجھ نہیں آئی وہ الشنقیطی صاحب کو آئی اور اس پر ہی ڈاکٹر عثمانی نے جرح کی ہے

فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ عائشہ رضی الله عنہا وہ عقیدہ رکھتی تھیں جو الله اور اس کے رسول کے قول سے الگ تھا

موصوف گویا کہنا چاہتے ہیں کہ قول نبوی سن کر بھی عائشہ رضی الله عنہا نے جو تاویل کی وہ غلط تھی جبکہ ام المومنین رضی الله عنہا جو فقہاء مدینہ کی استاد ہیں ان کے فہم پر مبنی   اس تاویل پر  اعتراض سات صدیوں تک علمائے اسلام نے

نہیں کیا یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا جنم ہوا

Real Islam  facebook page & Associated pages plagiarism 

[do not copy paste stuff without due credit]

لنک

18 thoughts on “عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

  1. وجاہت

    yeh kahan likha hai – aur as bat ka kiya saboot hai keh yeh imam abu hanifa rehm allah nay yeh kaha hai.

    ————–
    امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

    —————-

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کتاب مزار میلے کا صفحہ تیس دیکھیں

      Reply
    2. Dawood

      یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ھے لیکن جس کتاب ھدایہ میں یہ لکھا ھے اسی میں لکھا گیا ھے کہ قسم کا دارومدار عرف پر ھے حقیقت میں نہیں اور عرف میں
      مردے سے کلام نہیں ہو سکتا اور اس کا جواب یہ بھی دیا ھے کہ اسی کتاب ھدایہ میں لکھا ھے کہ اگر کوئی کہے میں قسم کھاتا ہو کہ گوشت نہیں کھاؤں گا اور وہ مچھلی کھا لے ( حالانکہ مچھلی کو قرآن میں بہترین گوشت کہا گیا ھے ) تو قسم کا کفارہ نہیں ھے کیونکہ قسم کا تعلق عرف سے ھے اور عرف میں گوشت الگ ھے اور مچھلی الگ ھے

      Reply
  2. وجاہت

    yeh kiya hai

    استثناء کیا ہے- استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      استثناء

      مطلب ایک اصول میں
      exception

      Reply
  3. Islamic-Belief Post author

    جی اپ کی بات سے ثابت ہو گیا جو راقم کہتا رہا ہے کہ ان کا ارتقاء جاری ہے
    ٢٠١٣ میں قلیب بدر معجزہ تھا ایک شیعہ کے رد میں سارے کہہ رہے تھے یہ معجزہ ہے کسی کی بھون پہ جوں نہ رینگی
    اب آج ٢٠١٦ میں کہا جا رہا ہے معجزہ کیسے ؟ معجزہ کی تعریف کرو
    اور اچھا ہوا یہ بحث چڑھ گئی اور ہم نے جب کتب دیکھیں تو پتا چلا یہ قبیل تو معجزہ کی تعریف نہ بدلتا رہا ہے
    کبھی کچھ کبھی کچھ
    معجزہ خالصتا متکلمین کی اصطلاح ہے جس کی تعریف کا بھی اختیار انہی کے پاس ہے کسی علم کلام کے انکاری ابن تیمیہ سے اس کی تعریف نہیں کرائی جا سکتی

    Reply
  4. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    اکثر لوگ سماع موتی پر بہت بحث و مباحثے کرتے نظر آتے ہے اور اس کی بنیاد عود روح کا عقیدہ ہے- ان سے کوئی کہے کہ صحیحن کی جن روایات سے یہ سماع موتی ثابت کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں- ان روایات سے تو کلام موتی بھی ثابت ہوتا ہے

    حدیث نمبر : 1380
    حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”. (صحیح بخاری -> کتاب الجنائز)
    ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے

    یعنی مذکورہ روایت سے “کلام موتی” بھی ثابت ہو رہا ہے- لیکن عود روح کا کوئی ذکر نہیں- لیکن قبر میں جاتے ہی مردہ میں روح بھی واپس جاآتی ہے اور مردہ اٹھتا بھی ہے بیٹھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے- لیکن جب جنازہ چارپائی پرہو تو بھر روح کے بغیر ہی بولنا شروع ہو جاتا ہے؟؟ – یہ منطق سمجھ سے بلا تر ہے

    نیٹ پر سماع موتی سے متعلق ان کے شیدایوں کا ایک یہ مضمون بھی ملا ہے -کہتے ہیں

    اقتباس :
    بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی بھی دل ہی دل میں کہتے ہوں گے کہ امام بخاری ؒ بھی کتنے بڑے بدعقیدہ نکلے جو میت کے کلام کے بھی قائل ہیں ( العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ) اگرچہ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مردہ کیسے کلام کر سکتا ہے

    اس عبارت کو پڑھئیے اور بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی کی بدحواسی کا اندازہ لگائیے۔اگر یہ حدیث بخاری کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہوتی تو جھٹ موضوع قرار دے دی جاتی لیکن چونکہ یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے اور امام بخاریؒ کی عظمت کے موصوف بھی کچھ قائل ہیں۔ لہذا دو راز کارقسم کی باتیں کر کے جان خلاصی کی کوشش کی ہے۔ بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی اگرچہ ابھی پورے منکر حدیث نہیں بنے ہیں کیونکہ ابھی وہ ارتقائی دور سے گزر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی تمام احادیث بلکہ سلف کے اقوال بھی مانتے ہیں اور جو احادیث ان کے نظریات کے خلاف ہوں انہیں کسی طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فرماتے ہیں اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں۔ بھائی کس نے آپ سے کہہ دیا کہ وہ مردہ نہیں ہے۔

    لنک یہاں دیا گیا ہے –
    https://www.facebook.com/Islaah.Emaan/posts/1543341912572208:0

    آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اصل میں بہت سے علماء اس کے قائل ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کلام میں مجاز کا استعارہ کا استعمال نہیں کرتے تھے – اس کی وجہ اصلا الله کے اسماء و صفات میں ان کا عقیدہ ہے الفاظ حدیث کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

      کیا رسول الله وہ عربی بولتے تھے جو ان کے معاشرہ سے الگ تھی ؟ کیونکہ عربی ادب میں مجاز و تشبیہ وغیرہ سب ہے – ظاہر ہے یہ نہیں ہو سکتا

      اہل حدیث وغیرہ کی مجبوری یہ ہے کہ ان کو ہر ہر بات پر سند اور روایت چاہیے- حدیث کا مفہوم بھی کسی دوسری روایت سے متعین کرتے ہیں اب چاہئے دوسری ضعیف ہی کیوں نہ ہو- یہ اصول ٢٠٠ ہجری کے پاس امام احمد نے دیا ہے کہ رائے کو رد کر دو ایک ضعیف حدیث رائے کے مقابلے پر بہت بہتر ہے
      کتاب السنہ از عبد الله بن امام احمد

      یہاں سے ائمہ میں عقیدہ کا اختلاف ہو جاتا ہے

      ڈاکٹر عثمانی نے اہل رائے کی طرح اس روایت کو کلام نبوی کا انداز و مجاز قرار دیا ہے نہ کہ حقیقی
      انہوں نے لکھا
      بخاری کی اس حدیث کے بعد انہی کی دوسری حدیث کو لا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو مردہ کاندھے پر جب اٹھایا جاتا ہے تو بولنے لگتا ہے نیک ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو اور برا ہے تو چیختا ہے کہ ہائے ہائے کہاں لئے جا رہے ہو۔ بھائی اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں پھر اس سے زندگی کا اثبات کیسا رہا اس کا بولنا تو قرآن کی متشابہات کی طرح اس حدیث کی اصلی تاویل کسی کے پاس نہیں کوئی کہتا ہے کہ روح بولتی ہے کسی کا کہنا ہے کہ یہ زبان حال کا قول ہے۔ بہر حال یہ مردہ ‘مردہ ہے زندہ نہیں۔ ورنہ اگر کاندھے کے پاس بولے تو اٹھانے والا کیوں نہ سنے گا۔ بخاری نے بھی باب باندھ کر بتلا دیا کہ وہ اس کو مردہ مانتے ہیں بولنے والا زندہ نہیں

      ڈاکٹر عثمانی کے خلاف یہ تحریر ابو جابر دامانوی کی ہے جو اپنی ہی طرز کی ایک منفرد شاذ شخصیت ہیں
      دامانوی لکھتے ہیں
      ////////
      افسوس صد افسوس آپ کی عقل پر تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے یہاں بات تو ساری میت (مردہ) ہی کے بارے میں ہو رہی ہے۔ راحت قبر یا عذاب قبر زندہ کو تو نہیں ہوتا۔مرنے کے بعد سے قیامت تک کے تمام مراحل سے مردہ ہی گزرتا ہے اب اس کی اس حیات کو جس میں وہ راحت و آرام سے گزرے یا عذاب سے اسے قبر کی زندگی کہہ لیں یا برزخی زندگی کہہ لیں بات تو ایک ہی بنتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حیاۃ فی القبر کے نام سے مغالطہ ہوا ہے تو عرض ہے کہ یہ وہی حیات ہے جسے آپ حیاۃ فی البرزخ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔اب رہا یہ مسئلہ کہ مردہ شعور رکھتا ہے یا نہیں تو یہ اور اس طرح کی بہت سی احادیث بتا رہی ہیں کہ مردہ نہ صرف شعور رکھتا ہے بلکہ وہ راحت و آرام کو محسوس کرتا ہے اور عذاب کو بھی۔ وہ کلام بھی کرتا ہے جسے ہم اور آپ نہیں سن سکتے
      //////

      اپ الفاظ “اس طرح کی بہت سی احادیث بتا رہی ہیں کہ مردہ نہ صرف شعور رکھتا ہے” پر غور کریں

      جبکہ قرآن میں ہے
      اموات غیر الاحیاء
      اور قرآن کہتا ہے
      وما يشعرون أيان يبعثون
      إن کو شعور نہیں کہ جب اٹھیں گے

      اپنی کسی تحریر میں دامانوی نے اس کا بھی مذاق اڑایا تھا کہ زبان حال کیا چیز ہے
      مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا قاری میں سے ان الفاظ کو لیا گیا تھا
      أَيْ: بِلِسَانِ الْحَالِ أَوْ بِلِسَانِ الْمَقَالِ
      یا تو لسان حال ہے (یعنی مجمع کا کہنا ہے) یا کہنے والے مردے کا کہنا ہے

      اسی طرح کتاب دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين از محمد علي بن محمد بن علان بن إبراهيم البكري الصديقي الشافعي (المتوفى: 1057هـ) میں ہے
      قال ابن ملك: إن أريد من الجنازة السرير يكون الضمير في يا ويلها في موضعه لكن يكون المراد من صالحة ومن قدموني ما حمل عليه فيلزم التجوز في موضعين فإرادة الميت أولى، وهذا القول بلسان الحال فيكون استعارة
      اس کو لسان الحال کہنا تو ہو سکتا ہے یہ استعارة ہو

      فتح الباری میں ہے کہ بعض نے اس کا انکار کیا
      وَقَالَ بن بَزِيزَةَ قَوْلُهُ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ دَالٌّ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ بِلِسَانِ القال لَا بِلِسَانِ الْحَالِ

      یہی قول سیوطی کا ہے
      وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ قَبْلَهُ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ دَالٌّ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ بِلِسَانِ الْمَقَالِ لَا بِلِسَانِ الْحَالِ
      کہ یہ لسان حال نہیں ہے

      کتاب المنهل الحديث في شرح الحديث از الأستاذ الدكتور موسى شاهين لاشين کے مطابق
      فقد ذهب البعض إلى أن القول بلسان الحال لا بلسان المقال وهذا الرأي بعيد
      بعض کا مذھب ہے کہ یہ لسان حال ہے نہ کہ لسان مقال اور یہ رائے بعید ہے

      یہاں بعض کا نام چھپا دیا گیا ہے

      اب یہ منہج کی بات ہے کہ اپ مردے کو پاور فل سمجھیں اور اس حدیث کو ظاہر پر لیں یا اس کو مجاز و استعارہ کہیں

      مسلمانوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ایک قول مشھور ہو جاتا ہے تو وہ اس کو ہی تقلید میں نقل کرتے رہتے ہیں اور بعض کہہ کر دیگر مخالف آراء کو چھپا دیتے ہیں

      اہل حدیث ، ڈاکٹر عثمانی کی تحریر سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو متشابھات کے وجود کے قائل نہیں نہیں یہ اسماء و صفات میں اسی پر بحث کرتے رہتے ہیں – اور تکلفا کہتے ہیں متشابھات پر بات نہ کرو ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ان سے جواب نہیں بن پڑتا

      ——–

      ہم تک روایت پہنچی اور خود امام بخاری نے صحیح میں کہیں بھی اپنی رائے نہیں لکھی کہ وہ کیا سمجھتے تھے
      باب میں امام بخاری بھی میت کا کلام کہتے ہیں – اس روایت کے مطابق میت سنتی دیکھتی بولتی ہے – کیا یہ قرآن میں ہے؟
      امام ابو حنیفہ کے نزدیک بالکل نہیں میت فہم نہیں رکھتی اور سن بول نہیں سکتی لیکن محدثین کے ایک گروہ مثلا امام احمد کے نزدیک باں دیکھتی سنتی بولتی ہے – ائمہ کا یہ دینی علم میں منہج کا فرق ایک عظیم فرق بن رہا ہے – یہاں فقہ ہی نہیں عقیدہ بھی اس منہج پر بدل جاتا ہے
      ہم آزاد ہیں کہ کس کی رائے کو صواب سمجھیں

      سادات احناف سماع الموتی کے انکاری تھے نعمان الوسی کی تحریر پر البانی کی تحقیق کتاب آیات البینات موجود ہے
      لیکن متاخرین احناف نے تصوف سے متاثر ہو کر ان روایات کی وہی تشریح کرنا شروع کر دی ہے جو عربیت کے بر خلاف ہے
      کلام میں تشبیہ و استعارہ کا انکار ہے

      امام بخاری خود اپنے دور کے محدثین سے بہت سے مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں مثلا لفظی بالقرآن کا مسئلہ جس پر ان کی کتاب بھی ہے
      ان کا بائیکاٹ بھی عقیدہ کے مسئلہ پر امام ابی حاتم اور امام ابوزرعہ نے کیا ہے

      کیا اس طرح یہ تمام ائمہ ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر رہے؟ یقینا یہ اختلاف اپنی اپنی سوچ کی بنا پر ہیں
      ہم تک خبر کلام نبوی آئی ہے تو ہم آزاد ہیں کہ ہر زاویہ سے اس کو پرکھیں

      صحیح بخاری کے نسخوں میں کیا کیا تبدیلی ہوئی ہم تک نہیں پہنچی کیونکہ سائنسی انداز میں ان نسخوں کو نہیں دیکھا گیا ہے- وقت کے ساتھ صحیح میں انسانی تصرف بھی ہوا ہے اس میں ابواب لوگوں نے بھی شامل کیے ہیں اس کے بعض نسخوں میں بندر کے رجم کا ذکر ہی نہیں
      اس میں سے بعض جگہ امام احمد پر تبصرہ غائب کر دیا گیا ہے

      اب غور سے اس اقتباس کو دیکھیں
      //////////////
      التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح
      المؤلف: أبو الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي الأندلسي (المتوفى: 474هـ)

      وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله
      كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد وَقد بقيت عَلَيْهِ
      مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا

      أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور الْكشميهني اور أبي زيد الْمروزِي نے سب نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ مقام پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی
      ////////

      اس میں جو نام ہیں ان کو سمجھنے کے لئے یہ پڑھیں
      ⇓ صحیح بخاری کے کون کون سے نسخے ہیں اور کون سا پرنٹ ہوتا ہے؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

      الباجی نے جو لکھا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جامع الصحیح کے اصل نسخہ میں ابواب میں اضافہ کیا گیا اس کی اپنے تئیں تصحیح لوگوں نے کی اور ابواب قائم کرنے میں لوگوں نے مدد کی

      اب اپ ہی بتائیں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ابواب واقعی امام بخاری کے قائم کردہ ہیں ؟

      راقم کو شک ہے اور شک پر مذھب نہیں رکھ سکتا کہ امام بخاری مردے کا سننے والا بولنے والا کہتے ہوں
      ==========

      نوٹ
      راقم اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا
      ⇑ کیا مردہ کھاٹ پر بولتا ہے چلو چلو یعنی وہ زندہ ہوتا ہے
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

      Reply
  5. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    جزاک الله
    اصل میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں علماء سوء کے عقائد قرآن و احدیث کے مفہوم کو سمجھنے کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ لوگ اکابر پرستی میں بھی مبتلا رہے ہیں- ایک طبقہ خوصوصاً غیر مقلددین کا طبقہ, قران و احادیث نبوی کے ظاہری الفاظ ہی پر عقیدہ قائم کرتا رہا – ان کے نزدیک قران و احادیث نبوی کو ان کے مجازی معنوں میں لینا بدعت ہے- وہ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین قران و احادیث کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول کرتے تھے- اس لئے ہمارے لئے جائز نہیں کہ اس کی کھوج میں لگ جائیں کہ الله کے الفاظ اور نبی کے الفاظ کی اصل حقیقت معلوم کرتے پھریں – یہی وجہ ہے یہ طبقہ سماع موتی سے متعلق روایات و احادیث کی صحیح توجیہات نہیں کرپاتا – کیوں کہ ان کے اکابر احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ تھا – کہ جب روایت میں آ گیا کہ مردہ سنتا ہے اور روح بدن میں واپس آتی ہے تو اس کو اسی طرز پر قبول کرو جیسا کہ نبی کریم نے بیان فرمایا -یہ طبقہ اگرچہ ظاہر پرستی کی بنا پر قبر پرستی سے ہمیشہ دور رہا لیکن دوسری طرف اکابر پرستی نے اس کو گمراہ کر دیا- صحابہ کرام تو خود نبی کریم کے سامنے موجود تھے – جب کہ ہم نہیں جانتے کہ ان الفاظ کی اصل حقیقت یا مدعا کیا تھا جن کا تعلق امرغیب سے ہے-ہمیں تو قرآن کی آیات اور تمام روایات (صحیح و ضعیف) کو سامنے رکھ کر ہی نتیجہ اخذ کرنا ہے-

    دوسری طرف مقلددین خوصوصاً احناف ہیں- ان کے علماء کا طبقہ جن میں شاہ ولی الله ، سر ہندی، قاسم نانتوی، تھانوی، ملا قاری علی حنفی، ابن عربی وغیرہ سر فہرست ہیں-احناف کا یہ گروہ ہمیشہ سے قران و احادیث نبوی کی مجازی تشریح کا قائل رہا ہے- اور بدعتی فرقوں جہمیہ، مرجیہ، معتزلہ اور خوصوصاً رافضییوں سے متاثر ہونے کے بنا پر قرآن و احادیث کے پانچ پانچ چھ چھ معنی اخذ کرتا رہا ہے اور اس میں رافضیوں کے طرز پر مبالغہ آرائی کی حد تک قرآن و احادیث کی تشریحات پیش کی جاتی رہیں- اس بنا پر یہ طبقہ قبر پرستی، ایصال ثواب، قرآن خوانی اور دوسری بہت سے بدعات کا مرتکب ہوا- ان کے اکابر اسی باطنی عقائد کی بنا پر تصوف زدہ ہوے -ان کے نزدیک انسان روحانی تزکیہ نفس کے ذریے ہی کمال (نیکی) کو پا سکتا ہے- یعنی روح کے ساتھ وابستگی- اب چاہے روح زندہ کی ہو یا روح مردہ کی ہو کوئی فرق نہیں- ان کے نزدیک دونوں ہی کی اپنی جگہ اہمیت ہے – اور ان کے نزدیک مردوں کا ہمہ وقت زندوں سے رابطہ رہتا ہے- اپنے ان باطنی فکر و افکار کی بنا یہ لوگ انبیاء و شہدا ء تو الگ- اپنے نام نہاد اولیاء الله تک کو قبروں میں زندہ کردیتے ہیں -یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے امام ابو حنیفہ ان خرافات سے دور رہے اور صحیح عقیدے کے تحت سماع موتی کے قائل نہ تھے-اگرچہ دین کے چند فقہہی معملات میں ان سے غلطیاں ہوتی رہیں- کچھ میں رجوع کیا (جسے مسلہ فاتحہ خلف الامام وغیرہ ) تو کچھ میں اپنے فہم پر قائم رہے-لیکن مجموعی طور پروہ ان عقائد کے حامل نہ تھے جن پر آج ان کے مقلدین ہیں

    بہر حال ڈاکٹر عثمانی کی نظریات و افکار سماع موتی و کلام موتی سے متعلق قرین و قیاس معلوم ہوتے ہیں اور قرآن کی صریح نص سے میل کھاتے ہیں – بنسبت مقلدین و غیر مقلدین اور اکثر عرب کے غیر مقلدین اور پاکستان کے اہل حدیث علماء کے افکار و نظریات کے- کہ جن کے نظریات حقائق کی نسبت اکابر پرستی پر مبنی ہیں

    باقی صحیح بخاری کے نسخہ جات میں ترمیم سے متعلق آپ کی دی گئی معلومات بھی کافی اہم اور دلچسپ ہیں- وقت ملا تو اس پر بھی تبصرہ کروںگا- ابھی وقت کی کمی کی بنا پر اتنا ہی لکھ سکا

    والسلام

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وعلیکم السلام

      جی صحیح کہا اپ نے

      اگر آج ہم بر صغیر میں دیکھیں تو یہی صورت حال ہے اور چند ممالک کو چھوڑ کر تمام اسلامی ممالک میں تصوف پر اجماع ہو چکا ہے کہتے ہیں امت کی اکثریت گمراہی پر جمع نہ ہو گی اب چونکہ یہ سب روحانیت پسند ہو گئے ہیں تو قبروں پرمعتکف ہیں اور ہر لحظہ صاحب قبر سے قرب الہی کے لئے وسیلہ طلب کرتے رہتے ہیں
      یہ
      living Islam
      ہے

      Reply
  6. jawad

    جی آپ کی بات سے متفق ہوں

    اس میں قصور کچھ ہمارے آئمہ متقدمین و متاخرین کا بھی ہے- جنہوں نے اپنی کتب میں “صحیح کے عنوان” سے ایسی منگھڑت روایات پیش کیں جو برصغیر کے مسلمانوں میں قبرستی سے متعلق جواز پیدا کرتی ہیں بوجہ روح کی قبر میں واپسی کی بنا پر- یعنی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے اور سنننے، بولنے اور زائرین کو پہچاننے کی اس میں وہ شکتی پیدا ہو جاتی ہے جو زمین پر موجود زندہ انسانوں میں بھی نہیں پائی جاتی- جب کہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر زندہ انسان کو کسی گڑھے میں بیٹھا دیا جائے اور اوپرسے مٹی کے ڈھیر سے اس کو بند کردیا جائے اور وہ زندہ بھی ہو تو باہر کے لوگوں کی آواز کیسے سنے گا- کیسے لوگوں (زائرین) کو پہچانے گا ؟؟ انسان کے کان ایک خاص فریکوینسی سے زیادہ کے آگے کی آواز نہیں سن سکتے- اس کا مظاہرہ زلزلے کے دوران عمارتوں اور کھنڈرات میں دبے ہوے انسانوں سے ہوتا ہے – اگر ان زندہ دبے ہوے انسانوں میں رابطے کی قوت ہو- تو ریسکیو والے زمین میں دبے ہوے تمام لوگوں کوزندہ بچا لیں- لیکن ایسا ہوتا نہیں- بیشتر لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں- تو پھر جو مر چکا ہو اس میں ایسی شکتی کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے کہ زمین کے اوپر چلنے والے انسان کی جوتوں کی آواز بھی سن لیتا ہے؟؟

    پھر ساتھ ہی باطل پرستوں کی طرف سے قرآن کی آیات بھی دلیل کے طور پر پیش کی جاتیں ہیں کہ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢ ( بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ (صل الله علیہ وآ وسلم) انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں-

    یعنی الله اپنی قدرت سے مردہ کو سنوا دے جو سنوانا چاہے

    جب کہ اس آیت میں الله کی قدرت کا بیان ہے نا کہ اس کی سنّت کا- قرآن میں تو الله رب العزت یہ بھی فرماتا ہے کہ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ سوره ٢١٠ (کیا وہ انتظار کرتے ہیں کہ الله ان کے سامنے بادلوں کے سایہ میں آ موجود ہو اور فرشتے بھی آجائیں اور کام پورا ہو جائے اور سب باتیں الله ہی کے اختیار میں ہیں

    یعنی اگر الله رب العزت چاہے تو وہ آسمان دنیا کے بادلوں پر خود آ موجود ہو- اب ظاہر ہے یہ اس کی قدرت اور اس کا اختیار ہے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن یہ اس کی سنّت نہیں کہ وہ ایسا کرے

    اس پر متضاد یہ کہ باطل پرستوں کی طرف سے سماع موتی کے جواز میں جو روایات پیش کیں جاتی ہیں- وہاں کہیں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں کہ “الله مردوں کو دفنانے والوں کے جوتوں کی آواز سنوا دیتا ہے یا الله نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کو امّت کا درود سنوا دیتا ہے وغیرہ ) – بلکہ روایات کے الفاظ اسطرح ہیں – ” کہ مردہ دفنانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے (یعنی الله نہیں سنواتا بلکہ مردہ خود سنتا ہے)- نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم تک امّت کا دور سے پڑھا جانے والا درود پہنچایا جاتا ہے اور قریب سے پڑھا جانے والا درود آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم خود سنتے ہیں – جیسا کہ الفاظ ہیں کہ (قریب سے پڑھا جانے والا امّت کا درود میں خود سنتا ہوں)- یعنی جو دلیل کے طور پر پہلے کہا جا رہا تھا کہ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ – اب روایت میں اسی چیز کو نظر انداز بھی کیا جا رہا ہے -بالفرض اگر بیان کردہ ان روایات کو صحیح بھی تسلیم لرلیا جائے تو الفاظ پھر یہ ہونے چاہیے تھے کہ “اللہ ہی مردہ کو جوتوں کی آواز سنوا دے تو سنوا دے کوئی مردہ خود سے نہیں سن سکتا” – الله ہی نبی کو امّت کا درود سنوانا چاہے تو سنوا دے نبی کریم خود سے نہیں سن سکتے” -لیکن یہاں معامله الٹ ہے مردہ خود جوتوں کی آواز سنتا ہے- الله کے نبی خود امّت کا درود سنتے ہیں کیا یہ اس کی ذات و صفات کے ساتھ شرک نہیں؟؟

    یہ امّت روایات میں کھو گئی
    حقیقت خرافات میں کھو گئی

    اللہ سب کو ہدایت دے- آمین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اپ کی بات صحیح ہے کہ فرقہ پرست روایات سنا دیتے ہیں لیکن ان میں
      Analysis
      کرنے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ یہ سوچنے سمجھنے والے لوگ نہیں اکثر کہتے ہیں الله اس فہم سے بچائے جس سے سلف کے عقیدے غلط ثابت ہوں
      پھر اجماع امت کی دہائی دیتے ہیں لیکن کیا یہ تقلید کا نام نہیں ہے ؟ یہی تو تقلید ہے

      مزید یہ کہ قبر پرستی کی روایات میں ایک نام ہے جو نہیں لیا جاتا لیکن ان صاحب کا بہت بڑا رول ہے اور یہ ہیں عبّاسی خلفاء کے اتالیق ابن ابی الدینا صاحب
      ان کی کتب عرب دنیا میں اسلامی کتب میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں اور ابن حجر اعتراف کرتے ہیں کہ اس قسم کی کتب سے عقیدہ کو لیا گیا ہے لہذا ایک تحریر میں لکھتے ہیں

      ////////
      أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں
      أما روح الْمَيِّت ففارقت جسده فراقا كليا لَكِن يبْقى لَهَا بِهِ اتِّصَال مَا بِهِ يَقع إِدْرَاك لبدن الْمُؤمن التَّنْعِيم وَإِدْرَاك الْكَافِر التعذيب لِأَن النَّعيم يَقع لروح هَذَا وَالْعَذَاب يَقع لروح هَذَا وَيدْرك ذَلِك الْبدن على مَا هُوَ الْمَذْهَب الْمُرَجح عِنْد أهل السّنة فَهُوَ أَن النَّعيم وَالْعَذَاب فِي البرزخ يَقع على الرّوح والجسد وَذهب فريق مِنْهُم على أَنه يَقع على الرّوح فَقَط فقد وَردت آثَار كتبت فِي منامات عديدة تبلغ التَّوَاتُر الْمَعْنَوِيّ فِي تَقْوِيَة الْمَذْهَب الرَّاجِح أورد مِنْهَا الْكثير أَبُو بكر بن أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور وَأَبُو عَبْد اللَّهِ بْن مَنْدَه فِي كتاب الرّوح وَذكر الْكثير مِنْهَا ابْن عبد الْبر فِي الاستذكار وَعبد الْحق فِي الْعَاقِبَة وَغَيرهم وَهِي إِن كَانَت لَا تنهض للحجة لَكِنَّهَا مِمَّا تصلح أَن يرجح بِهِ وَإِذا تقرر ذَلِك فَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح وَالْبدن مَعًا يَقُول إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك وَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح فَقَط وَلَا يمْنَع ذَلِك أَيْضا إِلَّا من زعم مِنْهُم أَن الْأَرْوَاح المعذبة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ والأرواح المنعمة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ فقد ذهب إِلَى ذَلِك طوائف من النَّاس وَالْمَشْهُور خِلَافه وَسَنذكر فِي السُّؤَال الرَّابِع أَشْيَاء تقَوِّي الْمَذْهَب الرَّاجِح وَالله الْمُوفق
      پس جہاں تک میت کی روح کا تعلق ہے تو وہ کلی طور پر جسم سے الگ ہو جاتی ہے لیکن اس کا جسم سے کنکشن باقی رہ جاتا ہے جس سے اگر مومن ہو تو راحت کا احساس ہوتا ہے اور کافر کو عذاب کا ادرک ہوتا ہے کیونکہ بے شک راحت روح کو ہوتی ہے اور عذاب بھی روح کو ہوتا ہے اور بدن اس کا ادرک کرتا ہے جو مذھب راجح ہے اہل سنت کے ہاں کہ عذاب و راحت البرزخ میں روح کو اور جسد کو ہوتا ہے اور ایک فریق کا مذھب ہے کہ صرف روح کو ہوتا ہے لیکن مذھب راجح کو تقویت ملتی ہے ان اثار سے جو نیند کے حوالے سے تواتر کو پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ روایات جن کو ابن ابی دنیا نے کتاب القبور میں اور ابو عبداللہ ابن مندہ نے کتاب الروح میں اور ان میں سے بہت سوں کو ابن عبد البر نے الاستذكار میں اور عبد الحق نے کتاب الْعَاقِبَة میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں کہ … بے شک عذاب و راحت روح اور اس کے ساتھ بدن کو ہوتا ہے کہا ہے کہ بے شک میت اپنے زائر کو جانتی ہے اور اپنے پاس قرات سنتی ہے اور اسمیں کچھ مانع نہیں ہے اور جس نے کہا یہ کہ صرف روح کو عذاب و راحت ہوتی ہے تو اس کو ماننے میں بھی کچھ مانع نہیں سوائے اس کے کہ ارواح عذاب میں ہیں اور یا راحت میں مشغول ہیں اور اس طرف ایک خلقت کا مذھب ہے اور مشھور اس کے خلاف ہے
      ////////

      ابن ابی دنیا کی کتب یا الْعَاقِبَة یا الاستذکار میں ضعیف روایات ہیں اس پر عقیدہ بنا کر صحیح روایت کی قرآن سے تطبیق دینے کی بجائے اس کو ضعیف روایات سے سمجھا گیا

      رہی سہی کسر تصوف نے پوری کر دی ہے

      Reply
  7. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    متفق

    دور حاضر کے اہل حدیث “تقلید” کو بدعت کہتے ہیں لیکن خود غیر محسوس طور پر اپنے اکابرین کی تقلید میں غلطاں ہیں

    “ابن ابی الدینا” کا نام پہلی مرتبہ سنا ہے- معلومات کا شکریہ

    ابن حزم رحم الله روح اور زمینی قبر میں عذاب و ثواب سے متعلق صحیح عقیدہ رکھتے تھے جو عین قران کی نصوص کے مطابق ہے

    فرماتے ہیں کہ روح بدن سے نکلنے کے بعد قیامت تک جس مقام میں مقیم ہوتی ہے وہی اس کی قبر ہے

    وہ مزید وضاحت کرتے ہوے کہتے ہیں کہ

    جو یہ گمان کرتا ہے کہ میت کو اس کی قبر میں زندہ کیا جاتا ہے تو یہ غلط ہے – اس لیے کہ مذکورہ بالا آیات اس سے روکتی ہیں – اگر ایسا ہوتا تو پھر ہمیں الله تعالی نے تین مرتبہ زندہ کیا اور تین مرتبہ موت دی – اور یہ باطل اور خلاف قرآن ہے – (الملل والنحل یعنی قوموں کا عروج و زوال: مترجم: عبد الله عمادی: جلد 2 ، صفحہ 736

    اس پر “محدث فورم” کے اراکین نے “اپنا عقیدہ بچاؤ” کے تحت یہ عنوان پیش کیا – لنک نیچے دیا گیا ہے

    ابن حزم کا عقیدہ ؟؟

    اقتباس :
    ابن حزم تو عقیدے میں “جہمی” ہیں، انہیں اہل حدیث شمار کرنا پرلے درجے کی حماقت اور بے وقوفی ہے۔ جہمیہ اور سلفیہ میں کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ شیخ بن باز علیہ الرحمۃ تو ابن حزم کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں کہتے تو آپ انہیں اہل حدیث شمار کر رہے ہیں۔ ابن حزم ایک جید عالم دین تھے اور ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا ان سے متاثر ہونا صرف اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اماموں کا خوب رد کیا ہے تو جن لوگوں کی زندگی کا مقصد رد تقلید ہے تو ان کے واقعتا امام، ابن حزم ہی ہیں۔ کوئی جہمیہ پر اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں تا کہ معلومات میں اضافہ ہو جائے کہ سلفیہ اور جہمیہ کا عقیدے میں فرق کیا ہے۔

    http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D8%B2%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D9%82%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%9F.28288/

    یعنی ابن حزم رحمہ اللہ “بدعتی جہمی” تھے- لہٰذا ان کی بات قابل قبول نہیں- دوسری طرف زازان اور منہال بن عمرو کی بیان کردہ روایات ان کے شیعہ (بدعتی) ہونے کے باوجود دل و جان سے قابل قبول ہیں- کہ ان سے ان (نام نہاد علماء) کا اور ان کے اکابرین کا من پسند عقیدہ “عود روح” جو ثابت ہوتا ہے

    الله سب کو ہدایت دے-آمین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      جی غیر مقلدین صرف ضعیف راویوں کو بچانے کے لئے اس دنیا میں ہیں ان کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں ہے

      ابن حزم ہرگز جھمی نہیں تھے- جھمی تو الله کو ایک شکتی سمجھتے ہیں جو کائنات میں بھیلی ہوئی ہے- دوسری طرف یہ غیر مقلدین رب العالمین کو بالوں والا لباس والا مرد کہتے ہیں جس کی داڑھی مونچھ نہیں – ان روایات کو ابن تیمیہ نے صحیح قرار دیا ہے

      ⇓ اسماء و صفات کے مسئلہ میں محدثین اور امام ابن حزم کے موقف میں کیا فرق ہے اور کیا ابن حزم کے موقف کو جھمیت کہا جا سکتا ہے
      https://www.islamic-belief.net/q-a/محدثین-و-فقہاء-سے-متعلق/

      بات یہ ہے کہ الو پیاز کا فرق تو ان مسلک پرستوں کو پتا ہے لیکن عذاب قبر اور جھمی ہونے کا اپس میں فرق نہیں پتا – جبکہ یہ مان رہے ہیں کہ رد تقلید میں اور جھمیت میں کوئی قرب نہیں- یعنی رد تقلید میں ابن حزم صحیح ہیں لیکن اسماوصفات میں صحیح عقیدہ نہیں ہے تو اگر یہ بات ہے تو اسماء و صفات میں اور عذاب قبر کے مسئلہ میں بھی تو فرق ہے

      اصل میں یہ ڈوجی مولوی لوگ لوگوں کو عجیب غریب اصطلاحات سنا دیتے ہیں جس پر لوگ بھرم میں آ کر چپ ہو جاتے ہیں

      Reply
  8. jawad

    جی ہاں – میرا بھی یہی موقف ہے – ابن حزم پر جھمیت لا الزام صرف تعصب اور مسلک پرستی کی بنا پر ہے- میرا نہیں خیال کے دور قدیم کے آئمہ نے ابن حزم کو “جھمی” کہا ہو -یہ صرف دور حاضر کے سماع موتی کے قائلین اور عرب کے غیر مقلد “بن باز” جیسے فتویٰ بازوں کا ہی نظریہ لگتا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی ابن حزم سے ان لوگوں کو بہت پرخاش ہے کبھی ان کو فلسفی کہتے ہیں اور کبھی جھمی کہتے ہیں اور دیو بندی سرفراز صفدر ان بارے میں کہتے تھے کہ ان کا علم وسیع تھا عمیق نہ تھا
      واہ خواب ہے عمیق نظری شاید قبر پرستی کے دلائل کا انبار لگانے کو یہ لوگ کہتے ہیں
      بہر حال ابن حزم کا عذاب قبر سے متعلق عقیدہ بالکل صحیح ہے

      Reply
  9. وجاہت

    محدث فورم پر ایک بھائی خضر حیات جو سعودی عرب میں ہی ہیں – اس کتاب میں سے عقائد کا باب پڑھنے سے روک رہے ہیں – ان کو کل مرنا ہے اور الله کے حضور حاضر ہونا ہے اس کی کوئی فکر نہیں – بس فکر ہے تو اپنے بابوں کی اپنے جھوٹے عقائد کی – الله ان کو ہدایت دے – آمین

    لنک

    http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D8%B2%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D9%82%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%9F.28288/#post-223022

    بھائی اس کا جواب@خضر حیات بھائی نے یہ دیا ہے۔کہ عقائد کا باب چھوڑ دینا چاہیے ۔اور باقی کتاب پڑلینی چاہیے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عقائد کا باب ؟ کے اسماء و صفات میں الله کا عضو نہ کہنا جهمیت ہے ؟ یہ سراسر دھوکہ ہے
      جھمیت الگ چیز ہے اور یہ کہنا کہ متاشابھات پر بحث نہ کی جائے الگ بات ہے
      خود امام ابن حزم نے جھم کو برا ہی کہا ہے

      باقی رہا عذاب قبر کا اس مسئلہ سے کیا تعلق ہے ؟

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *