دینی خبروں کو اسلامی لٹریچر میں خبر واحد یا متواتر میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے کہ بعض حلقوں میں یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں –
راقم نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے خود قرآن میں بیان کیا کہ سچے ہدہد نے خبر واحد کو یقینی خبر قرار دیا اور جب سلیمان علیہ السلام نے جانچ پڑتال کی تو معلوم پڑا کہ ہدہد کی بیان کردہ خبر واقعی درست ہے – غور طلب ہے کہ ہدہد نے کوئی سند نہیں پیش کی تھی کہ حدثنا و اخبرنا سے کچھ بیان کیا ہو اور سند رجال و سند طیور پر غور کر کے راوی کو ثقہ و غیر ثقہ قرار دیا گیا ہو
اس طرح معلوم ہوا کہ ایک سادہ خبر جو کوئی بھی بیان کرے اور چاہے محدث ہو یا نہ ہو اس کی خبر کو قبول کیا جائے گا اگر قرائن و حقائق پر اتر رہی ہو
اس سلسلے کی مزید دلیل انبیاء کی نبوت کی خبر ہے – ایک رسول جب اپنی قوم کے پاس بعثت رسالت کے بعد پہلی بار جاتا ہے تو وہ اصلا ایک خبر واحد ہوتی ہے – اس پر اس وقت یہ ضروری بھی نہیں کہ کسی کتاب اللہ کی آیت ہو – مثلا موسی علیہ السلام یا ہارون علیہ السلام اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان کو خبر دی کہ ان کو منصب رسالت عطا کر دیا گیا ہے – اس وقت ان کے پاس توریت کی کوئی ایت تک نہیں تھی کیونکہ توریت کا نزول تو خروج مصر کے بعد ہوا – اسی طرح کی مثال رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے قرآن کی سورہ العلق کی شروع کی پانچ آیتین ان کو دی گئیں اور ان میں کہیں بھی نہیں ہے کہ رسول اللہ کو منصب رسالت دیا گیا ہے بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ تمام علوم کا منبع اللہ تعالی ہے اس نے قلم سے انسان کو وہ وہ سکھایا ہے جس کا انسان کو علم نہیں تھا – ان پانچ آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر و خدیجہ رضی اللہ عنہم کو سنایا اور پھر ان لوگوں نے اس کو خبر واحد کو خبر من جانب الله قرار دیا –
مزید دیکھیں