اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو
Book of Isaiah
کہا جاتا ہے
اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں
سرافیم سے مراد سانپ ہیں
Hebrew Strong Dictionary
کے مطابق
- שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.
https://www.blueletterbible.org/lang/lexicon/lexicon.cfm?Strongs=H8314&t=KJV
یہود کی ایک قدیم کتاب
Book of Enoch
میں باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے
Hence they took Enoch into the seventh heaven
1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me:
2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there?
پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج، روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟
کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا
Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons
اکسات حبشی میں سانپ ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Seraph
توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے
Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.
اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے
عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور فرشتہ کہا جاتا ہے چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا
Fallen Angel
کہتے ہیں
لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا
ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ
ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں
Ananta Shesha, Adishesha “first Shesha”.
یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے
اسلام میں عرش کے گرد سانپ
اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں جن کو محدثین روایت کرتے ہیں – اس روایت کو عبد الله بن أحمد “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں الدينوري کتاب “المجالسة” (2578) میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں
طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں
حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي) ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ
في السَّلاسِل
أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے
کتاب السنہ میں ہے
حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ
کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»
کتاب مختصر العلو میں البانی کہتے ہیں
قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.
میں البانی کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.
مجمع الزوائد (8/135) میں الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں
رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة
اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں
بعض علماء نے غلو میں یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے – الهيثمى اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں- اس طرح یہ غلو چلا آ رہا ہے
أبو الشيخ العظمة (4/1298) میں روایت کرتے ہیں
حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش .
معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے
الهيثمى مجمع الزوائد (8/135) میں کہتے ہیں
وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات
اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں
امام العقيلى کتاب الضعفاء الكبير (3/60) میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا سند ہے
حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .
اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے
کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں
أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش
اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے
صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے
راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا
عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے السنن الكبرى 7/349 میں کہا ہے
وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته
اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے
یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے
غیر مقلد عالم البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں
کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے
السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل
هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –
بهذا الإسناد؟
الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.
مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟
الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.
والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟
هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.
فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.
فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟
الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.
باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.
سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.
الشيخ: وإياك بارك الله فيك.
مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.
الشيخ: جزاك الله خيراً.
“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).
سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو کیا یہ حدیث صحیح ہے جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے اس اسناد سے ؟
البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے
مداخلة: نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟
البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ اپ کے لئے تھا ، یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان کا جو کے بعد ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے- پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے نہیں ہونا چاہیے
پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے – انسان فورا جان جاتا ہے کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟
ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے التوراة والإنجيل کے بارے میں نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں
اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے – اپ غور کریں یہ روایت عرش کی خبر ہے اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی کے گلے میں اٹک گئی ہے کیونکہ وہ اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب یہ بھی نہیں کہتے کہ لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو
اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ الإسرائيليات روایت کرتے تھے ؟ ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا
لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.
لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے
اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور افسوس ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں پر روایت کا بار نہ ڈالا
بھول جانے والے، غلطی کرنے والے یا اختلاط کا شکار راویوں کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے
جھمیوں کے رد میں محدثین پر ایک جنوں سوار تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ جوش میں اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی
آپ نے کہا ہے کہ
اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ الإسرائيليات روایت کرتے تھے
یہ پروپیگنڈہ کہاں کر رہے ہیں – پلیز لنک دیے جائیں
⇓ ابن کثیر کہتے ہیں عبد الله بن عمرو بن العآص رضی الله عنہ إسرائيليات کی روایات بیان کرتے تھے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/قرآن-سے-متعلق/
“مثلا حواب کے کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے”
آپ کی بات صحیح ہے- اکابر پرستی میں اکثر علماء اصحاب رسول یا صحابیات رضوان الله اجمعین پر تبرّا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے-اب یہی دیکھ لیں کہ قلیب بدر کے متعلق حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا موقف بڑا واضح تھا کہ الله کہ نبی مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ وہ سن رہے تھے – یہ تو صرف ایک ظاہری خطاب تھا جو آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے قلیب بدر سے کیا تھا تا کہ لوگ عبرت حاصل کریں- لیکن زبیر علی زئی اور عبدللہ جابر دامنی جیسے علماء کہتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی الله عنہ سے اس معاملے میں اجتہادی غلطی ہوئی تھی- یعنی ان کے مطابق ثقہ راوی تو غلطی نہیں کر سکتے لیکن وہ ہستی (ام المومینین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہ) کہ جن کے گھر میں قرآن نازل ہوا ان سے اجتہادی غلطی ہو گئی؟؟
اسلام علیکم
جی بالکل آپ صحیح فرمارہے ہیں، پتہ نہیں کہاں سے یہ مسلمانوں میں خود ساختہ اجماع ہوگیا ہے کہ احادیث کے راوی حضرات، خصوصا وہ جو بخاری و مسلم کے ہیں، وہ ہر طرح کی غلطی، خطا، فہم کی چوک، حافظہ کی کمزوری، نسیان وغیرہ دیگر انسانی کمزوریوں سے پاک و منزہ ہیں۔ اور اگر وہ ثقہ بھی ہیں، تب تو وہ لازمی “معصوم عند الخطاء” ہیں۔ ہاں تمام صحابہ ، امہات المومنین کے حق میں یہ عقیدہ اخذ کرلیا گیا ہے کہ یہ حضرات خطا کے پتلے ہوسکتے ہیں، اور ان صحابہ سے خطائے اجتہادی ہوسکتی ہے۔ ایک موٹی سے مثال دیتا ہوں۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر چار میں نبی کریم ﷺکی دو ازواج مطہرات کے تذکرہ کیا گیا ہے کہ انکے دل برائی کی طرف جھک گئے تھے، اور انکو توبہ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ( 3 )
اور (یاد کرو) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتا دی)۔ جب اس نے اس کو افشاء کیا اور خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا تو پیغمبر نے ان (بی بی کو وہ بات) کچھ تو بتائی اور کچھ نہ بتائی۔ تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ( 4 )
(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں
لیکن ہمارے روایان حدیث، اور مفسرین حضرات نے عام طور پر اس واقعہ کو ایک ناگوار داستان کی شکل دےدی ہے۔ لیکن
یہاںقرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے کیا راز کی بات کہی اور کس بیوی سے کہی، بلکہ اسکو پردے ہی میںرکھا۔ اس وجہ سے راز کے درپے ہونا جائز نہیں سمجھتے۔ حضور اکرم ﷺ کی ازواج ہمارے لئے ماؤں کی منزلت میں ہیں۔ بیٹوں کے لئے یہبات کسی طرح پسندیدہ نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی ماؤں اور باپوں کے درمیان رازوں کےکھوج میں لگے۔
بالخصوص جب کہ اس راز کے انکشاف سے اس آیت کے فہم میں کوئی مدد بھی نہ مل رہی ہو۔ یہاں رازکے افشاء ہی پر تنبیہ فرمائی ہے
تو اگر ہم اسکے درپے ہونگے تو اسکے معنیٰ یہ ہوئےکہ جس چیز سے روکا گیا ہے، ہم نے اسکا ارتکاب کیا،
لیکن ہمارے مفسرین اور روایان حدیث نے اس حضور اکرم ﷺ کے راز کو راز بھی نہ رکھا۔ جس بات کو قرآن تک نے پردہ اخفاء میں رکھا، اسی کو بخاری اور مسلم کے روای حضرات نے اپنی حدیثوں میں کھول کر رکھ دیا۔ اور شائد زبردستی حضور اکرم ﷺ کے راز کھولنے والی ہستیوں کے نام سیدہ عائشہ رض اور سیدہ حفضہ رض رکھ دئیے۔
قرآن میں اس طرح اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہےکہ یہ افشائے راز کن بیوی پر ہوا؟ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ معاملہ ازواج مطہراتکے درمیان ہی کا ہے۔ کسی غیر کے سامنے کوئی افشائے راز نہیں ہوا۔ مفسرین حضرات نے عام طور پر حضرت عائشہ صدیقہ رض اور حضرت حٖفضہ رض کے نام لئے ہیں۔
جی صحیح کہا اپ نے نے
مسلمانوں میں ثقہ راویوں کی عزت اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ چکی ہے اور ہم ایک دوسرے کو جاہل اس بات پر کہہ رہے ہیں کہ کوئی ان راویوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرے لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ جو سوره المنافقون میں ہے
ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اگر عزت ہے تو الله اور اس کے رسول اور اصحاب کی ہے
یہاں تک کہ آج تو لوگ اپنی جماعت کے امیروں کے لئے آیت کا استمعال کرنے لگ گئے ہیں کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لا تَشْعُرُونَ
گویا کہ جو رتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تھا اس پر اپنے امیروں کو لا بٹھایا ہے
اب جب یہ علماء کا حال ہو تو پھر عذاب کیوں نہیں آئے گا