احادیث میں اتا ہے عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد جب مدینہ پہنچیں گے تو قبر نبوی پر آئیں گے
امام حاکم اور امام الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – مستدرک الحاکم کی سند ہے
أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»
ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حاکم و عادل ہو کر ہبوط کریں گے ایک عدل والے امام ہوں گے اور فج (فَجّ الرَّوْحَاء ) میں جا رکیں گے وہاں سے حج و عمرہ کریں گے یا اس کے درمیان سے اور پھر میری قبر تک آئیں گے جب سلام کہیں گے میں جواب دوں گا- ابو ہریرہ نے کہا اے بھتیجے جب ان کو دیکھو کہو ابوہریرہ اپ کو سلام کہتے ہیں – حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح سند سے ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی اس متن سے
یہ روایت ایک دوسرے طرق سے مسند ابی یعلی میں بھی ہے
قَالَ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ: ثنأ احمد بْنُ عِيسَى ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عن أبي صخر أن سعيداً المقبري أخبره أنه سمع أباهريرة يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لينزلن عيسى ابن مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين ولتذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا محمد لأُجِيبنَّه
ابو ہریرہ نے کہا میں نے رسول الله سے سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کا نفس ہے عیسیٰ ضرور نازل ہوں گے امام عادل حاکم بن کر، صلیب توڑ دیں گے، سور کو قتل کریں گے اور اپس کی کدورت ختم کریں گے اور ان پر مال پیش ہو گا نہ قبول کریں گے پھر جب میری قبر پر کھڑے ہوں گے کہیں گے اے محمد – میں جواب دوں گا
الهيثمي مجمع الزوائد میں کہتے ہیں
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
اس کے رجال صحیح کے ہیں
مسند ابو یعلی کے محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں إسناده صحيح
کتاب أشراط الساعة وذهاب الأخيار وبقاء الأشرار از عبد الملك بن حَبِيب بن حبيب بن سليمان بن هارون السلمي الإلبيري القرطبي، أبو مروان (المتوفى: 238هـ) میں اس کا تیسرا طرق ہے
قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ الْمَاجِشُونِ وَغَيْرُهُ عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَمُرَّنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ, حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا بِالْمَدِينَةِ وَلَيَقِفَنَّ عَلَى قَبْرِي وَلَيَقُولَنَّ يَا مُحَمَّدُ، فَأُجِيبُهُ وَلَيُسَلِّمَنَّ عَلَيَّ فَأَرُدُّ عَلَيْهِ السَّلامَ.
وَحَدَّثَنِيهِ أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ, عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
المغيرة بن حَكيم الصَّنْعانيُّ الأبناويُّ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حج و عمرہ پر نکلیں گے مدینہ سے وہ میری قبر پر رکیں گے اور بولیں گے اے محمد ، پس میں جواب دوں گا اور وہ سلام کہیں گے تو میں جوابا ان کو سلام کہوں گا
اور اس کو َاصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے بھی روایت کیا گیا ہے
کتاب المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ وَابْنُ بُكَيْرٍ ومُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ عَنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ليسهلنّ ابن مريم بِفَجِّ [1] الرَّوْحَاءِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيُثَنِّيهِمَا
حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے خبر دی کہ ابو ہریرہ سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے ابن مریم فَجِّ الرَّوْحَاءِ سے حج و عمرہ کریں گے
یہ صحیح مسلم میں بھی ہے یہ اور بات ہے کہ راوی خود کہتا ہے اس کو معلوم نہیں یہ کلام حدیث نبوی ہے یا ابو ہریرہ کا اپنا کلام ہے – تاریخ دمشق اور مسند احمد میں ہے
فزعم حنظلة أن أبا هريرة قال يؤمن به قبل موت عيسى فلا أدري هذا كله في حديث النبي (صلى الله عليه وسلم) أو شئ قاله أبو هريرة
حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے دعوی کیا کہ ابو ہریرہ نے کہا یہ سب عیسیٰ کی موت سے قبل ایمان لائیں گے پس مجھے معلوم نہیں یہ سب حدیث النبی صلی الله علیہ وسلم تھی یا ابو ہریرہ نے خود کوئی چیز کہی
البانی نے اس روایت کو قبری کے الفاظ کے ساتھ رد کیا ہے لیکن جو علتین بیان کی ہیں وہ ہر طرق میں نہیں- اوپر جو طرق ہیں ان سے معلوم ہوا کہ روایت میں عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ کا تفرد نہیں ہے جس کو مجہول کہا جاتا ہے – اس میں ابو صخر حمید بن زیاد کا تفرد بھی نہیں جس کو ضعیف کہا جاتا ہے اور سعید بن ابی سعید المقبری کا بھی تفرد نہیں جس کو آخری عمر میں مختلط کہا گیا ہے اور ابن اسحٰق کا تفرد بھی نہیں جس کو مدلس کہا گیا ہے – اس میں ایک راوی کا تفرد ہی نہیں چار طرق ہیں جن میں لوگ الگ الگ ہیں – سوال ہے کہ اس روایت کا مقصد کیا ہے ؟ راقم کے نزدیک روایت کا مقصد یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کا معجزہ دکھایا گیا ہے چونکہ مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ قبر النبی پر آ کر کہیں گے اے محمد تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم زندہ ہو جائیں گے جواب دیں گے – اغلبا یہ کعب احبار کا کلام ہے جو ابو ہریرہ نے بیان کیا اور لوگ حدیث سمجھے
کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں
احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
ابن قتیبہ المعارف میں ذکر کرتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُهُ: قَالَ خَلِيلِي، وَسَمِعْتُ خَلِيلِي”. يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَأَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: “مَتَى كَانَ خَلِيلَكَ”؟ “. …. وَقَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا
ابو ہریرہ کا قول میرے دوست نے کہا یا میں نے اپنے دوست سے سنا یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم سے – تو بے شک علی نے ابو ہریرہ سے کہا تم کب سے رسول اللہ کے دوست بن گئے؟
اور رسول الله کا تو قول ہے کہ میں کسی کو اس امت میں خلیل کرتا تو ابو بکر کو کرتا
بہر حال سابقوں اولون کو ابو ہریرہ کا بہت روایت کرنا پسند نہ تھا
نعمان الوسی میں لکھتے ہیں
لا يبعد أن يكون عليه السّلام قد علم في السماء بعضا ووكل إلى الاجتهاد والأخذ من الكتاب والسنّة في بعض آخر، وقيل: إنه عليه السّلام يأخذ الأحكام من نبينا صلّى الله عليه وسلم شفاها بعد نزوله وهو في قبره الشريف عليه الصلاة والسّلام، وأيد
بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» .
وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة،
اور یہ بعید نہیں جھ عیسیٰ علیہ السلام کو اسمان میں شریعت محمدی کا کچھ علم دیا جائے … اور کہا جاتا ہے کہ وہ احکام اخذ کریں گے جب وہ قبر النبی پر آئیں گے سلام کہنے جیسا ابو یعلی میں حدیث ہے … اور یہ جائز ہے کہ ان کا روجانی اجتماع ہو جیسا اس امت کے بہت سے کاملین نے جاگتے میں رسول الله کو دیکھا ہے
آپ نے بہت اچھا تھریڈ بنایا – اور اچھی معلومات دی ہیں
امام ذھبی حضرت نے یہ بھی کہا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی الله اور حضرت كَعْبٍ کو یہ بھی کہا – کیا اس کی وجہ یہی تھی – کیوں کہ آپ نے اپنے دوسرے تھریڈز ان کی کئی احادیث کا رد کیا ہے
سَعِيْدُ بنُ عَبْدِ العَزِيْزِ: عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنِ السَّائِبِ بنِ يَزِيْدَ، سَمِعَ عُمَرَ يَقُوْلُ لأَبِي هُرَيْرَةَ
لَتَتْرُكَنَّ الحَدِيْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَوْ لأُلْحِقَنَّكَ بِأَرْضِ دَوْسٍ.
وَقَالَ لِكَعْبٍ: لَتَتْرُكَنَّ الحَدِيْثَ، أَوْ لأُلْحِقَنَّكَ بِأَرْضِ القِرَدَةِ
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-2580
—-
ابن باز رحم الله بھی یہ مانتے ہیں کہ صحیح مسلم میں اسرائیلی روایات ہیں اور وہ ایک مثال بھی پیش کر رہے ہیں
ومما أخذ على مسلم – رحمه الله – روایة حدیث أبی هریرة: أن الله خلق التربة یوم السبت. . . الحدیث. والصواب أن بعض رواته وهم برفعه للنبی – صلى الله علیه وسلم – وإنما هو من روایة أبی هریرة – رضی الله عنه – عن کعب الأحبار؛ لأن الآیات القرآنیة والأحادیث القرآنیة الصحیحة کلها قد دلت على أن الله سبحانه قد خلق السماوات والأرض وما بینهما فی ستة أیام أولها یوم الأحد وآخرها یوم الجمعة؛ وبذلک علم أهل العلم غلط من روى عن النبی – صلى الله علیه وسلم – أن الله خلق التربة یوم السبت، وغلط کعب الأحبار ومن قال بقوله فی ذلک، وإنما ذلک من الإسرائیلیات الباطلة . والله ولي التوفيق.
مجموع فتاوی ومقالات متنوعة
لنک
http://www.binbaz.org.sa/fatawa/3321
بن باز کہتے ہیں کہ
وإنما هو من روایة أبی هریرة – رضی الله عنه – عن کعب الأحبار
لیکن جب ہم صحیح مسلم کی حدیث دیکھتے ہیں تو اس میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله کعب الأحبار سے نہیں بلکہ ڈائریکٹ حضور صلی الله علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں
صحيح مسلم: كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ (بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ) صحیح مسلم: کتاب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام (باب: مخلوقات(کی تخلیق) کی ابتدا اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق)
7054 .
حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ وَغَيْرُهُمْ عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ
حکم : صحیح 7054
سریج بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے مجھے حدیث بیان کی،دونوں نے کہا:ہمیں حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی،انھوں نے کہا:ابن جریج نے کہا:مجھے اسماعیل بن امیہ نے ایوب بن خالد سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: “اللہ عزوجل نے مٹی(زمین) کو ہفتے کےدن پیداکیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کےدن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور اس میں چوپایوں کو جمعرات کے دن پھیلادیا اور سب مخلوقات کے آخر میں آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ(کے دن کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔” جلودی نے ہمیں حدیث بیان کی،کہا:ہمیں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم نے حدیث بیان کی،کہا:ہمیں حسین بن علی بسطامی ،سہل بن عمار،حفص کے نواسے ابراہیم اور دوسروں نے حجاج سے یہی حدیث بیان کی۔
لنک
http://mohaddis.com/View/Muslim/7054
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/Sahih-Muslim-fawad-.php?submit=Go&hadith_number_fawad=2789
http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-8300
کعب الأحبار کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله بھی اسرائیلی روایات بیان کرتے تھے
آپ کے اور میرے نزدیک شاہد یہ اسرائیلی روایت نہ ہو لیکن علماء نے اپنا شک ضرور ظاہر کیا ہے
لیکن یہ ضرور ہے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کے کلام میں کعب احبار کے کلام اور حدیث نبوی گڈمڈ ہوئی ہیں جن کی مثالیں موجود ہیں- آپ نے کئی مثالیں دی ہیں
https://www.islamic-belief.net/q-a/%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB/
قبر نبوی پر عیسی علیہ السلام کا آ کر سلام کہنا یا یا محمد کہنا معجزہ ہو گا یہی آپکی مراد ہے؟؟؟
نہیں میری یہ مراد ہرگز نہیں
یہ روایت جن لوگوں نے بیان کی اغلبا یہ ان کی مراد ہے کہ رسول الله زندہ ہو جائیں گے
میرے نزدیک یہ کلام کسی اور کا ہے حدیث نہیں ہے لیکن جب ابو ہریرہ سے اس کو لوگوں نے سنا وہ اس کو حدیث نبوی سمجھ بیٹھے
میرے نزدیک یہ روایت جس کا بعض حصہ صحیحین میں بھی ہے یہ پوری روایت عجیب و غریب ہے
اس پر کتاب نزول مسیح میں بحث ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/روایات-مسیح.pdf
باب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایات دیکھیں
عیسیٰ علیہ السلام حاکم و عادل بن کر آئیں گے یعنی عیسیٰ حاکم مسیح ہوں گے یہ تصور نصرانی ہے حاکم اسلام میں قریشی ہوتا ہے – پھر وہ وقت لگا دیں ہے بندروں و سور کے قتل میں ؟ کیوں اس کی وجہ ہے جس پر تفصیل سے کتاب میں بحث ہے یہ کلام ابو ہریرہ ہے جو بائبل کی کتب پر مبنی ہے حدیث نبوی نہیں ہے
السلام و علیکم و رحمت الله
آپ کی بات صحیح ہے کہ
یہ روایت جن لوگوں نے بیان کی اغلبا یہ ان کی مراد ہے کہ رسول الله زندہ ہو جائیں گے
ایسی روایات جو عقائد سے براہ راست متصادم ہوں ان پر اصول جرح و تعدیل سے بحث کرنا میرے خیال میں فضول اور وقت کا ضیاع ہے- حیرت ہے کہ محدثین و محققین کو اتنا بھی نہیں پتا تھا کہ عیسیٰ علیہ سلام کا قبر نبوی پر پہنچ کر “یا محمّد ” کہنا اور سلام بھیجنا شرک ہے – کیوں کہ ایسا وہی کر سکتا ہے جو نبی کریم کو قبر میں زندہ حاضر و ناظر مانتا ہے – جیسا کہ دور حاضر میں اکثر دیوبندیوں اور بریلویوں وغیرہ کا عقیدہ ہے اور اب اہل حدیث میں بھی کچھ علما ء (ابن تیمیہ ) کی تقلید میں ایسا عقیدہ بنا رہے ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں-اور امّت کا سلام سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں وغیرہ – جب کہ سلام کا جواب دینا ایک “عمل ” ہے- موت کے بعد تو انسان چاہے نبی ہو یا عام – اس کے تمام ا عمال منقطع ہو جاتے ہیں-اور ہر ایک فانی ہے سوائے الله رب العزت کی ذات کے- کیا قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ اے نبی (صل الله علیہ و آ له وسلم) آپ کو بھی مرنا جیسا ان (کفار و منافقین ) کو مرنا ہے (سوره الزمر)- کیا محدثین نے اس پر غور نہیں کیا ؟؟
وعیلکم السلام و رحمہ الله
محدثین نے ان روایات کو لکھا تو ہے لیکن ان میں ہر ایک روایت پر آراء کا اظہار نہیں کیا اس وجہ سے عقیدے کا علم نہیں ہو پاتا
بعض کے عقیدے میں خرابیاں ملتی ہیں مثلا امام احمد کا عود روح کا عقیدہ تھا وسیلہ کا عقیدہ تھا فرشتوں کو پکارنے کا عقیدہ تھا تعویذ پر عقیدہ تھا عرش عظیم پر مخلوق کو بٹھائے جانے کا عقیدہ تھا جو ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کم پڑھتے تھے روایات میں مست تھے
امام بخاری کا عقیدہ ملتا ہے کہ چوپائے عذاب قبر سن رہے ہیں جبکہ یہ عالم غیب ہے
افسوس اس پر لوگ کلام نہیں کرتے لیکن انہی محدثین کی وجہ سے بد عقیدہ فرقوں میں پھیلا ہے اور پھیل رہا ہے
الله ہم کو صحیح عقیدہ سمجھائے اور کتاب الله کو سمجھنے کی توفیق دے امین
جزاک الله – صحیح فرمایا
آمین