عرش عظیم اور بعض محدثین کا غلو

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب  آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا !   افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں-

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث“.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو  در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی  کہتے ہیں کہ  مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں   کہ  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے[1]

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے-

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پرآجائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ آپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں  (نبی کو)عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ  الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے کہا  ہم ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتو فى:458ھ) کے مطابق

الْمَرُّوذِيُّ  نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی  الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ     کہا   اور کبھی  الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ کہا

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی بھی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا   یہ    قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں   اس زمانے  کا  کوئی محدث  بھی نہیں ملتا-

الذہبی کتاب العرش میں بلا دلیل  اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  ہے  لیکن مشہور  نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی محدث   ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشہور  امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

 صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کو الْجَهْمِيَّةُ  کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے-

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو -لیکن جس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته  وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

مخالفین کا جواب 

راقم کی اس تحریر کا جواب لوگوں نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں اس فرقے کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ عرش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کو بٹھایا جائے گا لیکن یہ بات حق ہے کہ اس غلط عقیدے کو  محدثین نے  قرن دوم و سوم میں  قبول کر لیا تھا – قرن دوم میں اس عقیدے کو رد کرنے والے صرف  جھمی  تھے  – قرن دوم میں کوئی محدث نہیں تھا جو  اس عقیدے کو رد   کرتا ہو

راقم کا جوابا کہنا ہے کہ اگر کوئی محدث اس عقیدے کو رد نہیں کرتا تھا تو اس کو  آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ  کی جانب سے  رد کیوں  کیا گیا ؟ الذھبی  نے بھی رد کیا –  البانی نے بھی رد کیا – لیکن سعودی عرب کے بعض چوٹی کے مفتیان کا عقیدہ ابھی تک اسی عقیدے پر ہے –  مزید یہ کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ   ترمذی جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں محدث امام ترمذی ہی   تھے جن کوقرن دوم میں  جھمی کہا جا رہا تھا – اغلبا یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی ایک مجہول تھے

—————————————

[1] http://islamqa.info/ur/154636

نوٹ

ابن تیمیہ کے نزدیک امام ترمذی کے اقوال جھمیوں جیسے ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِ میں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.

بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ کا علم نیچے اتا ہے اور اس کی قدرت و سلطان اس کا علم قدرت و حکومت ہر مقام پر ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا اس کی صفت کتاب میں ہے

ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.

 ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ

اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *