علی ، کعبہ اور زحل

ایک فلم نبأ السماء یعنی آسمانی خبر کے عنوان سے بن رہی ہے جس کو ایک کویتی رافضی فلم ڈائریکٹر عباس الیوسفی بنا رہے ہیں
فلم کا ایک ٹریلیر راقم نے دیکھا اور اچھا لگا البتہ اس میں ضعیف روایات پر منظر کشی کی گئی ہے
مثلا ایک مجہول الحال راوی یزید بن قعنب کے قول پر فاطمہ بنت اسد کا قصہ دکھایا گیا ہے کہ وہ کعبہ میں چلی گئیں اور علی رضی اللہ عنہ  کی وہاں پیدائش ہوئی
قابل غور کہ شیعہ مورخین کے پاس اس واقعہ کی کوئی سند نہیں سوائے اس ایک  یزیدی خبر کے
یزید بن قعنب کا احوال راقم کافی دن سے مصادر اہل تشیع و اہل سنت میں ڈھونڈھ رہا ہے لیکن ابھی تک نہ متقدمین میں نہ متاخرین میں اس شخص  پر کوئی قول ملا ہے

فلم میں علی اور سیارہ زحل کو بھی دکھایا گیا ہے جو آج اس بلاگ کا موضوع ہے


اس منظر کی وجہ راقم نے ڈھونڈی تو  مندرجہ ذیل روایت ملی – مستدرك سفينة البحار از علي النمازي اور بحار الأنوار / جزء 26 / صفحة[112] از ملا باقر مجسلی، الخصال از الصدوق
أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری میں ہے

حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رضي الله عنه قال : حدثنا علي بن الحسين
السعد آبادي ، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، وغيره ، عن محمد بن سليمان
الصنعاني ( 1 ) ، عن إبراهيم بن الفضل ، عن أبان بن تغلب

قال: كنت عند أبي عبد الله (عليه السلام) إذ دخل عليه رجل من أهل اليمن فسلم عليه فرد أبو عبد الله (عليه السلام) فقال له: مرحبا يا سعد، فقال له الرجل: بهذا الاسم سمتني امي، وما أقل من يعرفني به، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت يا سعد المولى. فقال الرجل: جعلت فداك، بهذا كنت القب، فقال أبو عبد  الله (عليه السلام): لا خير في اللقب إن الله تبارك وتعالى يقول في كتابه: ” ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الايمان ” (1) ما صناعتك يا سعد ؟ فقال: جعلت فداك إنا أهل بيت ننظر في النجوم لا يقال: إن باليمن أحدا أعلم بالنجوم منا. فقال أبو عبد الله (عليه  السلام): كم ضوء المشترى على ضوء القمر درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، كم ضوء المشتري على ضوء عطارد درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الابل ؟
فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت البقر ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام) صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الكلاب ؟ فقال اليماني: لا أدري. فقال له أبو عبد الله (عليه السلام). صدقت في قولك: لاأدري، فما زحل عندكم في النجم ؟ فقال اليماني: نجم نحس، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): لا تقل هذا فانه نجم أمير المؤمنين صلوات الله عليه فهو نجم الاوصياء عليهم السلام وهو النجم الثاقب
الذي قال الله في كتابه (2). فقال اليماني: فما معنى الثاقب ؟ فقال: إن مطلعه في السماء السابعة فإنه ثقب بضوئه حتى أضاء في السماء الدنيا فمن ثم سماه الله النجم الثاقب، ثم قال: يا أخا العرب عندكم عالم ؟ قال اليماني: نعم جعلت فداك إن باليمن قوما ليسوا كأحد من الناس في علمهم. فقال أبو عبد الله (عليه السلام): وما يبلغ من علم عالمهم ؟ قال اليماني إن عالمهم ليزجر الطير ويقفو الاثر في ساعة واحدة مسيرة شهر للراكب المحث (3)، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): فان عالم المدينة أعلم من
عالم اليمن، قال اليماني: وما يبلغ من علم عالم المدينة ؟ قال: إن علم عالم المدينة ينتهي إلى أن يقفوا الاثر ولا يزجر الطير ويعلم ما في اللحظة الواحدة مسيرة الشمس تقطع اثنى عشر برجا واثنى عشر برا واثنى عشر بحرا واثنى عشر عالما، فقال له اليماني: ما ظننت أن أحدا يعلم هذا وما يدرى ما كنهه  قال: ثم قام اليماني ،

أبان بن تغلب نے کہا میں امام ابو عبد اللہ جعفر کے ساتھ تھا جب یمن کے کچھ لوگ آئے وہ ان کے پاس گئے سلام کیا اور امام نے جواب دیا مرحبا اے سعد- اس یمنی شخص نے کہا یہ نام مجھ کو میری ماں نے دیا ہے لیکن کچھ ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں – امام نے فرمایا اے سعد المولی سچ کہا – وہ شخص بولا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے مجھے لقب دے دیا – امام نے فرمایا القاب میں خیر نہیں ہے اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں کہا ہے کہ برے القاب دینے سے پرہیز کرو فسق میں نام کرنا سب سے برا کام ہے – تیرا کیا کام ہے اے سعد ؟ وہ بولا ہم فدا ہوں: ہم اہل بیت ستاروں کو دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس نے کہا ہم یمنییوں میں نجوم کو سب سے زیادہ دیکھتے ہیں – امام بولے یہ مشتری کی روشنی کا درجہ چاند کی روشنی پر کتنا ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو سچ بولا، یہ مشتری کی روشنی و چمک عطارد کے مقابلے میں کس درجہ پر ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا –  پھر امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو اونٹ و اونٹنی جماع کرتے ہیں ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا – امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو گائے و بیل جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو کتے جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
امام نے پوچھا : یہ زحل تیرے نزدیک کیا ہے ؟
یمنی بولا ایک بد بختی لانے والا ستارہ ہے
امام نے فرمایا ایسا مت بولو یہ تو امیر المومنین صلوات الله عليه کا ستارہ ہے یہ الاوصياء کا ستارہ ہے اور یہی نجم ثاقب ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے کتاب اللہ (سورہ الطارق ) میں کیا ہے
یمنی بولا : الثاقب سے کیا مراد ہے ؟ امام نے فرمایا یہ ساتویں آسمان میں طلوع ہوتا ہے اور اس سے آسمان دنیا روشن ہو جاتا ہے
اسی بنا پر اللہ نے اس کا نام نجم الثاقب رکھا ہے
امام نے پوچھا کہ اے عرب بھائیوں کیاتم میں کوئی عالم بھی ہے ؟
یمنی بولا جی ہاں، ہم فدا ہوں ، یمن میں ایک قوم ہے جن سے بڑھ کر کسی قوم کا علم نہیں ہے
امام نے فرمایا مدینہ کا عالم تو یمن کے عالم سے بڑھ کر ہے
یمنی بولا یمنییوں کے عالم تو پرندہ کی اڑان سے، اور اثر کے نشان سے گزرے ہونے مسافر تک کی خبر کر دیتے ہیں جس کو ایک ماہ ہوا ہو اور اس مقام سے گزرا ہو
امام نے فرمایا مدینہ کے عالم کا علم تو یہاں تک جاتا ہے کہ پرندہ کی اڑان دیکھنے والا یمنی عالم تک اس کی حد تک نہیں جا سکتا – مدینہ کا عالم تو ایک لمحہ میں جان لیتا ہے کہ  سورج نے کن بارہ ستاروں کو پار کیا، کن بارہ صحراؤں کو پار کیا ، کن بارہ سمندروں کو پار کیا ، کن بارہ عالموں کو پار کیا
یمنی بولا میں فدا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس قدر جان سکا ہے اور مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہے
پھر وہ یمنی اٹھا اور چلا گیا

نوٹ راوی محمد بن سليمان الصنعاني پر کوئی تعدیل و جرح شیعہ کتب میں نہیں ملیں لہذا یہ مجہول ہوا
اسی طرح راوی إبراهيم بن الفضل پر کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري میں لکھا ہے
أبو اسحاق ابراهيم بن الفضل الهاشمي، المدني. محدث مجهول الحال،

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں ہے

الكافي: عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية، عن سليمان بن خالد، قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الحر والبرد ممن (2) يكونان ؟ فقال لي: يا أبا أيوب، إن المريخ كوكب حار وزحل كوكب بارد فإذا بدأ المريخ في الارتفاع انحط
زحل، وذلك في الربيع، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع المريخ درجة انحط زحل درجة ثلاثة أشهر حتى ينتهي المريخ في الارتفاع وينتهي زحل في الهبوط، فيجلوا المريخ فلذلك يشتد الحر، فإذا كان في آخر الصيف وأوان (3) الخريف بدأ زحل في الارتفاع وبدأ المريخ في
الهبوط، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع زحل درجة انحط المريخ درجة حتى ينتهي المريخ في الهبوط وينتهي زحل في الارتفاع، فيجلو زحل وذلك في أول (4) الشتاء وآخر الصيف (5) فلذلك يشتد البرد، وكلما ارتفع هذا هبط هذا وكلما هبط هذا ارتفع هذا، فإذا كان في
الصيف يوم بارد فالفعل في ذلك للقمر، وإذا كان في الشتاء يوم حار فالفعل في ذلك للشمس، هذا تقدير العزيز العليم، وأنا عبد رب العالمين (

الکافی میں ہے عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية کی سند سے ہے کہ سليمان بن خالد نے امام جعفر سے سوال کیا کہ سردی و گرمی کیوں ہوتی ہے ؟ امام نے فرمایا اے ابو ایوب مریخ یہ گرمی کا ستارہ ہے اور زحل یہ
سردی کا ستارہ ہے – پس جب مریخ زحل کے انحطط پر طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو موسم بہار اتا ہے یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ تین ماہ رہتی ہے حتی کہ مریخ الارتفاع و بلند ہوتا ہے اور زحل کا ہبوط و نیچے جانا ختم ہو جاتا ہے
پس مریخ سرخ ہوتا ہے پس یہ گرمی کی شدت ہوتی ہے پھر جب گرمیاں ختم ہوتی ہیں اور موسم سرما شروع ہوتی ہے تو سردی کی شدت ہوتی ہے پس ایک کا ارتفاع ہوتا ہے تو دوسرے کا ہبوط ہوتا ہے اور جب ایک کا ہبوط ہوتا ہے تو دوسرے کا ارتفاع ہوتا ہے – پس جب گرمی میں اگر سردی ہو جائے تو یہ چاند کی بنا پر ہوتی ہے اور سردیوں میں اگر گرم دن آ جائے تو یہ سورج کی وجہ سے ہوتا ہے  اور یہ سب اللہ تعالی کی تدبیر ہے جو عزیز و علیم ہے اور میں عبد رب العالمین ہوں

شیعہ کتاب وسائل الشيعة از محمد بن الحسن الحر العاملي (1033 – 1104 هـ). میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن جميل بن صالح ، عمن أخبره ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : سئل عن النجوم ؟ قال : ما يعلمها إلا أهل بيت من العرب وأهل بيت من الهند
امام جعفر نے فرمایا جب کسی نے علم نجوم پر سوال کیا کہ عرب میں اہل بیت سب سے بڑھ کر علم نجوم کو جانتے ہیں اور ہندوستان میں اہل بیت اس کو جانتے ہیں

معلوم نہیں کہ راوی کا ہندوستان کے اہل بیت سے کیا مراد تھی

بہر حال ان روایات کو یہاں پیش کیا گیا ہے کہ قرن دوم میں علی اور سیارہ زحل کو اپس میں ملایا گیا ہے – ہندوؤں میں زحل کو شنی دیو کہا جاتا ہے جو نحوست کا دیوتا ہے -اسلامی شیعی لٹریچر میں علی کو زحل سے ملایا گیا ہے اور زحل کو خوش بختی کہا گیا ہے
راقم سمجھتا ہے کہ راوی یزید بن قعنب اورابراهيم بن الفضل دونوں کسی شیعی فرقے کے تھے جو غالی تھے – یہ علم نجوم کے دلدادہ اور سیارہ زحل کے اثر کو ماننے والے تھے جن کے مطابق روح زحل کعبہ میں داخل ہو کر علی کی شکل میں
مجسم ہو گئی

شیعہ تفسیر تفسير علي بن إبراهيم میں ہے
والطارق الذي يطرق الأئمة من عند الله مما يحدث بالليل والنهار، وهو الروح الذي مع الأئمة يسددهم
الطارق وہ ہے جو ائمہ کے ساتھ چلتا ہے اللہ کی طرف سے جو دن و رات میں ہوتا ہے اور یہ ایک روح ہے جو ائمہ کے ساتھ ہے ان کی مدد گار

کعبہ کے گرد طواف کو زحل کے گرد دائروں سے علم نجوم والے آج بھی ملاتے ہیں

شیعہ کتاب رسائل المرتضى جلد ٣ ص ١٤٥ از الشريف المرتضى میں ہے

وزعم بعض الناس أن بيت الله الحرام كان بيت زحل
بعض لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ بیت اللہ یہ بیت زحل ہے

زحل سے شیعہ راوی متاثر تھے کہ ایک بصری عمر بن عبدالعزيز البصري أبو حفص بن ابي بشار، المعروف بزحل نے اپنا لقب ہی زحل رکھا ہوا تھا

اختيار معرفة الرجال میں ہے کہ یہ لقب سیارہ زحل پر لیا گیا تھا

زحل عمر بن عبدالعزيز عمربن عبدالعزيز بن أبي بشار بفتح الموحدة وتشديد المعجمة، لقبه زحل بضم الزاي وفتح المهملة واللام، على اسم سابع السيارات، وكنيته أبوحفص

زحل کا تذکرہ بعد میں شیعی مسلم فلکیات دانوں بو علی سینا اور الفارابی کی کتب میں بھی ملتا ہے جس میں افلاک کو علی و فاطمہ سے ملایا گیا ہے

شیعہ عالم رضي الدين أبي القاسم علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس الحسيني المتوفی ٦٦٤ نے باقاعدہ علم نجوم پر کتاب فرج المهموم في تاريخ علماء النجوم لکھی ہے جس میں ائمہ اہل بیت کو علم نجوم کا شوقین ثابت کیا گیا ہے
اور ان شیعہ علماء کا رد کیا گیا ہے وہ علم نجوم کے استعمال سے روک رہے تھے

4 thoughts on “علی ، کعبہ اور زحل

  1. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله –

    آپ کا مذکورہ مضمون میرے لئے دلچسپی سے خالی نہیں- میں کچھ سال پہلے علم نجوم سے گہری دلچسپی رکھتا تھا – لیکن پھر کچھ مذہبی روایات میں اس کی ممانعت کی بنا پر اس علم سے کنارہ کرلیا –

    علم نجوم کی ابتدا اور اس کی تاریخ کے حوالے سے تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اس کی شروعات ہوئی ؟؟-
    کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد سب سے پہلے معروف فلاسفر ارسطو نے ڈالی – کیوں کہ سائنسس کی رو سے چار بنیادی عناصر ہوا ، پانی، مٹی اور آگ سب سے پہلے ارسطو نے دریافت کیے جو بارہ برجوں میں تین تین کے حساب سے برابر تقسیم ہوتے ہیں- اس بنا پر ١٢ برج کی دریافت بھی اسی کی مانی جاتی ہے- ایک موقف یہ بھی ہے کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ علم نجوم سب سے پہلے الله کے ایک پیغمبر حضرت ادریس علیہ سلام کو وحی کے ذریے دیا گیا – اور یہ صرف انہی کی خصوصیت تھی- لیکن بعد میں کچھ شیطانی عناصر نے چوری چھپے یہ علم حاصل کرلیا اور پھر یہ زمانہ میں پھیل گیا- اور اہل بابل نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا- روایت میں ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی حضرت ادریس علیہ سلام کے خطوط کے مطابق خط کھینچتا ہے اس کی پیشنگوئی صحیح ہوتی ہے اور جو اس خط کے مطابق خط نہیں کھینچتا جو ادریس علیہ سلام کھینچتے تھے تو وہ جھوٹی ثابت ہوتی ہے (واللہ اعلم

    بعد ازاں احادیث نبوی میں اس علم کو سیکھنے اور سکھانے کی کلّی ممانعت بیان کردی گئی

    آپ کے یہ بات کافی صحیح اور معانی خیز ہے کہ شیعہ راوی ہر دور میں علم نجوم اور زحل سے کافی متاثر تھے علم نجوم پڑھنے والے جانتے ہیں کہ سیارہ زحل علم نجوم میں ایک ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے- یہ برج جدی اور اور برج دلو کا حاکم سیارہ ہے- شہرہ آفاق مصری ماہر علم الافلکیات و علم نجوم ( پتولمے ٨٠ عیسوی ) نے اپنے مسودوں میں سولر سسٹم میں زحل کی حرکت اور زحل کی رجعت کو خاص اہمیت دی ہے اور معاشرے اور انسانی زندگی کے ادوار پر اس کی رجعت کی وجہ سے نحس اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے- بعد میں آنے والے مسلم علم فلکیات کے ماہرین جن کا آپ نے بھی ذکر کیا ہے- یعنی ابو علی سینا اور الفارابی وغیرہ اور ایک اور نام جو علم نجوم میں خاص مرتبہ رکھتا ہے (ابو ریحان البیرونی) جو کہ شیعہ تھا – انہوں نے پتولمے کے اصول ضوابط کو علم نجوم میں اہمیت دی- لیکن ساتھ ہی ان اصولوں و ضوابط کو اپنے مذہب میں بھی گھسیٹ لیا – جیسا کہ معلوم ہے کہ “عقیدہ رجعت” اہل تشعیوں کا بنیادی عقیدہ ہے – اور چونکہ علم نجوم میں زحل کی رجعت خاص اہمیت رکھتی ہے لہذا علی کو غالباً “زحل” بنا کر اس لئے پیش کیا گیا تاکہ مخالفین کو معلوم ہو جائے کہ علی دوبارہ اس دنیا میں آئیںگے اور اپنے مخالفین کے لئے نحس ثابت ہونگے -(واللہ اعلم

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      معلومات کا شکریہ
      زحل علی کیسے ہیں کسی شیعہ نے شرح نہیں کی- ممکن ہے یہ سبائییوں کا کوئی ذیلی فرقہ ہوں

      مجھے تو فاطمة الزهراء اور الزهرة
      Venus
      میں بھی کوئی کنکشن لگتا ہے کیونکہ الفارابی اور بو علی سینا نے اپنی کتب میں سیاروں کے افلاک کو ان سے جوڑا ہے

      علم نجوم اور جادو کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور مصری اور ان سے قبل اہرام مصر سب اسی کی باقیات ہیں
      لہذا میرے نزدیک ارسطو تو بہت بعد کا ہے وہ بھی ناقل ہے موجد نہیں ہے

      فراعنہ مصر نے کئی ہزار سال کی ستاروں کی گردش کو جان لیا تھا کہ کس طرح قطب شمالی بدلتا ہے
      https://www.islamic-belief.net/سامری-کا-مذھب/
      جیسا دندرہ کے مندر میں نقش ہے

      ظاہر ہے انسان اس کو ریکارڈ کر رہے تھے یا یہ علم ابلیس نے دیا
      ——————

      رمل پر آج بلاگ بنایا ہے
      https://www.islamic-belief.net/لکیریں-،-علم-رمل-اور-محدثین/

      عرب راویوں میں کئی قسم کے ساحر تھے کچھ رمل کے شوقین نکل رہے ہیں کچھ ہاروت و ماروت کے قصے سنا رہے تھے
      یہ کوئی محض قصے نہیں تھے ان کا مقصد کو مدعا پر بات علماء نہیں کرتے جبکہ تحقیق اس پر ہوئی چاہیے کہ ان روایات کا مقصد کیا ہے
      راوی ضعیف کہہ کر بات ختم نہیں ہو سکتی

      Reply
      1. jawad

        السلام و علیکم و رحمت الله

        جی میں نے اصل میں آپ کا مذکورہ مضمون پڑھ کر ہی اپنا خیال پیش کیا کہ – “علی کو غالباً “زحل” بنا کر اس لئے پیش کیا گیا تاکہ مخالفین کو معلوم ہو جائے کہ علی دوبارہ اس دنیا میں آئیںگے اور اپنے مخالفین کے لئے نحس ثابت ہونگے

        زحل کی رجعت اور اس کا نحس اثرات پر علم نجوم کے ماہرین نے الگ سے مضامین و کتابیں لکھی ہیں – ان کے نزدیک باقی آٹھ یا پانچ سیاروں کے انسانی زندگی اور معاشرے پر اتنے گہرے و دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوتے جتنا کہ اکیلے زحل کے ہیں- ہندووں کی ایجاد کردہ آسٹرولجی میں بھی “زحل کی ساڑھ ستی” مشھور ہے- یعنی انسانی زندگی میں ساڑھے سات سال کا برا وقت زحل کی رجعت کی بنا پر ہوتا ہے وغیرہ

        آپ کے اس تھریڈ سے کافی معلومات ملیں کہ علم نجوم بہت قدیم ہے

        بہر حال میرے نزدیک یہ مصریوں اور فرعونوں کے دور سے بھی بہت پہلے کا ہے- اہل بابل اصلاً اس علم نجوم کے موجد تھے- اور بادشاہ نمرود کے زمانے سے یہ جادو اور علم نجوم چلا آرہا ہے- ہاروت و ماروت فرشتے بابل کے باشندوں پر آزمائش کے لئے اتارے گئے تھے- اہل بابل اپنے ١٢ مہینوں کے نام اپنے ١٢ دیوی دیوتاؤں پر پکارتے رہے – یہ ١٢ دیویاں وہی ہیں جن کی تصاویر جنتری کی کتابوں میں ١٢ برجوں پر بنی ہوئی ہیں- تہذیب بابل و نینوا میں نمرود کو شیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے- بابل کی تہذیب میں اس کا مجسمہ ایک شیر کی صورت میں دکھایا گیا ہے جس کا دھڑ سانڈ کا ہے- اس کا تعلق برج اسد سے ہے- جو علم نجوم میں بہادری شجاعت اور بادشاہت کا سمبل سمجھا جاتا ہے -نمرود کا خاص الخاص درباری تارح (قرآن میں آذر کہا گیا ہے) نہ صرف بت تراش تھا- بلکہ علم نجوم و ہندسہ کا ماہر عالم تھا- یہ نمرود کو آنے والے حوادث سے خبردار کرتا تھا- لیکن جانتا نہیں تھا کہ اس کے اپنے گھر میں نمرود کا دشمن موجود ہے – یعنی اس کا سگا بیٹا ابراہیم علیہ سلام – اہل بابل کو ستاروں چاند سورج سے کافی عقیدت تھی- یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اہل بابل ستاروں و سورج سے خاص شغف رکھتے تھے- ان کے نزدیک سورج ایک دیوتا کی حیثیت رکھتا تھا

        مصریوں نے بہت بعد میں اس علم کو سیکھا اس اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ جادو اور علم نجوم یا علم جفر (جس کو شیعوں نے امام جعفر سے منسوب کیا ہوا ہے) – ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے

        جیسا کہ آپ کہ تھریڈ میں اس کی تفصیل موجود ہے

        https://www.islamic-belief.net/%D8%B3%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%B0%DA%BE%D8%A8/

        میرے نزدیک اس علم کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے- لیکن اس پر کامل یقین کرلینا گمراہی ہے

        آپ نے فرمایا کہ

        ++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
        آجکل کا دور

        Age of Aquarius

        کہا جاتا ہے یعنی برج دلو کا دور جس کا برجوں کے پجاری بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے اور سن ١٩٦٩ میں ایک گانے میں اس کا ذکر ہے –

        +++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++

        برج دلو کا عنصر “ہوا یعنی ایئر” ہے – ١٩٦٩ میں انسان پہلی مرتبہ چاند پر اترا – سیٹلائٹ ، ہوائی سفر، ٹیلی کمیونیکشن ، یہ تمام ایجادات دور حاضر کی ہیں – ان سب کا تعلق ایئر سے ہے – یعنی ہوائی ہے

        لیکن چونکہ علم نجوم ایک تکوینی علم ہے لہذا اس کی کھوج سے امّت محمّدیہ کو منع کیا گیا ہے – اس پر دسترس انسانی بس سے باہر ہے

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          و علیکم السلام و رحمہ الله

          جی درست کہا آپ نے

          Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *