کفار پر عذاب قبر کی خبر مکی دور میں دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح کا قرآن میں ذکر ہوا لیکن مدینہ پہنچ کر بھی مومن پر عذاب قبر کا عقیدہ نہیں تھا – نہ یہ اصحاب بدر کے علم میں تھا نہ اصحاب احد کے بلکہ آخری دور میں وفات سے چار ماہ پہلے مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی
بخاری اور مسلم میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی روایات میں یہ آیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ازمایا جائے گا –
صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1314
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَرْمَلَةُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَهِيَ تَقُولُ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔
—–
عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔
صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
حدیث نمبر: 1043
صحیح بخاری جلد 2
سوال یہ ہے کہ ابراہیم کی وفات کس دن ہوئی؟
ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں قول پیش کیا ہے
وذكر الواقدي: أن إبراهيم ابن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مات يوم الثلاثاء لعشر ليالٍ خلون من شهر ربيع الأول سنة عشر ودفن بالبقيع،
اور واقدی نے ذکر کیا بے شک ابراہیم بن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیر کے روز ربیع الاول میں دس رات کم دس ہجری میں وفات ہوئی
لیکن واقدی پر جھوٹ تک کا فتوی لگایا جاتا ہے
بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں
وُلِدَ فِي ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَمَانٍ مِنَ الْهِجْرَةِ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا
ابراہیم پسر نبی ذِي الْحِجَّةِ سن ٨ ہجری میں پیدا ہوئے اور ١٦ ماہ زندہ رہے
یعنی ربیع الاول سن ١٠ ہجری میں وفات ہوئی گویا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل
مسند ابی یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْفِنُوهُ بِالْبَقِيعِ، فَإِنَّ لَهُ مُرْضِعًا تُتِمُّ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح
انساب کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں
ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع
اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے
یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی
صحیح مسلم میں ہے: عمرو نے کہا: جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے کہا: بے شک ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ دودھ پیتے بچے کی عمر میں مرا ہے اور بے شک اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے جو جنت میں اس کی رضاعت پوری کرائے گی
یعنی مومن کے لئے عقیدہ یہ تھا کہ اسکو عذاب نہیں ہوتا اور روح فورا جنت میں جاتی ہے جہاں اس کو ایک ایسا جسم ملتا ہے جو دودھ پی سکتا ہے اس کے لئے عذاب کی کوئی خبر نہیں تھی
بخاری و مسلم کی ہی بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران مومن کے لئے عذاب قبر سے مطلع کیا گیا. مشرک عمرو ابن لحیی الخزاعی جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحیی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی. اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں
لہذا انہی ایام میں جبکہ یہودی عورتوں نے مومنوں پر عذاب قبر کا ذکر کیا ابراہیم پسر نبی کی بھی وفات ہوئی اور سورج گرہن کے دن مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی –
اس کے بعد چار ماہ کی قلیل مدت ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجه الوداع کیا اور غدیر خم کا واقعہ ہوا پھر آپ مدینہ پہنچے اور بالاخر صفر کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہونا شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی-
عذاب قبر کی روایات تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ چار ماہ کی قلیل مدت اس کے تمام مسائل اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار- اس میں تطبیق کی صورت نہیں ہے –
ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں
وقال الحافظ بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ التَّوَسُّلِ وَالْوَسِيلَةِ … وَأَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ
ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک بار گرھن کی نماز پڑھی جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی
یہی بات مبارک پوری نے مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں دہرائی ہے ج ٥ ص١٢٨ پر
وأنه لم يصل الكسوف إلا مرة واحدة يوم مات إبراهيم
اور بلا شبہ گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ اس روز جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی
حاشية السندي على سنن النسائي میں ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں
فَإِن رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً بِالْمَدِينَةِ فِي الْمَسْجِدِ هَذَا
بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گرہن نہیں ملا سوائے ایک دفعہ مدینہ میں اس مسجد (النبی) میں
تيسير العلام شرح عمدة الأحكام میں البسام لکھتے ہیں
أن الخسوف لم يقع إلا مرة واحدة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم
بے شک گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں
محمد بن صالح بن محمد العثيمين شرح ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں
إن الكسوف لم يقع في عهد النبي صلي الله عليه وسلم إلا مرة واحدة
بے شک گرہن واقع نہیں ہوا عہد نبوی میں سوائے ایک دفعہ
سلفی مقلد اہل حدیث عالم ابو جابر دامانوی عذاب قبر الناشر مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی میں لکھتے ہیں
بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔
مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
(مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶)
’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج۶ ص ۸۹)۔
لہذا ایک طرف چار ماہ کی قلیل مدت اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار اب بس ایک ہی رستہ تھا کہ عائشہ رضی الله عنہا کو کہا جائے کہ وہ عقائد بھول جاتی تھیں
ایک عرب محقق عکاشہ عبد المنان کتاب المسند الصحیح فی عذاب القبر و نعیمہ میں لکھتے ہیں
اور جو ظاہر ہے یہودی بوڑھی عورتوں کے واقعہ اور عائشہ رضی الله عنہا کے انکار (عذاب قبر) سے کہ بے شک وہ بھول گئیں جو ان سے پہلے بیان ہوا تھا پس جب انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ بلند کیے اور عذاب سے پناہ مانگی – پس نبی صلی الله علیہ وسلم کا عائشہ رضی الله عنہا کو جواب دلالت کرتا ہے کہ وحی رسول الله کے دل میں تھی وہ نہیں بھولے تھے جیسا کہ الله نے خبر دی ہم تم پر پڑھیں گے تم نہیں بھول پاؤ کے (سوره الآعلی) اور جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو وہ بے شک بھول گئیں جیسے اور بشر اور یہ کوئی عیب نہیں ہے
اور دوسری وجہ ہے : وہ دور جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عذاب قبر کے وجود کی خبر دینے کے لئے وحی نہیں آئی اس کے بعد آپ کو بتایا گیا یہودیوں کے کلام کا اور عائشہ رضی الله عنہآ کی خبر کا پس آپ نے جواب دیا آوروں کی بجائے یہود کے اثبات میں یہاں تک کہ وحی آئی اور خبر دی گئی کہ یہ حق ہے ہر میت اسکی مستحق ہے پس اسکی خبر لوگوں کو باہر نکل کر دی جو وحی ہوئی تھی و الله آعلم
یہ تاویل سراسر لغو ہے اور ذہن سازی ہے – عائشہ رضی الله عنہا اگر عذاب قبر جیسے مسئلہ کو بھول گئیں تو پتا نہیں دین کا کتنا حصہ بھول گئی ہوں؟ صحیح مسلم کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی لیکن کئی راتوں کے بعد عائشہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ عذاب ہوتا ہے – یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مومن پر عذاب قبر کی خبر دس ہجری میں دی گئی اس سے قبل اس کا ذکر نہیں تھا
بھائی منہال بن عمرو پر جرح و تعدیل کے بارے میں بتا دیں جذاک اللہ خیرا
منہال بن عمرو کو بعض محدثین نے ثقہ کہا ہے
بعض نے ضعیف کہا ہے
اور امام شعبہ نے اس کو متروک سمجھا ہے
بھائی اس کی تفصیل مل جائے تو بہتر رہے گا اگر کوئی لنک ہو تو سینڈ کر دیجیئے گا جذاک اللہ خیرا
المنھال بن عمرو
⇑ کیا زاذان اور المنھال بن عمرو پر جرح غلط کی گئی ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
———–
بھائی عذاب قبر کی دلیل کے طور پر مسلم کی زید بن ثابت سے اک روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے یہ اندیشہ نا ہوتا کہ تم لوگ خوف و دہشت کی بنا پر اپنے مردے دفنانا چھوڑ دو گے تو میں دعا کرتا کہ قبر کا عذاب جو میں سنتا ہوں اللہ تمہیں بھی سنا دے ۔۔۔۔تحقیق درکار ہے
حدیث میں اتا ہے
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَائِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ
صحیح مسلم کتاب الجنۃ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ(حدیث نمبر ۷۲۱۳)مشکوۃ ص ۲۵
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اچانک خچر بد کا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں پانچ، چھ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبروں کے اندر جو لوگ ہیں کوئی ان کو جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس حال میں مرے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا شرک کی حالت میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو میں اس میں سے سنتا ہوں
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں
فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ
پس اگر ایسا (گمان )نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا چھوڑ دو گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو میں اس میں سے سنتا ہوں
قائلین عود روح اس کا ترجمہ اپنے مفہوم پر “خوف “کرتے ہیں
اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح کہ میں سنتا ہوں۔
مسلم کی روایت کا مفہوم قائلین عود روح کے نزدیک یہ ہے اگر عذاب اس ارضی قبر میں نہیں ہوتا تو ایسا نہیں کہا جاتا حالانکہ اس کا مطلب یہ بھی ھو جاتا ہے کہ اگر کوئی میت کو دفن نہ کرے تو میت عذاب سے بچ جائے گی؟ چونکہ یہ مہمل بات ھو جاتی ہے لہذا یہ اس کا مفہوم نہیں ھو سکتا- پتا نہیں کس دل گردے کے مالک ہیں وہ لوگ جو عذاب اسی ارضی قبر میں مانتے ہیں اور پھر انہی قبروں کے پاس گزرتے ہیں . قبرستان میں جہاں یہ پتا بھی نہ ھو کہ کس قبر میں ابھی اس وقت عذاب کا دور گزر رہا ہے وہاں لوگ پاس جا کر کھڑے ھو جاتے ہیں – عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا تو عذاب سنوانے کی بات نہ کی جاتی بلکہ عذاب دکھانے کی بات کی جاتی کیونکہ قبریں سامنے تھیں- ان الفاظ کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ اگر تم اپنے مردوں کو دفن نہ کرو گے (اور ان کو جلانا وغیرہ شروع کر دو گے ) تو میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب سنوا دے- ایک مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے اگر میت کی روح کو البرزخ میں ہونے والا عذاب سن لو تو تم اتنے دہشت زدہ ھو جاؤ کہ میت کے جسد کے پاس بھی نہ پھٹکو یہاں تک کہ اس کو دفن بھی نہ کرو اس مفہوم کی تائید منافقین کے حوالے سے مسند ابی یعلی کی روایت کے الفاظ سے ہوتی ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ آمِنَيْنِ حَتَّى تَرُدُّوهُمْ، عَنْ دِينِهِمْ كِفَاءَ رَحِمِنَا» قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي الْجَنَّةِ أَنَا أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي الْجَنَّةِ» ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ آخَرُ فَقَالَ: أَفِي الْجَنَّةِ أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ثُمَّ قَالَ: «اسْكُتُوا عَنِّي مَا سَكَتُّ عَنْكُمْ فلولا أن لا تدافنوا لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم عند الموت
ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا پس اگر ایسانہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، تو میں تم کو خبر دیتا تم میں سے اہل النار کے بارے میں حتیٰ کہ تم ان سے موت پر علیحدہ ھو
مسلم کی طرح اس روایت میں بھی یہی ہے کہ تم دفن نہ کرو گے ، یعنی تم کو ان منافق لوگوں سے اتنی نفرت ھو گی کہ تم ان کو قبر ہی نہ دو گے
ان دونوں روایتوں کے الفاظ پر غور کریں کہ عذاب کا تعلق تدفین سے نہیں – یعنی منافقین کا علم ہونے پر اصحاب رسول ان کو دفن ہی نہ کرتے- کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عذاب اس دنیا کی قبر میں نہیں ہوتا – اگر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اصحاب رسول کو ١٠ ہجری میں بتایا تھا کہ عذاب اسی ارضی قبر میں ہے اور پھر وہ منافقین کے نام بھی بتا دیتے تو ان کو خدشہ تھا کہ اصحاب رسول ان منافقوں کو دفن ہی نہ کریں گے – معلوم ہوا کہ اگر عذاب اسی ارضی قبر میں ہے تو اصحاب رسول ضرور منافق کو دفن کرتے اور کوئی خدشہ نہ رہتا کہ یہ دفن نہ کریں گے- اس پر غور کریں- چونکہ مسند ابی یعلی کی روایت سے قائلین عود روح کے عقیدے پر زک پڑتی ہے انہوں نے اسکو ضعیف کہا ہے
اسکی سند ہے
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
ضعیف ہونے کی دلیل میں کہا جاتا ہے اس کی سند میں لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ ہے – مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ کی لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ سے روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے مثلا سنن ابن ماجہ ح ٢٣٠
دوسری وجہ کہی جاتی ہے کہ اس میں سعید بن عامر کو ابی حاتم نہیں پہچانتے – کتاب الجرح و التعدیل از ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) (4/48 رقم 207 )کے مطابق سعید بن عامر میں بھی کوئی برائی نہیں ہے
سعيد بن عامر روى عن ابن عمر روى عنه ليث بن أبي سليم سمعت أبي يقول ذلك حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: لا يعرف.
حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي – 1] فيما كتب إلى نا عثمان بن سعيد قال: سألت يحيى بن معين قلت: سعيد ابن عامر الذي روى عن ابن عمر من هو؟ قال: ليس به باس.
سعید بن عامر جس نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اور سعید سے لیث نے …… میں نے اپنے باپ سے سنا کہ میں اسکو نہیں جانتا ……اور یحیی ابن معین سے اس پر سوال کا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں
یعنی اگرچہ میرے باپ سعید بن عامرکو پہچان نہ سکے لیکن ابن معین کے نزدیک وہ مجھول نہ تھے بلکہ انکی روایت میں کوئی برائی نہیں
یعنی مسند ابی یعلی کی یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو اعتراض تھا وہ یحیی ابن معین کا قول پیش کر کے ابن ابی حاتم نے دور کر دیا
=============
اب الفاظ پر غور کریں کہ منافق کو دفن ہی نہ کرتے اس کی لاش کو کھلا چھوڑ دیتے
کیا وہ عذاب سے بچ جاتے؟
مسلم کی روایت کا ظاہری مطلب یہ ھو جاتا ہے کہ اگر کوئی میت کو دفن نہ کرے تو میت عذاب سے بچ جائے گی؟ یہ اس کا مفہوم نہیں ھو سکتا-
=============
اسنادی بحث
صحیح مسلم کی سند میں ابہام ہے
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ – قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ – قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَلَمْ أَشْهَدْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ، إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ، وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ – قَالَ: كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ – فَقَالَ: «مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟ ” قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ» ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ
سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ کی سند
یہ روایت سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عن زید بن ثابت کی سند سے نقل ہوئی ہے
سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ البصری المتوفی ١٤٤ ھ سے اس روایت کو (صحیح مسلم میں) إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ عُلَيَّةَ نے اور (مسند احمد میں ) يزيد بن هارون اور ( إثبات عذاب القبر وسؤال الملكين للبیہقی میں) عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ نے سنا ہے
العلل از عبد الله بن احمد میں ہے
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: سألت ابن علية عن الجريري. فقلت: له: يا أبا بشر، أكان الجريري اختلط؟ قال: لا، كبر الشيخ فرق
عبد الله نے کہا میرے باپ احمد نے بیان کیا کہ میں نے ابن علیہ سے پوچھا الجریری کے بارے میں
ابن علیہ سے میں نے کہا اے ابا بشر کیا الجریری مختلط تھے انہوں نے کہا نہیں بوڑھے عمر رسیده تھے لہذا فرق آ گیا تھا
اس دور میں بصرہ میں سن ١٣٢ ھ میں الطاعون آیا (الکامل از ابن عدی) اور اسکے بعد الجريري میں یہ اختلاط کی کیفیت پیدا ہوئی اور بہت سے محدثین نے کہا کہ اس میں ہم نے ان سے سنا اور وہ واقعی مختلط تھے
اسی کتاب میں ہے قبل موته بسبع سنين یہ اختلاط یا کیفیت الجريري پر مرنے سے قبل سات سال رہی
ابن علیہ کے برعکس امام يحيى بن سعيد القطان سختی سے الجریری کی عالم اختلاط والی روایات کا انکار کرتے
اس روایت کے دوسرے راوی امام يزِيد بن هَارُون ہیں جو کہتے ہیں
قَالَ سَمِعت من الْجريرِي سنة إِحْدَى أَو 142 وَكَانَ قد أنكر
میں نے الجریری سے سن ١٤١ یا ١٤٢ میں سنا اور اس وقت ان کا انکار کیا جاتا تھا
یعنی ابن علیہ کی رائے سے يزِيد بن هَارُون متفق نہیں ہیں اور دونوں اس عذاب قبر کی روایت کے راوی ہیں لہذا روایت
عالم اختلاط کی ہے جس کو بعض محدثین پہچان گئے بعض نہ پہچان سکے اور یہ روایت ابن علیہ کی سند سے صحیح مسلم میں آ گئی
عصر حاضر کے بعض لوگوں نے ابن علیہ کے لئے لکھا ہے کہ انہوں نے الجریری سے اختلاط سے قبل سنا ہے جبکہ ابن علیہ کے نزدیک ان کو اختلاط نہیں تھا اور اس کی کوئی دلیل نہیں کہ انہوں نے طآعون سے قبل ان سے سنا
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فِيهِ أَقْبُرٌ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ، فَحَادَتْ بِهِ، وَكَادَتْ [ص:514] أَنْ تُلْقِيَهُ، فَقَالَ: «مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ هَلَكُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ: «لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ» ثُمَّ قَالَ لَنَا: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ» قُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ. ثُمَّ قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ» فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ. ثُمَّ قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. ثُمَّ قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ» قُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ
یہی صحیح مسلم کی روایت یہاں يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ کی جریری کی سند سے ہے يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ خود کہتے کہ میں نے ان سے عالم اختلاط میں سنا
امام بخاری نے اس کیفیت کو بھانپ لیا اور یہ روایت صحیح میں نہیں لکھی
یہ روایت خالد بن عبد الله الواسطی کی سند سے مسند أبي سعيد میں اور موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ازالهيثمي میں
ہے لیکن خالد بن عبد الله الواسطی کا واضح نہیں کہ انہوں نے الجریری سے کب سنا محققین کے مطابق بخاری نے ان سے متابعت میں روایت لی ہے اس روایت میں زيد ابن ثابت کا ذکر بھی نہیں ہے
اس کے تسرے طرق میں عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ جو امام بخاری کے نزدیک ضعیف ھے
یعنی یہ تین طرق اشکال سے خالی نہیں ہیں
—-
انس رضی الله عنہ سے بھی اس کو منسوب کیا گیا ہے
قتادہ کی سند
صحیح مسلم میں اس کی ایک اور سند ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»
اس میں قتادہ کا عنعنہ ہے
——
مسند احمد
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعَ قَاسِمٌ الرَّحَّالُ، أَنَسًا يَقُولُ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرِبًا لِبَنِي النَّجَّارِ كَأَنَّهُ (1) يَقْضِي فِيهَا حَاجَةً، فَخَرَجَ إِلَيْنَا مَذْعُورًا أَوْ فَزِعًا، وَقَالَ: ” لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَسَأَلْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ أَهْلِ الْقُبُورِ مَا أَسْمَعَنِي
اس کی سند میں قاسم بن عثمان البصري ہے وقال الدارقطني في “السُّنَن”: ليس بقوي
بعض کے مطابق یہ القاسم بن يزيد ہے لیکن حیرت ہے ایک کو ثقہ کہا ہے ایک پر جرح ہے دونوں بصرہ کے ہیں دونوں نے انس سے روایت لی ہے اور دونوں کو قاسم الرحال کہا جاتا ہے –
——
اب دو اسناد اور ہیں
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا مِنْ قَبْرٍ فَقَالَ: ” مَتَى مَاتَ صَاحِبُ هَذَا الْقَبْرِ؟ ” قَالُوا: مَاتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ: ” لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ
حميد مدلس ہیں لیکن یہاں اخبرنا کہا ہے اور انس سے ان کا سماع قلیل ہے
——-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ، فَمَرَّ عَلَى حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُهُ، فَحَاصَتِ الْبَغْلَةُ، فَقَالَ: ” لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ
اس میں ثابت البنانی نے بھی اس کو روایت کیا ہے
ان آخری دو اسناد کو صحیح کہا جائے گا لہذا روایت ان دو طرق سے صحیح ہے
———
یہ روایت ام مبشر رضی الله عنہا سے اور جابر رضی الله عنہ سے بھی منسوب ہے – جابر چھوٹے تھے انہوں نے ان صحابیہ سے روایت لی ہے اس کی اسناد ہیں
ام مبشر زيد بن حارثة کی بیوی ہیں اور ان سے جابر بن عبد الله روایت کرتے ہیں
– حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا فِي حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ بَنِي النَّجَّارِ، فِيهِ قُبُورٌ مِنْهُمْ، قَدْ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يُعَذَّبُونَ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ: «اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ». قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ؟ قَالَ: «نَعَمْ، عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ» (حم) 27044
– أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا فِي حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ بَنِي النَّجَّارِ، فِيهِ قُبُورٌ مِنْهُمْ، وَهُوَ يَقُولُ: “اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ” فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلِلْقَبْرِ عَذَابٌ؟ قَالَ: “نَعَمْ، وَإِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ” (رقم طبعة با وزير: 3115) , (حب) 3125 [قال الألباني]: صحيح – “الصحيحة” (1445)
سند میں أبي سفيان طلحة ابن نافع ہے
ابن معین نے اس کی روایات کو رد کیا ہے
وقال ابن معين لا شيء وقال ابن عيينة إنما هي صحيفة عن جابر
وقال أحمد بن زهير: سئل عنه ابن معين فقال: لا شئ
قَالَ سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ: إِنَّمَا أَبُو سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ صَحِيْفَةٌ
ابو سفیان نے یہ روایت جابر سے نہیں سنی
——-
ان تمام اسناد کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بصرہ کی روایت ہے اس میں اہل شہر کا تفرد ہے اور عقیدہ عذاب قبر کی معلومات ایک شہر میں ہی محدود کیوں ہیں اس کا معلوم نہیں ہو سکا
جزاک اللہ خیرا ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
Sahih Muslim Hadees # 2132
و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَمْ تَرَوْا الْإِنْسَانَ إِذَا مَاتَ شَخَصَ بَصَرُهُ قَالُوا بَلَى قَالَ فَذَلِكَ حِينَ يَتْبَعُ بَصَرُهُ نَفْسَهُ
ابن جریج نے علاء بن یعقوب سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے میرے والد نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیاتم انسان کو دیکھتے نہیں کہ جب وہ فوت ہوجاتاہے تو اس کی نظر اٹھ جاتی ہے؟ ” لوگوں نے کہا : کیوں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی نظر اس کی روح کا پیچھا کرتی ہے ۔ ”
Sahih Hadees
بھائی اس حدیث سے فرقہ پرست مردے کا دیکھنا ثابت کرتے ہیں ۔۔۔تحقیق درکار ہے
یہ تو معدوم ہوتی نظر کی خبر ہے
جب آپ سونے والے ہوتے ہیں تو نظر بند ہو رہی ہوتی ہے ایسی ہی کیفیت ہے
ان جہلاء کا کوئی علاج نہیں یہ تو مردے کو مردہ یا میت ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں
اس کو زندہ ہی بتاتے رہتے ہیں
السلام و علیکم و رحمت الله
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ-ترجمہ: کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ارمایا جائے گا
اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ “إن الناس يفتنون في قبورهم كفتنة الدجال: ترجمہ: لوگوں کو ان کی قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح آزمایا جائے گا
آپ نے اپنے فورم پرکسی جگہ ان روایات کو صحیح کہا ہے
سوال ہے کہ قبر میں انسان کی آزمائش کی کیا نوعیت ہے ؟؟
جب کہ قران تو قبر کے مردوں کے متعلق فرماتا ہے کہ :
أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سورة النحل
وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ کب (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔
شعور کے بغیر عذاب و ثواب کو محسوس کرنا یا آزمائش برداشت کرنا (یعنی فرشتوں کے سوالوں کا دینا ممکن نہیں)- جب کہ تمام انبیاء کرام کی تعلیم کے مطابق اس دنیا کو ہی دار آزمائش قرار دیا گیا ہے جہاں زندہ انسان سے ان کے اعمال کے مطابق آزمائش ہوتی ہے اور اس کا بدلہ آخرت کے لئے محفوظ ہے- قبر کو آزمائش کی جگہ کہنا بعید از قیاس لگتا ہے- (یعنی زمینی قبر کو
پھر مذکورہ روایات کے الفاظ عموم کی آزمائش کی طرف اشارہ کرتے ہیں- یعنی ہر شخص قبر کے فتنے کا سامنا کرے گا- چاہے مومن ہو یا کافر یا منافق ہو, عام مسلمان ، نبی ہو یا غیر نبی- سب ہی اس فتنے کا شکار ہونگے – لیکن دلچسپ بات ہے کہ اتنی اہم چیز کا نا تو قران میں کہیں ذکر ہے اور نا کوئی دعا اس کے لئے مذکور ہے جس کے ذریے اس قبر کی فتنے سے محفوظ رہا جا سکے ؟؟
کیا کہیں گے آپ اس بارے میں ؟؟
مومن پر عذاب کی خبر سن ١٠ ہجری میں نماز کسوف میں دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں ہونے والے عذاب دیکھانے گئے پھر خطبہ میں آپ نے اس کا ذکر فرمایا
جو عذاب دیکھے وہ یہ تھے
اول عمرو بن الحی اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا
دوم ایک عورت کو جہنم میں دیکھا جس کو بلی نوچ رہی تھی جس کو اس نے باندھ کر بھوکا مار ڈالا
سوم حاجیوں کا سامان چور لاٹھی پر ٹیک لگائے جہنم میں تھا
ان احادیث کا ذکر صحیح بخاری صحیح ابن حبان وغیرہ میں ہے
آپ غور کریں خبر عذاب قبر کی دی جا رہی ہے لیکن ایک بھی عذاب- قبر میں نہیں ہے بلکہ تمام جہنم کے مناظر ہیں
اس کے بعد خطبہ میں فرمایا عذاب قبروں میں ہو گا اور میں نے جہنم کو مصلی پر دیکھا میں نے دیکھا پھر ان عذابات کا ذکر کیا
اس سے معلوم ہوا کہ عذاب قبر کا مقام جہنم ہے کیونکہ قرآن نے یہ بات دماغ میں بیٹھا دی کہ مردہ مٹی مٹی ہو جائے گا اور خود رسول پاک نے فرمایا سب مٹی ہو گا صرف ایک ہڈی رہے گی
مجھے تلبیس ابلیس میں ابن جوزی کا ایک قول اس پر ملا جس سے بات مزید واضح ہو گئی کہ
ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں ہے (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں ہے
اگر ابن جوزی آجکل کے کوئی برصغیر کے ہوتے تو مولوی بولتے اس کو عربی نہیں اتی – قبر زمین میں ہوئی ہے تو عذاب بھی وہیں ہو گا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ احادیث کو سمجھ کر ابن جوزی جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ عذاب قبر اصلا عذاب جہنم ہی کا نام کہنا ہے
دوم تمام فرقے قرآن سے عذاب قبر کی دلیل کے لئے سورہ مومن کی آیات پیش کرتے ہیں
کہ ال فرعون کو اگ پر پیش کیا جا رہا ہے اور سلف و خلف کے علماء اس کو عذاب جہنم ہی کہتے آئے ہیں
یہاں تک کہ روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ عذاب ان کو کالے پرندوں کے جسم میں دیا جا رہا ہے ان کو جہنم پر اڑایا جاتا ہے جس کی تپش وہ محسوس کرتے ہیں
لہذا قبور سے مراد مرنے والے کا عالم ارواح کا یا عالم بالا کا مقام ہے
و اللہ اعلم
مختصرا اس کتاب میں بحث ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/10/عذاب-قبرکی-حقیقت-کتاب.pdf
——-
تفصیلا یہاں ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/08/اثبات-عذاب-قبر-A5.pdf
جزاک الله
میں نے دیکھا ہے کہ بعض اہل حدیث یا وہابی علماء اپنے نظریات کو دوام بخشنے کی خاطر بڑے بڑے محدثین پر جرح کیے بغیر نہیں رہتے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/08/%D8%A7%D8%AB%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%A8-%D9%82%D8%A8%D8%B1-A5.pdf
مندرجہ بالا کتاب میں نور پوری صاحب نے یحیی بن معین ، ابن شعبہ، ابن جوزی ، جو زجانی جیسے بلند پایا محدثین کو بھی نہیں چھوڑا – ہر ایک پر بے جا تنقید کی ہے- صرف راویوں منہال بن عمرو اور زازان کو بچانے کے لئے
لیکن جب ابن تیمیہ یا ابن قیم پر عود روح یا عذاب قبر(زمینی) سے متعلق ان کے باطل نظریات کی بنا پر تنقید کی جاتی ہے- تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں
الله رب العزت نے تو قران میں واضح کردیا کہ مرنے کے بعد انسان گل سڑ جاتا ہے مٹی ہو جاتا ہے اور قیامت کے دن ہی اٹھے گا -لیکن چوںکہ قبر کا معامله زندہ انسانوں سے مخفی رکھا گیا ہے- اس بنا پر آجکل کے مولویوں کے لئے عوام میں سسپینس پھلانا مرغوب مشغلہ بن گیا ہے – عوام جوق در جوق دلچسپی سے ایسے بیانات یا کہانیاں سنتے یا پڑھتے ہیں جن میں روح کی واپسی کا ذکر ہوتا ہے یا زمین پر مردہ پر گزرنے والے حالات و واقعیات کا ذکر ہوتا ہے-اور انہی عقائد پر ہی مولویوں کی دکان چلتی ہے- اب اگر روایات سے یہ ثابت کردیا جائے کہ انسان کی روح اس دنیا میں واپس نہیں آے گی قیامت تک کے لیے- تو پھر سارا سسپینس ہی ختم ہو جاتا ہے
درست فرمایا
عقائد کو شخصیات سے بلند ہو کر دیکھنا چاہیے
عقائد حقائق ہیں اصول و قوانین ہیں جو غیر متبدل ہوتے ہیں
حدیث میں آتا ھے عذاب قبر کو چارپائے سنتے ھیں
جانور تو اسی زمین کے پاس ھوتے ھیں نہ کہ برزخ میں تو ثابت ھوا اسی دنیاوی قبر میں میت کو عذاب ھوتا ھے ۔۔۔
آپکی وضاحت درکار ھے
⇓ کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/
امام طحاوی کی تحقیق ہےکہ یہ روایت منکر ہے کیونکہ اس سے واقعہ کسوف کی دیگر روایات کا رد ہوتا ہے
اوپر لنک میں جا کر اس سوال کے تحت آپ تفصیل دیکھ سکتے ہیں